بلا عنوان
بلا عنوان
Oct 26, 2020
ایک خط جو منزل تک پہنچ نہ سکا
بلا عنوان ۔
انجم قدوائی
پیاری اماں ۔۔بہت بہت سلام
ہمار جی چاہت ہے کہ تم سے کھوب بتیائے لیوں ۔کھت لکھئے بیٹھ جا یت ہے تو لگت ہے سب کچھو بھلائے گوا ۔جیو چاہت ہے کہ تمہرے پلو ماں منھ چھپائے کے سو ۓ جائی ساری مصیبت سے جان چھوٹ جائے ۔
اماں جانت ہو ۔ہیاں بہت اجالا رہت ہے ۔۔رات ما سڑک ،گھر گاؤں کے آسمان سے جیادہ چمکت ہیں ۔
۔اجالا سڑکن پر بہت ہے مگر دل ما اندھیرا رہت ہے ۔۔ہم گاؤں ما کونو آجائے تو او کا نکالت نہیں ہیں ۔ہیاں تو سامان باہر پھینک دیت ہیں اماں ۔
اب ہیاں کونو کام نا ہی ملت ہے ۔باہر جایت ہے تو پولیسوا مارت ہے گھر ما رہی تو بی بی اور بچن کی بھوک نہیں سہی جات ہے ۔کا کری اماں ۔بہت پریسانی ہے ۔کا ہے کھاتر تم کا چھوڑا آپن گاوں چھوڑا آپن چھپر کا گھر چھوڑا ۔ہیاں مالک مکنوا ہم کا نکال باہر کہس ۔کہت ہے کہ جاؤ ہیاں سے ۔ہیاں کرونا پھیل گوا ہے ۔
اب کا کری اماں ۔۔؟
مجوری کہوں ناہی ملت ہیاں ۔سب کام بند ہو گوا ہے اب کام ناہی ملت۔تمہار چھٹکا رو وت رہے کے دادی لگے جابے ۔اب کسک آئی کا کری۔۔
تین بھور اور تین سنجھا سے کھاۓ کا کچھو ناہی ۔۔بچن کا بھوکا دیکھ کر روائی أوت ہے ۔سو چا رہے کہ گاؤں آئے جابے مگر کا بتائی ۔پیسہ کوڑی کچھو ناہی ۔۔پیدل جات ہیں سبھی ۔بچن کا لیکے کسک جائی ۔رام سرن وا کہت ہے ہیاں سے بھاگیں گے تو سب ہی بھاگیں گے نہیں تو ہییں مر جائیں گے ۔
آج تمہار بہو گٹھری باندھ لہس ہے کہت ہے جب سب پیدل جاۓ سکت ہیں تو ہم کاہے ناہی ۔۔ویسن سڑک پہ بیٹھے رہے ۔نا رہے کا ٹھکانہ نہ کھائے کا روٹی ۔۔
آج پیدل نکلے کا ہے ۔کا جانے کتا دن لگیہے سوچت ہے تب تک تم کا ای کھت پہنچ جییہے ۔
سڑک پہ تو پولیس مارت ہے ۔ریل کی پٹری کے ساتھۓ ساتھے آۓ جابے ۔
اچھا اماں سلام ۔تمہار بٹوا اسلم
(یہ خط اسے ریل کی پٹری پر کچل کر مرنے والے ایک مسافر کے پاس سے کل شام ملا ، خون کے دھبے سے بالکل دھندلا ہو چکا تھا۔ )
رپورٹر نے کاغذ کے اس ٹکڑے کو الٹ پلٹ کر دیکھا صرف نام مگر کوئ پتہ نہیں تھا ۔ سامنے پٹری پر سے ساری لاشیں اٹھائ جا چکی تھیں ۔ بس اس سانحے کے ،اس درد ناک ساعت کے نشان چہار طرف بکھرے پڑے تھے۔ ٹوٹی گھسی ہوئ چپلیں بکھری ہوئ گٹھری ۔ سوکھی روٹیاں اور خون کے دھبے ۔ کل شام میں ہی پولس نے نیوز رپورٹوں کو کھدیڑ کر وہاں سے بھگا دیا تھا ۔ وہ منت کرتا رہ گیا تھا کہ یہ کاغذ کا ٹکڑا جس بکھری ہوئ لاش اور گوشت کے ٹکڑوں کے پاس سے ملا ہے اسے دیکھ لینے دے شاید اس کی کوئ آئ ڈی کوئ شناخت مل جائے ۔ اور اس کا آخری خط اس کی ماں تک وہ پہنچا سکے ۔ مگر پولس نے اس کی ایک نہ سنی ۔ وہ صبح صبح پھر یہاں پہنچ گیا تھااور اپنے کانپتے ہاتھوں میں یہ خط لئے کسی نامعلوم کی تلاش میں پھر سے آ کر کھڑا ہو گیا تھامگر ریل کی بے رحم پٹریوں کے درمیان اب صرف نشان باقی تھے امکان سب ختم ہو چکے تھے ۔
بلا عنوان ۔
انجم قدوائی
پیاری اماں ۔۔بہت بہت سلام
ہمار جی چاہت ہے کہ تم سے کھوب بتیائے لیوں ۔کھت لکھئے بیٹھ جا یت ہے تو لگت ہے سب کچھو بھلائے گوا ۔جیو چاہت ہے کہ تمہرے پلو ماں منھ چھپائے کے سو ۓ جائی ساری مصیبت سے جان چھوٹ جائے ۔
اماں جانت ہو ۔ہیاں بہت اجالا رہت ہے ۔۔رات ما سڑک ،گھر گاؤں کے آسمان سے جیادہ چمکت ہیں ۔
۔اجالا سڑکن پر بہت ہے مگر دل ما اندھیرا رہت ہے ۔۔ہم گاؤں ما کونو آجائے تو او کا نکالت نہیں ہیں ۔ہیاں تو سامان باہر پھینک دیت ہیں اماں ۔
اب ہیاں کونو کام نا ہی ملت ہے ۔باہر جایت ہے تو پولیسوا مارت ہے گھر ما رہی تو بی بی اور بچن کی بھوک نہیں سہی جات ہے ۔کا کری اماں ۔بہت پریسانی ہے ۔کا ہے کھاتر تم کا چھوڑا آپن گاوں چھوڑا آپن چھپر کا گھر چھوڑا ۔ہیاں مالک مکنوا ہم کا نکال باہر کہس ۔کہت ہے کہ جاؤ ہیاں سے ۔ہیاں کرونا پھیل گوا ہے ۔
اب کا کری اماں ۔۔؟
مجوری کہوں ناہی ملت ہیاں ۔سب کام بند ہو گوا ہے اب کام ناہی ملت۔تمہار چھٹکا رو وت رہے کے دادی لگے جابے ۔اب کسک آئی کا کری۔۔
تین بھور اور تین سنجھا سے کھاۓ کا کچھو ناہی ۔۔بچن کا بھوکا دیکھ کر روائی أوت ہے ۔سو چا رہے کہ گاؤں آئے جابے مگر کا بتائی ۔پیسہ کوڑی کچھو ناہی ۔۔پیدل جات ہیں سبھی ۔بچن کا لیکے کسک جائی ۔رام سرن وا کہت ہے ہیاں سے بھاگیں گے تو سب ہی بھاگیں گے نہیں تو ہییں مر جائیں گے ۔
آج تمہار بہو گٹھری باندھ لہس ہے کہت ہے جب سب پیدل جاۓ سکت ہیں تو ہم کاہے ناہی ۔۔ویسن سڑک پہ بیٹھے رہے ۔نا رہے کا ٹھکانہ نہ کھائے کا روٹی ۔۔
آج پیدل نکلے کا ہے ۔کا جانے کتا دن لگیہے سوچت ہے تب تک تم کا ای کھت پہنچ جییہے ۔
سڑک پہ تو پولیس مارت ہے ۔ریل کی پٹری کے ساتھۓ ساتھے آۓ جابے ۔
اچھا اماں سلام ۔تمہار بٹوا اسلم
(یہ خط اسے ریل کی پٹری پر کچل کر مرنے والے ایک مسافر کے پاس سے کل شام ملا ، خون کے دھبے سے بالکل دھندلا ہو چکا تھا۔ )
رپورٹر نے کاغذ کے اس ٹکڑے کو الٹ پلٹ کر دیکھا صرف نام مگر کوئ پتہ نہیں تھا ۔ سامنے پٹری پر سے ساری لاشیں اٹھائ جا چکی تھیں ۔ بس اس سانحے کے ،اس درد ناک ساعت کے نشان چہار طرف بکھرے پڑے تھے۔ ٹوٹی گھسی ہوئ چپلیں بکھری ہوئ گٹھری ۔ سوکھی روٹیاں اور خون کے دھبے ۔ کل شام میں ہی پولس نے نیوز رپورٹوں کو کھدیڑ کر وہاں سے بھگا دیا تھا ۔ وہ منت کرتا رہ گیا تھا کہ یہ کاغذ کا ٹکڑا جس بکھری ہوئ لاش اور گوشت کے ٹکڑوں کے پاس سے ملا ہے اسے دیکھ لینے دے شاید اس کی کوئ آئ ڈی کوئ شناخت مل جائے ۔ اور اس کا آخری خط اس کی ماں تک وہ پہنچا سکے ۔ مگر پولس نے اس کی ایک نہ سنی ۔ وہ صبح صبح پھر یہاں پہنچ گیا تھااور اپنے کانپتے ہاتھوں میں یہ خط لئے کسی نامعلوم کی تلاش میں پھر سے آ کر کھڑا ہو گیا تھامگر ریل کی بے رحم پٹریوں کے درمیان اب صرف نشان باقی تھے امکان سب ختم ہو چکے تھے ۔