غضنفر کے افسانہ ”خالی فریم“کی فکری جدلیات
غضنفر کے افسانہ ”خالی فریم“کی فکری جدلیات
Sep 10, 2025


غضنفر کے افسانہ ”خالی فریم“کی فکری جدلیات
علی رفاد فتیجی
افسانہ "خالی فریم" غضنفر کا ایک علامتی اور تہہ دار تخلیقی بیانیہ ہے جس میں اسلوبیاتی سطح پر زبان کی شعری قوت، علامتی اشارات، لغوی تضادات اور مکالماتی ترکیبوں کے ذریعے ایک گہرا سماجی و سیاسی شعور منتقل کیا گیا ہے۔زیر نطر مضمون میں اس افسانے کی فلسفہ فکری جدلیات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔فکری جدلیات (Thinking Dialectical) ایک فلسفیانہ تصور ہے جو تضادات (Contradictions) کے ذریعے فکر اور حقیقت کی ترقی کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ نظریہ خاص طور پر جرمن فلسفی ہیگل اور بعد میں کارل مارکس سے منسلک ہے، جنہوں نے اسے اپنے فلسفے کا بنیادی اصول بنایا۔فکری جدلیات کی بنیادی خصوصیات
تھیسس (Thesis) + اینٹی تھیسس (Antithesis) = سنتھیسس (Synthesis) ہے۔
ہر خیال (تھیسس) کا ایک مخالف خیال (اینٹی تھیسس) ہوتا ہے۔ان دونوں کے درمیان کشمکش کے نتیجے میں ایک نئی اور اعلیٰ صورت (سنتھیسس) پیدا ہوتی ہے۔مثال کے طور پر"آزادی" تھیسس ہے اور "کنٹرول" اینٹی تھیسس۔ ان دونوں کے کے تصادم سے "منظم معاشرہ" (سنتھیسس) وجود میں آتا ہے۔ جدلیات کے مطابق، ہر شے مسلسل تبدیلی کے عمل سے گزر رہی ہے۔ یہ تبدیلی داخلی تضادات ( Contradictions Internal) کی وجہ سے ہوتی ہے۔ داخلی تضاد اس وقت پیدا ہوتا ہے جب (thesis) کے اندر ہی ضد (antithesis) کی جھلک موجود ہو یعنی وہ شے خود ہی اپنی نفی یا مخالفت اپنے اندر سموئے ہوئے ہو۔ یہی چیز اسے جامد یا مکمل ہونے سے روکتی ہے، اور فکری سطح پر حرکت، تبدیلی اور ارتقا کو جنم دیتی ہے۔ ہیگل کی جدلیات میں "آزادی" ایک تصور ہے۔مگر اگر ہر کوئی آزاد ہے، تو پھر ایک کی آزادی دوسروں کی آزادی میں مداخلت بن سکتی ہے۔ یعنی آزادی کے تصور میں ہی ایک تضاد چھپا ہوا ہے جس سے آگے چل کر ایک نئی "ترکیب" یعنی قانون یا اخلاقی نظم کی شکل بنتی ہے۔ انتظار حسین کے افسانوں میں ماضی کی یاد اور حال کا زوال ایک مسلسل تضاد کی شکل میں آتا ہے۔ایک ایسی بے یقینی اور تشویش جو قاری کو جمود سے نکال کر سوال اٹھانے پر مجبور کرتی ہے یہ داخلی تضاد صرف متن میں نہیں، خیال کی تشکیل میں بھی موجود ہے۔ فکری جدلیات کی روشنی میں "داخلی تضاد" وہ قوت ہے جو کسی تصور یا بیانیے کے اندر سے اس کی مخالفت پیدا کرتی ہے اسے جمود سے نکال کر ارتقا کی طرف لے جاتی ہے اور قاری یا مفکر کو ایک متحرک، سوالی اور تخلیقی حالت میں رکھتی ہے۔ یہ تضاد کوئی "غلطی" نہیں، بلکہ فکری حرکت کا "انجن" ہے۔ مقداری تبدیلی سے نوعی تبدیلی ( Quantity to Quality) چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں (مقداری) ایک خاص حد کے بعد اچانک بڑی تبدیلی (نوعی) کا سبب بنتی ہیں۔ مثلا پانی کا درجہ حرارت بڑھنے سے آخر کار بخار میں تبدیل ہو جانا اس کی ایک مثال ہے۔ نفی کی نفی (Negation of Negation) اس کی دوسری مثال ہے۔ ہر عمل اپنے مخالف کو جنم دیتا ہے، پھر یہ مخالف بھی نفی ہو جاتا ہے، جس سے ایک نئی صورت ابھرتی ہے۔ ہیگل اور مارکس کا جدلیاتی نظریہ کے مطابق جدلیات خیالات (Ideas) کی دنیا میں ہوتی ہے۔ مارکس نے ہیگل کے نظریے کو مادی دنیا (مادیت پسندانہ جدلیات) پر لاگو کیا اور کہا کہ معاشی اور سماجی تضادات ہی تاریخ کی حرکت کا باعث ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں محنت اور سرمایے کا تضاد آخر کار ایک نئے نظام (اشتراکیت) کو جنم دے سکتا ہے۔ گویا فکری جدلیات ایک ایسا طریقہ کار ہے جو یہ سمجھنے میں مدد کرتا ہے کہ کیسے تضادات اور کشمکش کے ذریعے فکر، معاشرہ اور تاریخ ترقی کرتے ہیں۔ یہ نظریہ فلسفہ، سماجیات اور سیاسیات میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اب اس حوالے سے جب ہم غضنفر کے اس افسانے کو دیکھتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ افسانہ محض ایک کہانی نہیں بلکہ ایک علامتی نظام ہے جو پڑھنے والے کو اپنی لفظیات، تہہ داری اور مکالماتی ساخت کے ذریعے سماجی اور سیاسی حقیقتوں کے جدلیاتی پہلوؤں سے روشناس کراتا ہے۔ غضنفر نے اس افسانے ”خالی فریم“میں زبان کی شعری قوت کو بروئے کار لاتے ہوئے لفظوں کو محض ابلاغ کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک فنکارانہ اظہار کا وسیلہ بنایا ہے۔ اس افسانے میں ان کا اسلوب تضادات، استعارات اور علامتوں سے بھرپور ہے، جس کی وجہ سے افسانہ ایک سطح سے اوپر اٹھ کر کثیر الجہتی تفہیم کا حامل بن جاتا ہے۔ اگر عنوان پر غور کریں تو محسوس ہوتا ہے کہ“خالی فریم" کا عنوان ہی ایک گہرا استعارہ ہے جو کسی نہ کسی طرح انسانی وجود، سماجی نظام یا سیاسی تاریخ کی عکاسی کرتا ہے۔ فریم کا خالی ہونا ممکنہ طور پر عدم تکمیلیت، گم شدہ شناخت یا حقیقت کے مسخ ہونے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ عدم تکمیلیت (Incompleteness) کا تصور عام طور پر منطق، ریاضی اور فلسفہ میں استعمال ہوتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ نظام یا نظریات مکمل طور پر ہر سوال کا جواب نہیں دے سکتے یا اپنے اندر کچھ خامیاں رکھتے ہیں۔ عدم تکمیلیت کا یہ تصور قاری کو اپنی ذات اور ارد گرد کے ماحول پر غور کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ اس افسانے کا بنیادی مقصد معاشرتی تنقید اور سیاسی بیداری ہے۔ غضنفر نے مکالماتی بیانیہ کے ذریعے ایسے خیالات کو پیش کیا ہے جو روایتی بیانیے سے ہٹ کر ہیں۔ یہاں لغوی تضادات (Oximoron)(مثلاً خالی فریم کا وجود، سنی ہوئی خاموشی) استعمال کر کے مصنف نے سماج کے دوہرے پن، جبر اور انسانی المیے کو اجاگر کیا ہے۔ Oxymoron ایک ایسا لسانی طریقہ کارہے جس میں دو متضاد یا باہم متصادم الفاظ کو جوڑ کر ایک نیا اور اثرانگیز معنی پیدا کیا جاتا ہے۔ یہ عموماً شاعری، نثر اور روزمرہ گفتگو میں استعمال ہوتا ہے تاکہ بیان کو زیادہ پرکشش یا فکر انگیز بنایا جا سکے۔ یہ ا فسانہ اْس معاشرتی/تاریخی سچائی کا ایک بیانوی تجزیہ ہے جو شعوری طور پر دبائی گئی، نکال دی گئی یا "نکال دیے جانے" کے خوف سے محو ہو گئی ہے۔ " خالی فریم" محض ایک افسانہ نہیں بلکہ ہماری اجتماعی یادداشت کی گمشدگی، سنسرشپ، یا نظریاتی تسلط کی علامت ہے۔خالی فریم اس تصویر کی علامت ہے جو موجود نہیں یا جسے وقت، حالات یا معاشرہ "مٹا" چکا ہے۔ یہ شناخت کی گمشدگی، شخصی غیر موجودگی یا کسی وجود کے انکار کی علامت بن جاتا ہے۔ جیسے ہم ایک فریم میں تصویر نہ پائیں تو ہم حیران ہوتے ہیں: کون تھا؟ کہاں گیا؟ کیوں نہیں ہے؟ بالکل ویسے ہی معاشرہ ان لوگوں کو بھول جاتا ہے جو اس کے بیانیے میں جگہ نہیں پاتے۔ خالی فریم وہ چیزہے جو گزرتے وقت اور یادوں کی گواہی دیتا ہے، مگر خاموشی کے ساتھ۔
اس میں نہ عکس ہے، نہ رنگ، صرف خلا ہے اور یہی خلا بہت کچھ کہتا ہے۔ یہ استعارہ وقت کے گزرجانے، یادوں کے مٹنے، اور کہانیوں کے بیصدا ہوجانے کا آئینہ بن جاتا ہے۔ خالی فریم کا مطلب ہے کوئی چیز ابھی مکمل نہیں ہوئی جیسے زندگی کی کہانی ادھوری رہ گئی ہو۔
یہ استعارہ ان خوابوں، خواہشوں، یا رشتوں کی بھی نمائندگی کرتا ہے جو کبھی تصویر نہیں بن پائے۔ خالی فریم یہ سوال بھی اٹھاتا ہے: کیا وہ شخص، وہ چہرہ، وہ یاد، جان بوجھ کر حذف کر دی گئی؟ کیا اسے نظر انداز کیا گیا، یا اجتماعی فراموشی کا شکار ہو گیا؟ یہ استعاراتی جہت خاص طور پر سیاسی یا تاریخی تنقید کے لیے مفید ہے جہاں پورے افراد، قومیں یا نسلیں تاریخ کے "فریم" سے نکال دی جاتی ہیں۔ "خالی فریم" بطور نفسیاتی استعارہ وجودی خلا (void existential) کو ظاہر کرتا ہے۔ ایک ایسی حالت جہاں انسان خود کو دنیا میں بے نام، بے چہرہ، بے صدا محسوس کرتا ہے۔ جیسے زندگی کی دیوار پر ایک خالی جگہ ہو جسے کوئی بھر نہیں پایا۔ اس افسانے میں خالی فریم تاریخی حوالوں، سیاسی غیاب، اور شناخت کی گمشدگی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ قاری کو مجبور کرتا ہے کہ وہ دیکھے کیا غائب ہے، اور کیوں۔ اس فریم کے خالی ہونے میں ہی پورے افسانے کا طنز، دکھ، اور احتجاج پوشیدہ ہے۔ "خالی فریم" ایک ایسا استعارہ ہے جو غیاب کو مرکز بناتا ہے خاموشی میں آواز تلاش کرتا ہے تشخص، یاد ، اور وجود کے سوالات کو ابھارتا ہے اور سب سے اہم، قاری کو "نظر نہ آنے والے" کی طرف متوجہ کرتا ہے
افسانے کی زبان علامتی ہے۔ ٹاور، تصویریں، خالی فریم، نگاہیں، گجرا، ساز، تار یہ سب کچھ استعارات و علامات کا مرقع ہے۔ ان علامتوں کے معنی تہ در تہ کھلتے ہیں۔ مثال کے طور پر خالی فریم کی اصطلاح میں خالی غیر موجود مگر اہم سچائی کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس کا خالی ہونا خود ایک بیانیہ ہے۔ اسی طرح ساز اور گجرا جنہیں "پاؤں تلے" روند دیا گیا فن، محبت، تخلیق، نسائیت اور جمالیات کی نمائندگی کرتے ہیں۔ تاروں سے بندھی تصویر استعارہ ہے ان قوتوں کا جو سچائی کو دبانے کے لیے سنہرے (اقتدار)، روپہلے (معاشی چمک) اور قرمزی (قربانی یا ظلم) وسائل استعمال کرتی ہیں۔
افسانے کا بڑا حصہ مکالمات پر مشتمل ہے جو کہ افسانوی تکنیک میں ایک غیر معمولی تجربہ ہے۔ یہ مکالمات قاری کو بھی مکالمے میں شریک کرتے ہیں۔ اور بیانیے میں تجسس، تجزیہ اور تعبیر کی کئی پرتیں کھولتے ہیں اس طرح یہ ایک فکری مناظرے کی شکل اختیار کر لیتے ہیں جو قاری کے ذہن کو مہمیز کر دیتے ہیں۔ سوال و جواب کی شکل میں یہ بیانیہ ایک طرح کی فکری جدلیات (dialectics) ہے۔ خالی فریم" ایک تضاد (paradox) کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ فریم کا مقصد کسی چیز کو محدود کرکے اسے نمایاں کرنا ہوتا ہے، لیکن اگر فریم ہی خالی ہو تو یہ وجود اور عدم وجود ( being and nothingness ) کے درمیان ایک جدلیاتی کشمکش پیدا کرتا ہے۔ یہ علامت ممکنہ طور پر سماجی حقیقت اور اس کے مسخ ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اور انسانی شناخت کے بحران کو ظاہر کرتی ہے۔ اسی طرح سیاسی نظام کے دکھاوے اور حقیقی خلا کو بے نقاب کرتی ہے۔
غضنفر نے لفظی تضادات (Oximoron)(مثلاً "سنی ہوئی خاموشی"، "دیکھی ان دیکھی تصویر") کو استعمال کر کے تھیسس (thesis) اور اینٹی تھیسس (antithesis) کے درمیان ٹکراؤ پیدا کیا ہے۔ یہ ٹکراؤ آخر کار ایک نئی سنتیھزس (synthesis) کی طرف لے جاتا ہے، جو قاری کو اپنی تشریح کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ مثال کے طور پرفریم نظم و ضبط کی علامت ہے، جبکہ خالی پن کو انارکی یا عدم کی علامت کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔۔ سنتیھزس ایک نئی تفہیم ہے کہ خالی فریم دراصل انسان کی اپنی تعمیر کردہ قید کی علامت ہے۔ افسانہ فرد (individual) اور سماج (society) کے درمیان ایک مسلسل کشمکش کو دکھاتا ہے:۔ فرد اپنی آزادی چاہتا ہے، لیکن سماج اسے فریم میں بند کر دیتا ہے۔ جب یہ فریم خالی ہو جاتا ہے، تو فرد بے مقصدیت (absurdity) محسوس کرتا ہے۔یہی تضاد ایک نئی بیداری (awareness) کی طرف لے جاتا ہے، جہاں فرد سماجی ڈھانچے پر سوال اٹھاتا ہے۔ غضنفر نے کھلا اختتام (openending ) چنا ہے، جو خود ایک جدلیاتی تکنیک ہے۔ خالی فریم کو دیکھنے والا ہر قاری اپنے ذہن میں ایک نیے معنوی پہلو کو تشکیل دیتا ہے۔ اس طرح: خالی فریم" ایک تضاد (paradox) کی صورت میں سامنے آتا ہے۔یہ علامت ممکنہ طور پرسماجی حقیقت اور اس کے مسخ ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اور انسانی شناخت کے بحران کو ظاہر کرتی ہے۔ ساتھ ہی سیاسی نظام کے دکھاوے اور حقیقی خلا کو بے نقاب کرتی ہے۔
اس افسانے میں خالی فریم زندگی کے بے معنی ہونے یعنی لا مقصدیت کا استعارہ بن جاتا ہے۔ گویا یہ افسانہ ایک جدلیاتی ادبی تخلیق ہے جو تضادات، کشمکش اور نئی معنی آفرینی کے ذریعے قاری کو فکری طور پر جھنجوڑتا ہے۔ یہ نہ صرف سماجی و سیاسی تنقید پیش کرتا ہے بلکہ فرد کے اندرونی بحران کو بھی بے نقاب کرتا ہے۔ یہ افسانہ وجودیت existentialism کے کئی پہلوؤں کو چھوتا ہے:"
اس افسانے میں غضنفر نے بصری اسلوب (Style Visual)کا استعمال کیا ہے۔ فریم، تصویر، آنکھیں، روشنی، آتشیں گولے— یہ سب بصری عناصر ہیں جو قاری کی آنکھ کے سامنے ایک پورا کینوس تخلیق کرتے ہیں۔ پورا افسانہ ایک تصویری ترتیب ہے۔ ہر فریم میں ایک کہانی ہے۔ خاکستری پٹیاں، ہڈیاں، لوتھڑے، اور آسمان میں مرغولے ایک بھیانک پس منظر کو ظاہر کرتے ہیں جس پر جمالیات کی جکڑی ہوئی تصویر ایک المیہ کی طرح ابھرتی ہے۔خالی فریم کا اسلوب غضنفر کے فنکارانہ شعور، علامتی فہم، اور لسانی پختگی کا عکاس ہے۔ اس افسانے میں الفاظ اور معنی، منظر اور پس منظر، روشنی اور سایہ، سب ایک مربوط اسلوبیاتی فن میں پروئے گئے ہیں۔ لغوی جوڑوں کے تخلیقی استعمال نے متن کو نہ صرف معنی خیز بلکہ بصری طور پر پْراثر بنا دیا ہے۔ افسانے کا خالی فریم بظاہر خاموش ہے، لیکن وہی سب سے بلند صدا ہے۔
غضنفر نے اس افسانے میں لغوی تضاد و تقابل کی ایک دلکش اور فکری فضا قائم کی ہے۔ مثلاً:
روشنی - بے رنگی "روشن ٹاوروں کے فریموں میں تصویریں آویزاں... بے رنگ اور بے رونق ٹاور کا فریم تصویر سے خالی۔"
تصویر - خالی فریم خالی فریم اس خلا اور محرومی کی علامت ہے جو کسی نظر انداز شدہ سچائی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
چمک دمک - بے رونقی وہ سماجی یا فکری شخصیت جو نمایاں ہونے کے باوجود " مرکزِ نگاہ" نہیں بن پاتی۔
ساز - تیغ، خوشبو - بارود یہ جوڑ سماج میں جمالیات اور جبریت، فن و طاقت کے باہمی تصادم کو ظاہر کرتے ہیں۔
بین المتونیت (Intertextuality) کے تناظر میں خالی فریم کا تجزیہ کرتے وقت ہمیں اس بات پر توجہ دینی چاہیے کہ یہ افسانہ کس طرح دوسرے متون، بیانیے، اور ثقافتی حوالوں سے جڑتا ہے اور کس طرح ایک نیا معنوی جہان تشکیل دیتا ہے۔ یہاں "خالی فریم" نہ صرف ایک علامت ہے بلکہ ایک ایسا سائلنٹ ٹیکسٹ (Silent Text)بھی ہے جو قاری کو معنی تلاش کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ ”خالی فریم" کا مفہوم کئی دیگر ادبی اور ثقافتی متون کی یاد دلاتا ہے۔ مثلاً:
خالی فریم بطور خاموش احتجاج: یہ علامت ہمیں عصری سیاسی اور سماجی متون کی طرف لے جاتی ہے، جہاں غیر موجودگی خود ایک بیانیہ ہے۔ یہ خالی پن ہمیں ان گمشدہ آوازوں، تاریخوں اور چہروں کی یاد دلاتا ہے جو کسی دور میں نمایاں تھے مگر اب قصداً مٹا دیے گئے ہیں۔انتظار حسین، احمد ندیم قاسمی اور قرۃ العین حیدر جیسے افسانہ نگاروں کی تخلیقات میں بھی ایسی غیر موجودگی یا خلا ملتی ہے، جو کسی بڑے دکھ یا تبدیلی کی نمائندگی کرتی ہے۔ خالی فریم اسی روایت سے جڑتا ہے
"خالی فریم" استعماریت، جنگ، یا مہاجرت جیسے تاریخی سیاق و سباق کی نمائندگی بھی کرتا ہے۔ فریم میں تصویر نہ ہونا محض فزیکل غیر موجودگی نہیں بلکہ ایک پوری تاریخ کی گمشدگی ہے۔ یہ ہمیں ماضی کی اْن تصویروں، داستانوں یا شناختوں کی یاد دلاتا ہے جو اب حذف ہو چکی ہیں یا جنھیں حذف کر دیا گیا ہے۔ خالی فریم بصری فنون میں ایک اہم استعارہ ہے۔ جیسے مشہور مصور Magritte René کا مشہور جملہ: "This pipe is not a pipe ہمیں بصری حقیقت اور اس کی معنویت پر سوال کرنے پر مجبور کرتا ہے، ویسے ہی خالی فریم قاری سے کہتا ہے: "یہ جو تم نہیں دیکھ رہے، وہی سب سے زیادہ اہم ہے۔"
اس طرح خالی فریم ایک ایسا بیانیہ بن جاتا ہے جسے قاری خود مکمل کرتا ہے۔ یہ افسانہ Barthes Roland کے مصنف کی موت Death of the Author) The)کے نظریے سے جڑتا ہے، جہاں مصنف پس منظر میں چلا جاتا ہے اور قاری خود تخلیق کا حصہ بن جاتا ہے۔۔یہ افسانہ gaps intertextual پیدا کرتا ہے، جنہیں قاری اپنی علمی، ثقافتی، اور تاریخی بصیرت سے بھرنے کی کوشش کرتا ہے۔ خالی فریم" بین المتونیت کا ایک زبردست نمونہ ہے، جو غیر موجودگی، حذف، اور خاموشی کے ذریعے معنی کی موجودگی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ نہ صرف ماضی کے متون سے جڑتا ہے بلکہ قاری کو ان متون کی تلاش اور تشریح پر مجبور کرتا ہے۔ اس کا ہر خلا، ہر سکوت، ایک نیا بیانیہ تشکیل دیتا ہے—جو شاید الفاظ سے زیادہ بااثر ہے۔
"خالی فریم" اردو افسانے کی ایک ایسی تخلیق ہے جو اپنے فنی ہیش کش، علامتی گہرائی اور فکری پیچیدگی کی وجہ سے قاری کو بار بار پڑھنے پر مجبور کرتی ہے۔ یہ نہ صرف ادبی حوالوں سے مالامال ہے بلکہ انسانی نفسیات، سماجی ساخت اور سیاسی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے قارئین کے لیے ایک سوچ کو جنم دینے والی تحریر ہے۔
غضنفر کے افسانہ ”خالی فریم“کی فکری جدلیات
علی رفاد فتیجی
افسانہ "خالی فریم" غضنفر کا ایک علامتی اور تہہ دار تخلیقی بیانیہ ہے جس میں اسلوبیاتی سطح پر زبان کی شعری قوت، علامتی اشارات، لغوی تضادات اور مکالماتی ترکیبوں کے ذریعے ایک گہرا سماجی و سیاسی شعور منتقل کیا گیا ہے۔زیر نطر مضمون میں اس افسانے کی فلسفہ فکری جدلیات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔فکری جدلیات (Thinking Dialectical) ایک فلسفیانہ تصور ہے جو تضادات (Contradictions) کے ذریعے فکر اور حقیقت کی ترقی کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ نظریہ خاص طور پر جرمن فلسفی ہیگل اور بعد میں کارل مارکس سے منسلک ہے، جنہوں نے اسے اپنے فلسفے کا بنیادی اصول بنایا۔فکری جدلیات کی بنیادی خصوصیات
تھیسس (Thesis) + اینٹی تھیسس (Antithesis) = سنتھیسس (Synthesis) ہے۔
ہر خیال (تھیسس) کا ایک مخالف خیال (اینٹی تھیسس) ہوتا ہے۔ان دونوں کے درمیان کشمکش کے نتیجے میں ایک نئی اور اعلیٰ صورت (سنتھیسس) پیدا ہوتی ہے۔مثال کے طور پر"آزادی" تھیسس ہے اور "کنٹرول" اینٹی تھیسس۔ ان دونوں کے کے تصادم سے "منظم معاشرہ" (سنتھیسس) وجود میں آتا ہے۔ جدلیات کے مطابق، ہر شے مسلسل تبدیلی کے عمل سے گزر رہی ہے۔ یہ تبدیلی داخلی تضادات ( Contradictions Internal) کی وجہ سے ہوتی ہے۔ داخلی تضاد اس وقت پیدا ہوتا ہے جب (thesis) کے اندر ہی ضد (antithesis) کی جھلک موجود ہو یعنی وہ شے خود ہی اپنی نفی یا مخالفت اپنے اندر سموئے ہوئے ہو۔ یہی چیز اسے جامد یا مکمل ہونے سے روکتی ہے، اور فکری سطح پر حرکت، تبدیلی اور ارتقا کو جنم دیتی ہے۔ ہیگل کی جدلیات میں "آزادی" ایک تصور ہے۔مگر اگر ہر کوئی آزاد ہے، تو پھر ایک کی آزادی دوسروں کی آزادی میں مداخلت بن سکتی ہے۔ یعنی آزادی کے تصور میں ہی ایک تضاد چھپا ہوا ہے جس سے آگے چل کر ایک نئی "ترکیب" یعنی قانون یا اخلاقی نظم کی شکل بنتی ہے۔ انتظار حسین کے افسانوں میں ماضی کی یاد اور حال کا زوال ایک مسلسل تضاد کی شکل میں آتا ہے۔ایک ایسی بے یقینی اور تشویش جو قاری کو جمود سے نکال کر سوال اٹھانے پر مجبور کرتی ہے یہ داخلی تضاد صرف متن میں نہیں، خیال کی تشکیل میں بھی موجود ہے۔ فکری جدلیات کی روشنی میں "داخلی تضاد" وہ قوت ہے جو کسی تصور یا بیانیے کے اندر سے اس کی مخالفت پیدا کرتی ہے اسے جمود سے نکال کر ارتقا کی طرف لے جاتی ہے اور قاری یا مفکر کو ایک متحرک، سوالی اور تخلیقی حالت میں رکھتی ہے۔ یہ تضاد کوئی "غلطی" نہیں، بلکہ فکری حرکت کا "انجن" ہے۔ مقداری تبدیلی سے نوعی تبدیلی ( Quantity to Quality) چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں (مقداری) ایک خاص حد کے بعد اچانک بڑی تبدیلی (نوعی) کا سبب بنتی ہیں۔ مثلا پانی کا درجہ حرارت بڑھنے سے آخر کار بخار میں تبدیل ہو جانا اس کی ایک مثال ہے۔ نفی کی نفی (Negation of Negation) اس کی دوسری مثال ہے۔ ہر عمل اپنے مخالف کو جنم دیتا ہے، پھر یہ مخالف بھی نفی ہو جاتا ہے، جس سے ایک نئی صورت ابھرتی ہے۔ ہیگل اور مارکس کا جدلیاتی نظریہ کے مطابق جدلیات خیالات (Ideas) کی دنیا میں ہوتی ہے۔ مارکس نے ہیگل کے نظریے کو مادی دنیا (مادیت پسندانہ جدلیات) پر لاگو کیا اور کہا کہ معاشی اور سماجی تضادات ہی تاریخ کی حرکت کا باعث ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں محنت اور سرمایے کا تضاد آخر کار ایک نئے نظام (اشتراکیت) کو جنم دے سکتا ہے۔ گویا فکری جدلیات ایک ایسا طریقہ کار ہے جو یہ سمجھنے میں مدد کرتا ہے کہ کیسے تضادات اور کشمکش کے ذریعے فکر، معاشرہ اور تاریخ ترقی کرتے ہیں۔ یہ نظریہ فلسفہ، سماجیات اور سیاسیات میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اب اس حوالے سے جب ہم غضنفر کے اس افسانے کو دیکھتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ افسانہ محض ایک کہانی نہیں بلکہ ایک علامتی نظام ہے جو پڑھنے والے کو اپنی لفظیات، تہہ داری اور مکالماتی ساخت کے ذریعے سماجی اور سیاسی حقیقتوں کے جدلیاتی پہلوؤں سے روشناس کراتا ہے۔ غضنفر نے اس افسانے ”خالی فریم“میں زبان کی شعری قوت کو بروئے کار لاتے ہوئے لفظوں کو محض ابلاغ کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک فنکارانہ اظہار کا وسیلہ بنایا ہے۔ اس افسانے میں ان کا اسلوب تضادات، استعارات اور علامتوں سے بھرپور ہے، جس کی وجہ سے افسانہ ایک سطح سے اوپر اٹھ کر کثیر الجہتی تفہیم کا حامل بن جاتا ہے۔ اگر عنوان پر غور کریں تو محسوس ہوتا ہے کہ“خالی فریم" کا عنوان ہی ایک گہرا استعارہ ہے جو کسی نہ کسی طرح انسانی وجود، سماجی نظام یا سیاسی تاریخ کی عکاسی کرتا ہے۔ فریم کا خالی ہونا ممکنہ طور پر عدم تکمیلیت، گم شدہ شناخت یا حقیقت کے مسخ ہونے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ عدم تکمیلیت (Incompleteness) کا تصور عام طور پر منطق، ریاضی اور فلسفہ میں استعمال ہوتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ نظام یا نظریات مکمل طور پر ہر سوال کا جواب نہیں دے سکتے یا اپنے اندر کچھ خامیاں رکھتے ہیں۔ عدم تکمیلیت کا یہ تصور قاری کو اپنی ذات اور ارد گرد کے ماحول پر غور کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ اس افسانے کا بنیادی مقصد معاشرتی تنقید اور سیاسی بیداری ہے۔ غضنفر نے مکالماتی بیانیہ کے ذریعے ایسے خیالات کو پیش کیا ہے جو روایتی بیانیے سے ہٹ کر ہیں۔ یہاں لغوی تضادات (Oximoron)(مثلاً خالی فریم کا وجود، سنی ہوئی خاموشی) استعمال کر کے مصنف نے سماج کے دوہرے پن، جبر اور انسانی المیے کو اجاگر کیا ہے۔ Oxymoron ایک ایسا لسانی طریقہ کارہے جس میں دو متضاد یا باہم متصادم الفاظ کو جوڑ کر ایک نیا اور اثرانگیز معنی پیدا کیا جاتا ہے۔ یہ عموماً شاعری، نثر اور روزمرہ گفتگو میں استعمال ہوتا ہے تاکہ بیان کو زیادہ پرکشش یا فکر انگیز بنایا جا سکے۔ یہ ا فسانہ اْس معاشرتی/تاریخی سچائی کا ایک بیانوی تجزیہ ہے جو شعوری طور پر دبائی گئی، نکال دی گئی یا "نکال دیے جانے" کے خوف سے محو ہو گئی ہے۔ " خالی فریم" محض ایک افسانہ نہیں بلکہ ہماری اجتماعی یادداشت کی گمشدگی، سنسرشپ، یا نظریاتی تسلط کی علامت ہے۔خالی فریم اس تصویر کی علامت ہے جو موجود نہیں یا جسے وقت، حالات یا معاشرہ "مٹا" چکا ہے۔ یہ شناخت کی گمشدگی، شخصی غیر موجودگی یا کسی وجود کے انکار کی علامت بن جاتا ہے۔ جیسے ہم ایک فریم میں تصویر نہ پائیں تو ہم حیران ہوتے ہیں: کون تھا؟ کہاں گیا؟ کیوں نہیں ہے؟ بالکل ویسے ہی معاشرہ ان لوگوں کو بھول جاتا ہے جو اس کے بیانیے میں جگہ نہیں پاتے۔ خالی فریم وہ چیزہے جو گزرتے وقت اور یادوں کی گواہی دیتا ہے، مگر خاموشی کے ساتھ۔
اس میں نہ عکس ہے، نہ رنگ، صرف خلا ہے اور یہی خلا بہت کچھ کہتا ہے۔ یہ استعارہ وقت کے گزرجانے، یادوں کے مٹنے، اور کہانیوں کے بیصدا ہوجانے کا آئینہ بن جاتا ہے۔ خالی فریم کا مطلب ہے کوئی چیز ابھی مکمل نہیں ہوئی جیسے زندگی کی کہانی ادھوری رہ گئی ہو۔
یہ استعارہ ان خوابوں، خواہشوں، یا رشتوں کی بھی نمائندگی کرتا ہے جو کبھی تصویر نہیں بن پائے۔ خالی فریم یہ سوال بھی اٹھاتا ہے: کیا وہ شخص، وہ چہرہ، وہ یاد، جان بوجھ کر حذف کر دی گئی؟ کیا اسے نظر انداز کیا گیا، یا اجتماعی فراموشی کا شکار ہو گیا؟ یہ استعاراتی جہت خاص طور پر سیاسی یا تاریخی تنقید کے لیے مفید ہے جہاں پورے افراد، قومیں یا نسلیں تاریخ کے "فریم" سے نکال دی جاتی ہیں۔ "خالی فریم" بطور نفسیاتی استعارہ وجودی خلا (void existential) کو ظاہر کرتا ہے۔ ایک ایسی حالت جہاں انسان خود کو دنیا میں بے نام، بے چہرہ، بے صدا محسوس کرتا ہے۔ جیسے زندگی کی دیوار پر ایک خالی جگہ ہو جسے کوئی بھر نہیں پایا۔ اس افسانے میں خالی فریم تاریخی حوالوں، سیاسی غیاب، اور شناخت کی گمشدگی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ قاری کو مجبور کرتا ہے کہ وہ دیکھے کیا غائب ہے، اور کیوں۔ اس فریم کے خالی ہونے میں ہی پورے افسانے کا طنز، دکھ، اور احتجاج پوشیدہ ہے۔ "خالی فریم" ایک ایسا استعارہ ہے جو غیاب کو مرکز بناتا ہے خاموشی میں آواز تلاش کرتا ہے تشخص، یاد ، اور وجود کے سوالات کو ابھارتا ہے اور سب سے اہم، قاری کو "نظر نہ آنے والے" کی طرف متوجہ کرتا ہے
افسانے کی زبان علامتی ہے۔ ٹاور، تصویریں، خالی فریم، نگاہیں، گجرا، ساز، تار یہ سب کچھ استعارات و علامات کا مرقع ہے۔ ان علامتوں کے معنی تہ در تہ کھلتے ہیں۔ مثال کے طور پر خالی فریم کی اصطلاح میں خالی غیر موجود مگر اہم سچائی کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس کا خالی ہونا خود ایک بیانیہ ہے۔ اسی طرح ساز اور گجرا جنہیں "پاؤں تلے" روند دیا گیا فن، محبت، تخلیق، نسائیت اور جمالیات کی نمائندگی کرتے ہیں۔ تاروں سے بندھی تصویر استعارہ ہے ان قوتوں کا جو سچائی کو دبانے کے لیے سنہرے (اقتدار)، روپہلے (معاشی چمک) اور قرمزی (قربانی یا ظلم) وسائل استعمال کرتی ہیں۔
افسانے کا بڑا حصہ مکالمات پر مشتمل ہے جو کہ افسانوی تکنیک میں ایک غیر معمولی تجربہ ہے۔ یہ مکالمات قاری کو بھی مکالمے میں شریک کرتے ہیں۔ اور بیانیے میں تجسس، تجزیہ اور تعبیر کی کئی پرتیں کھولتے ہیں اس طرح یہ ایک فکری مناظرے کی شکل اختیار کر لیتے ہیں جو قاری کے ذہن کو مہمیز کر دیتے ہیں۔ سوال و جواب کی شکل میں یہ بیانیہ ایک طرح کی فکری جدلیات (dialectics) ہے۔ خالی فریم" ایک تضاد (paradox) کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ فریم کا مقصد کسی چیز کو محدود کرکے اسے نمایاں کرنا ہوتا ہے، لیکن اگر فریم ہی خالی ہو تو یہ وجود اور عدم وجود ( being and nothingness ) کے درمیان ایک جدلیاتی کشمکش پیدا کرتا ہے۔ یہ علامت ممکنہ طور پر سماجی حقیقت اور اس کے مسخ ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اور انسانی شناخت کے بحران کو ظاہر کرتی ہے۔ اسی طرح سیاسی نظام کے دکھاوے اور حقیقی خلا کو بے نقاب کرتی ہے۔
غضنفر نے لفظی تضادات (Oximoron)(مثلاً "سنی ہوئی خاموشی"، "دیکھی ان دیکھی تصویر") کو استعمال کر کے تھیسس (thesis) اور اینٹی تھیسس (antithesis) کے درمیان ٹکراؤ پیدا کیا ہے۔ یہ ٹکراؤ آخر کار ایک نئی سنتیھزس (synthesis) کی طرف لے جاتا ہے، جو قاری کو اپنی تشریح کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ مثال کے طور پرفریم نظم و ضبط کی علامت ہے، جبکہ خالی پن کو انارکی یا عدم کی علامت کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔۔ سنتیھزس ایک نئی تفہیم ہے کہ خالی فریم دراصل انسان کی اپنی تعمیر کردہ قید کی علامت ہے۔ افسانہ فرد (individual) اور سماج (society) کے درمیان ایک مسلسل کشمکش کو دکھاتا ہے:۔ فرد اپنی آزادی چاہتا ہے، لیکن سماج اسے فریم میں بند کر دیتا ہے۔ جب یہ فریم خالی ہو جاتا ہے، تو فرد بے مقصدیت (absurdity) محسوس کرتا ہے۔یہی تضاد ایک نئی بیداری (awareness) کی طرف لے جاتا ہے، جہاں فرد سماجی ڈھانچے پر سوال اٹھاتا ہے۔ غضنفر نے کھلا اختتام (openending ) چنا ہے، جو خود ایک جدلیاتی تکنیک ہے۔ خالی فریم کو دیکھنے والا ہر قاری اپنے ذہن میں ایک نیے معنوی پہلو کو تشکیل دیتا ہے۔ اس طرح: خالی فریم" ایک تضاد (paradox) کی صورت میں سامنے آتا ہے۔یہ علامت ممکنہ طور پرسماجی حقیقت اور اس کے مسخ ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اور انسانی شناخت کے بحران کو ظاہر کرتی ہے۔ ساتھ ہی سیاسی نظام کے دکھاوے اور حقیقی خلا کو بے نقاب کرتی ہے۔
اس افسانے میں خالی فریم زندگی کے بے معنی ہونے یعنی لا مقصدیت کا استعارہ بن جاتا ہے۔ گویا یہ افسانہ ایک جدلیاتی ادبی تخلیق ہے جو تضادات، کشمکش اور نئی معنی آفرینی کے ذریعے قاری کو فکری طور پر جھنجوڑتا ہے۔ یہ نہ صرف سماجی و سیاسی تنقید پیش کرتا ہے بلکہ فرد کے اندرونی بحران کو بھی بے نقاب کرتا ہے۔ یہ افسانہ وجودیت existentialism کے کئی پہلوؤں کو چھوتا ہے:"
اس افسانے میں غضنفر نے بصری اسلوب (Style Visual)کا استعمال کیا ہے۔ فریم، تصویر، آنکھیں، روشنی، آتشیں گولے— یہ سب بصری عناصر ہیں جو قاری کی آنکھ کے سامنے ایک پورا کینوس تخلیق کرتے ہیں۔ پورا افسانہ ایک تصویری ترتیب ہے۔ ہر فریم میں ایک کہانی ہے۔ خاکستری پٹیاں، ہڈیاں، لوتھڑے، اور آسمان میں مرغولے ایک بھیانک پس منظر کو ظاہر کرتے ہیں جس پر جمالیات کی جکڑی ہوئی تصویر ایک المیہ کی طرح ابھرتی ہے۔خالی فریم کا اسلوب غضنفر کے فنکارانہ شعور، علامتی فہم، اور لسانی پختگی کا عکاس ہے۔ اس افسانے میں الفاظ اور معنی، منظر اور پس منظر، روشنی اور سایہ، سب ایک مربوط اسلوبیاتی فن میں پروئے گئے ہیں۔ لغوی جوڑوں کے تخلیقی استعمال نے متن کو نہ صرف معنی خیز بلکہ بصری طور پر پْراثر بنا دیا ہے۔ افسانے کا خالی فریم بظاہر خاموش ہے، لیکن وہی سب سے بلند صدا ہے۔
غضنفر نے اس افسانے میں لغوی تضاد و تقابل کی ایک دلکش اور فکری فضا قائم کی ہے۔ مثلاً:
روشنی - بے رنگی "روشن ٹاوروں کے فریموں میں تصویریں آویزاں... بے رنگ اور بے رونق ٹاور کا فریم تصویر سے خالی۔"
تصویر - خالی فریم خالی فریم اس خلا اور محرومی کی علامت ہے جو کسی نظر انداز شدہ سچائی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
چمک دمک - بے رونقی وہ سماجی یا فکری شخصیت جو نمایاں ہونے کے باوجود " مرکزِ نگاہ" نہیں بن پاتی۔
ساز - تیغ، خوشبو - بارود یہ جوڑ سماج میں جمالیات اور جبریت، فن و طاقت کے باہمی تصادم کو ظاہر کرتے ہیں۔
بین المتونیت (Intertextuality) کے تناظر میں خالی فریم کا تجزیہ کرتے وقت ہمیں اس بات پر توجہ دینی چاہیے کہ یہ افسانہ کس طرح دوسرے متون، بیانیے، اور ثقافتی حوالوں سے جڑتا ہے اور کس طرح ایک نیا معنوی جہان تشکیل دیتا ہے۔ یہاں "خالی فریم" نہ صرف ایک علامت ہے بلکہ ایک ایسا سائلنٹ ٹیکسٹ (Silent Text)بھی ہے جو قاری کو معنی تلاش کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ ”خالی فریم" کا مفہوم کئی دیگر ادبی اور ثقافتی متون کی یاد دلاتا ہے۔ مثلاً:
خالی فریم بطور خاموش احتجاج: یہ علامت ہمیں عصری سیاسی اور سماجی متون کی طرف لے جاتی ہے، جہاں غیر موجودگی خود ایک بیانیہ ہے۔ یہ خالی پن ہمیں ان گمشدہ آوازوں، تاریخوں اور چہروں کی یاد دلاتا ہے جو کسی دور میں نمایاں تھے مگر اب قصداً مٹا دیے گئے ہیں۔انتظار حسین، احمد ندیم قاسمی اور قرۃ العین حیدر جیسے افسانہ نگاروں کی تخلیقات میں بھی ایسی غیر موجودگی یا خلا ملتی ہے، جو کسی بڑے دکھ یا تبدیلی کی نمائندگی کرتی ہے۔ خالی فریم اسی روایت سے جڑتا ہے
"خالی فریم" استعماریت، جنگ، یا مہاجرت جیسے تاریخی سیاق و سباق کی نمائندگی بھی کرتا ہے۔ فریم میں تصویر نہ ہونا محض فزیکل غیر موجودگی نہیں بلکہ ایک پوری تاریخ کی گمشدگی ہے۔ یہ ہمیں ماضی کی اْن تصویروں، داستانوں یا شناختوں کی یاد دلاتا ہے جو اب حذف ہو چکی ہیں یا جنھیں حذف کر دیا گیا ہے۔ خالی فریم بصری فنون میں ایک اہم استعارہ ہے۔ جیسے مشہور مصور Magritte René کا مشہور جملہ: "This pipe is not a pipe ہمیں بصری حقیقت اور اس کی معنویت پر سوال کرنے پر مجبور کرتا ہے، ویسے ہی خالی فریم قاری سے کہتا ہے: "یہ جو تم نہیں دیکھ رہے، وہی سب سے زیادہ اہم ہے۔"
اس طرح خالی فریم ایک ایسا بیانیہ بن جاتا ہے جسے قاری خود مکمل کرتا ہے۔ یہ افسانہ Barthes Roland کے مصنف کی موت Death of the Author) The)کے نظریے سے جڑتا ہے، جہاں مصنف پس منظر میں چلا جاتا ہے اور قاری خود تخلیق کا حصہ بن جاتا ہے۔۔یہ افسانہ gaps intertextual پیدا کرتا ہے، جنہیں قاری اپنی علمی، ثقافتی، اور تاریخی بصیرت سے بھرنے کی کوشش کرتا ہے۔ خالی فریم" بین المتونیت کا ایک زبردست نمونہ ہے، جو غیر موجودگی، حذف، اور خاموشی کے ذریعے معنی کی موجودگی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ نہ صرف ماضی کے متون سے جڑتا ہے بلکہ قاری کو ان متون کی تلاش اور تشریح پر مجبور کرتا ہے۔ اس کا ہر خلا، ہر سکوت، ایک نیا بیانیہ تشکیل دیتا ہے—جو شاید الفاظ سے زیادہ بااثر ہے۔
"خالی فریم" اردو افسانے کی ایک ایسی تخلیق ہے جو اپنے فنی ہیش کش، علامتی گہرائی اور فکری پیچیدگی کی وجہ سے قاری کو بار بار پڑھنے پر مجبور کرتی ہے۔ یہ نہ صرف ادبی حوالوں سے مالامال ہے بلکہ انسانی نفسیات، سماجی ساخت اور سیاسی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے قارئین کے لیے ایک سوچ کو جنم دینے والی تحریر ہے۔