خطوطِ نارسیدہ

خطوطِ نارسیدہ

Feb 5, 2019

اسنٰی بدر کی منفرد نثری کاوش

خطوطِ نارسیدہ

______________

اسنٰی بدر

(1)

شا کر ابا کو ملے

معرفت جناب اللہ میاں

عالم ارواح

میرے پیارے شاکر ابا ،

امید ہے تم خیریت سے ہوگے - میں بھی راضی خوشی سے ہوں - بہت دنوں کے بعد تم سے مخاطب ہوں مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں نے تم کو بھلا دیا -

تمہارے مرنے کے بعد میری شادی میرے اسی مامؤں زاد سے ہو گئی تھی جسکو تم نے بھی کئی دفعہ دیکھا تھا - تمہارے سامنے شادی کی بات چیت شروع ہو ہی گئی تھی ، تم تھوڑے دن اور رک جاتے تو شادی میں ضرور شرکت کر لیتے- مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ تم ہمیشہ کہتے تھے کہ مالکن کہہ گئی ہیں کے جب تک بٹیا کی شادی نہ ہو جائے تم شاکر گھر چھوڑ کے نہ جانا - اللہ نے تم سے یہ وعدہ خوب وفا کروایا-سالہاسال اس وعدے کو نبھاکر میری شادی سے صرف ایک ماہ پہلے تم چل بسے -

شاکر ابا جب تم آیے اس وقت میری عمر صرف نو دس سال رہی ہوگی - پھر ماں کی اچانک موت نے تم کو میرے گھر سے باندھ کر رکھ دیا - ماں کے سامنے تو تم نے کم ہی کھانا پکایا ہوگا مگر انکے جانے کے بعد تو تم نے چولہے ہی کو اپنا مسکن بنا لیا -

شاکر ابا تمہیں یاد ہے نہ ،برسات میں گیلی لکڑیوں کو بمشکل جلا کر جب تم چنے کی دال بھرا پراٹھا ، ارہر کی دال یا گوشت مٹی کی ہانڈی میں چولہے پر چڑھاتے تھے تو کیسی خوشبو آتی تھی - میں تو وہیں پٹرے پر بیٹھ کر جلتی ہوئی لکڑیوں کے پاس سے روٹی اٹھا کر کھانے لگتی تھی- اگر تم مصالحے کا تیل مجھے دے دیا کرتے تو میں اسی سے دو روٹیاں کھا لیا کرتی ۰۰شاکر ابا میں نے روٹی بگھار اور مصالحے کی وہ خوشبو اسکے بعد کبھی نہیں محسوس کی -

شاکر ابا میں نے تمہیں کبھی کسی پلنگ یا کرسی پر بیٹھے نہیں دیکھا - تم ہمیشہ زمین پرکیوں بیٹھتے تھے ،یہ میں تم سے پوچھنا بھول ہی گئی۔ اب اس بات کا جواب مجھے کون دیگا -تمہارے بارے میں میرے جی میں ایسے ایسے بہت سے سوالات ہیں جنکا جواب دینے والا کوئی نہیں۔

تم نے شادی نہیں کی گھر نہیں بسایا لیکن میرے گھر کی ہر اینٹ کو اپنا قرض داربنا گیے -

میں اور ندیم بھائی شادی کی خریداری کرنے جب شہر گئے تھے اسی بیچ تم مر گئے۔ سنا ہے تمُنے آخری وقت میں ندیم بھائی کو بہت یاد کیا۔مگر تمہاری کوئی اتنی اہمیت تھوڑی تھی کہ ہم کو کوئی اطلاع کرتا۔ایک دن ندیم بھائی بھی ذکر کرکے شرمندہ ہو رہے تھے کہ پتہ نہیں شاکر ابامجھ سے کیا کہنا چاہتے تھے ۔اب امید ہی کر سکتے ہیں کہ تم نے معاف کر دیا ہوگا۔

اگر تم نہ ہوتے تو شاید میں اور میرے گھر کے لوگ کئی راتیں بھوکے ہی سوتے-

اس بھوک سے بچانے کے لئے، اس روٹی اور بگھار کی خوشبو کے لئے ،سل پر پیسی گئی چٹنی کے لئے میرے گھر کی نگرانی کے لئے ، اس سچی ہمدردی اور وفا کے لیے میں تمہارا شکریہ ادا کرتی ہوں - حالانکہ یہ بہت بہت کم ہے -

یہ خط تمکو شاید اللہ میاں لاکر دینگے ۔ تمہیں تو پڑھنا آتا نہیں ، شائد ان سے ہی پڑھوایا ہو۔ مجھے امید ہے کہ انہونے یہ خط پڑھنے کے بعد جنت میں ایک گھر تمہارے نام کر دیا ہوگا۔

تمہاری بٹیہ

------------------

(2)

شریفن کو ملے

معرفت ُمنّا

گھٹیا کے نیچے

قصائی محلہ

ہمیرپور

پیاری شریفن

کئی بار میں نے سوچا کہ تمکو خط لکھوں مگر کوی جواز ہی نہ تھا - یوں اچانک تم میرا خط پاکر حیران بھی تو ہو جاتیں - اور جانے کس کس سے پڑھواتی پھرتیں-

میں نے جب سے ہوش سنبھا لا تمہیں اپنے گھر آتے ہوئے دیکھا- تم اور تمہارا بیٹا ٹن ٹن- وہ بچپن میں بہت روتا تھا اسلئے اسکا یہ نام پڑا- تمہیں پتہ ہے ٹن ٹن میرا سب سے پہلا لڑکا دوست تھا-جب تم میرے گھر کا کام کرتی تھیں تو میں اور ٹن ٹن کھیلتے رہتے تھے - وہ بہت سیدھا سادہ بچہ تھا اور میں بہت تیز-مجھے اس کی آنکھوں کا موٹا موٹا کاجل اب بھی یاد ہے جو آنسوؤں کے ساتھ بہہ کر اسکا چہرہ اور بھی کالا کر دیتا تھا۔

سنا ہے ٹن ٹن کو اب سب لوگ اسکے اصلی نام سے پہچانتے ہیں-اور وہ اتنا پیسے والا ہو گیا ہے کہ اس نے الگ گھر بنا لیا ہے جس میں تم اور مّنا نہیں جا سکتے-اسکی بیوی کو تم لوگ پسند نہیں ہو-یقینا تمہاری غربت زدہ شخصیت اسکے موجودہ حالات سے میل نہیں کھاتی ہوگی-

تم بتاتیں تھیں کہ شام کے وقت کہیں صلہ بیننے بھی جاتی ہو -مجھے کسی کہانی سے اب جاکر معلوم ہوا کہ صلہ اس اناج کو کہتے ہیں جو جھڑ کر گر جاتا ہے اور جسے مفت میں چنا جا سکتا ہے۔ روزہ افطار کے لئے چنے تم وہیں سے بین کر لاتی تھیں۔ تم کام کر کے کتنی تھک جاتی ہوگی میرے گھر کے بعد بھی تمہیں کئی گھروں میں کام کرنے جانا ہوتا تھا -

میں نے تمہیں کبھی اچھے کپڑے یا نئی چپل میں نہیں دیکھا -تمہاری چوڑیاں تک میلی کچیلی دیکھیں جنکی سنہری چمک جھڑکر گر جاتی ہے - تم کبھی سرہانے نہیں بیٹھیں - تم نے کبھی کسی سے بدتمیزی سے بات نہیں کی - تم نے زندگی میں اپنے لیے کبھی آرام نہیں چنا -ہمیشہ دوسروں کو آرام دیا -

ایک بار میں نے تمہیں کہتے ہویے سنا کہ ٹن ٹن کے ابا اگر تمہیں چھو لیں تو تم ماں بن جاتی ہو - تمہارے نو بچے اس بات کا ثبوت ہیں۔ پتہ نہیں تم نے یہ بچے کس وقت میں پالے -

اب تم کمزور ہو چلی ہو حالانکہ ٹن ٹن کے ابا تم سے کافی بڑے تھے پھر بھی حالا ت نے تمہیں بوڑھا کر دیا ہے - روزہ نماز میں اپنا وقت گزارتی ہو-

شریفن تم نے ہم سب کی بہت خدمت کی - ہمارے گھرمیں جھاڑو پونچھا برتن کرنے سے لیکر میری ماں کے ہاتھ پیر تک دبانے کے لئے میں تمہارا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں جس شکریے کی اس جاں فشانی کے سامنے واقعی کوئی حثیت نہیں-

تمہاری بٹیہ

______

(3)

سنجیدہ کو ملے

لڈن قلعی گر

بھروا سمرپور

پیاری سنجیدہ

میں جانتی ہوں تم یہ خط پڑھکر خوش ہوگی- تمہیں تو اردو پڑھنا بھی خوب آتا ہے - کتنی چھوٹی سی تھیں جب ماں سے اردو اور سی پارہ پڑھنے اتی تھیں- پھر کب تم میرے گھر کے کام کرنے لگیں مجھے یاد نہیں آتا - بات پانی پلانے سے شروع ہوکر کب برتن جھاڑو تک پہنچ گئی کچھ نہیں معلوم - تم تو مجھسے برابر ہونے کی وجہ سے لڑتی جھگڑتی بھی تھیں -

تمہارے ابا اتنی شراب کیوں پیتے تھے کہ تمہیں میرے گھر اتنی سی عمرمیں کام کرنا پڑا - تمہارے ابا اچھے بڑھئی تھے تو ہر سال پیدا ہونے والے بچوں کا بوجھ خود کیوں نہیں اٹھاتے تھے- تم اپنے بڑے بھائی کے لیے میرے گھر سے روز سبزی یا سالن کیوں لے جاتی تھیں - ایک کٹوری سالن کے لئے تمہیں میرے گھر کے بہت سے کام کرنا پڑتے تھے- اور گھر جاکر چھوٹی بہن کو بھی سنبھالنا پڑتا تھا- ماں کے مرنے کے بعد میں نے تمہاری اماں سے بات کی تھی کہ کچھ مہینے پر پیسے مقرر ہوجاییں مگر انہونے جواب دیا کہ ہم نوکر نہیں ہیں - اس وقت تمہاری اماں کی یہ اکڑبازی ذرا نہ بھائی تھی اور بڑی کوفت ہوئی تھی۔مگر دل میں کہیں تمہاری اماں سے متاثر بھی ہو گئی تھی۔سچ کہوں اس آفر پر شرم بھی بہت آئی تھی۔

آج تمہیں ایک راز کی بات بتاتی ہوں، ماں سے ایک بار میں نے کہا کہ ہم سنجیدہ کو اپنی بھابی بنا لیتے ہیں ،اس پر ماں نے کہا کہ ایسے نہیں کہتے - میں نے پوچھا کہ ایسا کیوں نہیں ہو سکتا تو وہ بولیں کہ تم نہیں سمجھوگی-میں اتنی بڑی ہو گئی ہوں مگر آج بھی نہیں سمجھ پا رہی ہوں -یا پھر سمجھنا نہیں چاہ رہی ہوں -

سنجیدہ تم عمر میں میرے برابر ہی تھیں مگر پھر بھی میں نے تمہیں کئی باربہت ڈانٹا ہے - تم برابری سے زبان چلاتی تھیں مگر آخر میں میں ہی جیت جاتی تھی - میں تم سے زیادہ معتبر اور پڑھی لکھی جو تھی اور کسی کے گھر اس طرح دن بھر کو نہیں جاتی تھی۔سنجیدہ ، تمہاری اس چپ کے لئے میں تم سے شرمندہ ہوں -حالانکہ تم اگرکبھی غصے میں مجھے چھوڑ کر چلی جاتیں تو شائد میں پابندی سے اسکول ہی نہ جا پاتی۔ تم نے میرے لئے کیا کیا تمھیں اندازہ ہی نہیں-

میری شادی کے بعد تمہاری بھی شادی ہو گئی۔ تم کہہ رہی تھیں کہ تمہاری سسرال کے لوگ اچھے نہیں ہیں -ایک دن تم نے اشاروں اشاروں میں یہ بھی بتایا تھا کہ شوہر اب بس ایک ہی وجہ سے تمہارے پاس آتا ہے۔ پھر تم نے اپنے پاؤں بھی کھول کر دکھانا چاہے جن پر انکار کی زیادتی کے نشانات تھے۔ میں اس بات کے لئے تیار نہیں تھی اس لئے موضوع بدل دیا تھا ۔ میں تم سے نظریں نہیں ملا پا رہی تھی جیسے اس زیادتی کی ذمہ دار بھی میں ہی ہوں۔ اس وقت یہ لکھ کے بھی میرے گلے میں سخت تکلیف ہو رہی ہے۔

تمہارے شوہر کی کمائی بھی واجبی سی ہے- جاڑا برسات میں قلعی کا کام کوئی نہیں کرواتا۔ملنے پر جو میں نے تمہیں روپے دے تھے وو بھلا کتنے دن کام آیے ہونگے- مجھے یاد ہے تمہاری آنکھوں میں روپے لیتے ہوئے آنسو آگیے تھے -تمہاری صحت گرتی جا رہی ہے-تم تیز پاور کی دوائیں بجائے دودھ کے پانی سے کھاتی ہو اور ہفتے میں ایک دفعہ ایک پیالی دودھ پی کر فرحت محسوس کرنے لگتی ہو۔ کئی بچے بھی ہو گیے ہیں مگر میں بس تھوڑے سے روپے ہی دے پاتی ہوں -

مجھے سحری میں جگا کرپورے گھر کے لئے پراٹھے پکانے والی ، میرے گھر کا کونہ کونہ اور جالے صاف کرنے والی ، میری دوست کی آمد پر چائے کے کپ پکڑانے والی ،میرے پرانے کپڑوں اور چپلوں پر حق جتانے والی ،مجھے چھیڑ چھیڑ کر میری توجہ حاصل کرنے والی ، میری خود دار سنجیدہ میرے پاس اس محبت کے عوض تمہارے لئے یہ پھیکا سا شکریہ ہے - کاش تم لڑے بغیریا ممنونیت کے اشک بہانے بغیر قبول کر لو-

فقط تمہاری اسنی باجی

-----------------------

(4)

ساجدہ کو ملے

معرفت بابا مشتاق چوکیدار

حرا کمپلیکس

وکاس نگر

لکھنؤ

پیاری ساجدہ

امید ہے تم خیریت سے ہوگی - تمہاری یاد آتی ہے - حالانکہ کوئی بہت دن نہیں ہوئے تم سے ملے ہوئے - جن دنوں تمہارے دولہا بھائی عرب گیے تم جانے کیسے اپنے ابا کے ساتھ میرے پاس آ گئیں - آئیں تو تھیں میری دسراہت کو مگر مجھے تو پلنگ پر ہی بٹھا دیا - میں دھیرے دھیرے دیکھ رہی تھی کس طرح تم میری آنکھ کا اشارہ سمجھنے لگیں- مہمانوں کے آنے پر تمہارا چائے ناشتہ لانا ، کھانا بنانے میں پیش پیش رہنا ،خالی وقت میں صفائی ،پریس حتی کہ سبھی کام تم نے اپنے اوپر واجب کر لئے-

مگر مجھے تم سے ایک شکایت ہے - میں نے آتے ہوئے تمہارا ادمیشن کروا دیا تھا - مگر تم دو تین مہینوں میں ہی مدرسے سے بھاگ کھڑی ہوئیں- سنا ہے تمہیں وہاں جن پریشا ن کرنے لگے تھے - میں نے تو غصے میں بہت برا بھلا کہا کہ ہمیشہ تم لوگوں کو جن بھوت ستانے لگتے ہیں - ابھی تو کوی تمہاری شادی کی عمر بھی نہیں ورنہ تو ہم لوگ یہی کہتے ہیں کہ یہ لڑکیاں نفسیاتی بیمار ہیں -

سنا ہے تم ڈائری میں چپکے چپکے گانوں کے رومانی مکھڑے لکھتی ہو - مجھے پڑوسن نے بتایا - انہوںنے تمہاری ڈائری میں دل بنے ہوئے بھی دیکھے ہیں - یہ سب کیا ہے ساجدہ ..

خدا کرے تمہاری جلدی سے کسی معقول لڑکے سے شادی ہو جائے -تمہارے گھر میں شادی کے لئے کون سا اٹھارہ سال کا ہونا ضروری ہے.. تمہاری بہن تو پندرہ سال کی عمر میں ماں بن گئی تھی۔

مگر میرے بڑے کام آتی ہو تم - میری ہر چیز تمکو پتہ ہوتی ہے کہ کہاں رکھی ہے- میں سال بھر پہلے جو چیزیں ادھر ادھر رکھ دیتی ہوں وو بھی تم فورن نکال کر دے دیتی ہو-میرے برتن لحاف چادروں اور پردوں کے ڈزائن تم کو سال بھر تک یاد کیسے رہ جاتے ہیں؟

میرے ساتھ رکشے میں سبزی کا تھیلا پکڑ کر بیٹھنے والی میرے کپڑوں میں سال بھر کی حفاظتی گولیاں ڈالنے والی میرے فلیٹ کی مچانوں پر چڑھ کر سامان نکلالنے رکھنے والی اپنے ابا سے میرے گھر کا سودا منگوانے والی مجھے فون پر دیکھ کر میرے کمرے کا دروازہ آہستہ سے بند کرنے والی مجھے پانی کے ساتھ دوا کھلانے والی میرے ہاتھ میں صبح چائے کا کپ پکڑانے والی اور رات کے برتن سامنے سے اٹھانے والی ساجدہ تمہارا شکریہ -

بلا شبہ چند روپیوں سے تمہارا احسان نہیں اتارا جا سکتا-

تمہاری بھابی

_____

جمال احمد

ٹی بوائے

سرونٹ کواٹر

الخزاما ہوٹل

ریاد سعودی عرب

پیارے جمال

دس برس پہلے جب میں یہاں آئی تو چند روز بعد ہی کسی حوالے سے تم آگئے۔ پچیس چھبیس برس کا لڑکا گھر کے کام کس طرح کرےگا یہ سوچ کر میری عقل ذرا حیران تھی۔ ایک جھجھک بھی تھی کہ میری عمر بھی اتنی پختہ نہ تھی۔ لیکن بہت جلد تم میرے گھر کے فرد سے بن گئے اور تم نے گھر کےسب کام بڑی مستعدی سے سنبھال لئے۔میں نے تمہارے اطمینان پر نوکری کر لی اور گھر کی چابی تک تم کو سونپ دی۔

ان دس سالوں میں مجھے یاد نہیں کہ کبھی تم نے کسی کام کے لئےمنع کیا ہو۔ مجھے سوائے جی آپا، کوئی مشکل نہیں کے دوسرا جواب نہیں دیا۔ دس سال میں تم نے شائد بیس ناغے بھی نہیں کئے۔ درازوں میں میرے کھلے پڑے چھوٹے چھوٹے زیورات کو کبھی ہاتھ نہ لگایا۔ لوگ کہتے ہیں آپ کو خیال رکھنا چاہئے میں سوچتی ہوں کہ اس سے زیادہ اعتبار اور کس پہ کروں؟ میں سچ کہتی ہوں کہ اچھے اچھے سفید پوش انسان بھی تمہاری خوش اخلاقی ثابت قدمی اور ایمانداری کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔

اس بیچ بنگلادیش میں تمہاری شادی ہوئی ایک بیٹا ہوا مگر تم چھٹی گزار کے ایک لمبی مدت کے لئے یہاں آجاتے ہو اور اپنوں کی اس طرح پرورش کرتے ہو کہ اس معاملے کو صرف اللہ سمجھ سکتا ہے اور وہی اسکا صلہ دینے والا ہے۔

تم اتنی کم عمری میں شوگر کے مریض بھی ہو لیکن پھر بھی اپنےملک واپس نہیں جاتے۔ ساری زندگی اسی طرح گزار دوگے شائد۔ محض تصور میں اپنی بیوی کو بوڑھی اور بچے کو بڑا ہوتے دیکھتے ہویے-

میں تمہیں جتنے پیسے دیتی ہوں اس سے زیادہ تمہیں اور لوگ دیدینگے مگر تم کہتے ہو کہ جب تک بھیہ یہاں ہیں میں انہیں نہیں چھوڑ سکتا۔(تمہارے ذکر پر بھیہ بھی اکیلے میں مجھے اکثریہ کہہ کر چھیڑتے ہیں کہ تم کو نکال دونگا مگر جمال کو نہیں۔) تمہیں اس بات کا بھی بہت خیال رہتا ہے کہ اگر صبح نہ پہنچے تو تمہارے بھیہ کر بغیر ناشتے کے دفتر جانا پڑےگا۔ اس سے بڑی وفاداری اور اپنائیت کی مثال نہیں ہے میرے پاس۔ کہ اب یہ چند پیسوں کا معاملہ نہیں-

میں عام عورتوں کی طرح تمہاری پیٹھ پیچھے تمہارے بہت سے کاموں میں عیب بھی نکالتی رہتی ہوں مجھے خواہ مخواہ ایسا لگنے لگتا ہے کہ فلاں کام میں زیادہ خوش اسلوبی سے کر لیتی ۔مگر میرا دل جانتا ہے کہ اگر موسم خراب ہو تو میں گھبرا جاتی ہوں کہ کہیں تم ناغہ نہ کر دوکہ تمہارے بغیر یہ گھر چلانا اب ممکن نہیں رہا ۔ تم مجھے معاف کر دینا۔

میرے گھر کی ہر چیز حتٰی کے پیڑ پودے تک اپنی شادابی کے لئےتمہارے منت کش ہیں۔

جمال اس خاموش جفاکشی ، پابندی ، ایمانداری ، وفاداری ، مروت ، صبر اور بھروسے کے لئے میں تمہاری شکرگزار ہوں۔

تمہاری آپا

__________

خطوطِ نارسیدہ

______________

اسنٰی بدر

(1)

شا کر ابا کو ملے

معرفت جناب اللہ میاں

عالم ارواح

میرے پیارے شاکر ابا ،

امید ہے تم خیریت سے ہوگے - میں بھی راضی خوشی سے ہوں - بہت دنوں کے بعد تم سے مخاطب ہوں مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں نے تم کو بھلا دیا -

تمہارے مرنے کے بعد میری شادی میرے اسی مامؤں زاد سے ہو گئی تھی جسکو تم نے بھی کئی دفعہ دیکھا تھا - تمہارے سامنے شادی کی بات چیت شروع ہو ہی گئی تھی ، تم تھوڑے دن اور رک جاتے تو شادی میں ضرور شرکت کر لیتے- مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ تم ہمیشہ کہتے تھے کہ مالکن کہہ گئی ہیں کے جب تک بٹیا کی شادی نہ ہو جائے تم شاکر گھر چھوڑ کے نہ جانا - اللہ نے تم سے یہ وعدہ خوب وفا کروایا-سالہاسال اس وعدے کو نبھاکر میری شادی سے صرف ایک ماہ پہلے تم چل بسے -

شاکر ابا جب تم آیے اس وقت میری عمر صرف نو دس سال رہی ہوگی - پھر ماں کی اچانک موت نے تم کو میرے گھر سے باندھ کر رکھ دیا - ماں کے سامنے تو تم نے کم ہی کھانا پکایا ہوگا مگر انکے جانے کے بعد تو تم نے چولہے ہی کو اپنا مسکن بنا لیا -

شاکر ابا تمہیں یاد ہے نہ ،برسات میں گیلی لکڑیوں کو بمشکل جلا کر جب تم چنے کی دال بھرا پراٹھا ، ارہر کی دال یا گوشت مٹی کی ہانڈی میں چولہے پر چڑھاتے تھے تو کیسی خوشبو آتی تھی - میں تو وہیں پٹرے پر بیٹھ کر جلتی ہوئی لکڑیوں کے پاس سے روٹی اٹھا کر کھانے لگتی تھی- اگر تم مصالحے کا تیل مجھے دے دیا کرتے تو میں اسی سے دو روٹیاں کھا لیا کرتی ۰۰شاکر ابا میں نے روٹی بگھار اور مصالحے کی وہ خوشبو اسکے بعد کبھی نہیں محسوس کی -

شاکر ابا میں نے تمہیں کبھی کسی پلنگ یا کرسی پر بیٹھے نہیں دیکھا - تم ہمیشہ زمین پرکیوں بیٹھتے تھے ،یہ میں تم سے پوچھنا بھول ہی گئی۔ اب اس بات کا جواب مجھے کون دیگا -تمہارے بارے میں میرے جی میں ایسے ایسے بہت سے سوالات ہیں جنکا جواب دینے والا کوئی نہیں۔

تم نے شادی نہیں کی گھر نہیں بسایا لیکن میرے گھر کی ہر اینٹ کو اپنا قرض داربنا گیے -

میں اور ندیم بھائی شادی کی خریداری کرنے جب شہر گئے تھے اسی بیچ تم مر گئے۔ سنا ہے تمُنے آخری وقت میں ندیم بھائی کو بہت یاد کیا۔مگر تمہاری کوئی اتنی اہمیت تھوڑی تھی کہ ہم کو کوئی اطلاع کرتا۔ایک دن ندیم بھائی بھی ذکر کرکے شرمندہ ہو رہے تھے کہ پتہ نہیں شاکر ابامجھ سے کیا کہنا چاہتے تھے ۔اب امید ہی کر سکتے ہیں کہ تم نے معاف کر دیا ہوگا۔

اگر تم نہ ہوتے تو شاید میں اور میرے گھر کے لوگ کئی راتیں بھوکے ہی سوتے-

اس بھوک سے بچانے کے لئے، اس روٹی اور بگھار کی خوشبو کے لئے ،سل پر پیسی گئی چٹنی کے لئے میرے گھر کی نگرانی کے لئے ، اس سچی ہمدردی اور وفا کے لیے میں تمہارا شکریہ ادا کرتی ہوں - حالانکہ یہ بہت بہت کم ہے -

یہ خط تمکو شاید اللہ میاں لاکر دینگے ۔ تمہیں تو پڑھنا آتا نہیں ، شائد ان سے ہی پڑھوایا ہو۔ مجھے امید ہے کہ انہونے یہ خط پڑھنے کے بعد جنت میں ایک گھر تمہارے نام کر دیا ہوگا۔

تمہاری بٹیہ

------------------

(2)

شریفن کو ملے

معرفت ُمنّا

گھٹیا کے نیچے

قصائی محلہ

ہمیرپور

پیاری شریفن

کئی بار میں نے سوچا کہ تمکو خط لکھوں مگر کوی جواز ہی نہ تھا - یوں اچانک تم میرا خط پاکر حیران بھی تو ہو جاتیں - اور جانے کس کس سے پڑھواتی پھرتیں-

میں نے جب سے ہوش سنبھا لا تمہیں اپنے گھر آتے ہوئے دیکھا- تم اور تمہارا بیٹا ٹن ٹن- وہ بچپن میں بہت روتا تھا اسلئے اسکا یہ نام پڑا- تمہیں پتہ ہے ٹن ٹن میرا سب سے پہلا لڑکا دوست تھا-جب تم میرے گھر کا کام کرتی تھیں تو میں اور ٹن ٹن کھیلتے رہتے تھے - وہ بہت سیدھا سادہ بچہ تھا اور میں بہت تیز-مجھے اس کی آنکھوں کا موٹا موٹا کاجل اب بھی یاد ہے جو آنسوؤں کے ساتھ بہہ کر اسکا چہرہ اور بھی کالا کر دیتا تھا۔

سنا ہے ٹن ٹن کو اب سب لوگ اسکے اصلی نام سے پہچانتے ہیں-اور وہ اتنا پیسے والا ہو گیا ہے کہ اس نے الگ گھر بنا لیا ہے جس میں تم اور مّنا نہیں جا سکتے-اسکی بیوی کو تم لوگ پسند نہیں ہو-یقینا تمہاری غربت زدہ شخصیت اسکے موجودہ حالات سے میل نہیں کھاتی ہوگی-

تم بتاتیں تھیں کہ شام کے وقت کہیں صلہ بیننے بھی جاتی ہو -مجھے کسی کہانی سے اب جاکر معلوم ہوا کہ صلہ اس اناج کو کہتے ہیں جو جھڑ کر گر جاتا ہے اور جسے مفت میں چنا جا سکتا ہے۔ روزہ افطار کے لئے چنے تم وہیں سے بین کر لاتی تھیں۔ تم کام کر کے کتنی تھک جاتی ہوگی میرے گھر کے بعد بھی تمہیں کئی گھروں میں کام کرنے جانا ہوتا تھا -

میں نے تمہیں کبھی اچھے کپڑے یا نئی چپل میں نہیں دیکھا -تمہاری چوڑیاں تک میلی کچیلی دیکھیں جنکی سنہری چمک جھڑکر گر جاتی ہے - تم کبھی سرہانے نہیں بیٹھیں - تم نے کبھی کسی سے بدتمیزی سے بات نہیں کی - تم نے زندگی میں اپنے لیے کبھی آرام نہیں چنا -ہمیشہ دوسروں کو آرام دیا -

ایک بار میں نے تمہیں کہتے ہویے سنا کہ ٹن ٹن کے ابا اگر تمہیں چھو لیں تو تم ماں بن جاتی ہو - تمہارے نو بچے اس بات کا ثبوت ہیں۔ پتہ نہیں تم نے یہ بچے کس وقت میں پالے -

اب تم کمزور ہو چلی ہو حالانکہ ٹن ٹن کے ابا تم سے کافی بڑے تھے پھر بھی حالا ت نے تمہیں بوڑھا کر دیا ہے - روزہ نماز میں اپنا وقت گزارتی ہو-

شریفن تم نے ہم سب کی بہت خدمت کی - ہمارے گھرمیں جھاڑو پونچھا برتن کرنے سے لیکر میری ماں کے ہاتھ پیر تک دبانے کے لئے میں تمہارا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں جس شکریے کی اس جاں فشانی کے سامنے واقعی کوئی حثیت نہیں-

تمہاری بٹیہ

______

(3)

سنجیدہ کو ملے

لڈن قلعی گر

بھروا سمرپور

پیاری سنجیدہ

میں جانتی ہوں تم یہ خط پڑھکر خوش ہوگی- تمہیں تو اردو پڑھنا بھی خوب آتا ہے - کتنی چھوٹی سی تھیں جب ماں سے اردو اور سی پارہ پڑھنے اتی تھیں- پھر کب تم میرے گھر کے کام کرنے لگیں مجھے یاد نہیں آتا - بات پانی پلانے سے شروع ہوکر کب برتن جھاڑو تک پہنچ گئی کچھ نہیں معلوم - تم تو مجھسے برابر ہونے کی وجہ سے لڑتی جھگڑتی بھی تھیں -

تمہارے ابا اتنی شراب کیوں پیتے تھے کہ تمہیں میرے گھر اتنی سی عمرمیں کام کرنا پڑا - تمہارے ابا اچھے بڑھئی تھے تو ہر سال پیدا ہونے والے بچوں کا بوجھ خود کیوں نہیں اٹھاتے تھے- تم اپنے بڑے بھائی کے لیے میرے گھر سے روز سبزی یا سالن کیوں لے جاتی تھیں - ایک کٹوری سالن کے لئے تمہیں میرے گھر کے بہت سے کام کرنا پڑتے تھے- اور گھر جاکر چھوٹی بہن کو بھی سنبھالنا پڑتا تھا- ماں کے مرنے کے بعد میں نے تمہاری اماں سے بات کی تھی کہ کچھ مہینے پر پیسے مقرر ہوجاییں مگر انہونے جواب دیا کہ ہم نوکر نہیں ہیں - اس وقت تمہاری اماں کی یہ اکڑبازی ذرا نہ بھائی تھی اور بڑی کوفت ہوئی تھی۔مگر دل میں کہیں تمہاری اماں سے متاثر بھی ہو گئی تھی۔سچ کہوں اس آفر پر شرم بھی بہت آئی تھی۔

آج تمہیں ایک راز کی بات بتاتی ہوں، ماں سے ایک بار میں نے کہا کہ ہم سنجیدہ کو اپنی بھابی بنا لیتے ہیں ،اس پر ماں نے کہا کہ ایسے نہیں کہتے - میں نے پوچھا کہ ایسا کیوں نہیں ہو سکتا تو وہ بولیں کہ تم نہیں سمجھوگی-میں اتنی بڑی ہو گئی ہوں مگر آج بھی نہیں سمجھ پا رہی ہوں -یا پھر سمجھنا نہیں چاہ رہی ہوں -

سنجیدہ تم عمر میں میرے برابر ہی تھیں مگر پھر بھی میں نے تمہیں کئی باربہت ڈانٹا ہے - تم برابری سے زبان چلاتی تھیں مگر آخر میں میں ہی جیت جاتی تھی - میں تم سے زیادہ معتبر اور پڑھی لکھی جو تھی اور کسی کے گھر اس طرح دن بھر کو نہیں جاتی تھی۔سنجیدہ ، تمہاری اس چپ کے لئے میں تم سے شرمندہ ہوں -حالانکہ تم اگرکبھی غصے میں مجھے چھوڑ کر چلی جاتیں تو شائد میں پابندی سے اسکول ہی نہ جا پاتی۔ تم نے میرے لئے کیا کیا تمھیں اندازہ ہی نہیں-

میری شادی کے بعد تمہاری بھی شادی ہو گئی۔ تم کہہ رہی تھیں کہ تمہاری سسرال کے لوگ اچھے نہیں ہیں -ایک دن تم نے اشاروں اشاروں میں یہ بھی بتایا تھا کہ شوہر اب بس ایک ہی وجہ سے تمہارے پاس آتا ہے۔ پھر تم نے اپنے پاؤں بھی کھول کر دکھانا چاہے جن پر انکار کی زیادتی کے نشانات تھے۔ میں اس بات کے لئے تیار نہیں تھی اس لئے موضوع بدل دیا تھا ۔ میں تم سے نظریں نہیں ملا پا رہی تھی جیسے اس زیادتی کی ذمہ دار بھی میں ہی ہوں۔ اس وقت یہ لکھ کے بھی میرے گلے میں سخت تکلیف ہو رہی ہے۔

تمہارے شوہر کی کمائی بھی واجبی سی ہے- جاڑا برسات میں قلعی کا کام کوئی نہیں کرواتا۔ملنے پر جو میں نے تمہیں روپے دے تھے وو بھلا کتنے دن کام آیے ہونگے- مجھے یاد ہے تمہاری آنکھوں میں روپے لیتے ہوئے آنسو آگیے تھے -تمہاری صحت گرتی جا رہی ہے-تم تیز پاور کی دوائیں بجائے دودھ کے پانی سے کھاتی ہو اور ہفتے میں ایک دفعہ ایک پیالی دودھ پی کر فرحت محسوس کرنے لگتی ہو۔ کئی بچے بھی ہو گیے ہیں مگر میں بس تھوڑے سے روپے ہی دے پاتی ہوں -

مجھے سحری میں جگا کرپورے گھر کے لئے پراٹھے پکانے والی ، میرے گھر کا کونہ کونہ اور جالے صاف کرنے والی ، میری دوست کی آمد پر چائے کے کپ پکڑانے والی ،میرے پرانے کپڑوں اور چپلوں پر حق جتانے والی ،مجھے چھیڑ چھیڑ کر میری توجہ حاصل کرنے والی ، میری خود دار سنجیدہ میرے پاس اس محبت کے عوض تمہارے لئے یہ پھیکا سا شکریہ ہے - کاش تم لڑے بغیریا ممنونیت کے اشک بہانے بغیر قبول کر لو-

فقط تمہاری اسنی باجی

-----------------------

(4)

ساجدہ کو ملے

معرفت بابا مشتاق چوکیدار

حرا کمپلیکس

وکاس نگر

لکھنؤ

پیاری ساجدہ

امید ہے تم خیریت سے ہوگی - تمہاری یاد آتی ہے - حالانکہ کوئی بہت دن نہیں ہوئے تم سے ملے ہوئے - جن دنوں تمہارے دولہا بھائی عرب گیے تم جانے کیسے اپنے ابا کے ساتھ میرے پاس آ گئیں - آئیں تو تھیں میری دسراہت کو مگر مجھے تو پلنگ پر ہی بٹھا دیا - میں دھیرے دھیرے دیکھ رہی تھی کس طرح تم میری آنکھ کا اشارہ سمجھنے لگیں- مہمانوں کے آنے پر تمہارا چائے ناشتہ لانا ، کھانا بنانے میں پیش پیش رہنا ،خالی وقت میں صفائی ،پریس حتی کہ سبھی کام تم نے اپنے اوپر واجب کر لئے-

مگر مجھے تم سے ایک شکایت ہے - میں نے آتے ہوئے تمہارا ادمیشن کروا دیا تھا - مگر تم دو تین مہینوں میں ہی مدرسے سے بھاگ کھڑی ہوئیں- سنا ہے تمہیں وہاں جن پریشا ن کرنے لگے تھے - میں نے تو غصے میں بہت برا بھلا کہا کہ ہمیشہ تم لوگوں کو جن بھوت ستانے لگتے ہیں - ابھی تو کوی تمہاری شادی کی عمر بھی نہیں ورنہ تو ہم لوگ یہی کہتے ہیں کہ یہ لڑکیاں نفسیاتی بیمار ہیں -

سنا ہے تم ڈائری میں چپکے چپکے گانوں کے رومانی مکھڑے لکھتی ہو - مجھے پڑوسن نے بتایا - انہوںنے تمہاری ڈائری میں دل بنے ہوئے بھی دیکھے ہیں - یہ سب کیا ہے ساجدہ ..

خدا کرے تمہاری جلدی سے کسی معقول لڑکے سے شادی ہو جائے -تمہارے گھر میں شادی کے لئے کون سا اٹھارہ سال کا ہونا ضروری ہے.. تمہاری بہن تو پندرہ سال کی عمر میں ماں بن گئی تھی۔

مگر میرے بڑے کام آتی ہو تم - میری ہر چیز تمکو پتہ ہوتی ہے کہ کہاں رکھی ہے- میں سال بھر پہلے جو چیزیں ادھر ادھر رکھ دیتی ہوں وو بھی تم فورن نکال کر دے دیتی ہو-میرے برتن لحاف چادروں اور پردوں کے ڈزائن تم کو سال بھر تک یاد کیسے رہ جاتے ہیں؟

میرے ساتھ رکشے میں سبزی کا تھیلا پکڑ کر بیٹھنے والی میرے کپڑوں میں سال بھر کی حفاظتی گولیاں ڈالنے والی میرے فلیٹ کی مچانوں پر چڑھ کر سامان نکلالنے رکھنے والی اپنے ابا سے میرے گھر کا سودا منگوانے والی مجھے فون پر دیکھ کر میرے کمرے کا دروازہ آہستہ سے بند کرنے والی مجھے پانی کے ساتھ دوا کھلانے والی میرے ہاتھ میں صبح چائے کا کپ پکڑانے والی اور رات کے برتن سامنے سے اٹھانے والی ساجدہ تمہارا شکریہ -

بلا شبہ چند روپیوں سے تمہارا احسان نہیں اتارا جا سکتا-

تمہاری بھابی

_____

جمال احمد

ٹی بوائے

سرونٹ کواٹر

الخزاما ہوٹل

ریاد سعودی عرب

پیارے جمال

دس برس پہلے جب میں یہاں آئی تو چند روز بعد ہی کسی حوالے سے تم آگئے۔ پچیس چھبیس برس کا لڑکا گھر کے کام کس طرح کرےگا یہ سوچ کر میری عقل ذرا حیران تھی۔ ایک جھجھک بھی تھی کہ میری عمر بھی اتنی پختہ نہ تھی۔ لیکن بہت جلد تم میرے گھر کے فرد سے بن گئے اور تم نے گھر کےسب کام بڑی مستعدی سے سنبھال لئے۔میں نے تمہارے اطمینان پر نوکری کر لی اور گھر کی چابی تک تم کو سونپ دی۔

ان دس سالوں میں مجھے یاد نہیں کہ کبھی تم نے کسی کام کے لئےمنع کیا ہو۔ مجھے سوائے جی آپا، کوئی مشکل نہیں کے دوسرا جواب نہیں دیا۔ دس سال میں تم نے شائد بیس ناغے بھی نہیں کئے۔ درازوں میں میرے کھلے پڑے چھوٹے چھوٹے زیورات کو کبھی ہاتھ نہ لگایا۔ لوگ کہتے ہیں آپ کو خیال رکھنا چاہئے میں سوچتی ہوں کہ اس سے زیادہ اعتبار اور کس پہ کروں؟ میں سچ کہتی ہوں کہ اچھے اچھے سفید پوش انسان بھی تمہاری خوش اخلاقی ثابت قدمی اور ایمانداری کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔

اس بیچ بنگلادیش میں تمہاری شادی ہوئی ایک بیٹا ہوا مگر تم چھٹی گزار کے ایک لمبی مدت کے لئے یہاں آجاتے ہو اور اپنوں کی اس طرح پرورش کرتے ہو کہ اس معاملے کو صرف اللہ سمجھ سکتا ہے اور وہی اسکا صلہ دینے والا ہے۔

تم اتنی کم عمری میں شوگر کے مریض بھی ہو لیکن پھر بھی اپنےملک واپس نہیں جاتے۔ ساری زندگی اسی طرح گزار دوگے شائد۔ محض تصور میں اپنی بیوی کو بوڑھی اور بچے کو بڑا ہوتے دیکھتے ہویے-

میں تمہیں جتنے پیسے دیتی ہوں اس سے زیادہ تمہیں اور لوگ دیدینگے مگر تم کہتے ہو کہ جب تک بھیہ یہاں ہیں میں انہیں نہیں چھوڑ سکتا۔(تمہارے ذکر پر بھیہ بھی اکیلے میں مجھے اکثریہ کہہ کر چھیڑتے ہیں کہ تم کو نکال دونگا مگر جمال کو نہیں۔) تمہیں اس بات کا بھی بہت خیال رہتا ہے کہ اگر صبح نہ پہنچے تو تمہارے بھیہ کر بغیر ناشتے کے دفتر جانا پڑےگا۔ اس سے بڑی وفاداری اور اپنائیت کی مثال نہیں ہے میرے پاس۔ کہ اب یہ چند پیسوں کا معاملہ نہیں-

میں عام عورتوں کی طرح تمہاری پیٹھ پیچھے تمہارے بہت سے کاموں میں عیب بھی نکالتی رہتی ہوں مجھے خواہ مخواہ ایسا لگنے لگتا ہے کہ فلاں کام میں زیادہ خوش اسلوبی سے کر لیتی ۔مگر میرا دل جانتا ہے کہ اگر موسم خراب ہو تو میں گھبرا جاتی ہوں کہ کہیں تم ناغہ نہ کر دوکہ تمہارے بغیر یہ گھر چلانا اب ممکن نہیں رہا ۔ تم مجھے معاف کر دینا۔

میرے گھر کی ہر چیز حتٰی کے پیڑ پودے تک اپنی شادابی کے لئےتمہارے منت کش ہیں۔

جمال اس خاموش جفاکشی ، پابندی ، ایمانداری ، وفاداری ، مروت ، صبر اور بھروسے کے لئے میں تمہاری شکرگزار ہوں۔

تمہاری آپا

__________

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024