لفٹ‘ عصر حاضر کا عکاّس

لفٹ‘ عصر حاضر کا عکاّس

Sep 25, 2015

 

 لفٹ‘ عصر حاضر کا عکاّس"

ڈاکٹر رضوانہ پروین 

       نسترن احسن فتیحی آسمان فکشن پر ابھرتا

ہوا ستارا ہیں۔نسترن نے اپنے بنیادی سفر کی شروعات افسانہ نگاری سے کی۔ان

کا پہلا افسانہ ’تشنگی‘ کے عنوان سے ماہ نامہ شاعر ممبئی ۱۹۹۱ء میں شائع ہوا۔موصوفہ کے درجنوں افسانے

ہندو پاک کے مقتدر رسائل و جرائد کی زینت بنے۔افسانوں کے ساتھ ساتھ نسترن نے ناول بھی

لکھے ہیں۔ان کا پہلا ناول ’لفٹ‘ ۳۰۰۲ء میں منظر عام پر آےا اور مقبول عام ہوا۔جس

کا ثبوت یہ ہے کہ ’لفٹ‘ کا دوسرا ایڈیشن بھی ۷۱۰۲ءمیں ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاﺅس کے زیر اہتمام

طبع ہو کر مقبولیت عام حاصل کر رہا ہے۔مصنّفہ کا دوسرا ناول ’نوحہ گر‘ زیر اشاعت ہے۔                    

ناول ’لفٹ‘۱٨٠  صفحات پر مشتمل ہے۔ناول نگار نے اسے آٹھ

حصّوں میں منقسم کیا ہے،اور ہر باب کا ایک عنوان طے کیا ہے۔ہر عنوان کے اندر اشارے

پوشیدہ ہیں جس سے باب میں پیش آنے والے واقعات و حادثات کا اشارہ ملتا ہے۔ مثلًا چھٹے

باب کا عنوان دیکھیں ’جن کا دیں پیروی کذب و ریا ہے ان کو‘ (فیض) سے بہت کچھ اندازہ

ہو جاتا ہے کہ اگلے صفحات میں ناول کے رخ کو آگے بڑھا رہا ہے۔ مجھے اپنی اس بات کی

تائید کے لئے رولا بارتھ کا مشہور قول یہاں پیش کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔”جب ہم کہانی

لکھتے ہیں تو کہانی ہمیں لکھتی ہے“ پوری طرح صادق آتی ہے۔لفٹ ایک کیمپس ناول ہے۔اس

کا پلاٹ بالکل گٹھا ہوا اور واقعات ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ناول نگار نے اپنے اس ناول

میں یونیورسٹی کی خاص فضا ، ماحول اور مقام کو ملحوظ ترتیب رکھا ہے، جہاں وہ رہی ہیں۔مصنّفہ

نے اپنے تجربات و مشاہدات کو بڑی خوبصورتی اور فنّی صنّائی کے سا تھ ناول کے قالب میں

ڈھال دیا ہے۔اس ضمن میں مصنّفہ ناول کے ابتدائیہ میں کچھ یوں رقم طراز ہیں:                   


”آزادی کے بعدکی نئی نسل بالشتیوں کی جانشیں ہے اور

اپنا قد پانے کے لئے جائز و نا جائز سے گریز نہیں کرتی۔معلوم نہیں لفٹ کا کون سا بٹن

ا سے بلندیوں تک پہنچا دے۔۔۔۔لیکن ان جا نشینوں کو یہ نہیں معلوم کہ لفٹ کی پہنچ کی

ایک حد مقرر ہے۔“


       ناول کا عنوان ’لفٹ‘ ایک بلیغ اشاریہ کے

طور پر استعمال کیا گےا ہے۔’لفٹ‘ جس کے ذریعہ انسان اونچائیوں پر کم وقت میں پہنچ جاتا

ہے۔لفٹ ایک ایساسہارا، ایک مضبوط ذریعہ ہے جس کے سہارے انسان بغیر محنت کے کم وقت مین

آسانی سے منزلِ مقصود تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔یہ لفٹ دورِ جدید کی علامت نہیں

کہی جا سکتی ہے۔جہاں اس مشینی دورمیں ایک طرف ہر کام کو آسانی سے مکمل کرنے اور حاصل

کرنے کی چاہت نے انسان کو انسانیت کے بنیادی محّرک سے بہت بالا تر کر دیا ہے۔ٹھیک اسی

طرح انسان کے ضمیر پر بھی ان چیزوں نے کہیں نہ کہیں اپنے نقوش و اثرات ڈالے ہیں۔ بہر

حال یہ حقیقی امر ہے کہ نام اپنے اندر تاثر و وسعت رکھتا ہے،اسی طرح ’لفٹ‘ بھی ایک

دستوری وسعت کا متقاضی ہے۔                 

ناول ’لفٹ‘میں مصنّفہ نے کرپشن اور ریزرویشن

کو موضوع بنایا ہے۔اس ناول میں تعلیمی ادارے خصوصاًیونیور سٹی جیسے مہذب معیاری اور

اعلٰی تعلیمی مرکز میں پھیلی بد عنوانی کو اشاروں اشاروں میں بیان کر ڈالا ہے۔مصنّفہ

اپنے عہد کے انتشار ، سماجی برائیوں،زیادتیوں اور کج رویّوں پر نشانہ لگایا ہے۔لیکن

اس خوبی کے ساتھ کہ فن پر مقصدیت حاوی نہیں ہونے پایا ہے۔ہندوستان جیسے جمہوری ملک

میں ہر طبقے کو یکساں حقوق دئے جانے کی جہد میں جو اقدام اٹھائے گئے اس کا غلط استعمال

، رسوخ کے ذریعہ ترقی کر وانا،ریزرویشن کے بل بوتے اعلٰی مقام پر تقرری ان سب چیزوں

کے جو برے نتائج ہو رہے ہےں اس کی جانب ناول کے متن مین واضح اشارے موجود ہیں۔کس طرح

سے لائق فائق نوجوان بے روزگار رہ جاتے ہیں اور تنگ آکر اعٰلی تعلیم سے توبہ کر لیتے

ہیں۔کس طرح خواندہ اور نا خواندہ عورتوں کے حقوق کی پا ما لی ہمارے سماج میں عام بات

ہے۔مذکورہ بالا تمام نکات پر ناول میں روشنی ڈالی گئی ہے لیکن اس انداز میں کہ بس یوں

ہی سی کوئی بات کوئی واقعہ سرِ راہ گزر گیا ہو ۔لیکن یوں ہی سے تذکرے بھی اپنا تاثر

چھوڑنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔دراصل ناول نگار نے قاری کو اپنے مشاہدات و تجربات میں

اس طرح ساتھ کر لیا ہے کہ دوران ِ مطالعہ قاری یہ محسوس ہی نہیں کر پاتا کہ پیشِ نظر

واقعات و حادثات سے اس کی شناسائی نہیں ہے۔                   ناول میں مصنّفہ نے بڑی فن کاری کے ساتھ

صارفیت ذدہ تہذیب اور بد عنوانی جیسے جدید اور مہلک مرض کا انکشاف کیا ہے۔جن باتوں

کی جانب ناول میں اشارے کئے گئے ہیں۔اس کی واضح صورتیں ہمارے معاشرے میں موجود ہیں۔بہر

حال مصنّفہ کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے بد عنوانی جےسے مہلک مرض کا دائرہ یونیورسٹی

کے اندر تک دکھانا ہے لیکن اس کے اثرات سے کس طرح زندگیاں متاثر ہوتی ہیں اس کی جانب

واضح اشارے ضرور کر دئے ہیں۔بہر حال یو نیور سیٹیاں انسانوں کو انسان بنانے کی فیکٹریاں

جو ہیں۔جیسا فریم یا فرما ہوگا ویسی ہی چیز برآمد ہوگی۔                           ’لفٹ‘ ہندوستانی یونیورسٹی

کا البم ہے۔ناول نگار چونکہ خود اس ماحول و معاشرے کی فرد ہیں ۔ان کا واسطہ ایسے ہی

ماحول اور افراد سے پڑتا رہتا ہے۔جس کی واضح صورتیں ناول کے متن میں موجود ہیں۔ مصنّفہ

نے یونیورسٹی کیمپس ،اسٹاف،ہر درجے کے کارکنان ان کے رکھ رکھاواور مزاج ، ان کے افکار

آپسی تنازعات اور ذہنی و سیاسی تفریق وغیرہ کو حسن اسلوب کے ساتھ ہی ساتھ ناول میں

پیش کر دیا ہے۔ ساتھ ہی طلباءاور ریسرچ اسکالر کے مزاج ، ان کے مسائل وغیرہ کو جس باریکی

کے ساتھ پیش کیا گیا ہے وہ ایک یونیور سٹی استاد یا اس کیمپس سے تعلق رکھنے والا انسان

ہی کر سکتا ہے۔اس معاملے میں مصنّفہ نے اپنے تجربات و مشاہدات کو بر سرِ پیکار لا کر

ایک خوبصورت تخلیق ناول کی صورت میں اردو ادب کو دیا  ہے۔اس موضو ع پر اتنی وضاحت و سراحت کے ساتھ اب تک

اردو زبان میں کوئی ناول منظرِ عام پر نہیں آیا ہے۔البتّہ پروفیسر حسین الحق کے ناول

’بولو مت چپ رہو ‘ میں پرائمری و مڈل اسکول کی تعلیم اور سکنڈری لیول پر ایجوکیشن افسر

کی نوکر شاہی سے پھیلی بد نظمی کو بے نقاب ضرور کیا گیا ہے،لیکن اس کی نوعیت دیگر ہے

اور  ساتھ ہی

اس کا ٹریٹ منٹ بھی مختلف ہے۔اس ضمن میں یونیورسٹی کیمپس کے ماحول میں پھیلی بد عنوانی

،سیاسی الٹ پھیر اور مفاد پرستی وغیرہ پر مبنی اقتباسات پیش ہیں              


”اجے کو آج اس خبر پر یقین ہو گیا تھا کہ اس یونیورسٹی

کے اندر کچھ لوگ ایڈمیشن اور اپائنمنٹ کے نام پر بڑے گھناونے کھیل کھیل رہے ہیں اور

کچھ معصوم لوگوں کو جھوٹے سبز باغ دکھا کر ان کی استعداد کے لحاظ سے ان کی جیب ہلکی

کروا لیتے ہیں۔جو جتنا دے سکنے کا اہل ہوتا ہے اس سے اتنی موٹی رقم وصول کر لی جاتی

ہےایسے لوگوں کو کون بچا سکتا ہے جو خود ڈوبنے کو تیار بیٹھے ہوں۔اجے ورما کو لگا بڑا

بابو ایک بار پھر انھیں اس خلش سے دو چار کر گئے ہیں جس میں وہ اپنی ہر ملاقات کے بعد

کر جاتے ہیں۔“            


               (ص:۴۸۔۳۸)

”یہ آپ کا اور میرا سے کیا مراد ہے۔ہر جگہ آ پ لوگ

ہی تو اس فرق پر زور دیتے ہیں پھر شکایت کرتے ہیں جب ہم سے خود کو الگ نہیں سمجھتے

تو الگ ہوتے کیوں ہیں۔“


"الگ ہوتے نہیں

جناب ، ہر لمحہ ہمیں یہ باور کراےا جاتا ہے کہ ہم الگ ہیں " ملک صاحب تلخ ہونے

لگے۔


"ارے آپ لوگ

یہ کیسی بچکانہ بحث میں پڑ جاتے ہیں۔اگر اس سطح پر بھی ایسی سوچ کارفرما ہوگی تو اس

ملک کا کیا ہوگاکیا آپ لوگ کبھی اس ملک کو ایک اسٹیبل گورنمنٹ دے پائیں گے“اشوک نے

دخل اندازی کر تے ہوئے گرم ہوتے ہوئے رخ کو موڑنا چاہا۔


"مجھے بھی یہ

سوچ کر افسوس ہو رہا ہے کہ چوپڑا صاحب جیسے لوگ بھی ایسی تنگ نظری سے کام لے ر ہے ہیں۔یہی

وجہ ہے کہ ووٹ ٹکڑوں میں بٹ کر خودغرضوں کی جھولی میں جاتے ہیں“ملک صاحب کے لہجے میں

تاسف تھا۔


                  

(ص: ۶۲۱)


       ناول ’لفٹ‘ میں کرداروں کی بہتات ہے۔سبھی

کردار یونیورسٹی کیمپس سے تعلق رکھتے ہیں۔تمام کرداروں کا الگ الگ طبقے سے تعلق ہونے

کے باوجود بھی ان میں کچھ باتیں مشترک ہیں۔مثلًا ان سب کا تعلق اسی ادارے سے ہے۔سب

تعلیم یافتہ ہیں۔سبھی کردار کسی نہ کسی طرح یونیورسٹی سے جڑے معاش کی تلاش میں تگ و

دو کرتے اپنی زندگی کے شب و روز گزار رہے ہیں۔بہر حال ناول کا مرکزی کردار اجے ورما

ہیں ۔وہ ایک ایماندار انسان ہیں اور مارکس کے فلسفے کو مانتے ہیں۔ ایسے کردار اس بات

کی علامت ہیں کہ آج بھی اس دنیا میں سچّائی اور اچھّائی باقی ہے۔                           


اس ناول میں مکالموں ،فقروں کرداروں اور

فضا آفرینی وغیرہ نے مل کر ایسی صورت پیدا کی ہے جس سے یونیورسٹی کیمپس تہذیب پوری

طرح عیاں ہوتی ہے، اور قاری کو دوران مطالعہ کہیں بھی کوئی بات نا مناسب یا چونکانے

والی معلوم نہیں ہوتی۔’لفٹ‘ میں ان ہی باتوں اور واقعات کا ذکر آیا ہے جو اس ملک کی

یونیور سٹی تہذیب کا حصّہ ہیں۔’زر ،زور، ذریعہ برابر ترّقی‘ ۔یہی فارمولا ہے آج ترّقی

پانے کا باقی ساری محنتیں اور کوششیں کچھوئے کی چال اور اس کی ڈھال معلوم ہوتی ہیں،جو

بظاہر تو آگے بڑھتا ہے لیکن لمبا وقفہ اس انتظار میں گزر جاتا ہے کہ اب تر قی ہو ،اب

نوکری لگے۔ناول میں ان حالات سے دو چار ہوئے کئی کردار ہیں جن میں میتا اور راجیش(ریسرچ

اسکالر) ہیں۔ان دونوں کو محنت اور ذاتی قا بلیت کے باوجود بہت برے حالات کا سامنا کرنا

پڑتا ہے۔ اجے ورما اپنے شاگردوں کو گاہے گاہے نیک مشورے اور حوصلے دیتے رہتے ہیں جو

ان کے لئے زادِراہ ثابت ہوتی ہیں حالات کے تئیں ان کی فکر مندی اور مشورے سے لبریزایک

اقتباس ملاحظہ ہو      


"تم نوجوانوں کو بہت کچھ کرنا چاہئے ۔ان

مسائل پر قابو پانے کے لئے تم لوگوں کو آگے بڑھ کر کچھ کرنا چاہئے۔بہت مواقع ہیں کام

کرنے کے اگر جذبہ ہواخراجات اور آمدنی کے اعتبار سے ہماری دنےا متوازن ہو چکی ہے۔یہ

قلیل مدتی بحران طویل بحران کا ہی حصّہ ہے۔اور سب سے افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے حکمراں

اپنی آسائشوں میں ایسے گم ہیں کہ اگر ہم ہندوستان کی تاریخ مرتب کریں تو ان لیڈران

کی چالاکی کے ساتھ فیاضانہ جائز انتقاع کی مکمل سر گزشت پیش کر سکتے ہیں۔آج کے حکمراں

سیاسی چالبازیاں،خودغرضی،خودنمائی اور خود پرستی کی تاریخ اپنے پیچھے چھوڑ کر جانے

والے ہیں۔"


راجیش کو لگا اجے ورما بولتے بولتے کسی

قلبی انتشار کی کیفیت میں مبتلا ہو گئے ہیںاگر ذات کے غم پر زمانے کا غم حاوی ہو جائے

تو انسان کا قد کتنا بلند ہو جاتا ہے۔


               (ص:۴۷)

"سرمیں سیکشن

آفیسر ہو گیا ہوں اس لئے پرموشن کے ساتھ ساتھ ٹرانسفر بھی ملنے والا ہے۔ابھی آرڈر نہیں

آیا ہے دس پندرہ دنوں میں آجائے گا."ایک بار پھر اجے ورما کے حیران ہونے کی باری

تھی۔نیک رام کی یہ ترّقی ان کے سامنے سماج کی ان بے راہ رویّوں کی مثال تھیجو ایک سیدھے

راستے پر چلنے والے انسان کی حق تلفی کی صورت میں سامنے آتی تھیںاجے کو لگا نیک رام

کے قدموں کے نیچے کامیابی کی یہ غلط سیڑھیاں لگانے کے ذمہ دار وہ خود ہیں کوئی دوسرا

نہیں۔


"اب سر آپ تو

شائد میرا مذاق اڑا رہے ہیں۔“اس نے بڑی بے شرمی سے دانت نکال کر کہاآپ لوگ تو اس نئے

ہندوستان کے لئے نئی مثال ہیں


جہاں لوگ بٹن دبا کر سب کچھ حاصل کر لینا

چاہتے ہیںچاہے اس کے لئے اصول،ضمیر،رشتے ناطے یا پھر دیش کچھ بھی بیچنا پڑےیہ نیا ہندوستان

ایسے نئے لوگوں کے لئے ہی ہےہم لوگوں کی کلیان یو جنائیں تو کتابوں کے شیلف میں بند

ہو کر کسی لائبریری کی زینت بننے بھر ہیںوہ بھی اس لئے کہ آپ جیسے لوگ پاور حاصل کر

کے ہم جیسے دیش پریمیوں کو ہماری سیوا کے لئے پر سکرت اور سماّنت کر سکیں۔"  


               (ص؛۷۱۱۔۶۱۱)

       نسترن صاحبہ کی باریک بینی اور جرّات ہے

کہ انہوں نے کرپشن اور ریزرویشن جیسے حساّس موضوعات و مسائل کو اس ناول میں بڑی خوبصورتی

کے ساتھ پیش کر ڈالا ہے۔ساتھ ہی ہندوستانی معاشرے میں پھیلے ریزرویشن سسٹم کے برے اثرات

پر واضح تنقید بھی کی ہے۔ساتھ ہی ساتھ اس ناول میں عورتوں کے مسائل ، معاشرے میں اس

کی حیثیت تانیثیت کے اثرات پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔ناول کا نسوانی کردار میتا کی زندگی

کے مسائل قاری کو یہ سوچنے پر مجبور کر تے ہیں کہ کیا ہمارے معاشرے میں آج بھی عورتیں

آزاد ہیں ۔کیا انھیں ان کی مرضی اور خوشی سے اپنی زندگی کے فیصلے لینے کے اختیارات

ہیں؟؟میتا کی زندگی میں آئے مسائل اور اس کی سنگینی کو افشاں کرتا ہوا ایک اقتباس ناول

سے ملاحظہ ہو : 


"کلکتے کا اتنا

اچھا موسم چھوڑ کر صرف روزی روٹی کی خاطر وہ اس شدید سردی میں یہاںآنے پر مجبور ہوئی

ہےیا کوئی اور وجہوجہ تو ہے اس کا اپنا ٹیڑھا میڑھا دماغمگر وہ کیوں سب کی خوشی کی

خاطر زندگی بھر کے لئے ایک ایسی راہ گزر پر قدم رکھ لے جس کے لئے اس کا دل راغب نہیں

ہوتااسے کبھی یہ نہیں لگا کہ اسے شادی شدہ زندگی پسند نہیں اسے نفرت ہے تو جبر سے،تھوپے

گئے فیصلوں سےیا اس کی شخصیت کو بالکل نکار دینے سے اور آج کل گھر والے اس کے ساتھ

بالکل یہی کر رہے تھے کیوں کہ وہ ایک عورت تھیمگر وہ یوں زور زبر دستی سے جھکنے والی

نہیں تھی۔وہ اپنی بات صرف اس لئے منوانا چاہتی تھی کہ وہ غلط نہیں تھی۔"


اس بار اس کا دل اتنا مغموم اس لئے تھا

کہ وہ اپنے عزیزوں کو نا راض کر کے آئی تھی کاش وہ انھیں بتا پاتی کہ وہ ان سے کتنی

محبت کرتی ہے۔مگر محبت کی وہ قیمت نہیں دے سکتی،جو اس کے گھرانے کی پرمپرا ہےعورت جہان

بھی ہو ، جس مقام پر بھی ہو اس کے وجود کا پورا پورا احساس اور احترام بھی وہاں ہو."


                

(ص:۵۸۔۴۸)


       بہر حال ’لفٹ‘ اپنے پلاٹ، موضوع ،کردار

نگاری ، اسلوب ہر اعتبار سے ایک کامیاب اور دل چسپ ناول ہے۔مصنّفہ کی نثر سادہ سلیس

اور رواں دواں ہے۔کم لفظوں میں بڑی باتیں کہہ جانے کے فن سے بخوبی آشنا ہیں۔ ناول میں

جا بجا مارکس کے فلسفے کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔جس کا نمائندہ اجے ورما ہے۔ناول کے

متن مین حقیقت پر مبنی ضرب الامثال نے ناول کے حسن میں اضافہ کیا ہے۔چند مثالیں پیش

ہیں :


"آج کل اتنے کٹر اصول پرست انسان کسی پرانےفیشن کی طرح لوگوں کے دلوں سے اتر گئے ہیں“         (ص: ۳۵

"لالچی کے دیشمیں ٹھگ کبھی بھو کے نہیں مرتے"

             (ص:۸۵)

     "ابھی اس امید کی تہوں میں ہلکی سی نمی باقیہے۔"

            (ص:۰۶)

       درج بالا سطور کی روشنی سے بخوبی اندازہ

لگالا جا سکتا ہے کہ ناول موضوع کے ساتھ ساتھ زبان و بیان اورپلاٹ و کردار ہر اعتبار

سے بے حد کامیاب ہے۔


 

 لفٹ‘ عصر حاضر کا عکاّس"

ڈاکٹر رضوانہ پروین 

       نسترن احسن فتیحی آسمان فکشن پر ابھرتا

ہوا ستارا ہیں۔نسترن نے اپنے بنیادی سفر کی شروعات افسانہ نگاری سے کی۔ان

کا پہلا افسانہ ’تشنگی‘ کے عنوان سے ماہ نامہ شاعر ممبئی ۱۹۹۱ء میں شائع ہوا۔موصوفہ کے درجنوں افسانے

ہندو پاک کے مقتدر رسائل و جرائد کی زینت بنے۔افسانوں کے ساتھ ساتھ نسترن نے ناول بھی

لکھے ہیں۔ان کا پہلا ناول ’لفٹ‘ ۳۰۰۲ء میں منظر عام پر آےا اور مقبول عام ہوا۔جس

کا ثبوت یہ ہے کہ ’لفٹ‘ کا دوسرا ایڈیشن بھی ۷۱۰۲ءمیں ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاﺅس کے زیر اہتمام

طبع ہو کر مقبولیت عام حاصل کر رہا ہے۔مصنّفہ کا دوسرا ناول ’نوحہ گر‘ زیر اشاعت ہے۔                    

ناول ’لفٹ‘۱٨٠  صفحات پر مشتمل ہے۔ناول نگار نے اسے آٹھ

حصّوں میں منقسم کیا ہے،اور ہر باب کا ایک عنوان طے کیا ہے۔ہر عنوان کے اندر اشارے

پوشیدہ ہیں جس سے باب میں پیش آنے والے واقعات و حادثات کا اشارہ ملتا ہے۔ مثلًا چھٹے

باب کا عنوان دیکھیں ’جن کا دیں پیروی کذب و ریا ہے ان کو‘ (فیض) سے بہت کچھ اندازہ

ہو جاتا ہے کہ اگلے صفحات میں ناول کے رخ کو آگے بڑھا رہا ہے۔ مجھے اپنی اس بات کی

تائید کے لئے رولا بارتھ کا مشہور قول یہاں پیش کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔”جب ہم کہانی

لکھتے ہیں تو کہانی ہمیں لکھتی ہے“ پوری طرح صادق آتی ہے۔لفٹ ایک کیمپس ناول ہے۔اس

کا پلاٹ بالکل گٹھا ہوا اور واقعات ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ناول نگار نے اپنے اس ناول

میں یونیورسٹی کی خاص فضا ، ماحول اور مقام کو ملحوظ ترتیب رکھا ہے، جہاں وہ رہی ہیں۔مصنّفہ

نے اپنے تجربات و مشاہدات کو بڑی خوبصورتی اور فنّی صنّائی کے سا تھ ناول کے قالب میں

ڈھال دیا ہے۔اس ضمن میں مصنّفہ ناول کے ابتدائیہ میں کچھ یوں رقم طراز ہیں:                   


”آزادی کے بعدکی نئی نسل بالشتیوں کی جانشیں ہے اور

اپنا قد پانے کے لئے جائز و نا جائز سے گریز نہیں کرتی۔معلوم نہیں لفٹ کا کون سا بٹن

ا سے بلندیوں تک پہنچا دے۔۔۔۔لیکن ان جا نشینوں کو یہ نہیں معلوم کہ لفٹ کی پہنچ کی

ایک حد مقرر ہے۔“


       ناول کا عنوان ’لفٹ‘ ایک بلیغ اشاریہ کے

طور پر استعمال کیا گےا ہے۔’لفٹ‘ جس کے ذریعہ انسان اونچائیوں پر کم وقت میں پہنچ جاتا

ہے۔لفٹ ایک ایساسہارا، ایک مضبوط ذریعہ ہے جس کے سہارے انسان بغیر محنت کے کم وقت مین

آسانی سے منزلِ مقصود تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔یہ لفٹ دورِ جدید کی علامت نہیں

کہی جا سکتی ہے۔جہاں اس مشینی دورمیں ایک طرف ہر کام کو آسانی سے مکمل کرنے اور حاصل

کرنے کی چاہت نے انسان کو انسانیت کے بنیادی محّرک سے بہت بالا تر کر دیا ہے۔ٹھیک اسی

طرح انسان کے ضمیر پر بھی ان چیزوں نے کہیں نہ کہیں اپنے نقوش و اثرات ڈالے ہیں۔ بہر

حال یہ حقیقی امر ہے کہ نام اپنے اندر تاثر و وسعت رکھتا ہے،اسی طرح ’لفٹ‘ بھی ایک

دستوری وسعت کا متقاضی ہے۔                 

ناول ’لفٹ‘میں مصنّفہ نے کرپشن اور ریزرویشن

کو موضوع بنایا ہے۔اس ناول میں تعلیمی ادارے خصوصاًیونیور سٹی جیسے مہذب معیاری اور

اعلٰی تعلیمی مرکز میں پھیلی بد عنوانی کو اشاروں اشاروں میں بیان کر ڈالا ہے۔مصنّفہ

اپنے عہد کے انتشار ، سماجی برائیوں،زیادتیوں اور کج رویّوں پر نشانہ لگایا ہے۔لیکن

اس خوبی کے ساتھ کہ فن پر مقصدیت حاوی نہیں ہونے پایا ہے۔ہندوستان جیسے جمہوری ملک

میں ہر طبقے کو یکساں حقوق دئے جانے کی جہد میں جو اقدام اٹھائے گئے اس کا غلط استعمال

، رسوخ کے ذریعہ ترقی کر وانا،ریزرویشن کے بل بوتے اعلٰی مقام پر تقرری ان سب چیزوں

کے جو برے نتائج ہو رہے ہےں اس کی جانب ناول کے متن مین واضح اشارے موجود ہیں۔کس طرح

سے لائق فائق نوجوان بے روزگار رہ جاتے ہیں اور تنگ آکر اعٰلی تعلیم سے توبہ کر لیتے

ہیں۔کس طرح خواندہ اور نا خواندہ عورتوں کے حقوق کی پا ما لی ہمارے سماج میں عام بات

ہے۔مذکورہ بالا تمام نکات پر ناول میں روشنی ڈالی گئی ہے لیکن اس انداز میں کہ بس یوں

ہی سی کوئی بات کوئی واقعہ سرِ راہ گزر گیا ہو ۔لیکن یوں ہی سے تذکرے بھی اپنا تاثر

چھوڑنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔دراصل ناول نگار نے قاری کو اپنے مشاہدات و تجربات میں

اس طرح ساتھ کر لیا ہے کہ دوران ِ مطالعہ قاری یہ محسوس ہی نہیں کر پاتا کہ پیشِ نظر

واقعات و حادثات سے اس کی شناسائی نہیں ہے۔                   ناول میں مصنّفہ نے بڑی فن کاری کے ساتھ

صارفیت ذدہ تہذیب اور بد عنوانی جیسے جدید اور مہلک مرض کا انکشاف کیا ہے۔جن باتوں

کی جانب ناول میں اشارے کئے گئے ہیں۔اس کی واضح صورتیں ہمارے معاشرے میں موجود ہیں۔بہر

حال مصنّفہ کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے بد عنوانی جےسے مہلک مرض کا دائرہ یونیورسٹی

کے اندر تک دکھانا ہے لیکن اس کے اثرات سے کس طرح زندگیاں متاثر ہوتی ہیں اس کی جانب

واضح اشارے ضرور کر دئے ہیں۔بہر حال یو نیور سیٹیاں انسانوں کو انسان بنانے کی فیکٹریاں

جو ہیں۔جیسا فریم یا فرما ہوگا ویسی ہی چیز برآمد ہوگی۔                           ’لفٹ‘ ہندوستانی یونیورسٹی

کا البم ہے۔ناول نگار چونکہ خود اس ماحول و معاشرے کی فرد ہیں ۔ان کا واسطہ ایسے ہی

ماحول اور افراد سے پڑتا رہتا ہے۔جس کی واضح صورتیں ناول کے متن میں موجود ہیں۔ مصنّفہ

نے یونیورسٹی کیمپس ،اسٹاف،ہر درجے کے کارکنان ان کے رکھ رکھاواور مزاج ، ان کے افکار

آپسی تنازعات اور ذہنی و سیاسی تفریق وغیرہ کو حسن اسلوب کے ساتھ ہی ساتھ ناول میں

پیش کر دیا ہے۔ ساتھ ہی طلباءاور ریسرچ اسکالر کے مزاج ، ان کے مسائل وغیرہ کو جس باریکی

کے ساتھ پیش کیا گیا ہے وہ ایک یونیور سٹی استاد یا اس کیمپس سے تعلق رکھنے والا انسان

ہی کر سکتا ہے۔اس معاملے میں مصنّفہ نے اپنے تجربات و مشاہدات کو بر سرِ پیکار لا کر

ایک خوبصورت تخلیق ناول کی صورت میں اردو ادب کو دیا  ہے۔اس موضو ع پر اتنی وضاحت و سراحت کے ساتھ اب تک

اردو زبان میں کوئی ناول منظرِ عام پر نہیں آیا ہے۔البتّہ پروفیسر حسین الحق کے ناول

’بولو مت چپ رہو ‘ میں پرائمری و مڈل اسکول کی تعلیم اور سکنڈری لیول پر ایجوکیشن افسر

کی نوکر شاہی سے پھیلی بد نظمی کو بے نقاب ضرور کیا گیا ہے،لیکن اس کی نوعیت دیگر ہے

اور  ساتھ ہی

اس کا ٹریٹ منٹ بھی مختلف ہے۔اس ضمن میں یونیورسٹی کیمپس کے ماحول میں پھیلی بد عنوانی

،سیاسی الٹ پھیر اور مفاد پرستی وغیرہ پر مبنی اقتباسات پیش ہیں              


”اجے کو آج اس خبر پر یقین ہو گیا تھا کہ اس یونیورسٹی

کے اندر کچھ لوگ ایڈمیشن اور اپائنمنٹ کے نام پر بڑے گھناونے کھیل کھیل رہے ہیں اور

کچھ معصوم لوگوں کو جھوٹے سبز باغ دکھا کر ان کی استعداد کے لحاظ سے ان کی جیب ہلکی

کروا لیتے ہیں۔جو جتنا دے سکنے کا اہل ہوتا ہے اس سے اتنی موٹی رقم وصول کر لی جاتی

ہےایسے لوگوں کو کون بچا سکتا ہے جو خود ڈوبنے کو تیار بیٹھے ہوں۔اجے ورما کو لگا بڑا

بابو ایک بار پھر انھیں اس خلش سے دو چار کر گئے ہیں جس میں وہ اپنی ہر ملاقات کے بعد

کر جاتے ہیں۔“            


               (ص:۴۸۔۳۸)

”یہ آپ کا اور میرا سے کیا مراد ہے۔ہر جگہ آ پ لوگ

ہی تو اس فرق پر زور دیتے ہیں پھر شکایت کرتے ہیں جب ہم سے خود کو الگ نہیں سمجھتے

تو الگ ہوتے کیوں ہیں۔“


"الگ ہوتے نہیں

جناب ، ہر لمحہ ہمیں یہ باور کراےا جاتا ہے کہ ہم الگ ہیں " ملک صاحب تلخ ہونے

لگے۔


"ارے آپ لوگ

یہ کیسی بچکانہ بحث میں پڑ جاتے ہیں۔اگر اس سطح پر بھی ایسی سوچ کارفرما ہوگی تو اس

ملک کا کیا ہوگاکیا آپ لوگ کبھی اس ملک کو ایک اسٹیبل گورنمنٹ دے پائیں گے“اشوک نے

دخل اندازی کر تے ہوئے گرم ہوتے ہوئے رخ کو موڑنا چاہا۔


"مجھے بھی یہ

سوچ کر افسوس ہو رہا ہے کہ چوپڑا صاحب جیسے لوگ بھی ایسی تنگ نظری سے کام لے ر ہے ہیں۔یہی

وجہ ہے کہ ووٹ ٹکڑوں میں بٹ کر خودغرضوں کی جھولی میں جاتے ہیں“ملک صاحب کے لہجے میں

تاسف تھا۔


                  

(ص: ۶۲۱)


       ناول ’لفٹ‘ میں کرداروں کی بہتات ہے۔سبھی

کردار یونیورسٹی کیمپس سے تعلق رکھتے ہیں۔تمام کرداروں کا الگ الگ طبقے سے تعلق ہونے

کے باوجود بھی ان میں کچھ باتیں مشترک ہیں۔مثلًا ان سب کا تعلق اسی ادارے سے ہے۔سب

تعلیم یافتہ ہیں۔سبھی کردار کسی نہ کسی طرح یونیورسٹی سے جڑے معاش کی تلاش میں تگ و

دو کرتے اپنی زندگی کے شب و روز گزار رہے ہیں۔بہر حال ناول کا مرکزی کردار اجے ورما

ہیں ۔وہ ایک ایماندار انسان ہیں اور مارکس کے فلسفے کو مانتے ہیں۔ ایسے کردار اس بات

کی علامت ہیں کہ آج بھی اس دنیا میں سچّائی اور اچھّائی باقی ہے۔                           


اس ناول میں مکالموں ،فقروں کرداروں اور

فضا آفرینی وغیرہ نے مل کر ایسی صورت پیدا کی ہے جس سے یونیورسٹی کیمپس تہذیب پوری

طرح عیاں ہوتی ہے، اور قاری کو دوران مطالعہ کہیں بھی کوئی بات نا مناسب یا چونکانے

والی معلوم نہیں ہوتی۔’لفٹ‘ میں ان ہی باتوں اور واقعات کا ذکر آیا ہے جو اس ملک کی

یونیور سٹی تہذیب کا حصّہ ہیں۔’زر ،زور، ذریعہ برابر ترّقی‘ ۔یہی فارمولا ہے آج ترّقی

پانے کا باقی ساری محنتیں اور کوششیں کچھوئے کی چال اور اس کی ڈھال معلوم ہوتی ہیں،جو

بظاہر تو آگے بڑھتا ہے لیکن لمبا وقفہ اس انتظار میں گزر جاتا ہے کہ اب تر قی ہو ،اب

نوکری لگے۔ناول میں ان حالات سے دو چار ہوئے کئی کردار ہیں جن میں میتا اور راجیش(ریسرچ

اسکالر) ہیں۔ان دونوں کو محنت اور ذاتی قا بلیت کے باوجود بہت برے حالات کا سامنا کرنا

پڑتا ہے۔ اجے ورما اپنے شاگردوں کو گاہے گاہے نیک مشورے اور حوصلے دیتے رہتے ہیں جو

ان کے لئے زادِراہ ثابت ہوتی ہیں حالات کے تئیں ان کی فکر مندی اور مشورے سے لبریزایک

اقتباس ملاحظہ ہو      


"تم نوجوانوں کو بہت کچھ کرنا چاہئے ۔ان

مسائل پر قابو پانے کے لئے تم لوگوں کو آگے بڑھ کر کچھ کرنا چاہئے۔بہت مواقع ہیں کام

کرنے کے اگر جذبہ ہواخراجات اور آمدنی کے اعتبار سے ہماری دنےا متوازن ہو چکی ہے۔یہ

قلیل مدتی بحران طویل بحران کا ہی حصّہ ہے۔اور سب سے افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے حکمراں

اپنی آسائشوں میں ایسے گم ہیں کہ اگر ہم ہندوستان کی تاریخ مرتب کریں تو ان لیڈران

کی چالاکی کے ساتھ فیاضانہ جائز انتقاع کی مکمل سر گزشت پیش کر سکتے ہیں۔آج کے حکمراں

سیاسی چالبازیاں،خودغرضی،خودنمائی اور خود پرستی کی تاریخ اپنے پیچھے چھوڑ کر جانے

والے ہیں۔"


راجیش کو لگا اجے ورما بولتے بولتے کسی

قلبی انتشار کی کیفیت میں مبتلا ہو گئے ہیںاگر ذات کے غم پر زمانے کا غم حاوی ہو جائے

تو انسان کا قد کتنا بلند ہو جاتا ہے۔


               (ص:۴۷)

"سرمیں سیکشن

آفیسر ہو گیا ہوں اس لئے پرموشن کے ساتھ ساتھ ٹرانسفر بھی ملنے والا ہے۔ابھی آرڈر نہیں

آیا ہے دس پندرہ دنوں میں آجائے گا."ایک بار پھر اجے ورما کے حیران ہونے کی باری

تھی۔نیک رام کی یہ ترّقی ان کے سامنے سماج کی ان بے راہ رویّوں کی مثال تھیجو ایک سیدھے

راستے پر چلنے والے انسان کی حق تلفی کی صورت میں سامنے آتی تھیںاجے کو لگا نیک رام

کے قدموں کے نیچے کامیابی کی یہ غلط سیڑھیاں لگانے کے ذمہ دار وہ خود ہیں کوئی دوسرا

نہیں۔


"اب سر آپ تو

شائد میرا مذاق اڑا رہے ہیں۔“اس نے بڑی بے شرمی سے دانت نکال کر کہاآپ لوگ تو اس نئے

ہندوستان کے لئے نئی مثال ہیں


جہاں لوگ بٹن دبا کر سب کچھ حاصل کر لینا

چاہتے ہیںچاہے اس کے لئے اصول،ضمیر،رشتے ناطے یا پھر دیش کچھ بھی بیچنا پڑےیہ نیا ہندوستان

ایسے نئے لوگوں کے لئے ہی ہےہم لوگوں کی کلیان یو جنائیں تو کتابوں کے شیلف میں بند

ہو کر کسی لائبریری کی زینت بننے بھر ہیںوہ بھی اس لئے کہ آپ جیسے لوگ پاور حاصل کر

کے ہم جیسے دیش پریمیوں کو ہماری سیوا کے لئے پر سکرت اور سماّنت کر سکیں۔"  


               (ص؛۷۱۱۔۶۱۱)

       نسترن صاحبہ کی باریک بینی اور جرّات ہے

کہ انہوں نے کرپشن اور ریزرویشن جیسے حساّس موضوعات و مسائل کو اس ناول میں بڑی خوبصورتی

کے ساتھ پیش کر ڈالا ہے۔ساتھ ہی ہندوستانی معاشرے میں پھیلے ریزرویشن سسٹم کے برے اثرات

پر واضح تنقید بھی کی ہے۔ساتھ ہی ساتھ اس ناول میں عورتوں کے مسائل ، معاشرے میں اس

کی حیثیت تانیثیت کے اثرات پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔ناول کا نسوانی کردار میتا کی زندگی

کے مسائل قاری کو یہ سوچنے پر مجبور کر تے ہیں کہ کیا ہمارے معاشرے میں آج بھی عورتیں

آزاد ہیں ۔کیا انھیں ان کی مرضی اور خوشی سے اپنی زندگی کے فیصلے لینے کے اختیارات

ہیں؟؟میتا کی زندگی میں آئے مسائل اور اس کی سنگینی کو افشاں کرتا ہوا ایک اقتباس ناول

سے ملاحظہ ہو : 


"کلکتے کا اتنا

اچھا موسم چھوڑ کر صرف روزی روٹی کی خاطر وہ اس شدید سردی میں یہاںآنے پر مجبور ہوئی

ہےیا کوئی اور وجہوجہ تو ہے اس کا اپنا ٹیڑھا میڑھا دماغمگر وہ کیوں سب کی خوشی کی

خاطر زندگی بھر کے لئے ایک ایسی راہ گزر پر قدم رکھ لے جس کے لئے اس کا دل راغب نہیں

ہوتااسے کبھی یہ نہیں لگا کہ اسے شادی شدہ زندگی پسند نہیں اسے نفرت ہے تو جبر سے،تھوپے

گئے فیصلوں سےیا اس کی شخصیت کو بالکل نکار دینے سے اور آج کل گھر والے اس کے ساتھ

بالکل یہی کر رہے تھے کیوں کہ وہ ایک عورت تھیمگر وہ یوں زور زبر دستی سے جھکنے والی

نہیں تھی۔وہ اپنی بات صرف اس لئے منوانا چاہتی تھی کہ وہ غلط نہیں تھی۔"


اس بار اس کا دل اتنا مغموم اس لئے تھا

کہ وہ اپنے عزیزوں کو نا راض کر کے آئی تھی کاش وہ انھیں بتا پاتی کہ وہ ان سے کتنی

محبت کرتی ہے۔مگر محبت کی وہ قیمت نہیں دے سکتی،جو اس کے گھرانے کی پرمپرا ہےعورت جہان

بھی ہو ، جس مقام پر بھی ہو اس کے وجود کا پورا پورا احساس اور احترام بھی وہاں ہو."


                

(ص:۵۸۔۴۸)


       بہر حال ’لفٹ‘ اپنے پلاٹ، موضوع ،کردار

نگاری ، اسلوب ہر اعتبار سے ایک کامیاب اور دل چسپ ناول ہے۔مصنّفہ کی نثر سادہ سلیس

اور رواں دواں ہے۔کم لفظوں میں بڑی باتیں کہہ جانے کے فن سے بخوبی آشنا ہیں۔ ناول میں

جا بجا مارکس کے فلسفے کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔جس کا نمائندہ اجے ورما ہے۔ناول کے

متن مین حقیقت پر مبنی ضرب الامثال نے ناول کے حسن میں اضافہ کیا ہے۔چند مثالیں پیش

ہیں :


"آج کل اتنے کٹر اصول پرست انسان کسی پرانےفیشن کی طرح لوگوں کے دلوں سے اتر گئے ہیں“         (ص: ۳۵

"لالچی کے دیشمیں ٹھگ کبھی بھو کے نہیں مرتے"

             (ص:۸۵)

     "ابھی اس امید کی تہوں میں ہلکی سی نمی باقیہے۔"

            (ص:۰۶)

       درج بالا سطور کی روشنی سے بخوبی اندازہ

لگالا جا سکتا ہے کہ ناول موضوع کے ساتھ ساتھ زبان و بیان اورپلاٹ و کردار ہر اعتبار

سے بے حد کامیاب ہے۔


خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024