سمندر، ڈولفین اور آکٹوپس

سمندر، ڈولفین اور آکٹوپس

Feb 8, 2019

مائیکرو فکشن

مصنف

عامر صدیقی

شمارہ

شمارہ - ٩


سمندر، ڈالفن اورا ٓکٹوپس

عامر صدیقی ، کراچی
مائیکرو فکشن


٭٭٭
”یوپی، ناگن چورنگی، حیدری ، ناظم آباد ، بندر روڈ۔۔۔۔۔۔۔۔ کرن ۔۔۔"
کنڈیکٹر کی تکرار سن کر اچانک وہ اپنے خیالات سے باہر نکل آیا۔
”کرن ؟ کیا اسکی منزل آگئی۔۔“ اس نے سیٹ پر سیدھا ہوتے ہوئے باہر جھانکا۔۔۔۔
”بندر روڈ سے اگلا اسٹاپ بولٹن مارکیٹ کا ہی ہوتا ہے۔ سمندر تو ابھی کچھ دور ہے۔۔۔ مگر پھر میرے ذہن میںکرن کا نام کیوں آیا۔ کیا کنڈیکٹر نے صدا لگائی تھی؟۔۔ یابس یوں ہی۔۔۔۔۔“
بس ابھی بھی بولٹن مارکیٹ پر ہی رکی ہوئی تھی۔۔۔ وہ دوبارہ سیٹ پر ڈھے گیا۔۔ پھر، ایک گہری سانس بھرتا ہوا۔۔۔گہری سوچوں میں گم ہو گیا۔۔۔۔۔۔

”تم تو سمندر تھے۔“
”تم بھی تو اس سمندر کی واحد ڈالفن۔“
۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔
”تم سمندر نہ رہے۔“
”تم نے اور پانیوں کی تلاش کر لی۔اس سمندر کو چھوڑ کر۔ اور میں شاید بھول گیا تھاکہ سمندر کے اطراف آکٹوپس بھی تاک میں کھڑے ہیں۔“

سیٹ یکایک ،ایک ہائی ٹیک سیٹ میں اور بس خلائی راکٹ تبدیل ہوچکی تھی اور بے پناہ رفتار سے کرہ ارض سے باہر نکل کر اب چاند کے پاس سے گزر رہی۔۔۔۔۔۔
"چاند۔۔۔۔۔۔۔کرن۔۔۔۔ چاند۔۔۔"
اس نے بے اختیارہو کر دروازہ کھولا اور باہر نکل کر اسے اپنی گرفت میں لینا چاہا۔۔۔۔۔۔مگر چاند اس کا ارادہ بھانپ چکا تھا۔ وہ کنی کاٹ گیا۔۔۔اورکچھ فاصلے پرجاکر طنزیہ انداز میں ہنسنے لگا۔۔۔۔۔اچانک خلا کی یخ بستہ تاریکی اس کے اندر سما گئی۔۔۔ وہ منجمد ہوگیا اور تیزی سے نیچے گرنے لگا۔۔۔۔
"ٹاور۔۔ ٹاور "
وہ چونک پڑا۔منزل تک لے جانے والا اسٹاپ یعنی سمندر اب سامنے ہی تھا ۔ وہ تیزی سے نیچے اتر گیا۔۔۔اسے نیچے اترتا دیکھ کر اس کے اور کرن کے درمیان حائل خون آشام آکٹوپس چاروں جانب سے اس کی سمت لپکنے لگے۔ اور اسے نگل گئے۔۔۔۔۔


سمندر، ڈالفن اورا ٓکٹوپس

عامر صدیقی ، کراچی
مائیکرو فکشن


٭٭٭
”یوپی، ناگن چورنگی، حیدری ، ناظم آباد ، بندر روڈ۔۔۔۔۔۔۔۔ کرن ۔۔۔"
کنڈیکٹر کی تکرار سن کر اچانک وہ اپنے خیالات سے باہر نکل آیا۔
”کرن ؟ کیا اسکی منزل آگئی۔۔“ اس نے سیٹ پر سیدھا ہوتے ہوئے باہر جھانکا۔۔۔۔
”بندر روڈ سے اگلا اسٹاپ بولٹن مارکیٹ کا ہی ہوتا ہے۔ سمندر تو ابھی کچھ دور ہے۔۔۔ مگر پھر میرے ذہن میںکرن کا نام کیوں آیا۔ کیا کنڈیکٹر نے صدا لگائی تھی؟۔۔ یابس یوں ہی۔۔۔۔۔“
بس ابھی بھی بولٹن مارکیٹ پر ہی رکی ہوئی تھی۔۔۔ وہ دوبارہ سیٹ پر ڈھے گیا۔۔ پھر، ایک گہری سانس بھرتا ہوا۔۔۔گہری سوچوں میں گم ہو گیا۔۔۔۔۔۔

”تم تو سمندر تھے۔“
”تم بھی تو اس سمندر کی واحد ڈالفن۔“
۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔
”تم سمندر نہ رہے۔“
”تم نے اور پانیوں کی تلاش کر لی۔اس سمندر کو چھوڑ کر۔ اور میں شاید بھول گیا تھاکہ سمندر کے اطراف آکٹوپس بھی تاک میں کھڑے ہیں۔“

سیٹ یکایک ،ایک ہائی ٹیک سیٹ میں اور بس خلائی راکٹ تبدیل ہوچکی تھی اور بے پناہ رفتار سے کرہ ارض سے باہر نکل کر اب چاند کے پاس سے گزر رہی۔۔۔۔۔۔
"چاند۔۔۔۔۔۔۔کرن۔۔۔۔ چاند۔۔۔"
اس نے بے اختیارہو کر دروازہ کھولا اور باہر نکل کر اسے اپنی گرفت میں لینا چاہا۔۔۔۔۔۔مگر چاند اس کا ارادہ بھانپ چکا تھا۔ وہ کنی کاٹ گیا۔۔۔اورکچھ فاصلے پرجاکر طنزیہ انداز میں ہنسنے لگا۔۔۔۔۔اچانک خلا کی یخ بستہ تاریکی اس کے اندر سما گئی۔۔۔ وہ منجمد ہوگیا اور تیزی سے نیچے گرنے لگا۔۔۔۔
"ٹاور۔۔ ٹاور "
وہ چونک پڑا۔منزل تک لے جانے والا اسٹاپ یعنی سمندر اب سامنے ہی تھا ۔ وہ تیزی سے نیچے اتر گیا۔۔۔اسے نیچے اترتا دیکھ کر اس کے اور کرن کے درمیان حائل خون آشام آکٹوپس چاروں جانب سے اس کی سمت لپکنے لگے۔ اور اسے نگل گئے۔۔۔۔۔

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024