نسائی ادب میں سیاسی وسماجی عدم استحکام کی عکاسی

نسائی ادب میں سیاسی وسماجی عدم استحکام کی عکاسی

Jan 29, 2019

کشمیر کے حوالے سے ایک مطالعہ

ڈاکٹر آمنہ تحسین

شعبہ تعلیمِ نسواں

مولانا آزاد نیشنل اردو ےو نی ورسٹی۔گچّی باولی ۔ حیدرآباد

amtahseen123@yahoo.com

نسائی ادب میں سیاسی وسماجی عدم استحکام کی عکاسی

( کشمیر کے حوالے سے ایک مطالعہ)

  ہندوستان کو عالمی سطح پر امن وامان، مذہبی رواداری، فرقہ وارانہ ہم آہنگی وبھائی چا رہ کے گہوارہ کی حیثیت حاصل رہی ہے ۔تاہم پچھلی دہائیوں میں رونما ہو نے والے مختلف واقعات کے نتیجے میں بدلتے حالات نے ہندوستان کی شبیہ کو بدل کر رکھ دیا ہے ۔بالخصوص ملک کے چند علاقے ایسے ہیں جہاں برسوں سے سیاسی اورسماجی سطح پر مسلسل انتشار اور عدم استحکام کا ماحول پایا جاتا ہے ۔جس میں سر فہرست ریاستِ جموں و کشمیر کو رکھا جاسکتا ہے۔ اگر چہ کہ موقع بہ موقع میڈیا یا مختلف رپورٹس کے ذریعہ سے کم وبیش ان تمام حالات سے آگاہی ہو تی رہتی ہے لیکن ادب چونکہ سماج کا آئنہ ہو تا ہے جس میں معاشرتی زندگی کی مکمل تصویر دیکھی جا سکتی ہے ۔ادب میں دراصل تمام سماجی حالات، مختلف افراد کے عقائد و نظریات ،جذبات واحساسا ت کے علاوہ غیر موافق حالات کے خلاف احتجاج ومزاحمت کے کئی شیڈز ہو تے ہیں جن کے مطالعہ سے سماج کی حقیقی صورتِ حال کو جاننے کا موقع ملتا ہے لہٰذا مختلف علوم کے شعبہ جات میں مطالعات و تحقیق کے لیے معاصر ادب کو ایک اہم ذریعہ بنایا جا سکتا ہے ۔ ادب کی اہمیت کے اس تناظر میں نسائی ادب کے حوالے سے ریاستِ جموں و کشمیر کی صورتِ حال اور خواتین پر مرتب ہو نے والے اثرات کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔

یو۔این ہیومن رائٹس کمیشن،ایمنسٹی انٹر نیشنل انڈیا کی رپورٹس کے علاوہ دیگر تحقیقی رپورٹس کے مطابق گذرے برسوں کے دوران ریاستِ جموں و کشمیر ِ میں انسانی حقوق کی پامالی، سماجی عدم مساوات،سیاسی انتشار اورسماجی خلفشاروافراتفری کے نتیجے میں سخت بحران پیدا ہو گیاہے ۔مسلسل کشیدہ حالات نے پورے سماج میںبے سکونی و اضطراب کی کیفیت پیدا کردی ہے۔ ان رپورٹس کے مطالعہ سے یہ بھی ثابت ہو تا ہے کہ کشمیر میں بڑے عرصہ سے پر آشوب حالات کی بنا پر مردوں کے مقابلے میں خواتین کی بڑی تعداد متاثر ہوئی ہے۔ مسلسل رونما ہو نے والے ہنگامی واقعات ، خاندان کے ذمہ داران کی موت یا گمشدگی ،جبرو استحصال،خوف وہراس کے ماحول میں خواتین کے لیے جہاں تعلیمی ،معاشی ،سماجی وثقافتی سطح پر بے شمار چیلنجس ابھر آئے ہیں وہیں بالا دستی اور عدم تحفظ کے احساس سے خواتین کی ایک بڑی تعداد نفسیاتی مسائل کا شکار ہو گئی ہے۔

(۱)

پدر سری معاشروں میں پاور ریلیشنیا حاکمیت نیزخوف و دہشت کو جاری رکھنے کے لیے ہمیشہ خواتین پر جنسی تشدد کا سہارا لیا جاتا رہاہے۔ مختلف حالات میں خواتین بطور ہتیار استعمال کی جاتی رہی ہیں۔ اگر چہ کہ سماج غیر مہذب تمدن سے مہذب تمدن کی طرف صدیوں پہلے سفر طے کر گیا لیکن خواتین کے ساتھ جبر واستحصال نیز غیرانسانی سلوک کا سلسلہ مختلف شکلوں میں آج بھی اسی طرح رائج ہے۔جس طرح سے غیر مہذب سماج میں مروج تھا۔ ہندوستانی سماج میں خواتین یوں تو بے شمار مسائل سے دوچار ہیں لیکن دیگر مقامات کی بہ نسبت عدم استحکام والے علاقوں میں خواتین کے اندرونِ خانہ و بیرونِ خانہ مصائب مزید کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ایک طرف ہر قدم پر انھیں عصمتوں کے لٹنے کا ڈر اور جنسی استحصال کا خوف ہو تا ہے تو دوسری طرف کئی مرحلوں پر صنفی تشدد یا تفر قہ سے بھی گذرنا پڑتا ہے ۔ علاقہ کشمیر میں خواتین کے موجودہ موقف کا جائزہ لیا جائے تو یہ تمام حقائق سامنے آتے ہیں۔  علاوہ ازیں کشمیر کی خواتین کے سنگین مسائل کو سمجھنے کے لیے عصرِ حاضر میں وضع کی گئیں ،Half Widow,Half Mother, Half Orphan جیسی اصطلاحات کافی ہیں۔ جو ایک ایسے سماج کی نشاندہی کر رہی ہیں جہاں عورت نہ صرف بیوہ کے طبقہ کی شناخت رکھتی ہے بلکہ اب دیگر ناموں سے بھی جا نی جانے لگی ہے اور سماج کے مختلف سطحوں پر اپنے شکستہ وجود کے ساتھ بے پناہ مسائل سے جوج رہی ہے۔

(۲)

کشمیر میں خواتین کا یہ متذکرہ موقفتحقیقی رپورٹس کی شماریات پر مبنی ہے ۔ شماریات کی بنیاد پر ہم یہ با آسانی جان سکتے ہیں کہ کب ، کہاں،کیسے اور کتنی خواتین مختلف حالات کا شکار ہوئی ہیں او روہ تعلیمی ،معاشی، صحتی یاسماجی طور پر کےسے متاثر ہو ئی ہیں۔تاہم ان رپورٹس کے تناظر میں یہ سوال  بھی کیا جا سکتا ہے کہ

  کیا وہ رپورٹس ایک زندہ در گور عورت کے مکمل حالات کی ترجمانی کر پا ئی ہیں ؟ یا عورت کے شکستہ وجود ،اندرونِ ذات وبیرونِ ذات تصادم ،اس کی ذہنی وجذباتی کشمکش اور اس کے داخلی کرب واضطراب کی تمام تر کیفیات کی پیمائش کر پا ئی ہیں جس سے کے پچھلے کئی برسوں سے کشمیر کی خواتین دوچار ہیں جیسے یہ چند مثالیں ملاحظہ کیجیے

   ٭کرفیو زدہ شہر کی بیوہ سڑکیں آنکھیں کھولتی ہیں نگر کے گربھ میں کیا دیکھتی ہیں نہیں معلوم

    حیرت زدہ ہیں دھرتی شائد گربھ دھارن کررہی ہے چاند چھپ کر

  کھڑکیوں سے جھانکتا ہے آوارہ کتے ٹولیوں میں بھونکتے ہیں

   زندگی برہنہ سو رہی ہے میں رات سی کٹ رہی ہوں پوری وادی میں کرفیو نافذ ہے

                    (شبنم عشائی)

  ٭یہ قبرستان سی بستی یہ سناٹا ہے دھڑکن جس طرح بارود پھٹنے کی صدا کتنے پرانے گلشتوں میں ہیں نئے کتبے

   ہو ئے ضائع جواں بوڑھی ہو ئی ہیں لڑکیاں اے مہرباں کر رحم اس مخلوق پر اے خالقِ ارض وسماں

   یا صبر دے ایوب کا یا چھین لے ہوش وحواس ٹوٹ جائے نہ کہیں زخمی دلوں کی آس اب تو رکھ دعا کا پاس

                    (ترنم ریاض)

   ٭ظلمتوں کے دشت میں اب کس لیے بھٹکا کروں  مجھ کو میرے خضر نے وہ راہ دکھلائی نہ پوچھ

    پھوٹتے ہیں آگ کے شعلے گلوں کے لمس سے   ایسے عالم میں بدن کی نا شکیبائی نہ پوچھ

                    (رخسانہ جبین)

   ٭ہے دریدہ جسم،الجھی زلف اور ویراں نظر   زندگی زندہ پھر بھی حادثوں کے باوجود

    موسموں کی سازشیں تھیں یا سیاست وقت کی  اے نظر فصلیں جلیں کیوں بارشوں کے باوجود

                   (نکہت فاروق نظر)

  متذکرہ بالانسائی فکری اظہار ایک ایسی عورت کے داخلی کرب، خوف وسر اسمیگی، رنج و غم ، احساس ِ شکست اور ذہنی ونفسیاتی کیفیات کا ترجمان ہے جو روزمرہ زندگی میں سخت ترین آزمائشوں اور پر آشوب حالات سے جوج رہی ہے اور مختلف اسباب کی بنا پر دھیرے دھیرے ایک مضطرب وجود میں ڈھل کر سماج میں ایک ” متاثرہ یااستخراجی فرد“ کی حیثیت اختیارکر رہی ہے۔ پر آشوب حالات سے متاثرہ خواتین کی متذکرہ اضطرابی کیفیات سماجی مطالعات کا تب تک حصّہ نہیں بن سکتیں جب تک کہ” ادبیات“ کو تحقیق و تجزیہ میں شامل نہ کیا جائے۔ادبیات کا مطالعہ اس وقت اور بھی اہمیت اختیار کر جاتا ہے جب ہم عورت کے وجود سے جڑے ہمہ پہلو مسائل کا ذکر کرتے ہیں۔ کیونکہ عورت کی ذہنی وجذباتی کیفیات اور کرب کا اظہار ان کی تحریروں میں بخوبی ہوتا ہے لہٰذا اس ضمن میں” نسائی ادب “کا مطالعہ اہم ذریعہ ثابت ہو تا ہے ۔جس کے حوالے سے سماج میں عورت کے موقف ومسائل کو جاننے اور اس کے مکمل وجود کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے ۔ چونکہ مطالعاتِ نسواں ‘ عورت کے مسائل کو جاننے ،اس کے مکمل وجود کو سمجھنے نیز اس کی فکر وشعور کی تفہیم وتشریح سے عبارت ہے اسی لیے مختلف زاویوں سے نسائی ادب کا مطالعہ نہات سود مند ثابت ہو تا ہے۔ بالخصوص نسائی ادب کے حوالہ سے شورش زدہ علاقوں میں خواتین کے موقف اور ان کے پیچیدہ مسائل کو مزید وضاحت کے ساتھ سمجھا جا سکتا ہے ۔ چونکہ عالمی وقومی سطح پر خواتین کے غےر مواقف موقف اور حاشیائی حیثےت کو ختم کرنے،انھےں ترقی کے مرکزی دھارے میں شامل کرنے نیز تحفظ بھری زندگی کے ساتھ انھیںبا اختےار بنانے کے لیے مباحث کا سلسلہ یوں تو بین الاقوامی خواتین کے دہے(1975-85) سے شروع ہو چکا اور تا حال اس جانب کئی ایک ٹھوس اقدامات اپنائے گئے ۔تاہم مجموعی طور پر سماج میں عورت کے موقف کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان اقدامات کے کوئی خاطر خواہ اثرات مرتب نہیں ہو پائے۔ اسی تناظر میں یہ بحث بھی اہمیت اختیار کر جاتی ہے کہ بحران زدہ سماج کی عورت کے مسائل کو ان کی پوری صداقتوں کے ساتھ کس طرح سمجھا جائے اور ان کا تدارک کیوں کر ممکن ہو۔ لہٰذاءزیرِ بحث مقالہ میں نسائی ادب کا مطالعہ ان ہی مقاصد سے کیا گےا ہے تا کہ یہ سمجھا جاسکے کہ

خواتین بہ حےثیت اےک حساس سماجی فرد کے عدم استحکام کے حالات سے ذہنی وجذباتی سطح پر کس طرح متاثر ہوتی ہیں ؟اور ان حالات سے پیدا ہو نے والے اضطراب کی عکاسی ان کے ادب مےں کیسے کی جاتی ہے؟دوسرے ایک عورت ہو نے کے ناطے بحران زدہ سماج مےں عورت کی حےثےت کو تخلیق کار خواتین نے کس طرح سے دیکھا اور ان کے مسائل کو کیسے پیش کیا؟

تخلیق کار بالواسطہ طریقے سے اپنی تحریروں میں معاشرتی تاریخ رقم کرتا ہے۔ تخلیق کارکا اپنے عہد کی زندگی اور مسائل کو دیکھنے کا نظریہ دیگر افراد سے بالکل جدا ہو تا ہے ۔ اس کی فکرِ رسا اسے شعور وآگہی کے ساتھ اندرونِ ذات سے بیرونِ ذات تک کا سفر کرواتی ہے اور مختلف حالات کے پس منظر میںانسانی فطرتوں نیز جذبات واحساسات کے مدوجزر سے روبرو کرواتی ہے ۔ان ہی کیفیات کو تخلیق کار ضبطِ تحریر میں لاتا ہے اور زندگی کو اس کی پوری سچائیوں کے ساتھ ادبی پیرہن میں پیش کر دیتا ہے۔ جیسا کہ پروفیسر ریاض پنجابی لکھتے ہیں کہ

   ” ایک تخلیقی ذہن کا اپنے گرد وپیش کو دیکھنے کا ایک الگ اور جدا گانہ انداز ہوتا ہے ۔۔۔

    اس طرح کا ذہن اپنی بصیرت اور بصارت کے مطابق جس انداز اور نظر سے سماجیات ،تاریخ

    اور عصرِ حاضر کی پیچیدگیوں کا تجزیہ کرتا ہے وہ اسے ایک صحافی ےا دیگر اس زمرے میں شامل

     صاحب ِ قلم افراد سے ایک الگ اور منفرد مقام عطا کرتا ہے “

(۳)

    تخلیق کار خواہ مرد ہو کہ خواتین سماج کے حساس فرد کی حےثےت سے تاریخ رقم کرتے ہیں۔تاہم زندگی کے کئی معاملات میں خواتین نہاےت حساس و جذباتی ہو تی ہیں اور ان کا مشاہدہ بھی بڑا گہرا ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ جب وہ ایک با شعور وحساس ذہن فرد کی حےثےت سے اپنے اطراف واکناف کے ماحول سے اثر ات قبول کرتی ہیں اور جب اپنے تجربات و مشاہدات کو تخلیقات کا حصّہ بناتی ہیں تو وہ فکری اظہار چونکہ عورت کے داخلی کرب کا ترجمان ہو تا ہے اسی لیے کئی سطحوں پر منفرد ہو تا ہے اوراپنی انفرادیت کے ساتھ یہ ادبی سرمایہ‘ تاریخ ، سماجیات، نفسیات، سیاسیات ، معاشیات و انسانیات ،ےعنی مختلف علوم کا ایک اہم ماخذ بن جاتا ہے ۔ جس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

  سر زمینِ کشمیر ماضی میں صوفیوں ورشیوں کا مسکن رہی ہے۔ خوبصورت مناظر،علم ،ادب وثقافت سے مالا مال اس سرزمین پر نسائی ادب کی رواےت کافی قدیم ہے اور توانا بھی ہے ۔ تقریباً چودہویں صدی میں سماجی بندشوںا ور فرسودہ رواےتوں کے خلاف اپنے اضطراب و مزاحمت کا جو بیج للّا عارفہ ( لال دید) نے بویا تھا اور نسائی فکر واظہار کے جو گل وبوٹے کھلائے تھے ان کاتسلسل سولہویں صدی کی حبّہ خاتون سے ہو تا ہوا عصرِحاضر کی قلم کار خواتین تک آپہنچا ہے ۔کشمیری زبان کے علاوہ دیگر زبانوں بشمول اردو کے ان کی نثری و شعری تخلیقات منظرِ عام پر آتی ر ہی ہیں اورچمنستانِ ادب میں اضافہ کا باعث بنتی ر ہی ہیں۔ اردو زبان کے حوالے سے عصرِ حاضر کے نسائی ادب میں نصرت چودھری،شفیقہ پروین،نصرت رشید، عابدہ احمد ،رخسانہ جبین، ترنم ریاض ، شبنم ہاشمی ،نکہت فاروق نظر،سیدہ نسرین نقاش،پروین راجہ ،صاحبہ شہر یار، زنفر کھوکر، نیلوفر ناز نحوی قادری، روبینہ میر ، نعیمہ احمد مہجور،دیبا نظیر، رفعت حجازی،فریدہ کول،رابعہ ولی وغیرہ کے نام قابل ِ ذکر ہیں۔ معاصر خاتون تخلیق کاروں نے عالمی وقومی سطح کے مسائل کے علاوہ اپنے گرد ونواح کے شورش زدہ واقعات و حالات کو نہاےت موثر طریقے سے اپنی تحریروں کاحصّہ بناےا ہے۔ان کی تخلیقات میں سماجی اضطراب کی مختلف نوعیتوں کو بخوبی دیکھا جا سکتا ہے ۔ اس مقالہ میںکشمیر کے حالات کے تناظر میں چند ایک ایسی ہی مثالوں کے حوالوں سے ان کے بین السطور میں موجود سماجی اضطراب کی مختلف تہہ داریوں کو واضح کر نے کی کو شش کی گئی ہے ۔ کشمیر کی تخلیق کار خواتین ایک حساس سماجی فرد کی حےثےت سے اپنے اطراف بکھرے خونچکاں مناظر ،  ظلم وبر بریت ، آلام و مصائب کو کس طرح سے محسوس کیا ہے اور اپنے درد ومزاحمت کو کس طرح ادبی پےرائیہ میں ڈھالا ہے چند مثالیںملاحظہ کیجےے

    ٭جی بہت چاہتا ہے رونے کو    اور کیا اب بچا ہے کھونے کو

    کھیت کیوں بھر دیے ہیں لاشوں سے  اور کیا کچھ نہیں تھا بونے کو                 (رخسانہ جبین)

    ٭کسی نے باغباں بن کر جلاےا مرغزاروں کو

    کسی نے سائباں بن کر اجاڑا ہے بہاروں کو

           خزاں نے دیکھ ڈالا گھر ترے سب لا لہ زاروں کا

           نشاط وچشمہ شاہی ،ڈل ، ولر کا شالماروںکا

           سکوں کے ہر خزانے پر ہے پہرا شاہماروں کا  

     سبھی تےری زمیں پر چاہتے ہیں آسماں اپنا

     جڑوں کو گھن لگا کر ٹہنیوں پر آشیاں اپنا

                   (ترنم ریاض)

    ٭نئے ہی رنگ دکھائے ہیں اب کے موسم نے  کہ سبز کھیت جلائے ہیں اب کے موسم نے

     نظر میں کیسے بھلاﺅں یہ خونچکاں منظر   لہو کے پھول کھلائے ہیں اب کے موسم نے

                  (نکہت نظر فاروق)

    ٭ ہوائیں خون تشنہ ہو گئی ہیں       فضاﺅں میں ہیں پر افشاں پرندے

      غضب کی خاموشی ہے وادیوں میں     نشیمن میں ہیں بے ساماں پرندے

                     (پروین راجہ)

    ٭میرے شہر کا آسماں حیران ہے اس نے کیا نہ دیکھا جسم کے ٹکڑے سناٹوں کی گرج ریت پر بکھرے گیسو

     پہاڑ کے دامن میں زخم خوردہ صورتیں خون کے آبشار میرے شہر کا آسماں حیران ہے

                   (رخشندہ رشید)

    ٭سڑک پر کتا کو ڑے کے ڈھیر پہ ایسے بیٹھا ہے جیسے میں زندگی کی راکھ پر پر وہ سو رہا ہے شائد با خبر ہے

     کہ جس کا کو ئی نہیں ہو تا اس کے پاس صحن ہو تا ہے نہ چھت کرفیو نے شہر کو نگل لیا ہے بادل کی آنکھ بھر آئی ہے

     مےری آنکھ تیسری منزل سے ہمسائے کے بڑے صحن میں جھانک رہی ہے۔۔دادا قبر میں آرام سے سو رہا ہے

      پاس میں جاگیردارن دادی بھی قدم پسارے ہے ان کی ناموجودگی نے میرے وجود کو کب ےتیم کیا

      پتہ نہیں کرفیو کے سناٹے میں شہر کے چھوٹے نکڑ پہ صحن تراشتے میں سوچتی ہوں کتا سمجھدار ہے

                      ( شبنم عشائی)

   ٭  قہر ٹوٹا ہے جو اس پر کیا لکھوں

     میں زباں رکھتی ہوں کیسے چپ رہوں

     کیوں نہ میں بھی اس کی موجوں میں بہوں

            کس قدر ہیں دل شکن منظر یہاں

             ہر کو ئی درد کا پیکر یہاں

             ہر قدم پر اک نہ اک ٹھوکر یہاں

      پا ﺅں میں آلام کی زنجیر ہے

      روح فرسا کس قدر تصویر ہے

      کیا یہی وادی کشمیر ہے 

                          (روبینہ میر)

 ا گر چہ کہ یہ چندسطور ہیں لیکن ان میں کشمیر کے موجودہ سیاسی وسماجی منظر نامے کو مکمل طور پر نہ صرف دیکھا جا سکتا ہے بلکہ بین السطور میں چھپے شدید درد وکسک کو محسوس کیا جا سکتا ہے نیز شورش زدہ حالات کے خواتین کے ذہن پر مرتب ہونے والے اثرات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ علاوہ ازیں ان اشعار میں استعمال شدہ الفاظ وتشبیہات مثلاً ،کھیتوں کا لاشوں سے بھر جانا، کرفیو کا شہر کو نگل جانا،بادل کی آنکھ بھر آنا، مرغزاروں کا جل جانا،خونچکاں منظر، لہو کے پھول ،خون کے آبشار، بے ساماں پرندے و پر افشاں پرندے ،سناٹوں کی گرج ،پا ﺅں میں آلام کی زنجیر وغیرہ جہاں مضطرب خواتین کے ایک خاص ڈکشن کا پتہ دے رہی ہیں جو خواتین کے اندرونی کرب کا اظہارہےں۔ وہیں انسانی وجود کے ساتھ ساتھ قدرتی وسائل ، تہذیب وثقافت کی  تباہی و بربادی پر خواتین کی شدیدفکر وملال کو بھی ظاہر کر رہی ہیں۔ دراصل عورت ہمیشہ قدرتی وسائل وماحول کی محافظ اور تہذیب و تمدن کے ارتقا میں ایک اہم کیٹےلسٹ کا کردار نبھا تی آئی ہے۔ تاہم جنگ وجدل اور بحران زدہ ماحول میں عورت کا وجود ایک بے مایہ ہستی بنا دیا جا تا ہے ۔ تاریخ کے اوراق یہ ضرور بتا تے ہیں کہ ماضی میں عورت کے حصول کے لیے بھی جنگیں ہو ئی ہیں لیکن یہ حقیقت بہت کم ہی بیان کی گئی کہ دنیا میں کتنی جنگوں کو روکنے کے لیے بادشاہوں نے زمین وزر کے ساتھ ساتھ اپنی لڑکیوں کو بھی معاہدہ میں دے دیا ۔ ےعنی بیشتر صورتوں میں خواتین نے جنگ وجدل کو روکنے میں معاون کردار ادا کیا۔باوجود اس کے آج بھی پر آشوب حالات میں ان کے وجود کی ارزانی اپنے عروج پر پہنچ گئی ہے۔

 خواتین اپنی حساس فطرت کی بنا پر آس پاس رونما ہونے والے دہشت ناک واقعات اور خونریز مناظر کو شدت سے محسوس کرتی ہےںاور مسلسل اضطراب کا شکار رہتی ہےں۔اضطرابی کیفیت میں مبتلا رہ کر وہ اپنے وجود کو ہی دھیرے دھیرے کھونے لگتی ہےں۔ خوف ، نا امیدی وےاس ان کے وجود کا حصّہ بن جاتی ہے ۔نا مساعد حالات میں اپنے ادھورے و مسمار ہوتے وجود کے ساتھ ان کی زندگی یوںہی گذر تی جاتی ہے۔عورت کے وجود کی اسی  ٹوٹ پھوٹ اور اس کے خالی پن کی ترجمانی نسائی ادب میں کس طرح ہو ئی ہے چند اشعار دیکھیے۔

    ٭ اے زندگی نہ گزرنا ہماری گلیوں سے    ابھی ہمارے جنازے گھروں میں رکھے ہےں

    مجھ سے آگے چلتی ہیں مری تنہائیاں     شہر ویرانہ لگے ہے رونقوں کے باوجود

                    (نسرین نقاش )

    ٭ بس اتنا کافی ہے اب بھی زمیں ہے زیر قدم ستارے ،شمس وقمر سب بھلادیے میں نے

                    (رخسانہ جبین)

    ٭ لمحہ لمحہ مجھے سولی پہ چڑھانے والو     تم سے میں کس منہ سے جینے کا سہارا مانگوں

     شہر کی بھیڑ میں گم ہو گئی مےری پہچان     میں ہر آئنہ سے کھوےا ہوا چہرہ مانگوں

                    (نصرت چودھری)

    ٭ بزمِ وہم وگماں میں رہتی ہوں      ہر گھڑی امتحاں میں رہتی ہوں

     رات دن جو ہے برق کی زد پہ     میں بھی کس آشیاں میں رہتی ہوں

                     (فریدہ کول)

    ٭ خوشبو ہوں کہاں چھپ جاﺅں بارود کا غبار مجھے سونگھ رہا ہے رستوں پر پھےلے

    کنسرٹینا کے دائرے مجھے اوڑھ رہے ہیں سفر حےران ہے قدم پریشان سفر پا پوش کے سینے میں سما رہا ہے

     قدموں کی دھڑکن الجھ رہی ہے کنسرٹینا کے کا نٹوں میں حسنِ سکون کی تلاش میں نکلی سانسیں تھم رہی ہیں

     کنسر ٹینا کے سینے میں کر فیوزدہ اس بے زبان چوراہہ پہ سانسوں سے کہہ دو کہ چھوڑ دے میرے من کے ہاتھ

     کو ئی انھیں بتادو کہ مسمار ہو ئے وجود کو نہیں سنوارسکتے میرے من کے ہاتھ کو ئی انھیں سمجھا دو

      کہ کھو ئے ہو ئے سکون کو نہیں تلاش سکتے میرے من کے ہاتھ نابینا ہو گئے ہیں اب کے

      میرے من کے ہاتھ 

             (شبنم عشائی)

    ٭ نہ جانے کیا خریدنے چلی تھی کہیں کچھ بھی ایسا بازار میں نہیں جو دامن گیر ہوتا اب خالی ہاتھ تماشائی بنی

     ہر بازار سے گذر جاﺅنگی  

            (شبنم عشائی)

    ٭گولیوں کا سایہ ہے بارودی سرنگیں ہیں سوچ کے تعاقب میں دوڑنے کی خواہش پر رینگتا ہے چھپ چھپ کر

     وش بھرا سمے کا سانپ  

             (ترنم ریاض)

متذکرہ بالا اشعار کے حوالے سے خواتین کی اضطرابی کیفیت کا بھر پوراندازہ لگاےا جا سکتا ہے ۔یہ کیفیات وبے سکونیاں دراصل سماج کی نصف آبادی ےعنی خواتین کی روز مرہ زندگی کی ترجمان ہیں۔ کسی بھی سماج کا ایک بڑا طبقہ جب انتشار کا یوں شکار ہو جا تا ہے تب یہ سوال ابھر آتا ہے کہ اس سماج کی ترقی کیوں کر ممکن ہو گی؟ کیا اس سماج کی گود سے ایک صحت مند نسل جنم لے گی؟ ایک بہتر سماجی نظام کی تشکیل صحت مند جسم وذہن کے مالک عورت ومرد کی موجودگی ا ور تمام شعبہ حےات میں مساویانہ حصّہ داری سے ہی ممکن ہو تی ہے ۔ باوقار و آسودہ حال انسانی زندگی کے لیے تمام بنےادی ضرورےات کی تکمیل اور حقوق کی فراہمی ناگزیر ہو تی ہے ۔لیکن بالادستی، ظلم وجبر کے نتیجے میں جب سماجی نظام درہم برہم ہو جا تا ہے تب ایک ایسا سماج وجود میں آ جاتا ہے جس میں مختلف طرح کے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں ۔خواتین کی نسبت سے یہ مسائل اور بھی پیچیدہ و سنگین ہو جاتے ہیں۔ یہی صورتِ حال کشمیر کے سماج کی ہے۔ معاصر نسائی ادب کا جائزہ لیں تو اندازہ ہو تا ہے کہ بیشتر تخلیقات میں خواتین کے تعلیمی ،سماجی ،معاشی اور صحتی ونفسیاتی مسائل کی بہتر طور پرعکاسی کی گئی ہے۔ بالخصوص فکشن میں ان مسائل کو زیادہ تر موضوع بحث بناےا گیا اور کئی ایک بہترین افسانے و ناول لکھے گئے جبکہ شعری حصّہ درد وکرب ،جذبات واحساسات کے اظہار سے پر نظر آتا ہے۔

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ سماج میں انتشار و عدم استحکام کی وجہ سے معیشت تباہ و تاراج ہو جاتی ہے اور غربت وہاں کے افراد کی زندگیوں کا حصّہ بن جاتی ہے۔معیشت کی تباہی اورغربت کے باعث انسانی زندگی کی اسی کشمکش کو نکہت فاروق نظر نے اپنے افسانے ” قہر نیلے آسمان کا“ میں بڑے موثر طریقے سے پیش کیا ہے ۔قالین کی بنائی کشمیر کے عوام کی معیشت کا ایک اہم ذریعہ رہی ہے۔ نکہت فاروق نظر نے اس افسانہ میں یہ بتانے کی کو شش کی ہے کہ قالین کی بنائی کے ساتھ ساتھ کس طرح سے غریب خاندان کی ضروریات کی تکمیل اور ایک اچھی زندگی کے سپنے بھی بنتے چلے جاتے ہیں۔قالین تیار ہوجاتا ہے ۔سپنوں کو حقیقت میں بدلنے کا وقت قریب ہوتا ہے کہ شہر میں حالات بگڑ جاتے ہیں فائرنگ ہوتی ہے اور پوری بستی جل اٹھتی ہے ۔ایسے میں غریب خاندان اپنے اور اپنے بچوں کے بچاﺅ سے زیادہ مسلسل اس الجھن میں گرفتار رہتے ہیں کہ کہیں قالین جل نہ جائے اورکو شش میں لگے رہتے ہیں کہ قالین کو بہ حفاظت باہر نکالا جائے کیونکہ ان کی زندگی کی بقا تو اسی قالین میں مضمر ہے۔لیکن ان کی تمام تر کو ششوں کے باوجود قالین جل جاتا ہے ا ور پھر سے غربت ان کی زندگی کا حصّہ بن جاتی ہے ۔ اسی طرح ترنم ریاض نے اپنے افسانے ” برف گر نے والی ہے “میں کسمپرسی سے جوجتے خاندان کی تصویر کشی کی ہے ۔انھوں نے اپنے افسانے میں غربت کی گود سے جنم لیتے مختلف مسائل کو پیش کیا ہے اور یہ بتانے کی کو شش کی ہے کہ ان پریشان کن حالات میں نوجوان نسل کئی ایک غیر قانونی کام کر نے پر مجبور ہو رہی ہے تاکہ کسی بھی طرح سے زندگی کی ضروریات کی تکمیل کی جا سکے ۔اس ضمن میں افسانہ کا یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے۔

”جب تک جان ہے بھوک لگے گی نہ ماں۔تمہیں لگی ہے مجھے بھی لگی ہے۔۔۔میں جلدی آﺅنگا۔تم فکر مت کرنا۔

   جب میں آﺅنگا تو گھر کا سارا سامان لے کر آﺅنگا۔ مجھے آنے میں دیر ہو ئی تو تم گھبرامت جانا “۔

ایسے ہی ایک موضوع پر ڈاکٹر نیلوفر ناز نحوی کا افسانچہ ” تھیلا “ ملا حظہ کیجےے

    ” یہ اتنے پیسے تجھے کہاں سے ملے ؟

    ” ایک آدمی آیا اور اس نے ایک تھیلا بیچ بازار میں رکھنے کو دیا “

    ” کیا تم نے رکھ دیا “

     ” ہاں اسی کے تو دو سو روپیے ملے۔اب ماں کے لیے دوائی لا سکتا ہوں“

     ” مجھے بھی دکھاﺅ ۔ وہ تھیلے کہاں سے ملتے ہیں۔ مجھے اپنے بابا کے لیے کھا نا لانا ہے۔“

 اسی طرح زنفر کھوکر نے اپنے افسانے ” دو حکمراں “ میں بیوہ کے معاشی مسائل کو پیش کیا ہے اور علامتی انداز میں ان اسباب کی بھی نشاندہی بھی کی ہے جو ان شورش زدہ حالات کو پیدا کرنےوالے ہیں ۔ ایک بیوہ جو بد ترین معاشی حالات کے نتیجے میں پیسے مانگنے پر مجبور ہوجاتی ہے اورجب اس سے سوال کیا جاتا ہے تب وہ کیا جواب دیتی ہے ملاحظہ کیجےے

  ” ہاںمیں رہنے والی ہوں اس سلطنت کی ‘جس میں اکثریت ہے بیواﺅ ں کی اور یتیم بچوں کی۔جس کے حاکم ہیں دو۔

   ایک کی حکومت چلتی ہے دن کے اجالے میں اور دوسرے کی رات کے اندھیرے میں۔دفاتر، مجلسیں اور عدالتیں لگتی ہیں

   دن کو اور رات کو بھی۔لین دین ،کاروبار اور دیگر معاملات طے پاتے ہیں دن کو بھی اور رات کو بھی۔ مگر ان سب کے باوجود

   سلطنت دن دگنی اور رات چوگنی انتشار کا شکار ہے اور بد حالی کی طرف گامزن ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دو حکمرانوں والی

   اس سلطنت کے اسّی فیصد سے زائد باشندے مالی ، جسمانی اور ذہنی طور پر بدحال ،اپاہج اور مفلس ہو چکے ہیں۔۔۔۔۔۔

   یہ کہہ کر اس نے اپنا ہاتھ آگے بڑھادیا“    

       ( اقتباس افسانہ۔ دو حکمران)

  پچھلے کئی برسوں سے کشمیر کے نا مساعد حالات میں‘ کم عمر لڑکوں ،نوجوان وبوڑھوں کی اموات کا پتہ نہ چلناےا برسوں تک ان کا لا پتہ ہو جانا نہاےت سنگین انسانی مسئلہ بن کر ابھرا ہے۔اسی مسئلہ کے تناظر میں ”نیم بیوہ یا نیم ماں یا نیم ےتیم “کی اصطلاحات بھی وجود میں آگئی ہیں۔ سینکڑوں خواتین ایسی ہیں جو اپنوں کے واپس لوٹ آنے کے طویل انتظار میں ہر دن موت کے کرب سے گذرتی ہیں ےااپنے گمشدہ رشتوں کی تلاش میں ہوش وخرد سے بے گانہ ہو جاتی ہیں۔اس مسئلہ پر کی گئی تحقیق کے مطابق ”مرد حضرات کے غائب ہو نے کی وجہ سے نیم بیوہ کی تعداد روزافزوںبڑھ رہی ہے۔ایسی خواتین معاشی مسائل کا شکار تو ہو ہی رہی ہیں لیکن انھیںسماجی عدم تحفظ کا بھی شکار ہو نا پڑتا ہے۔ان کے شوہروں کے متعلق سماج میں ایک منفی نظریہ قائم ہو جا تا ہے۔ انھیں شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ جس کا راست طور پر اثر ان کی ذہنی حالت پر پڑتا ہے۔ان میں بیشتر خواتین کم تعلیم ےافتہ اور معاشی طور پر کمزور گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ زندگی کی بقا اور اپنے بچوں کو پالنے پوسنے کے لیے انھیں روزانہ اجرت یا معمولی کاموں پر اکتفا کر نا پڑتا ہے۔ انھیں کئی ایک صنفی مسائل کا بھی سامنا کر نا پڑتا ہے۔وہ کوئی قانونی مدد بھی حاصل نہیں کر سکتیں۔لہذا ءانھیں زندگی کی لڑائی اکیلے لڑنی پڑتی ہے۔جس کے نتیجے میںوہ سماج سے دور ہوتی چلی جاتی ہیں اور ان کا وجود کہیں مخفی ہوجاتا ہے“ (۴) گھر کے ذمہ داران ےا مرد افراد کی گمشدگی کے مسئلہ کو خواتین نے اپنی تحریروںمیں جگہ دی ہے ۔ایک نیم بیوہ کے کرب کو شاعرہ رموز نے کس طرح الفاظ کا جا معہ پہنایا ہے ملا حظہ کیجےے

    ٭کو ئی تو شور کے بازار میں لفظ بچاﺅ    کو ئی تو خاموشی کا احتجاج درج کراﺅ

     ٭آجاﺅ میرا انتظار ابھی تھکا نہیں     آبھی جاﺅ کہ یوسف ابھی بکا نہیں

     ٭آجاﺅ کہ غیرت کبھی بھی ساتھ چھوڑ دے گی  آبھی جاﺅ کہ حیرت کبھی تو نیند توڑدے گی

     ترنم ریاض کے افسانے ”مٹی “ سے ا س ماں کے کرب کی جھلک ملاحظہ کیجےے جس نے اپنا جوان بیٹا کھودےا ہے ۔اقتباس پیش ہے۔

  ” ہلال احمد کی ماں دن بھر تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد سڑک پر نکل آتی ہے۔جینز ٹی شرٹ پہنے کسی لڑکے کو بغور دیکھتی ہے۔۔۔۔

  پھر ۔۔۔ہلال احمد کے متعلق پوچھتی ہے ۔پھر مایوس ہو کر روپڑتی ہے ۔کسی اور طرف چل دیتی ہے ۔اپنی طرح کی کئی عورتوں سے

   اس کی پہچان ہو گئی ہے ۔کسی کا لڑکا غائب ہے ۔کسی کا شوہر۔۔۔کسی کا بچّہ دل کا مریض ہو گےا ہے۔کسی کی بیٹی گونگی ہو گئی ہے۔

   ہلال احمد بھی غائب ہے ۔پتہ نہیں اس کی ماں اسے کب دیکھے گی۔دیکھے گی بھی یا۔۔۔۔“  

 (افسانہ مٹی)

   کشمیر کے پر آشوب حالات میں جنسی استحصال یا جنسی تشدد روز انہ کا معمول بنتا جا رہا ہے۔خواتین کاوقار پوری طرح مجروح ہو کر رہ گیا ہے ۔اس طرح کے بڑھتے واقعات کے نتیجے میں خواتین مسلسل خوف ودہشت کے عالم میں جی رہی ہیں۔نےشنل فیملی ہےلت سروے رپورٹ کے مطابق کشمیر میں مردوں کے مقابلے خواتین کی زےادہ تعداد ڈیپرےشن ، زندگی سے عدم دلچسپی،خوف و بے خوابی کا شکار ہیں۔اس کی بنےادی وجہ کشمیر کا وہ ماحول ہے جس میں خواتین عدم تحفظ کا شکار ہےں۔اس ریاست میں جاری جنسی تشدد کو انسانی حقوق کی پامالی کی بدترین مثال قرار دیا گےا ہے۔عاصمہ حسن اور انیسہ شفیع نے کشمیر میں خواتین کی ذہنی صحت کے متعلق جاننے کے لیے متاثرہ علاقہ کے ۰۰۲ گھروں کا سروے کیا ۔ان کی تحقیق سے پتہ چلا کہ ۰۰۲ گھرانوں میںکل ۹۰۱ افراد کی موت واقع ہو ئی ۔ نمونہ میں ۲۸ مائیں ایسی تھیں جن کے بچے مارے گئے ےا غائب ہو گئے۔ حاصل شدہ نمونے(سیمپل) میں ۹۳ نو بیاہتا عورتیں (بیویاں)تھیں۔ یہ تمام خواتین نفسیاتی طور پر متاثر پائی گئیں ۔ صحتی یا نفسےاتی مسائل میںسب سے زےادہ شرح ےعنی ۰۹ فیصد خواتین خوف کا شکار پائی گئیں۔دوسرے نمبر پر ڈیپریشن پایا گےا۔دیگر بیماریوں میں نیند کی کمی اور زندگی سے عدم دلچسپی بتائی گئی۔(۵) دوسری تحقیقی رپورٹ سے بھی اس بات کی تصدیق ہو تی ہے کہ کشمیر میں چونکہ عورتوں کو جنسی ہراسانی ےا استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے اسی لیے مردوں کے مقابلے خواتین کی زیادہ تعداد نفسیاتی طور پر متاثر ہے ۔ ڈیپریشن کا شکار خواتین 60فیصد ہیں جبکہ مردوں میں یہ شرح 51 فیصد ہے ۔ خواتین کے ہر عمر کے گروپ میں یہ شرح پائی گئی جبکہ26-35 برس کی عمر کے دوران 68.66پائی گئی۔(۶) خاتون تخلیق کاروں نے اس کربناک حقیقت کو صفحہ قرطاس پر کس درد سے اتارا ہے ملاحظہ کیجیے۔

  ٭” شام کو جب مشتاکہ اور مجید کام سے لوٹے تو دلّو بے ہوش پڑی تھی اس کی گردن پر خراشیں تھیں اورچہرے پر نیلے

  دھبے ابھر آئے تھے اور ماں نے اپنے بہت سارے بال نوچ ڈالے تھے ۔اس دن ماں کچھ بولی نہیں تھی۔دوسرے

  دن سینیر اسکول کے ماسٹر جی کو گولیاں لگنے کی بات سن کر ماں نے بتایا تھا کہ باپ اور بھائی کو بار بار پکارنے کے بعد

  دلّو نے ماسٹر جی ماسٹر جی کہا تھا اور پھر بے ہوش ہو گئی تھی “      

                   ( ترنم ریاض ،افسانہ کشتی)

  ٭” وردی پوش نے لڑکی کو بالوں سے پکڑ کر اوپر اٹھایا اور پھر دھکا دے دیا ۔وہ دھڑام سے گری ۔۔۔۔مجمع سن ہو گےا ۔۔۔

   بچے کانپ رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔لڑکیاں اپنے رشتہ داروں کی آڑ میں چھپنے کی کو شش کر رہی تھیں۔“

                    (ترنم ریاض ،افسانہ مٹی)

    ٭ کیا لکھوں میں کیا لکھوں کچھ سوجھتا نہیں من زخم زخم ہے اور شعر پر ہے سکوت قلم روشنائی میں نہیں

     اس نیل میں ڈوبے بار بار جو آصفہ کے ہو نٹوں پر پڑے ہو ئے تھے صفحوں پر طرح طرح کے نیل پڑے ہو ئے ہیں          وحشت رنگ کے اور چر چے یہ بےٹی بچاو کے چلو بیٹیوں اپنی قبر پر فاتحہ پڑھ لیں

                   (شبنم عشائی)

   ٭یہ زندگی بھی عجب رہگذر لگے ہے مجھے      کہ ہر مقام پہ لٹنے کا ڈر لگے ہے مجھے

   جہاں بھی دیکھوں وہیں رک کے تکنے لگتی ہوں     کہ ہر اجاڑ کھنڈر اپنا گھر لگے ہے مجھے

                    (نسرین نقاش)

  کشمیر میںخواتین کو بد ترین حالات کے علاوہ اندرونِ خانہ وبیرونِ خانہ صنی مسائل سے بھی جوجنا پڑتا ہے ۔ان کے اضطراب کا ایک سبب ان کے ساتھ روا رکھا جانے والا صنفی تشدد ےا وہ صنفی تفرقات ہیںجس سے بے شمار خواتین روز مرہ زندگی میں متاثر ہو تی ہیں۔ہندوستان کی تاریخ وتہذیب کے مطالعہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ زمانہ قدیم سے ہی پدر سری معاشرہ میں عورت کے ساتھ غیر انسانی سلوک برتا جاتا رہا ہے۔عورت پر کنٹرول قائم کر نے، اسے محکوم وبے اختیار بنائے رکھنے کے لیے نہ صرف جنسی تشدد و استحصال کو ذریعہ بناےا جا تا رہا ہے بلکہ مختلف قسم کے صنفی تشدد کو بھی رواےات و رسومات کا حصّہ بنادیا گےا۔یہ بھی دراصل اسی پدر سری نظام کے کنٹرول کی توسیع ہو تی ہے۔جس کی سب سے بڑی مثال گھریلو سطح پر عورت پر ڈھایا جانے والا    ظلم و تشدد،جہیز کے مطالبات یا طلاق و خلع کے معاملات ہیں۔ سماج میں عورت کے وجود کے ساتھ کئی ایک تصورات ونظریات کو جوڑلیا گیا اور صدیوں سے ان ہی نظریات کے تحت اس کی زندگی بنائی و مٹائی جاتی رہی ۔ تمام شعبہ ہائے حےات میں رائج صنفی تفرقے عورت کو ترقی کے دھارے سے بہت دور لے آتے ہیں۔کشمیر میںکیے گئے مختلف سروےز اور ریکارڈز سے پتہ چلتا ہے کہ سیاسی ، سماجی و معاشی بحران کے نتیجے میں صنفی تشدد یا امتےازی رویوں میں مزید اضافہ ہوا ہے۔جس کے نتیجے میں سماجی ،معاشی اور سیاسی سطحوں پر خواتین کی شمولیت کم ہو تی جارہی ہے۔شہری علاقوں کی بہ نسبت دیہی علاقوں میںگھریلو تشدد کے واقعات بڑھ رہے ہےں ۔(۷)

سماج میں عورت کا وجودبہ حےثےت انسان کے جہاں اپنی کو ئی ہستی نہیں رکھتا وہیں ماں ،بہن، بیوی، بےٹی کی حےثےت سے انسانی زندگی کی   بقاءو ارتقاءمیں اہم کردار اداکرنے کے باوجود سماج میںاس کا وجود بیکار سمجھا جاتاہے۔تاہم آج کی عورت جہاں صنفی تفرقات کے نظریات سے متاثر ہے وہیں ان فرسودہ نظریات کو بدلنے کی کسی حد تک سعی بھی کر رہی ہے۔اگر چہ کہ حقوقِ نسواں کے متعلق ہندوستان میں اٹھنے والی ہر آواز کو مغربی ممالک کی دین یا ” ویسٹرن فیمینیزم “ کا نام دے کر نظر انداز کر دیا جا تا ہے جبکہ ہندوستانی خواتین اپنے اپنے سماجی وثقافتی ماحول کے تناظر میں ہو نے والے  جبر واستحصال کے متعلق لکھتی ہیں اور اپنی مزاحمت درج کرواتی آئی ہیں۔جسے ہندوستان کے سماجی پس منظر میں ہی سمجھنا ضروری ہوتاہے۔کشمیر کے نسائی ادب میں بھی ہمیں صنفی مباحث یا اضطراب کے یہ دونوں رنگ کہیں ہلکے تو کہیں گہرے نظر آتے ہیں۔ صنفی تشدد یا امتیازات کے رویوں اورخواتین پر ان کے اثرات کو نثر اور نظم کے حوالے سے معاصر نسائی ادب میں خوب موضوع بناےا گیا ہے۔ تاہم یہاں چند نظموں کے حوالے سے سماج کے صنفی نظریات، خواتین پر ان کے اثرات اور تخلیق کار خواتین کی مزاحمت کو پیش کر نے کی کوشش کی گئی ہے۔صنفی تعصبات اور استحصال کے مختلف زاویوں کو خواتین نے اپنی نظموں میں کس طرح سے پیش کیا ہے ملاحظہ کیجےے

   ٭ لڑکی جب اپنی تلاش میں نکلتی ہے اپنے دکھ خود بھوگتی ہے اپنے خواب خود بنتی ہے تو منافق اس کا مقدر

    غیبتوں سے بنتے ہیں خدا بھی مداخلت نہیں کرتا یہ حےرانگی لڑکی کوفالج زدہ کرتی ہے اور وہ اپنی تلاش کھو بیٹھتی ہے

                           (شبنم عشائی)      

 ٭ میری لکنت اس قلم کی زبان ہے جس کو تمہاری انا نے تراشا اور یہ گونج ہے مرے وجود کے ٹوٹنے کی آواز ہے

    کوئی feminism 

نہیں بس بیحیثیتی ہے       

(شبنم عشائی) 

                     ٭ مانا کہ تم جو کہہ رہی ہو وہ صحیح ہے مگر ۔۔۔ تم کچھ کر تو نہیں سکتیں کیوں کہ ۔۔۔ تم ایک لڑکی ہو لڑکی

                        ( نظم لڑکی ، روبینہ میر )

 ٭   افسوس ۔۔۔۔ مجھے زندگی بھر مر مر کے جینا ہے اس لفظ کے ڈر سے یہ لفظ ہر روز مجھے نئی موت مارتا ہے

    نہ جانے کب کہاں تم مجھ سے کہہ دو ” طلاق ۔۔۔طلاق ۔۔۔طلاق“

                     (نظم طلاق سے اقتباس ، روبینہ میر)

    ٭تم کہتے ہو نصف کبھی پورا نہیں ہو سکتا ذرا آج تم غور سے دےکھو میرے وجود کے ست رنگی پہلو کو

     میں تو اکچھتنار پیڑ کی مانند گھنا سایہ اور بھری شاخیں لیے اپنی جگہ بھر پور ہوں کہیں ماں ہوں کہیں بہن

     کہیں بیوی تو کہیں بیٹی ملا ہے کہیں دیوی کا درجہ کہیں بنی بازار کی رونق کبھی کسی مجنوں کی لیلیٰ

     تم کہتے ہو کہ میرے پیروں تلے جنت ہے کیا ؟ یہ ست رنگی شخصیت لے کر بھی ادھوری ہوں

     نصف ہوں اپنے آپ کو ”پورا “ کہنے والے تم کیسے پورے ہو سکتے ہو جب کہ تم ایک ” نصف “ سے جنمے ہو

                       (نظم۔ کڑوا سچ،نکہت فاروق نظر)

الغرض کشمیر کے حوالے سے معاصر نسائی ادب کے جائزے کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ خاتون قلم کاروں کی تخلیقات میں عصری حسّیت وآگہی بدرجہ اتم موجود ہے۔انھوں نے بہ حےثےت ایک حساس فرد کے اپنے اطراف و اکناف میں بکھرے سماجی بحران کو شدت سے محسوس کیا اور اس کے نتیجے میں خواتین پر مرتب ہو نے والے اثرات اور اضطراب کا بھر پور اظہار کیا ۔ خاتون قلم کاروں نے شورش زدہ ماحول میں روز افزوں بڑھتے سماجی و معاشی، صحتی ونفسیاتی مسائل کے علاوہ انسانی حقوق کی پامالی، جنسی وصنفی تشدد و استحصال کی اندوہناک داستانیں بھی رقم کر دیں۔گویا خواتین نے ایک ایسی معاشرتی تاریخ رقم کردی جس کے حوالے سے عدم استحکام سے متاثر عورت کے مکمل وجود کو سمجھا جا سکتا ہے ۔پروفیسر جگن ناتھ آزاد کے مطابق

    ” کسی ادیب ےا شاعر کے ہاں اگرحسّیت اور عصری آگہی کے اوصاف موجود ہوں تو یہ امید کی جاسکتی ہے کہ جو فن

وہ تخلیق کرے گا اس فن مےں معاشرہ سانس لیتا نظر آئے گا۔“ 

(۸)

اس نظریہ پر کشمیر کے عصری نسائی ادب کو پرکھیں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس سرمایہ ادب میں عدم استحکام کی مکمل صورتِ حال ، اور بحران زدہ ماحول میں گذرنے والی خواتین کی زندگی کے تمام پہلو اپنے پوری حقیقتوں کے ساتھ متحرک وسانس لےتے نظر آتے ہےں۔ اگرچہ کہ سماجی حالات و اضطراب کی عکاسی کا پہلوکسی تخلیق کار کے ہاں بلند آہنگی کے ساتھ نمایاں نظر آتا ہے تو کسی کے ہاں ان کے سر دھیمے دھیمے سنائی پڑتے ہیں۔تاہم مجموعی طور پر ان تخلیقات کو مختلف زاویوں سے مطالعہ کا حصّہ بناےا جا سکتا ہے۔

عورت کا شکستہ وجود ، تنہائی ،اداسی، بے بسی،زندگی سے مایو سی ،رشتوں کو کھونے کا درد،گمشدہ افراد کے لوٹ آنے کے انتظار کا کرب،غےر انسانی برتاﺅ کا خوف،سماجی رویے ، ذہنی وجذباتی ہیجان ، فطرت اورثقافت کے برباد ہو نے کا غم ‘اندرونِ ذات پیدا ہو نے اضطراب کی یہ وہ مختلف کیفیات ہیں جو معاصرنسائی ادب کے صفحات پر بکھری ہو ئی ہیں۔یہ ادبی سرمایہ صرف موضوع ،اسلوب یا عصری آگہی و نسائی شعورکے اعتبار سے ہی اہم نہیں ہے بلکہ اس اعتبار سے بھی نہاےت اہمےت کا حامل ہے کہ ان میں تاریخ، سماجیات ، نفسےات ،معاشیات، ماحولیات اور انسانی حقوق و خواتین کے حقوق کی پائمالی کے متعلق وہ تلخ حقائق محفوظ ہو گئے ہیں جن کے مطالعہ کے بغیر ہندوستان میں خواتین کے موقف ےا اندرونِ خانہ و بیرونِ خانہ ان کے مسائل کا صحیح اندازہ نہیں لگا ےا جا سکتا اور نہ بہ حےثےت انسان عورت کے شکستہ وجود کو سمجھا جا سکتا ہے ۔ کیونکہ یہ صرف ادب پارے نہیں ہےں بلکہ سیاسی ،سماجی وثقافتی جبر و استحصال کے خلاف مزاحمت کا اظہار ہیں بلکہ وہ مضطرب صدائیں ہیں جنھیں سننا ناگزیر ہے۔ تاکہ انسانی حقوق کی بنےاد پر انھیں مرکزی دھارے میں لاکر خصوصی توجہ مرکوز کی جا سکے اور نہ صرف ہندوستان بلکہ عالمی سطح پر مطالعاتِ نسواں کا حصّہ بناےا جاسکے۔

       

             ٭٭٭

ماخذات 

(آن لائن و آف لائن مطبوعات)

1. (a)UN High Comission for Human Rights ,Kashmir Report, June 2018

(b)Amnesty International India Report, 2017-18

(c) Kazi Seema . Between Democracy and nation: Gender and militarization in Kashmir, Women unlimited ,New Delhi, 2009

(d)Maqbool.Oufee,()2017), "Impact of Conflict on Women in Kashmir" , Academic Research Journal, Volume .5 (3)

(e) Farooq A.Rather(2013) ,Armed Conflicts in J & K and its Imact on Sciety : A Case Study of Kashmir Valley" , International journal of Scientific and Research Journal,Volume 3,Issue 2

2.Qutub. Soudiya , Women Victims of Armed conflict -Half Widows in J&K, JSTOR,Indian Sociological Society ,May -Aug 2012

3

 ریاض پنجابی (پروفیسر)، پیش لفظ” اجنبی جزیروں میں“ 

ازڈاکٹر ترنم ریاض

4.

Gul.Showkeen Bilal Ahmad, Women and Violence: A study of Women's Empowerment and its challenges in J & K,Review of Literature,volume 2 issue 7.Feb 2015

5.

Hassan.Asima , Shafi Aneesa , Impact of Conflict Situation on mental Health in Srinagar, E journal of Sociology .volume 10 Number 1.January 2013

6.

Amin Syed and Khan .A W, July2009. Life in Confilct:-Characterstics of Depression in Kashmir,International journal of health sciences

7.

 Gul.Showkeen Bilal Ahmad, Women and Violence: A study of Women's Empowerment and its challenges in J & K,Review of Literature,volume 2 issue 7.Feb 2015)

8

 ۔ جگن ناتھ آزاد (پروفیسر) اقتباس، مشمولہ ماہنامہ شاعر، مارچ ۴۱۰۲ ،ص ۶۷)

              ﴿﴾

ڈاکٹر آمنہ تحسین

شعبہ تعلیمِ نسواں

مولانا آزاد نیشنل اردو ےو نی ورسٹی۔گچّی باولی ۔ حیدرآباد

amtahseen123@yahoo.com

نسائی ادب میں سیاسی وسماجی عدم استحکام کی عکاسی

( کشمیر کے حوالے سے ایک مطالعہ)

  ہندوستان کو عالمی سطح پر امن وامان، مذہبی رواداری، فرقہ وارانہ ہم آہنگی وبھائی چا رہ کے گہوارہ کی حیثیت حاصل رہی ہے ۔تاہم پچھلی دہائیوں میں رونما ہو نے والے مختلف واقعات کے نتیجے میں بدلتے حالات نے ہندوستان کی شبیہ کو بدل کر رکھ دیا ہے ۔بالخصوص ملک کے چند علاقے ایسے ہیں جہاں برسوں سے سیاسی اورسماجی سطح پر مسلسل انتشار اور عدم استحکام کا ماحول پایا جاتا ہے ۔جس میں سر فہرست ریاستِ جموں و کشمیر کو رکھا جاسکتا ہے۔ اگر چہ کہ موقع بہ موقع میڈیا یا مختلف رپورٹس کے ذریعہ سے کم وبیش ان تمام حالات سے آگاہی ہو تی رہتی ہے لیکن ادب چونکہ سماج کا آئنہ ہو تا ہے جس میں معاشرتی زندگی کی مکمل تصویر دیکھی جا سکتی ہے ۔ادب میں دراصل تمام سماجی حالات، مختلف افراد کے عقائد و نظریات ،جذبات واحساسا ت کے علاوہ غیر موافق حالات کے خلاف احتجاج ومزاحمت کے کئی شیڈز ہو تے ہیں جن کے مطالعہ سے سماج کی حقیقی صورتِ حال کو جاننے کا موقع ملتا ہے لہٰذا مختلف علوم کے شعبہ جات میں مطالعات و تحقیق کے لیے معاصر ادب کو ایک اہم ذریعہ بنایا جا سکتا ہے ۔ ادب کی اہمیت کے اس تناظر میں نسائی ادب کے حوالے سے ریاستِ جموں و کشمیر کی صورتِ حال اور خواتین پر مرتب ہو نے والے اثرات کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔

یو۔این ہیومن رائٹس کمیشن،ایمنسٹی انٹر نیشنل انڈیا کی رپورٹس کے علاوہ دیگر تحقیقی رپورٹس کے مطابق گذرے برسوں کے دوران ریاستِ جموں و کشمیر ِ میں انسانی حقوق کی پامالی، سماجی عدم مساوات،سیاسی انتشار اورسماجی خلفشاروافراتفری کے نتیجے میں سخت بحران پیدا ہو گیاہے ۔مسلسل کشیدہ حالات نے پورے سماج میںبے سکونی و اضطراب کی کیفیت پیدا کردی ہے۔ ان رپورٹس کے مطالعہ سے یہ بھی ثابت ہو تا ہے کہ کشمیر میں بڑے عرصہ سے پر آشوب حالات کی بنا پر مردوں کے مقابلے میں خواتین کی بڑی تعداد متاثر ہوئی ہے۔ مسلسل رونما ہو نے والے ہنگامی واقعات ، خاندان کے ذمہ داران کی موت یا گمشدگی ،جبرو استحصال،خوف وہراس کے ماحول میں خواتین کے لیے جہاں تعلیمی ،معاشی ،سماجی وثقافتی سطح پر بے شمار چیلنجس ابھر آئے ہیں وہیں بالا دستی اور عدم تحفظ کے احساس سے خواتین کی ایک بڑی تعداد نفسیاتی مسائل کا شکار ہو گئی ہے۔

(۱)

پدر سری معاشروں میں پاور ریلیشنیا حاکمیت نیزخوف و دہشت کو جاری رکھنے کے لیے ہمیشہ خواتین پر جنسی تشدد کا سہارا لیا جاتا رہاہے۔ مختلف حالات میں خواتین بطور ہتیار استعمال کی جاتی رہی ہیں۔ اگر چہ کہ سماج غیر مہذب تمدن سے مہذب تمدن کی طرف صدیوں پہلے سفر طے کر گیا لیکن خواتین کے ساتھ جبر واستحصال نیز غیرانسانی سلوک کا سلسلہ مختلف شکلوں میں آج بھی اسی طرح رائج ہے۔جس طرح سے غیر مہذب سماج میں مروج تھا۔ ہندوستانی سماج میں خواتین یوں تو بے شمار مسائل سے دوچار ہیں لیکن دیگر مقامات کی بہ نسبت عدم استحکام والے علاقوں میں خواتین کے اندرونِ خانہ و بیرونِ خانہ مصائب مزید کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ایک طرف ہر قدم پر انھیں عصمتوں کے لٹنے کا ڈر اور جنسی استحصال کا خوف ہو تا ہے تو دوسری طرف کئی مرحلوں پر صنفی تشدد یا تفر قہ سے بھی گذرنا پڑتا ہے ۔ علاقہ کشمیر میں خواتین کے موجودہ موقف کا جائزہ لیا جائے تو یہ تمام حقائق سامنے آتے ہیں۔  علاوہ ازیں کشمیر کی خواتین کے سنگین مسائل کو سمجھنے کے لیے عصرِ حاضر میں وضع کی گئیں ،Half Widow,Half Mother, Half Orphan جیسی اصطلاحات کافی ہیں۔ جو ایک ایسے سماج کی نشاندہی کر رہی ہیں جہاں عورت نہ صرف بیوہ کے طبقہ کی شناخت رکھتی ہے بلکہ اب دیگر ناموں سے بھی جا نی جانے لگی ہے اور سماج کے مختلف سطحوں پر اپنے شکستہ وجود کے ساتھ بے پناہ مسائل سے جوج رہی ہے۔

(۲)

کشمیر میں خواتین کا یہ متذکرہ موقفتحقیقی رپورٹس کی شماریات پر مبنی ہے ۔ شماریات کی بنیاد پر ہم یہ با آسانی جان سکتے ہیں کہ کب ، کہاں،کیسے اور کتنی خواتین مختلف حالات کا شکار ہوئی ہیں او روہ تعلیمی ،معاشی، صحتی یاسماجی طور پر کےسے متاثر ہو ئی ہیں۔تاہم ان رپورٹس کے تناظر میں یہ سوال  بھی کیا جا سکتا ہے کہ

  کیا وہ رپورٹس ایک زندہ در گور عورت کے مکمل حالات کی ترجمانی کر پا ئی ہیں ؟ یا عورت کے شکستہ وجود ،اندرونِ ذات وبیرونِ ذات تصادم ،اس کی ذہنی وجذباتی کشمکش اور اس کے داخلی کرب واضطراب کی تمام تر کیفیات کی پیمائش کر پا ئی ہیں جس سے کے پچھلے کئی برسوں سے کشمیر کی خواتین دوچار ہیں جیسے یہ چند مثالیں ملاحظہ کیجیے

   ٭کرفیو زدہ شہر کی بیوہ سڑکیں آنکھیں کھولتی ہیں نگر کے گربھ میں کیا دیکھتی ہیں نہیں معلوم

    حیرت زدہ ہیں دھرتی شائد گربھ دھارن کررہی ہے چاند چھپ کر

  کھڑکیوں سے جھانکتا ہے آوارہ کتے ٹولیوں میں بھونکتے ہیں

   زندگی برہنہ سو رہی ہے میں رات سی کٹ رہی ہوں پوری وادی میں کرفیو نافذ ہے

                    (شبنم عشائی)

  ٭یہ قبرستان سی بستی یہ سناٹا ہے دھڑکن جس طرح بارود پھٹنے کی صدا کتنے پرانے گلشتوں میں ہیں نئے کتبے

   ہو ئے ضائع جواں بوڑھی ہو ئی ہیں لڑکیاں اے مہرباں کر رحم اس مخلوق پر اے خالقِ ارض وسماں

   یا صبر دے ایوب کا یا چھین لے ہوش وحواس ٹوٹ جائے نہ کہیں زخمی دلوں کی آس اب تو رکھ دعا کا پاس

                    (ترنم ریاض)

   ٭ظلمتوں کے دشت میں اب کس لیے بھٹکا کروں  مجھ کو میرے خضر نے وہ راہ دکھلائی نہ پوچھ

    پھوٹتے ہیں آگ کے شعلے گلوں کے لمس سے   ایسے عالم میں بدن کی نا شکیبائی نہ پوچھ

                    (رخسانہ جبین)

   ٭ہے دریدہ جسم،الجھی زلف اور ویراں نظر   زندگی زندہ پھر بھی حادثوں کے باوجود

    موسموں کی سازشیں تھیں یا سیاست وقت کی  اے نظر فصلیں جلیں کیوں بارشوں کے باوجود

                   (نکہت فاروق نظر)

  متذکرہ بالانسائی فکری اظہار ایک ایسی عورت کے داخلی کرب، خوف وسر اسمیگی، رنج و غم ، احساس ِ شکست اور ذہنی ونفسیاتی کیفیات کا ترجمان ہے جو روزمرہ زندگی میں سخت ترین آزمائشوں اور پر آشوب حالات سے جوج رہی ہے اور مختلف اسباب کی بنا پر دھیرے دھیرے ایک مضطرب وجود میں ڈھل کر سماج میں ایک ” متاثرہ یااستخراجی فرد“ کی حیثیت اختیارکر رہی ہے۔ پر آشوب حالات سے متاثرہ خواتین کی متذکرہ اضطرابی کیفیات سماجی مطالعات کا تب تک حصّہ نہیں بن سکتیں جب تک کہ” ادبیات“ کو تحقیق و تجزیہ میں شامل نہ کیا جائے۔ادبیات کا مطالعہ اس وقت اور بھی اہمیت اختیار کر جاتا ہے جب ہم عورت کے وجود سے جڑے ہمہ پہلو مسائل کا ذکر کرتے ہیں۔ کیونکہ عورت کی ذہنی وجذباتی کیفیات اور کرب کا اظہار ان کی تحریروں میں بخوبی ہوتا ہے لہٰذا اس ضمن میں” نسائی ادب “کا مطالعہ اہم ذریعہ ثابت ہو تا ہے ۔جس کے حوالے سے سماج میں عورت کے موقف ومسائل کو جاننے اور اس کے مکمل وجود کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے ۔ چونکہ مطالعاتِ نسواں ‘ عورت کے مسائل کو جاننے ،اس کے مکمل وجود کو سمجھنے نیز اس کی فکر وشعور کی تفہیم وتشریح سے عبارت ہے اسی لیے مختلف زاویوں سے نسائی ادب کا مطالعہ نہات سود مند ثابت ہو تا ہے۔ بالخصوص نسائی ادب کے حوالہ سے شورش زدہ علاقوں میں خواتین کے موقف اور ان کے پیچیدہ مسائل کو مزید وضاحت کے ساتھ سمجھا جا سکتا ہے ۔ چونکہ عالمی وقومی سطح پر خواتین کے غےر مواقف موقف اور حاشیائی حیثےت کو ختم کرنے،انھےں ترقی کے مرکزی دھارے میں شامل کرنے نیز تحفظ بھری زندگی کے ساتھ انھیںبا اختےار بنانے کے لیے مباحث کا سلسلہ یوں تو بین الاقوامی خواتین کے دہے(1975-85) سے شروع ہو چکا اور تا حال اس جانب کئی ایک ٹھوس اقدامات اپنائے گئے ۔تاہم مجموعی طور پر سماج میں عورت کے موقف کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان اقدامات کے کوئی خاطر خواہ اثرات مرتب نہیں ہو پائے۔ اسی تناظر میں یہ بحث بھی اہمیت اختیار کر جاتی ہے کہ بحران زدہ سماج کی عورت کے مسائل کو ان کی پوری صداقتوں کے ساتھ کس طرح سمجھا جائے اور ان کا تدارک کیوں کر ممکن ہو۔ لہٰذاءزیرِ بحث مقالہ میں نسائی ادب کا مطالعہ ان ہی مقاصد سے کیا گےا ہے تا کہ یہ سمجھا جاسکے کہ

خواتین بہ حےثیت اےک حساس سماجی فرد کے عدم استحکام کے حالات سے ذہنی وجذباتی سطح پر کس طرح متاثر ہوتی ہیں ؟اور ان حالات سے پیدا ہو نے والے اضطراب کی عکاسی ان کے ادب مےں کیسے کی جاتی ہے؟دوسرے ایک عورت ہو نے کے ناطے بحران زدہ سماج مےں عورت کی حےثےت کو تخلیق کار خواتین نے کس طرح سے دیکھا اور ان کے مسائل کو کیسے پیش کیا؟

تخلیق کار بالواسطہ طریقے سے اپنی تحریروں میں معاشرتی تاریخ رقم کرتا ہے۔ تخلیق کارکا اپنے عہد کی زندگی اور مسائل کو دیکھنے کا نظریہ دیگر افراد سے بالکل جدا ہو تا ہے ۔ اس کی فکرِ رسا اسے شعور وآگہی کے ساتھ اندرونِ ذات سے بیرونِ ذات تک کا سفر کرواتی ہے اور مختلف حالات کے پس منظر میںانسانی فطرتوں نیز جذبات واحساسات کے مدوجزر سے روبرو کرواتی ہے ۔ان ہی کیفیات کو تخلیق کار ضبطِ تحریر میں لاتا ہے اور زندگی کو اس کی پوری سچائیوں کے ساتھ ادبی پیرہن میں پیش کر دیتا ہے۔ جیسا کہ پروفیسر ریاض پنجابی لکھتے ہیں کہ

   ” ایک تخلیقی ذہن کا اپنے گرد وپیش کو دیکھنے کا ایک الگ اور جدا گانہ انداز ہوتا ہے ۔۔۔

    اس طرح کا ذہن اپنی بصیرت اور بصارت کے مطابق جس انداز اور نظر سے سماجیات ،تاریخ

    اور عصرِ حاضر کی پیچیدگیوں کا تجزیہ کرتا ہے وہ اسے ایک صحافی ےا دیگر اس زمرے میں شامل

     صاحب ِ قلم افراد سے ایک الگ اور منفرد مقام عطا کرتا ہے “

(۳)

    تخلیق کار خواہ مرد ہو کہ خواتین سماج کے حساس فرد کی حےثےت سے تاریخ رقم کرتے ہیں۔تاہم زندگی کے کئی معاملات میں خواتین نہاےت حساس و جذباتی ہو تی ہیں اور ان کا مشاہدہ بھی بڑا گہرا ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ جب وہ ایک با شعور وحساس ذہن فرد کی حےثےت سے اپنے اطراف واکناف کے ماحول سے اثر ات قبول کرتی ہیں اور جب اپنے تجربات و مشاہدات کو تخلیقات کا حصّہ بناتی ہیں تو وہ فکری اظہار چونکہ عورت کے داخلی کرب کا ترجمان ہو تا ہے اسی لیے کئی سطحوں پر منفرد ہو تا ہے اوراپنی انفرادیت کے ساتھ یہ ادبی سرمایہ‘ تاریخ ، سماجیات، نفسیات، سیاسیات ، معاشیات و انسانیات ،ےعنی مختلف علوم کا ایک اہم ماخذ بن جاتا ہے ۔ جس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

  سر زمینِ کشمیر ماضی میں صوفیوں ورشیوں کا مسکن رہی ہے۔ خوبصورت مناظر،علم ،ادب وثقافت سے مالا مال اس سرزمین پر نسائی ادب کی رواےت کافی قدیم ہے اور توانا بھی ہے ۔ تقریباً چودہویں صدی میں سماجی بندشوںا ور فرسودہ رواےتوں کے خلاف اپنے اضطراب و مزاحمت کا جو بیج للّا عارفہ ( لال دید) نے بویا تھا اور نسائی فکر واظہار کے جو گل وبوٹے کھلائے تھے ان کاتسلسل سولہویں صدی کی حبّہ خاتون سے ہو تا ہوا عصرِحاضر کی قلم کار خواتین تک آپہنچا ہے ۔کشمیری زبان کے علاوہ دیگر زبانوں بشمول اردو کے ان کی نثری و شعری تخلیقات منظرِ عام پر آتی ر ہی ہیں اورچمنستانِ ادب میں اضافہ کا باعث بنتی ر ہی ہیں۔ اردو زبان کے حوالے سے عصرِ حاضر کے نسائی ادب میں نصرت چودھری،شفیقہ پروین،نصرت رشید، عابدہ احمد ،رخسانہ جبین، ترنم ریاض ، شبنم ہاشمی ،نکہت فاروق نظر،سیدہ نسرین نقاش،پروین راجہ ،صاحبہ شہر یار، زنفر کھوکر، نیلوفر ناز نحوی قادری، روبینہ میر ، نعیمہ احمد مہجور،دیبا نظیر، رفعت حجازی،فریدہ کول،رابعہ ولی وغیرہ کے نام قابل ِ ذکر ہیں۔ معاصر خاتون تخلیق کاروں نے عالمی وقومی سطح کے مسائل کے علاوہ اپنے گرد ونواح کے شورش زدہ واقعات و حالات کو نہاےت موثر طریقے سے اپنی تحریروں کاحصّہ بناےا ہے۔ان کی تخلیقات میں سماجی اضطراب کی مختلف نوعیتوں کو بخوبی دیکھا جا سکتا ہے ۔ اس مقالہ میںکشمیر کے حالات کے تناظر میں چند ایک ایسی ہی مثالوں کے حوالوں سے ان کے بین السطور میں موجود سماجی اضطراب کی مختلف تہہ داریوں کو واضح کر نے کی کو شش کی گئی ہے ۔ کشمیر کی تخلیق کار خواتین ایک حساس سماجی فرد کی حےثےت سے اپنے اطراف بکھرے خونچکاں مناظر ،  ظلم وبر بریت ، آلام و مصائب کو کس طرح سے محسوس کیا ہے اور اپنے درد ومزاحمت کو کس طرح ادبی پےرائیہ میں ڈھالا ہے چند مثالیںملاحظہ کیجےے

    ٭جی بہت چاہتا ہے رونے کو    اور کیا اب بچا ہے کھونے کو

    کھیت کیوں بھر دیے ہیں لاشوں سے  اور کیا کچھ نہیں تھا بونے کو                 (رخسانہ جبین)

    ٭کسی نے باغباں بن کر جلاےا مرغزاروں کو

    کسی نے سائباں بن کر اجاڑا ہے بہاروں کو

           خزاں نے دیکھ ڈالا گھر ترے سب لا لہ زاروں کا

           نشاط وچشمہ شاہی ،ڈل ، ولر کا شالماروںکا

           سکوں کے ہر خزانے پر ہے پہرا شاہماروں کا  

     سبھی تےری زمیں پر چاہتے ہیں آسماں اپنا

     جڑوں کو گھن لگا کر ٹہنیوں پر آشیاں اپنا

                   (ترنم ریاض)

    ٭نئے ہی رنگ دکھائے ہیں اب کے موسم نے  کہ سبز کھیت جلائے ہیں اب کے موسم نے

     نظر میں کیسے بھلاﺅں یہ خونچکاں منظر   لہو کے پھول کھلائے ہیں اب کے موسم نے

                  (نکہت نظر فاروق)

    ٭ ہوائیں خون تشنہ ہو گئی ہیں       فضاﺅں میں ہیں پر افشاں پرندے

      غضب کی خاموشی ہے وادیوں میں     نشیمن میں ہیں بے ساماں پرندے

                     (پروین راجہ)

    ٭میرے شہر کا آسماں حیران ہے اس نے کیا نہ دیکھا جسم کے ٹکڑے سناٹوں کی گرج ریت پر بکھرے گیسو

     پہاڑ کے دامن میں زخم خوردہ صورتیں خون کے آبشار میرے شہر کا آسماں حیران ہے

                   (رخشندہ رشید)

    ٭سڑک پر کتا کو ڑے کے ڈھیر پہ ایسے بیٹھا ہے جیسے میں زندگی کی راکھ پر پر وہ سو رہا ہے شائد با خبر ہے

     کہ جس کا کو ئی نہیں ہو تا اس کے پاس صحن ہو تا ہے نہ چھت کرفیو نے شہر کو نگل لیا ہے بادل کی آنکھ بھر آئی ہے

     مےری آنکھ تیسری منزل سے ہمسائے کے بڑے صحن میں جھانک رہی ہے۔۔دادا قبر میں آرام سے سو رہا ہے

      پاس میں جاگیردارن دادی بھی قدم پسارے ہے ان کی ناموجودگی نے میرے وجود کو کب ےتیم کیا

      پتہ نہیں کرفیو کے سناٹے میں شہر کے چھوٹے نکڑ پہ صحن تراشتے میں سوچتی ہوں کتا سمجھدار ہے

                      ( شبنم عشائی)

   ٭  قہر ٹوٹا ہے جو اس پر کیا لکھوں

     میں زباں رکھتی ہوں کیسے چپ رہوں

     کیوں نہ میں بھی اس کی موجوں میں بہوں

            کس قدر ہیں دل شکن منظر یہاں

             ہر کو ئی درد کا پیکر یہاں

             ہر قدم پر اک نہ اک ٹھوکر یہاں

      پا ﺅں میں آلام کی زنجیر ہے

      روح فرسا کس قدر تصویر ہے

      کیا یہی وادی کشمیر ہے 

                          (روبینہ میر)

 ا گر چہ کہ یہ چندسطور ہیں لیکن ان میں کشمیر کے موجودہ سیاسی وسماجی منظر نامے کو مکمل طور پر نہ صرف دیکھا جا سکتا ہے بلکہ بین السطور میں چھپے شدید درد وکسک کو محسوس کیا جا سکتا ہے نیز شورش زدہ حالات کے خواتین کے ذہن پر مرتب ہونے والے اثرات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ علاوہ ازیں ان اشعار میں استعمال شدہ الفاظ وتشبیہات مثلاً ،کھیتوں کا لاشوں سے بھر جانا، کرفیو کا شہر کو نگل جانا،بادل کی آنکھ بھر آنا، مرغزاروں کا جل جانا،خونچکاں منظر، لہو کے پھول ،خون کے آبشار، بے ساماں پرندے و پر افشاں پرندے ،سناٹوں کی گرج ،پا ﺅں میں آلام کی زنجیر وغیرہ جہاں مضطرب خواتین کے ایک خاص ڈکشن کا پتہ دے رہی ہیں جو خواتین کے اندرونی کرب کا اظہارہےں۔ وہیں انسانی وجود کے ساتھ ساتھ قدرتی وسائل ، تہذیب وثقافت کی  تباہی و بربادی پر خواتین کی شدیدفکر وملال کو بھی ظاہر کر رہی ہیں۔ دراصل عورت ہمیشہ قدرتی وسائل وماحول کی محافظ اور تہذیب و تمدن کے ارتقا میں ایک اہم کیٹےلسٹ کا کردار نبھا تی آئی ہے۔ تاہم جنگ وجدل اور بحران زدہ ماحول میں عورت کا وجود ایک بے مایہ ہستی بنا دیا جا تا ہے ۔ تاریخ کے اوراق یہ ضرور بتا تے ہیں کہ ماضی میں عورت کے حصول کے لیے بھی جنگیں ہو ئی ہیں لیکن یہ حقیقت بہت کم ہی بیان کی گئی کہ دنیا میں کتنی جنگوں کو روکنے کے لیے بادشاہوں نے زمین وزر کے ساتھ ساتھ اپنی لڑکیوں کو بھی معاہدہ میں دے دیا ۔ ےعنی بیشتر صورتوں میں خواتین نے جنگ وجدل کو روکنے میں معاون کردار ادا کیا۔باوجود اس کے آج بھی پر آشوب حالات میں ان کے وجود کی ارزانی اپنے عروج پر پہنچ گئی ہے۔

 خواتین اپنی حساس فطرت کی بنا پر آس پاس رونما ہونے والے دہشت ناک واقعات اور خونریز مناظر کو شدت سے محسوس کرتی ہےںاور مسلسل اضطراب کا شکار رہتی ہےں۔اضطرابی کیفیت میں مبتلا رہ کر وہ اپنے وجود کو ہی دھیرے دھیرے کھونے لگتی ہےں۔ خوف ، نا امیدی وےاس ان کے وجود کا حصّہ بن جاتی ہے ۔نا مساعد حالات میں اپنے ادھورے و مسمار ہوتے وجود کے ساتھ ان کی زندگی یوںہی گذر تی جاتی ہے۔عورت کے وجود کی اسی  ٹوٹ پھوٹ اور اس کے خالی پن کی ترجمانی نسائی ادب میں کس طرح ہو ئی ہے چند اشعار دیکھیے۔

    ٭ اے زندگی نہ گزرنا ہماری گلیوں سے    ابھی ہمارے جنازے گھروں میں رکھے ہےں

    مجھ سے آگے چلتی ہیں مری تنہائیاں     شہر ویرانہ لگے ہے رونقوں کے باوجود

                    (نسرین نقاش )

    ٭ بس اتنا کافی ہے اب بھی زمیں ہے زیر قدم ستارے ،شمس وقمر سب بھلادیے میں نے

                    (رخسانہ جبین)

    ٭ لمحہ لمحہ مجھے سولی پہ چڑھانے والو     تم سے میں کس منہ سے جینے کا سہارا مانگوں

     شہر کی بھیڑ میں گم ہو گئی مےری پہچان     میں ہر آئنہ سے کھوےا ہوا چہرہ مانگوں

                    (نصرت چودھری)

    ٭ بزمِ وہم وگماں میں رہتی ہوں      ہر گھڑی امتحاں میں رہتی ہوں

     رات دن جو ہے برق کی زد پہ     میں بھی کس آشیاں میں رہتی ہوں

                     (فریدہ کول)

    ٭ خوشبو ہوں کہاں چھپ جاﺅں بارود کا غبار مجھے سونگھ رہا ہے رستوں پر پھےلے

    کنسرٹینا کے دائرے مجھے اوڑھ رہے ہیں سفر حےران ہے قدم پریشان سفر پا پوش کے سینے میں سما رہا ہے

     قدموں کی دھڑکن الجھ رہی ہے کنسرٹینا کے کا نٹوں میں حسنِ سکون کی تلاش میں نکلی سانسیں تھم رہی ہیں

     کنسر ٹینا کے سینے میں کر فیوزدہ اس بے زبان چوراہہ پہ سانسوں سے کہہ دو کہ چھوڑ دے میرے من کے ہاتھ

     کو ئی انھیں بتادو کہ مسمار ہو ئے وجود کو نہیں سنوارسکتے میرے من کے ہاتھ کو ئی انھیں سمجھا دو

      کہ کھو ئے ہو ئے سکون کو نہیں تلاش سکتے میرے من کے ہاتھ نابینا ہو گئے ہیں اب کے

      میرے من کے ہاتھ 

             (شبنم عشائی)

    ٭ نہ جانے کیا خریدنے چلی تھی کہیں کچھ بھی ایسا بازار میں نہیں جو دامن گیر ہوتا اب خالی ہاتھ تماشائی بنی

     ہر بازار سے گذر جاﺅنگی  

            (شبنم عشائی)

    ٭گولیوں کا سایہ ہے بارودی سرنگیں ہیں سوچ کے تعاقب میں دوڑنے کی خواہش پر رینگتا ہے چھپ چھپ کر

     وش بھرا سمے کا سانپ  

             (ترنم ریاض)

متذکرہ بالا اشعار کے حوالے سے خواتین کی اضطرابی کیفیت کا بھر پوراندازہ لگاےا جا سکتا ہے ۔یہ کیفیات وبے سکونیاں دراصل سماج کی نصف آبادی ےعنی خواتین کی روز مرہ زندگی کی ترجمان ہیں۔ کسی بھی سماج کا ایک بڑا طبقہ جب انتشار کا یوں شکار ہو جا تا ہے تب یہ سوال ابھر آتا ہے کہ اس سماج کی ترقی کیوں کر ممکن ہو گی؟ کیا اس سماج کی گود سے ایک صحت مند نسل جنم لے گی؟ ایک بہتر سماجی نظام کی تشکیل صحت مند جسم وذہن کے مالک عورت ومرد کی موجودگی ا ور تمام شعبہ حےات میں مساویانہ حصّہ داری سے ہی ممکن ہو تی ہے ۔ باوقار و آسودہ حال انسانی زندگی کے لیے تمام بنےادی ضرورےات کی تکمیل اور حقوق کی فراہمی ناگزیر ہو تی ہے ۔لیکن بالادستی، ظلم وجبر کے نتیجے میں جب سماجی نظام درہم برہم ہو جا تا ہے تب ایک ایسا سماج وجود میں آ جاتا ہے جس میں مختلف طرح کے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں ۔خواتین کی نسبت سے یہ مسائل اور بھی پیچیدہ و سنگین ہو جاتے ہیں۔ یہی صورتِ حال کشمیر کے سماج کی ہے۔ معاصر نسائی ادب کا جائزہ لیں تو اندازہ ہو تا ہے کہ بیشتر تخلیقات میں خواتین کے تعلیمی ،سماجی ،معاشی اور صحتی ونفسیاتی مسائل کی بہتر طور پرعکاسی کی گئی ہے۔ بالخصوص فکشن میں ان مسائل کو زیادہ تر موضوع بحث بناےا گیا اور کئی ایک بہترین افسانے و ناول لکھے گئے جبکہ شعری حصّہ درد وکرب ،جذبات واحساسات کے اظہار سے پر نظر آتا ہے۔

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ سماج میں انتشار و عدم استحکام کی وجہ سے معیشت تباہ و تاراج ہو جاتی ہے اور غربت وہاں کے افراد کی زندگیوں کا حصّہ بن جاتی ہے۔معیشت کی تباہی اورغربت کے باعث انسانی زندگی کی اسی کشمکش کو نکہت فاروق نظر نے اپنے افسانے ” قہر نیلے آسمان کا“ میں بڑے موثر طریقے سے پیش کیا ہے ۔قالین کی بنائی کشمیر کے عوام کی معیشت کا ایک اہم ذریعہ رہی ہے۔ نکہت فاروق نظر نے اس افسانہ میں یہ بتانے کی کو شش کی ہے کہ قالین کی بنائی کے ساتھ ساتھ کس طرح سے غریب خاندان کی ضروریات کی تکمیل اور ایک اچھی زندگی کے سپنے بھی بنتے چلے جاتے ہیں۔قالین تیار ہوجاتا ہے ۔سپنوں کو حقیقت میں بدلنے کا وقت قریب ہوتا ہے کہ شہر میں حالات بگڑ جاتے ہیں فائرنگ ہوتی ہے اور پوری بستی جل اٹھتی ہے ۔ایسے میں غریب خاندان اپنے اور اپنے بچوں کے بچاﺅ سے زیادہ مسلسل اس الجھن میں گرفتار رہتے ہیں کہ کہیں قالین جل نہ جائے اورکو شش میں لگے رہتے ہیں کہ قالین کو بہ حفاظت باہر نکالا جائے کیونکہ ان کی زندگی کی بقا تو اسی قالین میں مضمر ہے۔لیکن ان کی تمام تر کو ششوں کے باوجود قالین جل جاتا ہے ا ور پھر سے غربت ان کی زندگی کا حصّہ بن جاتی ہے ۔ اسی طرح ترنم ریاض نے اپنے افسانے ” برف گر نے والی ہے “میں کسمپرسی سے جوجتے خاندان کی تصویر کشی کی ہے ۔انھوں نے اپنے افسانے میں غربت کی گود سے جنم لیتے مختلف مسائل کو پیش کیا ہے اور یہ بتانے کی کو شش کی ہے کہ ان پریشان کن حالات میں نوجوان نسل کئی ایک غیر قانونی کام کر نے پر مجبور ہو رہی ہے تاکہ کسی بھی طرح سے زندگی کی ضروریات کی تکمیل کی جا سکے ۔اس ضمن میں افسانہ کا یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے۔

”جب تک جان ہے بھوک لگے گی نہ ماں۔تمہیں لگی ہے مجھے بھی لگی ہے۔۔۔میں جلدی آﺅنگا۔تم فکر مت کرنا۔

   جب میں آﺅنگا تو گھر کا سارا سامان لے کر آﺅنگا۔ مجھے آنے میں دیر ہو ئی تو تم گھبرامت جانا “۔

ایسے ہی ایک موضوع پر ڈاکٹر نیلوفر ناز نحوی کا افسانچہ ” تھیلا “ ملا حظہ کیجےے

    ” یہ اتنے پیسے تجھے کہاں سے ملے ؟

    ” ایک آدمی آیا اور اس نے ایک تھیلا بیچ بازار میں رکھنے کو دیا “

    ” کیا تم نے رکھ دیا “

     ” ہاں اسی کے تو دو سو روپیے ملے۔اب ماں کے لیے دوائی لا سکتا ہوں“

     ” مجھے بھی دکھاﺅ ۔ وہ تھیلے کہاں سے ملتے ہیں۔ مجھے اپنے بابا کے لیے کھا نا لانا ہے۔“

 اسی طرح زنفر کھوکر نے اپنے افسانے ” دو حکمراں “ میں بیوہ کے معاشی مسائل کو پیش کیا ہے اور علامتی انداز میں ان اسباب کی بھی نشاندہی بھی کی ہے جو ان شورش زدہ حالات کو پیدا کرنےوالے ہیں ۔ ایک بیوہ جو بد ترین معاشی حالات کے نتیجے میں پیسے مانگنے پر مجبور ہوجاتی ہے اورجب اس سے سوال کیا جاتا ہے تب وہ کیا جواب دیتی ہے ملاحظہ کیجےے

  ” ہاںمیں رہنے والی ہوں اس سلطنت کی ‘جس میں اکثریت ہے بیواﺅ ں کی اور یتیم بچوں کی۔جس کے حاکم ہیں دو۔

   ایک کی حکومت چلتی ہے دن کے اجالے میں اور دوسرے کی رات کے اندھیرے میں۔دفاتر، مجلسیں اور عدالتیں لگتی ہیں

   دن کو اور رات کو بھی۔لین دین ،کاروبار اور دیگر معاملات طے پاتے ہیں دن کو بھی اور رات کو بھی۔ مگر ان سب کے باوجود

   سلطنت دن دگنی اور رات چوگنی انتشار کا شکار ہے اور بد حالی کی طرف گامزن ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دو حکمرانوں والی

   اس سلطنت کے اسّی فیصد سے زائد باشندے مالی ، جسمانی اور ذہنی طور پر بدحال ،اپاہج اور مفلس ہو چکے ہیں۔۔۔۔۔۔

   یہ کہہ کر اس نے اپنا ہاتھ آگے بڑھادیا“    

       ( اقتباس افسانہ۔ دو حکمران)

  پچھلے کئی برسوں سے کشمیر کے نا مساعد حالات میں‘ کم عمر لڑکوں ،نوجوان وبوڑھوں کی اموات کا پتہ نہ چلناےا برسوں تک ان کا لا پتہ ہو جانا نہاےت سنگین انسانی مسئلہ بن کر ابھرا ہے۔اسی مسئلہ کے تناظر میں ”نیم بیوہ یا نیم ماں یا نیم ےتیم “کی اصطلاحات بھی وجود میں آگئی ہیں۔ سینکڑوں خواتین ایسی ہیں جو اپنوں کے واپس لوٹ آنے کے طویل انتظار میں ہر دن موت کے کرب سے گذرتی ہیں ےااپنے گمشدہ رشتوں کی تلاش میں ہوش وخرد سے بے گانہ ہو جاتی ہیں۔اس مسئلہ پر کی گئی تحقیق کے مطابق ”مرد حضرات کے غائب ہو نے کی وجہ سے نیم بیوہ کی تعداد روزافزوںبڑھ رہی ہے۔ایسی خواتین معاشی مسائل کا شکار تو ہو ہی رہی ہیں لیکن انھیںسماجی عدم تحفظ کا بھی شکار ہو نا پڑتا ہے۔ان کے شوہروں کے متعلق سماج میں ایک منفی نظریہ قائم ہو جا تا ہے۔ انھیں شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ جس کا راست طور پر اثر ان کی ذہنی حالت پر پڑتا ہے۔ان میں بیشتر خواتین کم تعلیم ےافتہ اور معاشی طور پر کمزور گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ زندگی کی بقا اور اپنے بچوں کو پالنے پوسنے کے لیے انھیں روزانہ اجرت یا معمولی کاموں پر اکتفا کر نا پڑتا ہے۔ انھیں کئی ایک صنفی مسائل کا بھی سامنا کر نا پڑتا ہے۔وہ کوئی قانونی مدد بھی حاصل نہیں کر سکتیں۔لہذا ءانھیں زندگی کی لڑائی اکیلے لڑنی پڑتی ہے۔جس کے نتیجے میںوہ سماج سے دور ہوتی چلی جاتی ہیں اور ان کا وجود کہیں مخفی ہوجاتا ہے“ (۴) گھر کے ذمہ داران ےا مرد افراد کی گمشدگی کے مسئلہ کو خواتین نے اپنی تحریروںمیں جگہ دی ہے ۔ایک نیم بیوہ کے کرب کو شاعرہ رموز نے کس طرح الفاظ کا جا معہ پہنایا ہے ملا حظہ کیجےے

    ٭کو ئی تو شور کے بازار میں لفظ بچاﺅ    کو ئی تو خاموشی کا احتجاج درج کراﺅ

     ٭آجاﺅ میرا انتظار ابھی تھکا نہیں     آبھی جاﺅ کہ یوسف ابھی بکا نہیں

     ٭آجاﺅ کہ غیرت کبھی بھی ساتھ چھوڑ دے گی  آبھی جاﺅ کہ حیرت کبھی تو نیند توڑدے گی

     ترنم ریاض کے افسانے ”مٹی “ سے ا س ماں کے کرب کی جھلک ملاحظہ کیجےے جس نے اپنا جوان بیٹا کھودےا ہے ۔اقتباس پیش ہے۔

  ” ہلال احمد کی ماں دن بھر تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد سڑک پر نکل آتی ہے۔جینز ٹی شرٹ پہنے کسی لڑکے کو بغور دیکھتی ہے۔۔۔۔

  پھر ۔۔۔ہلال احمد کے متعلق پوچھتی ہے ۔پھر مایوس ہو کر روپڑتی ہے ۔کسی اور طرف چل دیتی ہے ۔اپنی طرح کی کئی عورتوں سے

   اس کی پہچان ہو گئی ہے ۔کسی کا لڑکا غائب ہے ۔کسی کا شوہر۔۔۔کسی کا بچّہ دل کا مریض ہو گےا ہے۔کسی کی بیٹی گونگی ہو گئی ہے۔

   ہلال احمد بھی غائب ہے ۔پتہ نہیں اس کی ماں اسے کب دیکھے گی۔دیکھے گی بھی یا۔۔۔۔“  

 (افسانہ مٹی)

   کشمیر کے پر آشوب حالات میں جنسی استحصال یا جنسی تشدد روز انہ کا معمول بنتا جا رہا ہے۔خواتین کاوقار پوری طرح مجروح ہو کر رہ گیا ہے ۔اس طرح کے بڑھتے واقعات کے نتیجے میں خواتین مسلسل خوف ودہشت کے عالم میں جی رہی ہیں۔نےشنل فیملی ہےلت سروے رپورٹ کے مطابق کشمیر میں مردوں کے مقابلے خواتین کی زےادہ تعداد ڈیپرےشن ، زندگی سے عدم دلچسپی،خوف و بے خوابی کا شکار ہیں۔اس کی بنےادی وجہ کشمیر کا وہ ماحول ہے جس میں خواتین عدم تحفظ کا شکار ہےں۔اس ریاست میں جاری جنسی تشدد کو انسانی حقوق کی پامالی کی بدترین مثال قرار دیا گےا ہے۔عاصمہ حسن اور انیسہ شفیع نے کشمیر میں خواتین کی ذہنی صحت کے متعلق جاننے کے لیے متاثرہ علاقہ کے ۰۰۲ گھروں کا سروے کیا ۔ان کی تحقیق سے پتہ چلا کہ ۰۰۲ گھرانوں میںکل ۹۰۱ افراد کی موت واقع ہو ئی ۔ نمونہ میں ۲۸ مائیں ایسی تھیں جن کے بچے مارے گئے ےا غائب ہو گئے۔ حاصل شدہ نمونے(سیمپل) میں ۹۳ نو بیاہتا عورتیں (بیویاں)تھیں۔ یہ تمام خواتین نفسیاتی طور پر متاثر پائی گئیں ۔ صحتی یا نفسےاتی مسائل میںسب سے زےادہ شرح ےعنی ۰۹ فیصد خواتین خوف کا شکار پائی گئیں۔دوسرے نمبر پر ڈیپریشن پایا گےا۔دیگر بیماریوں میں نیند کی کمی اور زندگی سے عدم دلچسپی بتائی گئی۔(۵) دوسری تحقیقی رپورٹ سے بھی اس بات کی تصدیق ہو تی ہے کہ کشمیر میں چونکہ عورتوں کو جنسی ہراسانی ےا استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے اسی لیے مردوں کے مقابلے خواتین کی زیادہ تعداد نفسیاتی طور پر متاثر ہے ۔ ڈیپریشن کا شکار خواتین 60فیصد ہیں جبکہ مردوں میں یہ شرح 51 فیصد ہے ۔ خواتین کے ہر عمر کے گروپ میں یہ شرح پائی گئی جبکہ26-35 برس کی عمر کے دوران 68.66پائی گئی۔(۶) خاتون تخلیق کاروں نے اس کربناک حقیقت کو صفحہ قرطاس پر کس درد سے اتارا ہے ملاحظہ کیجیے۔

  ٭” شام کو جب مشتاکہ اور مجید کام سے لوٹے تو دلّو بے ہوش پڑی تھی اس کی گردن پر خراشیں تھیں اورچہرے پر نیلے

  دھبے ابھر آئے تھے اور ماں نے اپنے بہت سارے بال نوچ ڈالے تھے ۔اس دن ماں کچھ بولی نہیں تھی۔دوسرے

  دن سینیر اسکول کے ماسٹر جی کو گولیاں لگنے کی بات سن کر ماں نے بتایا تھا کہ باپ اور بھائی کو بار بار پکارنے کے بعد

  دلّو نے ماسٹر جی ماسٹر جی کہا تھا اور پھر بے ہوش ہو گئی تھی “      

                   ( ترنم ریاض ،افسانہ کشتی)

  ٭” وردی پوش نے لڑکی کو بالوں سے پکڑ کر اوپر اٹھایا اور پھر دھکا دے دیا ۔وہ دھڑام سے گری ۔۔۔۔مجمع سن ہو گےا ۔۔۔

   بچے کانپ رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔لڑکیاں اپنے رشتہ داروں کی آڑ میں چھپنے کی کو شش کر رہی تھیں۔“

                    (ترنم ریاض ،افسانہ مٹی)

    ٭ کیا لکھوں میں کیا لکھوں کچھ سوجھتا نہیں من زخم زخم ہے اور شعر پر ہے سکوت قلم روشنائی میں نہیں

     اس نیل میں ڈوبے بار بار جو آصفہ کے ہو نٹوں پر پڑے ہو ئے تھے صفحوں پر طرح طرح کے نیل پڑے ہو ئے ہیں          وحشت رنگ کے اور چر چے یہ بےٹی بچاو کے چلو بیٹیوں اپنی قبر پر فاتحہ پڑھ لیں

                   (شبنم عشائی)

   ٭یہ زندگی بھی عجب رہگذر لگے ہے مجھے      کہ ہر مقام پہ لٹنے کا ڈر لگے ہے مجھے

   جہاں بھی دیکھوں وہیں رک کے تکنے لگتی ہوں     کہ ہر اجاڑ کھنڈر اپنا گھر لگے ہے مجھے

                    (نسرین نقاش)

  کشمیر میںخواتین کو بد ترین حالات کے علاوہ اندرونِ خانہ وبیرونِ خانہ صنی مسائل سے بھی جوجنا پڑتا ہے ۔ان کے اضطراب کا ایک سبب ان کے ساتھ روا رکھا جانے والا صنفی تشدد ےا وہ صنفی تفرقات ہیںجس سے بے شمار خواتین روز مرہ زندگی میں متاثر ہو تی ہیں۔ہندوستان کی تاریخ وتہذیب کے مطالعہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ زمانہ قدیم سے ہی پدر سری معاشرہ میں عورت کے ساتھ غیر انسانی سلوک برتا جاتا رہا ہے۔عورت پر کنٹرول قائم کر نے، اسے محکوم وبے اختیار بنائے رکھنے کے لیے نہ صرف جنسی تشدد و استحصال کو ذریعہ بناےا جا تا رہا ہے بلکہ مختلف قسم کے صنفی تشدد کو بھی رواےات و رسومات کا حصّہ بنادیا گےا۔یہ بھی دراصل اسی پدر سری نظام کے کنٹرول کی توسیع ہو تی ہے۔جس کی سب سے بڑی مثال گھریلو سطح پر عورت پر ڈھایا جانے والا    ظلم و تشدد،جہیز کے مطالبات یا طلاق و خلع کے معاملات ہیں۔ سماج میں عورت کے وجود کے ساتھ کئی ایک تصورات ونظریات کو جوڑلیا گیا اور صدیوں سے ان ہی نظریات کے تحت اس کی زندگی بنائی و مٹائی جاتی رہی ۔ تمام شعبہ ہائے حےات میں رائج صنفی تفرقے عورت کو ترقی کے دھارے سے بہت دور لے آتے ہیں۔کشمیر میںکیے گئے مختلف سروےز اور ریکارڈز سے پتہ چلتا ہے کہ سیاسی ، سماجی و معاشی بحران کے نتیجے میں صنفی تشدد یا امتےازی رویوں میں مزید اضافہ ہوا ہے۔جس کے نتیجے میں سماجی ،معاشی اور سیاسی سطحوں پر خواتین کی شمولیت کم ہو تی جارہی ہے۔شہری علاقوں کی بہ نسبت دیہی علاقوں میںگھریلو تشدد کے واقعات بڑھ رہے ہےں ۔(۷)

سماج میں عورت کا وجودبہ حےثےت انسان کے جہاں اپنی کو ئی ہستی نہیں رکھتا وہیں ماں ،بہن، بیوی، بےٹی کی حےثےت سے انسانی زندگی کی   بقاءو ارتقاءمیں اہم کردار اداکرنے کے باوجود سماج میںاس کا وجود بیکار سمجھا جاتاہے۔تاہم آج کی عورت جہاں صنفی تفرقات کے نظریات سے متاثر ہے وہیں ان فرسودہ نظریات کو بدلنے کی کسی حد تک سعی بھی کر رہی ہے۔اگر چہ کہ حقوقِ نسواں کے متعلق ہندوستان میں اٹھنے والی ہر آواز کو مغربی ممالک کی دین یا ” ویسٹرن فیمینیزم “ کا نام دے کر نظر انداز کر دیا جا تا ہے جبکہ ہندوستانی خواتین اپنے اپنے سماجی وثقافتی ماحول کے تناظر میں ہو نے والے  جبر واستحصال کے متعلق لکھتی ہیں اور اپنی مزاحمت درج کرواتی آئی ہیں۔جسے ہندوستان کے سماجی پس منظر میں ہی سمجھنا ضروری ہوتاہے۔کشمیر کے نسائی ادب میں بھی ہمیں صنفی مباحث یا اضطراب کے یہ دونوں رنگ کہیں ہلکے تو کہیں گہرے نظر آتے ہیں۔ صنفی تشدد یا امتیازات کے رویوں اورخواتین پر ان کے اثرات کو نثر اور نظم کے حوالے سے معاصر نسائی ادب میں خوب موضوع بناےا گیا ہے۔ تاہم یہاں چند نظموں کے حوالے سے سماج کے صنفی نظریات، خواتین پر ان کے اثرات اور تخلیق کار خواتین کی مزاحمت کو پیش کر نے کی کوشش کی گئی ہے۔صنفی تعصبات اور استحصال کے مختلف زاویوں کو خواتین نے اپنی نظموں میں کس طرح سے پیش کیا ہے ملاحظہ کیجےے

   ٭ لڑکی جب اپنی تلاش میں نکلتی ہے اپنے دکھ خود بھوگتی ہے اپنے خواب خود بنتی ہے تو منافق اس کا مقدر

    غیبتوں سے بنتے ہیں خدا بھی مداخلت نہیں کرتا یہ حےرانگی لڑکی کوفالج زدہ کرتی ہے اور وہ اپنی تلاش کھو بیٹھتی ہے

                           (شبنم عشائی)      

 ٭ میری لکنت اس قلم کی زبان ہے جس کو تمہاری انا نے تراشا اور یہ گونج ہے مرے وجود کے ٹوٹنے کی آواز ہے

    کوئی feminism 

نہیں بس بیحیثیتی ہے       

(شبنم عشائی) 

                     ٭ مانا کہ تم جو کہہ رہی ہو وہ صحیح ہے مگر ۔۔۔ تم کچھ کر تو نہیں سکتیں کیوں کہ ۔۔۔ تم ایک لڑکی ہو لڑکی

                        ( نظم لڑکی ، روبینہ میر )

 ٭   افسوس ۔۔۔۔ مجھے زندگی بھر مر مر کے جینا ہے اس لفظ کے ڈر سے یہ لفظ ہر روز مجھے نئی موت مارتا ہے

    نہ جانے کب کہاں تم مجھ سے کہہ دو ” طلاق ۔۔۔طلاق ۔۔۔طلاق“

                     (نظم طلاق سے اقتباس ، روبینہ میر)

    ٭تم کہتے ہو نصف کبھی پورا نہیں ہو سکتا ذرا آج تم غور سے دےکھو میرے وجود کے ست رنگی پہلو کو

     میں تو اکچھتنار پیڑ کی مانند گھنا سایہ اور بھری شاخیں لیے اپنی جگہ بھر پور ہوں کہیں ماں ہوں کہیں بہن

     کہیں بیوی تو کہیں بیٹی ملا ہے کہیں دیوی کا درجہ کہیں بنی بازار کی رونق کبھی کسی مجنوں کی لیلیٰ

     تم کہتے ہو کہ میرے پیروں تلے جنت ہے کیا ؟ یہ ست رنگی شخصیت لے کر بھی ادھوری ہوں

     نصف ہوں اپنے آپ کو ”پورا “ کہنے والے تم کیسے پورے ہو سکتے ہو جب کہ تم ایک ” نصف “ سے جنمے ہو

                       (نظم۔ کڑوا سچ،نکہت فاروق نظر)

الغرض کشمیر کے حوالے سے معاصر نسائی ادب کے جائزے کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ خاتون قلم کاروں کی تخلیقات میں عصری حسّیت وآگہی بدرجہ اتم موجود ہے۔انھوں نے بہ حےثےت ایک حساس فرد کے اپنے اطراف و اکناف میں بکھرے سماجی بحران کو شدت سے محسوس کیا اور اس کے نتیجے میں خواتین پر مرتب ہو نے والے اثرات اور اضطراب کا بھر پور اظہار کیا ۔ خاتون قلم کاروں نے شورش زدہ ماحول میں روز افزوں بڑھتے سماجی و معاشی، صحتی ونفسیاتی مسائل کے علاوہ انسانی حقوق کی پامالی، جنسی وصنفی تشدد و استحصال کی اندوہناک داستانیں بھی رقم کر دیں۔گویا خواتین نے ایک ایسی معاشرتی تاریخ رقم کردی جس کے حوالے سے عدم استحکام سے متاثر عورت کے مکمل وجود کو سمجھا جا سکتا ہے ۔پروفیسر جگن ناتھ آزاد کے مطابق

    ” کسی ادیب ےا شاعر کے ہاں اگرحسّیت اور عصری آگہی کے اوصاف موجود ہوں تو یہ امید کی جاسکتی ہے کہ جو فن

وہ تخلیق کرے گا اس فن مےں معاشرہ سانس لیتا نظر آئے گا۔“ 

(۸)

اس نظریہ پر کشمیر کے عصری نسائی ادب کو پرکھیں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس سرمایہ ادب میں عدم استحکام کی مکمل صورتِ حال ، اور بحران زدہ ماحول میں گذرنے والی خواتین کی زندگی کے تمام پہلو اپنے پوری حقیقتوں کے ساتھ متحرک وسانس لےتے نظر آتے ہےں۔ اگرچہ کہ سماجی حالات و اضطراب کی عکاسی کا پہلوکسی تخلیق کار کے ہاں بلند آہنگی کے ساتھ نمایاں نظر آتا ہے تو کسی کے ہاں ان کے سر دھیمے دھیمے سنائی پڑتے ہیں۔تاہم مجموعی طور پر ان تخلیقات کو مختلف زاویوں سے مطالعہ کا حصّہ بناےا جا سکتا ہے۔

عورت کا شکستہ وجود ، تنہائی ،اداسی، بے بسی،زندگی سے مایو سی ،رشتوں کو کھونے کا درد،گمشدہ افراد کے لوٹ آنے کے انتظار کا کرب،غےر انسانی برتاﺅ کا خوف،سماجی رویے ، ذہنی وجذباتی ہیجان ، فطرت اورثقافت کے برباد ہو نے کا غم ‘اندرونِ ذات پیدا ہو نے اضطراب کی یہ وہ مختلف کیفیات ہیں جو معاصرنسائی ادب کے صفحات پر بکھری ہو ئی ہیں۔یہ ادبی سرمایہ صرف موضوع ،اسلوب یا عصری آگہی و نسائی شعورکے اعتبار سے ہی اہم نہیں ہے بلکہ اس اعتبار سے بھی نہاےت اہمےت کا حامل ہے کہ ان میں تاریخ، سماجیات ، نفسےات ،معاشیات، ماحولیات اور انسانی حقوق و خواتین کے حقوق کی پائمالی کے متعلق وہ تلخ حقائق محفوظ ہو گئے ہیں جن کے مطالعہ کے بغیر ہندوستان میں خواتین کے موقف ےا اندرونِ خانہ و بیرونِ خانہ ان کے مسائل کا صحیح اندازہ نہیں لگا ےا جا سکتا اور نہ بہ حےثےت انسان عورت کے شکستہ وجود کو سمجھا جا سکتا ہے ۔ کیونکہ یہ صرف ادب پارے نہیں ہےں بلکہ سیاسی ،سماجی وثقافتی جبر و استحصال کے خلاف مزاحمت کا اظہار ہیں بلکہ وہ مضطرب صدائیں ہیں جنھیں سننا ناگزیر ہے۔ تاکہ انسانی حقوق کی بنےاد پر انھیں مرکزی دھارے میں لاکر خصوصی توجہ مرکوز کی جا سکے اور نہ صرف ہندوستان بلکہ عالمی سطح پر مطالعاتِ نسواں کا حصّہ بناےا جاسکے۔

       

             ٭٭٭

ماخذات 

(آن لائن و آف لائن مطبوعات)

1. (a)UN High Comission for Human Rights ,Kashmir Report, June 2018

(b)Amnesty International India Report, 2017-18

(c) Kazi Seema . Between Democracy and nation: Gender and militarization in Kashmir, Women unlimited ,New Delhi, 2009

(d)Maqbool.Oufee,()2017), "Impact of Conflict on Women in Kashmir" , Academic Research Journal, Volume .5 (3)

(e) Farooq A.Rather(2013) ,Armed Conflicts in J & K and its Imact on Sciety : A Case Study of Kashmir Valley" , International journal of Scientific and Research Journal,Volume 3,Issue 2

2.Qutub. Soudiya , Women Victims of Armed conflict -Half Widows in J&K, JSTOR,Indian Sociological Society ,May -Aug 2012

3

 ریاض پنجابی (پروفیسر)، پیش لفظ” اجنبی جزیروں میں“ 

ازڈاکٹر ترنم ریاض

4.

Gul.Showkeen Bilal Ahmad, Women and Violence: A study of Women's Empowerment and its challenges in J & K,Review of Literature,volume 2 issue 7.Feb 2015

5.

Hassan.Asima , Shafi Aneesa , Impact of Conflict Situation on mental Health in Srinagar, E journal of Sociology .volume 10 Number 1.January 2013

6.

Amin Syed and Khan .A W, July2009. Life in Confilct:-Characterstics of Depression in Kashmir,International journal of health sciences

7.

 Gul.Showkeen Bilal Ahmad, Women and Violence: A study of Women's Empowerment and its challenges in J & K,Review of Literature,volume 2 issue 7.Feb 2015)

8

 ۔ جگن ناتھ آزاد (پروفیسر) اقتباس، مشمولہ ماہنامہ شاعر، مارچ ۴۱۰۲ ،ص ۶۷)

              ﴿﴾

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024