بلوچی ادب اور مذاحمت
بلوچی ادب اور مذاحمت
Feb 7, 2018
بلوچی ادب میں مزاحمت کی نوعیت اور اہمیت جاننے کیلئے ضروری ہے
دیدبان شمارہ۔ ۱
بلوچی ادب اور مذاحمت
غنی پہوال
بلوچی ادب میں مزاحمت کی نوعیت اور اہمیت جاننے کیلئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اُس فلسفۂ حیات کوجو ایک بلوچ معاشرے میں خون کی طرح گردش کرتا ہے اور جسے بلوچ ’’ بلوچیت ‘‘ یا ’’ بلوچی ‘‘ کہتا ہے سمجھ لیا جائے۔ در اصل بلوچؔ اسکو کہا جاتا ہے جو بلوچیت کے اصولوں پر زندگی گزارتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ جب کوئی شخص عملی طور پر بلوچی اقدار کی نفی کرتا ہے تو اُسے فورا کہا جاتا ہے کہ تم بلوچ نہیں ہو کیونکہ تم نے بلوچیت کے اصول توڑے ہیں۔ بلوچ معاشرے میں بلوچ ایک آئیڈیل فرد کو کہا جاتا ہے کہ جس میں بلوچ فلسفۂ حیات کے مکمل اوصاف عملاً موجود ہوں۔
بلوچیت کے اصول زندگی کے ہر اہم عمل کیلئے الگ الگ مرتب کئے گئے ہوتے ہیں جن کی پاسداری ہر اس شخص کیلئے ضروری ہے جو خود کو بلوچ کہلوانا پسند کرتا ہے۔ اِن سماجی اقدار کا مقصد صرف نظم و ضبط یا انصاف کرنا نہیں ہوتا بلکہ بلوچیت کے منصفانہ نظام میں خلل ڈالنے والے کے خلاف مزاحمت بھی ہر بلوچ کا قومی اور انفرادی فریضہ ہے۔ چاہے اگلا کتنا بھی طاقتور کیوں نہ ہو اگر کسی بھی وجہ سے کوئی مزاحمت نہ کرسکے تو اسے بلوچ نہیں مانا جاتا اور وہ دائمی طنز و تشنیع کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے۔
چونکہ بلوچ سماج میں ہر فرد کی زندگی کا سب سے بڑا مقصدبلوچ بن کر دکھانا ہو تا ہے۔ لہذا مزاحمت ہر فرد کے لئے لازمی عنصر بن جاتا ہے۔
بلوچ سماج اور بلوچی ادب میں مزاحمت کی دو شکلیں ہمیشہ دو رویوں کی طرح آپس میں مدغم ملیں گی۔ مزاحمت کی ایک شکل تو وہی ہے جو ہر جگہ پائی جاتی ہے یعنی کسی ظالم یا غاصب کے خلاف کھڑے ہو کر مزاحمت کرنا لیکن مزاحمت کی دوسری شکل ذرا پیچیدہ اورخالص داخلی قسم کی ہے۔ یعنی بلوچی اقدار کی آبیاری کرتے ہوئے اپنے نفس اور اپنی مفادات کے خلاف اُس وقت تک مزاحمت کو جاری رکھنا جب تک کہ بلوچی اقدار اُس فرد کی ذاتی منفعت سے بازی نہ لے جائے۔
دوسرے لفظوں میں اپنے اور اپنے اعزّا کی مفادات اورزندگیوں کی قربانی دے کر اِن اقدار کا احیا کرنا ہوتا ہے۔ بلوچ ادب اور سماج میں مزاحمت کی یہ دونوں شکلیں انتہائی طاقتور طریقے سے عیاں ہیں۔اور ان دونوں رویوں کے بلوچ نفسیات پر گہرے نقوش ہیں۔
بلوچ سماج میں شعر و ادب کا منصب کیا ہے؟
اِس کے متعلق بلوچی کے کلاسیکل شاعر اور ہیرو بیبگر ؔ رند کا یہ شعر ضرب المثل اور اصول کی حیثیت رکھتا ہے۔
ترجمہ۔۔
(شعر وہی شخص کہہ سکتا ہے
جو خود حقیقی جنگجو ہو)
اس کے علاوہ ایک اور بزرگ شاعر چگھا بزدار شاعر کے سماجی منصب کا احاطہ ان الفاظ میں کرتا ہے۔
ترجمہ۔۔
( میں شاعر ہوں اور شاعر نہ سردار کا طرفدار ہوتا ہے اور نہ ہی عوام کا۔ شاعر کا کردار دونوں کے درمیان منصف کا ہوتا ہے۔ شاعر صرف سچ کا پرچار کرتا ہے اور سچ کسی کے بھی خلاف ہو سکتا ہے۔)
جِسطرح بلوچ سماج میں ایک آئیڈیل بلوچ کو ہر لمحہ دو طرفہ مزاحمت کا سامنا ہوتا ہے بالکل اسطرح ایک ادیب کو سہ طرفہ مزاحمت در پیش ہوتا ہے۔ یعنی ادیب کو سماجی صورت میں ایک آئیڈیل بلوچ بن کر ظالم قوتوں کے علاوہ اپنے مفادات اور احتیاجات کے خلاف بھی جنگ لڑنا ہوتا ہے اور دوسری طرف منصف بن کر حاکم اور عوام کے درمیان فیصلہ بھی صادر کرنا ہوتا ہے۔
باہوٹ یا میار:
بلوچ سماج میں یہ ایک انتہائی اہم قدر ہے۔ یعنی اگر کوئی کمزور اورمظلوم شخص تم سے مدد مانگے تو تم پر فرض ہوتا ہے کہ اسکی مدد کرو۔ اُسے پناہ دے کر دشمنوں سے محفوظ رکھو۔ اگر دشمن اسے مارنا چاہے تو اپنی جان دے کر اسکی حفاظت اہم ترین ذمّہ داری بنتی ہے۔ اس حوالے سے بلوچ ادب و تاریخ میں اتنے واقعات شعرشاعری کی صورت میں موجود ہیں کہ مفصل بیان کے لئے زخیم کتاب کی ضرورت ہوگی ۔
مگر میں اختصار کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہاں پر کچھ اشارے رقم کرنا چاہونگا۔
تقریبا ساڑھے چھ سو سال قبل ایک مالدار بیوہ بی بی گوہر سردار گہرام لاشاری کے علاقے میں اپنی مویشیاں چراتی تھی۔ سردار نے گوہر سے کہاکہ تمہاری موشیاں بہت زیادہ ہیں اور تم بہت زیادہ رقبہ بطورِ چراگاہ استعمال کرتی ہو اسلئے تم پر ٹیکس لاگو ہوتا ہے۔ بی بی گوہر انتہائی تیز و طرّار عورت تھی ٹیکس سے بچنے کیلئے سردار چاکر رِند کے پاس پہنچی اور اس سے جھوٹ کہہ کرپناہ طلب کی۔ چاکر نے اُسے پناہ دے کر باہوٹ بنا لیا۔ اُدھر گہرام کو معلوم ہوا کہ بی بی گوہر نے چاکر کے پاس جا کر اُس پر بُہتان تراشے ہیں اور اسکی بلوچیت پر سوال اُٹھایاہے۔ گہرام کو بہت دکھ ہوا تو اُس نے اپنی لشکر کو حکم دیا کہ بی بی گوہر کو سبق سکھایا جائے۔ تو گہرامی لشکر نے حملہ کر کے بی بی گوہر کے مال مویشیوں کو بری طرح نقصان پہنچایا۔ جس کے نتیجے میں بلوچ تاریخ کی سب سے خونریز ترین جنگ کا آغاز ہوا جو رند اور لاشار قبائل کے درمیان تیس سالوں تک لڑی گئی۔ اسی جنگ کے دورانئے میں ایک جھڑپ کا احوال گہرام یوں بیان کرتا ہے۔
ترجمہ (میرے بہادر کمانداروں نے
چونسٹھ رندوں کے سر زمین بوس کئے
تیر گھوڑیوں کو پار کرتے ہوئے رینگتے رہے
میں نے نام آور ملک میران کو مار کر
رندوں کا جما ہوا دیوان توڑ دیا
اور تم بہانوں سے اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوئے
چاکر مین تمہیں آسمان کی سیر کراکے
گہرے سمندر میں پھینک دونگا
اب تم اگر بدلیوں سے اوپر بھی اپنی نشست قائم کر لو
اور سروں کا زرّیں قلعہ تعمیر کرو
یا آسمان میں سیڑھیاں لگا کر چڑھ جاؤ
ھار اور میران تمہیں دکھائی نہیں دینگے)
میرانؔ چاکر کا بھانجا اور رِند لشکر کا سب سے بہادر سپہ سالار تھا اور ہار اسکے گھوڑے کا نام تھا۔ چاکر کیلئے ہار اور میران کاجانی نقصان اتنا بڑا تھا کہ وہ ساری زندگی اس دُکھ کر فراموش نہیں کرسکے۔
میر حمّل کو بلوچ سمندر کے سپہ سالار کے لقب سے یاد کرتے ہیں اور انہیں خارجی مزاحمت کے حوالے سے اہم ترین ہیرو مانا جاتا ہے۔ میر حمّل کی حاکمیت تقریبا بارہ سوکلو میٹربلوچ سمندر ی پٹی پر پھیلی ہوئی تھی۔یہ 1561 کا وہ زمانہ ہے جب پرتگیزیوں نے سمندری علاقوں میں لوٹ مار اور قتل و غارت گری کابازار گرم کر رکھا تھا۔ حمّل نے پرتگیزیوں کو چیلنج کیا کہ وہ اس کے زمینی اور سمندری حدود میں لوٹ مار کرکے لوگوں کو تنک نہ کریں مگر پرتگیزیوں نے لوٹ مار بند نہیں کی تو میر حمّل اور پرتگیزیوں کے درمیان کافی جنگیں ہوئی جن میں پرتگیزیوں کو شکست ہوئی اس طرح میر حمّل نے نہ صرف اپنے لوگوں کو محفوظ کیا بلکہ عرب اور انڈین کشتیوں کو بھی اپنے علاقے میں میں محفوظ کیا۔جب پرتگیزی سمجھ گئے کہ فوجی طاقت سے ہم حمّل کو زیر نہیں کرسکتے تو انہوں نے انتظار کیا کہ کب حمّل تنہا اور نہتّا ہماری فوج کے ہاتھ لگے ، ایک دن حمّل اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ قریبی سمندر میں سیر کو نکلے پرتگیزی جو تاک میں تھے فورا حمّل کی کشتی کو گھیرے میں لے کر حمّل کو ہتھیار ڈالنے کا حکم دیتے ہیں ،حمّل افسر سے کہتا ہے اب جب تم لوگوں نے مجھے گھیرے میں لے لیا ہے اور میرے ساتھ سپاہی بھی نہیں ہیں تو تم اپنی کشتی سے میری کشتی میں آو مجھ سے بات کرو تم کیا چاہتے ہو، افسر جیسے ہی کچھ سپائیوں کے ساتھ حمّل کی کشتی میں کودتا ہے تو حّمل افسر سے کہتا ہے تم نے کیسے سمجھ لیا کہ بلوچ سردار میر حمّل جان کی خوف سے ہتھیار پھینک دے گا؟
میری روایات میں طاقت وری یا کمزوری کی کوئی اہمیت نہیں دی جاتی کیونکہ بلوچ کیلئے سب سے اعلی و ارفع عمل مزاحمت ہے ۔ یہ کہہ کر میر حمّل شیر کی طرح حملہ آور ہوکر پہلے وار میں افسر کا کام تمام کرتا ہے مگرایک دو سپاہی مارنے کے بعد حمّل کی تلوار ٹوٹ کر سمندر میں گر جاتی ہے باقی سپاہی جال پھینک کر حمّل کو گرفتار کرکے اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ حملّ کی اس طرح سے گرفتاری اور اس کی لاش بھی واپس نہ ملنے کے غم نے بلوچ معاشرت پر بہت گہرا اثر ڈالا اور یہی سبب ہے آج بھی بلوچ خواتین شادی بیا ہ کے گیتوں میں حمّل کی نظم گا کراُس کو یاد کرکے اسکی بہادری اور بلوچی کردار کو سراہتی ہیں۔
ترجمہ۔۔۔۔
(حمّل نے نیلگوں سمندر کی گہرائی میں دیکھا اور سمندری پرندہ (ملّیر) کو مخاطب کر کے کہا جا کر میرا احوال بہادر پیر داد اور غلامو تک پہنچادو اور کہہ دو کہ میرے فربہ گھوڑے کی مستیوں کو قابو کر لو اور اُس کے سنج اور زین کو اُتار دو، کیونکہ حمّل نے اپنے والد کے زمانے میں فخر کیا تھا اور اُسی افتخار کی وجہ سے اُسے فرنگیوں (پرتگیزیوں )نے پکڑ لیا ہے۔)
جس طرح مذکورہ بالا سطور میں کہا جاچکا ہے کہ بلوچ کی زندگی کا محور ’’ بلوچیت ‘‘ کا آزمائشی دائرہ ہے اسی لئے یہاں ہر فرد کی دوسرے سے کرداری مسابقت جاری رہتی ہے اور اس سماجی نیک نامی کیلئے بلوچ ہر قسم کی قربانی دے سکتا ہے۔ماں انسانی زندگی میں وہ کردار ہے کہ اسے اپنے بچے دنیا کی ہر چیز حتی اپنی زندگی سے بھی زیادہ پیارے ہوتے ہیں مگر ’’ بلوچیت ‘‘ کی مضبوط روایات نے اس یونیورسل جذبے کو بھی نہ صرف اپنی سحرسے آزاد ہونے نہیں دیا بلکہ بلوچ معاشرے میں ماؤں نے بلوچ روایات کی پاسداری میں تاریخی اور لازوال نقوش چھوڑی ہیں۔انہی میں سے ایک میر دودؔ ا کی ماں ہے۔
چوں کہ یہ واقعہ بی بی گوہر اور چاکر و گوہرام کے واقعے کے بعد رونما ہوا اسی لئے اس پر اُس واقعے کے گہرے نفسیاتی اثرات بخوبی نظرآتے ہیں اور اتفاقا واقعہ کی نوعیت میں بھی عجیب مماثلت ہے۔بی بی سمی بی بی گوہر کی طرح مالدار بیوہ تھی اور وہ میر دودا کی باہوٹ بنکر میر دودا کے زیرِ اثر علاقوں میں اپنی مال مویشاں چراتی تھی، ایک طاقتور سردار بیبگر پژُ ایک دن زبردستی بی بی سمی کی مال مویشیوں کو ہانک کر سندھ میں بیجنے کیلئے لے جاتا ہے، یہ خبر جب دودا ؔ کی ماں کو ملتی ہے اُس کے پیروں تلے سے زمین کھنچ گئی بھاگتی ہوئی میر دودا کے خوابگاہ کے دروازے پر کھڑی ہوکر طعنہ (طعنہ کو بلوچی میں شگان کہتے ہیں اور بلوچ کیلئے شگان بندوق کی گولی سے زیادہ تکلیف دہ ہے اورکیوں کہ اس سے دوسرے شخص کی بلوچیت پر حرف آرہا ہوتا ہے)مارتی ہوئے یہ تاریخی جملہ کہتی ہے ، جو اب ضرب المثل بن چکی ہے :
’’ دودا ! جوجوانمرد اپنی بلوچیت پر فخر کرتے ہیں اور بلوچیت کی بھاری زمہ داریاں سر پر اُٹھاتے ہیں وہ دوپہر کو گھروں میں بے فکر ہوکر نئی بیاہتا بیویوں کے ساتھ آرام نہیں کرتے ۔‘‘
ٓ ترجمہ۔۔
(جو پناہ دینے والے ہوتے ہیں
وہ دوپہروں کو قیلولہ نہیں کرتے
نہ عروسی سیج پر آرام کرتے ہیں
دودا غُصّے سے اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے
دودا کی ماں نے اپنے ہم عمر عورتوں کو مخاطب کیا
آجاؤ سہیلیو مل کر میرے بیٹے کو لوریاں سناتے ہیں
کیونکہ میرا بیٹا ایک کام توضرورکرکے آئے گا
یا تو گایوں کو پورا پورا واپس لائے گا
یا اپنی جان کا نذرانہ دے گا)
دودا اپنے ستر ساتھیوں سمیت بیبگر پژُ ُ کے بڑے لشکر کے سامنے ٹہر نہیں سکتا اورساتھیوں سمیت مارا جاتا ہے۔مردوں میں صرف دودا کا گیارہ سالہ چھوٹا بھائی بالاچ بچ جاتا ہے۔اب یہاں بدی کو شکست دینے اور بلوچ روایات کو سرخرو کرنے کی ناممکن زمہ داری گیارہ سالہ بالاچ کے کندھوں پہ آن پڑتی ہے۔بالاچ وعدہ کرتا ہے کہ میں اگر بدی کو شکست نہیں دے سکا اور اپنے بے گناہ لوگوں کا بدلہ نہیں لے سکا میں یہاں پھرکبھی نظر نہیں آؤنگا۔
بالاچ اپنے جدی نوکر نقیبو کے ساتھ نکل کر سندھ سیہون شریف میں حضرت لال شہباز کے درگاہ میں منت مان کر سوالی بن جاتا ہے کہ جب تک آپ مجھے بدی کو شکست دینے کی بشارت نہیں دیتے میں ہر رات اندھے کنوئیں میں الٹا لٹکتا رہونگا۔تیرہ سال کے بعد بشارت ملتی ہے کہ اب تم جاؤ بدی کو شکست دے دو۔
بالاچ واپس آکر پہلی دفعہ گوریلا جنگ کی بنیارکھ کر رات کی تاریکی میں اچانک حملہ کرکے ایک دوافراد کو مار کر فرار ہوجاتاہے ۔
لاکھ جتن کے باوجود بالاچ کبھی بیبگر کے لوگوں کے ہاتھ نہیں آتااور کچھ وقت کے بعد بالاچ بیبگر کے پینسٹھ لوگوں کو چن چن کر مارنے میں کامیاب ہوجاتا ہے جس سے بیبگر کے لشکر اور قبیلے کے لوگوں کے دلوں میں بالاچ کا ایک ایسا خوف ٹہر جاتا ہے کہ جس سے راتوں کی نیند حرام ہوجاتی ہے۔
ترجمہ۔۔
(میں بیبگر کے علاقے میں ایک سرد رات کو داخل ہوا، میرے اور بہادر نکیبو کے حملوں سے بِن بیاہی لڑکیاں اور بیاہتا خوبصورت عورتیں بڑ بڑا کر جاگ اُٹھیں اور ایک دوسرے سے کہنے لگیں سو جاؤ کہ یہ بالاچ کے حملوں کی گڑ گڑاہٹیں ہیں اور یہ پرندے جو رات کو نیچی پرواز کرتے ہیں یہ بالاچ کے کمان کے ہی تِیر ہیں)
جس طرح بالاچ اور اسکا کردار بلوچ نفسیات کا ایک اٹوٹ حصہ بن چکا ہے اسی طرح بالاچ کی شاعری بلوچی مذاحمتی ادب کا سب سے بڑااور اہم ترین حوالہ بن چُکی ہے۔بالاچ نے اپنی شاعری میں صرف اپنی روداد بیان نہیں کی ہیں بلکہ بلوچیت کے فلسفہِ مذاحمت کی فکری توضیح بھی کی ہے،اس کے ساتھ ساتھ زبان اور ادب کو اس حوالے سے ایسی نئی ہمہ جہت اور خوبصورت علامات اور استہارے دیئے ہیں جو آج بھی اتناہی پر اثر ہیں جیسے تین سو سال پہلے تھے۔نہ صرف بالاچ کے اشعار آج بھی بڑے بوڑھوں کو زبانی یاد ہیں بلکہ بالاچ کی شاعری کا بیشتر حصّہ ضرب المثل بن کر بلوچی زبان کا حصہ بن چکی ہے۔یہی سبب ہے کہ آج تک کوئی بلوچ شاعر بالاچ سے اثر مند ہوئے بغیر اپنی مذاحمتی فکر کو معنی نہیں دے سکا۔
ترجمہ۔۔
(جنہیں خون کا بدلہ لینا ہوتا ہے
اُن کی خوابگاہیں چٹانوں پر ہوتی ہیں
وہ بیویوں اور بچّوں سے بیزار ہوتے ہیں
سر سبز اور زرخیز زمینوں کو تِج دیتے ہیں
وہ ہمیشہ تیّار اور کمر بستہ رہتے ہیں)
بالآخر بالاچ بیبگر کے قبیلے کو تہہ و بالا کرنے کہ بعد سرداربیبگر کو بھی مارکر نہ صرف بدی کا خاتمہ کرتے ہیں بلکہ خود کو بلوچیت کی روایات کا تاریخی امین ثابت کرنے میں بھی کامیاب ہوتے ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ ظالم کتنا بھی طاقتورکیوں نہ ہو مگر اس کے خلاف مزاحمت کرنا بلوچ کا ایمان ہے اور یہ ایمان اگر مضبوط اور محکم ہوتو کمزور بھی طاقت ور کو شکست فاش دے سکتا ہے۔
ماں اور بچے کا پیار ایک عظیم جذبہ ہے، اسی طرح بلوچ ماہیں بھی اپنے بچوں کو بڑے لاڑ پیار سے پالتی ہیں مگر فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ بلوچ معاشرے میں بچے سے ماں کے پیار کا سبب صرف ذاتی ا غراض نہیں ہیں بلکہ ان میں اجتماعی اور قومی اقدار کی پاسداری بھی شامل ہیں یعنی ہر ماں کی کوشیش ہوتی ہے اور وہ اسی نہج پر بچے کی پرورش بھی کرتی ہے کہ میرا بچہ بحیثیتِ بلوچ کچھ بن کر دکھائے اور میرا نام روشن کرے۔یہی سبب ہے کہ لوری جہاں دنیا بھر میں بچوں کو پریوں کی کہانی سنا کر سُلانے کیلئے گائی جاتی ہیں وہیں بلوچ ماہیں بچوں کو شعوری آگہی اور روایات سے منسلک ہونے کیلئے اپنی لوریوں میں بلوچیت کا درس دیتی ہیں اور یہ عمل بچے کے جوان ہونے تک مختلف طریقوں سے جاری رہتا ہے۔اسی لئے جب بلوچیت کی بات آتی ہے تو بلوچ ماہیں کمزور ہونے کی بجائے اور زیادہ مضبوط بن جاتی ہیں، اس حوالے سے میر کمبر کی ماں بلوچ ماؤں میں سب سے بڑی آئیڈیل ہیں۔
واقعہ یوں ہے کہ خاران کا حاکم اپنے لشکر کے ساتھ میر کمبرکے علاقے پر حملہ آور ہوکر بلا سبب لوگوں کو قتل کرکے ، مال و اسباب لوٹ کر کافی مرد و عورتوں کو غلام بناکر لے جاتا ہے۔جب خبر کمبر کی ماں تک پہنچتی ہے تو بڑی تمکنت سے میرکمبر کو کہ جسکی شادی ہفتہ بھر پہلے ہوئی ہوتی ہے بُلاکر کہتی ہے بیٹا آج میری تربیت کاامتحان ہے ، میں نے تمہاری پرورش میں کوئی کوتاہی نہیں کی ہے ،میں نے بڑی امیدوں سے اندھیری راتوں میں تمہیں بلوچیت کی لوریاں سنائی ہیں ، خیال رہے کہ اگر تم بلوچیت کی اصولوں پر عمل پیرا ہونے میں سرخرو نہیں ہوتے تو میں سمجھونگی کہ میں نے ’’ کَرَ گ ‘‘ پانی دے کر اگایا ہے ( کَرَگ ایک ایسا پودا ہے جسکا نہ پتّا کام آتا ہے نہ پھل ، نہ لکڑی جلانے کا کام آتا ہے اور نہ ہی وہ سایہ دیتا ہے ) میں جانتی ہوں کہ حاکم کی فوج بہت بڑی ہے مگر یہ بھی یاد رہے بلوچیت میں مزاحمت ہی بلوچ کی شان اور عزت ہے ، اگر آج تم مزاحمت نہیں کرسکے تو زندگی بھر بلوچ کہلانے کے قابل نہیں رہوگے۔ جاؤ جوانمردی سے دشمن کو اپنی تلوار کا وہ جوہر دکھاو کہ انہیں بھی تمہاری بہادری پر رشک آجائے ،،،،، جاؤ میرے بہادر بیٹے مردانگی سے مقابلہ کرکے شہید ہوکر امر بن جاؤیا قیدیوں کودشمن سے چھڑا کر لے آؤ ۔
کمبر کی ماں اپنے جذبات یوں نظم کرتی ہے :
ترجمہ۔۔
(قیدی جب رہا ہو کر آئیں گے
میرے گھر کے آنگن میں بیٹھ کر
تیری بہادرمَوت کی تعریف کرینگے
میں بوڑھی پھر سے جوان ہو جاؤنگی
موسیقی کا محفل سجاؤنگی
نوحے کی جگہ نغمے گاؤنگی
اور گاتی ہوئی تجھے قبر تک لے جاؤنگی
نئے سرے سے سِنگھار کرونگی
ہاتھوں میں مہندی رچاؤنگی
اُنگلیوں میں انگوٹھیاں پہنونگی
اپنے بالوں کی چوٹی بناؤنگی
اور تیرا متبادل پھر جنوں گی)
میر کمبر دشمن سے اپنی تلوار کے وہ جوہر دکھاتا ہے جو آج تک بطورِ مثال قائم ہے۔دشمن کو غیر متوقع نقصان سے دوچار کرنے کے بعد بلاخر میر کمبر اپنے ساتھیوں کے ساتھ شہید ہوکر بلوچیت کے فلسفہ میں ہمیشہ کیلئے زندہ و جاویدہوجاتا ہے۔
اس کے بعد مزاحمت کے حوالے سے اہم جنگیں بلوچوں کی انگریزوں سے ہوئی ہے۔ مری و بگٹی قبیلے کی چھوٹی بڑی چھبیس لڑائیاں 1818 سے لیکر 1839 کے درمیان لڑی گئیں ، مگر ان میں پانچ بڑی جنگیں نفسُک ۔ سرتاپ ۔ کاہان ۔ گمبد اورھڑب تاریخی لحاظ سے بہت اہم ہیں ان تمام جنگوں کے حوالے سے کافی اشعار لکھے گئے ہیں مگر دو شاعر گدوؔ اور رحم ؔ علی مری کی شاعری بلوچی ادب میں نمایاں مقام رکھتی ہیں۔ ان دونوں شاعروں کے بہت سے اشعار اب ضرب المثل کی شکل میں مشہور ہیں جیسے کہ رحم علی مری کایہ شعر جسے بلوچی مزاحمتی فلسفہ میں ایک مستند قول کی حیثیت حاصل ہوچکی ہے :
ترجمہ۔۔
(امن اور خیر کی قوتیں ویران ہوتی جا رہی ہیں۔۔اب جنگوں میں ہی فائدہ نظر آتا ہے)
ان پانچ جنگوں میں سے شروع کی تین جنگوں میں انگریز کو شکستِ فاش کی صورت میں ہزیمت اُٹھانی پڑی مگر بعد کی دو جنگوں میں بلوچوں کو شکست ہوئی۔ان جنگوں کے بلوچ ادب اور نفسیات اور تخلیقی صلاحیتوں پر کیا اثرات مرتب ہوئے اس کیلئے الگ سے تحقیقی کام کی ضرورت ہے۔سرتاپ کی لڑائی میں انگریز کو سب سے زیادہ جانی نقصان اٹھانا پڑاتھا۔ کہا جاتا ہے کہ جب شکستِ فاش کے بعد انگریز اپنی لاشوں کو اٹھانے آئے تو انہوں نے دیکھا کہ کچھ سپاہیوں کی کلائیوں میں سبز رنگ کی ڈوریاں بندھی ہیں، انگریز افسر نے کسی سے پوچھا یہ سبز ڈوریاں سپائیوں کے ہاتھوں کس نے اور کیوں باندھی ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ بلوچوں میں روایت ہے کہ بہادر دشمنوں کو انکی بہادری کی اعتراف میں اُنکی کلائیوں پہ سبزڈوریاں باندھی جاتی ہیں تو انگریز افسر FANSIS D WELL نے بلوچوں کی جنگی اخلاقیات اور تہذیب پر ایک نظم لکھی جو آج تک برٹش میوزیم میں محفوظ ہے۔
انگریزوں ہی کے حوالے سے مکران میں بلوچ خان گوکپروش کے مقام پر انگریزوں کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے ساتھیوں سمیت شہید ہو جاتے ہیں جو خارجی مزاحمت کے حوالے سے اہم تریں واقعات میں سے ایک ہے جسکے بلوچی ادب اور بلوچ معاشرے پر گہرے اثرات موجود ہیں۔
13 نومبر 1839کو انگریز افسر میجر جرنل تھامس ولشائر کی قیادت میں ایک بڑی فوج خان قلات نواب محراب خان کے قلعے قلات شہر کی طرف پیشقدمی کرتی ہوئی قلات شہر اور خاص قلعے کو محاصرہ میں لیتی ہے اور نواب محراب خان سے کہا جاتا ہے کہ آپکی فوج شکست کھا چکی ہے لہذا آپ ہتھیار ڈال کر خود کو ہمارے حوالے کریں، کہتے ہیں نواب محراب خان بڑے پر اعتماد لہجے میں جواب دیتے ہیں کہ ہاں یہ سچ ہے کہ میری فوج شکست کھاچکی ہے مگر تم یہ یاد رکھنا میں نے اب تک شکست نہیں کھائی ہے اور نہ شکست کا تصور کرسکتا ہوں، کیونکہ میری جیت میری قومی مزاحمت کے فلسفے میں ہے مرنے یا زندہ رہنے میں نہیں۔اس کے بعد فوجیں قلعے میں داخل ہوجاتی ہیں اور نواب صاحب اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ جن میں ہندو وزیرِ دیوان بچل مل اپنے بیٹوں کے ساتھ انگریز کی فوجوں سے دوبدو لڑتے ہوئے شہید ہوجاتے ہیں۔
شاعر کہتا ہے :
ترجمہ۔۔
(بادلوں جیسے بمبار توپیں دیر تک غُرّاتی رہیں
قصر اور منقّش محلّات زمیں بوس ہوتے رہے
چَوکیاں گِرتے رہے
اور جنگ عروج پر پہنچ گئی
تیغ زن عبدالکریم،تاج محمد،میر ولی محمد، شیر محمداور میر کمالان گِر گئے
اور ہندو کے فرزندوں نے اپنی جانیں ہتھیلیوں پر رکھ لیں)
تو خلاصہ یہ کہ’’ مزاحمت‘‘ بلوچی ادب میں الگ سے کوئی چیز نہیں ہے بلکہ بلوچ زندگی اور مکمل فلسفہِ حیات کی بنیاد ہی ’’مزاحمت ‘‘ کے اصولوں پر رکھی گئی ہے لہذا بلوچ کی زندگی کا کوئی بھی عمل مزاحمت سے جدانہیں اور نہ ہی بلوچی ادب مزاحمت کے بغیر معنی دے سکتاہے۔ آخر میں میں کلاسیکی شاعر ملا رگام ؔ واشی کی یہ نظم بھی لکھنا چاؤنگاجسے بلوچی فلسفہِ مزاحمت میں ایک مکمل ادبی موقف تصور کیا جاتا ہے جس میں زندگی کی بد رنگیوں کو چیلنج کر کے کہا گیا ہے کہ بلوچ کا تمہارے ساتھ صلح یا مذاکرات کسی بھی طور ممکن نہیں ہے :
ترجمہ:۔
(جب کبوتر اور باز ایک جگہ بسیرا کر لیں
اور پاگل بھیڑیا بکریوں کا رکھوالا ہو جائے
اگر بلّی روغن کا پاسبان بن جائے
اگر آگ اور اُون ہمزبان ہو جائیں
اگر آہُو شیر کے ساتھ ہمقدم ہوجائے
انار باجرے کے دانے جتنا چھوٹا ہو جائے
سمندر اتنا خُشک ہوجائے کہ گذرگاہ بن جائے
اور مچھلیاں میدانوں میں دَوڑنے لگیں
اگر اُنتیسویں چاند کی رات کو چاندنی چَٹکے
شاید اُس وقت تم سے میرا نفرت کم ہوجائے
شاید اُس وقت میں تم سے مذاکرات کر لوں)
دیدبان شمارہ۔ ۱
بلوچی ادب اور مذاحمت
غنی پہوال
بلوچی ادب میں مزاحمت کی نوعیت اور اہمیت جاننے کیلئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اُس فلسفۂ حیات کوجو ایک بلوچ معاشرے میں خون کی طرح گردش کرتا ہے اور جسے بلوچ ’’ بلوچیت ‘‘ یا ’’ بلوچی ‘‘ کہتا ہے سمجھ لیا جائے۔ در اصل بلوچؔ اسکو کہا جاتا ہے جو بلوچیت کے اصولوں پر زندگی گزارتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ جب کوئی شخص عملی طور پر بلوچی اقدار کی نفی کرتا ہے تو اُسے فورا کہا جاتا ہے کہ تم بلوچ نہیں ہو کیونکہ تم نے بلوچیت کے اصول توڑے ہیں۔ بلوچ معاشرے میں بلوچ ایک آئیڈیل فرد کو کہا جاتا ہے کہ جس میں بلوچ فلسفۂ حیات کے مکمل اوصاف عملاً موجود ہوں۔
بلوچیت کے اصول زندگی کے ہر اہم عمل کیلئے الگ الگ مرتب کئے گئے ہوتے ہیں جن کی پاسداری ہر اس شخص کیلئے ضروری ہے جو خود کو بلوچ کہلوانا پسند کرتا ہے۔ اِن سماجی اقدار کا مقصد صرف نظم و ضبط یا انصاف کرنا نہیں ہوتا بلکہ بلوچیت کے منصفانہ نظام میں خلل ڈالنے والے کے خلاف مزاحمت بھی ہر بلوچ کا قومی اور انفرادی فریضہ ہے۔ چاہے اگلا کتنا بھی طاقتور کیوں نہ ہو اگر کسی بھی وجہ سے کوئی مزاحمت نہ کرسکے تو اسے بلوچ نہیں مانا جاتا اور وہ دائمی طنز و تشنیع کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے۔
چونکہ بلوچ سماج میں ہر فرد کی زندگی کا سب سے بڑا مقصدبلوچ بن کر دکھانا ہو تا ہے۔ لہذا مزاحمت ہر فرد کے لئے لازمی عنصر بن جاتا ہے۔
بلوچ سماج اور بلوچی ادب میں مزاحمت کی دو شکلیں ہمیشہ دو رویوں کی طرح آپس میں مدغم ملیں گی۔ مزاحمت کی ایک شکل تو وہی ہے جو ہر جگہ پائی جاتی ہے یعنی کسی ظالم یا غاصب کے خلاف کھڑے ہو کر مزاحمت کرنا لیکن مزاحمت کی دوسری شکل ذرا پیچیدہ اورخالص داخلی قسم کی ہے۔ یعنی بلوچی اقدار کی آبیاری کرتے ہوئے اپنے نفس اور اپنی مفادات کے خلاف اُس وقت تک مزاحمت کو جاری رکھنا جب تک کہ بلوچی اقدار اُس فرد کی ذاتی منفعت سے بازی نہ لے جائے۔
دوسرے لفظوں میں اپنے اور اپنے اعزّا کی مفادات اورزندگیوں کی قربانی دے کر اِن اقدار کا احیا کرنا ہوتا ہے۔ بلوچ ادب اور سماج میں مزاحمت کی یہ دونوں شکلیں انتہائی طاقتور طریقے سے عیاں ہیں۔اور ان دونوں رویوں کے بلوچ نفسیات پر گہرے نقوش ہیں۔
بلوچ سماج میں شعر و ادب کا منصب کیا ہے؟
اِس کے متعلق بلوچی کے کلاسیکل شاعر اور ہیرو بیبگر ؔ رند کا یہ شعر ضرب المثل اور اصول کی حیثیت رکھتا ہے۔
ترجمہ۔۔
(شعر وہی شخص کہہ سکتا ہے
جو خود حقیقی جنگجو ہو)
اس کے علاوہ ایک اور بزرگ شاعر چگھا بزدار شاعر کے سماجی منصب کا احاطہ ان الفاظ میں کرتا ہے۔
ترجمہ۔۔
( میں شاعر ہوں اور شاعر نہ سردار کا طرفدار ہوتا ہے اور نہ ہی عوام کا۔ شاعر کا کردار دونوں کے درمیان منصف کا ہوتا ہے۔ شاعر صرف سچ کا پرچار کرتا ہے اور سچ کسی کے بھی خلاف ہو سکتا ہے۔)
جِسطرح بلوچ سماج میں ایک آئیڈیل بلوچ کو ہر لمحہ دو طرفہ مزاحمت کا سامنا ہوتا ہے بالکل اسطرح ایک ادیب کو سہ طرفہ مزاحمت در پیش ہوتا ہے۔ یعنی ادیب کو سماجی صورت میں ایک آئیڈیل بلوچ بن کر ظالم قوتوں کے علاوہ اپنے مفادات اور احتیاجات کے خلاف بھی جنگ لڑنا ہوتا ہے اور دوسری طرف منصف بن کر حاکم اور عوام کے درمیان فیصلہ بھی صادر کرنا ہوتا ہے۔
باہوٹ یا میار:
بلوچ سماج میں یہ ایک انتہائی اہم قدر ہے۔ یعنی اگر کوئی کمزور اورمظلوم شخص تم سے مدد مانگے تو تم پر فرض ہوتا ہے کہ اسکی مدد کرو۔ اُسے پناہ دے کر دشمنوں سے محفوظ رکھو۔ اگر دشمن اسے مارنا چاہے تو اپنی جان دے کر اسکی حفاظت اہم ترین ذمّہ داری بنتی ہے۔ اس حوالے سے بلوچ ادب و تاریخ میں اتنے واقعات شعرشاعری کی صورت میں موجود ہیں کہ مفصل بیان کے لئے زخیم کتاب کی ضرورت ہوگی ۔
مگر میں اختصار کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہاں پر کچھ اشارے رقم کرنا چاہونگا۔
تقریبا ساڑھے چھ سو سال قبل ایک مالدار بیوہ بی بی گوہر سردار گہرام لاشاری کے علاقے میں اپنی مویشیاں چراتی تھی۔ سردار نے گوہر سے کہاکہ تمہاری موشیاں بہت زیادہ ہیں اور تم بہت زیادہ رقبہ بطورِ چراگاہ استعمال کرتی ہو اسلئے تم پر ٹیکس لاگو ہوتا ہے۔ بی بی گوہر انتہائی تیز و طرّار عورت تھی ٹیکس سے بچنے کیلئے سردار چاکر رِند کے پاس پہنچی اور اس سے جھوٹ کہہ کرپناہ طلب کی۔ چاکر نے اُسے پناہ دے کر باہوٹ بنا لیا۔ اُدھر گہرام کو معلوم ہوا کہ بی بی گوہر نے چاکر کے پاس جا کر اُس پر بُہتان تراشے ہیں اور اسکی بلوچیت پر سوال اُٹھایاہے۔ گہرام کو بہت دکھ ہوا تو اُس نے اپنی لشکر کو حکم دیا کہ بی بی گوہر کو سبق سکھایا جائے۔ تو گہرامی لشکر نے حملہ کر کے بی بی گوہر کے مال مویشیوں کو بری طرح نقصان پہنچایا۔ جس کے نتیجے میں بلوچ تاریخ کی سب سے خونریز ترین جنگ کا آغاز ہوا جو رند اور لاشار قبائل کے درمیان تیس سالوں تک لڑی گئی۔ اسی جنگ کے دورانئے میں ایک جھڑپ کا احوال گہرام یوں بیان کرتا ہے۔
ترجمہ (میرے بہادر کمانداروں نے
چونسٹھ رندوں کے سر زمین بوس کئے
تیر گھوڑیوں کو پار کرتے ہوئے رینگتے رہے
میں نے نام آور ملک میران کو مار کر
رندوں کا جما ہوا دیوان توڑ دیا
اور تم بہانوں سے اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوئے
چاکر مین تمہیں آسمان کی سیر کراکے
گہرے سمندر میں پھینک دونگا
اب تم اگر بدلیوں سے اوپر بھی اپنی نشست قائم کر لو
اور سروں کا زرّیں قلعہ تعمیر کرو
یا آسمان میں سیڑھیاں لگا کر چڑھ جاؤ
ھار اور میران تمہیں دکھائی نہیں دینگے)
میرانؔ چاکر کا بھانجا اور رِند لشکر کا سب سے بہادر سپہ سالار تھا اور ہار اسکے گھوڑے کا نام تھا۔ چاکر کیلئے ہار اور میران کاجانی نقصان اتنا بڑا تھا کہ وہ ساری زندگی اس دُکھ کر فراموش نہیں کرسکے۔
میر حمّل کو بلوچ سمندر کے سپہ سالار کے لقب سے یاد کرتے ہیں اور انہیں خارجی مزاحمت کے حوالے سے اہم ترین ہیرو مانا جاتا ہے۔ میر حمّل کی حاکمیت تقریبا بارہ سوکلو میٹربلوچ سمندر ی پٹی پر پھیلی ہوئی تھی۔یہ 1561 کا وہ زمانہ ہے جب پرتگیزیوں نے سمندری علاقوں میں لوٹ مار اور قتل و غارت گری کابازار گرم کر رکھا تھا۔ حمّل نے پرتگیزیوں کو چیلنج کیا کہ وہ اس کے زمینی اور سمندری حدود میں لوٹ مار کرکے لوگوں کو تنک نہ کریں مگر پرتگیزیوں نے لوٹ مار بند نہیں کی تو میر حمّل اور پرتگیزیوں کے درمیان کافی جنگیں ہوئی جن میں پرتگیزیوں کو شکست ہوئی اس طرح میر حمّل نے نہ صرف اپنے لوگوں کو محفوظ کیا بلکہ عرب اور انڈین کشتیوں کو بھی اپنے علاقے میں میں محفوظ کیا۔جب پرتگیزی سمجھ گئے کہ فوجی طاقت سے ہم حمّل کو زیر نہیں کرسکتے تو انہوں نے انتظار کیا کہ کب حمّل تنہا اور نہتّا ہماری فوج کے ہاتھ لگے ، ایک دن حمّل اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ قریبی سمندر میں سیر کو نکلے پرتگیزی جو تاک میں تھے فورا حمّل کی کشتی کو گھیرے میں لے کر حمّل کو ہتھیار ڈالنے کا حکم دیتے ہیں ،حمّل افسر سے کہتا ہے اب جب تم لوگوں نے مجھے گھیرے میں لے لیا ہے اور میرے ساتھ سپاہی بھی نہیں ہیں تو تم اپنی کشتی سے میری کشتی میں آو مجھ سے بات کرو تم کیا چاہتے ہو، افسر جیسے ہی کچھ سپائیوں کے ساتھ حمّل کی کشتی میں کودتا ہے تو حّمل افسر سے کہتا ہے تم نے کیسے سمجھ لیا کہ بلوچ سردار میر حمّل جان کی خوف سے ہتھیار پھینک دے گا؟
میری روایات میں طاقت وری یا کمزوری کی کوئی اہمیت نہیں دی جاتی کیونکہ بلوچ کیلئے سب سے اعلی و ارفع عمل مزاحمت ہے ۔ یہ کہہ کر میر حمّل شیر کی طرح حملہ آور ہوکر پہلے وار میں افسر کا کام تمام کرتا ہے مگرایک دو سپاہی مارنے کے بعد حمّل کی تلوار ٹوٹ کر سمندر میں گر جاتی ہے باقی سپاہی جال پھینک کر حمّل کو گرفتار کرکے اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ حملّ کی اس طرح سے گرفتاری اور اس کی لاش بھی واپس نہ ملنے کے غم نے بلوچ معاشرت پر بہت گہرا اثر ڈالا اور یہی سبب ہے آج بھی بلوچ خواتین شادی بیا ہ کے گیتوں میں حمّل کی نظم گا کراُس کو یاد کرکے اسکی بہادری اور بلوچی کردار کو سراہتی ہیں۔
ترجمہ۔۔۔۔
(حمّل نے نیلگوں سمندر کی گہرائی میں دیکھا اور سمندری پرندہ (ملّیر) کو مخاطب کر کے کہا جا کر میرا احوال بہادر پیر داد اور غلامو تک پہنچادو اور کہہ دو کہ میرے فربہ گھوڑے کی مستیوں کو قابو کر لو اور اُس کے سنج اور زین کو اُتار دو، کیونکہ حمّل نے اپنے والد کے زمانے میں فخر کیا تھا اور اُسی افتخار کی وجہ سے اُسے فرنگیوں (پرتگیزیوں )نے پکڑ لیا ہے۔)
جس طرح مذکورہ بالا سطور میں کہا جاچکا ہے کہ بلوچ کی زندگی کا محور ’’ بلوچیت ‘‘ کا آزمائشی دائرہ ہے اسی لئے یہاں ہر فرد کی دوسرے سے کرداری مسابقت جاری رہتی ہے اور اس سماجی نیک نامی کیلئے بلوچ ہر قسم کی قربانی دے سکتا ہے۔ماں انسانی زندگی میں وہ کردار ہے کہ اسے اپنے بچے دنیا کی ہر چیز حتی اپنی زندگی سے بھی زیادہ پیارے ہوتے ہیں مگر ’’ بلوچیت ‘‘ کی مضبوط روایات نے اس یونیورسل جذبے کو بھی نہ صرف اپنی سحرسے آزاد ہونے نہیں دیا بلکہ بلوچ معاشرے میں ماؤں نے بلوچ روایات کی پاسداری میں تاریخی اور لازوال نقوش چھوڑی ہیں۔انہی میں سے ایک میر دودؔ ا کی ماں ہے۔
چوں کہ یہ واقعہ بی بی گوہر اور چاکر و گوہرام کے واقعے کے بعد رونما ہوا اسی لئے اس پر اُس واقعے کے گہرے نفسیاتی اثرات بخوبی نظرآتے ہیں اور اتفاقا واقعہ کی نوعیت میں بھی عجیب مماثلت ہے۔بی بی سمی بی بی گوہر کی طرح مالدار بیوہ تھی اور وہ میر دودا کی باہوٹ بنکر میر دودا کے زیرِ اثر علاقوں میں اپنی مال مویشاں چراتی تھی، ایک طاقتور سردار بیبگر پژُ ایک دن زبردستی بی بی سمی کی مال مویشیوں کو ہانک کر سندھ میں بیجنے کیلئے لے جاتا ہے، یہ خبر جب دودا ؔ کی ماں کو ملتی ہے اُس کے پیروں تلے سے زمین کھنچ گئی بھاگتی ہوئی میر دودا کے خوابگاہ کے دروازے پر کھڑی ہوکر طعنہ (طعنہ کو بلوچی میں شگان کہتے ہیں اور بلوچ کیلئے شگان بندوق کی گولی سے زیادہ تکلیف دہ ہے اورکیوں کہ اس سے دوسرے شخص کی بلوچیت پر حرف آرہا ہوتا ہے)مارتی ہوئے یہ تاریخی جملہ کہتی ہے ، جو اب ضرب المثل بن چکی ہے :
’’ دودا ! جوجوانمرد اپنی بلوچیت پر فخر کرتے ہیں اور بلوچیت کی بھاری زمہ داریاں سر پر اُٹھاتے ہیں وہ دوپہر کو گھروں میں بے فکر ہوکر نئی بیاہتا بیویوں کے ساتھ آرام نہیں کرتے ۔‘‘
ٓ ترجمہ۔۔
(جو پناہ دینے والے ہوتے ہیں
وہ دوپہروں کو قیلولہ نہیں کرتے
نہ عروسی سیج پر آرام کرتے ہیں
دودا غُصّے سے اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے
دودا کی ماں نے اپنے ہم عمر عورتوں کو مخاطب کیا
آجاؤ سہیلیو مل کر میرے بیٹے کو لوریاں سناتے ہیں
کیونکہ میرا بیٹا ایک کام توضرورکرکے آئے گا
یا تو گایوں کو پورا پورا واپس لائے گا
یا اپنی جان کا نذرانہ دے گا)
دودا اپنے ستر ساتھیوں سمیت بیبگر پژُ ُ کے بڑے لشکر کے سامنے ٹہر نہیں سکتا اورساتھیوں سمیت مارا جاتا ہے۔مردوں میں صرف دودا کا گیارہ سالہ چھوٹا بھائی بالاچ بچ جاتا ہے۔اب یہاں بدی کو شکست دینے اور بلوچ روایات کو سرخرو کرنے کی ناممکن زمہ داری گیارہ سالہ بالاچ کے کندھوں پہ آن پڑتی ہے۔بالاچ وعدہ کرتا ہے کہ میں اگر بدی کو شکست نہیں دے سکا اور اپنے بے گناہ لوگوں کا بدلہ نہیں لے سکا میں یہاں پھرکبھی نظر نہیں آؤنگا۔
بالاچ اپنے جدی نوکر نقیبو کے ساتھ نکل کر سندھ سیہون شریف میں حضرت لال شہباز کے درگاہ میں منت مان کر سوالی بن جاتا ہے کہ جب تک آپ مجھے بدی کو شکست دینے کی بشارت نہیں دیتے میں ہر رات اندھے کنوئیں میں الٹا لٹکتا رہونگا۔تیرہ سال کے بعد بشارت ملتی ہے کہ اب تم جاؤ بدی کو شکست دے دو۔
بالاچ واپس آکر پہلی دفعہ گوریلا جنگ کی بنیارکھ کر رات کی تاریکی میں اچانک حملہ کرکے ایک دوافراد کو مار کر فرار ہوجاتاہے ۔
لاکھ جتن کے باوجود بالاچ کبھی بیبگر کے لوگوں کے ہاتھ نہیں آتااور کچھ وقت کے بعد بالاچ بیبگر کے پینسٹھ لوگوں کو چن چن کر مارنے میں کامیاب ہوجاتا ہے جس سے بیبگر کے لشکر اور قبیلے کے لوگوں کے دلوں میں بالاچ کا ایک ایسا خوف ٹہر جاتا ہے کہ جس سے راتوں کی نیند حرام ہوجاتی ہے۔
ترجمہ۔۔
(میں بیبگر کے علاقے میں ایک سرد رات کو داخل ہوا، میرے اور بہادر نکیبو کے حملوں سے بِن بیاہی لڑکیاں اور بیاہتا خوبصورت عورتیں بڑ بڑا کر جاگ اُٹھیں اور ایک دوسرے سے کہنے لگیں سو جاؤ کہ یہ بالاچ کے حملوں کی گڑ گڑاہٹیں ہیں اور یہ پرندے جو رات کو نیچی پرواز کرتے ہیں یہ بالاچ کے کمان کے ہی تِیر ہیں)
جس طرح بالاچ اور اسکا کردار بلوچ نفسیات کا ایک اٹوٹ حصہ بن چکا ہے اسی طرح بالاچ کی شاعری بلوچی مذاحمتی ادب کا سب سے بڑااور اہم ترین حوالہ بن چُکی ہے۔بالاچ نے اپنی شاعری میں صرف اپنی روداد بیان نہیں کی ہیں بلکہ بلوچیت کے فلسفہِ مذاحمت کی فکری توضیح بھی کی ہے،اس کے ساتھ ساتھ زبان اور ادب کو اس حوالے سے ایسی نئی ہمہ جہت اور خوبصورت علامات اور استہارے دیئے ہیں جو آج بھی اتناہی پر اثر ہیں جیسے تین سو سال پہلے تھے۔نہ صرف بالاچ کے اشعار آج بھی بڑے بوڑھوں کو زبانی یاد ہیں بلکہ بالاچ کی شاعری کا بیشتر حصّہ ضرب المثل بن کر بلوچی زبان کا حصہ بن چکی ہے۔یہی سبب ہے کہ آج تک کوئی بلوچ شاعر بالاچ سے اثر مند ہوئے بغیر اپنی مذاحمتی فکر کو معنی نہیں دے سکا۔
ترجمہ۔۔
(جنہیں خون کا بدلہ لینا ہوتا ہے
اُن کی خوابگاہیں چٹانوں پر ہوتی ہیں
وہ بیویوں اور بچّوں سے بیزار ہوتے ہیں
سر سبز اور زرخیز زمینوں کو تِج دیتے ہیں
وہ ہمیشہ تیّار اور کمر بستہ رہتے ہیں)
بالآخر بالاچ بیبگر کے قبیلے کو تہہ و بالا کرنے کہ بعد سرداربیبگر کو بھی مارکر نہ صرف بدی کا خاتمہ کرتے ہیں بلکہ خود کو بلوچیت کی روایات کا تاریخی امین ثابت کرنے میں بھی کامیاب ہوتے ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ ظالم کتنا بھی طاقتورکیوں نہ ہو مگر اس کے خلاف مزاحمت کرنا بلوچ کا ایمان ہے اور یہ ایمان اگر مضبوط اور محکم ہوتو کمزور بھی طاقت ور کو شکست فاش دے سکتا ہے۔
ماں اور بچے کا پیار ایک عظیم جذبہ ہے، اسی طرح بلوچ ماہیں بھی اپنے بچوں کو بڑے لاڑ پیار سے پالتی ہیں مگر فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ بلوچ معاشرے میں بچے سے ماں کے پیار کا سبب صرف ذاتی ا غراض نہیں ہیں بلکہ ان میں اجتماعی اور قومی اقدار کی پاسداری بھی شامل ہیں یعنی ہر ماں کی کوشیش ہوتی ہے اور وہ اسی نہج پر بچے کی پرورش بھی کرتی ہے کہ میرا بچہ بحیثیتِ بلوچ کچھ بن کر دکھائے اور میرا نام روشن کرے۔یہی سبب ہے کہ لوری جہاں دنیا بھر میں بچوں کو پریوں کی کہانی سنا کر سُلانے کیلئے گائی جاتی ہیں وہیں بلوچ ماہیں بچوں کو شعوری آگہی اور روایات سے منسلک ہونے کیلئے اپنی لوریوں میں بلوچیت کا درس دیتی ہیں اور یہ عمل بچے کے جوان ہونے تک مختلف طریقوں سے جاری رہتا ہے۔اسی لئے جب بلوچیت کی بات آتی ہے تو بلوچ ماہیں کمزور ہونے کی بجائے اور زیادہ مضبوط بن جاتی ہیں، اس حوالے سے میر کمبر کی ماں بلوچ ماؤں میں سب سے بڑی آئیڈیل ہیں۔
واقعہ یوں ہے کہ خاران کا حاکم اپنے لشکر کے ساتھ میر کمبرکے علاقے پر حملہ آور ہوکر بلا سبب لوگوں کو قتل کرکے ، مال و اسباب لوٹ کر کافی مرد و عورتوں کو غلام بناکر لے جاتا ہے۔جب خبر کمبر کی ماں تک پہنچتی ہے تو بڑی تمکنت سے میرکمبر کو کہ جسکی شادی ہفتہ بھر پہلے ہوئی ہوتی ہے بُلاکر کہتی ہے بیٹا آج میری تربیت کاامتحان ہے ، میں نے تمہاری پرورش میں کوئی کوتاہی نہیں کی ہے ،میں نے بڑی امیدوں سے اندھیری راتوں میں تمہیں بلوچیت کی لوریاں سنائی ہیں ، خیال رہے کہ اگر تم بلوچیت کی اصولوں پر عمل پیرا ہونے میں سرخرو نہیں ہوتے تو میں سمجھونگی کہ میں نے ’’ کَرَ گ ‘‘ پانی دے کر اگایا ہے ( کَرَگ ایک ایسا پودا ہے جسکا نہ پتّا کام آتا ہے نہ پھل ، نہ لکڑی جلانے کا کام آتا ہے اور نہ ہی وہ سایہ دیتا ہے ) میں جانتی ہوں کہ حاکم کی فوج بہت بڑی ہے مگر یہ بھی یاد رہے بلوچیت میں مزاحمت ہی بلوچ کی شان اور عزت ہے ، اگر آج تم مزاحمت نہیں کرسکے تو زندگی بھر بلوچ کہلانے کے قابل نہیں رہوگے۔ جاؤ جوانمردی سے دشمن کو اپنی تلوار کا وہ جوہر دکھاو کہ انہیں بھی تمہاری بہادری پر رشک آجائے ،،،،، جاؤ میرے بہادر بیٹے مردانگی سے مقابلہ کرکے شہید ہوکر امر بن جاؤیا قیدیوں کودشمن سے چھڑا کر لے آؤ ۔
کمبر کی ماں اپنے جذبات یوں نظم کرتی ہے :
ترجمہ۔۔
(قیدی جب رہا ہو کر آئیں گے
میرے گھر کے آنگن میں بیٹھ کر
تیری بہادرمَوت کی تعریف کرینگے
میں بوڑھی پھر سے جوان ہو جاؤنگی
موسیقی کا محفل سجاؤنگی
نوحے کی جگہ نغمے گاؤنگی
اور گاتی ہوئی تجھے قبر تک لے جاؤنگی
نئے سرے سے سِنگھار کرونگی
ہاتھوں میں مہندی رچاؤنگی
اُنگلیوں میں انگوٹھیاں پہنونگی
اپنے بالوں کی چوٹی بناؤنگی
اور تیرا متبادل پھر جنوں گی)
میر کمبر دشمن سے اپنی تلوار کے وہ جوہر دکھاتا ہے جو آج تک بطورِ مثال قائم ہے۔دشمن کو غیر متوقع نقصان سے دوچار کرنے کے بعد بلاخر میر کمبر اپنے ساتھیوں کے ساتھ شہید ہوکر بلوچیت کے فلسفہ میں ہمیشہ کیلئے زندہ و جاویدہوجاتا ہے۔
اس کے بعد مزاحمت کے حوالے سے اہم جنگیں بلوچوں کی انگریزوں سے ہوئی ہے۔ مری و بگٹی قبیلے کی چھوٹی بڑی چھبیس لڑائیاں 1818 سے لیکر 1839 کے درمیان لڑی گئیں ، مگر ان میں پانچ بڑی جنگیں نفسُک ۔ سرتاپ ۔ کاہان ۔ گمبد اورھڑب تاریخی لحاظ سے بہت اہم ہیں ان تمام جنگوں کے حوالے سے کافی اشعار لکھے گئے ہیں مگر دو شاعر گدوؔ اور رحم ؔ علی مری کی شاعری بلوچی ادب میں نمایاں مقام رکھتی ہیں۔ ان دونوں شاعروں کے بہت سے اشعار اب ضرب المثل کی شکل میں مشہور ہیں جیسے کہ رحم علی مری کایہ شعر جسے بلوچی مزاحمتی فلسفہ میں ایک مستند قول کی حیثیت حاصل ہوچکی ہے :
ترجمہ۔۔
(امن اور خیر کی قوتیں ویران ہوتی جا رہی ہیں۔۔اب جنگوں میں ہی فائدہ نظر آتا ہے)
ان پانچ جنگوں میں سے شروع کی تین جنگوں میں انگریز کو شکستِ فاش کی صورت میں ہزیمت اُٹھانی پڑی مگر بعد کی دو جنگوں میں بلوچوں کو شکست ہوئی۔ان جنگوں کے بلوچ ادب اور نفسیات اور تخلیقی صلاحیتوں پر کیا اثرات مرتب ہوئے اس کیلئے الگ سے تحقیقی کام کی ضرورت ہے۔سرتاپ کی لڑائی میں انگریز کو سب سے زیادہ جانی نقصان اٹھانا پڑاتھا۔ کہا جاتا ہے کہ جب شکستِ فاش کے بعد انگریز اپنی لاشوں کو اٹھانے آئے تو انہوں نے دیکھا کہ کچھ سپاہیوں کی کلائیوں میں سبز رنگ کی ڈوریاں بندھی ہیں، انگریز افسر نے کسی سے پوچھا یہ سبز ڈوریاں سپائیوں کے ہاتھوں کس نے اور کیوں باندھی ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ بلوچوں میں روایت ہے کہ بہادر دشمنوں کو انکی بہادری کی اعتراف میں اُنکی کلائیوں پہ سبزڈوریاں باندھی جاتی ہیں تو انگریز افسر FANSIS D WELL نے بلوچوں کی جنگی اخلاقیات اور تہذیب پر ایک نظم لکھی جو آج تک برٹش میوزیم میں محفوظ ہے۔
انگریزوں ہی کے حوالے سے مکران میں بلوچ خان گوکپروش کے مقام پر انگریزوں کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے ساتھیوں سمیت شہید ہو جاتے ہیں جو خارجی مزاحمت کے حوالے سے اہم تریں واقعات میں سے ایک ہے جسکے بلوچی ادب اور بلوچ معاشرے پر گہرے اثرات موجود ہیں۔
13 نومبر 1839کو انگریز افسر میجر جرنل تھامس ولشائر کی قیادت میں ایک بڑی فوج خان قلات نواب محراب خان کے قلعے قلات شہر کی طرف پیشقدمی کرتی ہوئی قلات شہر اور خاص قلعے کو محاصرہ میں لیتی ہے اور نواب محراب خان سے کہا جاتا ہے کہ آپکی فوج شکست کھا چکی ہے لہذا آپ ہتھیار ڈال کر خود کو ہمارے حوالے کریں، کہتے ہیں نواب محراب خان بڑے پر اعتماد لہجے میں جواب دیتے ہیں کہ ہاں یہ سچ ہے کہ میری فوج شکست کھاچکی ہے مگر تم یہ یاد رکھنا میں نے اب تک شکست نہیں کھائی ہے اور نہ شکست کا تصور کرسکتا ہوں، کیونکہ میری جیت میری قومی مزاحمت کے فلسفے میں ہے مرنے یا زندہ رہنے میں نہیں۔اس کے بعد فوجیں قلعے میں داخل ہوجاتی ہیں اور نواب صاحب اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ جن میں ہندو وزیرِ دیوان بچل مل اپنے بیٹوں کے ساتھ انگریز کی فوجوں سے دوبدو لڑتے ہوئے شہید ہوجاتے ہیں۔
شاعر کہتا ہے :
ترجمہ۔۔
(بادلوں جیسے بمبار توپیں دیر تک غُرّاتی رہیں
قصر اور منقّش محلّات زمیں بوس ہوتے رہے
چَوکیاں گِرتے رہے
اور جنگ عروج پر پہنچ گئی
تیغ زن عبدالکریم،تاج محمد،میر ولی محمد، شیر محمداور میر کمالان گِر گئے
اور ہندو کے فرزندوں نے اپنی جانیں ہتھیلیوں پر رکھ لیں)
تو خلاصہ یہ کہ’’ مزاحمت‘‘ بلوچی ادب میں الگ سے کوئی چیز نہیں ہے بلکہ بلوچ زندگی اور مکمل فلسفہِ حیات کی بنیاد ہی ’’مزاحمت ‘‘ کے اصولوں پر رکھی گئی ہے لہذا بلوچ کی زندگی کا کوئی بھی عمل مزاحمت سے جدانہیں اور نہ ہی بلوچی ادب مزاحمت کے بغیر معنی دے سکتاہے۔ آخر میں میں کلاسیکی شاعر ملا رگام ؔ واشی کی یہ نظم بھی لکھنا چاؤنگاجسے بلوچی فلسفہِ مزاحمت میں ایک مکمل ادبی موقف تصور کیا جاتا ہے جس میں زندگی کی بد رنگیوں کو چیلنج کر کے کہا گیا ہے کہ بلوچ کا تمہارے ساتھ صلح یا مذاکرات کسی بھی طور ممکن نہیں ہے :
ترجمہ:۔
(جب کبوتر اور باز ایک جگہ بسیرا کر لیں
اور پاگل بھیڑیا بکریوں کا رکھوالا ہو جائے
اگر بلّی روغن کا پاسبان بن جائے
اگر آگ اور اُون ہمزبان ہو جائیں
اگر آہُو شیر کے ساتھ ہمقدم ہوجائے
انار باجرے کے دانے جتنا چھوٹا ہو جائے
سمندر اتنا خُشک ہوجائے کہ گذرگاہ بن جائے
اور مچھلیاں میدانوں میں دَوڑنے لگیں
اگر اُنتیسویں چاند کی رات کو چاندنی چَٹکے
شاید اُس وقت تم سے میرا نفرت کم ہوجائے
شاید اُس وقت میں تم سے مذاکرات کر لوں)