آئینے کا فریب
آئینے کا فریب
Feb 27, 2023
دیدبان شمارہ ۔۱۷ ۲۰۲۳
آئینے کا فریب
خالد فتح محمد
وہ بوڑھی تو آج ہے کل جوان تھی اور پرسوں بچی !
آج اُسے اگر کچھ یاد تھا تو صرف اپنا بڑھاپا ! آج اُسے جان بوجھ کر نظر انداز کیا جارہا تھا۔وہ سب کے چہروں پر کراہت،ایک طرح کی نفرت دیکھ سکتی تھی اور اِس گستاخانہ رویے کے ردِعمل میںاُس کے اندر اپنے لیے ایک ہم دردی اور کسی حد تک عجیب سی چاہت جاگ اُٹھی۔ اُسے یقین ہوگیا کہ وہ اِتنی خوب صورت کبھی تھی ہی نہیں۔اِس احساس نے آئینے کو اُس کا بہت قریبی ساتھی بنادیا۔کل تک آئینہ اُس کی ضرورت نہیں تھا،دنیا ہی اُس کا آئینہ تھی۔وہ سب کی نظروں میں اپنے آپ کو دیکھتی اور وقت کو اپنا واحد ہم درد سمجھتی رہی۔ پھر اُس نے محسوس کیا کہ دنیا اُس کا آئینہ نہیں رہی بلکہ وہ دنیا کا آئینہ بن گئی ہے ۔
اور پھر وہ آج میں داخل ہونے لگی
آج صرف آئینہ اُس کا ساتھی ہے۔وہ بالکل اکیلی ہو گئی ہوتی اگر آئینے سے اُس کا تعارف نہ ہو گیا ہوتا۔یہ تعارف بھی ایک اتفاقیہ سا حادثہ تھا۔وہ کل اور آج کے مابین،ایک ملجگے اندھیرے وقت کے جالے میں پھنس گئی۔وہ پیچھے جانا چاہتی تو جالا اُسے روک دیتااور آگے جانے سے وہ خود خائف تھی۔اِس بے یقینی اور تذبذب کی کیفیت میں اُس کی نظر آئینے پر جاپڑی؛ وہ بھی جیسے اُس کا منتظر ہو ۔اُسے آئینے میں درمیانی عمر کی ایک عورت نظر آئی جس کے گالوں کی جلد اب نرم نہیں رہی تھی اور بال کالی لہریں کھو چکے تھے۔ہونٹوں کے کناروں پر مستقل لکیریں نمایاں تھیں جو چہرے کو خوب صورتی کے ساتھ ساتھ ایک تمکنت بھی دے رہی تھیں۔کل کی عورت سے اُسے آج کی عورت پُر کشش لگی۔اُس نے آئینہ چھپا دیا مبادا کہ اپنی ہی کشش میںکھو جائے !
اُس نے آنکھیں بند کرلیں؛نئے عکس کو ذہن نشین کرنے کے لیے تخلیق کی اذیت اور لذت سے گزرتے ہوئے وہ وقت کے کئی پردوں کو ہٹاتی، ملجگی سے اندھیرے کو پار کرکے،چندھیا دینے والی روشنی میں آ کھڑی ہوئی۔
وہ آنکھیں کھولنے سے خائف تھی !
لیکن اُس نے آنکھیں کھول دیں؛وہ اُنھیں کب تک بند رکھتی۔
اُس کے سامنے نیا نظارہ تھا۔جہاں وہ بیٹھی تھی،وہاں کل کوئی اور بیٹھا تھا اور اُس سے پہلے کوئی اور ! وہ آج میں داخل ہوتے ہی اپنی نئی شناخت کی اہمیت میں کھو گئی۔جہاں وہ بیٹھی تھی، اُس کے سامنے سب بیٹھے تھے۔وہ اُس کے جسم کی بوٹیاں تھے۔اُن بوٹیوں کو اکٹھا کرکے اگر جوڑناشروع کردیا جاتا تووہ پھر سے وجود پاجاتی۔وہ سب جب بھی اُس کی طرف دیکھتے،اُن کی نظر میں اُمید اورتوقع ہوتی۔وہ اُن کی نظروں میں اطاعت کی رو کو محسوس کرتے ہی پیار اور اعتماد کی حدت سے پگھلنے لگتی،وہ مائع بن کر اُن کی طرف بہنا شروع کر دیتی۔وہ اُسے فخر اور اپنائیت سے دیکھتے ہوئے زندگی کے تسلسل میں جُٹ جاتے۔
اُسے اپنا باپ یاد آجاتا !
گندمی رنگ،خشخسی ڈاڑھی،ماتھے پر ارتکاز کی لکیریں اور آنکھوں میں شدت کا عکس ہر کوئی اُس سے خائف رہتا؛اِس خوف میں احترام بھی شامل تھا۔ہر کوئی اُس سے رہنمائی کی توقع رکھتاجو وہ بہم پہنچاتا رہتا۔پھر بتدریج اُس کی اہمیت کم ہونے لگی،وہ اپنے مقام سے نیچے نیچے آنا شروع ہوگیا۔جسمانی طور پر وہ اتنا مضبوط نہیں رہا تھااور باتیں اور واقعات اُسے یادنہ رہتے تھے۔سب نے اُسے نظر انداز کرنا شروع کردیا تھا۔وہ اُس پر ترس کھاتی رہتی؛یہ وہی آدمی تھاجس کی آنکھ کااشارہ حکم ہوتا اور اب جب وہ اُنھیںبلاتا تو وہ اُسے تضحیک کا نشانہ بناتے۔وہ اُس کے دفاع میں اُٹھ کھڑی ہوتی تو ایک کمزور سی آواز لگتی۔وہ بے بس سا،بے یارومددگار،آدھا منہ کھولے سب کو حسرت سے دیکھتا رہتا۔وہ سوچنے لگتی کہ اِس طرح بے توقیر ہونے سے تو بہتر ہے کہ وہ مر ہی جائے۔پھر ایک دن وہ مر گیا اور سب دُکھی ہو گئے؛وہ اُن کی منافقت پر لعنت بھیجنے لگی۔وہ مطمئن تھی کہ وہ آزاد ہو گیا۔
اُس وقت وہ کل میں تھی !
اُس کی شادی ہوگئی۔اُس کا خاوند گنجا اور کمزور ساآدمی تھا۔وہ ایک صحت مند،جوان اور خوب صورت عورت تھی اور اُسے گنجا خاوند پسند نہ آیا۔اُس کا اندر کراہت اور پھر نفرت سے بھر گیا۔ وہ اُسے اپنا دشمن لگنے لگا۔وہ اُس سے بدلہ لینے کا سوچنی لگی۔اُسے اپنی زندگی وہ صبح لگی جو اچانک دوپہر میں ڈھل جاتی ہے۔اُس نے ابھی صبح کی لطافتیں چکھی ہی نہیں تھیںکہ جھلسا دینے والی دھوپ میں وہ ننگے پاو ¿ں کھڑی تھی۔اُس کے پاو ¿ں جل رہے تھے اور بدلہ لینا ضرورت بنتا جا رہا تھا۔وہ اُس سے کیا بدلہ لے ؟ اُس کا قصور کیا ہے؟یہی کہ وہ اُسے پسند نہیں تھا۔پھر کیا ہوا ؟نفرت کرنے کے باوجود وہ اُس کے ساتھ زندگی گزارے گی ۔وہ اُس سے بدلہ لینے کے بجائے اُس دستور سے بدلہ لے گی جس کے تحت اُسے گنجے کے سپرد کردیاگیا تھا۔اُس کا باپ فوت ہو چکا تھا اور باقی لوگوں کو وہ پسند نہیں کرتی تھی۔اُن کی ٹھوڑیاں اُٹھی ہوئی اور نظریں خمار آلود تھیں۔وہ اُنھیں شکست دینے کا سوچنے لگی۔اُس نے طے کرلیا کہ وہ بدکردار ہوکر زندگی گزارے گی۔پھر اُس نے سوچاکہ وہ بدکردار ہوکر اپنی نفرت کو تسکین پہنچا رہی تھی یا دستور کے سامنے بغاوت نہ کر سکنے کی اپنے آپ کو سزا دے رہی تھی یا یہ سب ڈھونگ تھااور وہ صرف لذت کی متلاشی تھا۔وہ اپنے لےے متعین کی ہوئی راہ پر چل پڑی۔وقت گزرنے کے ساتھ اُسے اپنے خاوند سے ہم دردی ہونے لگی۔وہ ایک بے ضرر سا آدمی تھااور یہی ہم دردی کا سبب بنا۔وہ اُس کے ساتھ ہمیشہ اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرتا۔ اُس کے ایسے روےے سے وہ اُس کی طرف مائل ہونے لگی۔خاوند کا کمزور ہونا ہی اُس کی اصلی طاقت لگا۔وہ جان چکی تھی کہ اُس کی دل چسپیوں کے بارے میں جانتے ہوئے بھی وہ اُسے عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے ۔وہ اُس کی عزت کرنے لگی۔آہستہ آہستہ وہ گھر کی چاردیواری کے اندر سمٹ کر رہ گئی۔چاردیواری کے اندر بند ہوتے ہی وہ پرسوں میں چلی گئی۔اُس کا گھر کھلونوں سے بھرا ہوا تھا۔وہ معصومانہ شوق کے ساتھ کئی کاموں میںاُلجھی رہتی؛اُس کے لےے ہرکام ایک کشش لےے ہوئے تھااور وہ اِس کشش میں مبتلا ہوتے چلی گئی۔وہ اپنے آپ کو ایک بچہ سمجھنے لگی معصوم، پاکیزہ اور بے باک۔ اِس کایا کلپ میں اُس کے خاوند کی حوصلہ افزائی شامل تھی۔وہ اُس کے گرد ایسے چکر کاٹتی رہتی جیسے اپنے باپ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لےے کیا کرتی تھی۔تب وہ اپنے بہن بھائیوں پر فوقیت لے جانا چاہتی تھی جب کہ اب جرم اور گناہ کا احساس اُسے تازیانے لگا رہا تھا۔اُس کے خاوند نے اُسے ایسا کرنے سے کبھی روکا نہیں تھا،وہ جانتی تھی کہ وہ اُسے کسی قسم کے احساسِ کمتری کا شکارنہیں ہونے دینا چاہتا ۔
ایک دن اُس کے لاوے کو نکلنے کے لےے درز مل گئی !
”سہیل ! میں آپ سے شرمندہ ہوں۔“ اُ س کی آواز میں شکست اور لہجے میں شرمندگی تھی۔
سہیل آرام کرسی پر نیم دراز تھا۔لگ رہا تھا کہ اُس نے کچھ سنا ہی نہیں۔اُس نے بات دہرائی تو سہیل نے آنکھیں کھولیں۔اُسے اُن آنکھوں اور اپنے درمیان میں فاصلہ نظر آیا۔وہ خائف ہوگئی۔
”نہیں ارجمند ! پہلے تم گھر میں اچھی لگتی تھیں،اب یہ گھر تم سے سج گیا ہے۔“
وہ رو پڑی۔اُس کے آنسو شکست کا اعتراف ہونے کے بجائے قبول کےے جانے کاشکرانہ تھے۔وہ سہیل کو دیکھتے ہوئے روئے جا رہی تھی۔اعتراف اور آنسو اُسے اپنے اندر کی پھانس سے آزادی دلا رہے تھے۔اپنے آنسو اُسے اُس متبرک پانی کی طرح لگے جو اُس کے گناہ دھو رہا ہو۔کچھ دیر کے بعد اُسے محسوس ہواکہ وہ ہر آلائش سے پاک ہو گئی ہے؛یک دم وہ پرانی ارجمند بن گئی۔اُس نے سہیل کو نظر بھرکر دیکھا۔وہ کمزور ساگنجا آدمی اُسے مضبوط مرد لگا۔اُس نے اپنے آپ کو اُس کی طاقت کے حوالے کردیا۔اُسے اپنے اندرایک مضبوطی کا احساس ہونے لگا اور وہ اپنے آپ کو ایک طاقت ورعورت سمجھنے لگی۔وہ عزیزو اقارب جن کا سامنا کرنے سے وہ کترایا کرتی تھی،اب اُسے غیر اہم سے لوگ لگے۔وہ سوچتی کہ اُس نے سن رکھا تھا کہ کوئل ایک بے ضرر سا پرندہ ہے لیکن اُس کے اندر ایسی مکاری ہوتی ہے کہ وہ کوّے کے انڈے پی کراُس کے گھونسلے میں انڈے دے دیتی ہے اور کوّااُن میں سے بچے نکالتا ہے۔وہ بعض اوقات سوچتی ،کہیں ایسا تو نہیںکہ وہ سہیل ہی کو دھوکادینا چاہتی ہو !مگر پھر اپنے آپ کو اُسی وقت یقین دلاتی کہ اُس نے سہیل کو صحیح معنوں میں اپنا لیا ہے۔
اُسے وہ گھنا برگد لگتا جس کی ہر شاخ پر وہ جھولنا چاہتی تھی۔وہ اُن شاخوں پر جھولنے لگتی۔وقت گزرنے کے ساتھ وہ شاخیں ایک ایک کر کے ٹوٹنے لگیں۔پھر وہاں صرف تنا رہ گیا، ٹوٹی ہو ئی شاخوں کو لوگ جلانے کے لےے لے گئے۔اُسے اب تنے کو گرنے سے بچانا تھا۔اُسے اپنے باپ کا بے توقیر ہونا یاد آگیا۔وہ نہیں چاہتی تھی کہ سہیل سربراہ بنے۔سہیل کو سربراہی پسند تھی اِس لےے اُسے ارجمند کا نظریہ خود غرضی لگا۔اُس کے ذہن میں فوراً پرانی ارجمند زندہ ہو گئی۔ارجمند نے اُس کی خواہش کے سامنے ہتھیار ڈال دےے۔
سہیل اپنی بلندی سے نیچے آنے لگا۔وہ ذہنی اور جسمانی طور معذور ہونا شروع ہو گیا تھا۔اُس کے بیٹے اور بہوئیں،بیٹیاں اور داماد،پوتے پوتیاںاور نواسے نواسیاں اُسے غیر اہم سا بوڑھا سمجھنے لگے۔خاندان میں ایک عجیب سی افراتفری اور نفاق کی کیفیت تھی۔اُسے سہیل کا اِس طرح بے وقعت ہونا پسند نہ آیا۔
مختصر علالت کے بعد،ایک دن،سہیل فوت ہوگیا !
ارجمند چند برس پہلے آج میں داخل ہوئی تھی اور اُس کی خوب صورتی میں ایک وقار تھا۔ اب اُس کی گردن،چہرہ اور ہاتھ جھریوں سے بھر گئے تھے،یہ وہی چہرہ تھا جسے دیکھنے کے لےے لوگ اُس کے پاس آتے تھے۔
وہ گھر کی سربراہ تھی اور شروع میں سب کو اُس سے توقعات تھیں۔وہ بھی خود مختار رہنا چاہتی تھی۔اُسے باپ اور خاوند کی طرح ضعیفی سے ناکارہ نہیں ہونا تھا۔وہ تو سب پر حاوی رہنا چاہتی تھی۔وہ جانتی تھی:اگر اُن کی طرح ناکارہ ہو گئی تو مر جائے گی۔اُس کے لےے موت ایک طویل خاموشی اور گھپ اندھیرا تھا اور اُسے خاموشی اور اندھیرے سے خوف آتا تھا۔اُس کی نظر کمزور ہو رہی تھی اور اُسے صحیح طرح سے سنائی بھی نہیں دےتا تھا۔موت کے ڈر سے وہ زندگی کو ساتھ لگائے رکھنا چاہتی تھی۔اُسے لگ رہا تھا کہ موت ایک سائے کی طرح اُس کی طرف بڑھ رہی ہے۔ وہ مرنا نہیں چاہتی تھی۔اُس نے سوچا ، اگر وہ مر گئی تو سب کا کیا بنے گا !اُسے پھر سائے رینگتے ہوئے محسوس ہوئے۔سہیل اور اُس کے اپنے باپ کے سائے پہچانے جا سکتے تھے۔وہ خوف زدہ ہو گئی۔ ہمت مجتمع کرکے اُس نے چاروں طرف نظر دوڑانے کا فیصلہ کیا۔ سامنے،اُس کی بڑی بہو، اُس کا آئینہ تھامے،اپنے ہونٹوں کے کونوں پر اُبھری لکیروں کو محسوس کر رہی تھی !
Like
Comment
Send
دیدبان شمارہ ۔۱۷ ۲۰۲۳
آئینے کا فریب
خالد فتح محمد
وہ بوڑھی تو آج ہے کل جوان تھی اور پرسوں بچی !
آج اُسے اگر کچھ یاد تھا تو صرف اپنا بڑھاپا ! آج اُسے جان بوجھ کر نظر انداز کیا جارہا تھا۔وہ سب کے چہروں پر کراہت،ایک طرح کی نفرت دیکھ سکتی تھی اور اِس گستاخانہ رویے کے ردِعمل میںاُس کے اندر اپنے لیے ایک ہم دردی اور کسی حد تک عجیب سی چاہت جاگ اُٹھی۔ اُسے یقین ہوگیا کہ وہ اِتنی خوب صورت کبھی تھی ہی نہیں۔اِس احساس نے آئینے کو اُس کا بہت قریبی ساتھی بنادیا۔کل تک آئینہ اُس کی ضرورت نہیں تھا،دنیا ہی اُس کا آئینہ تھی۔وہ سب کی نظروں میں اپنے آپ کو دیکھتی اور وقت کو اپنا واحد ہم درد سمجھتی رہی۔ پھر اُس نے محسوس کیا کہ دنیا اُس کا آئینہ نہیں رہی بلکہ وہ دنیا کا آئینہ بن گئی ہے ۔
اور پھر وہ آج میں داخل ہونے لگی
آج صرف آئینہ اُس کا ساتھی ہے۔وہ بالکل اکیلی ہو گئی ہوتی اگر آئینے سے اُس کا تعارف نہ ہو گیا ہوتا۔یہ تعارف بھی ایک اتفاقیہ سا حادثہ تھا۔وہ کل اور آج کے مابین،ایک ملجگے اندھیرے وقت کے جالے میں پھنس گئی۔وہ پیچھے جانا چاہتی تو جالا اُسے روک دیتااور آگے جانے سے وہ خود خائف تھی۔اِس بے یقینی اور تذبذب کی کیفیت میں اُس کی نظر آئینے پر جاپڑی؛ وہ بھی جیسے اُس کا منتظر ہو ۔اُسے آئینے میں درمیانی عمر کی ایک عورت نظر آئی جس کے گالوں کی جلد اب نرم نہیں رہی تھی اور بال کالی لہریں کھو چکے تھے۔ہونٹوں کے کناروں پر مستقل لکیریں نمایاں تھیں جو چہرے کو خوب صورتی کے ساتھ ساتھ ایک تمکنت بھی دے رہی تھیں۔کل کی عورت سے اُسے آج کی عورت پُر کشش لگی۔اُس نے آئینہ چھپا دیا مبادا کہ اپنی ہی کشش میںکھو جائے !
اُس نے آنکھیں بند کرلیں؛نئے عکس کو ذہن نشین کرنے کے لیے تخلیق کی اذیت اور لذت سے گزرتے ہوئے وہ وقت کے کئی پردوں کو ہٹاتی، ملجگی سے اندھیرے کو پار کرکے،چندھیا دینے والی روشنی میں آ کھڑی ہوئی۔
وہ آنکھیں کھولنے سے خائف تھی !
لیکن اُس نے آنکھیں کھول دیں؛وہ اُنھیں کب تک بند رکھتی۔
اُس کے سامنے نیا نظارہ تھا۔جہاں وہ بیٹھی تھی،وہاں کل کوئی اور بیٹھا تھا اور اُس سے پہلے کوئی اور ! وہ آج میں داخل ہوتے ہی اپنی نئی شناخت کی اہمیت میں کھو گئی۔جہاں وہ بیٹھی تھی، اُس کے سامنے سب بیٹھے تھے۔وہ اُس کے جسم کی بوٹیاں تھے۔اُن بوٹیوں کو اکٹھا کرکے اگر جوڑناشروع کردیا جاتا تووہ پھر سے وجود پاجاتی۔وہ سب جب بھی اُس کی طرف دیکھتے،اُن کی نظر میں اُمید اورتوقع ہوتی۔وہ اُن کی نظروں میں اطاعت کی رو کو محسوس کرتے ہی پیار اور اعتماد کی حدت سے پگھلنے لگتی،وہ مائع بن کر اُن کی طرف بہنا شروع کر دیتی۔وہ اُسے فخر اور اپنائیت سے دیکھتے ہوئے زندگی کے تسلسل میں جُٹ جاتے۔
اُسے اپنا باپ یاد آجاتا !
گندمی رنگ،خشخسی ڈاڑھی،ماتھے پر ارتکاز کی لکیریں اور آنکھوں میں شدت کا عکس ہر کوئی اُس سے خائف رہتا؛اِس خوف میں احترام بھی شامل تھا۔ہر کوئی اُس سے رہنمائی کی توقع رکھتاجو وہ بہم پہنچاتا رہتا۔پھر بتدریج اُس کی اہمیت کم ہونے لگی،وہ اپنے مقام سے نیچے نیچے آنا شروع ہوگیا۔جسمانی طور پر وہ اتنا مضبوط نہیں رہا تھااور باتیں اور واقعات اُسے یادنہ رہتے تھے۔سب نے اُسے نظر انداز کرنا شروع کردیا تھا۔وہ اُس پر ترس کھاتی رہتی؛یہ وہی آدمی تھاجس کی آنکھ کااشارہ حکم ہوتا اور اب جب وہ اُنھیںبلاتا تو وہ اُسے تضحیک کا نشانہ بناتے۔وہ اُس کے دفاع میں اُٹھ کھڑی ہوتی تو ایک کمزور سی آواز لگتی۔وہ بے بس سا،بے یارومددگار،آدھا منہ کھولے سب کو حسرت سے دیکھتا رہتا۔وہ سوچنے لگتی کہ اِس طرح بے توقیر ہونے سے تو بہتر ہے کہ وہ مر ہی جائے۔پھر ایک دن وہ مر گیا اور سب دُکھی ہو گئے؛وہ اُن کی منافقت پر لعنت بھیجنے لگی۔وہ مطمئن تھی کہ وہ آزاد ہو گیا۔
اُس وقت وہ کل میں تھی !
اُس کی شادی ہوگئی۔اُس کا خاوند گنجا اور کمزور ساآدمی تھا۔وہ ایک صحت مند،جوان اور خوب صورت عورت تھی اور اُسے گنجا خاوند پسند نہ آیا۔اُس کا اندر کراہت اور پھر نفرت سے بھر گیا۔ وہ اُسے اپنا دشمن لگنے لگا۔وہ اُس سے بدلہ لینے کا سوچنی لگی۔اُسے اپنی زندگی وہ صبح لگی جو اچانک دوپہر میں ڈھل جاتی ہے۔اُس نے ابھی صبح کی لطافتیں چکھی ہی نہیں تھیںکہ جھلسا دینے والی دھوپ میں وہ ننگے پاو ¿ں کھڑی تھی۔اُس کے پاو ¿ں جل رہے تھے اور بدلہ لینا ضرورت بنتا جا رہا تھا۔وہ اُس سے کیا بدلہ لے ؟ اُس کا قصور کیا ہے؟یہی کہ وہ اُسے پسند نہیں تھا۔پھر کیا ہوا ؟نفرت کرنے کے باوجود وہ اُس کے ساتھ زندگی گزارے گی ۔وہ اُس سے بدلہ لینے کے بجائے اُس دستور سے بدلہ لے گی جس کے تحت اُسے گنجے کے سپرد کردیاگیا تھا۔اُس کا باپ فوت ہو چکا تھا اور باقی لوگوں کو وہ پسند نہیں کرتی تھی۔اُن کی ٹھوڑیاں اُٹھی ہوئی اور نظریں خمار آلود تھیں۔وہ اُنھیں شکست دینے کا سوچنے لگی۔اُس نے طے کرلیا کہ وہ بدکردار ہوکر زندگی گزارے گی۔پھر اُس نے سوچاکہ وہ بدکردار ہوکر اپنی نفرت کو تسکین پہنچا رہی تھی یا دستور کے سامنے بغاوت نہ کر سکنے کی اپنے آپ کو سزا دے رہی تھی یا یہ سب ڈھونگ تھااور وہ صرف لذت کی متلاشی تھا۔وہ اپنے لےے متعین کی ہوئی راہ پر چل پڑی۔وقت گزرنے کے ساتھ اُسے اپنے خاوند سے ہم دردی ہونے لگی۔وہ ایک بے ضرر سا آدمی تھااور یہی ہم دردی کا سبب بنا۔وہ اُس کے ساتھ ہمیشہ اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرتا۔ اُس کے ایسے روےے سے وہ اُس کی طرف مائل ہونے لگی۔خاوند کا کمزور ہونا ہی اُس کی اصلی طاقت لگا۔وہ جان چکی تھی کہ اُس کی دل چسپیوں کے بارے میں جانتے ہوئے بھی وہ اُسے عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے ۔وہ اُس کی عزت کرنے لگی۔آہستہ آہستہ وہ گھر کی چاردیواری کے اندر سمٹ کر رہ گئی۔چاردیواری کے اندر بند ہوتے ہی وہ پرسوں میں چلی گئی۔اُس کا گھر کھلونوں سے بھرا ہوا تھا۔وہ معصومانہ شوق کے ساتھ کئی کاموں میںاُلجھی رہتی؛اُس کے لےے ہرکام ایک کشش لےے ہوئے تھااور وہ اِس کشش میں مبتلا ہوتے چلی گئی۔وہ اپنے آپ کو ایک بچہ سمجھنے لگی معصوم، پاکیزہ اور بے باک۔ اِس کایا کلپ میں اُس کے خاوند کی حوصلہ افزائی شامل تھی۔وہ اُس کے گرد ایسے چکر کاٹتی رہتی جیسے اپنے باپ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لےے کیا کرتی تھی۔تب وہ اپنے بہن بھائیوں پر فوقیت لے جانا چاہتی تھی جب کہ اب جرم اور گناہ کا احساس اُسے تازیانے لگا رہا تھا۔اُس کے خاوند نے اُسے ایسا کرنے سے کبھی روکا نہیں تھا،وہ جانتی تھی کہ وہ اُسے کسی قسم کے احساسِ کمتری کا شکارنہیں ہونے دینا چاہتا ۔
ایک دن اُس کے لاوے کو نکلنے کے لےے درز مل گئی !
”سہیل ! میں آپ سے شرمندہ ہوں۔“ اُ س کی آواز میں شکست اور لہجے میں شرمندگی تھی۔
سہیل آرام کرسی پر نیم دراز تھا۔لگ رہا تھا کہ اُس نے کچھ سنا ہی نہیں۔اُس نے بات دہرائی تو سہیل نے آنکھیں کھولیں۔اُسے اُن آنکھوں اور اپنے درمیان میں فاصلہ نظر آیا۔وہ خائف ہوگئی۔
”نہیں ارجمند ! پہلے تم گھر میں اچھی لگتی تھیں،اب یہ گھر تم سے سج گیا ہے۔“
وہ رو پڑی۔اُس کے آنسو شکست کا اعتراف ہونے کے بجائے قبول کےے جانے کاشکرانہ تھے۔وہ سہیل کو دیکھتے ہوئے روئے جا رہی تھی۔اعتراف اور آنسو اُسے اپنے اندر کی پھانس سے آزادی دلا رہے تھے۔اپنے آنسو اُسے اُس متبرک پانی کی طرح لگے جو اُس کے گناہ دھو رہا ہو۔کچھ دیر کے بعد اُسے محسوس ہواکہ وہ ہر آلائش سے پاک ہو گئی ہے؛یک دم وہ پرانی ارجمند بن گئی۔اُس نے سہیل کو نظر بھرکر دیکھا۔وہ کمزور ساگنجا آدمی اُسے مضبوط مرد لگا۔اُس نے اپنے آپ کو اُس کی طاقت کے حوالے کردیا۔اُسے اپنے اندرایک مضبوطی کا احساس ہونے لگا اور وہ اپنے آپ کو ایک طاقت ورعورت سمجھنے لگی۔وہ عزیزو اقارب جن کا سامنا کرنے سے وہ کترایا کرتی تھی،اب اُسے غیر اہم سے لوگ لگے۔وہ سوچتی کہ اُس نے سن رکھا تھا کہ کوئل ایک بے ضرر سا پرندہ ہے لیکن اُس کے اندر ایسی مکاری ہوتی ہے کہ وہ کوّے کے انڈے پی کراُس کے گھونسلے میں انڈے دے دیتی ہے اور کوّااُن میں سے بچے نکالتا ہے۔وہ بعض اوقات سوچتی ،کہیں ایسا تو نہیںکہ وہ سہیل ہی کو دھوکادینا چاہتی ہو !مگر پھر اپنے آپ کو اُسی وقت یقین دلاتی کہ اُس نے سہیل کو صحیح معنوں میں اپنا لیا ہے۔
اُسے وہ گھنا برگد لگتا جس کی ہر شاخ پر وہ جھولنا چاہتی تھی۔وہ اُن شاخوں پر جھولنے لگتی۔وقت گزرنے کے ساتھ وہ شاخیں ایک ایک کر کے ٹوٹنے لگیں۔پھر وہاں صرف تنا رہ گیا، ٹوٹی ہو ئی شاخوں کو لوگ جلانے کے لےے لے گئے۔اُسے اب تنے کو گرنے سے بچانا تھا۔اُسے اپنے باپ کا بے توقیر ہونا یاد آگیا۔وہ نہیں چاہتی تھی کہ سہیل سربراہ بنے۔سہیل کو سربراہی پسند تھی اِس لےے اُسے ارجمند کا نظریہ خود غرضی لگا۔اُس کے ذہن میں فوراً پرانی ارجمند زندہ ہو گئی۔ارجمند نے اُس کی خواہش کے سامنے ہتھیار ڈال دےے۔
سہیل اپنی بلندی سے نیچے آنے لگا۔وہ ذہنی اور جسمانی طور معذور ہونا شروع ہو گیا تھا۔اُس کے بیٹے اور بہوئیں،بیٹیاں اور داماد،پوتے پوتیاںاور نواسے نواسیاں اُسے غیر اہم سا بوڑھا سمجھنے لگے۔خاندان میں ایک عجیب سی افراتفری اور نفاق کی کیفیت تھی۔اُسے سہیل کا اِس طرح بے وقعت ہونا پسند نہ آیا۔
مختصر علالت کے بعد،ایک دن،سہیل فوت ہوگیا !
ارجمند چند برس پہلے آج میں داخل ہوئی تھی اور اُس کی خوب صورتی میں ایک وقار تھا۔ اب اُس کی گردن،چہرہ اور ہاتھ جھریوں سے بھر گئے تھے،یہ وہی چہرہ تھا جسے دیکھنے کے لےے لوگ اُس کے پاس آتے تھے۔
وہ گھر کی سربراہ تھی اور شروع میں سب کو اُس سے توقعات تھیں۔وہ بھی خود مختار رہنا چاہتی تھی۔اُسے باپ اور خاوند کی طرح ضعیفی سے ناکارہ نہیں ہونا تھا۔وہ تو سب پر حاوی رہنا چاہتی تھی۔وہ جانتی تھی:اگر اُن کی طرح ناکارہ ہو گئی تو مر جائے گی۔اُس کے لےے موت ایک طویل خاموشی اور گھپ اندھیرا تھا اور اُسے خاموشی اور اندھیرے سے خوف آتا تھا۔اُس کی نظر کمزور ہو رہی تھی اور اُسے صحیح طرح سے سنائی بھی نہیں دےتا تھا۔موت کے ڈر سے وہ زندگی کو ساتھ لگائے رکھنا چاہتی تھی۔اُسے لگ رہا تھا کہ موت ایک سائے کی طرح اُس کی طرف بڑھ رہی ہے۔ وہ مرنا نہیں چاہتی تھی۔اُس نے سوچا ، اگر وہ مر گئی تو سب کا کیا بنے گا !اُسے پھر سائے رینگتے ہوئے محسوس ہوئے۔سہیل اور اُس کے اپنے باپ کے سائے پہچانے جا سکتے تھے۔وہ خوف زدہ ہو گئی۔ ہمت مجتمع کرکے اُس نے چاروں طرف نظر دوڑانے کا فیصلہ کیا۔ سامنے،اُس کی بڑی بہو، اُس کا آئینہ تھامے،اپنے ہونٹوں کے کونوں پر اُبھری لکیروں کو محسوس کر رہی تھی !
Like
Comment
Send