ڈھائی منٹ
ڈھائی منٹ
Mar 15, 2018
دیدبان شمارہ ۶
افسانہ : ڈھائی منٹ
تحریر: ہاجرہ ریحان
’ ہمارے کنے تو ہر مسلئے کے دو ہی سا لو شن ہوتے ہیں استانی جی . . . ‘
اُس نے پان بھرے منہ سے بھاری آواز میں بتایا . . . اور ساتھ کے ساتھ دو چھوٹے سائز کی شیشے کی بوتلیں جیب سے نکال کر میری آنکھوں کے آگے لہرانی شروع کر دیں . . .
’ اب میں تنے اکسپریمنٹ کر کے دکھاتا ہوں . . . ایسے ہی تو بچے سیکھے ہیں . . . کیوں . . . ؟ ‘
اُس نے بھونڈے پن سے اپنے دو ساتھیوں کی طرف پلٹ کر دیکھا تو وہ سر ہلانے لگے . . . اُن دونوں میں سے ایک نے آگے بڑھ کر میرے ایک جوتے کو اپنے جوتے کی نوک سے سرکا کر آگے بڑھا کر ’ باس ‘ کے قریب کر دیا . . . میری عادت تھی کہ میں کلاس میں جاتے کے ساتھ ہی اپنی چپل . . . سینڈل یا جوتے جو بھی میرے پیر میں ہوتا میز کے نیچے اُتار کر کرسی پر پالتی مار کر بیٹھ جاتی تھی اور اپنے اسٹوڈنٹ کو بھی اجازت دے رکھی تھی کہ وہ چاہیں تو ایسا ہی کچھ کر سکتے ہیں . . . شروع میں میری دیکھا دیکھی اکثر جوتے موزے اُتار کر کرسی کے نیچے کھسکا کر کرسی پر چڑھ بیٹھتے تھے مگر پھر میرا پیریڈ ختم ہونے پر اُن کو دوبارہ سے جوتے موزے پہننے پڑتے اور اس وجہ سے میرے بعد آنے والی ٹیچر کی ناراضی کی بنا پر تھوڑے ہی دنوں میں سب ویسے ہی ٹھسے بیٹھے رہتے اور میں مزے میں کرسی پر چڑھی اُن کو لیکچر دیتی رہتی تھی . . . لہٰذا اُس کے اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ اچانک یوں نمودار ہونے پر میں گھبرا کر جو کرسی سے اُٹھ کر اُس کی طرف لپکی تھی تو جوتے میں پیر ڈالنا بھول ہی گئی تھی . . .
اُس نے ایک بوتل کا منہ کھولا اور اُس میں سے اُڑتی باہر لپکتی بھاپ کو دیکھ کر ہی مجھے اندازہ ہو گیا تھا کے وہ کیا شئے ہے . . . اُس نے میرے جوتے پر بوتل کو خا لی کر دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے میرا جوتا کسی مکڑی کے جالے کی طرح جس پر پانی پھینکا جائے سمٹ گیا . . . تیزاب اتنا تیز تھا کے جوتے کو لئے کھدرے فرش کے اندر تک دھنس گیا . . . اُسی اثناء میں میر ا دوسرا جوتا بھی حاضر کر دیا گیا . . . اُس نے دوسری بوتل کھول کر اُس پر چھڑکاؤ کیا اور پھر جیب سے ماچس کی ڈبیا نکال کر تیلی جلا کر جوتے پر پھینک دیا . . . پیٹرول جھٹ آگ پکڑ کر غضب ناک طریقے سے جوتے کو جلانے لگا . . . سارے طلبہ و طالبات جو نویں جماعت کے طالب علم تھے مگر میری نظر میں ابھی بھی بچے ہی تھے . . . دم بخود تماشہ دیکھ رہے تھے . . . کیونکہ لڑکیاں آگے بیٹھا کرتی تھیں تو کچھ کی آنکھوں میں ڈر اور کچھ کی آنکھوں میں آنسو صاف دکھائی دے رہے تھے . . . میں اپنے جوتوں کا یہ حال دیکھ کر خود بھی شاید پیلی پڑ چکی تھی . . . اور یہی بات اُس کو اور بھی مسرور کر گئی تھی . . . وہ چند لمحے مجھے بغور دیکھتا رہا اور پھر یہ کہتا ہوا چل پڑا کے . . . ’ امید ہے کے یہ سبق یاد رہے گا . . . ‘
میں اُس کے پیچھے پیچھے ننگے پیر کلاس سے باہر نکل آئی . . . دیکھا تو اسکول کی پرنسپل اور چپراسی سمیت دو چار ٹیچر ز بھی کھڑی تھیں . . . ہمیں باہر آتا دیکھ کر سب ادھر اُدھر بکھرنے کی کرنے لگے مگر کوریڈور اتنا وسیع نہیں تھا لہذا نظروں سے بچنے کی کوشش ناکام ہی تھی . . . وہ سب پر ایک قہر انداز نظر ڈالتا تیز قدموں سے چلتا کو ریڈور سے نکل گیا . . . پرنسپل ، اُس کے نظروں سے اوجھل ہوتے مجھے بازو سے پکڑ کر تیزی سے اپنے کمرے کی طرف چل پڑیں . . . میرے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا . . . میں کلاس میں بچوں کو دلاسہ دینا چاہتی تھی مگر مجھے ابھی خود کا ہوش نہیں تھا . . . سچ بات یہ تھی کے میں خود بھی حد سے زیادہ سہم چکی تھی . . .
وہ بوتلیں مجھ پر . . . میرے جسم پر . . . میرے چہرے پر بھی اُنڈیل سکتا تھا . . . اور اُسے یہاں روکنے والا تھا ہی کون . . .
’ پلیز . . . کل سے آپ نہیں آئیں گی . . . یہ میری غلطی سمجھیں کے میں نے آپ سے مدد مانگی مگر میں کسی بھی طرح اور رسک نہیں لینا چاہتی . . . آج حد ہو چکی ہے . . . اب آپ ابھی گھر جائیں اور دوبارہ یہاں اس اسکول میں تشریف نہ لائیں . . . ‘
پرنسپل نے سخت تو کبھی التجائی لہجے میں مجھ سے درخواست کی . . . میں ابھی تک دم بخود تھی . . . لہذا اُٹھ کر ننگے پیر اسٹاف روم میں آ گئی . . . حامد ( چپراسی ) میرے لئے جھٹ سے ٹھنڈا پانی لے آیا اور کسی ٹیچر نے مجھے نرمی سے کندھوں سے پکڑ کر صوفے پر بٹھا دیا تھا . . . مجھے پتہ بھی نہیں چلا کے میں کب نہ کب منہ بسور کر باقاعدہ آنسوں سے مگر بے آواز رونے لگی تھی . . . کسی نے میرے ہاتھ میں دو چار ٹشو تھما د یئے اور پھر سب میرے ارد گرد سے اچانک غائب ہو گئے . . . مجھے اسی طرح بیٹھے بیٹھے پتہ نہیں کتنا عرصہ گزرا بہرحال چھٹی ہو چکی تھی اور ایک دو کر کے اسٹاف روم تقریباً خالی ہو چکا تھا . . . میں بھی کسی چابی بھرے کھلونے کی طرح اُٹھ کر الماری سے اپنا بیگ نکال کر اسٹاف روم سے نکلی ہی تھی کے میرے ننگے پیر ایک ڈبے سے ٹکرائے . . . وہ جوتے کا ڈبہ تھا جو یقیناً میرے لئے ہی رکھا گیا تھا میں نے جھک کر اُسے ہاتھوں میں اُٹھائے بغیر زمین پر پڑے پڑے کھول کر دیکھا تو اُس میں میرے ہی سائز کی استعمال شدہ چپل پڑی تھیں . . . اور مجھے پہلی بار یاد آیا کے میرے پاؤں ابھی تک خالی تھے . . . میں نے چپل پہن کر سر اُٹھایا تو دیکھا سامنے صالحہ کھڑی تھی . . . وہ اُسی طرح پورے برقعے میں تھی اور ہمیشہ کی طرح صرف اُس کی آنکھیں بات کر رہی تھیں . . . مجھے اپنی اس طلبہ سے بڑا پیار تھا . . . مگر وہ زرا جھجھکی ہوئی رہتی اور قریب آ کر بات کرنے یا کام کی بات کے علاوہ کسی بھی قسم کی بات کرنے سے کتراتی تھی . . . اور کیونکہ میں ایک عام ٹیچر نہیں تھی لہذا میرا ہمیشہ دل ہوتا کے صالحہ سے کچھ دیر بیٹھ کر گپ لگا لیا کروں . . . اُس کی فلسفیانہ سوچ اور دور اندیش نظریوں کو سُن کر میں اکثر پریشان ہو جا تی تھی . . . وہ اتنی عمر کی تھی نہیں جتنی اُس نے خود پر طاری کر لی تھی . . . بقول کچھ ہم جماعتوں کے وہ اپنے گھر کی بڑی تھی . . . چار چھوٹے بھائی بہنوں کے ساتھ اپنے سبزی بیچنے والے باپ کی بھی دیکھ بھال کرتی تھی . . . ماں کا کئی سال پہلے انتقال ہو گیا تھا . . . سوتیلی ماں تھی مگر وہ صرف آرام کرتی تھی . . . میں چپل پہن کر احسان مند سی ہو کر اُس کی طرف بڑھی . . . وہ دو قدم پیچھے ہٹ گئی . . . یعنی جو حدود اُس نے اپنے ارد گرد قائم کر رکھی تھیں میں اُس کو توڑنے والی تھی . . . میں بھی اپنی جگہ جم گئی . . . جس پر اُس کی آنکھوں کے اظہار سے پتہ چلتا تھا کہ وہ مسکرا گئی تھی . . . پھر اُس نے دھیمے لہجے میں مجھ سے کہا . . .
’ سب ٹھیک ہو جائے گا . . . اب آپ سکون سے گھر جائیں اور کچھ دن چھٹیاں منا لیں . . . آپ کو اس کی ضرورت ہے . . . ‘
میں بھی تھک گئی تھی اور ابھی میرا دل نہیں تھا کے کسی سے بھی کوئی بھی بات کروں لہذا میں اُس کو وہیں کھڑا چھوڑ کر اسکول کے دروازے کی طرف بڑھ گئی . . .
مجھے اس اسکول میں پڑھاتے یہ چوتھا مہینہ تھا . . . میں کوئی باقاعدہ ٹیچر نہیں تھی نہ ہی مجھے یہاں بطور ٹیچر کے رکھا گیا تھا یہ ہمارے محلے کا گورنمنٹ اسکول تھا اور ایک دن جب میں اپنے کچھ کاغذات کو اٹسٹ کروانے یہاں کی پرنسپل کے پاس آئی تھی تو انہوں نے بتایا تھا کے ٹیچر آتے ہی نہیں اور بچارے بچے کلاس میں بیٹھے مکھیاں مارتے رہتے ہیں . . . جس کی وجہ سے جو ایک دو دیانت دار ٹیچر ہیں اُن کے اوپر ہی پورے اسکول کا بوجھ تھا مگر وہ بھی کتنی کلاسیں لیتے . . . میں اُس زمانے میں ایک انٹرنیشنل آرگنائزیشن میں نوکری کرتی تھی لہذا میرے ذہن میں بھی یہ بات نہ آئی کے میں اپنی خدمات پیش کر دوں . . . مگر پھر میں نے اونچی دکان اور پھیکے پکوان کی مصداق پریشان ہو کر نوکری چھوڑ دی اور پہلا خیال جو مجھے آیا وہ یہی تھا کے میں اس اسکول میں کم از کم اُس وقت تک پڑھا دوں جب تک میں کوئی دوسری نوکری تلاش نہ کر لوں . . . مگر پڑھانے میں بچوں کے ساتھ مجھے کچھ ایسی اُنسیت ہو گئی کے میں نے چار مہینے گزر جانے کے باوجود بھی اسکول سے چھٹکارا حاصل کرنے کا ارادہ ختم ہی کر دیا تھا . . . نہ مجھے تنخواہ ملتی تھی . . . نہ ہی میں کسی امتحان میں کلاس وغیرہ میں جا سکتی تھی . . . مگر پھر بھی میں اسکول میں بہت اچھے نام سے پہنچان کرا چکی تھی اور ہر طلب علم مجھے دیکھتے کے ساتھ ہی ادب سے سلام دعا کر لیتا تھا . . . مجھے بھی یہ سب اب اچھا لگنے لگا تھا زندگی میں پہلی بار اپنی زندگی کا کوئی مقصد کوئی جواز مل گیا تھا . . . مگر پھر کسی ولن کی طرح ’ باس ‘ آن ٹپکا . . .
شروع کے چند دنوں میں ہی مجھے پتہ چل گیا تھا کے آدھے سے زیادہ اسکول پر قبضہ ہے . . . ایسی کلاسیں جن کی چھت ٹپکتی تھی بس وہی بچوں کے لئے رہ گئی تھیں باقی تمام مضبوط چھت والی کلاسیں اور اسٹور روم یہاں تک کے لائبریری سب کے سب اُس کے قبضے میں تھے جو علاقے میں ’ باس ‘ کے نام سے مشہور تھا . . . اُس نے چند ایک گینڈے نما نوکر رکھے ہوئے تھے . . . تھانے میں ہفتہ وار بھتہ دیتا تھا اور اُن کے ہی بل بوتے پر وہ محلے میں مان مانی کرتا تھا . . . اسکول کی کلاسسز جو باس نے قبضہ کر رکھی تھیں اُن کو اُس نے مختلف اداروں اور لوگوں کو کرائے پر دے رکھا تھا . . . کسی میں کسی سُپر اسٹور کا مال لا کر رکھا جاتا تھا . . . کسی میں شاد ی بیاہ میں ٹینٹ اور کھانے لگانے والے اپنے ٹینٹ ا ور پردے کرسیاں لا کر ڈھیر کرتے تھے اور کسی میں تین چار دوسرے شہروں سے آئے ہوئے چور اچکے ٹائپ کے مرد قیام پزیر تھے . . . ان سب میں مشترک بات یہ تھی کے یہ اسکول کھولنے سے پہلے اور بند ہونے کے بعد ہی اسکول میں دندناتے پھرتے تھے . . . لہذا کسی کو بھی ان کر ایہ داروں کے کوالف کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا . . . ماجد کچھ کچھ جانتا تھا مگر زبان کھولنے سے ڈرتا تھا . . . میں نے جب دیکھا کے ایک ہی کمرے میں دو چار جماعتوں کے بچے بیٹھ کر سبق لیتے ہیں تو پرنسپل کو غیرت دلائی کے اپنا اسکول ان غنڈوں سے خالی کروائیں . . . وہ بچاری کہاں ان سب میں شامل تھیں لہذا وہ تو بار بار اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کا واسطہ دے کر دور ہو چکی تھیں . . .
میں نے پھر بھی ہمت نہ ہاری اور ایک دن جا کر محلے کے ناظم کو درخواست دے دی تھی جس پر ایک ٹیم اسکول کا معائنہ کر کے جا چکی تھی اور اُس کے بعد ہی باس بلبلاتا ہوا سیدھا میری کلاس میں آ دھمکا تھا . . . جو ٹیم آئی تھی اُس میں باس کا کوئی حامی یا راز دار تھا جس نے اُسے یہ بھی بتا دیا تھا کے فساد کی اصل جڑ میں ہوں . . .
میں . . . اب خود سے سوال کر رہی تھی . . . دو تین دن کے آرام کے بعد اپنے ہوش و حواس میں آ چکی تھی . . . ’ تو بس . . . کیا اسی سب کے لئے میں وہاں گئی تھی . . . تو کیا میرا کردار بس اتنا ہی تھا . . . ‘ میں افسوس میں مبتلا تھی اور کوئی راستہ ہی نہیں سوجھ رہا تھا . . .
تیسرے دن میرے موبائل پر فون آیا . . . پہلے تو کسی نے میری آواز سن کر بند کر دیا پھر ایک قطار میں تین چار مختلف نمبروں سے فون آنے لگے مگر ہر بار میری آواز سُن کر فون بند کر دیا جاتا . . . میں سمجھ رہی تھی کے شاید اسکول سے کوئی تو میری خیریت معلوم کر نے کی کوشش کرے گا ہی اس اُمید پر ہر بیل پر ہر نمبر پر کال ریسو کر لیتی تھی . . . آخر کار ایک آواز نے مجھ سے میرے کوالف بتانے شروع کئے . . . جیسے کسی مریض کو ڈاکڑ سپاٹ آواز میں اُس کی بیماری کے بارے میں احتیاط گنواتا جائے . . . میں بھی ہر ایک سوال پر ہاں کی گردان کئے جا رہی تھی . . . پھر سب کچھ معلوم کر لینے کے بعد ریسور کسی اور کو دیا گیا . . . اب کی بار کوئی خاتون تھیں . . . انہوں نے اپنا تعارف کسی نیوز ٹی وی چینل کی کمپیئر کے طور پر کروایا . . . اور بتایا کے میری جو ایک ویڈیو فیس بک پر گردش کر رہی ہے کیا میں اُس کی سچائی کی تصدیق کر سکتی ہوں ؟
میں بڑی حیران ہوئی . . . میں نے خاتون کو بتایا کے میں ایسی کسی ویڈیو کی سچائی کیسے بیان کروں جو کے میں نے دیکھی ہی نہیں . . . اب حیران ہونے کی باری خاتون نے لے لی . . .
’ یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ فیس بک میں اب تک اُس ڈھائی منٹ کی ویڈیو کو چالیس ہزار تک کومنٹس مل چکے ہیں اور ویڈیو میں صاف صاف اسکول اور آپ کا نام لکھا دکھایا گیا ہے . . . زیادہ تر کو منٹس ویڈیو کی تصدیق کرانے پر مبنی ہیں . . . ‘
میں اب بیزار سا محسوس کرنے لگی . . میں نے اُسی بیزاری سے خاتون کو سمجھایا کے میں چار پانچ دن سے فیس بک پر جا نہیں سکی ہوں اور نہ ہی میں نے کوئی ویڈیو اپ لوڈ کی ہے . . .
خاتون نے مجھے اُسی وقت فیس بک پر جا کر ویڈیو لنک چیک کرنے کا کہا اور تھوڑی دیر بعد فون کرنے کا کہہ کر بند کر دیا . . . گو میرا دل بالکل بھی نہیں تھا مگر میں کسی نہ کسی طرح بستر سے نکل کر اپنا لیپ ٹاپ کھول کر بیٹھ گئی جس کی بیٹری ختم ہو جا نے کے باعث اب وہ بھی ایک کمپیوٹر کی طرح بس بجلی آنے تک چلتا تھا . . . میں نے اپنا فیس بک اکاونٹ کھولا اور خاتون نے جو مجھے ویڈیو لنک لکھوایا تھا وہ جیسے ہی ٹائپ کیا میری آنکھیں حیرت سے پھٹ گئیں . . .
باس نے جو کلاس میں میرے جوتوں پر تیزاب اور پیٹرول چھڑک کر آگ لگائی تھی وہ پورا واقعہ ویڈیو کی شکل میں بار بار میرا لیپ ٹاپ چلاتا جا رہا تھا . . . پہلے میں نے باس کی حرکات کا جائزہ لیا . . . پھر خود کو پیلی رنگت کے ساتھ کانپتے دیکھا . . . کچھ لوگ کلاس کی کھڑکیوں اور دروازے سے جھانکتے ہوئے بھی نظر آ رہے تھے مگر کیمرے کی آنکھ جس سمت سے سب کچھ دیکھ رہی تھی اُس سے اندازہ ہو رہا تھا کے کیمر ا کلاس میں بیٹھے کسی بچے کے ہاتھ میں تھا اور اُس نے بڑے اطمینان سے تمام ہی مناظر فلم بند کر لئے تھے . . . میں نے دیکھا کہ مسلسل اُس ویڈیو کو لائک ملتے چلے جا ر ہے تھے . . . کسی انجان سے نام کی آئی ڈی سے اپ لوڈ کی ہوئی ویڈیو لاکھوں لوگوں کی نظروں میں آ چکی تھی اور تعداد مسلسل بڑھ رہی تھی . . . میں فون کی گھنٹی سے چونک پڑی . . . اور مرے مرے انداز میں فون ریسو کیا . . . وہی خاتون کمپئیر تھیں اور انہوں نے پھر وہی سوالات دھرانے شروع کر دیئے . . . میں نے اُن سے التجا کی کہ پلیز مجھے اس سب سے دور رکھیں میں اب اس پر کوئی بات کرنا نہیں چاہتی . . . جس پر خاتون نے مجھے اتنا ہی بتایا کے وہ اس ویڈیو کو آج رات اپنے پروگرام میں استعمال کرنے والی ہیں اور فوٹو شاپ کی مدد سے میری شکل کو دھندلا کروا دیں گی تاکہ میری ذاتی زندگی پر اس کا اثر نہ آئے . . . میر ے پاس انکار کی کوئی صورت نہیں تھی یہ تو اُن کا ہی احسان تھا کے انہوں نے مجھے ڈھونڈ نکالا اور پھر مجھ سے اجازت لے رہی تھیں یا کم از کم اطلاع تو دے ہی رہی تھیں . . . میں چُپ سادھ کر بیٹھ گئی . . . میں نے رات میں اُن کے پروگرام کو کانپتے کانپتے دیکھا اور خاتون نے جو دو ایک گورنمنٹ افسران . . . پولیس کے اعلا عہدیداران بلائے تھے اُن سب کے اعتراضات اور خیالات سُنتی رہی . . . بہرحال پروگرام میں طے یہ پایا گیا کہ کل صبح خاتون اپنی پوری ٹیم کے ساتھ اسکول جائیں گی اور پولیس اور گورنمنٹ افسران کی موجودگی میں اسکول کو باس کے ناجائز قبضے سے خالی کروا دیا جائے گا . . . اور پھر یہی ہوا . . . دوسرے پورے دن اُس نیوز چینل میں بس یہی سب دھما چوکڑی دکھائی جاتی رہی اور کیونکہ یہ قدم صرف اسی نیوز چینل نے اُٹھایا تھا تو سارا دن بریکنگ نیوز بنا کر نیوز چینل اپنا بھی پرچار کرتا رہا . . . خیر اسکول میں گورنمنٹ افسران . . . پولیس اور نیوز چینل کے کیمرا مین . . . خاتون کمپئیر کے ساتھ مزدوروں کی ایک ٹولی تھی جس نے ایک ایک بند کمرے پر پڑ ے تالے کو سب کے سامنے توڑ کر سامان اسکول سے باہر نکال نکال کر بھیک دیا . . . ایسے میں جو کرایہ دار تھے وہ ڈر کے مارے سامنے نہیں آ رہے تھے اور کیمرا یہ بھی دکھا رہا تھا کو سُپر اسٹور کا مال جو باہر پھینکا جا رہا تھا اُس کو اچکے اُٹھا اُٹھا کر چلتے بن رہے تھے . . . میں جو رات تک عجیب کشمکش میں تھی خوشی سے پھولی نہیں سما رہی تھی . . . اور دل ہی دل میں ایک طرح کی فتح محسوس کر کے خود میں بڑی مگن تھی . . . رات کافی دیر کے بعد میرے پاس خاتون کا فون آگیا انہوں نے مجھ سے پوچھا کے آیا میں نے سب دیکھا یا نہیں اور یہ بھی بتایا کے پرنسپل نے اُن کو میرے بارے میں بتایا تھا اور فون نمبر بھی دیا تھا ساتھ میں انہوں نے مجھے کافی سراہا کہ میں ایک عورت ہوکر بھی اس طرح باس جیسے لوگوں سے لڑ پڑی تھی اور یہ بھی کہ اسکول پر کچھ مہینوں کے لئے پولیس خاص طور سے نظر رکھے گی کے باس دوبارہ نہ آ سکے اور اگر وہ آ ہی گیا تو ہم پھر اُس کو نکال باہر کریں گے . . . میں نے بھی اب کی بار خاتون کو شاباشی دی کے انہوں نے اس طرح ویڈیو پر نظر کی اور اُن کی ذرا سی توجہ سے اسکول کا بھلا ہو گیا . . . ہم دونوں ایکدوسرے کی خوشی خوشی ڈھیر ساری تعریف کرتے رہے اور یوں آخر کار فون بند کر دئیے گئے . . .
دوسری صبح میرے پاس پرنسپل کا فون آ گیا کہ ابھی بھی اسکول کے ٹیچر نہیں آتے اور اسکول میں ٹیچر کی اشد ضرورت ہے تو اگر میں اسکول کی مدد کر سکوں اور اپنا کچھ وقت اسکول میں بچوں کی کلاسز لے لوں . . . تو . . . میں بھی خوشی خوشی راضی ہو گئی . . .
دو دن کے بعد میں پہلی بار اسکول گئی تو دل میں بہت فخر محسوس کر رہی تھی اور دل کافی مطمئن تھا . . . اسکول پہنچتے ساتھ ہی میں پرنسپل کے آفس پہنچ گئی . . . انہوں نے مجھے پہلے تو گرم گوشی سے گلے لگایا اور پھر چائے پی کر ہی کلاس میں جانے کا کہا . . . میں اُن کی پوری رواداد بڑے انہماک سے سُن رہی تھی کے انہوں نے مجھ سے کہا . . .
’ ہاں یاد رہے کے آپ صالحہ کو ایک دو دن زبردست قسم کی سزا دیں گی . . . ‘
’ صالحہ کو ؟ مگر کیوں ؟ ‘ میں حیران ہو گئی
’ ارے . . . اسکول میں بچوں کا موبائل لانا منع ہے نا . . . پھر بھی وہ اُس دن موبائل لے کر آئی تھی اور باقاعدہ دھڑلے سے مووی بھی بنائی تھی . . . لہذا آپ اُسے ذرا سخت سی سزا دے دیجئے گا تاکے دوسروں کو بھی سبق مل سکے . . . ‘
میں سر ہلاتی خاموش ہو گئی . . . اور اچانک مجھے خیال آیا تو میں نے پرنسپل سے چونک کر پوچھا . . .
’ صالحہ تو اتنی غریب سی بچی ہے اُس کے پاس مووی بنانے والا موبائل کہاں سے آیا اور مجھے تو یقین نہیں آ رہا کے وہ مووی اُس نے ہی فیس بک پر ڈالی تھی ؟ ‘
پرنسپل اب زیر ِ لب مسکرانے لگیں . . . اور مجھے کچھ شک سا ہونے لگا . . . پھر وہ مسکراتی ہوئی گویا ہوئیں . . . ’ بھئی میں کیا کہہ سکتی ہوں میرے تو چھوٹے چھوٹے بچے ہیں . . . آپ تو جانتی ہی ہیں میں ان سب باتوں سے کتنا دور بھاگتی ہوں . . . ‘
میں پہلے تو اُن کی بات سمجھنے کے لئے چُپ ہو گئی پھر اچانک ہم دونوں نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھا اور دونوں ہی کھلکھلا کر ہنس پڑے
دیدبان شمارہ ۶
افسانہ : ڈھائی منٹ
تحریر: ہاجرہ ریحان
’ ہمارے کنے تو ہر مسلئے کے دو ہی سا لو شن ہوتے ہیں استانی جی . . . ‘
اُس نے پان بھرے منہ سے بھاری آواز میں بتایا . . . اور ساتھ کے ساتھ دو چھوٹے سائز کی شیشے کی بوتلیں جیب سے نکال کر میری آنکھوں کے آگے لہرانی شروع کر دیں . . .
’ اب میں تنے اکسپریمنٹ کر کے دکھاتا ہوں . . . ایسے ہی تو بچے سیکھے ہیں . . . کیوں . . . ؟ ‘
اُس نے بھونڈے پن سے اپنے دو ساتھیوں کی طرف پلٹ کر دیکھا تو وہ سر ہلانے لگے . . . اُن دونوں میں سے ایک نے آگے بڑھ کر میرے ایک جوتے کو اپنے جوتے کی نوک سے سرکا کر آگے بڑھا کر ’ باس ‘ کے قریب کر دیا . . . میری عادت تھی کہ میں کلاس میں جاتے کے ساتھ ہی اپنی چپل . . . سینڈل یا جوتے جو بھی میرے پیر میں ہوتا میز کے نیچے اُتار کر کرسی پر پالتی مار کر بیٹھ جاتی تھی اور اپنے اسٹوڈنٹ کو بھی اجازت دے رکھی تھی کہ وہ چاہیں تو ایسا ہی کچھ کر سکتے ہیں . . . شروع میں میری دیکھا دیکھی اکثر جوتے موزے اُتار کر کرسی کے نیچے کھسکا کر کرسی پر چڑھ بیٹھتے تھے مگر پھر میرا پیریڈ ختم ہونے پر اُن کو دوبارہ سے جوتے موزے پہننے پڑتے اور اس وجہ سے میرے بعد آنے والی ٹیچر کی ناراضی کی بنا پر تھوڑے ہی دنوں میں سب ویسے ہی ٹھسے بیٹھے رہتے اور میں مزے میں کرسی پر چڑھی اُن کو لیکچر دیتی رہتی تھی . . . لہٰذا اُس کے اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ اچانک یوں نمودار ہونے پر میں گھبرا کر جو کرسی سے اُٹھ کر اُس کی طرف لپکی تھی تو جوتے میں پیر ڈالنا بھول ہی گئی تھی . . .
اُس نے ایک بوتل کا منہ کھولا اور اُس میں سے اُڑتی باہر لپکتی بھاپ کو دیکھ کر ہی مجھے اندازہ ہو گیا تھا کے وہ کیا شئے ہے . . . اُس نے میرے جوتے پر بوتل کو خا لی کر دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے میرا جوتا کسی مکڑی کے جالے کی طرح جس پر پانی پھینکا جائے سمٹ گیا . . . تیزاب اتنا تیز تھا کے جوتے کو لئے کھدرے فرش کے اندر تک دھنس گیا . . . اُسی اثناء میں میر ا دوسرا جوتا بھی حاضر کر دیا گیا . . . اُس نے دوسری بوتل کھول کر اُس پر چھڑکاؤ کیا اور پھر جیب سے ماچس کی ڈبیا نکال کر تیلی جلا کر جوتے پر پھینک دیا . . . پیٹرول جھٹ آگ پکڑ کر غضب ناک طریقے سے جوتے کو جلانے لگا . . . سارے طلبہ و طالبات جو نویں جماعت کے طالب علم تھے مگر میری نظر میں ابھی بھی بچے ہی تھے . . . دم بخود تماشہ دیکھ رہے تھے . . . کیونکہ لڑکیاں آگے بیٹھا کرتی تھیں تو کچھ کی آنکھوں میں ڈر اور کچھ کی آنکھوں میں آنسو صاف دکھائی دے رہے تھے . . . میں اپنے جوتوں کا یہ حال دیکھ کر خود بھی شاید پیلی پڑ چکی تھی . . . اور یہی بات اُس کو اور بھی مسرور کر گئی تھی . . . وہ چند لمحے مجھے بغور دیکھتا رہا اور پھر یہ کہتا ہوا چل پڑا کے . . . ’ امید ہے کے یہ سبق یاد رہے گا . . . ‘
میں اُس کے پیچھے پیچھے ننگے پیر کلاس سے باہر نکل آئی . . . دیکھا تو اسکول کی پرنسپل اور چپراسی سمیت دو چار ٹیچر ز بھی کھڑی تھیں . . . ہمیں باہر آتا دیکھ کر سب ادھر اُدھر بکھرنے کی کرنے لگے مگر کوریڈور اتنا وسیع نہیں تھا لہذا نظروں سے بچنے کی کوشش ناکام ہی تھی . . . وہ سب پر ایک قہر انداز نظر ڈالتا تیز قدموں سے چلتا کو ریڈور سے نکل گیا . . . پرنسپل ، اُس کے نظروں سے اوجھل ہوتے مجھے بازو سے پکڑ کر تیزی سے اپنے کمرے کی طرف چل پڑیں . . . میرے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا . . . میں کلاس میں بچوں کو دلاسہ دینا چاہتی تھی مگر مجھے ابھی خود کا ہوش نہیں تھا . . . سچ بات یہ تھی کے میں خود بھی حد سے زیادہ سہم چکی تھی . . .
وہ بوتلیں مجھ پر . . . میرے جسم پر . . . میرے چہرے پر بھی اُنڈیل سکتا تھا . . . اور اُسے یہاں روکنے والا تھا ہی کون . . .
’ پلیز . . . کل سے آپ نہیں آئیں گی . . . یہ میری غلطی سمجھیں کے میں نے آپ سے مدد مانگی مگر میں کسی بھی طرح اور رسک نہیں لینا چاہتی . . . آج حد ہو چکی ہے . . . اب آپ ابھی گھر جائیں اور دوبارہ یہاں اس اسکول میں تشریف نہ لائیں . . . ‘
پرنسپل نے سخت تو کبھی التجائی لہجے میں مجھ سے درخواست کی . . . میں ابھی تک دم بخود تھی . . . لہذا اُٹھ کر ننگے پیر اسٹاف روم میں آ گئی . . . حامد ( چپراسی ) میرے لئے جھٹ سے ٹھنڈا پانی لے آیا اور کسی ٹیچر نے مجھے نرمی سے کندھوں سے پکڑ کر صوفے پر بٹھا دیا تھا . . . مجھے پتہ بھی نہیں چلا کے میں کب نہ کب منہ بسور کر باقاعدہ آنسوں سے مگر بے آواز رونے لگی تھی . . . کسی نے میرے ہاتھ میں دو چار ٹشو تھما د یئے اور پھر سب میرے ارد گرد سے اچانک غائب ہو گئے . . . مجھے اسی طرح بیٹھے بیٹھے پتہ نہیں کتنا عرصہ گزرا بہرحال چھٹی ہو چکی تھی اور ایک دو کر کے اسٹاف روم تقریباً خالی ہو چکا تھا . . . میں بھی کسی چابی بھرے کھلونے کی طرح اُٹھ کر الماری سے اپنا بیگ نکال کر اسٹاف روم سے نکلی ہی تھی کے میرے ننگے پیر ایک ڈبے سے ٹکرائے . . . وہ جوتے کا ڈبہ تھا جو یقیناً میرے لئے ہی رکھا گیا تھا میں نے جھک کر اُسے ہاتھوں میں اُٹھائے بغیر زمین پر پڑے پڑے کھول کر دیکھا تو اُس میں میرے ہی سائز کی استعمال شدہ چپل پڑی تھیں . . . اور مجھے پہلی بار یاد آیا کے میرے پاؤں ابھی تک خالی تھے . . . میں نے چپل پہن کر سر اُٹھایا تو دیکھا سامنے صالحہ کھڑی تھی . . . وہ اُسی طرح پورے برقعے میں تھی اور ہمیشہ کی طرح صرف اُس کی آنکھیں بات کر رہی تھیں . . . مجھے اپنی اس طلبہ سے بڑا پیار تھا . . . مگر وہ زرا جھجھکی ہوئی رہتی اور قریب آ کر بات کرنے یا کام کی بات کے علاوہ کسی بھی قسم کی بات کرنے سے کتراتی تھی . . . اور کیونکہ میں ایک عام ٹیچر نہیں تھی لہذا میرا ہمیشہ دل ہوتا کے صالحہ سے کچھ دیر بیٹھ کر گپ لگا لیا کروں . . . اُس کی فلسفیانہ سوچ اور دور اندیش نظریوں کو سُن کر میں اکثر پریشان ہو جا تی تھی . . . وہ اتنی عمر کی تھی نہیں جتنی اُس نے خود پر طاری کر لی تھی . . . بقول کچھ ہم جماعتوں کے وہ اپنے گھر کی بڑی تھی . . . چار چھوٹے بھائی بہنوں کے ساتھ اپنے سبزی بیچنے والے باپ کی بھی دیکھ بھال کرتی تھی . . . ماں کا کئی سال پہلے انتقال ہو گیا تھا . . . سوتیلی ماں تھی مگر وہ صرف آرام کرتی تھی . . . میں چپل پہن کر احسان مند سی ہو کر اُس کی طرف بڑھی . . . وہ دو قدم پیچھے ہٹ گئی . . . یعنی جو حدود اُس نے اپنے ارد گرد قائم کر رکھی تھیں میں اُس کو توڑنے والی تھی . . . میں بھی اپنی جگہ جم گئی . . . جس پر اُس کی آنکھوں کے اظہار سے پتہ چلتا تھا کہ وہ مسکرا گئی تھی . . . پھر اُس نے دھیمے لہجے میں مجھ سے کہا . . .
’ سب ٹھیک ہو جائے گا . . . اب آپ سکون سے گھر جائیں اور کچھ دن چھٹیاں منا لیں . . . آپ کو اس کی ضرورت ہے . . . ‘
میں بھی تھک گئی تھی اور ابھی میرا دل نہیں تھا کے کسی سے بھی کوئی بھی بات کروں لہذا میں اُس کو وہیں کھڑا چھوڑ کر اسکول کے دروازے کی طرف بڑھ گئی . . .
مجھے اس اسکول میں پڑھاتے یہ چوتھا مہینہ تھا . . . میں کوئی باقاعدہ ٹیچر نہیں تھی نہ ہی مجھے یہاں بطور ٹیچر کے رکھا گیا تھا یہ ہمارے محلے کا گورنمنٹ اسکول تھا اور ایک دن جب میں اپنے کچھ کاغذات کو اٹسٹ کروانے یہاں کی پرنسپل کے پاس آئی تھی تو انہوں نے بتایا تھا کے ٹیچر آتے ہی نہیں اور بچارے بچے کلاس میں بیٹھے مکھیاں مارتے رہتے ہیں . . . جس کی وجہ سے جو ایک دو دیانت دار ٹیچر ہیں اُن کے اوپر ہی پورے اسکول کا بوجھ تھا مگر وہ بھی کتنی کلاسیں لیتے . . . میں اُس زمانے میں ایک انٹرنیشنل آرگنائزیشن میں نوکری کرتی تھی لہذا میرے ذہن میں بھی یہ بات نہ آئی کے میں اپنی خدمات پیش کر دوں . . . مگر پھر میں نے اونچی دکان اور پھیکے پکوان کی مصداق پریشان ہو کر نوکری چھوڑ دی اور پہلا خیال جو مجھے آیا وہ یہی تھا کے میں اس اسکول میں کم از کم اُس وقت تک پڑھا دوں جب تک میں کوئی دوسری نوکری تلاش نہ کر لوں . . . مگر پڑھانے میں بچوں کے ساتھ مجھے کچھ ایسی اُنسیت ہو گئی کے میں نے چار مہینے گزر جانے کے باوجود بھی اسکول سے چھٹکارا حاصل کرنے کا ارادہ ختم ہی کر دیا تھا . . . نہ مجھے تنخواہ ملتی تھی . . . نہ ہی میں کسی امتحان میں کلاس وغیرہ میں جا سکتی تھی . . . مگر پھر بھی میں اسکول میں بہت اچھے نام سے پہنچان کرا چکی تھی اور ہر طلب علم مجھے دیکھتے کے ساتھ ہی ادب سے سلام دعا کر لیتا تھا . . . مجھے بھی یہ سب اب اچھا لگنے لگا تھا زندگی میں پہلی بار اپنی زندگی کا کوئی مقصد کوئی جواز مل گیا تھا . . . مگر پھر کسی ولن کی طرح ’ باس ‘ آن ٹپکا . . .
شروع کے چند دنوں میں ہی مجھے پتہ چل گیا تھا کے آدھے سے زیادہ اسکول پر قبضہ ہے . . . ایسی کلاسیں جن کی چھت ٹپکتی تھی بس وہی بچوں کے لئے رہ گئی تھیں باقی تمام مضبوط چھت والی کلاسیں اور اسٹور روم یہاں تک کے لائبریری سب کے سب اُس کے قبضے میں تھے جو علاقے میں ’ باس ‘ کے نام سے مشہور تھا . . . اُس نے چند ایک گینڈے نما نوکر رکھے ہوئے تھے . . . تھانے میں ہفتہ وار بھتہ دیتا تھا اور اُن کے ہی بل بوتے پر وہ محلے میں مان مانی کرتا تھا . . . اسکول کی کلاسسز جو باس نے قبضہ کر رکھی تھیں اُن کو اُس نے مختلف اداروں اور لوگوں کو کرائے پر دے رکھا تھا . . . کسی میں کسی سُپر اسٹور کا مال لا کر رکھا جاتا تھا . . . کسی میں شاد ی بیاہ میں ٹینٹ اور کھانے لگانے والے اپنے ٹینٹ ا ور پردے کرسیاں لا کر ڈھیر کرتے تھے اور کسی میں تین چار دوسرے شہروں سے آئے ہوئے چور اچکے ٹائپ کے مرد قیام پزیر تھے . . . ان سب میں مشترک بات یہ تھی کے یہ اسکول کھولنے سے پہلے اور بند ہونے کے بعد ہی اسکول میں دندناتے پھرتے تھے . . . لہذا کسی کو بھی ان کر ایہ داروں کے کوالف کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا . . . ماجد کچھ کچھ جانتا تھا مگر زبان کھولنے سے ڈرتا تھا . . . میں نے جب دیکھا کے ایک ہی کمرے میں دو چار جماعتوں کے بچے بیٹھ کر سبق لیتے ہیں تو پرنسپل کو غیرت دلائی کے اپنا اسکول ان غنڈوں سے خالی کروائیں . . . وہ بچاری کہاں ان سب میں شامل تھیں لہذا وہ تو بار بار اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کا واسطہ دے کر دور ہو چکی تھیں . . .
میں نے پھر بھی ہمت نہ ہاری اور ایک دن جا کر محلے کے ناظم کو درخواست دے دی تھی جس پر ایک ٹیم اسکول کا معائنہ کر کے جا چکی تھی اور اُس کے بعد ہی باس بلبلاتا ہوا سیدھا میری کلاس میں آ دھمکا تھا . . . جو ٹیم آئی تھی اُس میں باس کا کوئی حامی یا راز دار تھا جس نے اُسے یہ بھی بتا دیا تھا کے فساد کی اصل جڑ میں ہوں . . .
میں . . . اب خود سے سوال کر رہی تھی . . . دو تین دن کے آرام کے بعد اپنے ہوش و حواس میں آ چکی تھی . . . ’ تو بس . . . کیا اسی سب کے لئے میں وہاں گئی تھی . . . تو کیا میرا کردار بس اتنا ہی تھا . . . ‘ میں افسوس میں مبتلا تھی اور کوئی راستہ ہی نہیں سوجھ رہا تھا . . .
تیسرے دن میرے موبائل پر فون آیا . . . پہلے تو کسی نے میری آواز سن کر بند کر دیا پھر ایک قطار میں تین چار مختلف نمبروں سے فون آنے لگے مگر ہر بار میری آواز سُن کر فون بند کر دیا جاتا . . . میں سمجھ رہی تھی کے شاید اسکول سے کوئی تو میری خیریت معلوم کر نے کی کوشش کرے گا ہی اس اُمید پر ہر بیل پر ہر نمبر پر کال ریسو کر لیتی تھی . . . آخر کار ایک آواز نے مجھ سے میرے کوالف بتانے شروع کئے . . . جیسے کسی مریض کو ڈاکڑ سپاٹ آواز میں اُس کی بیماری کے بارے میں احتیاط گنواتا جائے . . . میں بھی ہر ایک سوال پر ہاں کی گردان کئے جا رہی تھی . . . پھر سب کچھ معلوم کر لینے کے بعد ریسور کسی اور کو دیا گیا . . . اب کی بار کوئی خاتون تھیں . . . انہوں نے اپنا تعارف کسی نیوز ٹی وی چینل کی کمپیئر کے طور پر کروایا . . . اور بتایا کے میری جو ایک ویڈیو فیس بک پر گردش کر رہی ہے کیا میں اُس کی سچائی کی تصدیق کر سکتی ہوں ؟
میں بڑی حیران ہوئی . . . میں نے خاتون کو بتایا کے میں ایسی کسی ویڈیو کی سچائی کیسے بیان کروں جو کے میں نے دیکھی ہی نہیں . . . اب حیران ہونے کی باری خاتون نے لے لی . . .
’ یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ فیس بک میں اب تک اُس ڈھائی منٹ کی ویڈیو کو چالیس ہزار تک کومنٹس مل چکے ہیں اور ویڈیو میں صاف صاف اسکول اور آپ کا نام لکھا دکھایا گیا ہے . . . زیادہ تر کو منٹس ویڈیو کی تصدیق کرانے پر مبنی ہیں . . . ‘
میں اب بیزار سا محسوس کرنے لگی . . میں نے اُسی بیزاری سے خاتون کو سمجھایا کے میں چار پانچ دن سے فیس بک پر جا نہیں سکی ہوں اور نہ ہی میں نے کوئی ویڈیو اپ لوڈ کی ہے . . .
خاتون نے مجھے اُسی وقت فیس بک پر جا کر ویڈیو لنک چیک کرنے کا کہا اور تھوڑی دیر بعد فون کرنے کا کہہ کر بند کر دیا . . . گو میرا دل بالکل بھی نہیں تھا مگر میں کسی نہ کسی طرح بستر سے نکل کر اپنا لیپ ٹاپ کھول کر بیٹھ گئی جس کی بیٹری ختم ہو جا نے کے باعث اب وہ بھی ایک کمپیوٹر کی طرح بس بجلی آنے تک چلتا تھا . . . میں نے اپنا فیس بک اکاونٹ کھولا اور خاتون نے جو مجھے ویڈیو لنک لکھوایا تھا وہ جیسے ہی ٹائپ کیا میری آنکھیں حیرت سے پھٹ گئیں . . .
باس نے جو کلاس میں میرے جوتوں پر تیزاب اور پیٹرول چھڑک کر آگ لگائی تھی وہ پورا واقعہ ویڈیو کی شکل میں بار بار میرا لیپ ٹاپ چلاتا جا رہا تھا . . . پہلے میں نے باس کی حرکات کا جائزہ لیا . . . پھر خود کو پیلی رنگت کے ساتھ کانپتے دیکھا . . . کچھ لوگ کلاس کی کھڑکیوں اور دروازے سے جھانکتے ہوئے بھی نظر آ رہے تھے مگر کیمرے کی آنکھ جس سمت سے سب کچھ دیکھ رہی تھی اُس سے اندازہ ہو رہا تھا کے کیمر ا کلاس میں بیٹھے کسی بچے کے ہاتھ میں تھا اور اُس نے بڑے اطمینان سے تمام ہی مناظر فلم بند کر لئے تھے . . . میں نے دیکھا کہ مسلسل اُس ویڈیو کو لائک ملتے چلے جا ر ہے تھے . . . کسی انجان سے نام کی آئی ڈی سے اپ لوڈ کی ہوئی ویڈیو لاکھوں لوگوں کی نظروں میں آ چکی تھی اور تعداد مسلسل بڑھ رہی تھی . . . میں فون کی گھنٹی سے چونک پڑی . . . اور مرے مرے انداز میں فون ریسو کیا . . . وہی خاتون کمپئیر تھیں اور انہوں نے پھر وہی سوالات دھرانے شروع کر دیئے . . . میں نے اُن سے التجا کی کہ پلیز مجھے اس سب سے دور رکھیں میں اب اس پر کوئی بات کرنا نہیں چاہتی . . . جس پر خاتون نے مجھے اتنا ہی بتایا کے وہ اس ویڈیو کو آج رات اپنے پروگرام میں استعمال کرنے والی ہیں اور فوٹو شاپ کی مدد سے میری شکل کو دھندلا کروا دیں گی تاکہ میری ذاتی زندگی پر اس کا اثر نہ آئے . . . میر ے پاس انکار کی کوئی صورت نہیں تھی یہ تو اُن کا ہی احسان تھا کے انہوں نے مجھے ڈھونڈ نکالا اور پھر مجھ سے اجازت لے رہی تھیں یا کم از کم اطلاع تو دے ہی رہی تھیں . . . میں چُپ سادھ کر بیٹھ گئی . . . میں نے رات میں اُن کے پروگرام کو کانپتے کانپتے دیکھا اور خاتون نے جو دو ایک گورنمنٹ افسران . . . پولیس کے اعلا عہدیداران بلائے تھے اُن سب کے اعتراضات اور خیالات سُنتی رہی . . . بہرحال پروگرام میں طے یہ پایا گیا کہ کل صبح خاتون اپنی پوری ٹیم کے ساتھ اسکول جائیں گی اور پولیس اور گورنمنٹ افسران کی موجودگی میں اسکول کو باس کے ناجائز قبضے سے خالی کروا دیا جائے گا . . . اور پھر یہی ہوا . . . دوسرے پورے دن اُس نیوز چینل میں بس یہی سب دھما چوکڑی دکھائی جاتی رہی اور کیونکہ یہ قدم صرف اسی نیوز چینل نے اُٹھایا تھا تو سارا دن بریکنگ نیوز بنا کر نیوز چینل اپنا بھی پرچار کرتا رہا . . . خیر اسکول میں گورنمنٹ افسران . . . پولیس اور نیوز چینل کے کیمرا مین . . . خاتون کمپئیر کے ساتھ مزدوروں کی ایک ٹولی تھی جس نے ایک ایک بند کمرے پر پڑ ے تالے کو سب کے سامنے توڑ کر سامان اسکول سے باہر نکال نکال کر بھیک دیا . . . ایسے میں جو کرایہ دار تھے وہ ڈر کے مارے سامنے نہیں آ رہے تھے اور کیمرا یہ بھی دکھا رہا تھا کو سُپر اسٹور کا مال جو باہر پھینکا جا رہا تھا اُس کو اچکے اُٹھا اُٹھا کر چلتے بن رہے تھے . . . میں جو رات تک عجیب کشمکش میں تھی خوشی سے پھولی نہیں سما رہی تھی . . . اور دل ہی دل میں ایک طرح کی فتح محسوس کر کے خود میں بڑی مگن تھی . . . رات کافی دیر کے بعد میرے پاس خاتون کا فون آگیا انہوں نے مجھ سے پوچھا کے آیا میں نے سب دیکھا یا نہیں اور یہ بھی بتایا کے پرنسپل نے اُن کو میرے بارے میں بتایا تھا اور فون نمبر بھی دیا تھا ساتھ میں انہوں نے مجھے کافی سراہا کہ میں ایک عورت ہوکر بھی اس طرح باس جیسے لوگوں سے لڑ پڑی تھی اور یہ بھی کہ اسکول پر کچھ مہینوں کے لئے پولیس خاص طور سے نظر رکھے گی کے باس دوبارہ نہ آ سکے اور اگر وہ آ ہی گیا تو ہم پھر اُس کو نکال باہر کریں گے . . . میں نے بھی اب کی بار خاتون کو شاباشی دی کے انہوں نے اس طرح ویڈیو پر نظر کی اور اُن کی ذرا سی توجہ سے اسکول کا بھلا ہو گیا . . . ہم دونوں ایکدوسرے کی خوشی خوشی ڈھیر ساری تعریف کرتے رہے اور یوں آخر کار فون بند کر دئیے گئے . . .
دوسری صبح میرے پاس پرنسپل کا فون آ گیا کہ ابھی بھی اسکول کے ٹیچر نہیں آتے اور اسکول میں ٹیچر کی اشد ضرورت ہے تو اگر میں اسکول کی مدد کر سکوں اور اپنا کچھ وقت اسکول میں بچوں کی کلاسز لے لوں . . . تو . . . میں بھی خوشی خوشی راضی ہو گئی . . .
دو دن کے بعد میں پہلی بار اسکول گئی تو دل میں بہت فخر محسوس کر رہی تھی اور دل کافی مطمئن تھا . . . اسکول پہنچتے ساتھ ہی میں پرنسپل کے آفس پہنچ گئی . . . انہوں نے مجھے پہلے تو گرم گوشی سے گلے لگایا اور پھر چائے پی کر ہی کلاس میں جانے کا کہا . . . میں اُن کی پوری رواداد بڑے انہماک سے سُن رہی تھی کے انہوں نے مجھ سے کہا . . .
’ ہاں یاد رہے کے آپ صالحہ کو ایک دو دن زبردست قسم کی سزا دیں گی . . . ‘
’ صالحہ کو ؟ مگر کیوں ؟ ‘ میں حیران ہو گئی
’ ارے . . . اسکول میں بچوں کا موبائل لانا منع ہے نا . . . پھر بھی وہ اُس دن موبائل لے کر آئی تھی اور باقاعدہ دھڑلے سے مووی بھی بنائی تھی . . . لہذا آپ اُسے ذرا سخت سی سزا دے دیجئے گا تاکے دوسروں کو بھی سبق مل سکے . . . ‘
میں سر ہلاتی خاموش ہو گئی . . . اور اچانک مجھے خیال آیا تو میں نے پرنسپل سے چونک کر پوچھا . . .
’ صالحہ تو اتنی غریب سی بچی ہے اُس کے پاس مووی بنانے والا موبائل کہاں سے آیا اور مجھے تو یقین نہیں آ رہا کے وہ مووی اُس نے ہی فیس بک پر ڈالی تھی ؟ ‘
پرنسپل اب زیر ِ لب مسکرانے لگیں . . . اور مجھے کچھ شک سا ہونے لگا . . . پھر وہ مسکراتی ہوئی گویا ہوئیں . . . ’ بھئی میں کیا کہہ سکتی ہوں میرے تو چھوٹے چھوٹے بچے ہیں . . . آپ تو جانتی ہی ہیں میں ان سب باتوں سے کتنا دور بھاگتی ہوں . . . ‘
میں پہلے تو اُن کی بات سمجھنے کے لئے چُپ ہو گئی پھر اچانک ہم دونوں نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھا اور دونوں ہی کھلکھلا کر ہنس پڑے