افسانہ : "اکیانوے"
افسانہ : "اکیانوے"
Oct 16, 2024
افسانہ : "اکیانوے"
مصنف : شہریار قاضی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ایک پُرانی اور اداس کوٹھڑی ہوں ۔مگر جب کبھی اس پاتال سے کرلانے کی آواز آتی ہے تو میری اذیت سوا ہونے لگتی ہے ۔یہ آواز یونہی آتی رہی تو میں خود ہی کسی روز ملبے کا ڈھیر ہو جاٶں گی۔
اس درد کے الاپ سے میری اس دیوار پر میخوں سے جڑی آہنی پتری تھرتھراتی ہے ، اِس کی میخیں جو میرے اندر پیوست ہیں، ہلنے لگتی ہیں ۔ یہ آہنی پتری جس پر نا جانے زنگ کی کتنی تہیں جم چکی ہیں ، مگر نقش کُندہ نمبر "اکیانوے "جوں کا توں ہے۔لیکن یہ نمبر میرا نہیں ہے
اس اکیانوے کی داستان کے لیے
کوئی آدھی صدی پیچھے جانا ہوگا ،جو کل ہی کی بات لگتی ہے
یہاں میرے سامنے اک لمبی سی راہ گزر تھی جو شہروں کو ملانے والی بڑی سی سٹرک کے بائیں طرف سے شروع ہو کر ایک چھوٹے سے گاوں کی طرف کھلتی تھی ۔ جہاں ایک روز لگ بھگ دو سو کے قریب نو عمر پودے یوں حاشیوں کی صورت لگائے گئے کہ راہ گزر اُجلے قرطاس کی طرح نمایاں نظر آنے لگی۔
وہ کچھ ہی برسوں میں اتنے بڑھ گئے کہ یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی تھی کہ اگر ساتھ بسے گاوں کے آخری مکان کا کوئی مکین اپنی چھت پر چڑھ کر دیکھتا ہو گا تو اسے ان کے سر ضرور نظر آتے ہوں گے ۔
پرندوں کے لیے یہ پیڑ ہاوسنگ سوسائٹی کی مانند تھے۔ جہاں وہ نہ صرف اپنے گھونسلوں میں رہتے ، بلکہ اس کی بالکونیوں میں بیٹھ کر اپنے دکھ سکھ بھی سانجھے کر لیا کرتے تھے ۔انھی میں ایک پیڑ جس کے سینے پر "اکیانوے" نمبر آویزاں تھا، دائیں طرف، گاٶں کے قریب ترین والے پیڑوں میں سے تھا ۔ دوسرے پیڑوں اور پنچھیوں کا کہنا تھا کہ اس پر جنوں کا بسیرا ہے ، اس لیے وہاں نہ تو کوئی گھونسلہ تھا اور نہ ہی کوئی پرندہ آکر بیٹھتا تھا۔جب کوئی نیا پور انڈوں سے باہر آتا تو ان کی دیگر تربیتوں کے ساتھ ساتھ یہ خاص تلقین بھی کر دی جاتی کہ اکیانوے کے پاس کبھی نہیں جانا،وہاں سایہ ہے۔
اگر کبھی کوئی بُھولا بِسرا مسافر پرندہ اس پر آبیٹھتا تو یہاں کے مقامی پرندے اسے اس طرح خبردار کرتے کہ وہ اس تیزی سے اڑتا گویا اسے ایک دم احساس ہوا ہو کہ وہ شاخ کے بجائے دہکتے انگاروں پر بیٹھا ہے ۔
مگر وہ بچپن سے ایسا نہیں تھا، وہ اس وقت نازاں تھا جب یہاں سب سے پہلے اسے لگایا گیا تھا چونکہ نمبروں کی آلاٹمنٹ سڑک کی طرف سے ہوئی تھی اس لیے وہ گاوں میں دائیں طرف سب سے پہلا مگر نمبروں کے حساب سے اکیانوے نمبر کا پیڑ تھا۔ جب جوان ہوا تو اس کی چھتر چھایاں باقیوں سے قدرے زیادہ تھی ۔ موٹے تنے ،دور تک پھیلتی ٹہنیوں اور سب سے زیادہ باتونی اور ہنس مُکھ ہونے کی وجہ سے اس پر ایک سے زیادہ گھونسلے تھے ۔
اکیانوے کی زندگی میں بدلاٶ اس وقت آیا جب ایک رات ، کوئی نوجوان جو اس گاٶں کا نہیں تھا اپنے ہاتھوں کو مسلتا ہوا اُس کے نیچے آن کھڑا ہوا۔
کچھ ہی دیر بعد اسی کی عمر کے لگ بھگ ایک لڑکی ، اپنے دوپٹے کو بِلا ضرورت درست کرتی ،خوف سے دائیں بائیں دیکھتی، اس کے پاس آ ٹھہری۔
وہ کتنے ہی لمحے خوف سے اِدھر اُدھر دیکھتے رہے ، پھر وہ ہمت جمع کرکے بولی
"تم کب سے یہاں کھڑے ہو ؟"
"ہمیشہ سے" اُس نے مسکراتے ہوئے کہا
"کسی نے تمہیں دیکھا تو نہیں ؟"
" نہیں "
"مجھے لگا شاید تم یہاں موجود نہیں ہو گے ۔ تمہیں ایک دن کی وہ دو تین ملاقاتیں ، گزرے بیس دنوں میں بھول گئی ہوں گی"
"عظمیٰ ! بیس دن نہیں ، یہ بیس صدیوں کا عرصہ تھا جس کے ایک ایک پَل، میں نے اس وقت کو یاد کیا، جب اُس روز میں نے تمہارے کسی رشتہ دار کی شادی میں تمہیں دیکھا۔ تمہاری وہ ہنسی جسے دیکھ کر گماں ہوتا کہ انسان سرسوں کے اُن پیلے پُھولوں کے درمیان کھڑا ہے جنہیں ہوا سہلا رہی ہو۔
اور تمہاری آنکھیں۔۔۔۔۔۔۔۔“
”اچھا بس بس ۔۔۔ کہاں سے سیکھی ہیں یہ باتیں ؟“ عظمیٰ نے شرماتے ہوئے اپنا سفید قرَیب کا دوپٹہ چہرے پر کر لیا ۔
اکیانوے کو یوں لگا جیسے سرسوں کے کھیت نے دھند اُوڑھ لی ہو۔
"یہ سیکھنے کی باتیں کہاں ہیں ۔بس جب خدا عشق عطا کرتا ہے تو مُحب کو محبوب کے خدوخال کا ترجمہ کرنا آ ہی جاتا ہے۔"
وہ پھر سے شرما گئی۔
اچھا اب تم جاٶ اور پرسوں اِسی وقت آجانا، ابا نے دوسرے گاوں جانا ہے اور اُدھر ہی رکیں گے۔
وہ یہ کہتی ، دوپٹہ سنبھالے ، گاوں کی طرف پلٹ گئی۔
بس پھر یہ سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔
عظمیٰ اسے بتا دیتی کہ اب وہ کس روز آئے اور وہ ٹھیک اسی وقت پہنچ جاتا۔ اور ہر بار عظمیٰ کا حُسن، اُس کی ادائیں اک نئے قصیدے کی صورت پڑھی جاتیں۔کبھی اس کی ہنسی سے سرسوں کے پھول دوہرے ہو ہو جاتے۔ کبھی اس کی آنکھیں اس سمندر کی مانند دکھائی دیتیں جس کی گہرائی ماپنے کو زمانے بھر کے اِکو ساونڈر Echo) (sounder فیل ہو چکے ہیں۔ شازل کے ساتھ ساتھ اکیانوے کی بھی یہی جی چاہتا کہ وقت تھم جائے اور وہ یہاں سے کبھی نہ جائے ۔ مگر وہ ہر بار لوٹ جاتی ۔ شازل بھی جب سڑک کے پار بسے شہر کو لوٹ جاتا تو اکیانوے اُس کے لفظوں اور عظمیٰ کی ہنسی سے کئی کئی دن سرشار رہتا ۔وہ کسی اور جہان میں مگن رہنے لگا تھا۔ آس پاس کے پیڑ اور پنچھی اس کو بلاتے تو وہ چونک اٹھتا ۔
پھر ایک روز جب عظمیٰ آئی تو سرسوں کے پھول مرجھائے ہوئے تھے۔ سمندروں کی جگہ ، نامیب اور گوبی کے صحراوں نے لے لی تھیں۔
"کیا ہوا ، یہ چہرہ بجھا بجھا سا کیوں ہے؟
"یہ چہرہ تو اب سدا ایسا ہی رہے گا شازل ۔"
"عظمیٰ ایسا کیوں بولتی ہو ۔ بتاٶ کیا بات ہے۔ کیا کسی نے ہماری شکایت کردی ؟"
"نہیں میرا رشتہ سلیم سے طے پا گیا ہے۔ وہ سعودیہ میں سینٹری کا کام کرتا ہے ۔ شادی کے فورا" بعد مجھے بھی اپنے ساتھ وہیں لے جائے گا۔"
جہاں یہ خبر شازل پر پہاڑ بن کر ٹوٹی تھی
اکیانوے کو لگا وہ پورا کا پورا زمین میں دھنس گیا ہے جہاں اس کی سانس بند ہو رہی ہے۔
"مم۔۔۔۔۔مگر میں تمہارے بغیر کیسے رہوں گا ۔ میں مر جاوں گا ، مجھ سے یہ جدائی کا بوجھ نہیں اٹھایا جائے گا ۔؟"
” شازل ہر انسان میں اتنی جگہ ہوتی ہے جتنی یہ کائنات ہے۔ مجھے یقین ہے جدائی کا یہ دکھ تم اپنے اندر سما لو گے۔“
عظمیٰ ہمیشہ کے لیے وہاں سے چلی گئی تھی اور شازل بھی، جس نے پھر کبھی راہ گزر کا رخ نہیں کیا ۔
اکیانوے ہر وقت ان کی اُس آخری ملاقات میں کھویا رہتا اس کا جسم سوکھنے لگا تھا۔ کئی ٹہنیاں ٹوٹ کر گرگئی تھیں ۔وہ اب نہ کسی سے کوئی بات کرتا اور نہ جواب دیتا ۔
وہ کچھ برسوں سے ایسے ہی خاموش کھڑا تھا کہ ایک روز اس نے اپنے قریب کھڑے
دتو جو وڈیرے سائیں کا منشی تھا، اور غفورے کے درمیان چلتی بات کو سُنا تھا۔
”میں نے سنا ہے شاہ صاب یہ کچی سڑک کو کھلا اور پکا کرنے لگے ہیں ؟“
”ہاں غفورے ۔۔۔ اور یہ سارے درخت بھی اب کاٹنے پڑیں گے“
یہ کہتے ہوئے دتو نے یوں ہی اوپر درختوں کی طرف دیکھا تھا، اور وہ جو ان کی باتیں بڑے انہماک سے سن رہا تھا یکایک گردن دائیں بائیں یوں گھمانے لگا جیسے اس کی کنکھیوں کی چوری پکڑی گئی ہو۔
یہ بات جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی تھی ۔ گاٶں کا بچہ بچہ اب اِس بات سے باخبر تھا کہ یہ درخت کٹنے والے ہیں ۔ ایسے میں بھلا باقی فلیٹوں اور ان کے مکینوں کوکیسے خبر نہ ہوتی۔ کئی دن راہ گزر پر گہرا سکوت چھایا رہا۔ پنچھی صبح کو جاتے اور شام کے بعد آتے ، پیڑوں سے تو دور وہ یہاں آپس میں بھی کوئی بات نہ کرتے ہاں کبھی کبھار سر کو اپنے پنجوں سے یوں کُھجاتے جیسے کچھ اشاروں میں کہہ رہے ہوں۔
پھر ایک رات جب گاوں میں موجود عمر رسیدہ گلوں سے لمبے دورانیے والی کھانسیوں تک کی آوازیں آنا بند ہوگئی تھیں، راہ گزر پر اس بحث کا آغاز ہوا جو شفق کی سُرخی پھوٹنے تک جاری رہی۔
ہوا یوں کے فلیٹ نمبر 11 پر بنے ایک گھونسلے سے دبی دبی سرگوشیاں اُبھریں۔
”مگر ابو، ہم کچھ دن تو اور ادھر رہ سکتے ہیں“ ”نہیں۔۔ ۔چُپ۔۔۔ اپنی چونچ بند رکھو اور سو جاٶ“
"کیا کہا تم نے ؟؟؟ " گیارہ نمبر اِس زور سے چِلایا کہ تمام پیڑ عالم استغراق سے باہر آگئے۔
”سنا تم سب نے ؟" گیارہ نمبر پھر گویا ہوا۔
"ہاں تو اور کیا کروں میں ؟، اور پھر یہ باقی سب کی مشاورت سے ہی ہوا ہے " پرندے نے گھونسلے سے اڑ کر ایک پتلی سی شاخ پر بیٹھتے ہوۓ کہا۔
اس بات کا ہونا تھا کہ ہر پیڑ کی فوکس لائٹ کا رخ اس طرف ہوگیا تھا جہاں ان پر گھونسلے بنائے گئے تھے۔
سب پرندوں کی آنکھیں جُھکی ہوئی تھیں۔
دفعتاً ایک ضعیف پرندہ اپنے گھونسلے سے اڑ کر سب پیڑوں کے سامنے سے یوں گزرنے لگا جیسے کسی محاز پر سپہ سالار اگلی صف کے سامنے سے اپنا گھوڑا دوڑاتا ہے ، اور پھر چکر کاٹ کر واپس اپنی بالکونی پر آبیٹھا۔ جب اس کے تنفس کی رفتار اس قدر آہستہ ہوگئی کہ اب بولنے پر اس کی زبان لڑکھڑائے گئی نہیں ، اُس نے سب پیڑوں کو مخاطب کیا۔
"ہم نے سنا ہے آج کل میں تمہیں کاٹ دیا جائے گا ۔ہم نے اپنا انتظام کرلیا ہے۔سویرے ہم یہاں سے چلے جائیں گے ۔"
”آہ! تو تم نے ہم کو مرنے سے پہلے ہی مرا ہوا سمجھ لیا ؟ کیا ہمارے جسموں کا تم پر اتنا بھی حق نہیں کہ جب یہ کٹ جائیں تو تم ان کے لیے غم کے گیت گاٶ“
ہاں! تم نے ہمیں رہنے کو تنے اور سر ڈھانپنے کو اپنے پتے دیے مگر ہم نے بھی اپنی سریلی آوازوں سے تمہارے دلوں کو لُبھایا، تمہیں آباد رکھا "۔۔۔۔ وہ پھر سے ہانپنے لگا تھا۔ اب سارے پنچھی گھونسلوں سے اڑ کر ٹہنیوں پر آ بیٹھے تھے۔
"صرف ٹھکانا ہی نہیں ہم نے تمہارے دکھ بھی اپنے دکھ سمجھے تھے۔ جب تم تلاش رزق کو جاتے تھے تو ہم نے تمہاری اولادوں کو تحفظ دیا۔ اور جب کبھی برکھا برستی یا ہوائیں زوروں پر ہوتی تھیں اور تم دیر تک نہیں آتے تھے تو ہم پریشان ،تمہاری راہیں تکتے تھے اور تمہیں دور سے آتا دیکھ کر اتنا ہی اطمینان محسوس کرتے تھے جتنا تمہارے بچے، تمہارے لوٹ آنے پر، گرم پنکھوں تلے محسوس کرتے تھے۔
ہم نے برسوں سے تمہارے اور تمہارے پرکھوں کے بدبودار پِیخال کو اپنی حسین ٹہنیوں پر چپ چاپ سہا اور ماتھے پر شکن تک نہ لائے۔
اور جب کبھی پیخال ٹہنیوں پر ٹکنے کی بجائے راہ گزر پر جا گرتا اور وہ تم پر چلانے لگتی تو ہم نے تمہارا دفاع کیا۔“
" ارے بھئی ان سے کیا گلہ کرنا، اچھا ہے اب کم بختوں کی بدبو سے جان چھوٹے گی " راہ گزر نے طنز اور کلمہ شکر ایک ساتھ ادا کیا اور پھر زور دار قہقہہ لگایا۔
صبح ہوتے ہی سوساٸٹی کےسارے مکین وہاں سے ہمیشہ کے لیے کوچ کرگٸے۔
دن چڑھا ، اور کچھوے کی طرح رینگنے لگا پھر دن ڈھلنے سے پہلے بہت سی مشینیں اور ٹرک راہ گزر کے ساتھ والے خالی رقبے میں آن ٹھہرے۔ وہ رات ان پر ، اس قیدی کی طرح گزری جسے صبح تختہ دار پر لے جایا جانا ہوتا ہے۔ وہ بیتے وقت کو آخری بار یاد کررہے تھے۔
صُبح اکیانوے کی آنکھ ملی جلی آوازوں کے شور سے کُھلی تھی ۔ اس نے جب غور سے دیکھا تو گاوں کے ہر طرح کی عمر کے لوگ وہاں جمع تھے۔
درختوں کو کاٹنے والا عملہ اپنی تیاریوں میں مشغول تھا۔
راہ گزر آرام سے لیٹی تھی کیونکہ جانا صرف پنچھیوں کو پڑا تھا ، اور اب صرف درختوں نے کٹنا تھا۔ وہ تو ہمیشہ یہیں رہے گی۔
اور پھر خود پر مصنوعی اداسی طاری کرتے ہوئے پیڑوں سے کہنے لگی۔ ”اچھا الوداع ! یہ بھی دستور ہے کہ ہر ذِی روح کو لوٹ کر جانا ہے ۔ میں بے بس ہوں ان لوگوں کے آگے وگرنہ تمہیں ہمیشہ اپنے اندر پکڑ کر رکھتی، آہ !افسوس ۔۔۔۔“
اکیانوے جو برسوں سے خاموش کھڑا تھا ، ذرا راہ گزر کی طرف جُھکا اور کہنے لگا :"معاف کیجیے گا ،آپ نے نہیں ، ہم نے پکڑ رکھا تھا کہ کٹاو کا شکار نہ ہو جاٶ"
راہ گزر کو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا۔ سارے پیڑ رقص کرنے لگے ۔ یہ رقص موت سے پہلے زندگی کا حق ادا کردینے کا رقص تھا ۔
اب گھرررررر۔۔۔۔۔۔ گھرررر کی آوازیں اکیانونے کے قریب ہوتی جارہی تھیں
اس کے بعد باقی سب کو بھی منہ کے بل گرایا جانے لگا۔
دوپہر کو ایک منچلا جو اکیانوے کے گرے ہوئے تنے پر بیٹھا تھا یوں ہی وقت گزاری کے لیے اُس میں پیوست پتری کو نکالنے لگا اور پھر اس کے ساتھ جڑی میخوں کو میری اِس دیوار پر لگا کر اینٹ سے ٹھونک دیا۔
کچھ ہی دنوں بعد راہ گزر کو تارکول کے تابوت میں ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا گیا ۔
اب رات کے پچھلے پہر اس تابوت سے راہ گزر کے بین کی آواز آتی ہے ۔ وہ جب پرندوں اور درختوں کو یاد کر کے کرلاتی ہے تو میری اذیت سوا ہونے لگتی ہے ۔یہ آواز یونہی آتی رہی تو میں خود ہی کسی روز ملبے کا ڈھیر ہو جاٶں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افسانہ : "اکیانوے"
مصنف : شہریار قاضی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ایک پُرانی اور اداس کوٹھڑی ہوں ۔مگر جب کبھی اس پاتال سے کرلانے کی آواز آتی ہے تو میری اذیت سوا ہونے لگتی ہے ۔یہ آواز یونہی آتی رہی تو میں خود ہی کسی روز ملبے کا ڈھیر ہو جاٶں گی۔
اس درد کے الاپ سے میری اس دیوار پر میخوں سے جڑی آہنی پتری تھرتھراتی ہے ، اِس کی میخیں جو میرے اندر پیوست ہیں، ہلنے لگتی ہیں ۔ یہ آہنی پتری جس پر نا جانے زنگ کی کتنی تہیں جم چکی ہیں ، مگر نقش کُندہ نمبر "اکیانوے "جوں کا توں ہے۔لیکن یہ نمبر میرا نہیں ہے
اس اکیانوے کی داستان کے لیے
کوئی آدھی صدی پیچھے جانا ہوگا ،جو کل ہی کی بات لگتی ہے
یہاں میرے سامنے اک لمبی سی راہ گزر تھی جو شہروں کو ملانے والی بڑی سی سٹرک کے بائیں طرف سے شروع ہو کر ایک چھوٹے سے گاوں کی طرف کھلتی تھی ۔ جہاں ایک روز لگ بھگ دو سو کے قریب نو عمر پودے یوں حاشیوں کی صورت لگائے گئے کہ راہ گزر اُجلے قرطاس کی طرح نمایاں نظر آنے لگی۔
وہ کچھ ہی برسوں میں اتنے بڑھ گئے کہ یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی تھی کہ اگر ساتھ بسے گاوں کے آخری مکان کا کوئی مکین اپنی چھت پر چڑھ کر دیکھتا ہو گا تو اسے ان کے سر ضرور نظر آتے ہوں گے ۔
پرندوں کے لیے یہ پیڑ ہاوسنگ سوسائٹی کی مانند تھے۔ جہاں وہ نہ صرف اپنے گھونسلوں میں رہتے ، بلکہ اس کی بالکونیوں میں بیٹھ کر اپنے دکھ سکھ بھی سانجھے کر لیا کرتے تھے ۔انھی میں ایک پیڑ جس کے سینے پر "اکیانوے" نمبر آویزاں تھا، دائیں طرف، گاٶں کے قریب ترین والے پیڑوں میں سے تھا ۔ دوسرے پیڑوں اور پنچھیوں کا کہنا تھا کہ اس پر جنوں کا بسیرا ہے ، اس لیے وہاں نہ تو کوئی گھونسلہ تھا اور نہ ہی کوئی پرندہ آکر بیٹھتا تھا۔جب کوئی نیا پور انڈوں سے باہر آتا تو ان کی دیگر تربیتوں کے ساتھ ساتھ یہ خاص تلقین بھی کر دی جاتی کہ اکیانوے کے پاس کبھی نہیں جانا،وہاں سایہ ہے۔
اگر کبھی کوئی بُھولا بِسرا مسافر پرندہ اس پر آبیٹھتا تو یہاں کے مقامی پرندے اسے اس طرح خبردار کرتے کہ وہ اس تیزی سے اڑتا گویا اسے ایک دم احساس ہوا ہو کہ وہ شاخ کے بجائے دہکتے انگاروں پر بیٹھا ہے ۔
مگر وہ بچپن سے ایسا نہیں تھا، وہ اس وقت نازاں تھا جب یہاں سب سے پہلے اسے لگایا گیا تھا چونکہ نمبروں کی آلاٹمنٹ سڑک کی طرف سے ہوئی تھی اس لیے وہ گاوں میں دائیں طرف سب سے پہلا مگر نمبروں کے حساب سے اکیانوے نمبر کا پیڑ تھا۔ جب جوان ہوا تو اس کی چھتر چھایاں باقیوں سے قدرے زیادہ تھی ۔ موٹے تنے ،دور تک پھیلتی ٹہنیوں اور سب سے زیادہ باتونی اور ہنس مُکھ ہونے کی وجہ سے اس پر ایک سے زیادہ گھونسلے تھے ۔
اکیانوے کی زندگی میں بدلاٶ اس وقت آیا جب ایک رات ، کوئی نوجوان جو اس گاٶں کا نہیں تھا اپنے ہاتھوں کو مسلتا ہوا اُس کے نیچے آن کھڑا ہوا۔
کچھ ہی دیر بعد اسی کی عمر کے لگ بھگ ایک لڑکی ، اپنے دوپٹے کو بِلا ضرورت درست کرتی ،خوف سے دائیں بائیں دیکھتی، اس کے پاس آ ٹھہری۔
وہ کتنے ہی لمحے خوف سے اِدھر اُدھر دیکھتے رہے ، پھر وہ ہمت جمع کرکے بولی
"تم کب سے یہاں کھڑے ہو ؟"
"ہمیشہ سے" اُس نے مسکراتے ہوئے کہا
"کسی نے تمہیں دیکھا تو نہیں ؟"
" نہیں "
"مجھے لگا شاید تم یہاں موجود نہیں ہو گے ۔ تمہیں ایک دن کی وہ دو تین ملاقاتیں ، گزرے بیس دنوں میں بھول گئی ہوں گی"
"عظمیٰ ! بیس دن نہیں ، یہ بیس صدیوں کا عرصہ تھا جس کے ایک ایک پَل، میں نے اس وقت کو یاد کیا، جب اُس روز میں نے تمہارے کسی رشتہ دار کی شادی میں تمہیں دیکھا۔ تمہاری وہ ہنسی جسے دیکھ کر گماں ہوتا کہ انسان سرسوں کے اُن پیلے پُھولوں کے درمیان کھڑا ہے جنہیں ہوا سہلا رہی ہو۔
اور تمہاری آنکھیں۔۔۔۔۔۔۔۔“
”اچھا بس بس ۔۔۔ کہاں سے سیکھی ہیں یہ باتیں ؟“ عظمیٰ نے شرماتے ہوئے اپنا سفید قرَیب کا دوپٹہ چہرے پر کر لیا ۔
اکیانوے کو یوں لگا جیسے سرسوں کے کھیت نے دھند اُوڑھ لی ہو۔
"یہ سیکھنے کی باتیں کہاں ہیں ۔بس جب خدا عشق عطا کرتا ہے تو مُحب کو محبوب کے خدوخال کا ترجمہ کرنا آ ہی جاتا ہے۔"
وہ پھر سے شرما گئی۔
اچھا اب تم جاٶ اور پرسوں اِسی وقت آجانا، ابا نے دوسرے گاوں جانا ہے اور اُدھر ہی رکیں گے۔
وہ یہ کہتی ، دوپٹہ سنبھالے ، گاوں کی طرف پلٹ گئی۔
بس پھر یہ سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔
عظمیٰ اسے بتا دیتی کہ اب وہ کس روز آئے اور وہ ٹھیک اسی وقت پہنچ جاتا۔ اور ہر بار عظمیٰ کا حُسن، اُس کی ادائیں اک نئے قصیدے کی صورت پڑھی جاتیں۔کبھی اس کی ہنسی سے سرسوں کے پھول دوہرے ہو ہو جاتے۔ کبھی اس کی آنکھیں اس سمندر کی مانند دکھائی دیتیں جس کی گہرائی ماپنے کو زمانے بھر کے اِکو ساونڈر Echo) (sounder فیل ہو چکے ہیں۔ شازل کے ساتھ ساتھ اکیانوے کی بھی یہی جی چاہتا کہ وقت تھم جائے اور وہ یہاں سے کبھی نہ جائے ۔ مگر وہ ہر بار لوٹ جاتی ۔ شازل بھی جب سڑک کے پار بسے شہر کو لوٹ جاتا تو اکیانوے اُس کے لفظوں اور عظمیٰ کی ہنسی سے کئی کئی دن سرشار رہتا ۔وہ کسی اور جہان میں مگن رہنے لگا تھا۔ آس پاس کے پیڑ اور پنچھی اس کو بلاتے تو وہ چونک اٹھتا ۔
پھر ایک روز جب عظمیٰ آئی تو سرسوں کے پھول مرجھائے ہوئے تھے۔ سمندروں کی جگہ ، نامیب اور گوبی کے صحراوں نے لے لی تھیں۔
"کیا ہوا ، یہ چہرہ بجھا بجھا سا کیوں ہے؟
"یہ چہرہ تو اب سدا ایسا ہی رہے گا شازل ۔"
"عظمیٰ ایسا کیوں بولتی ہو ۔ بتاٶ کیا بات ہے۔ کیا کسی نے ہماری شکایت کردی ؟"
"نہیں میرا رشتہ سلیم سے طے پا گیا ہے۔ وہ سعودیہ میں سینٹری کا کام کرتا ہے ۔ شادی کے فورا" بعد مجھے بھی اپنے ساتھ وہیں لے جائے گا۔"
جہاں یہ خبر شازل پر پہاڑ بن کر ٹوٹی تھی
اکیانوے کو لگا وہ پورا کا پورا زمین میں دھنس گیا ہے جہاں اس کی سانس بند ہو رہی ہے۔
"مم۔۔۔۔۔مگر میں تمہارے بغیر کیسے رہوں گا ۔ میں مر جاوں گا ، مجھ سے یہ جدائی کا بوجھ نہیں اٹھایا جائے گا ۔؟"
” شازل ہر انسان میں اتنی جگہ ہوتی ہے جتنی یہ کائنات ہے۔ مجھے یقین ہے جدائی کا یہ دکھ تم اپنے اندر سما لو گے۔“
عظمیٰ ہمیشہ کے لیے وہاں سے چلی گئی تھی اور شازل بھی، جس نے پھر کبھی راہ گزر کا رخ نہیں کیا ۔
اکیانوے ہر وقت ان کی اُس آخری ملاقات میں کھویا رہتا اس کا جسم سوکھنے لگا تھا۔ کئی ٹہنیاں ٹوٹ کر گرگئی تھیں ۔وہ اب نہ کسی سے کوئی بات کرتا اور نہ جواب دیتا ۔
وہ کچھ برسوں سے ایسے ہی خاموش کھڑا تھا کہ ایک روز اس نے اپنے قریب کھڑے
دتو جو وڈیرے سائیں کا منشی تھا، اور غفورے کے درمیان چلتی بات کو سُنا تھا۔
”میں نے سنا ہے شاہ صاب یہ کچی سڑک کو کھلا اور پکا کرنے لگے ہیں ؟“
”ہاں غفورے ۔۔۔ اور یہ سارے درخت بھی اب کاٹنے پڑیں گے“
یہ کہتے ہوئے دتو نے یوں ہی اوپر درختوں کی طرف دیکھا تھا، اور وہ جو ان کی باتیں بڑے انہماک سے سن رہا تھا یکایک گردن دائیں بائیں یوں گھمانے لگا جیسے اس کی کنکھیوں کی چوری پکڑی گئی ہو۔
یہ بات جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی تھی ۔ گاٶں کا بچہ بچہ اب اِس بات سے باخبر تھا کہ یہ درخت کٹنے والے ہیں ۔ ایسے میں بھلا باقی فلیٹوں اور ان کے مکینوں کوکیسے خبر نہ ہوتی۔ کئی دن راہ گزر پر گہرا سکوت چھایا رہا۔ پنچھی صبح کو جاتے اور شام کے بعد آتے ، پیڑوں سے تو دور وہ یہاں آپس میں بھی کوئی بات نہ کرتے ہاں کبھی کبھار سر کو اپنے پنجوں سے یوں کُھجاتے جیسے کچھ اشاروں میں کہہ رہے ہوں۔
پھر ایک رات جب گاوں میں موجود عمر رسیدہ گلوں سے لمبے دورانیے والی کھانسیوں تک کی آوازیں آنا بند ہوگئی تھیں، راہ گزر پر اس بحث کا آغاز ہوا جو شفق کی سُرخی پھوٹنے تک جاری رہی۔
ہوا یوں کے فلیٹ نمبر 11 پر بنے ایک گھونسلے سے دبی دبی سرگوشیاں اُبھریں۔
”مگر ابو، ہم کچھ دن تو اور ادھر رہ سکتے ہیں“ ”نہیں۔۔ ۔چُپ۔۔۔ اپنی چونچ بند رکھو اور سو جاٶ“
"کیا کہا تم نے ؟؟؟ " گیارہ نمبر اِس زور سے چِلایا کہ تمام پیڑ عالم استغراق سے باہر آگئے۔
”سنا تم سب نے ؟" گیارہ نمبر پھر گویا ہوا۔
"ہاں تو اور کیا کروں میں ؟، اور پھر یہ باقی سب کی مشاورت سے ہی ہوا ہے " پرندے نے گھونسلے سے اڑ کر ایک پتلی سی شاخ پر بیٹھتے ہوۓ کہا۔
اس بات کا ہونا تھا کہ ہر پیڑ کی فوکس لائٹ کا رخ اس طرف ہوگیا تھا جہاں ان پر گھونسلے بنائے گئے تھے۔
سب پرندوں کی آنکھیں جُھکی ہوئی تھیں۔
دفعتاً ایک ضعیف پرندہ اپنے گھونسلے سے اڑ کر سب پیڑوں کے سامنے سے یوں گزرنے لگا جیسے کسی محاز پر سپہ سالار اگلی صف کے سامنے سے اپنا گھوڑا دوڑاتا ہے ، اور پھر چکر کاٹ کر واپس اپنی بالکونی پر آبیٹھا۔ جب اس کے تنفس کی رفتار اس قدر آہستہ ہوگئی کہ اب بولنے پر اس کی زبان لڑکھڑائے گئی نہیں ، اُس نے سب پیڑوں کو مخاطب کیا۔
"ہم نے سنا ہے آج کل میں تمہیں کاٹ دیا جائے گا ۔ہم نے اپنا انتظام کرلیا ہے۔سویرے ہم یہاں سے چلے جائیں گے ۔"
”آہ! تو تم نے ہم کو مرنے سے پہلے ہی مرا ہوا سمجھ لیا ؟ کیا ہمارے جسموں کا تم پر اتنا بھی حق نہیں کہ جب یہ کٹ جائیں تو تم ان کے لیے غم کے گیت گاٶ“
ہاں! تم نے ہمیں رہنے کو تنے اور سر ڈھانپنے کو اپنے پتے دیے مگر ہم نے بھی اپنی سریلی آوازوں سے تمہارے دلوں کو لُبھایا، تمہیں آباد رکھا "۔۔۔۔ وہ پھر سے ہانپنے لگا تھا۔ اب سارے پنچھی گھونسلوں سے اڑ کر ٹہنیوں پر آ بیٹھے تھے۔
"صرف ٹھکانا ہی نہیں ہم نے تمہارے دکھ بھی اپنے دکھ سمجھے تھے۔ جب تم تلاش رزق کو جاتے تھے تو ہم نے تمہاری اولادوں کو تحفظ دیا۔ اور جب کبھی برکھا برستی یا ہوائیں زوروں پر ہوتی تھیں اور تم دیر تک نہیں آتے تھے تو ہم پریشان ،تمہاری راہیں تکتے تھے اور تمہیں دور سے آتا دیکھ کر اتنا ہی اطمینان محسوس کرتے تھے جتنا تمہارے بچے، تمہارے لوٹ آنے پر، گرم پنکھوں تلے محسوس کرتے تھے۔
ہم نے برسوں سے تمہارے اور تمہارے پرکھوں کے بدبودار پِیخال کو اپنی حسین ٹہنیوں پر چپ چاپ سہا اور ماتھے پر شکن تک نہ لائے۔
اور جب کبھی پیخال ٹہنیوں پر ٹکنے کی بجائے راہ گزر پر جا گرتا اور وہ تم پر چلانے لگتی تو ہم نے تمہارا دفاع کیا۔“
" ارے بھئی ان سے کیا گلہ کرنا، اچھا ہے اب کم بختوں کی بدبو سے جان چھوٹے گی " راہ گزر نے طنز اور کلمہ شکر ایک ساتھ ادا کیا اور پھر زور دار قہقہہ لگایا۔
صبح ہوتے ہی سوساٸٹی کےسارے مکین وہاں سے ہمیشہ کے لیے کوچ کرگٸے۔
دن چڑھا ، اور کچھوے کی طرح رینگنے لگا پھر دن ڈھلنے سے پہلے بہت سی مشینیں اور ٹرک راہ گزر کے ساتھ والے خالی رقبے میں آن ٹھہرے۔ وہ رات ان پر ، اس قیدی کی طرح گزری جسے صبح تختہ دار پر لے جایا جانا ہوتا ہے۔ وہ بیتے وقت کو آخری بار یاد کررہے تھے۔
صُبح اکیانوے کی آنکھ ملی جلی آوازوں کے شور سے کُھلی تھی ۔ اس نے جب غور سے دیکھا تو گاوں کے ہر طرح کی عمر کے لوگ وہاں جمع تھے۔
درختوں کو کاٹنے والا عملہ اپنی تیاریوں میں مشغول تھا۔
راہ گزر آرام سے لیٹی تھی کیونکہ جانا صرف پنچھیوں کو پڑا تھا ، اور اب صرف درختوں نے کٹنا تھا۔ وہ تو ہمیشہ یہیں رہے گی۔
اور پھر خود پر مصنوعی اداسی طاری کرتے ہوئے پیڑوں سے کہنے لگی۔ ”اچھا الوداع ! یہ بھی دستور ہے کہ ہر ذِی روح کو لوٹ کر جانا ہے ۔ میں بے بس ہوں ان لوگوں کے آگے وگرنہ تمہیں ہمیشہ اپنے اندر پکڑ کر رکھتی، آہ !افسوس ۔۔۔۔“
اکیانوے جو برسوں سے خاموش کھڑا تھا ، ذرا راہ گزر کی طرف جُھکا اور کہنے لگا :"معاف کیجیے گا ،آپ نے نہیں ، ہم نے پکڑ رکھا تھا کہ کٹاو کا شکار نہ ہو جاٶ"
راہ گزر کو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا۔ سارے پیڑ رقص کرنے لگے ۔ یہ رقص موت سے پہلے زندگی کا حق ادا کردینے کا رقص تھا ۔
اب گھرررررر۔۔۔۔۔۔ گھرررر کی آوازیں اکیانونے کے قریب ہوتی جارہی تھیں
اس کے بعد باقی سب کو بھی منہ کے بل گرایا جانے لگا۔
دوپہر کو ایک منچلا جو اکیانوے کے گرے ہوئے تنے پر بیٹھا تھا یوں ہی وقت گزاری کے لیے اُس میں پیوست پتری کو نکالنے لگا اور پھر اس کے ساتھ جڑی میخوں کو میری اِس دیوار پر لگا کر اینٹ سے ٹھونک دیا۔
کچھ ہی دنوں بعد راہ گزر کو تارکول کے تابوت میں ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا گیا ۔
اب رات کے پچھلے پہر اس تابوت سے راہ گزر کے بین کی آواز آتی ہے ۔ وہ جب پرندوں اور درختوں کو یاد کر کے کرلاتی ہے تو میری اذیت سوا ہونے لگتی ہے ۔یہ آواز یونہی آتی رہی تو میں خود ہی کسی روز ملبے کا ڈھیر ہو جاٶں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔