امواج الساحل عربی اور اردو ادب کی پر وقار شخصیت۔
امواج الساحل عربی اور اردو ادب کی پر وقار شخصیت۔
Dec 27, 2021
یاد رفتگاں
" امواج الساحل عربی اور اردو ادب کی پر وقار شخصیت۔ "
تحریر : راجہ یوسف کشمیر
چھ سات سال پہلے جب میں فیس بک کی وساطت سے ”عالمی افسانہ فورم“ کے ساتھ منسلک ہوگیا تو یہاں مجھے دنیا بھر کے افسانہ نگاروں کے ساتھ تعارف ہوا۔ چند ایک کو چھوڑ کر باقی سب نام میرے لئے غیر مانوس تھے۔ میرے لئے انجان تھے۔۔۔ کچھ نام ایسے تھے جنہیں دہرانا یا یاد رکھنا بہت مشکل تھا۔ کچھ نام پڑھنے میں اتنے سقیل اور مشکل تھے کہ ان کا ہجا بار بار پڑھ کر بھی مجھے یاد نہیں رہتے تھے۔ یہ افسانوں کے ساتھ میری دلچسپی اوردنیا بھر کے افسانہ نگاروں سے متعارف ہونے کی خواہش ہی تھی کہ آہستہ آہستہ نام پڑھنے آتے گئے اور یاد بھی ہوتے گئے۔ ان میں بہت سارے پھر میرے فیس بک فرنڈ بھی بن گئے۔ کچھ کو میں نے فرنڈ ریکویسٹ بھیجی اور کئیوں نے مجھ سے دوستی کرنے کی خود خواہش ظاہر کر دی۔ اس طرح سے عالمی سطح کے کئی افسانہ نگار جو دور دراز ملکوں میں رہتے تھے میرے دوست بنتے گئے۔ انہی مخلص دوستوں میں امواج الساحل (ڈاکٹرخورشید نسرین عبدلسلام) نام کی خاتون بھی تھیں۔ پہلے پہل تو یہ نام کچھ سمجھ نہیں آیا۔ ویسے بھی ان دنوں وہ اپنا نام صرف امواج الساحل ہی لکھتی تھیں۔ یہ تب پتہ چلا جب وحید قمر صاحب نے عالمی افسانہ فورم میں ان کا تعارف لکھ دیا تو ان کے اصل نام سے واقف ہوگئے ۔وحید قمر صاحب لکھتے ہیں
”محترمہ ڈاکٹر خورشید نسرین صاحبہ (امواج ساحل) اس فورم پر موجود سینیئر ترین ادیبوں میں سے ایک ہیں۔ فورم پر ہونے والی گزشتہ عالمی نشستوں کی طرح اس میلہ میں بھی وہ خصوصی طور پر شامل ہو رہی ہیں۔
ڈاکٹر خورشید نسرین صاحبہ نے ایم اے عربی میں گولڈ میڈل لیا اور پھر عربی زبان و ادب میں پی ایچ ڈی کی۔
قطر کے اعلیٰ تعلیم کے مختلف اداروں میں عربی زبان و ادب پڑھاتی رہی ہیں (1978 سے 2005)
عربی میں افسانہ نگاری اور شاعری کے علاوہ مختلف شعراء سلطان باہو، شاہ حسین، ڈاکٹرمحمد اقبال پر مضامین لکھے اور انکی شاعری کا عربی میں ترجمہ بھی کیا۔ ثلاثیات (ھائیکو)انکا میدان سخن ہے، اور پورے عالم عرب میں اس صنف میں پہلی شاعرہ ہونے کا اعزاز بھی انہیں حاصل ہے، قطر میں سب سے پہلے رباعیات ان کی ہی شائع ہوئیں۔اردو سے عربی افسانوں کا ترجمہ بھی کیا
مشہور عربی رسائل '' الرایہ، الشرق، الوطن، الجوہرہ، العروبہ اور کتابات میں انکی تخلیقات شائع ہوچکی ہیں
2002 میں انہوں نے منسٹری آف ایجوکیشن قطر کے لیے تعلیمی سی ڈی بنائی تھی، جو کہ قطر میں پہلی تعلیمی سی ڈی تھی۔
ریڈیو قطر سے انکا انٹرویو ابھی چند سال قبل نشر ہو چکا ہے۔
منسٹری آف ایجوکیشن قطر نے انہیں بیسٹ ریسورس کا ایوارڈ بھی دیا ہے“
ڈاکٹر امواج الساحل صاحبہ اپنے تعارف کے حوالے سے خود لکھتی ہیں۔
” میں ہوں امواج الساحل -مکمل نام خورشید نسرین ہے- بچوں نے امواج الساحل قلمی نام رکھ دیا تھا- عرب خورشید کے نام سے جانتے ہیں - اسی سے ادبی مواد چھپتا رہا- امواج کو سب نہیں جانتے - تو بچوں نے اب یہ رکھ دیا تاکہ سب پہچان لیں -میری شادی کے بعد بھی میرا نام عرب رواج کے مطابق خورشید عبد السلام ہی رہا- عرب خواتین شادی کے بعد شوہر کا نام والد کی جگہ نہیں لگاتیں، تاکہ رشتوں کا تقدس قائم رہے-“
”عالمی افسانہ فورم“ میں انمواج الساحل صاحبہ کے تبصرے پڑھنے کو ملتے تھے۔ پھر ان کے چند ایک افسانے بھی پڑھ لئے۔ میں اپنے آپ کو بڑا خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ وہ اکثر میرے افسانوں پر کچھ نہ کچھ ضرور لکھتی تھیں۔ اور میری حوصلہ افزائی کرتی تھیں۔۔۔
امواج الساحل صاحبہ اصل میں شاعرہ تھیں۔ وہ خوبصورت غزلیں اور جاندار نظمیں لکھتی تھیں۔ دو دن یا کبھی کبھی چار دن کے بعد ان کی وال پر کوئی نہ کوئی غزل یا نظم مل جاتی تھی۔ وہ اپنے کلام میں سماجی مسائل کو اٹھاتی تھیں اور کبھی کوئی عشقیہ شعر بھی کہہ لیتی تھیں۔ لیکن زیادہ تر وہ تعتیہ کلام ہی لکھا کرتی تھیں اور دوسروں کا نعتہ کلام بھی اپنی وال پر شئیر کرتی تھیں۔ ان کی وال سے مجھے ان کی یہ نظم مل گئی جو آپ کے ساتھ شئیر کر رہا ہوں۔
وہ ایک درس پڑھانا نہ تھا جو نسلوں کو
غضب خدا کا! وہی شامل نصاب ہوا
''سب کے ہونٹوں پہ ہے نغمہ معراج کا''
گو پرانا ہے یہ قصہ معراج کا
یوں تو پاتے ہیں درجے سبھی انبیا
ہے انوکھا یہ اک درجہ معراج کا
آسماں تک گئے میرے آقا وہاں
تھا جو ان کے لئے رستہ معراج کا
واقعہ تھا یہ ایسا ہی کچھ منفرد
آج تک بھی ہے یہ چرچا معراج کا
یہ نمازیں ملیں ہم کو اللہ سے
یہ ملا ہم کو ہے تحفہ معراج کا
تو نے امواج بس یوں ہی لکھا کلام
دیکھ آئے ہیں وہ جلوہ معراج کا
أمواج الساحل
وہ نکتہ سنج اور نکتہ دان خاتون تھیں اور اپنے اشعار میں بڑے ہلکے پھلکے انداز میں نکتے پروتی تھیں۔ جیسے ان کی یہ غزل
ان کی نظریں تو دکھ ہی دیتی ہیں
پاس پہلے سے اک دوا رکھوں
سب پرانے تو ہوگئے بے کار
کوئی میں اسلحہ نیا رکھوں
میرا دشمن کھڑا ہے چوکنا
اور میں قوم کو سلا رکھوں؟
آگیا دن جو میری شادی کا
اس کے سب خط بھی میں جلا رکھوں
مرغی پہلے بنی کہ انڈا تھا
کیوں نہ اس بحث کو اٹھا رکھوں
امواج الساحل صاحبہ کبھی کبھار بڑے چست جملے لکھ دیتی تھیں جن میں معنیٰ کے انبار ہوتے تھے۔ یہ لائن دیکھ لیجئے۔
سنتے تھے کہ پوری دنیا الیکٹرونکل ولیج بننے جا رہی ہے-
قدرت نے کرونیکل ولیج بنا دی-
امواج الساحل صاحبہ ”عالمی افسانہ فورم“ کے لگ بھگ سبھی ایونٹس میں مہمان خصوصی ہوتی تھیں۔ اور افسانوں پر ان کے تبصرے بھی آتے رہتے تھے۔پہلے پہل ایونٹ میں ان کے افسانے بھی شامل ہوتے تھے۔
عالمی افسانہ میلہ 2015
افسانہ نمبر 90
دکھ پردیس کے
ڈاکٹر خورشید نسرین، دوحہ، قطر
اس افسانے پر کافی اچھے اچھے کومنٹ آئے ہوئے ہیں۔ میں نے یہاں ان کے افسانے پر لکھے اپنے کومنٹ کو شئیر کیا ہے۔
''دیار غیر میں رہنے والے تنہا انسان کی خوبصورت کہانی۔۔ جوواقعی وہی سمجھ سکتا ہے جو کبھی اپنوں سے دور رہا ہو۔۔۔ ایک اچھی کہانی کے لئے بہت بہت مبارک باد۔۔۔ راجہ یوسف''
یہ مخلص اور ہر دل عزیز خاتوں محترمہ ڈاکٹر خورشید نسرین صاحبہ جسے فیس بک کے ہم سارے دوست” امواج الساحل“ صاحبہ کے نام سے جانتے تھے۔ اسی سال یعنی 2021 میں مختصر علالت کے بعد انتقال کر گئی ہیں۔
اِنَ للہِ و اِنَ اِللہِ راَجَعون
یاد رفتگاں
" امواج الساحل عربی اور اردو ادب کی پر وقار شخصیت۔ "
تحریر : راجہ یوسف کشمیر
چھ سات سال پہلے جب میں فیس بک کی وساطت سے ”عالمی افسانہ فورم“ کے ساتھ منسلک ہوگیا تو یہاں مجھے دنیا بھر کے افسانہ نگاروں کے ساتھ تعارف ہوا۔ چند ایک کو چھوڑ کر باقی سب نام میرے لئے غیر مانوس تھے۔ میرے لئے انجان تھے۔۔۔ کچھ نام ایسے تھے جنہیں دہرانا یا یاد رکھنا بہت مشکل تھا۔ کچھ نام پڑھنے میں اتنے سقیل اور مشکل تھے کہ ان کا ہجا بار بار پڑھ کر بھی مجھے یاد نہیں رہتے تھے۔ یہ افسانوں کے ساتھ میری دلچسپی اوردنیا بھر کے افسانہ نگاروں سے متعارف ہونے کی خواہش ہی تھی کہ آہستہ آہستہ نام پڑھنے آتے گئے اور یاد بھی ہوتے گئے۔ ان میں بہت سارے پھر میرے فیس بک فرنڈ بھی بن گئے۔ کچھ کو میں نے فرنڈ ریکویسٹ بھیجی اور کئیوں نے مجھ سے دوستی کرنے کی خود خواہش ظاہر کر دی۔ اس طرح سے عالمی سطح کے کئی افسانہ نگار جو دور دراز ملکوں میں رہتے تھے میرے دوست بنتے گئے۔ انہی مخلص دوستوں میں امواج الساحل (ڈاکٹرخورشید نسرین عبدلسلام) نام کی خاتون بھی تھیں۔ پہلے پہل تو یہ نام کچھ سمجھ نہیں آیا۔ ویسے بھی ان دنوں وہ اپنا نام صرف امواج الساحل ہی لکھتی تھیں۔ یہ تب پتہ چلا جب وحید قمر صاحب نے عالمی افسانہ فورم میں ان کا تعارف لکھ دیا تو ان کے اصل نام سے واقف ہوگئے ۔وحید قمر صاحب لکھتے ہیں
”محترمہ ڈاکٹر خورشید نسرین صاحبہ (امواج ساحل) اس فورم پر موجود سینیئر ترین ادیبوں میں سے ایک ہیں۔ فورم پر ہونے والی گزشتہ عالمی نشستوں کی طرح اس میلہ میں بھی وہ خصوصی طور پر شامل ہو رہی ہیں۔
ڈاکٹر خورشید نسرین صاحبہ نے ایم اے عربی میں گولڈ میڈل لیا اور پھر عربی زبان و ادب میں پی ایچ ڈی کی۔
قطر کے اعلیٰ تعلیم کے مختلف اداروں میں عربی زبان و ادب پڑھاتی رہی ہیں (1978 سے 2005)
عربی میں افسانہ نگاری اور شاعری کے علاوہ مختلف شعراء سلطان باہو، شاہ حسین، ڈاکٹرمحمد اقبال پر مضامین لکھے اور انکی شاعری کا عربی میں ترجمہ بھی کیا۔ ثلاثیات (ھائیکو)انکا میدان سخن ہے، اور پورے عالم عرب میں اس صنف میں پہلی شاعرہ ہونے کا اعزاز بھی انہیں حاصل ہے، قطر میں سب سے پہلے رباعیات ان کی ہی شائع ہوئیں۔اردو سے عربی افسانوں کا ترجمہ بھی کیا
مشہور عربی رسائل '' الرایہ، الشرق، الوطن، الجوہرہ، العروبہ اور کتابات میں انکی تخلیقات شائع ہوچکی ہیں
2002 میں انہوں نے منسٹری آف ایجوکیشن قطر کے لیے تعلیمی سی ڈی بنائی تھی، جو کہ قطر میں پہلی تعلیمی سی ڈی تھی۔
ریڈیو قطر سے انکا انٹرویو ابھی چند سال قبل نشر ہو چکا ہے۔
منسٹری آف ایجوکیشن قطر نے انہیں بیسٹ ریسورس کا ایوارڈ بھی دیا ہے“
ڈاکٹر امواج الساحل صاحبہ اپنے تعارف کے حوالے سے خود لکھتی ہیں۔
” میں ہوں امواج الساحل -مکمل نام خورشید نسرین ہے- بچوں نے امواج الساحل قلمی نام رکھ دیا تھا- عرب خورشید کے نام سے جانتے ہیں - اسی سے ادبی مواد چھپتا رہا- امواج کو سب نہیں جانتے - تو بچوں نے اب یہ رکھ دیا تاکہ سب پہچان لیں -میری شادی کے بعد بھی میرا نام عرب رواج کے مطابق خورشید عبد السلام ہی رہا- عرب خواتین شادی کے بعد شوہر کا نام والد کی جگہ نہیں لگاتیں، تاکہ رشتوں کا تقدس قائم رہے-“
”عالمی افسانہ فورم“ میں انمواج الساحل صاحبہ کے تبصرے پڑھنے کو ملتے تھے۔ پھر ان کے چند ایک افسانے بھی پڑھ لئے۔ میں اپنے آپ کو بڑا خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ وہ اکثر میرے افسانوں پر کچھ نہ کچھ ضرور لکھتی تھیں۔ اور میری حوصلہ افزائی کرتی تھیں۔۔۔
امواج الساحل صاحبہ اصل میں شاعرہ تھیں۔ وہ خوبصورت غزلیں اور جاندار نظمیں لکھتی تھیں۔ دو دن یا کبھی کبھی چار دن کے بعد ان کی وال پر کوئی نہ کوئی غزل یا نظم مل جاتی تھی۔ وہ اپنے کلام میں سماجی مسائل کو اٹھاتی تھیں اور کبھی کوئی عشقیہ شعر بھی کہہ لیتی تھیں۔ لیکن زیادہ تر وہ تعتیہ کلام ہی لکھا کرتی تھیں اور دوسروں کا نعتہ کلام بھی اپنی وال پر شئیر کرتی تھیں۔ ان کی وال سے مجھے ان کی یہ نظم مل گئی جو آپ کے ساتھ شئیر کر رہا ہوں۔
وہ ایک درس پڑھانا نہ تھا جو نسلوں کو
غضب خدا کا! وہی شامل نصاب ہوا
''سب کے ہونٹوں پہ ہے نغمہ معراج کا''
گو پرانا ہے یہ قصہ معراج کا
یوں تو پاتے ہیں درجے سبھی انبیا
ہے انوکھا یہ اک درجہ معراج کا
آسماں تک گئے میرے آقا وہاں
تھا جو ان کے لئے رستہ معراج کا
واقعہ تھا یہ ایسا ہی کچھ منفرد
آج تک بھی ہے یہ چرچا معراج کا
یہ نمازیں ملیں ہم کو اللہ سے
یہ ملا ہم کو ہے تحفہ معراج کا
تو نے امواج بس یوں ہی لکھا کلام
دیکھ آئے ہیں وہ جلوہ معراج کا
أمواج الساحل
وہ نکتہ سنج اور نکتہ دان خاتون تھیں اور اپنے اشعار میں بڑے ہلکے پھلکے انداز میں نکتے پروتی تھیں۔ جیسے ان کی یہ غزل
ان کی نظریں تو دکھ ہی دیتی ہیں
پاس پہلے سے اک دوا رکھوں
سب پرانے تو ہوگئے بے کار
کوئی میں اسلحہ نیا رکھوں
میرا دشمن کھڑا ہے چوکنا
اور میں قوم کو سلا رکھوں؟
آگیا دن جو میری شادی کا
اس کے سب خط بھی میں جلا رکھوں
مرغی پہلے بنی کہ انڈا تھا
کیوں نہ اس بحث کو اٹھا رکھوں
امواج الساحل صاحبہ کبھی کبھار بڑے چست جملے لکھ دیتی تھیں جن میں معنیٰ کے انبار ہوتے تھے۔ یہ لائن دیکھ لیجئے۔
سنتے تھے کہ پوری دنیا الیکٹرونکل ولیج بننے جا رہی ہے-
قدرت نے کرونیکل ولیج بنا دی-
امواج الساحل صاحبہ ”عالمی افسانہ فورم“ کے لگ بھگ سبھی ایونٹس میں مہمان خصوصی ہوتی تھیں۔ اور افسانوں پر ان کے تبصرے بھی آتے رہتے تھے۔پہلے پہل ایونٹ میں ان کے افسانے بھی شامل ہوتے تھے۔
عالمی افسانہ میلہ 2015
افسانہ نمبر 90
دکھ پردیس کے
ڈاکٹر خورشید نسرین، دوحہ، قطر
اس افسانے پر کافی اچھے اچھے کومنٹ آئے ہوئے ہیں۔ میں نے یہاں ان کے افسانے پر لکھے اپنے کومنٹ کو شئیر کیا ہے۔
''دیار غیر میں رہنے والے تنہا انسان کی خوبصورت کہانی۔۔ جوواقعی وہی سمجھ سکتا ہے جو کبھی اپنوں سے دور رہا ہو۔۔۔ ایک اچھی کہانی کے لئے بہت بہت مبارک باد۔۔۔ راجہ یوسف''
یہ مخلص اور ہر دل عزیز خاتوں محترمہ ڈاکٹر خورشید نسرین صاحبہ جسے فیس بک کے ہم سارے دوست” امواج الساحل“ صاحبہ کے نام سے جانتے تھے۔ اسی سال یعنی 2021 میں مختصر علالت کے بعد انتقال کر گئی ہیں۔
اِنَ للہِ و اِنَ اِللہِ راَجَعون