بے خواب آنکھوں، خاموش ہونٹوں اور ساکت دلوں سے مکالمہ

بے خواب آنکھوں، خاموش ہونٹوں اور ساکت دلوں سے مکالمہ

Apr 23, 2021

ایک سچی کتھا

مصنف

طاہرہ کاظمی

شمارہ

شمارہ - ١٢

بے خواب آنکھوں، خاموش ہونٹوں اور ساکت دلوں سے مکالمہ

طاہرہ کاظمی

.............

کیا نام ہو گا اس کا؟ بشیر؟ ناصر؟ احمد یا کامران؟

‎کس پیشے سے تعلق رکھتا ہو گا؟ درزی؟ چھابڑی فروش؟ گداگر؟ موچی؟ کسان؟ یانشہ گزیدہ آوارہ گرد؟

‎ہم زندگی کی جس بھی سیڑھی پہ کامرانی کے جھنڈے گاڑیں، اس میں ہماری دنرات کی ریاضت کے ساتھ ساتھ کسی اور کی بے لوث قربانیوں کا لہو بھیشامل ہوتا ہے۔

‎نہ جانے یہ خیال در دل سے اس وقت ہی کیوں ٹکراتا ہے جب آپریشن تھیٹرمیں تیز روشنی کے نیچے کھڑے ہو کے منہ پہ نقاب پہنے، آنکھوں کی پتلیوں کوساکت کیے ہاتھ میں تیز دھار نشتر تھامے ہم کسی کے بدن کو چیر دیتے ہیں۔

‎خون کا فوارہ بلند ہوتا ہے اور پھر پرت سے پرت علیحدہ ہوتی چلی جاتی ہے۔جیتے جاگتے انسان کے جسم سے کھیلنے کی یہ بے خوفی، نڈر پن اوراعتماد ایک آدھ دن کی بات نہیں، ربع صدی کا قصہ ہے۔ اور اس کی نیو اس دن رکھی گئی تھی جب ہم میڈیکل کالج میں داخل ہوئے۔

‎کالج میں دوسرا تیسرا دن تھا کہ ہدایت ملی اناٹومی ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے بلاواہے اور ایک ہال میں اکھٹے ہونا ہے۔ داخل ہونے سے پہلے کچھ اندازہ نہیں تھاکہ کیا منظر سامنے ہو گا۔

‎قد آدم کھڑکیوں سے سنہری دھوپ چھن چھن کے ایک وسیع وعریض ہال میں پھیلتی تھی اور کچھ سنولائے ہوئے چہروں پہ اجالا بکھیرتی تھی۔ ہال میں موت سی خاموشی پھیل رہی تھی۔ کچھ ملازم بے تاثر چہروں سے ادھر ادھر گھوم رہے تھے۔ ہال میں بیس میزیں بچھی تھیں اور وہ وہاں تھے، ان میزوں پہ دراز،بے چینی سے منتظر!

‎ان سب چلبلی، نوجوان، قہقہے لگاتی، اونچی آواز میں باتیں کرتی، اپنے آپ پہ نازاں لڑکیوں کے چہروں سے زندگی کے ایک نئے سفر کے آغاز کی مسرت چھلکتی تھی اور مقابلے میں جیت کے میڈیکل کالج میں داخل ہونے کا غرور

‎سب کے چہروں سے عیاں تھا!

‎وہ ساکت و جامد تھے، اپنی خاموشی میں

‎گم، بچھڑ جانے والوں کا غم، گمنامی کی اداسی اور بے نام رہنے کی تلخی چہرےسے جھلکتی تھی۔ وہ یہاں اپنی مرضی سے نہیں آئے تھے۔ اپنے پیاروں کےطویل انتظار کے بعد مایوسی زاد راہ بنی تھی اور مندی ہوئی آنکھوں میں امید کی جوت بجھ گئی تھی۔ انہوں نے قسمت کے پھیر کے آگے ہتھیار ڈال دیےتھے۔ نہ دو گز زمین نصیب میں تھی اور نہ ہی کسی درد ناک تحریر کے ساتھ فلاں ابن فلاں والا کتبہ مقدر میں تھا۔

‎ان کا انجام تو ان چلبلی، شوخ، بے نیاز اور انجان لڑکیوں کے ہاتھ میں دیا جاچکا تھا۔ خاموش لب اور بے نور آنکھیں اور ساکت چہرے ہماری راہ تکتےتھے۔

‎لیکچرر کی آواز ہال میں گونج رہی تھی، ”ہر مردہ بنیادی طور پہ چار حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، سر اور گردن، بازو اور ہاتھ، چھاتی اور پیٹ، ٹانگ اورپاؤں۔ ہر حصہ چار لوگوں کو الاٹ کیا جائے گا۔ آپ نے ہر حصے کو تفصیلاچھیلنا ہے، پرت در پرت۔ ہر طالبہ کے پاس اپنے اوزار ہونے چاہیں، جن میں تیز چاقو، قینچی اور پکڑنے والے فورسیپس شامل ہیں۔

‎چھیلنے کا آغاز جلد اتارنے سے ہو گا۔ جلد اتارنے کے بعد چربی اتاری جائےگی، اس کے نیچے جو وریدیں، شریانیں اور مسلز ہوں گے، ان سب کو آہستہ آہستہ کاٹا جائے گا۔ وریدیں شریانیں اور اعصاب کہاں سے شروع ہوتے ہیں اور کہاں ختم، دیکھا جائے گا۔ ہر مسل، ہر شریان اور ورید کا ایک نام ہے وہ نام کتاب سے ساتھ ساتھ پڑھ کے یاد کرنا ہے۔

‎جب مسلز اور باقی سب کچھ کٹ جائے گا تو ہڈیاں نکل آئیں گی۔ تب مختلف جوڑوں کو کاٹا جائے گا یہ جاننے کے لئے کہ کون سی ہڈی کس سے مل کے جوڑبناتی ہے۔

‎جوڑوں کے کٹنے کے بعد نکل آنے والی ہڈیاں آپ لوگوں کے پڑھنے کے کام آئیں گی۔ جو لوگ چھاتی، پیٹ اور کھوپڑی کاٹیں گے، وہ اندرونی اعضا کوقسطوں میں باہر نکالیں گے اور سب اعضا کیسے ایک دوسرے سے جڑے ہوتےہیں وہ ملاحظہ کریں گے۔

‎ آج ڈائسیکشن کے بعد ہم آپ کو پرانے مردوں سے نکالی جانے والی ہڈیاں الاٹ کریں گے۔ وہ آپ گھر لے جا کے پڑھ سکیں گی۔ سیشن ختم ہونے کےبعد وہ ہڈیاں آپ کو واپس کرنی ہوں گی“

‎زرد رنگت، باہر کو ابلتی پھٹی پھٹی آنکھیں، کانپتے ہونٹ، لرزتے ہوئے ہاتھ پاؤں، تیز سانسیں، بے ترتیب ہوتی دل کی دھڑکن، ہوائیاں اڑتے چہرے!

‎کیا یہ وہی شوخ چلبلی لڑکیاں تھیں جو کچھ دیر پہلے ڈائسیکشن ہال میں داخل ہوئی تھیں۔

‎بیس میزیں اور ان پہ لیٹی ہوئی بیس لاشیں! سوکھے ہوئے استخوانی جسم، ہڈیوں پہ منڈھی ہوئی جلد، سیاہی مائل رنگت، زمانے کے جبر و استبداد پہ نوحہ کناں اورہم ان کے سرہانے کھڑے ہاتھ میں چاقو تھامے، سوچوں کے ہجوم میں گھرے،اس لاش کے انجام پہ دل گرفتہ اپنے آپ کو تسلی دیتے کہ یہ سب ہمارےنصاب کا حصہ ہے۔

‎ہمیں اور ہماری دوست فرزانہ کو پہلی لاش میں بازو اور ہاتھ الاٹ ہوا۔

‎ہر مردے کا ایک نمبر تھا اور ہر دفعہ ہم نے اپنے ”مردے“ کو وہیں سے کاٹنا اورچھیلنا شروع کرنا تھا جہاں سے سلسلہ پچھلے دنوں میں منقطع ہوا ہوتا۔

‎ہم نے اپنے حصے میں آنے والے مردے کو بغور دیکھا، چالیس پینتالیس کا سن،سر اور داڑھی کے چھدرے بال، کہیں سیاہی، کہیں سفیدی، کمزور فاقہ زدہ جسم،مدقوق چہرہ اور لب ایک دوسرے میں پیوست۔

‎ہم نے سرہانے کھڑے ہو کے سرگوشی کی،

‎کیا نام ہو گا تمہارا؟ بشیر؟ رضوان؟

‎یاسر؟مختار یا احمد؟

‎کیا کام کرتے ہو گے تم؟مزدور؟ ڈرائیور؟ ریڑھی بان؟ گداگر؟ نشئی؟ یا کسی دفترمیں کلرک؟

‎کیسا گھر ہو گا تمہارا؟ کسی کوٹھی کا سرونٹ کواٹر؟ کسی کچی بستی میں ٹپکتی چھتوالی جھگی؟ کسی محلے میں چھوٹا سا مکان؟ یا کسی پل کے نیچے بچھی ہوئی چٹائی؟

‎خاندان میں کون کون ہوگا؟ آنگن میں کھیلتے بچے؟ دروازے پہ کھڑی منتظر غمگسار رفیق حیات؟ بچپن کے ساتھی بہن بھائی؟ شام کو ڈھابے پہ بیٹھ کے چائےکی چسکیاں لیتے اور ہنس ہنس کے پاگل ہوتے دوست؟

‎مہربان چھتر چھایا سے ماں باپ؟ نہ معلوم ہوں گے یا شاید پہلے سے چل بسےہوں۔

‎تمہاری موت کیسے واقع ہوئی ہو گی؟ سڑک پار کرتے ہوئے گاڑی سے ٹکرا کے،ویگن میں بیٹھے ہوئے ایکسڈینٹ، کسی گلی میں ننگا بجلی کا کرنٹ، نشہ آور دواؤںکی زیادہ ڈوز، بارش میں کڑکتی بجلی، یا پھر زندگی کی مایوسیوں سے تھک ہار کے خودکشی؟

‎تم کسی ہسپتال میں لائے گئے ہو گے۔ بے یار و مددگار، بے کسی اور بیچارگی تمہارے چہرے پہ لکھی ہو گی، تمہاری سانسیں ڈوبتی ہوں گی۔

‎منتظر آنکھیں دروازے کی طرف دیکھتی ہوں گی کہ شاید کوئی آخری لمحات میں ہاتھ تھامنے کے لئے آن پہنچے۔ بے ترتیب دھڑکنوں میں بھلا تم کیا سوچتے ہوگے؟

‎یہ کیسا انت ہوا اس بے رحم دنیا میں، اپنے پیاروں کو ملے بنا، دیکھے بنا رخصت ہو رہا ہوں۔ نہ جانے وہ کیسے جئیں گے؟ اماں کی دوا لانی تھی آج اور گھر میں آٹا بھی تو ختم تھا۔ اور وہ پپو کی گیند اور رانی کی گڑیا، رات ہی تو وعدہ کیا تھاان سے۔ اوہ خدایا کیسے جئیں گے وہ لوگ؟

‎نہ جانے جان بھی پائیں گے کہ نہیں کہ میں یونہی کسی سڑک پہ چلتے چلتے چل بسا۔ شناختی کارڈ تو ہے نہیں میری جیب میں۔ اور وہ نسرین، مجھے نہ پا کے کیسےجلے پاؤں کی بلی کی طرح گھومے گی۔ کیسے ڈھونڈ پائے گی مجھے؟

‎یہی سوچتے سوچتے تم نے آخری ہچکی لی ہو گی اور نرس نے تمہارا چہرہ ڈھک دیاہو گا۔

‎اس دن شام کو نسرین بار بار دروازے پہ جاتی ہوگی اور دل ہی دل میں فکر مندہوتے ہوئے کہتی ہو گی، پہلے تو لوٹنے میں کبھی اتنی دیر نہیں کی۔

‎ تمہاری ماں نسرین کو اپنے بستر سے آواز لگاتی ہو گی، کیا آیا نہیں ابھی تک؟ پپواور رانی نسرین کا پلو کھینچتے ہوں گے، اماں ابا کب آئے گا؟ ہماری گیند اور گڑیالائے گا نا۔

‎شام سے رات ہو گئی ہو گی۔ گھر میں شام غریباں سا سناٹا ہو گا۔ اماں کی آہیں اور نسرین کی دبی دبی سسکیاں سن کے آسمان کے تارے بھی بدلیوں میں چھپ جاتے ہوں گے۔ اگلی صبح جیسی تاریک صبح کوئی نہیں ہو گی۔ تمہیں کہاں جا کے ڈھونڈوں؟ نسرین سوچتی ہو گی۔

‎ہسپتال کے مردہ خانے کے فریزر میں تمہاری یخ بستہ لاش دن گنتی ہو گی کہ شایدکبھی کسی دن کوئی تمہارا نام پتہ پا لے۔ اخبارات میں گمنام لاش کا ٹھپہ،تمہارے نام اور شناخت سے بدل جائے۔ لیکن غریبوں کی بستیوں میں زندگی گزارنے والے اخبار کہاں پڑھا کرتے ہیں۔

‎کچھ بھی تو نہ ہو سکا!

‎نہ تمہاری شناخت ہو سکی، نہ نسرین تمہیں ڈھونڈ سکی، نہ اماں کی بوڑھی منتظرآنکھوں کا کرب ختم ہو سکا، نہ پپو اور گڑیا کے آنسو تھم سکے۔

‎نہ تمہیں دو گز زمین مل سکی، نہ اجلا کفن نصیب ہو سکا، نہ ہی تم پھولوں کے ہارپہنے لوگوں کے کندھوں پہ سوار اپنی ابدی آرام گاہ کی طرف جا سکے۔

‎اے گمنام آدمی، یہ سب تو نہ ہو سکا مگر وہ ہو گیا جو تم نے کبھی سوچا بھی نہیں ہو گا۔ تم ہسپتال کے فریزر میں کچھ ماہ رہنے کے بعد میڈیکل کالج کے فریزر تک آن پہنچے۔ تمہیں دوائیوں کا غسل دیا گیا کہ اعضا گلنے سڑنے سے محفوظ رہیں۔اور اب تم برہنہ حالت میں ایک میز پہ دراز ہو جہاں مستقبل کی ڈاکٹر تمہاراجسم انچ انچ کھول کے دیکھیں گی۔

‎تمہارے ساتھ روزانہ دو گھنٹے گزاریں گی۔ تمہیں آہستہ آہستہ چھیلیں گی، ابتدا میں ابکائیاں لیں گی۔ تمہاری بے بسی پہ ترس کھاتے ہوئے آنکھ میں آنسو بھریں گی،دل بھاری ہو گا، بھوک پیاس اڑ جائے گی، ہنستے لب خاموش ہو جائیں گے۔

‎ لیکن کچھ ہی دنوں میں تم ایک مانوس اجنبی کا روپ دھار لو گے۔ ایک ایساکردار بن جاؤ گے جو اس مشق ستم کے لئے در دل وا کیے بیٹھا ہے۔ پھر یہ معمول ہو جائے گا کہ یہ لڑکیاں تمہارے جسم کو ریزہ ریزہ تو کریں گی لیکن ساتھ ساتھ میں باتیں بھی کریں گی، ہنسیں گی اور مستقبل کے منصوبے بنائیں گی۔

‎ انارکلی اور لبرٹی سے شاپنگ، ریگل کے دہی بھلے، چمن کی آئس کریم کھانےکے پروگرام سوچیں گی۔ اور کبھی کبھی لیکچرر کی نظر بچا کے اپنے چائے کا مگ چھپا کے ہال کے اندر لا کے مزے سے چسکیاں بھریں گی۔

‎تم اپنی بے نور آنکھوں سے یہ سب دیکھتے دیکھتے ایک مردے کی بھیانک اور کریہہ حقیقت سے ایک چیز میں بدل جاؤ گے، ایک روزمرہ کی چیز۔ تمہارے جسم سےجو کچھ بھی اترے گا وہ میز کے نیچے رکھی بالٹی میں ڈال دیا جائے گا۔ اور بعد میں ہر میز کی بالٹی کے سامان کا منتظر ایک گڑھا ہو گا جو کالج کے وسیع وعریض گراؤنڈ میں کہیں کھودا جائے گا۔

‎سو دیکھا تم نے، تم کہیں نہیں ہو گے لیکن تم ہر جگہ ہو گے، جگہ جگہ کھدےمقامات کی مٹی میں مٹی بنتے ہوئے۔ تمہاری کھوپڑی اور تمہارے جسم کی ہڈیاں نہ جانے کتنے ہاتھوں میں رہیں گی، تم نہ جانے کس کس گھر میں جاؤ گے۔

‎اور شاید کسی گھر میں رانی کسی مستقبل کی ڈاکٹر کے کمرے کی جھاڑ پونچھ کرتےہوئے تمہاری کھوپڑی دیکھ کے سوچے، یہ چھوٹی بی بی بھی نہ جانے کیا کچھ لےآتی ہیں کالج سے۔ لیکن مجھے اس کھوپڑی سے خوف کیوں نہیں آتا؟

‎میرا جی کیوں چاہتا ہے کہ میں اس کھوپڑی کو ایک بوسہ دے دوں اور اسے ہاتھ میں تھام کے ایک دفعہ گلے سے لگا کے اتنا روؤں کہ میرے آنسو اس خشکب ھربھری ہوتی کھوپڑی کو بھگو دیں۔

‎میں گھر جا کے اماں کو بتاؤں گی کہ مجھے ہڈیوں سے خوشبو آتی ہے۔ اماں جو آج بھی ابا کی راہ تکتی ہے اور ہر آہٹ پہ چونک چونک جاتی ہے۔ نہ جانے کتنےبرس ہو گئے لیکن ابھی بھی راتوں میں ہڑبڑا کے اٹھ بیٹھتی ہے۔ دادی تو کب کی گزر چکی، مرتے دم اس کی آنکھیں بھی دروازے سے ہی لگی تھیں۔

‎نہ جانے ابا کہاں گیا؟

‎صاحب، ہم نے ان مردہ لاشوں کے ساتھ دو سال بتائے۔ جب بھی ایک مردہ ریزہ ریزہ ہو کے ختم ہو جاتا، ایک نئی مردہ لاش ہمیں الاٹ کر دی جاتی۔ جس کاجسم ابھی سوکھ کے لکڑی نہ بنا ہوتا، جس کے ہونٹوں کے گوشوں پہ ہلکی سی مسکان نظر آتی۔ ہم ہر نئی لاش پہ اپنا دل مسوستے لیکن پھر کچھ ہی دنوں میں نئی لاش پرانی ہو کے قصہ پارینہ بن جاتی اور ہم آگے بڑھ جاتے۔

‎زندگی کی سیڑھیاں پھلانگتے ہوئے جب ہم اس مقام پہ آن پہنچے ہیں کہ نشتر ہاتھ میں تھامے، زندہ انسانی جسم کی بال برابر پرت کو نفاست سے کاٹ کے علیحدہ کر سکتے ہیں اور جوڑ کے سی بھی سکتے ہیں۔

‎تو وہ تمام چہرے در دل پہ دستک دیتے ہیں جن کے جسموں پہ بنا کسی خوف وخدشے کے ہم نے نشتر چلایا اور انسانی جسم کے وہ رموز سمجھے جو ہم تصویروں سے کبھی نہ جان پاتے۔

‎سو اے بشیر، یا بدر، یا خاور، یا احسان! تم گمنامی میں تاریک راہوں پہ اجل کے

‎ساتھ ہو لئے لیکن ہم جیسوں کی زندگی میں اجالا کر گئے۔

‎ہمارے ہاتھوں ریزہ ریزہ ہو کے بکھر جانے پہ تمہیں ہمارا سلام!

بے خواب آنکھوں، خاموش ہونٹوں اور ساکت دلوں سے مکالمہ

طاہرہ کاظمی

.............

کیا نام ہو گا اس کا؟ بشیر؟ ناصر؟ احمد یا کامران؟

‎کس پیشے سے تعلق رکھتا ہو گا؟ درزی؟ چھابڑی فروش؟ گداگر؟ موچی؟ کسان؟ یانشہ گزیدہ آوارہ گرد؟

‎ہم زندگی کی جس بھی سیڑھی پہ کامرانی کے جھنڈے گاڑیں، اس میں ہماری دنرات کی ریاضت کے ساتھ ساتھ کسی اور کی بے لوث قربانیوں کا لہو بھیشامل ہوتا ہے۔

‎نہ جانے یہ خیال در دل سے اس وقت ہی کیوں ٹکراتا ہے جب آپریشن تھیٹرمیں تیز روشنی کے نیچے کھڑے ہو کے منہ پہ نقاب پہنے، آنکھوں کی پتلیوں کوساکت کیے ہاتھ میں تیز دھار نشتر تھامے ہم کسی کے بدن کو چیر دیتے ہیں۔

‎خون کا فوارہ بلند ہوتا ہے اور پھر پرت سے پرت علیحدہ ہوتی چلی جاتی ہے۔جیتے جاگتے انسان کے جسم سے کھیلنے کی یہ بے خوفی، نڈر پن اوراعتماد ایک آدھ دن کی بات نہیں، ربع صدی کا قصہ ہے۔ اور اس کی نیو اس دن رکھی گئی تھی جب ہم میڈیکل کالج میں داخل ہوئے۔

‎کالج میں دوسرا تیسرا دن تھا کہ ہدایت ملی اناٹومی ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے بلاواہے اور ایک ہال میں اکھٹے ہونا ہے۔ داخل ہونے سے پہلے کچھ اندازہ نہیں تھاکہ کیا منظر سامنے ہو گا۔

‎قد آدم کھڑکیوں سے سنہری دھوپ چھن چھن کے ایک وسیع وعریض ہال میں پھیلتی تھی اور کچھ سنولائے ہوئے چہروں پہ اجالا بکھیرتی تھی۔ ہال میں موت سی خاموشی پھیل رہی تھی۔ کچھ ملازم بے تاثر چہروں سے ادھر ادھر گھوم رہے تھے۔ ہال میں بیس میزیں بچھی تھیں اور وہ وہاں تھے، ان میزوں پہ دراز،بے چینی سے منتظر!

‎ان سب چلبلی، نوجوان، قہقہے لگاتی، اونچی آواز میں باتیں کرتی، اپنے آپ پہ نازاں لڑکیوں کے چہروں سے زندگی کے ایک نئے سفر کے آغاز کی مسرت چھلکتی تھی اور مقابلے میں جیت کے میڈیکل کالج میں داخل ہونے کا غرور

‎سب کے چہروں سے عیاں تھا!

‎وہ ساکت و جامد تھے، اپنی خاموشی میں

‎گم، بچھڑ جانے والوں کا غم، گمنامی کی اداسی اور بے نام رہنے کی تلخی چہرےسے جھلکتی تھی۔ وہ یہاں اپنی مرضی سے نہیں آئے تھے۔ اپنے پیاروں کےطویل انتظار کے بعد مایوسی زاد راہ بنی تھی اور مندی ہوئی آنکھوں میں امید کی جوت بجھ گئی تھی۔ انہوں نے قسمت کے پھیر کے آگے ہتھیار ڈال دیےتھے۔ نہ دو گز زمین نصیب میں تھی اور نہ ہی کسی درد ناک تحریر کے ساتھ فلاں ابن فلاں والا کتبہ مقدر میں تھا۔

‎ان کا انجام تو ان چلبلی، شوخ، بے نیاز اور انجان لڑکیوں کے ہاتھ میں دیا جاچکا تھا۔ خاموش لب اور بے نور آنکھیں اور ساکت چہرے ہماری راہ تکتےتھے۔

‎لیکچرر کی آواز ہال میں گونج رہی تھی، ”ہر مردہ بنیادی طور پہ چار حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، سر اور گردن، بازو اور ہاتھ، چھاتی اور پیٹ، ٹانگ اورپاؤں۔ ہر حصہ چار لوگوں کو الاٹ کیا جائے گا۔ آپ نے ہر حصے کو تفصیلاچھیلنا ہے، پرت در پرت۔ ہر طالبہ کے پاس اپنے اوزار ہونے چاہیں، جن میں تیز چاقو، قینچی اور پکڑنے والے فورسیپس شامل ہیں۔

‎چھیلنے کا آغاز جلد اتارنے سے ہو گا۔ جلد اتارنے کے بعد چربی اتاری جائےگی، اس کے نیچے جو وریدیں، شریانیں اور مسلز ہوں گے، ان سب کو آہستہ آہستہ کاٹا جائے گا۔ وریدیں شریانیں اور اعصاب کہاں سے شروع ہوتے ہیں اور کہاں ختم، دیکھا جائے گا۔ ہر مسل، ہر شریان اور ورید کا ایک نام ہے وہ نام کتاب سے ساتھ ساتھ پڑھ کے یاد کرنا ہے۔

‎جب مسلز اور باقی سب کچھ کٹ جائے گا تو ہڈیاں نکل آئیں گی۔ تب مختلف جوڑوں کو کاٹا جائے گا یہ جاننے کے لئے کہ کون سی ہڈی کس سے مل کے جوڑبناتی ہے۔

‎جوڑوں کے کٹنے کے بعد نکل آنے والی ہڈیاں آپ لوگوں کے پڑھنے کے کام آئیں گی۔ جو لوگ چھاتی، پیٹ اور کھوپڑی کاٹیں گے، وہ اندرونی اعضا کوقسطوں میں باہر نکالیں گے اور سب اعضا کیسے ایک دوسرے سے جڑے ہوتےہیں وہ ملاحظہ کریں گے۔

‎ آج ڈائسیکشن کے بعد ہم آپ کو پرانے مردوں سے نکالی جانے والی ہڈیاں الاٹ کریں گے۔ وہ آپ گھر لے جا کے پڑھ سکیں گی۔ سیشن ختم ہونے کےبعد وہ ہڈیاں آپ کو واپس کرنی ہوں گی“

‎زرد رنگت، باہر کو ابلتی پھٹی پھٹی آنکھیں، کانپتے ہونٹ، لرزتے ہوئے ہاتھ پاؤں، تیز سانسیں، بے ترتیب ہوتی دل کی دھڑکن، ہوائیاں اڑتے چہرے!

‎کیا یہ وہی شوخ چلبلی لڑکیاں تھیں جو کچھ دیر پہلے ڈائسیکشن ہال میں داخل ہوئی تھیں۔

‎بیس میزیں اور ان پہ لیٹی ہوئی بیس لاشیں! سوکھے ہوئے استخوانی جسم، ہڈیوں پہ منڈھی ہوئی جلد، سیاہی مائل رنگت، زمانے کے جبر و استبداد پہ نوحہ کناں اورہم ان کے سرہانے کھڑے ہاتھ میں چاقو تھامے، سوچوں کے ہجوم میں گھرے،اس لاش کے انجام پہ دل گرفتہ اپنے آپ کو تسلی دیتے کہ یہ سب ہمارےنصاب کا حصہ ہے۔

‎ہمیں اور ہماری دوست فرزانہ کو پہلی لاش میں بازو اور ہاتھ الاٹ ہوا۔

‎ہر مردے کا ایک نمبر تھا اور ہر دفعہ ہم نے اپنے ”مردے“ کو وہیں سے کاٹنا اورچھیلنا شروع کرنا تھا جہاں سے سلسلہ پچھلے دنوں میں منقطع ہوا ہوتا۔

‎ہم نے اپنے حصے میں آنے والے مردے کو بغور دیکھا، چالیس پینتالیس کا سن،سر اور داڑھی کے چھدرے بال، کہیں سیاہی، کہیں سفیدی، کمزور فاقہ زدہ جسم،مدقوق چہرہ اور لب ایک دوسرے میں پیوست۔

‎ہم نے سرہانے کھڑے ہو کے سرگوشی کی،

‎کیا نام ہو گا تمہارا؟ بشیر؟ رضوان؟

‎یاسر؟مختار یا احمد؟

‎کیا کام کرتے ہو گے تم؟مزدور؟ ڈرائیور؟ ریڑھی بان؟ گداگر؟ نشئی؟ یا کسی دفترمیں کلرک؟

‎کیسا گھر ہو گا تمہارا؟ کسی کوٹھی کا سرونٹ کواٹر؟ کسی کچی بستی میں ٹپکتی چھتوالی جھگی؟ کسی محلے میں چھوٹا سا مکان؟ یا کسی پل کے نیچے بچھی ہوئی چٹائی؟

‎خاندان میں کون کون ہوگا؟ آنگن میں کھیلتے بچے؟ دروازے پہ کھڑی منتظر غمگسار رفیق حیات؟ بچپن کے ساتھی بہن بھائی؟ شام کو ڈھابے پہ بیٹھ کے چائےکی چسکیاں لیتے اور ہنس ہنس کے پاگل ہوتے دوست؟

‎مہربان چھتر چھایا سے ماں باپ؟ نہ معلوم ہوں گے یا شاید پہلے سے چل بسےہوں۔

‎تمہاری موت کیسے واقع ہوئی ہو گی؟ سڑک پار کرتے ہوئے گاڑی سے ٹکرا کے،ویگن میں بیٹھے ہوئے ایکسڈینٹ، کسی گلی میں ننگا بجلی کا کرنٹ، نشہ آور دواؤںکی زیادہ ڈوز، بارش میں کڑکتی بجلی، یا پھر زندگی کی مایوسیوں سے تھک ہار کے خودکشی؟

‎تم کسی ہسپتال میں لائے گئے ہو گے۔ بے یار و مددگار، بے کسی اور بیچارگی تمہارے چہرے پہ لکھی ہو گی، تمہاری سانسیں ڈوبتی ہوں گی۔

‎منتظر آنکھیں دروازے کی طرف دیکھتی ہوں گی کہ شاید کوئی آخری لمحات میں ہاتھ تھامنے کے لئے آن پہنچے۔ بے ترتیب دھڑکنوں میں بھلا تم کیا سوچتے ہوگے؟

‎یہ کیسا انت ہوا اس بے رحم دنیا میں، اپنے پیاروں کو ملے بنا، دیکھے بنا رخصت ہو رہا ہوں۔ نہ جانے وہ کیسے جئیں گے؟ اماں کی دوا لانی تھی آج اور گھر میں آٹا بھی تو ختم تھا۔ اور وہ پپو کی گیند اور رانی کی گڑیا، رات ہی تو وعدہ کیا تھاان سے۔ اوہ خدایا کیسے جئیں گے وہ لوگ؟

‎نہ جانے جان بھی پائیں گے کہ نہیں کہ میں یونہی کسی سڑک پہ چلتے چلتے چل بسا۔ شناختی کارڈ تو ہے نہیں میری جیب میں۔ اور وہ نسرین، مجھے نہ پا کے کیسےجلے پاؤں کی بلی کی طرح گھومے گی۔ کیسے ڈھونڈ پائے گی مجھے؟

‎یہی سوچتے سوچتے تم نے آخری ہچکی لی ہو گی اور نرس نے تمہارا چہرہ ڈھک دیاہو گا۔

‎اس دن شام کو نسرین بار بار دروازے پہ جاتی ہوگی اور دل ہی دل میں فکر مندہوتے ہوئے کہتی ہو گی، پہلے تو لوٹنے میں کبھی اتنی دیر نہیں کی۔

‎ تمہاری ماں نسرین کو اپنے بستر سے آواز لگاتی ہو گی، کیا آیا نہیں ابھی تک؟ پپواور رانی نسرین کا پلو کھینچتے ہوں گے، اماں ابا کب آئے گا؟ ہماری گیند اور گڑیالائے گا نا۔

‎شام سے رات ہو گئی ہو گی۔ گھر میں شام غریباں سا سناٹا ہو گا۔ اماں کی آہیں اور نسرین کی دبی دبی سسکیاں سن کے آسمان کے تارے بھی بدلیوں میں چھپ جاتے ہوں گے۔ اگلی صبح جیسی تاریک صبح کوئی نہیں ہو گی۔ تمہیں کہاں جا کے ڈھونڈوں؟ نسرین سوچتی ہو گی۔

‎ہسپتال کے مردہ خانے کے فریزر میں تمہاری یخ بستہ لاش دن گنتی ہو گی کہ شایدکبھی کسی دن کوئی تمہارا نام پتہ پا لے۔ اخبارات میں گمنام لاش کا ٹھپہ،تمہارے نام اور شناخت سے بدل جائے۔ لیکن غریبوں کی بستیوں میں زندگی گزارنے والے اخبار کہاں پڑھا کرتے ہیں۔

‎کچھ بھی تو نہ ہو سکا!

‎نہ تمہاری شناخت ہو سکی، نہ نسرین تمہیں ڈھونڈ سکی، نہ اماں کی بوڑھی منتظرآنکھوں کا کرب ختم ہو سکا، نہ پپو اور گڑیا کے آنسو تھم سکے۔

‎نہ تمہیں دو گز زمین مل سکی، نہ اجلا کفن نصیب ہو سکا، نہ ہی تم پھولوں کے ہارپہنے لوگوں کے کندھوں پہ سوار اپنی ابدی آرام گاہ کی طرف جا سکے۔

‎اے گمنام آدمی، یہ سب تو نہ ہو سکا مگر وہ ہو گیا جو تم نے کبھی سوچا بھی نہیں ہو گا۔ تم ہسپتال کے فریزر میں کچھ ماہ رہنے کے بعد میڈیکل کالج کے فریزر تک آن پہنچے۔ تمہیں دوائیوں کا غسل دیا گیا کہ اعضا گلنے سڑنے سے محفوظ رہیں۔اور اب تم برہنہ حالت میں ایک میز پہ دراز ہو جہاں مستقبل کی ڈاکٹر تمہاراجسم انچ انچ کھول کے دیکھیں گی۔

‎تمہارے ساتھ روزانہ دو گھنٹے گزاریں گی۔ تمہیں آہستہ آہستہ چھیلیں گی، ابتدا میں ابکائیاں لیں گی۔ تمہاری بے بسی پہ ترس کھاتے ہوئے آنکھ میں آنسو بھریں گی،دل بھاری ہو گا، بھوک پیاس اڑ جائے گی، ہنستے لب خاموش ہو جائیں گے۔

‎ لیکن کچھ ہی دنوں میں تم ایک مانوس اجنبی کا روپ دھار لو گے۔ ایک ایساکردار بن جاؤ گے جو اس مشق ستم کے لئے در دل وا کیے بیٹھا ہے۔ پھر یہ معمول ہو جائے گا کہ یہ لڑکیاں تمہارے جسم کو ریزہ ریزہ تو کریں گی لیکن ساتھ ساتھ میں باتیں بھی کریں گی، ہنسیں گی اور مستقبل کے منصوبے بنائیں گی۔

‎ انارکلی اور لبرٹی سے شاپنگ، ریگل کے دہی بھلے، چمن کی آئس کریم کھانےکے پروگرام سوچیں گی۔ اور کبھی کبھی لیکچرر کی نظر بچا کے اپنے چائے کا مگ چھپا کے ہال کے اندر لا کے مزے سے چسکیاں بھریں گی۔

‎تم اپنی بے نور آنکھوں سے یہ سب دیکھتے دیکھتے ایک مردے کی بھیانک اور کریہہ حقیقت سے ایک چیز میں بدل جاؤ گے، ایک روزمرہ کی چیز۔ تمہارے جسم سےجو کچھ بھی اترے گا وہ میز کے نیچے رکھی بالٹی میں ڈال دیا جائے گا۔ اور بعد میں ہر میز کی بالٹی کے سامان کا منتظر ایک گڑھا ہو گا جو کالج کے وسیع وعریض گراؤنڈ میں کہیں کھودا جائے گا۔

‎سو دیکھا تم نے، تم کہیں نہیں ہو گے لیکن تم ہر جگہ ہو گے، جگہ جگہ کھدےمقامات کی مٹی میں مٹی بنتے ہوئے۔ تمہاری کھوپڑی اور تمہارے جسم کی ہڈیاں نہ جانے کتنے ہاتھوں میں رہیں گی، تم نہ جانے کس کس گھر میں جاؤ گے۔

‎اور شاید کسی گھر میں رانی کسی مستقبل کی ڈاکٹر کے کمرے کی جھاڑ پونچھ کرتےہوئے تمہاری کھوپڑی دیکھ کے سوچے، یہ چھوٹی بی بی بھی نہ جانے کیا کچھ لےآتی ہیں کالج سے۔ لیکن مجھے اس کھوپڑی سے خوف کیوں نہیں آتا؟

‎میرا جی کیوں چاہتا ہے کہ میں اس کھوپڑی کو ایک بوسہ دے دوں اور اسے ہاتھ میں تھام کے ایک دفعہ گلے سے لگا کے اتنا روؤں کہ میرے آنسو اس خشکب ھربھری ہوتی کھوپڑی کو بھگو دیں۔

‎میں گھر جا کے اماں کو بتاؤں گی کہ مجھے ہڈیوں سے خوشبو آتی ہے۔ اماں جو آج بھی ابا کی راہ تکتی ہے اور ہر آہٹ پہ چونک چونک جاتی ہے۔ نہ جانے کتنےبرس ہو گئے لیکن ابھی بھی راتوں میں ہڑبڑا کے اٹھ بیٹھتی ہے۔ دادی تو کب کی گزر چکی، مرتے دم اس کی آنکھیں بھی دروازے سے ہی لگی تھیں۔

‎نہ جانے ابا کہاں گیا؟

‎صاحب، ہم نے ان مردہ لاشوں کے ساتھ دو سال بتائے۔ جب بھی ایک مردہ ریزہ ریزہ ہو کے ختم ہو جاتا، ایک نئی مردہ لاش ہمیں الاٹ کر دی جاتی۔ جس کاجسم ابھی سوکھ کے لکڑی نہ بنا ہوتا، جس کے ہونٹوں کے گوشوں پہ ہلکی سی مسکان نظر آتی۔ ہم ہر نئی لاش پہ اپنا دل مسوستے لیکن پھر کچھ ہی دنوں میں نئی لاش پرانی ہو کے قصہ پارینہ بن جاتی اور ہم آگے بڑھ جاتے۔

‎زندگی کی سیڑھیاں پھلانگتے ہوئے جب ہم اس مقام پہ آن پہنچے ہیں کہ نشتر ہاتھ میں تھامے، زندہ انسانی جسم کی بال برابر پرت کو نفاست سے کاٹ کے علیحدہ کر سکتے ہیں اور جوڑ کے سی بھی سکتے ہیں۔

‎تو وہ تمام چہرے در دل پہ دستک دیتے ہیں جن کے جسموں پہ بنا کسی خوف وخدشے کے ہم نے نشتر چلایا اور انسانی جسم کے وہ رموز سمجھے جو ہم تصویروں سے کبھی نہ جان پاتے۔

‎سو اے بشیر، یا بدر، یا خاور، یا احسان! تم گمنامی میں تاریک راہوں پہ اجل کے

‎ساتھ ہو لئے لیکن ہم جیسوں کی زندگی میں اجالا کر گئے۔

‎ہمارے ہاتھوں ریزہ ریزہ ہو کے بکھر جانے پہ تمہیں ہمارا سلام!

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024