علی آریان کی تخیلاتی دنیا — اس شہر بےمثال تک پہونچنے کے لے ایک سفر
علی آریان کی تخیلاتی دنیا — اس شہر بےمثال تک پہونچنے کے لے ایک سفر
Aug 6, 2025


علی آریان کی تخیلاتی دنیا — اس شہر بےمثال تک پہونچنے کے لے ایک سفر
تحریر: محمد اورنگزیب سجن
ادب کی دنیا میں کچھ تخلیق کار ایسے بھی ہوتے ہیں جو صرف کہانیاں نہیں سناتے، بلکہ قاری کو ایک ایسی دنیا میں لے جاتے ہیں جو نہ مکمل طور پر خیالی ہوتی ہے، نہ مکمل طور پر حقیقی۔ علی آریان انہی تخلیق کاروں میں سے ہیں۔
راولپنڈی میں 14 جنوری 1974 کو پیدا ہونے والے علی آریان نے اپنے تخیلاتی افسانوں سے اردو ادب میں ایک نئی جہت متعارف کرائی۔ ان کے افسانوں کے عنوانات ہی قاری کو ایک ایسی پر اسرار و علامتی دنیا کی طرف کھینچتے ہیں جہاں "محبت"، "وجود"، "خواب"، "مشین"، اور "پرستان" جیسے الفاظ صرف الفاظ نہیں بلکہ ایک مکمل کائنات --
تخلیقی بصیرت کی جھلکیاں:
پرستان لبھائے لوگ
یہ افسانہ انسانی امیدوں، خواہشوں اور معصوم خوابوں کو ایک علامتی پرستان میں منتقل کرتا ہے، جہاں لوگ شاید زندہ تو ہوتے ہیں، مگر اپنی فطری آوازوں سے محروم۔ لبوں پر صرف "لبائے" ہے، مطلب صرف فرمانبرداری۔ یہ ایک ایسا استعارہ ہے جو آج کے انسان کی خاموشی اور سمجھوتے کو بےنقاب کرتا ہے۔
محبت مایا اور مشین
یہ ایک حیران کن علامتی تحریر ہے جس میں محبت کو ایک قابلِ کنٹرول مائع میں تبدیل کیا جاتا ہے، اور انسان اسے "مشین" کے ذریعے حاصل یا ختم کر سکتا ہے۔ یہ جدید سوسائٹی میں مصنوعی جذبات اور احساسات کی تجارت پر گہرا طنز ہے۔
ناموجود شہر میں وجود
یہ افسانہ شناخت اور وجودیت کے گہرے فلسفے کو بیان کرتا ہے۔ یہاں شہر "موجود" نہیں، مگر فرد اس میں "موجود ہونے کا دعویٰ" کرتا ہے۔ یہ اس ذہنی کیفیت کی علامت ہے جہاں انسان خود کو تلاش کرنے نکلتا ہے اور اسی تلاش میں گم ہو جاتا ہے۔
محسوس ہوتی ہوئی محبوبائیں
ایک نہایت لطیف اور دردناک تجریدی افسانہ، جو ان محبوباؤں کا تذکرہ کرتا ہے جو صرف "محسوس" ہوتی ہیں، نظر نہیں آتیں۔ یہ افسانہ تنہائی، تخیل اور خوابیدہ محبت کا نچوڑ ہے۔
مالا کی تلاش میں بالا
یہ کہانی تلاش کی تمثیل ہے، شاید بالکل اسی طرح جیسے ہم روحانی یا جذباتی "بالا" کی تلاش کرتے ہیں، مگر وہ ہمیں "مالا" کی صورت میں بکھری ملتی ہے — منتشر، الجھی ہوئی، غیر مکمل۔
ڈاک میں گمشدہ محبت
یہ افسانہ ایک یاد، ایک خاموش چراغ، اور ایک گزرا ہوا لمس ہے جو "طاق" میں رکھ کر بھلا دیا گیا ہے۔ مگر وہ محبت اب بھی سانس لیتی ہے، خاموشی میں۔
---
شہرِ بےمثال — سب افسانوں کا نچوڑ:
ان سب افسانوں کا نظریاتی ارتقاء ہمیں لے جاتا ہے ایک مقام کی طرف:
"اس شہرِ بےمثال تک پہنچنے کے لیے"
یہ وہ افسانہ ہے جہاں ایک ادیب، ایک خواب بین، اپنی تخلیق کردہ دنیا میں قدم رکھتا ہے — صرف یہ جاننے کے لیے کہ جو کچھ اس نے سوچا تھا، لکھا تھا، تراشا تھا…
وہ سب فریب تھا۔
شہر میں ہر چیز موجود ہے، لیکن ویسی نہیں جیسی دکھائی دیتی ہے۔
چہرے بولتے ہیں مگر چپ کی زبان میں۔
محبت اداکاری ہے۔
لفظ خالی ہیں۔
اور سب سے زیادہ تکلیف دہ یہ ہے کہ:
> "یہ شہر، جسے میں نے اپنے خواب میں بسا رکھا تھا، حقیقت میں کبھی میرا تھا ہی نہیں۔"
---
نتیجہ:
علی آریان کا تخیلاتی ادب ہمیں بتاتا ہے کہ:
انسان کے اندر ایک "پرستان" ہے — مگر وہ خموشی سے آباد ہے
محبت اب "مائع" بن چکی ہے — ایک مشین کے بٹن سے بہتی ہے
ہم جس شہر میں بستے ہیں — وہاں ہمارا "وجود" شاید ناموجود ہے
ہم جس شہر تک پہنچنا چاہتے ہیں — وہاں سب کچھ ہے، مگر اصل کچھ بھی نہیں
اور شاید یہی سچ ہے، یہی افسانے کی اصل روشنی ہے۔
---
اختتامیہ:
علی آریان کے افسانے ہمیں ہمارے اندر کے ادیب، عاشق، متلاشی، اور درویش سے ملواتے ہیں۔ "شہرِ بےمثال" صرف ایک افسانہ نہیں، بلکہ ایک اعترافِ شکست ہے — ایک خاموش آنسو جو الفاظ کی سیاہی میں چھپ کر کاغذ پر ٹپک پڑا۔
اور شاید… مثالی شہر میں منتظر خیالی لوگ محو کلام ہوتے ہی تمام ہو جایا کرتے ہیں "
--
علی آریان کی تخیلاتی دنیا — اس شہر بےمثال تک پہونچنے کے لے ایک سفر
تحریر: محمد اورنگزیب سجن
ادب کی دنیا میں کچھ تخلیق کار ایسے بھی ہوتے ہیں جو صرف کہانیاں نہیں سناتے، بلکہ قاری کو ایک ایسی دنیا میں لے جاتے ہیں جو نہ مکمل طور پر خیالی ہوتی ہے، نہ مکمل طور پر حقیقی۔ علی آریان انہی تخلیق کاروں میں سے ہیں۔
راولپنڈی میں 14 جنوری 1974 کو پیدا ہونے والے علی آریان نے اپنے تخیلاتی افسانوں سے اردو ادب میں ایک نئی جہت متعارف کرائی۔ ان کے افسانوں کے عنوانات ہی قاری کو ایک ایسی پر اسرار و علامتی دنیا کی طرف کھینچتے ہیں جہاں "محبت"، "وجود"، "خواب"، "مشین"، اور "پرستان" جیسے الفاظ صرف الفاظ نہیں بلکہ ایک مکمل کائنات --
تخلیقی بصیرت کی جھلکیاں:
پرستان لبھائے لوگ
یہ افسانہ انسانی امیدوں، خواہشوں اور معصوم خوابوں کو ایک علامتی پرستان میں منتقل کرتا ہے، جہاں لوگ شاید زندہ تو ہوتے ہیں، مگر اپنی فطری آوازوں سے محروم۔ لبوں پر صرف "لبائے" ہے، مطلب صرف فرمانبرداری۔ یہ ایک ایسا استعارہ ہے جو آج کے انسان کی خاموشی اور سمجھوتے کو بےنقاب کرتا ہے۔
محبت مایا اور مشین
یہ ایک حیران کن علامتی تحریر ہے جس میں محبت کو ایک قابلِ کنٹرول مائع میں تبدیل کیا جاتا ہے، اور انسان اسے "مشین" کے ذریعے حاصل یا ختم کر سکتا ہے۔ یہ جدید سوسائٹی میں مصنوعی جذبات اور احساسات کی تجارت پر گہرا طنز ہے۔
ناموجود شہر میں وجود
یہ افسانہ شناخت اور وجودیت کے گہرے فلسفے کو بیان کرتا ہے۔ یہاں شہر "موجود" نہیں، مگر فرد اس میں "موجود ہونے کا دعویٰ" کرتا ہے۔ یہ اس ذہنی کیفیت کی علامت ہے جہاں انسان خود کو تلاش کرنے نکلتا ہے اور اسی تلاش میں گم ہو جاتا ہے۔
محسوس ہوتی ہوئی محبوبائیں
ایک نہایت لطیف اور دردناک تجریدی افسانہ، جو ان محبوباؤں کا تذکرہ کرتا ہے جو صرف "محسوس" ہوتی ہیں، نظر نہیں آتیں۔ یہ افسانہ تنہائی، تخیل اور خوابیدہ محبت کا نچوڑ ہے۔
مالا کی تلاش میں بالا
یہ کہانی تلاش کی تمثیل ہے، شاید بالکل اسی طرح جیسے ہم روحانی یا جذباتی "بالا" کی تلاش کرتے ہیں، مگر وہ ہمیں "مالا" کی صورت میں بکھری ملتی ہے — منتشر، الجھی ہوئی، غیر مکمل۔
ڈاک میں گمشدہ محبت
یہ افسانہ ایک یاد، ایک خاموش چراغ، اور ایک گزرا ہوا لمس ہے جو "طاق" میں رکھ کر بھلا دیا گیا ہے۔ مگر وہ محبت اب بھی سانس لیتی ہے، خاموشی میں۔
---
شہرِ بےمثال — سب افسانوں کا نچوڑ:
ان سب افسانوں کا نظریاتی ارتقاء ہمیں لے جاتا ہے ایک مقام کی طرف:
"اس شہرِ بےمثال تک پہنچنے کے لیے"
یہ وہ افسانہ ہے جہاں ایک ادیب، ایک خواب بین، اپنی تخلیق کردہ دنیا میں قدم رکھتا ہے — صرف یہ جاننے کے لیے کہ جو کچھ اس نے سوچا تھا، لکھا تھا، تراشا تھا…
وہ سب فریب تھا۔
شہر میں ہر چیز موجود ہے، لیکن ویسی نہیں جیسی دکھائی دیتی ہے۔
چہرے بولتے ہیں مگر چپ کی زبان میں۔
محبت اداکاری ہے۔
لفظ خالی ہیں۔
اور سب سے زیادہ تکلیف دہ یہ ہے کہ:
> "یہ شہر، جسے میں نے اپنے خواب میں بسا رکھا تھا، حقیقت میں کبھی میرا تھا ہی نہیں۔"
---
نتیجہ:
علی آریان کا تخیلاتی ادب ہمیں بتاتا ہے کہ:
انسان کے اندر ایک "پرستان" ہے — مگر وہ خموشی سے آباد ہے
محبت اب "مائع" بن چکی ہے — ایک مشین کے بٹن سے بہتی ہے
ہم جس شہر میں بستے ہیں — وہاں ہمارا "وجود" شاید ناموجود ہے
ہم جس شہر تک پہنچنا چاہتے ہیں — وہاں سب کچھ ہے، مگر اصل کچھ بھی نہیں
اور شاید یہی سچ ہے، یہی افسانے کی اصل روشنی ہے۔
---
اختتامیہ:
علی آریان کے افسانے ہمیں ہمارے اندر کے ادیب، عاشق، متلاشی، اور درویش سے ملواتے ہیں۔ "شہرِ بےمثال" صرف ایک افسانہ نہیں، بلکہ ایک اعترافِ شکست ہے — ایک خاموش آنسو جو الفاظ کی سیاہی میں چھپ کر کاغذ پر ٹپک پڑا۔
اور شاید… مثالی شہر میں منتظر خیالی لوگ محو کلام ہوتے ہی تمام ہو جایا کرتے ہیں "
--