افسانہ: فیمینسٹ

افسانہ: فیمینسٹ

Jan 17, 2023


افسانہ: فیمنسٹ

مصنفہ:صبا ممتاز بانو، لاہور


سردموسم پوری جولانی پر تھا۔اس کے اردگرد ٹھنڈی ہوائیں رقص کررہی تھیں اورہر طرف یخ بستہ رنگ بکھرے ہوئے تھے ۔حرارت صرف ان ڈبوں میں مقید تھی جو زمین پردیواروں اور چھتوں سے بنے تھے۔ان چھوٹے بڑے ڈبوں میں بھی کئی ڈبے تھے جن میں ہیٹر دہک رہے تھے ، انگیٹھیاں جل رہی تھیں  اور عاشقوں کی موج مستیوں سے رضائیاں  مچل رہی تھیں۔۔باہر تو صرف وہ لوگ تھے جن کی ضرورتوں اور مجبوریوں نے انھیں اس شدید سرد موسم میں گھر سے باہر دھکیل دیاتھا یا پھر وہ منچلے جو موسم سے چھیڑخانی کے واسطے نکلے تھے ۔

صلہ کی مجبوریوں نے بھی رات سے اس کے  دل و دماغ کو گرفت میں لے رکھا تھا ۔وہ نہ چاہتے ہوئے بھی گرم سوٹ کے اوپر کالا عبایا اور کالے عبائے کے اوپر ایک لمبا کوٹ پہن کر گھر سے نکل پڑی۔گھر کی دہلیز پار کرتے  ہی ایک مرصع تاج بھی اس کے سرپر جگمگانے لگا۔جس پر کئی ڈوریاں بندھی ہوئی تھیں۔اس تاج کواس نے سرسے اتارنے کی خواہش  تو کی تھی لیکن جونہی وہ اسے اتارنے کی کوشش کرتی دہشت ناک آوازیں اور ہیبت ناک چہرے اس کے اردگرد دائرے میں رقص کرنے لگتے اور وہ اس خیال کو یکسر ترک کردیتی۔ وہ جانتی تھی کہ اس نے جونہی اس دائرے سے باہر قدم نکالا۔ یہ سب اس پر ٹوٹ پڑیں گے۔

زمین کے سینے پر پڑتے اس کے بھاری قدموں سے راستہ بھی دہائی دینے لگا۔ تیز تیز چلنے کی وجہ سے اس کا جسم تو گرمی پا  گیا تھا لیکن جہاں جہاں اس کے قدم پڑے تھے ، وہاں وہاں زمین ابھی بھی درد سے کسمسا رہی تھی ۔

زمین کی درد آشنا زمین ہی ہو سکتی ہے۔

صلہ نے اپنے سرد ہاتھ کوٹ کی جیبوں میں ڈال رکھے تھے اور اپنے سر کو پوری طرح سکارف میں لپیٹ رکھاتھا ۔ اس وقت صرف اس کا چہرہ اور ہاتھ ہی عریاں تھے ۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ ان دونوں موروثی تحفوں کی ظاہری ساخت میں معاملہ ضد کا تھا ۔سڑک پار کرتے ہی وہ ایک ایسی گلی میں جاپہنچی جو اب پرانی دکانوں کا مرکز بن چکی تھی ۔اس گلی کے آغاز میں شہر کا ایک بڑا پولیس مرکزبھی تھا جس میں ہر وقت پولیس ملازمین اور عوام کا ہجوم رہتا۔چند فوٹو سٹیٹ والے ، پرانی کتابوں کی دکانیں اور ایک چائے والا جو سارا دن تھانے اور دکانوں والوں کو چائے بھیجتا رہتا۔

چائے خانے سے پہلے اس کی ایک چھوٹی سی سٹیشنری دکان تھی پھر کسی سیانے نے اسے مشورہ دیا کہ اب لکھنے پڑھنے والے لوگ کہاں، دکان کے اگلے حصے میں چائے خانہ کھول لو۔زیادہ کماﺅ گے۔اس نے ایسا ہی کیااور اس دن  سے اب تک وہ بے کار نہیں بیٹھا۔ سب سے زیادہ چائے اس سے راج منگواتا تھا۔ راج جو ایک فلسفی تھا، ایک شاعر تھا اور ایک کتب فروش۔۔

اس گلی میں ایک متکبر ناشر بھی تھا ۔ ہاں ، وہی جس نے صلہ کی کتاب چھاپنے کے عوض اسے رائلٹی کی پیش کش کی تھی لیکن بدلے میں باتوں باتوں میں اس کے جسم کی تمنا بھی کی تھی اور باتوں باتوں میں ہی صلہ نے انکار بھی کردیاتھا۔کچھ عرصے بعدشنید ہوئی کہ اپنے غرور اور غلط فیصلوں کے باعث وہ ناشر دیوالیہ ہو گیا۔گلی اس کے ناپاک وجود سے خالی کیاہوئی، شہر بھر کے پرانی کتابوں کے سیلز مین یہاں آکر بیٹھ گئے ۔

تیز رو صلہ کے قدم ہمیشہ اس گلی میں آکر آہستہ ہو جاتے کیونکہ ہر دو قدم کے فاصلے پر کتابوں کی کشش اسے روک لیتی ۔ کئی دکانوں پر رُکتے اور ٹھہرتے ہوئے وہ اس پرہجوم گلی میں بہت سارے مردوں کے درمیان شان بے نیازی سے ایک ملکہ کی طرح چلتی ہوئی راج تک آپہنچی تھی ۔بلاشبہ وہ حسین تھی ۔ اونچا لمبا قد، کسرتی جسم ، مخمور آنکھیں ، تیکھا ناک جس پر نہیں لگتا کہ اس نے کبھی مکھی بیٹھنے دی ہوگی ، بھرے بھرے ہونٹ جو سردی سے تھرتھرا رہے تھے ۔

” مجھے پنجابی کی ڈکشنری چاہیے ۔ “ اس نے اپنی مخمور آنکھیں راج پر مرکوز کرتے ہوئے کہا۔

” وہ تو میرے پاس نہیں لیکن میں تلاش کرسکتا ہوں ، آپ مجھے دودن کاوقت دے دیجیے ۔ وہ میرے پاس گودام میں رکھی ہوگی۔“ راج نے صلہ کی طرف اشتیاق بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔

سچ تو یہ ہے کہ بارہ سال سے کتابوں سے جڑے شخص کو اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ اس کے خزانے میں کون سی کتاب ہے یا نہیں لیکن پسندیدہ چہرہ انسان کو کمزور کردیتا ہے ۔ کوئی نادیدہ قوت راج پر حاوی ہوگئی جس نے اسے کتاب کے ملنے کی امید دی ۔ کتنی ہی کتابوں کی بوریاں روز تو گودام میں آتی جاتی تھیں۔شاید اسے مل ہی جائے۔

” کیا میں پوچھ سکتاہوں کہ آپ کو پنجابی کی ڈکشنری کس لیے چاہیے ۔“

” جی ، وہ میں پنجابی میں شاعری کر رہی ہوں تو مجھے اوزان کے لیے الفاظ کو دیکھنے کی ضرورت پڑتی ہے۔“

” تو آپ پنجابی میں شاعری کرتی ہیں ۔“ راج مسکرایا۔ یہ تو اس کے ہی قبیلے کی تھی ۔

” شاعری تو اردو میں کرتی ہوں ، افسانے لکھتی ہوں ۔ مگر اب پنجابی کا شوق چڑھا ہے ۔“

” میں بھی شاعر ہوں لیکن آزاد شاعر، یہ دیکھیں میری شاعری کے نمونے ۔ میری ایک ادبی تنظیم بھی ہے جس کے تحت میں سو سے زائد تقریبات کر چکاہوں۔“

راج نے جھٹ سے موبائل اس کے سامنے کردیا ، جس میں اس کی شاعری اور ادبی تنظیم کا پیج بھی تھا اور مختلف اخبارات میں چھپنے والی شاعری کے نمونے بھی ۔

” کیا آپ اس منجمد کر دینے والی سردی میں میرے ساتھ ایک کپ چائے پینا پسند کریں گی ۔“

اس نے ہلکی سی مسکراہٹ سے راج بخت کو دیکھا، ایک چالیس سالہ کمزور ، ناتواں شخص ،جس کی داڑھی دیکھ کر اس کے سکھ ہونے کا گمان ہوتا تھا۔

اس دن کی چائے کا سفر دوستی پر متنج ہوا ۔ چائے میٹھی تھی لیکن راج بخت کی باتیں اس کے لیے کڑوی ۔

وہ خدا کے وجود کا قائل نہیں تھا۔ وہ مذہب کو ذہین فطین لوگوں کی اختراع سمجھتا تھا ۔ سکھ مذہب کے بانی گرونانک سے متاثر تھا،زمین کو خدا مانتا تھا۔ زمین، جو انسان کو خوراک سے لے کر پناہ تک دیتی ہے ۔ اس کی باتوں میں ایسی منطق اور دلائل تھے کہ کسی ضعیف ا لعقیدہ شخص کو ملحد کرسکتے تھے ۔ کئی بار اس کا تاج بھی لڑکھڑایا لیکن اس کے ساتھ بندھی ڈوریوں نے اسے گرنے نہیں دیا۔

صلہ اور راج بخت کی زندگی میں کچھ بھی مشترک نہیں تھا۔ صلہ ایک خانماں برباد عورت تھی۔اس کا شوہر عورتوں کا رسیا تھا جس نے کبھی اپنے کندھوں پر ذمہ داری کی چڑیاکو بٹھایا ہی نہیں تھا۔اس کی ان حرکتوں کی وجہ سے صلہ نے اسے اپنی زندگی سے ہی اڑا دیاتھا ۔زندگی کا بوجھ شوہر کی بے وفائی کے بوجھ سے بہت کم تھا۔

کتابوں کے شوق نے راج بخت کو سرکاری اور نجی ملازمتوں کو ٹھکرانے پر مجبور کردیاتھا۔نصابی کتابیں اس نے بیرونی الماریوں میں سجارکھی تھیں اور ادبی، سماجی ودیگر اور نایاب کتابیں اس کے اوپر والے گودام میں رکھی تھیں۔

” صلہ تم میری کتابوں کا آن لائن بزنس سنبھال لو ، میں روزانہ کی فروخت میں سے پندرہ فیصدتمہیں دیا کروں گا۔تمہیں بس سوشل میڈیا پر کام کرناہوگا۔“

” مجھےکا م کی بابت کچھ تفصیل بتائیں گے آپ  ، “ صلہ نے کتابوں کے خزانے کو دیکھتے ہوئے کہا۔

”میں نے نے فیس بک پر ایک پیج بنارکھا ہے ۔ انسٹا گرام پر بھی انہیں فروخت کرتا ہوں ۔ ایک فیس بک اور واٹس ایپ گروپ بھی بنا رکھا ہے جس کا میں تمہیں ایڈمن بناﺅں گا۔ وہاں پر روزانہ کی بنیا د پر تم دس پندرہ کتابوں کی تصویریں کھینچ کر لگاﺅگی پھر  جیسے ہی کسی گاہک کی جانب سے بھیجی گئی آرڈر کی رقم  میرے اکاﺅنٹ  میں پہنچے گی،میں کتاب پوسٹ کردوں گا۔ “

اس نے چھوٹے بچوں کی طرح اسے ایک ایک بات تفصیلا" سمجھائی ۔

” ٹھیک ہے ، کام اتنا مشکل نہیں۔“ اس نے آہستہ سے کہا۔

” نہیں، یہ کام بہت مشکل ہے ۔ کئی لوگ بلاوجہ تم سے گفتگو کریں گے ۔ تمہیں اس کتاب کے مندرجات کی تصویر بنا کر بھیجنے کوکہیں گے۔ کئی اس کے عنوانات کو لے کر بات چیت شروع کردیں گے ۔تمہیں سکون سے بیٹھنے کا کوئی لمحہ نہیں ملے گا۔ صرف اتناہی نہیں، کئی لوگ تمہارا تاج بھی اتارنے کی کو شش کریں گے ۔“ اس کی آخری بات نے صلہ کو چونکادیا۔

” کیاان کے ہاتھ اتنے لمبے ہیں۔؟یہ میرا خاندانی تاج ہے ۔ اسے اتارنا اتنا آسان نہیں۔ اب تو یہ سیمنٹ کی طرح پختہ ہوچکاہے ۔ اس تاج کی حفاظت فرشتے کرتے ہیں۔مجھے اس کی کوئی فکر نہیں، بس

مجھے زیادہ لوگوں سے بات چیت یا رابطے سے الجھن ہوتی ہے مگر ضرورت انسان کو پھٹا ہوا لباس بھی سی کر پہننے پر مجبور کردیتی ہے۔ اپنی گفتگو کو رسیلا اوربدن کو لچکیلا بنانے پر مجبور کردیتی ہے ۔ضرورتوں کے جنازے تو اٹھانا ہی پڑتے ہیں۔لمحہ موجود میں ہونا بھی ایک نعمت ہوتی ہے ۔میں اس نعمت سے فیض یاب ہونا چاہوں گی ۔“

” ان کے ہاتھ تمہاری سوچ سے بھی لمبے ہیں۔ تم خود اپنا تاج اتارنے پر راضی ہوجاﺅگی ۔اس تاج کی حفاظت فرشتے نہیں، تمہارے اندر کی انا کرتی ہے بھولی صلہ۔جس دن یہ انا ٹوٹ پھوٹ گئی ۔ یہ تاج خود ہی ہواﺅں میں اڑ جائے گا۔خیر چھوڑو، کام کی بات کرتے ہیں۔میں اس کام کے لیے تمہیں اپنی سم دوں گا، گیارہ بجے دن سے شام چار بجے تک تم کام کروگی۔ دوپہر کا کھانا اور چائے میری طرف سے تمہیں میسر ہوگی ۔پہلے بھی ایک لڑکی میرے پاس یہ کام کرتی تھی اور اس کے مہینے کے پچیس تیس ہزار بن جاتے تھے ۔ میں نے پیسوں کے معاملے میں کبھی ڈنڈی نہیں ماری تھی لیکن پھر وہ چلی گئی ۔۔۔“

” اس نے کیوں چھوڑا۔ “ راج کے چہرے پر پھیلی اداسی نے اسے سوال کرنے پر مجبور کردیا۔

” وہ بہت بولڈ تھی ۔ بے باکی کے رنگ میں رنگا پہناوا،  کٹے ہوئے بال اور آزادانہ لائف سٹائل لیکن مجھے اس کے حلیے سے کوئی غرض نہیں تھی ۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ واحد عورت تھی جس نے زندگی میں مجھے متاثر کیا۔  کتابوں سے اسے عشق تھا۔ دنیا جہان کی کتابیں اس نے پڑھ رکھی تھیں۔میں علی عباس جلال پوری پر بات کرتا یا سبط حسن پر، میرا موضوع میکسم گورکی ہوتایا سارتر یا کارل مارکس یا پھر ٹالسٹائی ، اس نے مجھے کبھی مایوس نہیں کیا تھا۔وہ میری ہی طرح رابندر ناتھ ٹیگور اور ن م راشد کی مداح تھی ۔اسے ملکی اور عالمی ادب ازبر تھا۔وہ بے تکان اور بے ساختہ بولتی تھی ۔اس کا علم کئیوں کی بولتی بند کرنے کے لئے کافی تھا۔

ہم بہت اچھے دوست بن چکے تھے ۔ہم اکٹھے کتابوں کی سیر کرتے ۔ ہمارے درمیان کئی حاصل اور لاحاصل باتیں ہوتیں۔جن کا نچوڑ چاہے کچھ نہ نکلتا مگر سردیوں میں رم یا برانڈی اور گرمیوں میں واڈکا یا وہسکی پر تان ضرور ٹوٹ جاتی ۔

وہ چرس، شراب اور عورت کی قربت پسند کرتی تھی۔اس کا تعلق ایک متوسط خاندان سے تھا ۔ ملازمت وہ اپنا نشہ پورا کرنے کے لیے کرتی تھی ۔ہمارے درمیان ایک خاص حد تک بے تکلفی تھی، وہ اکثر چلتے چلتے میرے کولہوں پر چٹکی کاٹ دیتی،  کبھی  وہ پاوں  پسارے زمین پر بیٹھی ہوتی تو میں اس کے زانو پر سر رکھ کر لیٹ جاتا تھا۔“

”لیکن میں یہ سب نہیں کرسکوں گی۔“ صلہ کے لہجے میں کڑواہٹ  در آئی۔۔

” ایک طرف جیا اتنی بولڈ ، لبرل اور باشعور ۔دوسری طرف تم جسے شراب کا شوق ہے اور نہ سگریٹ کی عادت ، جسے نہ چرس اچھی لگتی ہے اور نہ بے تکلفی “ وہ صلہ کا موازنہ جیا سے کررہاتھا۔

”جیا تو آپ جیسی تھی اور صلہ تو صرف اپنے جیسی ہے ۔“صلہ نے خود پر زور دیا۔

” فکر نہ کرو، مجھے تم سے یہ سب نہیں چاہیے۔ تم دونوں میں ایک بات مشترک ہے ۔ وہ بھی تمہاری طرح عورت کی پاکیزگی کی قائل تھی لیکن صرف مردوں کے حوالے سے ۔ اسے اپنی دوشیزگی پر فخر تھا۔ باقی وہ ہر کام جائز سمجھتی تھی ۔ جانے ان مشرقی عورتوں کا لبرل ازم سیکس کے معاملے میں کہاں چلاجاتا ہے ۔“

” کیاوہ فیمنسٹ تھی۔“ میرے ذہن میں ایک سوال گونجا۔

” دیکھو صلہ ، ہر عورت میں ایک مرد بھی ہوتا ہے اور ہر مرد میں ایک عورت۔۔۔۔مجھے نہیں پتا کہ تم فیمنسٹ کسے کہتی ہو مگر میرے خیال میں اپنے حقوق کی بات کرنے والی ہر عورت فیمنسٹ ہے۔ ہر عورت کو اپنی زندگی اپنے انداز سے جینے کا پورا حق ہے ۔یہی فیمینزم ہے۔کچھ کے نزدیک آزادانہ روش فیمینزم ہے ۔ کچھ کے نزدیک یہ جائز حقوق کی جنگ ہے ۔اس تحریک نے کئی پینترے بدلے ہیں اور ہر اک نے اسے اپنے اپنے انداز سے اپنایا ہے ۔جیا کا لباس ، اس کا رہن سہن ضرور مغربی یا آزاد تھا مگر وہ مرد سے تعلقات کے معاملے میں ایک خالص مشرقی لڑکی تھی ۔“

” کیا آپ دونوں کے آپس کے  تعلقات ، تعلقات نہ ہونے کی وجہ سے خراب ہوئے ۔“ صلہ نے جاننا چاہا۔

”نہیں، وہ اکثر اوپر والے گودام میں اپنے دس بارہ دوست لڑکے لڑکیوں کو  بلا لیتی تھی ۔ وہ خوب ہنگامہ کرتے ، کھاتے پیتے اور پھر نشہ بھی کرتے ۔ میں اور جیا تین پیگ سے زیادہ کے متحمل نہیں ہوسکتے تھے۔

جب وہ میرے ساتھ بالانوشی کرتی تو میں اسے تین پیگ سے آگے نہیں جانے دیتا  تھا لیکن جب وہ اپنے دوستوں کے ساتھ ہوتی تو موج مستی میں چار پانچ پیگ پی لیتی۔پھر اس کو ہوش میں لانا میرے لیے مشکل ہوجاتا۔ اس کے دوست اسے چھوڑ کر بھاگ جاتے ۔ میں اسکا نشہ ہرن کرنے کے لیے مختلف تدبیریں کرتا۔

ایک دفعہ وہ شراب کے نشے میں دھت تھی ۔اس نے مجھے کہا ، ” راج ، میرے قریب آﺅ، میری ضرورت کے پر پھیلے ہوئے ہیں۔آﺅ، ایک دوسرے کے بدن میں اُڑان بھرتے ہیں۔“

میں اس کی بے ہوشی سے فائدہ نہیں اٹھانا چاہتا تھا ۔ میں نے اسے جیسے تیسے کرکے گودام سے نکالا۔اسے اپنے ساتھ موٹر سائیکل پر بٹھایا۔ راستے میں ایک پٹھان بچے سے قہوہ پیا۔فورٹریس میں ایک ہوٹل میں کافی منگوائی ۔ سرد سرد ہوا اورگرم گرم کافی نے اس کا نشہ اڑا دیا۔

” سنو، اب بتاﺅ ، جو تم چاہو گی ۔ میں کروں گا۔ بدن کی خواہش کی تکمیل بھی ۔۔۔۔۔“

” نہیں ۔ نہیں۔ بس راج مجھے اب گھر جانا ہے ۔“

ہوش میں آنے کے بعد اسے اپنی دوشیزگی قائم رکھنے کی فکر ستانے لگی تھی ۔میں اسے بہت پسند کرتا تھا ۔اس کے وصل کا خواہش مند بھی تھا اگر وہ ہوش میں فرمائش کرتی تو ضرور پیش قدمی کرتا ، شاید اپنی خوش بختی پر نازاں بھی ہوتا لیکن جب وہ اپنے ہوش و حواس میں ہی نہیں تھی تو میں یہ زیادتی کیسے کرسکتا تھا۔

”لیکن پھر آپ دونوں میں علیحدگی کیوں ہوئی ۔“ صلہ نے پھر وہی سوال داغا۔

”میں اسے کبھی بھی نہ چھوڑتا لیکن پوری مارکیٹ میں ان کے ہنگامے کو لے کر باتیں بننے لگی تھیں ۔ ایک طرف مذہبی لوگ تھے اوردوسری طرف ٹھرکی ۔ مذہبی اسے بے راہ رو سمجھ کر نکالنے پر مصر تھے جب کہ ٹھرکی انہیں آوارہ  سمجھ کر گلے لگانے کے متمنی تھے ۔ مذہبیوں نے میرے گودام کا نام کنجر خانہ رکھ دیا تھا ،تماش بینوں نے عیاشی کا اڈہ اور لبرلوں نے کلب۔اب بولو، میں کیا کرتا۔؟میں لبرل اور بولڈ ہونے کے باوجود اس معاشرے کی اخلاقی اقدار کو توڑنے کی جراءت نہیں کرسکتا تھا۔“

” آپ اسے سمجھادیتے تو وہ سمجھ ہی جاتی ۔“

” وہ میری بات سمجھنے کے لیے تیار نہیں تھی ۔وہ کہتی تھی کہ مجھے معاشرے کی پروا نہیں ۔ میں کہتا تھا کہ تمہیں نہ ہو مگر مجھے تو ہے۔ پھربات صرف یہی تک نہیں رہی تھی ۔وہ مجھ سے شادی کی خواہش کرنے لگی تھی “

” راج میں تم جیسی ہوں اور تم مجھ جیسے ۔ پھر کیو ں ہم ایک نہیں ہوجاتے ، یہاں تم جیسے کتنے ہیں جنہیں فرائڈ ازبر ہے ۔ جن کو تاریخ مذہبیات سے جنسیات تک کا علم ہے ۔راج میں کسی اور کے ساتھ رہی تو مر جاﺅں گی ۔ یہاں مذہبی لالچیوں، فسادیوں اور ٹھرکیوں کا راج ہے ۔ یہاں لبرل تماش بین عورت سے کھیلتے ہیں۔ کون مجھ جیسی بیوی چاہے گا جو شرا ب پیتی ہے اور چرس سے عشق کرتی ہے بھلے وہ خودنشے کا سوداگر ہو۔ ۔ “

” جیا، میں تمہاری عیاشیانہ اور آزادانہ زندگی کا کیسے متحمل ہو سکتا ہوں۔ تم ایک ا چھے گھر کی لڑکی ہو۔میرا گھر تمہارے  گھر جیسا نہیں۔ پھر میں معاشرے سے کٹا ہوا آدمی نہیں ہوں۔ میں  رسوم رواج کا قیدی ہوں اور اس جیل سے باہر نکلنا میرے لیے ممکن نہیں۔ “

” ارے ، میں انگلش میں ایم فل کررہی ہوں، خود کمالوں گی ۔ تمہارے بیوی بچوں کو بھی پالنے میں ساتھ دوں گی ۔زندگی ہماری ہے ، لوگوں کی نہیں۔“

” واہ، آپ کے لیے اسے مستقل طورپر اپنانے کا ایک سنہری موقعہ تھا۔“ صلہ کو مذاق سوجھا۔

”مگر مجھے ایسی کوئی  خواہش نہیں تھی۔ اس معاشقے کی اُ ڑتی اُ ڑتی خبریں میری گھر والی تک بھی پہنچ چکی تھیں۔ایسی عورت جو دن رات میرے اور میرے بچوں  کا خیال رکھتی تھی ۔ جس نے اپنا شباب مجھے راضی کرنے میں دان کردیاتھا ۔ جس نے اپنی توانائی اور طاقت کو داﺅ پر لگاکر میرے بچوں کو جنم دیا تھا ۔ جس نے ساری ساری رات میرے بچوں کو جاگ کر پالا تھا ۔ وہ کبھی اسے برداشت نہ کرتی۔ میں ایک خالص فیمنسٹ مرد اسے دکھ کیسے دے سکتا تھا۔ “

راج اور جیا کی ادھوری کہانی میں اگلا قدم  صلہ نے رکھا تھا۔۔گودام میں اب صلہ نے جیا کی جگہ لے لی تھی ۔ سارا دن کتابوں کی چھانٹی کرتی۔ ان کی تصویریں بناکر اپ لوڈ کرتی ۔دوپہر کے کھانے کے وقت صلہ اور راج بخت تھوڑی دیرکے لیے بیٹھ جاتے ۔کسی نہ کسی موضوع پر بات چھڑ جاتی ۔یونہی ایک دن پامسٹری پر بات چھڑ گئی ۔صلہ نے اپنے ہاتھ راج کے سامنے پھیلا دئیے ۔

” میرے ہاتھ دیکھو راج، یہ کیا کہتے ہیں، میری زندگی کے مسائل کبھی حل بھی ہوں گے یا نہیں۔“

” میں توپہلے د ن سے تمہارے ہاتھ دیکھ رہاہوں ۔بہت خوب صورت ہاتھ ہیں۔ میں نے ایسے ہاتھ کسی عورت کے نہیں دیکھے صلہ ۔“

صلہ نے اپنے  قدرے مردانہ سخت اور کھردرے ہاتھوں کو تاسف سے دیکھا اور اٹھ کھڑی ہوئی ۔

” راج ، کیا تم صرف اپنی بیوی کے لیے فیمنسٹ ہو،کیا میں عورت نہیں۔“

راج نے صلہ کے ہاتھوں کو پکڑ لیا اور پیار سے اسے اپنے سامنے بٹھا لیا، ” صلہ تمہیں وراثت میں یہ ہاتھ ملے اور قسمت میں محنت جس  نے تمہارے ان ہاتھوں کو کبھی سنورنے ہی نہیں دیا۔ تمہارے ہاتھ پاﺅں تمہاری مشقت کی تاریخ کے گواہ ہیں۔یہ ہاتھ بتاتے ہیں کہ تم نے زندگی میں کتنی محنت کی ہے ۔ یہ ہاتھ ایک محنتی عورت کے ہیں۔مجھے ان ہاتھوں سے محبت ہے ۔“

راج اس دنیا میں وہ واحد شخص تھا جس کو صلہ کے ہاتھوں سے محبت تھی۔اسے ہاتھ دیکھنا نہیں آتے تھے ۔لیکن اسے ہاتھوں کی ساخت سے طرز زندگی کا پتا چل جاتا تھا۔وہ تو آنکھوں اور باتوں سے اندر کی نفسیات کو بھی جانچ لیتا تھا۔ اس نے تواس کے سر پر اس مرصع تاج کو بھی دیکھ لیا تھاجوکسی کو نظر نہیں آتا تھا۔

ایسے ہی ایک لمحہ بازیافت میں اس نے صلہ کو اپنے بدن پر تسلط اورکسی کو سپردگی کی نفی کا نفسیاتی کُھرا،صلہ کی خود پرست انا میں تلاش کرلیاتھا۔سچ ہی تو تھا ،صلہ کے نزدیک کسی کو اپنا بدن پیش کرنا اپنی ہی بے توقیری تھا۔ اپنے آپ سے محبت اسے دوسروں سے دور رکھتی تھی۔وہ کیسے اپنے اس انمول جسم کو کسی کے لمس سے آلودہ کرسکتی تھی۔ایسی ویسی ہوتی تو سارادن سوشل میڈیا پر کتابیں نہ بیچتی ۔

” صلہ ، ہفتے میں ایک دن ہم فیس بک اور واٹس ایپ پر لائیو کتابیں فروخت کرتے ہیں۔ ہم ایک ایک کتاب پکڑیں گے ۔اس کا ٹائٹل ، مندرجات دکھائیں گے ۔ اس کی خصوصیات پر بات کریں گے ۔ ہاں اس دوران لوگ ہمیں براہ راست دیکھیں گے ، ہم سے سوالات کریں گے ۔ہم سے بات چیت کریں گے ۔ہمیں ایک کامیاب اور اچھے سیلز مین کی طرح مسکراتے ہوئے ان کا سامنا کرنا ہے اور ان کو اپنی کتابیں خریدنے پر آمادہ کرنا ہے ۔پہلی دفعہ میں تمہارا ساتھ دوں گا۔ پھر تم اکیلی لائیو جاﺅ گی۔“

صلہ نے چہرے پرجھکے بالوں کو اپنے  ہاتھوں سے ہٹاتے ہوئے راج کی طرف دیکھا۔ملیح چہرہ اور کھردرے ہاتھ،جیسے دونوں ایک دوسرے کی ضد تھے ، راج کوتو دونوں ہی اچھے لگتے تھے۔

پھر ہفتے کا وہ دن آہی گیا جب انہیں واٹس ایپ گروپ پر لائیو جانا تھا۔ ویڈیو کیمرہ آن ہوچکا تھا۔ راج گودام کے درمیان میں کھڑا ہوگیا۔ اس نے سب سے پہلے گروپ ممبرزکو تمام گودام کی سیر کرائی ۔ ایک ایک الماری میں رکھی کتابوں پر کیمرہ ڈالا۔ پھر نئی آنے والی کتابوں سے متعارف کرایا۔ ایک پرانی کتاب کی قیمت راج نے تین ہزار بتائی ۔

صلہ منتخب شدہ کتابوں میں سے ایک ایک کرکے راج کو کتاب پکڑاتی جاتی ۔گروپ کے سب لوگ پوری دلچسپی سے معلومات لے رہے تھے ۔پھر گروپ میں سے ایک شناسا سا چہرہ صلہ کو ہاتھ ہلاتا ہوا نظر آیا، ہاں وہ جیا تھی ، راج کی دوست، اس کی ہم پیالہ ، ہم نوالہ ، اس کی رازداراور اس کی لاحاصل محبوبہ۔شاید راج نے بھی جیا کو دیکھ لیاتھا۔

ویڈیو سیشن ختم ہوگیا۔ بے چین راج نے برانڈی کی بوتل نکالی اور منہ کو لگالی ۔کسی اپنے کو چھوڑ دینا جان پر کھیل جانے کا نام ہی توہے۔ پھر چاہے سولی سے لٹک جاﺅ یا زہر حلق میں اتار لو۔گھونٹ گھونٹ شراب بھی تو جی کو مارڈالتی ہے۔

”راج۔ زیادہ تر تو نصابی کتابیں ہی فروخت ہوتی ہیں ۔ پھر تم پرانی کتابیں کیوں خریدتے ہو۔ یہ تو بہت کم فروخت ہوتی ہیں۔“ صلہ نے راج کی حالت کودیکھتے ہوئے موضوع بدلنے کی کوشش کی ۔

” نصابی کتابوں سے زیادہ فائدہ نہیں ہوتا۔ اصل دیہاڑی تو ان کتابوں سے لگتی ہے ۔اس میں بہت سی کتب اب شائع ہی نہیں ہوتی ہیں یا پھر بہت مہنگی ہیں۔ میں ان کتابوں کی درج قیمت نہیں لیتا بلکہ ان کی قیمت ان کی قدرو قیمت کے حساب سے خود لگاتا ہوں۔پھر اس نے موبائل میرے سامنے کردیا،

ایک پرانی کتاب کے تین ہزار اس کے موبائل اکاﺅنٹ میں پہنچ چکے تھے ۔

ایک اور کتاب کے ہزار روپے بھی آچکے تھے ۔۔

”ابھی رات تک بہت سے پیسے آجائیں گے ۔کل میں ان تمام آرڈرز کو پوسٹ کردوں گا۔پھر میں کئی اداروں کی لائیبریریاں بھی سیٹ کرتاہوں ۔اس میں بھی اچھا خاصا کما لیتاہوں۔“

چھوٹے چھوٹے کاموں کے بھی کئی راز ہوتے ہیں جو ان کی تہ میں اتر کر ہی پتا چل سکتے ہیں۔ کسی نے سچ ہی تو کہا ہے کہ سمندر کی گہرائی کا اندازہ کنارے پر کھڑے ہوکر نہیں لگایا جاسکتا۔دلوں کے بھید ان میں اتر کر ہی پتا چلتے ہیں۔

اگلا ہفتہ آگیا۔ صلہ کو اکیلے لائیو جانا تھا۔ اس نے کتابوں کو ترتیب سے رکھا اور ویڈیو کیمرہ آن کردیا۔سیشن جاری تھا۔کبھی اس کے ہاتھ ایک کتاب کو پکڑتے اور کبھی دوسری کو ۔ کئی دفعہ اسے اپنے ہاتھوں سے اپنا دوپٹا ٹھیک کرنا پڑتا جو کبھی سینے اور کبھی سر سے بغاوت کرنے لگتا۔ کسی کی بے باک نگاہ اسے اندر تک چیر کر رکھ دیتی۔وہ اپنے تاج کوسنبھالتے ہوئے اپنا کام سرانجام دیتی رہتی۔

”پھر جیسے دھیمی سی کوئی آواز ، بڑے  بڑے ہاتھ۔۔۔۔۔۔

اوہ، آپ  پیاری ہیں مگر یہ ہاتھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“

اس نے ان آوازوں کو نظر انداز کرتے ہوئے سیشن مکمل کیا۔ اس کا سر بہت دُکھ رہاتھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو لپک کر اس کے ہاتھوں پر آ گرے ۔

ہفتے کا یہ ایک دن اس کے لیے قیامت ہوتا مگر حالات کی ستم گری اور راج کی طرف سے کی گئی تعریف کا سوچ کر وہ جیسے تیسے اس قیامت سے گزر جاتی۔

” تمہارے ہاتھ بہت خوب صورت ہیں صلہ ، مجھے ان سے محبت ہے۔“ یہ سوچ کر وہ تسلی دے لیتی کہ کوئی تو تھا جس کواس کے ہاتھوں سے محبت تھی۔ اسے  اپنے تاج سے محبت تھی ۔یہاں اس کا تاج محفوط تھا۔اتارنے والے ہاتھ بہت دور تھے۔بس باتوں کے تیر اسے چھلنی چھلنی کردیتے تھے۔

” صلہ ، کیاتم اس کام سے خوش نہیں، تمہارا چہرہ اتنا مرجھایا سا کیوں رہنے لگا ہے۔“

” نہیں راج، بس موسم بدل رہا ہے نا، اس لیے ۔۔۔۔۔“

اسے تو بچپن سے ہی قیامتوں کو چھپانے اور حادثوں میں چھپنے کی عادت تھی۔ایک تناﺅ ہی تو تھا۔کچھ دیر کے بعد ختم ہوجاتاتھا۔

لائیو ویڈیو کے دوران اکثر جیا کا چہرہ بھی دیکھنے کو ملتاتھاجس پر دعا اور امید کا ہالہ چمک رہا ہوتا تھا۔ اس لمحے ایک زور آور خواہش اس کے اندرضد کرنے لگتی کہ وہ راج کو گھسیٹ کر گودام میں لے آئے اور جیا کے دربار محبت میں پیش کردے ۔ کم از کم  ایک جھلک تو عاشق کا حق ہوتی ہے۔

دن رات ایک دوسرے کے پیچھے دوڑ رہے تھے ۔ سورج چاند بھی مقابل تھے ۔ جیا اور صلہ بھی ایک دوسرے کے سامنے کھڑی تھیں۔جیاکو راج سے محبت تھی اور صلہ کو راج سے غرض۔رہاراج تو اسے دونوں سے محبت تھی۔وہ جیا سے سلام دعا بھی نہیں رکھنا چاہتا تھا مگر صلہ کو ہمیشہ کے لیے دوست رکھنے کاخواہش مند تھا کیونکہ صلہ اس کی بیوی کے مقابلے پر نہیں کھڑی تھی ۔وہ اپنے ہی عشق میں گرفتار ایک بے چین روح تھی۔

صلہ راج کی طرح کہنہ روایات کی قیدی تھی جن میں بھلے روح کی سانس بھی نہ نکلے، گھٹ گھٹ کر اندر کے انسان کی موت واقع ہوجائے لیکن روایات زندہ رہتی ہیں اور قیدی روایات کے اندھے کنوئیں میں مدفن ہوجاتے ہیں۔

اس سے پہلے کہ ڈپریشن بڑھ جاتا, صلہ  اپنی ایک ماہر نفسیات دوست کے پاس جا پہنچی۔

” صلہ ، خوش باش رہنے کے لیے انسان کو اس دنیا کے معیارات سے نہیں، خود کواپنی نظر سے دیکھنا ہوگا۔“

اس کی سائیکالوجسٹ دوست فوزیہ نے اسے ڈپریشن سے نکالنے کی کوشش کی ۔وہ جانتی تھی کہ صلہ اس کے پاس اس وقت آتی تھی۔جب وہ کسی غم کو لاشعور میں دفن کرنا چاہتی تھی یاجینے کے لیے کسی کی تائید کی متلاشی ہوتی تھی۔کسی بے وفا محبوب کو نذر آتش کرنا چاہتی تھی یا  شوہر کی آنکھوں میں سلائیاں پھیرنا چاہتی تھی ۔وہ یہ سب نہیں کرسکتی تھی   ۔ اسی لیے تو فوزیہ کے پاس آتی تھی ۔

آج پھر ویڈیو ڈے تھا۔ سردی بڑھ چکی تھی ۔راستے میں ایک ریڑھی والا گزر رہا تھا۔اس کی ریڑھی پر جرابیں، مفلر، ٹوپیاں ، رومال اور دستانے پڑے تھے۔صلہ کی نگاہ کالے رنگ کے دستانوں پر پڑی ۔

اس نے دستانوں کی ایک جوڑی پسند کی اور پہن لیے۔

راج نیچے دکان پر تھا ۔ وہ اوپر گودام میں تھی ۔اس نے ویڈیو کیمرہ آن کیا۔

” یہ ہے شرح غالب ،اس میں آپ کو بہترین تشریحات ملیں گی۔اب میں اس کے مندرجات آپ کو دکھاﺅں گی“

” یہ ہے ایک نادر خطاطی کی کتاب، جی ہاں صادقین صاحب، ۔۔۔۔“

وہ اس کتاب کے مختلف صحفات پلٹ پلٹ کر تصاویر دکھاتی رہی ۔آج دبی دبی آوازیں نہیں تھیں۔شاید اس نے دستانے پہن رکھے تھے ۔ لیکن یہ صرف کچھ دیر کی بات تھی۔۔

پھر وہی سرگوشیاں اس کی روح کو چیرنے  لگیں۔

پھر کوئی دبی دبی ہنسی میں بولا” چلو، اس سے ہاتھوں کی ساخت تو چھپ گئی ۔“

اس نے اپنے کانوں کو دوپٹے سے لپیٹ لیا جیسے پردہ تاننے کی کو شش کررہی ہو۔

کسی کی فرمائش پر الماری کے سب سے اوپر والے خانے میں رکھی ایک کتاب اٹھا نے کی کوشش کررہی تھی کہ وہ پھسل کر نیچے جاگری ،اسی لمحے کوئی چلاکر بولا،

” اتنے بڑے بڑے ہاتھوں سے ایک کتاب نہیں سنبھالی جاتی۔۔۔۔۔“

بس یہ آخری فقرہ تھا جو اس نے سنا۔۔۔۔۔پھر کچھ سنا ہی نہیں گیا۔

کئی مد ہوش ساعتیں گزر گئیں۔دو سائے تیزی سے گودام میں داخل ہوئے۔جیانے لپک کر صلہ کے بے جان وجود کو اٹھایا ۔ویڈیو چیٹ آن تھی۔

” ارے لوگو، یہ تم نے کیا کیا، ایک محنت کش عورت کو مارڈالا۔یہ دیکھو میرے ہاتھ، کتنے نرم نازک ہیں۔کتنے کومل مگرمیں شراب پیتی ہوں، یہ دیکھو، اس نے الماری کے ایک کونے سے شرا ب کی بوتل پکڑی اور ہونٹوں سے لگالی ، میں چرس پیتی ہوں، یہ دیکھو ، اس نے جیب سے چرس نکال کر ایک کتاب پر رکھ دی۔یہ دیکھو ، میں سگریٹ بھی پیتی ہوں۔اس نے سگریٹ کا کش لگایا۔

صلہ کے ہاتھوں نے میرے ہاتھوں کی طرح کبھی شراب کی بوتل کو نہیں چھوا، کبھی چرس کو ہاتھ نہیں لگایا۔اس کی انگلیوں میں کبھی کوئی سگریٹ نہیں پھنسا۔

اس نے ان ہاتھوں سے رزق حلال بھی کمایا۔ کتنے پاکیزہ ہاتھ تھے اس کے ۔تم نے اسے رب کی عطا پر بھی اذیت دی ۔مجھے میری لغزشوں پر نہیں ٹوکا۔

کئی بار ، تمہارے سامنے میں نے نشہ اپنے حلق میں اتارا اور تمہاری نظریں میرے جسم کے نشیب و فراز پر جمی رہیں ۔تم نے میرے نرم ونازک ہاتھوں کو سراہا اور اس کو مارڈالا جس نے اپنے بدن کو پوشیدہ رکھ کر کتابوں کو تم پر کھولا۔

ہائے، یہ تم نے کیاکیا ۔؟

ٓ اس نے اپنا چہرہ راج کی طرف موڑا جو مردہ صلہ کے بھولے بھالے چہرے پر خون کی لکیروں کو دیکھ کر ہوش و حواس کھو بیٹھا تھا ۔

جیا اٹھی ، اس نے راج کا گریبان پکڑ لیا۔غصے سے اس کی رگیں پھول رہی تھیں۔

” تم نے پہلے جیاکو قتل کیا۔اب صلہ کو بھی کردیا۔“

” نہیں جیا، مجھے تو تم دونوں سے محبت ہے۔تم جانتی ہو۔ میں فیمنسٹ ہوں۔۔

جیا نے بوسیدہ کتابوں کی طرف دیکھا جیسے ان سے گواہی مانگ رہی ہو۔۔ایک مخصوص بو اس کے نتھنوں سے ٹکرائی۔وہ شدت درد سے کلبلا اٹھی۔

”ارے کون سی محبت،تم نے مجھے ہوس پرستوں کی بستی میں دھکیل دیا ۔ اپنے اس شوق کے لیے  میرا گزارا یہاں سے ہوجاتا تھا۔ مگر اب میں جسم بیچتی ہوں اور نشہ خریدتی ہوں۔اسے دیکھو صلہ کو جسے تم نے  بے رحم گاہکوں کے حوالے کرکے اس کی خیر خبر نہیں لی۔یہ کتابیں بیچتی رہی اور روگ پالتی رہی۔تم فیمنسٹ نہیں، تم ریپسٹ ہو۔“

راج کی قوت گویائی کو صلہ کے تاج کی ڈوریوں نے سلب کردیا تھا۔اس کی آنکھیں ملتجی انداز میں صلہ کے سر پر چمکتے ہوئے تاج پر گڑی تھیں اوراس کے کانوں میں جیا کی درد بھری آواز گونج رہی تھی ۔

” تمہیں یہ توپتا ہے کہ رابندر ناتھ ٹیگور کہتا ہے کہ عورت خدا ہی کی صنعت نہیں، بلکہ انسانوں کی بھی ہے اور

 تم یہ بھی جانتے ہو کہ محبت انسان کے لیے کتنی ضروری ہے ۔

 مگر تمہیں یہ پتا نہیں کہ جس سے محبت ہو، اسے شکاریوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑتے۔“

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


افسانہ: فیمنسٹ

مصنفہ:صبا ممتاز بانو، لاہور


سردموسم پوری جولانی پر تھا۔اس کے اردگرد ٹھنڈی ہوائیں رقص کررہی تھیں اورہر طرف یخ بستہ رنگ بکھرے ہوئے تھے ۔حرارت صرف ان ڈبوں میں مقید تھی جو زمین پردیواروں اور چھتوں سے بنے تھے۔ان چھوٹے بڑے ڈبوں میں بھی کئی ڈبے تھے جن میں ہیٹر دہک رہے تھے ، انگیٹھیاں جل رہی تھیں  اور عاشقوں کی موج مستیوں سے رضائیاں  مچل رہی تھیں۔۔باہر تو صرف وہ لوگ تھے جن کی ضرورتوں اور مجبوریوں نے انھیں اس شدید سرد موسم میں گھر سے باہر دھکیل دیاتھا یا پھر وہ منچلے جو موسم سے چھیڑخانی کے واسطے نکلے تھے ۔

صلہ کی مجبوریوں نے بھی رات سے اس کے  دل و دماغ کو گرفت میں لے رکھا تھا ۔وہ نہ چاہتے ہوئے بھی گرم سوٹ کے اوپر کالا عبایا اور کالے عبائے کے اوپر ایک لمبا کوٹ پہن کر گھر سے نکل پڑی۔گھر کی دہلیز پار کرتے  ہی ایک مرصع تاج بھی اس کے سرپر جگمگانے لگا۔جس پر کئی ڈوریاں بندھی ہوئی تھیں۔اس تاج کواس نے سرسے اتارنے کی خواہش  تو کی تھی لیکن جونہی وہ اسے اتارنے کی کوشش کرتی دہشت ناک آوازیں اور ہیبت ناک چہرے اس کے اردگرد دائرے میں رقص کرنے لگتے اور وہ اس خیال کو یکسر ترک کردیتی۔ وہ جانتی تھی کہ اس نے جونہی اس دائرے سے باہر قدم نکالا۔ یہ سب اس پر ٹوٹ پڑیں گے۔

زمین کے سینے پر پڑتے اس کے بھاری قدموں سے راستہ بھی دہائی دینے لگا۔ تیز تیز چلنے کی وجہ سے اس کا جسم تو گرمی پا  گیا تھا لیکن جہاں جہاں اس کے قدم پڑے تھے ، وہاں وہاں زمین ابھی بھی درد سے کسمسا رہی تھی ۔

زمین کی درد آشنا زمین ہی ہو سکتی ہے۔

صلہ نے اپنے سرد ہاتھ کوٹ کی جیبوں میں ڈال رکھے تھے اور اپنے سر کو پوری طرح سکارف میں لپیٹ رکھاتھا ۔ اس وقت صرف اس کا چہرہ اور ہاتھ ہی عریاں تھے ۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ ان دونوں موروثی تحفوں کی ظاہری ساخت میں معاملہ ضد کا تھا ۔سڑک پار کرتے ہی وہ ایک ایسی گلی میں جاپہنچی جو اب پرانی دکانوں کا مرکز بن چکی تھی ۔اس گلی کے آغاز میں شہر کا ایک بڑا پولیس مرکزبھی تھا جس میں ہر وقت پولیس ملازمین اور عوام کا ہجوم رہتا۔چند فوٹو سٹیٹ والے ، پرانی کتابوں کی دکانیں اور ایک چائے والا جو سارا دن تھانے اور دکانوں والوں کو چائے بھیجتا رہتا۔

چائے خانے سے پہلے اس کی ایک چھوٹی سی سٹیشنری دکان تھی پھر کسی سیانے نے اسے مشورہ دیا کہ اب لکھنے پڑھنے والے لوگ کہاں، دکان کے اگلے حصے میں چائے خانہ کھول لو۔زیادہ کماﺅ گے۔اس نے ایسا ہی کیااور اس دن  سے اب تک وہ بے کار نہیں بیٹھا۔ سب سے زیادہ چائے اس سے راج منگواتا تھا۔ راج جو ایک فلسفی تھا، ایک شاعر تھا اور ایک کتب فروش۔۔

اس گلی میں ایک متکبر ناشر بھی تھا ۔ ہاں ، وہی جس نے صلہ کی کتاب چھاپنے کے عوض اسے رائلٹی کی پیش کش کی تھی لیکن بدلے میں باتوں باتوں میں اس کے جسم کی تمنا بھی کی تھی اور باتوں باتوں میں ہی صلہ نے انکار بھی کردیاتھا۔کچھ عرصے بعدشنید ہوئی کہ اپنے غرور اور غلط فیصلوں کے باعث وہ ناشر دیوالیہ ہو گیا۔گلی اس کے ناپاک وجود سے خالی کیاہوئی، شہر بھر کے پرانی کتابوں کے سیلز مین یہاں آکر بیٹھ گئے ۔

تیز رو صلہ کے قدم ہمیشہ اس گلی میں آکر آہستہ ہو جاتے کیونکہ ہر دو قدم کے فاصلے پر کتابوں کی کشش اسے روک لیتی ۔ کئی دکانوں پر رُکتے اور ٹھہرتے ہوئے وہ اس پرہجوم گلی میں بہت سارے مردوں کے درمیان شان بے نیازی سے ایک ملکہ کی طرح چلتی ہوئی راج تک آپہنچی تھی ۔بلاشبہ وہ حسین تھی ۔ اونچا لمبا قد، کسرتی جسم ، مخمور آنکھیں ، تیکھا ناک جس پر نہیں لگتا کہ اس نے کبھی مکھی بیٹھنے دی ہوگی ، بھرے بھرے ہونٹ جو سردی سے تھرتھرا رہے تھے ۔

” مجھے پنجابی کی ڈکشنری چاہیے ۔ “ اس نے اپنی مخمور آنکھیں راج پر مرکوز کرتے ہوئے کہا۔

” وہ تو میرے پاس نہیں لیکن میں تلاش کرسکتا ہوں ، آپ مجھے دودن کاوقت دے دیجیے ۔ وہ میرے پاس گودام میں رکھی ہوگی۔“ راج نے صلہ کی طرف اشتیاق بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔

سچ تو یہ ہے کہ بارہ سال سے کتابوں سے جڑے شخص کو اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ اس کے خزانے میں کون سی کتاب ہے یا نہیں لیکن پسندیدہ چہرہ انسان کو کمزور کردیتا ہے ۔ کوئی نادیدہ قوت راج پر حاوی ہوگئی جس نے اسے کتاب کے ملنے کی امید دی ۔ کتنی ہی کتابوں کی بوریاں روز تو گودام میں آتی جاتی تھیں۔شاید اسے مل ہی جائے۔

” کیا میں پوچھ سکتاہوں کہ آپ کو پنجابی کی ڈکشنری کس لیے چاہیے ۔“

” جی ، وہ میں پنجابی میں شاعری کر رہی ہوں تو مجھے اوزان کے لیے الفاظ کو دیکھنے کی ضرورت پڑتی ہے۔“

” تو آپ پنجابی میں شاعری کرتی ہیں ۔“ راج مسکرایا۔ یہ تو اس کے ہی قبیلے کی تھی ۔

” شاعری تو اردو میں کرتی ہوں ، افسانے لکھتی ہوں ۔ مگر اب پنجابی کا شوق چڑھا ہے ۔“

” میں بھی شاعر ہوں لیکن آزاد شاعر، یہ دیکھیں میری شاعری کے نمونے ۔ میری ایک ادبی تنظیم بھی ہے جس کے تحت میں سو سے زائد تقریبات کر چکاہوں۔“

راج نے جھٹ سے موبائل اس کے سامنے کردیا ، جس میں اس کی شاعری اور ادبی تنظیم کا پیج بھی تھا اور مختلف اخبارات میں چھپنے والی شاعری کے نمونے بھی ۔

” کیا آپ اس منجمد کر دینے والی سردی میں میرے ساتھ ایک کپ چائے پینا پسند کریں گی ۔“

اس نے ہلکی سی مسکراہٹ سے راج بخت کو دیکھا، ایک چالیس سالہ کمزور ، ناتواں شخص ،جس کی داڑھی دیکھ کر اس کے سکھ ہونے کا گمان ہوتا تھا۔

اس دن کی چائے کا سفر دوستی پر متنج ہوا ۔ چائے میٹھی تھی لیکن راج بخت کی باتیں اس کے لیے کڑوی ۔

وہ خدا کے وجود کا قائل نہیں تھا۔ وہ مذہب کو ذہین فطین لوگوں کی اختراع سمجھتا تھا ۔ سکھ مذہب کے بانی گرونانک سے متاثر تھا،زمین کو خدا مانتا تھا۔ زمین، جو انسان کو خوراک سے لے کر پناہ تک دیتی ہے ۔ اس کی باتوں میں ایسی منطق اور دلائل تھے کہ کسی ضعیف ا لعقیدہ شخص کو ملحد کرسکتے تھے ۔ کئی بار اس کا تاج بھی لڑکھڑایا لیکن اس کے ساتھ بندھی ڈوریوں نے اسے گرنے نہیں دیا۔

صلہ اور راج بخت کی زندگی میں کچھ بھی مشترک نہیں تھا۔ صلہ ایک خانماں برباد عورت تھی۔اس کا شوہر عورتوں کا رسیا تھا جس نے کبھی اپنے کندھوں پر ذمہ داری کی چڑیاکو بٹھایا ہی نہیں تھا۔اس کی ان حرکتوں کی وجہ سے صلہ نے اسے اپنی زندگی سے ہی اڑا دیاتھا ۔زندگی کا بوجھ شوہر کی بے وفائی کے بوجھ سے بہت کم تھا۔

کتابوں کے شوق نے راج بخت کو سرکاری اور نجی ملازمتوں کو ٹھکرانے پر مجبور کردیاتھا۔نصابی کتابیں اس نے بیرونی الماریوں میں سجارکھی تھیں اور ادبی، سماجی ودیگر اور نایاب کتابیں اس کے اوپر والے گودام میں رکھی تھیں۔

” صلہ تم میری کتابوں کا آن لائن بزنس سنبھال لو ، میں روزانہ کی فروخت میں سے پندرہ فیصدتمہیں دیا کروں گا۔تمہیں بس سوشل میڈیا پر کام کرناہوگا۔“

” مجھےکا م کی بابت کچھ تفصیل بتائیں گے آپ  ، “ صلہ نے کتابوں کے خزانے کو دیکھتے ہوئے کہا۔

”میں نے نے فیس بک پر ایک پیج بنارکھا ہے ۔ انسٹا گرام پر بھی انہیں فروخت کرتا ہوں ۔ ایک فیس بک اور واٹس ایپ گروپ بھی بنا رکھا ہے جس کا میں تمہیں ایڈمن بناﺅں گا۔ وہاں پر روزانہ کی بنیا د پر تم دس پندرہ کتابوں کی تصویریں کھینچ کر لگاﺅگی پھر  جیسے ہی کسی گاہک کی جانب سے بھیجی گئی آرڈر کی رقم  میرے اکاﺅنٹ  میں پہنچے گی،میں کتاب پوسٹ کردوں گا۔ “

اس نے چھوٹے بچوں کی طرح اسے ایک ایک بات تفصیلا" سمجھائی ۔

” ٹھیک ہے ، کام اتنا مشکل نہیں۔“ اس نے آہستہ سے کہا۔

” نہیں، یہ کام بہت مشکل ہے ۔ کئی لوگ بلاوجہ تم سے گفتگو کریں گے ۔ تمہیں اس کتاب کے مندرجات کی تصویر بنا کر بھیجنے کوکہیں گے۔ کئی اس کے عنوانات کو لے کر بات چیت شروع کردیں گے ۔تمہیں سکون سے بیٹھنے کا کوئی لمحہ نہیں ملے گا۔ صرف اتناہی نہیں، کئی لوگ تمہارا تاج بھی اتارنے کی کو شش کریں گے ۔“ اس کی آخری بات نے صلہ کو چونکادیا۔

” کیاان کے ہاتھ اتنے لمبے ہیں۔؟یہ میرا خاندانی تاج ہے ۔ اسے اتارنا اتنا آسان نہیں۔ اب تو یہ سیمنٹ کی طرح پختہ ہوچکاہے ۔ اس تاج کی حفاظت فرشتے کرتے ہیں۔مجھے اس کی کوئی فکر نہیں، بس

مجھے زیادہ لوگوں سے بات چیت یا رابطے سے الجھن ہوتی ہے مگر ضرورت انسان کو پھٹا ہوا لباس بھی سی کر پہننے پر مجبور کردیتی ہے۔ اپنی گفتگو کو رسیلا اوربدن کو لچکیلا بنانے پر مجبور کردیتی ہے ۔ضرورتوں کے جنازے تو اٹھانا ہی پڑتے ہیں۔لمحہ موجود میں ہونا بھی ایک نعمت ہوتی ہے ۔میں اس نعمت سے فیض یاب ہونا چاہوں گی ۔“

” ان کے ہاتھ تمہاری سوچ سے بھی لمبے ہیں۔ تم خود اپنا تاج اتارنے پر راضی ہوجاﺅگی ۔اس تاج کی حفاظت فرشتے نہیں، تمہارے اندر کی انا کرتی ہے بھولی صلہ۔جس دن یہ انا ٹوٹ پھوٹ گئی ۔ یہ تاج خود ہی ہواﺅں میں اڑ جائے گا۔خیر چھوڑو، کام کی بات کرتے ہیں۔میں اس کام کے لیے تمہیں اپنی سم دوں گا، گیارہ بجے دن سے شام چار بجے تک تم کام کروگی۔ دوپہر کا کھانا اور چائے میری طرف سے تمہیں میسر ہوگی ۔پہلے بھی ایک لڑکی میرے پاس یہ کام کرتی تھی اور اس کے مہینے کے پچیس تیس ہزار بن جاتے تھے ۔ میں نے پیسوں کے معاملے میں کبھی ڈنڈی نہیں ماری تھی لیکن پھر وہ چلی گئی ۔۔۔“

” اس نے کیوں چھوڑا۔ “ راج کے چہرے پر پھیلی اداسی نے اسے سوال کرنے پر مجبور کردیا۔

” وہ بہت بولڈ تھی ۔ بے باکی کے رنگ میں رنگا پہناوا،  کٹے ہوئے بال اور آزادانہ لائف سٹائل لیکن مجھے اس کے حلیے سے کوئی غرض نہیں تھی ۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ واحد عورت تھی جس نے زندگی میں مجھے متاثر کیا۔  کتابوں سے اسے عشق تھا۔ دنیا جہان کی کتابیں اس نے پڑھ رکھی تھیں۔میں علی عباس جلال پوری پر بات کرتا یا سبط حسن پر، میرا موضوع میکسم گورکی ہوتایا سارتر یا کارل مارکس یا پھر ٹالسٹائی ، اس نے مجھے کبھی مایوس نہیں کیا تھا۔وہ میری ہی طرح رابندر ناتھ ٹیگور اور ن م راشد کی مداح تھی ۔اسے ملکی اور عالمی ادب ازبر تھا۔وہ بے تکان اور بے ساختہ بولتی تھی ۔اس کا علم کئیوں کی بولتی بند کرنے کے لئے کافی تھا۔

ہم بہت اچھے دوست بن چکے تھے ۔ہم اکٹھے کتابوں کی سیر کرتے ۔ ہمارے درمیان کئی حاصل اور لاحاصل باتیں ہوتیں۔جن کا نچوڑ چاہے کچھ نہ نکلتا مگر سردیوں میں رم یا برانڈی اور گرمیوں میں واڈکا یا وہسکی پر تان ضرور ٹوٹ جاتی ۔

وہ چرس، شراب اور عورت کی قربت پسند کرتی تھی۔اس کا تعلق ایک متوسط خاندان سے تھا ۔ ملازمت وہ اپنا نشہ پورا کرنے کے لیے کرتی تھی ۔ہمارے درمیان ایک خاص حد تک بے تکلفی تھی، وہ اکثر چلتے چلتے میرے کولہوں پر چٹکی کاٹ دیتی،  کبھی  وہ پاوں  پسارے زمین پر بیٹھی ہوتی تو میں اس کے زانو پر سر رکھ کر لیٹ جاتا تھا۔“

”لیکن میں یہ سب نہیں کرسکوں گی۔“ صلہ کے لہجے میں کڑواہٹ  در آئی۔۔

” ایک طرف جیا اتنی بولڈ ، لبرل اور باشعور ۔دوسری طرف تم جسے شراب کا شوق ہے اور نہ سگریٹ کی عادت ، جسے نہ چرس اچھی لگتی ہے اور نہ بے تکلفی “ وہ صلہ کا موازنہ جیا سے کررہاتھا۔

”جیا تو آپ جیسی تھی اور صلہ تو صرف اپنے جیسی ہے ۔“صلہ نے خود پر زور دیا۔

” فکر نہ کرو، مجھے تم سے یہ سب نہیں چاہیے۔ تم دونوں میں ایک بات مشترک ہے ۔ وہ بھی تمہاری طرح عورت کی پاکیزگی کی قائل تھی لیکن صرف مردوں کے حوالے سے ۔ اسے اپنی دوشیزگی پر فخر تھا۔ باقی وہ ہر کام جائز سمجھتی تھی ۔ جانے ان مشرقی عورتوں کا لبرل ازم سیکس کے معاملے میں کہاں چلاجاتا ہے ۔“

” کیاوہ فیمنسٹ تھی۔“ میرے ذہن میں ایک سوال گونجا۔

” دیکھو صلہ ، ہر عورت میں ایک مرد بھی ہوتا ہے اور ہر مرد میں ایک عورت۔۔۔۔مجھے نہیں پتا کہ تم فیمنسٹ کسے کہتی ہو مگر میرے خیال میں اپنے حقوق کی بات کرنے والی ہر عورت فیمنسٹ ہے۔ ہر عورت کو اپنی زندگی اپنے انداز سے جینے کا پورا حق ہے ۔یہی فیمینزم ہے۔کچھ کے نزدیک آزادانہ روش فیمینزم ہے ۔ کچھ کے نزدیک یہ جائز حقوق کی جنگ ہے ۔اس تحریک نے کئی پینترے بدلے ہیں اور ہر اک نے اسے اپنے اپنے انداز سے اپنایا ہے ۔جیا کا لباس ، اس کا رہن سہن ضرور مغربی یا آزاد تھا مگر وہ مرد سے تعلقات کے معاملے میں ایک خالص مشرقی لڑکی تھی ۔“

” کیا آپ دونوں کے آپس کے  تعلقات ، تعلقات نہ ہونے کی وجہ سے خراب ہوئے ۔“ صلہ نے جاننا چاہا۔

”نہیں، وہ اکثر اوپر والے گودام میں اپنے دس بارہ دوست لڑکے لڑکیوں کو  بلا لیتی تھی ۔ وہ خوب ہنگامہ کرتے ، کھاتے پیتے اور پھر نشہ بھی کرتے ۔ میں اور جیا تین پیگ سے زیادہ کے متحمل نہیں ہوسکتے تھے۔

جب وہ میرے ساتھ بالانوشی کرتی تو میں اسے تین پیگ سے آگے نہیں جانے دیتا  تھا لیکن جب وہ اپنے دوستوں کے ساتھ ہوتی تو موج مستی میں چار پانچ پیگ پی لیتی۔پھر اس کو ہوش میں لانا میرے لیے مشکل ہوجاتا۔ اس کے دوست اسے چھوڑ کر بھاگ جاتے ۔ میں اسکا نشہ ہرن کرنے کے لیے مختلف تدبیریں کرتا۔

ایک دفعہ وہ شراب کے نشے میں دھت تھی ۔اس نے مجھے کہا ، ” راج ، میرے قریب آﺅ، میری ضرورت کے پر پھیلے ہوئے ہیں۔آﺅ، ایک دوسرے کے بدن میں اُڑان بھرتے ہیں۔“

میں اس کی بے ہوشی سے فائدہ نہیں اٹھانا چاہتا تھا ۔ میں نے اسے جیسے تیسے کرکے گودام سے نکالا۔اسے اپنے ساتھ موٹر سائیکل پر بٹھایا۔ راستے میں ایک پٹھان بچے سے قہوہ پیا۔فورٹریس میں ایک ہوٹل میں کافی منگوائی ۔ سرد سرد ہوا اورگرم گرم کافی نے اس کا نشہ اڑا دیا۔

” سنو، اب بتاﺅ ، جو تم چاہو گی ۔ میں کروں گا۔ بدن کی خواہش کی تکمیل بھی ۔۔۔۔۔“

” نہیں ۔ نہیں۔ بس راج مجھے اب گھر جانا ہے ۔“

ہوش میں آنے کے بعد اسے اپنی دوشیزگی قائم رکھنے کی فکر ستانے لگی تھی ۔میں اسے بہت پسند کرتا تھا ۔اس کے وصل کا خواہش مند بھی تھا اگر وہ ہوش میں فرمائش کرتی تو ضرور پیش قدمی کرتا ، شاید اپنی خوش بختی پر نازاں بھی ہوتا لیکن جب وہ اپنے ہوش و حواس میں ہی نہیں تھی تو میں یہ زیادتی کیسے کرسکتا تھا۔

”لیکن پھر آپ دونوں میں علیحدگی کیوں ہوئی ۔“ صلہ نے پھر وہی سوال داغا۔

”میں اسے کبھی بھی نہ چھوڑتا لیکن پوری مارکیٹ میں ان کے ہنگامے کو لے کر باتیں بننے لگی تھیں ۔ ایک طرف مذہبی لوگ تھے اوردوسری طرف ٹھرکی ۔ مذہبی اسے بے راہ رو سمجھ کر نکالنے پر مصر تھے جب کہ ٹھرکی انہیں آوارہ  سمجھ کر گلے لگانے کے متمنی تھے ۔ مذہبیوں نے میرے گودام کا نام کنجر خانہ رکھ دیا تھا ،تماش بینوں نے عیاشی کا اڈہ اور لبرلوں نے کلب۔اب بولو، میں کیا کرتا۔؟میں لبرل اور بولڈ ہونے کے باوجود اس معاشرے کی اخلاقی اقدار کو توڑنے کی جراءت نہیں کرسکتا تھا۔“

” آپ اسے سمجھادیتے تو وہ سمجھ ہی جاتی ۔“

” وہ میری بات سمجھنے کے لیے تیار نہیں تھی ۔وہ کہتی تھی کہ مجھے معاشرے کی پروا نہیں ۔ میں کہتا تھا کہ تمہیں نہ ہو مگر مجھے تو ہے۔ پھربات صرف یہی تک نہیں رہی تھی ۔وہ مجھ سے شادی کی خواہش کرنے لگی تھی “

” راج میں تم جیسی ہوں اور تم مجھ جیسے ۔ پھر کیو ں ہم ایک نہیں ہوجاتے ، یہاں تم جیسے کتنے ہیں جنہیں فرائڈ ازبر ہے ۔ جن کو تاریخ مذہبیات سے جنسیات تک کا علم ہے ۔راج میں کسی اور کے ساتھ رہی تو مر جاﺅں گی ۔ یہاں مذہبی لالچیوں، فسادیوں اور ٹھرکیوں کا راج ہے ۔ یہاں لبرل تماش بین عورت سے کھیلتے ہیں۔ کون مجھ جیسی بیوی چاہے گا جو شرا ب پیتی ہے اور چرس سے عشق کرتی ہے بھلے وہ خودنشے کا سوداگر ہو۔ ۔ “

” جیا، میں تمہاری عیاشیانہ اور آزادانہ زندگی کا کیسے متحمل ہو سکتا ہوں۔ تم ایک ا چھے گھر کی لڑکی ہو۔میرا گھر تمہارے  گھر جیسا نہیں۔ پھر میں معاشرے سے کٹا ہوا آدمی نہیں ہوں۔ میں  رسوم رواج کا قیدی ہوں اور اس جیل سے باہر نکلنا میرے لیے ممکن نہیں۔ “

” ارے ، میں انگلش میں ایم فل کررہی ہوں، خود کمالوں گی ۔ تمہارے بیوی بچوں کو بھی پالنے میں ساتھ دوں گی ۔زندگی ہماری ہے ، لوگوں کی نہیں۔“

” واہ، آپ کے لیے اسے مستقل طورپر اپنانے کا ایک سنہری موقعہ تھا۔“ صلہ کو مذاق سوجھا۔

”مگر مجھے ایسی کوئی  خواہش نہیں تھی۔ اس معاشقے کی اُ ڑتی اُ ڑتی خبریں میری گھر والی تک بھی پہنچ چکی تھیں۔ایسی عورت جو دن رات میرے اور میرے بچوں  کا خیال رکھتی تھی ۔ جس نے اپنا شباب مجھے راضی کرنے میں دان کردیاتھا ۔ جس نے اپنی توانائی اور طاقت کو داﺅ پر لگاکر میرے بچوں کو جنم دیا تھا ۔ جس نے ساری ساری رات میرے بچوں کو جاگ کر پالا تھا ۔ وہ کبھی اسے برداشت نہ کرتی۔ میں ایک خالص فیمنسٹ مرد اسے دکھ کیسے دے سکتا تھا۔ “

راج اور جیا کی ادھوری کہانی میں اگلا قدم  صلہ نے رکھا تھا۔۔گودام میں اب صلہ نے جیا کی جگہ لے لی تھی ۔ سارا دن کتابوں کی چھانٹی کرتی۔ ان کی تصویریں بناکر اپ لوڈ کرتی ۔دوپہر کے کھانے کے وقت صلہ اور راج بخت تھوڑی دیرکے لیے بیٹھ جاتے ۔کسی نہ کسی موضوع پر بات چھڑ جاتی ۔یونہی ایک دن پامسٹری پر بات چھڑ گئی ۔صلہ نے اپنے ہاتھ راج کے سامنے پھیلا دئیے ۔

” میرے ہاتھ دیکھو راج، یہ کیا کہتے ہیں، میری زندگی کے مسائل کبھی حل بھی ہوں گے یا نہیں۔“

” میں توپہلے د ن سے تمہارے ہاتھ دیکھ رہاہوں ۔بہت خوب صورت ہاتھ ہیں۔ میں نے ایسے ہاتھ کسی عورت کے نہیں دیکھے صلہ ۔“

صلہ نے اپنے  قدرے مردانہ سخت اور کھردرے ہاتھوں کو تاسف سے دیکھا اور اٹھ کھڑی ہوئی ۔

” راج ، کیا تم صرف اپنی بیوی کے لیے فیمنسٹ ہو،کیا میں عورت نہیں۔“

راج نے صلہ کے ہاتھوں کو پکڑ لیا اور پیار سے اسے اپنے سامنے بٹھا لیا، ” صلہ تمہیں وراثت میں یہ ہاتھ ملے اور قسمت میں محنت جس  نے تمہارے ان ہاتھوں کو کبھی سنورنے ہی نہیں دیا۔ تمہارے ہاتھ پاﺅں تمہاری مشقت کی تاریخ کے گواہ ہیں۔یہ ہاتھ بتاتے ہیں کہ تم نے زندگی میں کتنی محنت کی ہے ۔ یہ ہاتھ ایک محنتی عورت کے ہیں۔مجھے ان ہاتھوں سے محبت ہے ۔“

راج اس دنیا میں وہ واحد شخص تھا جس کو صلہ کے ہاتھوں سے محبت تھی۔اسے ہاتھ دیکھنا نہیں آتے تھے ۔لیکن اسے ہاتھوں کی ساخت سے طرز زندگی کا پتا چل جاتا تھا۔وہ تو آنکھوں اور باتوں سے اندر کی نفسیات کو بھی جانچ لیتا تھا۔ اس نے تواس کے سر پر اس مرصع تاج کو بھی دیکھ لیا تھاجوکسی کو نظر نہیں آتا تھا۔

ایسے ہی ایک لمحہ بازیافت میں اس نے صلہ کو اپنے بدن پر تسلط اورکسی کو سپردگی کی نفی کا نفسیاتی کُھرا،صلہ کی خود پرست انا میں تلاش کرلیاتھا۔سچ ہی تو تھا ،صلہ کے نزدیک کسی کو اپنا بدن پیش کرنا اپنی ہی بے توقیری تھا۔ اپنے آپ سے محبت اسے دوسروں سے دور رکھتی تھی۔وہ کیسے اپنے اس انمول جسم کو کسی کے لمس سے آلودہ کرسکتی تھی۔ایسی ویسی ہوتی تو سارادن سوشل میڈیا پر کتابیں نہ بیچتی ۔

” صلہ ، ہفتے میں ایک دن ہم فیس بک اور واٹس ایپ پر لائیو کتابیں فروخت کرتے ہیں۔ ہم ایک ایک کتاب پکڑیں گے ۔اس کا ٹائٹل ، مندرجات دکھائیں گے ۔ اس کی خصوصیات پر بات کریں گے ۔ ہاں اس دوران لوگ ہمیں براہ راست دیکھیں گے ، ہم سے سوالات کریں گے ۔ہم سے بات چیت کریں گے ۔ہمیں ایک کامیاب اور اچھے سیلز مین کی طرح مسکراتے ہوئے ان کا سامنا کرنا ہے اور ان کو اپنی کتابیں خریدنے پر آمادہ کرنا ہے ۔پہلی دفعہ میں تمہارا ساتھ دوں گا۔ پھر تم اکیلی لائیو جاﺅ گی۔“

صلہ نے چہرے پرجھکے بالوں کو اپنے  ہاتھوں سے ہٹاتے ہوئے راج کی طرف دیکھا۔ملیح چہرہ اور کھردرے ہاتھ،جیسے دونوں ایک دوسرے کی ضد تھے ، راج کوتو دونوں ہی اچھے لگتے تھے۔

پھر ہفتے کا وہ دن آہی گیا جب انہیں واٹس ایپ گروپ پر لائیو جانا تھا۔ ویڈیو کیمرہ آن ہوچکا تھا۔ راج گودام کے درمیان میں کھڑا ہوگیا۔ اس نے سب سے پہلے گروپ ممبرزکو تمام گودام کی سیر کرائی ۔ ایک ایک الماری میں رکھی کتابوں پر کیمرہ ڈالا۔ پھر نئی آنے والی کتابوں سے متعارف کرایا۔ ایک پرانی کتاب کی قیمت راج نے تین ہزار بتائی ۔

صلہ منتخب شدہ کتابوں میں سے ایک ایک کرکے راج کو کتاب پکڑاتی جاتی ۔گروپ کے سب لوگ پوری دلچسپی سے معلومات لے رہے تھے ۔پھر گروپ میں سے ایک شناسا سا چہرہ صلہ کو ہاتھ ہلاتا ہوا نظر آیا، ہاں وہ جیا تھی ، راج کی دوست، اس کی ہم پیالہ ، ہم نوالہ ، اس کی رازداراور اس کی لاحاصل محبوبہ۔شاید راج نے بھی جیا کو دیکھ لیاتھا۔

ویڈیو سیشن ختم ہوگیا۔ بے چین راج نے برانڈی کی بوتل نکالی اور منہ کو لگالی ۔کسی اپنے کو چھوڑ دینا جان پر کھیل جانے کا نام ہی توہے۔ پھر چاہے سولی سے لٹک جاﺅ یا زہر حلق میں اتار لو۔گھونٹ گھونٹ شراب بھی تو جی کو مارڈالتی ہے۔

”راج۔ زیادہ تر تو نصابی کتابیں ہی فروخت ہوتی ہیں ۔ پھر تم پرانی کتابیں کیوں خریدتے ہو۔ یہ تو بہت کم فروخت ہوتی ہیں۔“ صلہ نے راج کی حالت کودیکھتے ہوئے موضوع بدلنے کی کوشش کی ۔

” نصابی کتابوں سے زیادہ فائدہ نہیں ہوتا۔ اصل دیہاڑی تو ان کتابوں سے لگتی ہے ۔اس میں بہت سی کتب اب شائع ہی نہیں ہوتی ہیں یا پھر بہت مہنگی ہیں۔ میں ان کتابوں کی درج قیمت نہیں لیتا بلکہ ان کی قیمت ان کی قدرو قیمت کے حساب سے خود لگاتا ہوں۔پھر اس نے موبائل میرے سامنے کردیا،

ایک پرانی کتاب کے تین ہزار اس کے موبائل اکاﺅنٹ میں پہنچ چکے تھے ۔

ایک اور کتاب کے ہزار روپے بھی آچکے تھے ۔۔

”ابھی رات تک بہت سے پیسے آجائیں گے ۔کل میں ان تمام آرڈرز کو پوسٹ کردوں گا۔پھر میں کئی اداروں کی لائیبریریاں بھی سیٹ کرتاہوں ۔اس میں بھی اچھا خاصا کما لیتاہوں۔“

چھوٹے چھوٹے کاموں کے بھی کئی راز ہوتے ہیں جو ان کی تہ میں اتر کر ہی پتا چل سکتے ہیں۔ کسی نے سچ ہی تو کہا ہے کہ سمندر کی گہرائی کا اندازہ کنارے پر کھڑے ہوکر نہیں لگایا جاسکتا۔دلوں کے بھید ان میں اتر کر ہی پتا چلتے ہیں۔

اگلا ہفتہ آگیا۔ صلہ کو اکیلے لائیو جانا تھا۔ اس نے کتابوں کو ترتیب سے رکھا اور ویڈیو کیمرہ آن کردیا۔سیشن جاری تھا۔کبھی اس کے ہاتھ ایک کتاب کو پکڑتے اور کبھی دوسری کو ۔ کئی دفعہ اسے اپنے ہاتھوں سے اپنا دوپٹا ٹھیک کرنا پڑتا جو کبھی سینے اور کبھی سر سے بغاوت کرنے لگتا۔ کسی کی بے باک نگاہ اسے اندر تک چیر کر رکھ دیتی۔وہ اپنے تاج کوسنبھالتے ہوئے اپنا کام سرانجام دیتی رہتی۔

”پھر جیسے دھیمی سی کوئی آواز ، بڑے  بڑے ہاتھ۔۔۔۔۔۔

اوہ، آپ  پیاری ہیں مگر یہ ہاتھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“

اس نے ان آوازوں کو نظر انداز کرتے ہوئے سیشن مکمل کیا۔ اس کا سر بہت دُکھ رہاتھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو لپک کر اس کے ہاتھوں پر آ گرے ۔

ہفتے کا یہ ایک دن اس کے لیے قیامت ہوتا مگر حالات کی ستم گری اور راج کی طرف سے کی گئی تعریف کا سوچ کر وہ جیسے تیسے اس قیامت سے گزر جاتی۔

” تمہارے ہاتھ بہت خوب صورت ہیں صلہ ، مجھے ان سے محبت ہے۔“ یہ سوچ کر وہ تسلی دے لیتی کہ کوئی تو تھا جس کواس کے ہاتھوں سے محبت تھی۔ اسے  اپنے تاج سے محبت تھی ۔یہاں اس کا تاج محفوط تھا۔اتارنے والے ہاتھ بہت دور تھے۔بس باتوں کے تیر اسے چھلنی چھلنی کردیتے تھے۔

” صلہ ، کیاتم اس کام سے خوش نہیں، تمہارا چہرہ اتنا مرجھایا سا کیوں رہنے لگا ہے۔“

” نہیں راج، بس موسم بدل رہا ہے نا، اس لیے ۔۔۔۔۔“

اسے تو بچپن سے ہی قیامتوں کو چھپانے اور حادثوں میں چھپنے کی عادت تھی۔ایک تناﺅ ہی تو تھا۔کچھ دیر کے بعد ختم ہوجاتاتھا۔

لائیو ویڈیو کے دوران اکثر جیا کا چہرہ بھی دیکھنے کو ملتاتھاجس پر دعا اور امید کا ہالہ چمک رہا ہوتا تھا۔ اس لمحے ایک زور آور خواہش اس کے اندرضد کرنے لگتی کہ وہ راج کو گھسیٹ کر گودام میں لے آئے اور جیا کے دربار محبت میں پیش کردے ۔ کم از کم  ایک جھلک تو عاشق کا حق ہوتی ہے۔

دن رات ایک دوسرے کے پیچھے دوڑ رہے تھے ۔ سورج چاند بھی مقابل تھے ۔ جیا اور صلہ بھی ایک دوسرے کے سامنے کھڑی تھیں۔جیاکو راج سے محبت تھی اور صلہ کو راج سے غرض۔رہاراج تو اسے دونوں سے محبت تھی۔وہ جیا سے سلام دعا بھی نہیں رکھنا چاہتا تھا مگر صلہ کو ہمیشہ کے لیے دوست رکھنے کاخواہش مند تھا کیونکہ صلہ اس کی بیوی کے مقابلے پر نہیں کھڑی تھی ۔وہ اپنے ہی عشق میں گرفتار ایک بے چین روح تھی۔

صلہ راج کی طرح کہنہ روایات کی قیدی تھی جن میں بھلے روح کی سانس بھی نہ نکلے، گھٹ گھٹ کر اندر کے انسان کی موت واقع ہوجائے لیکن روایات زندہ رہتی ہیں اور قیدی روایات کے اندھے کنوئیں میں مدفن ہوجاتے ہیں۔

اس سے پہلے کہ ڈپریشن بڑھ جاتا, صلہ  اپنی ایک ماہر نفسیات دوست کے پاس جا پہنچی۔

” صلہ ، خوش باش رہنے کے لیے انسان کو اس دنیا کے معیارات سے نہیں، خود کواپنی نظر سے دیکھنا ہوگا۔“

اس کی سائیکالوجسٹ دوست فوزیہ نے اسے ڈپریشن سے نکالنے کی کوشش کی ۔وہ جانتی تھی کہ صلہ اس کے پاس اس وقت آتی تھی۔جب وہ کسی غم کو لاشعور میں دفن کرنا چاہتی تھی یاجینے کے لیے کسی کی تائید کی متلاشی ہوتی تھی۔کسی بے وفا محبوب کو نذر آتش کرنا چاہتی تھی یا  شوہر کی آنکھوں میں سلائیاں پھیرنا چاہتی تھی ۔وہ یہ سب نہیں کرسکتی تھی   ۔ اسی لیے تو فوزیہ کے پاس آتی تھی ۔

آج پھر ویڈیو ڈے تھا۔ سردی بڑھ چکی تھی ۔راستے میں ایک ریڑھی والا گزر رہا تھا۔اس کی ریڑھی پر جرابیں، مفلر، ٹوپیاں ، رومال اور دستانے پڑے تھے۔صلہ کی نگاہ کالے رنگ کے دستانوں پر پڑی ۔

اس نے دستانوں کی ایک جوڑی پسند کی اور پہن لیے۔

راج نیچے دکان پر تھا ۔ وہ اوپر گودام میں تھی ۔اس نے ویڈیو کیمرہ آن کیا۔

” یہ ہے شرح غالب ،اس میں آپ کو بہترین تشریحات ملیں گی۔اب میں اس کے مندرجات آپ کو دکھاﺅں گی“

” یہ ہے ایک نادر خطاطی کی کتاب، جی ہاں صادقین صاحب، ۔۔۔۔“

وہ اس کتاب کے مختلف صحفات پلٹ پلٹ کر تصاویر دکھاتی رہی ۔آج دبی دبی آوازیں نہیں تھیں۔شاید اس نے دستانے پہن رکھے تھے ۔ لیکن یہ صرف کچھ دیر کی بات تھی۔۔

پھر وہی سرگوشیاں اس کی روح کو چیرنے  لگیں۔

پھر کوئی دبی دبی ہنسی میں بولا” چلو، اس سے ہاتھوں کی ساخت تو چھپ گئی ۔“

اس نے اپنے کانوں کو دوپٹے سے لپیٹ لیا جیسے پردہ تاننے کی کو شش کررہی ہو۔

کسی کی فرمائش پر الماری کے سب سے اوپر والے خانے میں رکھی ایک کتاب اٹھا نے کی کوشش کررہی تھی کہ وہ پھسل کر نیچے جاگری ،اسی لمحے کوئی چلاکر بولا،

” اتنے بڑے بڑے ہاتھوں سے ایک کتاب نہیں سنبھالی جاتی۔۔۔۔۔“

بس یہ آخری فقرہ تھا جو اس نے سنا۔۔۔۔۔پھر کچھ سنا ہی نہیں گیا۔

کئی مد ہوش ساعتیں گزر گئیں۔دو سائے تیزی سے گودام میں داخل ہوئے۔جیانے لپک کر صلہ کے بے جان وجود کو اٹھایا ۔ویڈیو چیٹ آن تھی۔

” ارے لوگو، یہ تم نے کیا کیا، ایک محنت کش عورت کو مارڈالا۔یہ دیکھو میرے ہاتھ، کتنے نرم نازک ہیں۔کتنے کومل مگرمیں شراب پیتی ہوں، یہ دیکھو، اس نے الماری کے ایک کونے سے شرا ب کی بوتل پکڑی اور ہونٹوں سے لگالی ، میں چرس پیتی ہوں، یہ دیکھو ، اس نے جیب سے چرس نکال کر ایک کتاب پر رکھ دی۔یہ دیکھو ، میں سگریٹ بھی پیتی ہوں۔اس نے سگریٹ کا کش لگایا۔

صلہ کے ہاتھوں نے میرے ہاتھوں کی طرح کبھی شراب کی بوتل کو نہیں چھوا، کبھی چرس کو ہاتھ نہیں لگایا۔اس کی انگلیوں میں کبھی کوئی سگریٹ نہیں پھنسا۔

اس نے ان ہاتھوں سے رزق حلال بھی کمایا۔ کتنے پاکیزہ ہاتھ تھے اس کے ۔تم نے اسے رب کی عطا پر بھی اذیت دی ۔مجھے میری لغزشوں پر نہیں ٹوکا۔

کئی بار ، تمہارے سامنے میں نے نشہ اپنے حلق میں اتارا اور تمہاری نظریں میرے جسم کے نشیب و فراز پر جمی رہیں ۔تم نے میرے نرم ونازک ہاتھوں کو سراہا اور اس کو مارڈالا جس نے اپنے بدن کو پوشیدہ رکھ کر کتابوں کو تم پر کھولا۔

ہائے، یہ تم نے کیاکیا ۔؟

ٓ اس نے اپنا چہرہ راج کی طرف موڑا جو مردہ صلہ کے بھولے بھالے چہرے پر خون کی لکیروں کو دیکھ کر ہوش و حواس کھو بیٹھا تھا ۔

جیا اٹھی ، اس نے راج کا گریبان پکڑ لیا۔غصے سے اس کی رگیں پھول رہی تھیں۔

” تم نے پہلے جیاکو قتل کیا۔اب صلہ کو بھی کردیا۔“

” نہیں جیا، مجھے تو تم دونوں سے محبت ہے۔تم جانتی ہو۔ میں فیمنسٹ ہوں۔۔

جیا نے بوسیدہ کتابوں کی طرف دیکھا جیسے ان سے گواہی مانگ رہی ہو۔۔ایک مخصوص بو اس کے نتھنوں سے ٹکرائی۔وہ شدت درد سے کلبلا اٹھی۔

”ارے کون سی محبت،تم نے مجھے ہوس پرستوں کی بستی میں دھکیل دیا ۔ اپنے اس شوق کے لیے  میرا گزارا یہاں سے ہوجاتا تھا۔ مگر اب میں جسم بیچتی ہوں اور نشہ خریدتی ہوں۔اسے دیکھو صلہ کو جسے تم نے  بے رحم گاہکوں کے حوالے کرکے اس کی خیر خبر نہیں لی۔یہ کتابیں بیچتی رہی اور روگ پالتی رہی۔تم فیمنسٹ نہیں، تم ریپسٹ ہو۔“

راج کی قوت گویائی کو صلہ کے تاج کی ڈوریوں نے سلب کردیا تھا۔اس کی آنکھیں ملتجی انداز میں صلہ کے سر پر چمکتے ہوئے تاج پر گڑی تھیں اوراس کے کانوں میں جیا کی درد بھری آواز گونج رہی تھی ۔

” تمہیں یہ توپتا ہے کہ رابندر ناتھ ٹیگور کہتا ہے کہ عورت خدا ہی کی صنعت نہیں، بلکہ انسانوں کی بھی ہے اور

 تم یہ بھی جانتے ہو کہ محبت انسان کے لیے کتنی ضروری ہے ۔

 مگر تمہیں یہ پتا نہیں کہ جس سے محبت ہو، اسے شکاریوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑتے۔“

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024