بچپن بوریت اور اباجی کی الماری
بچپن بوریت اور اباجی کی الماری
Oct 27, 2020
قرنطینہ کی برکت ملاحظہ فرمائیے
بچپن بوریت اور اباجی کی الماری
..............
تحریر : نجمہ ثاقب
قرنطینہ کی برکت ملاحظہ فرمائیے. طویل شب فراق کو پیچھے چھوڑتے فرصت کے رات دن, تصور جاناں کیے بیٹھے رہنے کی نہ آرزو نہ حاجت. کہ سبھی دشمن جاں چلمن سے لگے بیٹھے ہیں. سراہندی سےپواندی اور پواندی سے سراہندی کے سفر کے دوران ہر ہر پڑاؤ پہ ظل الہی کی جانب سے فرمائشی توپیں داغی جاتی ہیں. چھوٹے بچے بدن کی شاخوں سے لٹک لٹک جاتے ہیں. دہائی دیتے ہیں.
کہ بتائیے! کیا کریں کدھر جائیں ؟
اس سر چڑھی بوریت سے کیسے جان چھڑائیں؟
محفل محفل ویرانی ہے
منظر منظر حیرانی ہے
طرح طرح کے کھلونے, ڈیوائسز اور چلتے انٹر نیٹ.
سہولتیں ہی سہولتیں
عطا ہی عطا.
اور اس پہ بوریت کا رونا
مجھے رہ رہ کے اپنا بچپن یاد آتا ہے جس میں اس طرح کی سہولتوں کا دور تک گزر نہ تھا. چونکہ ابھی چائنہ کا زمانہ نہیں آیا تھا لہذا گاؤں میں رہنے والے بچوں نے پلاسٹک کے کھلونوں کو کم کم دیکھا تھا. یاروں نے کبھی بہت زور مار لیا تو چکنی مٹی سے ہانڈی ڈوئی اور چولہا کڑاہی بنا کے جلی دھوپ میں سکھا لیے. انہیں سبز گھاس اور شیشم کے پتوں کے ملیدے سے پوچا اور خود دیکھ دیکھ اوروں کو
دکھا دکھا خوش ہوا کیے.
گرمیوں کی دوپہروں میں سایہ دار درختوں تلے ہم کزنز گھر گھر کھیلتے یا ریتلی زمین پہ سڑکیں بچھا کر اینٹوں کے ٹکروں سے ٹینک چلاتے اور مورچوں میں اتر کر خود ساختہ دشمن پہ کنکر مٹی کی گولہ باری کرتے.
دھان کی فصل تیار ہو کر آتی تو اکثر گھروں کے کھلے آنگنوں میں سوکھے پیال کی مچانیں کھڑی کر دی جاتیں. چھتوں کی مینڈھوں پہ کھڑے ہو کے دونوں بازو کھول کر ہوا میں تیرتے ہوےُ اس مچان پہ کودنا ایک ایسی عیاشی تھی جو بڑوں سے آنکھ بچا کر کبھی کبھار میسر آ ہی جاتی تھی. ایک مرتبہ جب پیال قدرے نیچا اور چھت کافی اونچی تھی ایک کزن نے سب کو للکارتے ہوےُ شرط بدھی کہ جو اس موت کے کنوئیں میں چھلانگ لگاےُ گا اسے انعام میں چونی کا سکہ دیا جاےُ گا. ایک چھوٹی لژکی نے مال کی محبت سے مغلوب ہو کر شرط قبول کرلی. اور بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
خیر ہوئی کہ بازو ٹانگ ٹوٹنے سے بچ گئے البتہ چونی کا ادھار آج اتنے سال گزرنے کے بعد بھی چکتا نہیں کیا گیا.
بچپن کے دنوں کی اہک خوبصورت یاد رنگا رنگ کتابوں رسالوں کا کھوج لگانا اور اس تگ ودو میں بحر ظلمات میں دوڑاےُ گئے گھوڑے ہیں. جو دن کے چوبیس گھنٹے تازہ دم ہنہناتے رہتے تھے. میں ان دنوں محنتی چیونٹی کی طرح ہر اس دیوار پہ چڑھنے کی کوشش کرتی جہاں دس سے زیادہ مرتبہ پھسلنے چڑھنے کی گنجائش موجود ہو.
چھوٹا سا گاؤں تھا. اور سو پچاس لڑکیوں کو سمیٹے دو کمروں کا پرائمری سکول........ اب یہاں کون کسی سے چھپا رہ سکتا ہے. اگرکبھی بھنک بھی پڑ جاتی کہ کسی لڑکی کے بستے میں کوئی کہانیوں کی کتاب موجود ہے یا کسی کے گھرمیں کسی قسم کے رسالے کا امکان پایا جاتا ہےتو شہد کی مکھی کی طرح میں اس سے چمٹ جاتی اور تب تک نہ چھوڑتی جب تک وہ بےچاری ہاتھ جوڑ کے وہ کتاب میرے حوالے نہ کر دیتی. بہت سی شامت کی ماریاں شوق سے خریدا ہوا رسالہ اپنے پڑھنے سے پہلے میرے حوالے کر دیتیں کہ انہیں پتہ تھا کہ مجھے دیے بغیر وہ اپنا پڑھا بھی ہضم نہ کر پائیں گی.
ہمارا گھر گاؤں سے باہر ویرانے میں تھا لہذاسکول جانے کے علاوہ گاؤں کے اندر جانے کی صورت نہ تھی. اکثر شام کو جب میرا کتاب بینی کا نشہ ٹوٹنے لگتا تو میں چپکے سے باورچی خانے سے دودھ کو لگانے والا جامن اٹھاتی اور اسے دیوار کے پار کھیت میں اوندھا دیتی. پھر امی سے اجازت لے کر لسی لینے کے لیے گاؤں کے اندر واقع خالہ کے گھر جاتی اور غنیم کی صفوں میں چھاپہ مار کر مطلوبہ مال اس وعدے پہ اٹھا لاتی کہ صبح کی پہلی کرن کے ساتھ اسے بخیر وعافیت لوٹا دونگی. پھر رات بھر چاند کی روشنی میں دیدے پھوڑتے مارا ماری میں کتاب مکمل کی جاتی اور صبح سویرے سکول جاتے ہوےُ واپس کر دی جاتی.
ہمارے گھر میں اباجی کی ایک الماری تھی جو ہمیشہ مقفل رہتی تھی. یہ الماری اصل میں الف لیلی کی شہرزاد تھی جس کے پیٹ میں کہانیوں اور داستانوں کا ایک جہان آباد تھا. یہاں بچوں کی بلیک اینڈ وائٹ اور رنگین صفحوں والی بہت سی کتابیں تھیں. جن میں موتیوں کا ہار, بجلی کا بھوت, مسلم کی آپ بیتی اور ننھے میاں کے کارنامے مجھے اچھی طرح یاد ہیں. سرخ رنگ کی جلدمیں بندھا مصری ادیب کامل کیلانی کی کتابوں کا سیٹ تھا. جس کے دبیز اور چکنے اوراق پہ بڑی بڑی رنگین تصویریں تھیں. یہ تصویریں ہنستی کھیلتی اور باتیں کرتی تھیں. ان کتابوں میں ملکاؤں اور شہزادیوں کی کہانیاں تھیں. غریب لکژ ہارے اور مظلوم غلام لڑکے کی داستان تھی اور جانوروں کے مکالمے تھے. اباجی ترنگ میں ہوتے تو اس کتاب سے ایک آدھ کہانی ترجمہ کرکے سناتے.. ہم بچےشہزادوں اور شہزادیوں کے ہمراہ جادوئی قالینوں پہ بیٹھ کے بغداد شہر کی گلیوں پہ اڑتے لکڑ ہارے کے ساتھ جنگل میں لکڑیاں کاٹتے اور رات کے پچھلے پہر ظالم تاجر کے گھر میں غریب لڑکے کے ساتھ بیٹھ کر آٹھ آٹھ آنسو روتے.
اس الماری میں اردو ڈائجسٹ کے پرانے شمارے چراغ راہ مشیر اور فاران کی جلدیں اور حفیظ جالندھری کا ضخیم شاہنامہ اسلام تھا. یہاں نونہال کے چند شمارے, نور اورمیرزا ادیب کی لکھی کہانیاں تھیں. مگر الماری لوہے کی تھی اور سدا مقفل رہتی تھی. کیونکہ ابا جی کا خیال تھا کہ ہم کتابیں پڑھتے تو ہیں مگر ان کی حفاظت نہیں کرتے لہذا تکیوں کے نیچے کتاب گھسانے سے بہتر ہے کہ اسے الماری میں رکھا جاےُ. لیکن جو اللہ شکر خورے کو شکر دیتا ہے اور آسمان سے کوا بھیج کر قابیل کو لاش ٹھکانے لگانے کا گر سمجھاتا ہے. اس نے ہمیں بھی صورتحال سے نبٹنے کا طریقہ سکھا دیا. ابا جی غسل کرنے کے لیے غسل خانے میں جاتے اور قمیص اتار کر دروازے کے اوپری خلا پہ لٹکا دیتے. یوں کہ قمیص کا گریبان اندر کی جانب اور باقی حصہ باہر کی طرف لٹک رہا ہوتا. میں دبے پاؤں بے آواز حرکت سے جیب سے چابیاں نکالتی بغیر کھٹکا کیے الماری کھولتی. لشتم پشتم کتابوں پہ ہاتھ صاف کرتی اور چابی اسی طرح جیب میں منتقل کر دیتی جیسے نگالی تھی. جاےُ وقوعہ پہ موجود عینی شاہدین کتابوں سے مستفید ہونے کے وعدے پہ زباں بندی کا عندیہ دیتے اور اگلی واردات تک والہ وشیدا بنے رہتے.
آج تھوک کے حساب سے کتابیں گھر میں بھری پڑی ہیں
الماریاں چوپٹ کھلی ہیں
وقت وافر مقدار میں ہے
مگر چند بچوں کے سوا باقیوں میں کتاب بینی کا شوق نہیں
سو اب اس بوریت کا کیا علاج ہو
نجمہ ثاقب
---------------------
بچپن بوریت اور اباجی کی الماری
..............
تحریر : نجمہ ثاقب
قرنطینہ کی برکت ملاحظہ فرمائیے. طویل شب فراق کو پیچھے چھوڑتے فرصت کے رات دن, تصور جاناں کیے بیٹھے رہنے کی نہ آرزو نہ حاجت. کہ سبھی دشمن جاں چلمن سے لگے بیٹھے ہیں. سراہندی سےپواندی اور پواندی سے سراہندی کے سفر کے دوران ہر ہر پڑاؤ پہ ظل الہی کی جانب سے فرمائشی توپیں داغی جاتی ہیں. چھوٹے بچے بدن کی شاخوں سے لٹک لٹک جاتے ہیں. دہائی دیتے ہیں.
کہ بتائیے! کیا کریں کدھر جائیں ؟
اس سر چڑھی بوریت سے کیسے جان چھڑائیں؟
محفل محفل ویرانی ہے
منظر منظر حیرانی ہے
طرح طرح کے کھلونے, ڈیوائسز اور چلتے انٹر نیٹ.
سہولتیں ہی سہولتیں
عطا ہی عطا.
اور اس پہ بوریت کا رونا
مجھے رہ رہ کے اپنا بچپن یاد آتا ہے جس میں اس طرح کی سہولتوں کا دور تک گزر نہ تھا. چونکہ ابھی چائنہ کا زمانہ نہیں آیا تھا لہذا گاؤں میں رہنے والے بچوں نے پلاسٹک کے کھلونوں کو کم کم دیکھا تھا. یاروں نے کبھی بہت زور مار لیا تو چکنی مٹی سے ہانڈی ڈوئی اور چولہا کڑاہی بنا کے جلی دھوپ میں سکھا لیے. انہیں سبز گھاس اور شیشم کے پتوں کے ملیدے سے پوچا اور خود دیکھ دیکھ اوروں کو
دکھا دکھا خوش ہوا کیے.
گرمیوں کی دوپہروں میں سایہ دار درختوں تلے ہم کزنز گھر گھر کھیلتے یا ریتلی زمین پہ سڑکیں بچھا کر اینٹوں کے ٹکروں سے ٹینک چلاتے اور مورچوں میں اتر کر خود ساختہ دشمن پہ کنکر مٹی کی گولہ باری کرتے.
دھان کی فصل تیار ہو کر آتی تو اکثر گھروں کے کھلے آنگنوں میں سوکھے پیال کی مچانیں کھڑی کر دی جاتیں. چھتوں کی مینڈھوں پہ کھڑے ہو کے دونوں بازو کھول کر ہوا میں تیرتے ہوےُ اس مچان پہ کودنا ایک ایسی عیاشی تھی جو بڑوں سے آنکھ بچا کر کبھی کبھار میسر آ ہی جاتی تھی. ایک مرتبہ جب پیال قدرے نیچا اور چھت کافی اونچی تھی ایک کزن نے سب کو للکارتے ہوےُ شرط بدھی کہ جو اس موت کے کنوئیں میں چھلانگ لگاےُ گا اسے انعام میں چونی کا سکہ دیا جاےُ گا. ایک چھوٹی لژکی نے مال کی محبت سے مغلوب ہو کر شرط قبول کرلی. اور بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
خیر ہوئی کہ بازو ٹانگ ٹوٹنے سے بچ گئے البتہ چونی کا ادھار آج اتنے سال گزرنے کے بعد بھی چکتا نہیں کیا گیا.
بچپن کے دنوں کی اہک خوبصورت یاد رنگا رنگ کتابوں رسالوں کا کھوج لگانا اور اس تگ ودو میں بحر ظلمات میں دوڑاےُ گئے گھوڑے ہیں. جو دن کے چوبیس گھنٹے تازہ دم ہنہناتے رہتے تھے. میں ان دنوں محنتی چیونٹی کی طرح ہر اس دیوار پہ چڑھنے کی کوشش کرتی جہاں دس سے زیادہ مرتبہ پھسلنے چڑھنے کی گنجائش موجود ہو.
چھوٹا سا گاؤں تھا. اور سو پچاس لڑکیوں کو سمیٹے دو کمروں کا پرائمری سکول........ اب یہاں کون کسی سے چھپا رہ سکتا ہے. اگرکبھی بھنک بھی پڑ جاتی کہ کسی لڑکی کے بستے میں کوئی کہانیوں کی کتاب موجود ہے یا کسی کے گھرمیں کسی قسم کے رسالے کا امکان پایا جاتا ہےتو شہد کی مکھی کی طرح میں اس سے چمٹ جاتی اور تب تک نہ چھوڑتی جب تک وہ بےچاری ہاتھ جوڑ کے وہ کتاب میرے حوالے نہ کر دیتی. بہت سی شامت کی ماریاں شوق سے خریدا ہوا رسالہ اپنے پڑھنے سے پہلے میرے حوالے کر دیتیں کہ انہیں پتہ تھا کہ مجھے دیے بغیر وہ اپنا پڑھا بھی ہضم نہ کر پائیں گی.
ہمارا گھر گاؤں سے باہر ویرانے میں تھا لہذاسکول جانے کے علاوہ گاؤں کے اندر جانے کی صورت نہ تھی. اکثر شام کو جب میرا کتاب بینی کا نشہ ٹوٹنے لگتا تو میں چپکے سے باورچی خانے سے دودھ کو لگانے والا جامن اٹھاتی اور اسے دیوار کے پار کھیت میں اوندھا دیتی. پھر امی سے اجازت لے کر لسی لینے کے لیے گاؤں کے اندر واقع خالہ کے گھر جاتی اور غنیم کی صفوں میں چھاپہ مار کر مطلوبہ مال اس وعدے پہ اٹھا لاتی کہ صبح کی پہلی کرن کے ساتھ اسے بخیر وعافیت لوٹا دونگی. پھر رات بھر چاند کی روشنی میں دیدے پھوڑتے مارا ماری میں کتاب مکمل کی جاتی اور صبح سویرے سکول جاتے ہوےُ واپس کر دی جاتی.
ہمارے گھر میں اباجی کی ایک الماری تھی جو ہمیشہ مقفل رہتی تھی. یہ الماری اصل میں الف لیلی کی شہرزاد تھی جس کے پیٹ میں کہانیوں اور داستانوں کا ایک جہان آباد تھا. یہاں بچوں کی بلیک اینڈ وائٹ اور رنگین صفحوں والی بہت سی کتابیں تھیں. جن میں موتیوں کا ہار, بجلی کا بھوت, مسلم کی آپ بیتی اور ننھے میاں کے کارنامے مجھے اچھی طرح یاد ہیں. سرخ رنگ کی جلدمیں بندھا مصری ادیب کامل کیلانی کی کتابوں کا سیٹ تھا. جس کے دبیز اور چکنے اوراق پہ بڑی بڑی رنگین تصویریں تھیں. یہ تصویریں ہنستی کھیلتی اور باتیں کرتی تھیں. ان کتابوں میں ملکاؤں اور شہزادیوں کی کہانیاں تھیں. غریب لکژ ہارے اور مظلوم غلام لڑکے کی داستان تھی اور جانوروں کے مکالمے تھے. اباجی ترنگ میں ہوتے تو اس کتاب سے ایک آدھ کہانی ترجمہ کرکے سناتے.. ہم بچےشہزادوں اور شہزادیوں کے ہمراہ جادوئی قالینوں پہ بیٹھ کے بغداد شہر کی گلیوں پہ اڑتے لکڑ ہارے کے ساتھ جنگل میں لکڑیاں کاٹتے اور رات کے پچھلے پہر ظالم تاجر کے گھر میں غریب لڑکے کے ساتھ بیٹھ کر آٹھ آٹھ آنسو روتے.
اس الماری میں اردو ڈائجسٹ کے پرانے شمارے چراغ راہ مشیر اور فاران کی جلدیں اور حفیظ جالندھری کا ضخیم شاہنامہ اسلام تھا. یہاں نونہال کے چند شمارے, نور اورمیرزا ادیب کی لکھی کہانیاں تھیں. مگر الماری لوہے کی تھی اور سدا مقفل رہتی تھی. کیونکہ ابا جی کا خیال تھا کہ ہم کتابیں پڑھتے تو ہیں مگر ان کی حفاظت نہیں کرتے لہذا تکیوں کے نیچے کتاب گھسانے سے بہتر ہے کہ اسے الماری میں رکھا جاےُ. لیکن جو اللہ شکر خورے کو شکر دیتا ہے اور آسمان سے کوا بھیج کر قابیل کو لاش ٹھکانے لگانے کا گر سمجھاتا ہے. اس نے ہمیں بھی صورتحال سے نبٹنے کا طریقہ سکھا دیا. ابا جی غسل کرنے کے لیے غسل خانے میں جاتے اور قمیص اتار کر دروازے کے اوپری خلا پہ لٹکا دیتے. یوں کہ قمیص کا گریبان اندر کی جانب اور باقی حصہ باہر کی طرف لٹک رہا ہوتا. میں دبے پاؤں بے آواز حرکت سے جیب سے چابیاں نکالتی بغیر کھٹکا کیے الماری کھولتی. لشتم پشتم کتابوں پہ ہاتھ صاف کرتی اور چابی اسی طرح جیب میں منتقل کر دیتی جیسے نگالی تھی. جاےُ وقوعہ پہ موجود عینی شاہدین کتابوں سے مستفید ہونے کے وعدے پہ زباں بندی کا عندیہ دیتے اور اگلی واردات تک والہ وشیدا بنے رہتے.
آج تھوک کے حساب سے کتابیں گھر میں بھری پڑی ہیں
الماریاں چوپٹ کھلی ہیں
وقت وافر مقدار میں ہے
مگر چند بچوں کے سوا باقیوں میں کتاب بینی کا شوق نہیں
سو اب اس بوریت کا کیا علاج ہو
نجمہ ثاقب
---------------------