سوشل ڈسٹنس

سوشل ڈسٹنس

Mar 23, 2021

افسانہ

مصنف

طارق شبنم

شمارہ

شمارہ - ١٣



 افسانہ : سو شل ڈسٹنس

 

طارق شبنم۔۔۔۔۔۔۔ کشمیر



   ’’شکر ہے تیرا میرے مولیٰ کہ تو نے مجھ پر رحم فرمایا،واقعی میں نے بہت بڑی غلطی کی تھی ۔۔۔۔۔‘‘



راحیلہ ،جو کئی دنوں بعد آج کسی حد تک سکون محسوس کررہی تھی ،خود سے بڑ بڑاتے ہوئے اپنے آنگن میں کرسی پر بیٹھی اور موبائیل فون پر سوشل میڈیا کا نظارہ کرنے میں محو ہو گئی ۔راحیلہ کو جس واقعہ نے پریشان کر رکھا تھا قریب پندرہ دن گزرنے کے بعد وہ آج اس پریشانی سے نکلی تھی ۔ہوا یوں تھا کہ راحیلہ نے اپنی سہیلی قرعت کے گھر دودھ پیا تھا جس کے چند دن بعد قُرت کی بیٹی بخار میں مبتلا ہوئی تھی اور وہ اس شک میں مبتلا ہوگئی تھی کہ کہیں وہ اس وبائی بیماری کرونا وائیرس میں مبتلا نہ ہو، جس سے بہت سے لوگ لقمہ اجل بن رہے ہیں اور اس دودھ کے ذریعے یہ وائیرس مجھ میں بھی منتقل نہ ہوا ہو ۔اسے اس بات نے اور زیادہ پریشان کر رکھا تھا کہ اگر راحیلہ کی بیٹی اس بیماری میں مبتلا پائی گئی تو ان کے گھر دودھ پینے کی وجہ سے اسے بھی پندرہ بیس دن اسپتال کے قید خانے کورنٹائین سنٹر میں گزارنے پڑیں گے ۔سو یہ پندرہ دن اس نے کانٹوں پر گزارے ۔اس کا دن کا چین اور راتوں کی نیند غائب ہو چکی تھی حالانکہ قرعت کی بیٹی چند دنوں بعد ہی ٹھیک ہوئی تھی جب کہ راحیلہ بھی بالکل ٹھیک ٹھاک رہی۔



راحیلہ سوشل میڈیا دیکھنے میں محو تھی کہ گھر کے صدر دروازے پر دستک ہوئی ،گھریلو ملازم نے دروازہ کھولا تو قُرت اندر داخل ہوگئی ۔راحیلہ، جو سوشل میڈیا پر کرونا وائیرس کے بارے میں مختلف پوسٹس پڑھ کرکچھ پریشان سی لگ رہی تھی، کے چہرے کے جغرافیہ میں ہلچل مچ گئی۔وہ جلدی جلدی مُنہ پر ماسک چڑھاتے ہوئے سرد لہجے میں گویا ہوئی۔



’’قُرۃ ۔۔۔۔۔۔ تمہاری بیٹی اب کیسی ہے ؟‘‘



’’شکر اللہ کا ،اب وہ بالکل ٹھیک ہے‘‘ ۔



’’ اچھا تم لاک ڈاون میں کیسے آگئی ؟سوشل ڈسٹنس کا خیال رکھنا چاہئے ‘‘۔



’’مجھے معلوم ہے لیکن میں نے سوچا کہ بہت دنوں بعد تمہاری اور بچوں کی خیر وعافیت معلوم کرلوں‘‘ ۔



’’اچھا بیٹھو‘‘۔



راحیلہ نے کچھ دوری پر ایک خالی کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اور قُرت بادل ناخواستہ ہی کرسی پر بیٹھی اور کچھ دیر راحیلہ کے ساتھ باتیں کرتیں رہی جس دوران وہ اندر ہی اندر عجیب سی کشمکش میں مبتلا رہی ۔



’’نہیں ۔۔۔ نہیں میں اسے کچھ نہیں بولوں گی‘‘ ۔



’’اچھا اب میں چلتی ہوں‘‘ ۔



آخر اس نے دل ہی دل میں فیصلہ کر لیا اور اچانک راحیلہ کوخدا حافظ کہہ کر عالم یاس و اضطراب میں بوجھل قدموں سے وہاں سے نکلی ۔



’’پتہ نہیں کیسے لوگ ہیں ؟۔۔۔۔۔۔ ذرا بھی احتیاظ نہیں کرتے‘‘ ۔



راحیلہ نا ک سکیڑ کر بڑ بڑاتے ہوئے اٹھ کر اندر چلی گئی ۔در اصل قُرت  ،اس کی نزدیکی سہیلی تھی جو اس کے گھر سے کچھ دوری پر رہتی تھی اور لگاتار لاک ڈاون کی وجہ سے تنگ دستی کے سبب سخت پریشان تھی کیوں کہ اس کا شوہر جو ایک پرائیویٹ کمپنی میں کام کرتا تھا۔ روز گار سے محروم ہوکر پچھلے دو مہینوں سے بالکل بے کار بیٹھا تھا اور ان کے گھر میں فاقوں کی نوبت آچکی تھی ۔اب قُرت بڑی امیدیں لے کر آئی تھی کہ گھر اور بچوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے راحیلہ ،جو مالی لحاظ سے کافی خوشحال تھی ،سے کچھ رقم اُدھار لے گی لیکن اس کا بدلا بدلا رویہ دیکھ کر بنا کچھ کہے ہی چلی گئی ۔



تھوڑی دیر بعد راحیلہ سینی ٹائیزر سے ہاتھ دھونے کے بعد واپس نکلی تو اس کی چھوٹی بیٹی ہاتھ میں آئیس کریم لئے باہر سے آرہی تھی۔



’’پاگل بچی ۔۔۔۔۔۔ تم نے یہ آئیس کریم کہاں سے لائی؟‘‘



اس نے بچی کے ننھے گال پر زناٹے دار چانٹا مارتے ہوئے کہا اور اس کے ہاتھ سے آئیس کریم چھین کر دور پھینکتے ہوئے بات جاری رکھی ۔



’’جلدی سے واش روم جا کر اپنا منہ اور زبان زور سے رگڑ کر دھولو‘‘ ۔



’’مما ۔۔۔۔۔۔  یہ آئیس کریم مجھے ماموں نے لے کر دی تھی اور میں نے آئیس کریم کو ابھی مُنہ نہیں لگایا تھا‘‘۔



بچی نے روتے ہوئے کہا۔



’’سچ ۔۔۔ تم نے آئیس کریم کو مُنہ نہیں لگایا تھا ۔چلو پھر سینی ٹائیزر سے ہاتھ صاف کرلو‘‘۔



بچی نے اثبات میں سر ہلایا تو اس نے سینی ٹائیزر اس کے ہاتھ پر ڈالتے ہوئے کہا ۔



کچھ دیر بعد جب اس کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا تو بچی کو گود میں اٹھا کر پیار سے سمجھانے لگی ۔



’’ میری پیاری گڑیا ۔۔۔۔۔۔ میں نے آپ کو کتنی بار بتایا کہ آج کل بازار کی کوئی چیز نہیں کھانی چاہئے کیوں کہ ان سے وائیرس لگنے کا بہت زیادہ خطرہ ہوتا ہے‘‘ ۔



بچی کو پیار کرنے اور منانے کے بعد وہ ریلیکس ہوکر پھر سے سوشل میڈیا کی سیر کرنے لگی ۔راحیلہ انتہائی حساس قسم کی عورت تھی اور سوشل میڈیا کا خوب استعمال کرتی تھی ۔آئے روز سوشل میڈیا پر کرونا وائیرس بیماری کے متعلق پوسٹس پڑھ کر اور ویڈ یوز دیکھ کر اکثر سوچوں میں گم اور پریشان رہتی یھی ۔خود بھی سخت احتیاط کرتی تھی ،بچوں اور شوہر کو بھی ہر قسم کا احتیاط برتنے کی سخت تلقین کرتی تھی ۔لاک ڈاون کے چلتے وہ سوشل ڈسٹنس کا بہت خیال رکھتی تھی ۔اس نے خود کو ،اپنے شوہر اور بچوں کو پوری طرح سے گھر میں قید کرکے رکھا تھا اور گھر کا دروازہ دن رات بند رہتا تھا ۔ان کا گھریلو ملازم بمشکل دن میں ایک بار بازار جا کر گھر کی ضروریات کی چیزیں خرید کر لا تا تھا ۔۔۔۔۔۔



بہت دنوں بعد سرکار کی طرف سے لاک ڈاون میں نرمی کے بعد بھی وہ اپنی روش پہ قائیم تھی لیکن ایک دن اس کا شوہر، جس کو گھر کی چار دیواری سانپ بن کر ڈس رہی تھی، اس کو چکمہ دیکر گھر سے باہر گیا ،جب وہ واپس آیا تو اس کی شکل ہی بدلی تھی کیوں کہ دو مہینوں سے زیادہ وقفے کے بعد اس نے اپنے سر کے بال کٹوائے تھے۔



’’یہ بال تم نے کہاں سے کٹوائے ؟‘‘



راحیلہ نے غصے بھرے لہجے میں پوچھا ۔



’’نائی کے پاس اور کہاں ؟‘‘



’’ہائی میری قسمت ۔۔۔۔۔۔ تو مجھے اور بچوں کو مار کے ہی دم لے گا ،تمہیں نہیں معلوم کہ درجنوں نائیوں کے کرونا ٹیسٹ پازیٹیو آئے ہیں‘‘ ۔



اس نے روتے ہوئے ماتھا پیٹنا شروع کیا ۔



’’ریلیکس راحیلہ ۔۔۔۔۔۔ کچھ نہیں ہوگا ،میں اور نائی دونوں ماسکس پہنے ہوئے تھے اور نائی دیگر احتیاطی تدابیر بھی اختیار کرتے ہیں‘‘ ۔



شوہر نے ایکٹنگ کے انداز میں اس کو تسلی دیتے ہوئے کہا ۔



’’تم جا کے واش روم میں نہائو اور کپڑے بھی بدلو‘‘ ۔



’’ٹھیک ہے‘‘ ۔



’’یہ کونسی بلاء میرے گلے پڑ گئی ۔۔۔۔۔۔‘‘۔



بڑ بڑاتے ہوئے اس کا شوہر واش روم کی طرف چلا گیا ۔



اس واقع سے راحیلہ پھر سے پریشانی میں مبتلا ہوگئی ،دن بہ دن اس کے اندیشے بڑھتے ہی چلے گئے لیکن دس بارہ دن گزرنے کے بعد جب  اس کی پریشانی کم ہونا شروع ہوگئی تو وہ فیصلہ کن لہجے میں اپنے شوہر سے مخاطب ہوئی۔



’’ اگر تمہیں میرا اور بچوں کی سلامتی کا ذرا بھی خیال ہے تو آج سے تم ذرا بھی بے احتیاطی نہیں کرو گے اورنہ گھر سے باہر قدم رکھو گے ۔ورنہ میں بچوں کو لے کر میکے جائوںگی‘‘ ۔



’’ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔۔ تم بالکل پریشان نہ ہو‘‘ ۔



شوہر کے جواب سے خوش ہو کر اس نے اطمینان کا سانس تولیا لیکن سوشل میڈیا پر اس وبائی بیماری کے بارے میں پوسٹس پڑھ کر وہ اکثر پریشان ہی رہتی تھی اور گھنٹوں سوچوں میں گم رہتی تھی حالانکہ اس کا شوہر اس کو  بار بار سوشل میڈیا سے دور رہنے کی فہمائیش کر رہا تھا لیکن وہ سنی ان سنی کر رہی تھی ۔ کچھ دن بعد اسی پریشانی کے عالم میں واش روم میں اس کا پیر پھسل گیا اور وہ نیچے گر پڑی ،اس کے پائوں میں مونچ آگئی اور دائیاں ہاتھ زخمی ہو گیا ۔اس کا شوہر اس کو عجلت میں علاج کے لئے ایک نزدیکی پرائیویٹ کلنک پر لے گیا ،جہاں اس کی مرہم پٹی کی گئی جس دوران اس کو یاد آیا کہ وہ ماسک پہننا بھول گئی ہے ۔گھر آکر وہ اس بات سے سخت پریشان رہنے لگی ۔یہ سوچ کر اس کا دم گھٹ رہا تھا  اور دل میں کانٹے سے چبھ رہے تھے کہ نہ ہی اس نے اور نہ ہی مرہم پٹی کرنے والے ڈاکٹر نے فیس ماسک پہنا تھا ۔کئی دنوں تک بستر پر آرام کرنے کے بعد اس کے زخم ،جو معمولی نوعیت کے تھے،ٹھیک ہو گئے لیکن وہ بستر سے نہیں اٹھی اور سخت ذہنی دباو میں مبتلا ہو کر بیمار ہو گئی ۔اس کا انگ انگ درد کی شدت میں ڈوبنے لگا، وقفے وقفے سے بخار بھی ہونے لگا اور وہ خود سے کرونا کرونا اور دیگر اناپ شناپ بولنے لگی ۔جب اس کی حالت زیادہ بگڑنے لگی تواس کا شوہر اس کو ایک مشہور ماہر نفسیات کے پاس لے گیا اور اس کی حالت کے بارے میں اسے تفصیل سے بتا یا ۔



’’دیکھئے محترمہ  ۔۔۔۔۔۔ آپ بالکل ٹھیک ہیں اور کسی پریشانی کی وجہ سے ذہنی دباو کا شکار ہو ئی ہیں جس کا واحد علاج خوش رہنا اور لوگوں خاص طور اپنی سہیلیوں اور جان پہچان والوں سے گُھل مل کر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرتے رہنا ہے‘‘۔



ڈ اکٹر نے تفصیلی معائینے کے بعد نسخہ اس کو تھماتے ہوئے کہا ۔اس نے سوشل ڈسٹنس اوراپنی صحت کے بارے میں ڈاکٹر سے کئی سوالات پوچھے۔ جن کے اس نے خندہ پیشانی سے جوابات دیکر اس کو مطمعن کر دیا ۔جب وہ کلنک سے باہر نکلے توباہر ایک برقعہ  پوش خاتون،جس کے برقعے کے دامن میں کئی سراخ تھے، بھیک مانگ رہی تھی۔ راحیلہ نے پرس سے ایک نوٹ نکال کر اس کو دیتے ہوئے کہا ۔



’’بہن ۔۔۔۔۔۔ کیا پریشانی ہے آپ کو ؟‘‘



لیکن بھکارن نے کوئی جواب نہیں دیا ۔اس نے کئی باراپنا سوال دہرایا لیکن بھکارن نے مُنہ نہیں کھولا اور اس کو نظر انداز کرکے اپنا ریزہ ریزہ وجود لئے وہاں سے چلی گئی ۔



’’شاید بہری ہے بے چاری‘‘ ۔



کہتے ہوئے وہ بھی گاڑی میں بیٹھ گئی اور پرس سے فون نکال کر قُرت  کا نمبر ملایاکیوں کہ آج وہ اپنی قریبی سہیلی قُرۃ سے خوب باتیں کرنا چاہتی تھی ۔



’’اس نمبر پر انکمنگ کال فیسلٹی بند ہے، جو ریچارج کرنے کے بعد ہی بحال کی جائے گی‘ ‘۔



اس نے بار بار قُرۃ کا نمبر ملایا لیکن ہر بار یہی جواب ملا۔دوسرے دن صبح اس نے جب اپنے شوہر کو بتایا کہ وہ قُرت  سے ملنے اس کے گھر جا رہی ہے تو اس کے شوہر کو یقین نہیں آیا ۔



’’چلو میں تمہیں کو ڈراپ کردوں گا‘‘ ۔



جب انہوں نے قُرۃ کے گھر کے سامنے گاڑی روکی تو قُرۃ برقعہ پہن کر گھر کے دروازے سے نکل رہی تھی ،راحیلہ نے غور سے دیکھا تو یہ دیکھ کر درد کی ایک تیز ٹیس اس کے پورے وجود میں دوڑ گئی کہ قُرۃ کے برقعے کے دامن پرکئی سراخ موجود تھے ۔



٭



ای میل؛ tariqs709@gmail.com



 افسانہ : سو شل ڈسٹنس

 

طارق شبنم۔۔۔۔۔۔۔ کشمیر



   ’’شکر ہے تیرا میرے مولیٰ کہ تو نے مجھ پر رحم فرمایا،واقعی میں نے بہت بڑی غلطی کی تھی ۔۔۔۔۔‘‘



راحیلہ ،جو کئی دنوں بعد آج کسی حد تک سکون محسوس کررہی تھی ،خود سے بڑ بڑاتے ہوئے اپنے آنگن میں کرسی پر بیٹھی اور موبائیل فون پر سوشل میڈیا کا نظارہ کرنے میں محو ہو گئی ۔راحیلہ کو جس واقعہ نے پریشان کر رکھا تھا قریب پندرہ دن گزرنے کے بعد وہ آج اس پریشانی سے نکلی تھی ۔ہوا یوں تھا کہ راحیلہ نے اپنی سہیلی قرعت کے گھر دودھ پیا تھا جس کے چند دن بعد قُرت کی بیٹی بخار میں مبتلا ہوئی تھی اور وہ اس شک میں مبتلا ہوگئی تھی کہ کہیں وہ اس وبائی بیماری کرونا وائیرس میں مبتلا نہ ہو، جس سے بہت سے لوگ لقمہ اجل بن رہے ہیں اور اس دودھ کے ذریعے یہ وائیرس مجھ میں بھی منتقل نہ ہوا ہو ۔اسے اس بات نے اور زیادہ پریشان کر رکھا تھا کہ اگر راحیلہ کی بیٹی اس بیماری میں مبتلا پائی گئی تو ان کے گھر دودھ پینے کی وجہ سے اسے بھی پندرہ بیس دن اسپتال کے قید خانے کورنٹائین سنٹر میں گزارنے پڑیں گے ۔سو یہ پندرہ دن اس نے کانٹوں پر گزارے ۔اس کا دن کا چین اور راتوں کی نیند غائب ہو چکی تھی حالانکہ قرعت کی بیٹی چند دنوں بعد ہی ٹھیک ہوئی تھی جب کہ راحیلہ بھی بالکل ٹھیک ٹھاک رہی۔



راحیلہ سوشل میڈیا دیکھنے میں محو تھی کہ گھر کے صدر دروازے پر دستک ہوئی ،گھریلو ملازم نے دروازہ کھولا تو قُرت اندر داخل ہوگئی ۔راحیلہ، جو سوشل میڈیا پر کرونا وائیرس کے بارے میں مختلف پوسٹس پڑھ کرکچھ پریشان سی لگ رہی تھی، کے چہرے کے جغرافیہ میں ہلچل مچ گئی۔وہ جلدی جلدی مُنہ پر ماسک چڑھاتے ہوئے سرد لہجے میں گویا ہوئی۔



’’قُرۃ ۔۔۔۔۔۔ تمہاری بیٹی اب کیسی ہے ؟‘‘



’’شکر اللہ کا ،اب وہ بالکل ٹھیک ہے‘‘ ۔



’’ اچھا تم لاک ڈاون میں کیسے آگئی ؟سوشل ڈسٹنس کا خیال رکھنا چاہئے ‘‘۔



’’مجھے معلوم ہے لیکن میں نے سوچا کہ بہت دنوں بعد تمہاری اور بچوں کی خیر وعافیت معلوم کرلوں‘‘ ۔



’’اچھا بیٹھو‘‘۔



راحیلہ نے کچھ دوری پر ایک خالی کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اور قُرت بادل ناخواستہ ہی کرسی پر بیٹھی اور کچھ دیر راحیلہ کے ساتھ باتیں کرتیں رہی جس دوران وہ اندر ہی اندر عجیب سی کشمکش میں مبتلا رہی ۔



’’نہیں ۔۔۔ نہیں میں اسے کچھ نہیں بولوں گی‘‘ ۔



’’اچھا اب میں چلتی ہوں‘‘ ۔



آخر اس نے دل ہی دل میں فیصلہ کر لیا اور اچانک راحیلہ کوخدا حافظ کہہ کر عالم یاس و اضطراب میں بوجھل قدموں سے وہاں سے نکلی ۔



’’پتہ نہیں کیسے لوگ ہیں ؟۔۔۔۔۔۔ ذرا بھی احتیاظ نہیں کرتے‘‘ ۔



راحیلہ نا ک سکیڑ کر بڑ بڑاتے ہوئے اٹھ کر اندر چلی گئی ۔در اصل قُرت  ،اس کی نزدیکی سہیلی تھی جو اس کے گھر سے کچھ دوری پر رہتی تھی اور لگاتار لاک ڈاون کی وجہ سے تنگ دستی کے سبب سخت پریشان تھی کیوں کہ اس کا شوہر جو ایک پرائیویٹ کمپنی میں کام کرتا تھا۔ روز گار سے محروم ہوکر پچھلے دو مہینوں سے بالکل بے کار بیٹھا تھا اور ان کے گھر میں فاقوں کی نوبت آچکی تھی ۔اب قُرت بڑی امیدیں لے کر آئی تھی کہ گھر اور بچوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے راحیلہ ،جو مالی لحاظ سے کافی خوشحال تھی ،سے کچھ رقم اُدھار لے گی لیکن اس کا بدلا بدلا رویہ دیکھ کر بنا کچھ کہے ہی چلی گئی ۔



تھوڑی دیر بعد راحیلہ سینی ٹائیزر سے ہاتھ دھونے کے بعد واپس نکلی تو اس کی چھوٹی بیٹی ہاتھ میں آئیس کریم لئے باہر سے آرہی تھی۔



’’پاگل بچی ۔۔۔۔۔۔ تم نے یہ آئیس کریم کہاں سے لائی؟‘‘



اس نے بچی کے ننھے گال پر زناٹے دار چانٹا مارتے ہوئے کہا اور اس کے ہاتھ سے آئیس کریم چھین کر دور پھینکتے ہوئے بات جاری رکھی ۔



’’جلدی سے واش روم جا کر اپنا منہ اور زبان زور سے رگڑ کر دھولو‘‘ ۔



’’مما ۔۔۔۔۔۔  یہ آئیس کریم مجھے ماموں نے لے کر دی تھی اور میں نے آئیس کریم کو ابھی مُنہ نہیں لگایا تھا‘‘۔



بچی نے روتے ہوئے کہا۔



’’سچ ۔۔۔ تم نے آئیس کریم کو مُنہ نہیں لگایا تھا ۔چلو پھر سینی ٹائیزر سے ہاتھ صاف کرلو‘‘۔



بچی نے اثبات میں سر ہلایا تو اس نے سینی ٹائیزر اس کے ہاتھ پر ڈالتے ہوئے کہا ۔



کچھ دیر بعد جب اس کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا تو بچی کو گود میں اٹھا کر پیار سے سمجھانے لگی ۔



’’ میری پیاری گڑیا ۔۔۔۔۔۔ میں نے آپ کو کتنی بار بتایا کہ آج کل بازار کی کوئی چیز نہیں کھانی چاہئے کیوں کہ ان سے وائیرس لگنے کا بہت زیادہ خطرہ ہوتا ہے‘‘ ۔



بچی کو پیار کرنے اور منانے کے بعد وہ ریلیکس ہوکر پھر سے سوشل میڈیا کی سیر کرنے لگی ۔راحیلہ انتہائی حساس قسم کی عورت تھی اور سوشل میڈیا کا خوب استعمال کرتی تھی ۔آئے روز سوشل میڈیا پر کرونا وائیرس بیماری کے متعلق پوسٹس پڑھ کر اور ویڈ یوز دیکھ کر اکثر سوچوں میں گم اور پریشان رہتی یھی ۔خود بھی سخت احتیاط کرتی تھی ،بچوں اور شوہر کو بھی ہر قسم کا احتیاط برتنے کی سخت تلقین کرتی تھی ۔لاک ڈاون کے چلتے وہ سوشل ڈسٹنس کا بہت خیال رکھتی تھی ۔اس نے خود کو ،اپنے شوہر اور بچوں کو پوری طرح سے گھر میں قید کرکے رکھا تھا اور گھر کا دروازہ دن رات بند رہتا تھا ۔ان کا گھریلو ملازم بمشکل دن میں ایک بار بازار جا کر گھر کی ضروریات کی چیزیں خرید کر لا تا تھا ۔۔۔۔۔۔



بہت دنوں بعد سرکار کی طرف سے لاک ڈاون میں نرمی کے بعد بھی وہ اپنی روش پہ قائیم تھی لیکن ایک دن اس کا شوہر، جس کو گھر کی چار دیواری سانپ بن کر ڈس رہی تھی، اس کو چکمہ دیکر گھر سے باہر گیا ،جب وہ واپس آیا تو اس کی شکل ہی بدلی تھی کیوں کہ دو مہینوں سے زیادہ وقفے کے بعد اس نے اپنے سر کے بال کٹوائے تھے۔



’’یہ بال تم نے کہاں سے کٹوائے ؟‘‘



راحیلہ نے غصے بھرے لہجے میں پوچھا ۔



’’نائی کے پاس اور کہاں ؟‘‘



’’ہائی میری قسمت ۔۔۔۔۔۔ تو مجھے اور بچوں کو مار کے ہی دم لے گا ،تمہیں نہیں معلوم کہ درجنوں نائیوں کے کرونا ٹیسٹ پازیٹیو آئے ہیں‘‘ ۔



اس نے روتے ہوئے ماتھا پیٹنا شروع کیا ۔



’’ریلیکس راحیلہ ۔۔۔۔۔۔ کچھ نہیں ہوگا ،میں اور نائی دونوں ماسکس پہنے ہوئے تھے اور نائی دیگر احتیاطی تدابیر بھی اختیار کرتے ہیں‘‘ ۔



شوہر نے ایکٹنگ کے انداز میں اس کو تسلی دیتے ہوئے کہا ۔



’’تم جا کے واش روم میں نہائو اور کپڑے بھی بدلو‘‘ ۔



’’ٹھیک ہے‘‘ ۔



’’یہ کونسی بلاء میرے گلے پڑ گئی ۔۔۔۔۔۔‘‘۔



بڑ بڑاتے ہوئے اس کا شوہر واش روم کی طرف چلا گیا ۔



اس واقع سے راحیلہ پھر سے پریشانی میں مبتلا ہوگئی ،دن بہ دن اس کے اندیشے بڑھتے ہی چلے گئے لیکن دس بارہ دن گزرنے کے بعد جب  اس کی پریشانی کم ہونا شروع ہوگئی تو وہ فیصلہ کن لہجے میں اپنے شوہر سے مخاطب ہوئی۔



’’ اگر تمہیں میرا اور بچوں کی سلامتی کا ذرا بھی خیال ہے تو آج سے تم ذرا بھی بے احتیاطی نہیں کرو گے اورنہ گھر سے باہر قدم رکھو گے ۔ورنہ میں بچوں کو لے کر میکے جائوںگی‘‘ ۔



’’ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔۔ تم بالکل پریشان نہ ہو‘‘ ۔



شوہر کے جواب سے خوش ہو کر اس نے اطمینان کا سانس تولیا لیکن سوشل میڈیا پر اس وبائی بیماری کے بارے میں پوسٹس پڑھ کر وہ اکثر پریشان ہی رہتی تھی اور گھنٹوں سوچوں میں گم رہتی تھی حالانکہ اس کا شوہر اس کو  بار بار سوشل میڈیا سے دور رہنے کی فہمائیش کر رہا تھا لیکن وہ سنی ان سنی کر رہی تھی ۔ کچھ دن بعد اسی پریشانی کے عالم میں واش روم میں اس کا پیر پھسل گیا اور وہ نیچے گر پڑی ،اس کے پائوں میں مونچ آگئی اور دائیاں ہاتھ زخمی ہو گیا ۔اس کا شوہر اس کو عجلت میں علاج کے لئے ایک نزدیکی پرائیویٹ کلنک پر لے گیا ،جہاں اس کی مرہم پٹی کی گئی جس دوران اس کو یاد آیا کہ وہ ماسک پہننا بھول گئی ہے ۔گھر آکر وہ اس بات سے سخت پریشان رہنے لگی ۔یہ سوچ کر اس کا دم گھٹ رہا تھا  اور دل میں کانٹے سے چبھ رہے تھے کہ نہ ہی اس نے اور نہ ہی مرہم پٹی کرنے والے ڈاکٹر نے فیس ماسک پہنا تھا ۔کئی دنوں تک بستر پر آرام کرنے کے بعد اس کے زخم ،جو معمولی نوعیت کے تھے،ٹھیک ہو گئے لیکن وہ بستر سے نہیں اٹھی اور سخت ذہنی دباو میں مبتلا ہو کر بیمار ہو گئی ۔اس کا انگ انگ درد کی شدت میں ڈوبنے لگا، وقفے وقفے سے بخار بھی ہونے لگا اور وہ خود سے کرونا کرونا اور دیگر اناپ شناپ بولنے لگی ۔جب اس کی حالت زیادہ بگڑنے لگی تواس کا شوہر اس کو ایک مشہور ماہر نفسیات کے پاس لے گیا اور اس کی حالت کے بارے میں اسے تفصیل سے بتا یا ۔



’’دیکھئے محترمہ  ۔۔۔۔۔۔ آپ بالکل ٹھیک ہیں اور کسی پریشانی کی وجہ سے ذہنی دباو کا شکار ہو ئی ہیں جس کا واحد علاج خوش رہنا اور لوگوں خاص طور اپنی سہیلیوں اور جان پہچان والوں سے گُھل مل کر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرتے رہنا ہے‘‘۔



ڈ اکٹر نے تفصیلی معائینے کے بعد نسخہ اس کو تھماتے ہوئے کہا ۔اس نے سوشل ڈسٹنس اوراپنی صحت کے بارے میں ڈاکٹر سے کئی سوالات پوچھے۔ جن کے اس نے خندہ پیشانی سے جوابات دیکر اس کو مطمعن کر دیا ۔جب وہ کلنک سے باہر نکلے توباہر ایک برقعہ  پوش خاتون،جس کے برقعے کے دامن میں کئی سراخ تھے، بھیک مانگ رہی تھی۔ راحیلہ نے پرس سے ایک نوٹ نکال کر اس کو دیتے ہوئے کہا ۔



’’بہن ۔۔۔۔۔۔ کیا پریشانی ہے آپ کو ؟‘‘



لیکن بھکارن نے کوئی جواب نہیں دیا ۔اس نے کئی باراپنا سوال دہرایا لیکن بھکارن نے مُنہ نہیں کھولا اور اس کو نظر انداز کرکے اپنا ریزہ ریزہ وجود لئے وہاں سے چلی گئی ۔



’’شاید بہری ہے بے چاری‘‘ ۔



کہتے ہوئے وہ بھی گاڑی میں بیٹھ گئی اور پرس سے فون نکال کر قُرت  کا نمبر ملایاکیوں کہ آج وہ اپنی قریبی سہیلی قُرۃ سے خوب باتیں کرنا چاہتی تھی ۔



’’اس نمبر پر انکمنگ کال فیسلٹی بند ہے، جو ریچارج کرنے کے بعد ہی بحال کی جائے گی‘ ‘۔



اس نے بار بار قُرۃ کا نمبر ملایا لیکن ہر بار یہی جواب ملا۔دوسرے دن صبح اس نے جب اپنے شوہر کو بتایا کہ وہ قُرت  سے ملنے اس کے گھر جا رہی ہے تو اس کے شوہر کو یقین نہیں آیا ۔



’’چلو میں تمہیں کو ڈراپ کردوں گا‘‘ ۔



جب انہوں نے قُرۃ کے گھر کے سامنے گاڑی روکی تو قُرۃ برقعہ پہن کر گھر کے دروازے سے نکل رہی تھی ،راحیلہ نے غور سے دیکھا تو یہ دیکھ کر درد کی ایک تیز ٹیس اس کے پورے وجود میں دوڑ گئی کہ قُرۃ کے برقعے کے دامن پرکئی سراخ موجود تھے ۔



٭



ای میل؛ tariqs709@gmail.com

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024