بحضور رسالت مآب

بحضور رسالت مآب

Mar 19, 2024

نعت

مصنف

سعود عثمانی

شمارہ

شمارہ - ٢٣

دیدبان شمارہ ۲۴

بحضور رسالت مآب

سعودعثمانی

                                                                   

آپ تو جانتے ہیں مرے کرب کو ، آپ سے کیا چھپا ہے بھلا یا نبی

میرے احوال پر بھی نظر کیجیے، آپ کو آپ کا واسطہ یا نبی

سالہا سال سےکاٹتی ہیں یہاں ' کتنی نسلیں غلامی کی آزادیاں

یہ جو زنجیر ہے،کیا یہ تقدیر ہے'کیا کبھی ہم بھی ہوں گےرہا یا نبی

جنگلوں کے لیےباعثِ عار ہیں،یہ درندےجو قوموں کے سردار ہیں

ڈھونڈتی ہے نظر' کوئی راہ ِمفر' کوئی رہبرکوئی رہنما یا نبی

خودکو دھوکہ دیا بس یہی خیر ہے' گرچہ واقف تھےہم ،غیر تو غیر ہے

سینکڑوں بار دنیا کے ہوکر رہے کوئی اپنا نہیں ہوسکا یا نبی

لوگ بہرے پہاڑوں کے مانند تھے، بس ہماری صدا ئیں پلٹتے رہے

خود ہمارے سوا' کون سنتا بھلا ' تھاجوحرف ِندا ،یا خدا یا نبی

روز اک حادثہ پیش آتا ہوا ' سابقہ حادثوں کو بھلاتا ہوا

اور سب سےبڑی قوم کی بےحسی،سانحوں سےبڑا سانحہ یا نبی

دل بدلتےنہیں دن بدلتے نہیں' چند قوموں کے ڈر سےنکلتے نہیں

کچھ نہیں،سب کے سب' کیا عجم کیا عرب'ہیں جو گنتی میں بے انتہا یا نبی

زرد سےسرخ تک'شرق سےغرب تک'ہم فقط اک گماں،ہم فقط ایک شک

ملک در ملک غم ،کتنی بھگتیں گےہم' اپنےاعمال کی یہ سزا یا نبی

اپنے ایندھن میں دن رات جلتے ہیں ہم 'بس پگھلتے ہیں اور بس پگھلتے ہیں ہم

اب تو دستِ طلب میں سکت بھی نہیں جو اٹھا پائےحرفِ دعا یا نبی

آپ کا دین دنیا میں دائم رہے.شکر صد شکر  ہم اس پہ قائم رہے

سخت مشکل تھا گو اخگر سرخ کو یوں کفِ دست میں تھامنا یا نبی

اےوہ جس کے لیے ساری دنیاسجی' آپ کی قوم ہے آپ سے ملتجی

کیجیے اپنی چادر عطا  یا نبی ! ، لوگ صدیوں سے ہیں بے ردا  یا نبی

عمر بھر یوں ہی بھیجے درود آپ پر' جان قربان کردے سعود آپ پر

یہ غلام آپ کا ' یہ سلام آپ کا آپ کے نام صلِّ علٰٰی  یا نبی

.......................

دیدبان شمارہ ۲۴

بحضور رسالت مآب

سعودعثمانی

                                                                   

آپ تو جانتے ہیں مرے کرب کو ، آپ سے کیا چھپا ہے بھلا یا نبی

میرے احوال پر بھی نظر کیجیے، آپ کو آپ کا واسطہ یا نبی

سالہا سال سےکاٹتی ہیں یہاں ' کتنی نسلیں غلامی کی آزادیاں

یہ جو زنجیر ہے،کیا یہ تقدیر ہے'کیا کبھی ہم بھی ہوں گےرہا یا نبی

جنگلوں کے لیےباعثِ عار ہیں،یہ درندےجو قوموں کے سردار ہیں

ڈھونڈتی ہے نظر' کوئی راہ ِمفر' کوئی رہبرکوئی رہنما یا نبی

خودکو دھوکہ دیا بس یہی خیر ہے' گرچہ واقف تھےہم ،غیر تو غیر ہے

سینکڑوں بار دنیا کے ہوکر رہے کوئی اپنا نہیں ہوسکا یا نبی

لوگ بہرے پہاڑوں کے مانند تھے، بس ہماری صدا ئیں پلٹتے رہے

خود ہمارے سوا' کون سنتا بھلا ' تھاجوحرف ِندا ،یا خدا یا نبی

روز اک حادثہ پیش آتا ہوا ' سابقہ حادثوں کو بھلاتا ہوا

اور سب سےبڑی قوم کی بےحسی،سانحوں سےبڑا سانحہ یا نبی

دل بدلتےنہیں دن بدلتے نہیں' چند قوموں کے ڈر سےنکلتے نہیں

کچھ نہیں،سب کے سب' کیا عجم کیا عرب'ہیں جو گنتی میں بے انتہا یا نبی

زرد سےسرخ تک'شرق سےغرب تک'ہم فقط اک گماں،ہم فقط ایک شک

ملک در ملک غم ،کتنی بھگتیں گےہم' اپنےاعمال کی یہ سزا یا نبی

اپنے ایندھن میں دن رات جلتے ہیں ہم 'بس پگھلتے ہیں اور بس پگھلتے ہیں ہم

اب تو دستِ طلب میں سکت بھی نہیں جو اٹھا پائےحرفِ دعا یا نبی

آپ کا دین دنیا میں دائم رہے.شکر صد شکر  ہم اس پہ قائم رہے

سخت مشکل تھا گو اخگر سرخ کو یوں کفِ دست میں تھامنا یا نبی

اےوہ جس کے لیے ساری دنیاسجی' آپ کی قوم ہے آپ سے ملتجی

کیجیے اپنی چادر عطا  یا نبی ! ، لوگ صدیوں سے ہیں بے ردا  یا نبی

عمر بھر یوں ہی بھیجے درود آپ پر' جان قربان کردے سعود آپ پر

یہ غلام آپ کا ' یہ سلام آپ کا آپ کے نام صلِّ علٰٰی  یا نبی

.......................

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024