منظر لطیف کی چار نثری نظمیں

منظر لطیف کی چار نثری نظمیں

Oct 5, 2024



نظم/ غلط فہمیوں کا گلیشیر

زمیں کی کوک سے جنم لیتے پہاڑوں کی چوٹیوں پر

پگھلتی برف مجھے یہ محسوس کروا رہی تھی کہ

ہمارے درمیاں موجود غلط فہمیوں کا گلیشیر بھی

بہت جلدی پگھل جائے گا

تمہاری آمد کی طلب لیے ہم نے جوانی پر برآمدے میں بیٹھے بیٹھے

بوڑھے ہونے کو ترجیح دی

ہم تیری تلاش میں نکلے تو

محبت کے دیوتاؤں کی قبرؤں کو روند کر

ایسے آگے بڑھے جیسے توں ہمارے ٹھیک سامنے ہاتھ کھولے

ہمارے دل میں لگی آگ کو

اپنے برفیلے سینے سے لگا کر

پَل بھر میں ٹھنڈا کرنے کو ہمارا منتظر ہے

نہ جانے کون تمہاری خوشبو ہمارے جسموں کی زینت بنا گیا

ہم تجھے بُھولنے کا سوچتے تو اک خوف لپٹ جاتا

اور ہر طرف تمہاری آوازیں سنائی دیتی

میں کمرے کی دیواروں کو نوچتا

اماوس رات میں اُٹھ کر تنہائی کہ خوف سے

اِس جہاں کہ اُس پار تمہیں پکارتا بھی رہا

مگر میرے خوابوں پہ انتظار کا غُبار جم گیا

شاید تم اس بات پہ ایمان لے آے تھے کہ

تعلقات تو کاغذ کی کشتی کی طرح وقتی ہوتے ہیں

تمہاری یادوں کے آسمان میں

میں پرواز کرتا رہا مگر

مجھے میری منزل کی جانب فقط اداسیوں کی دُھند دیکھائی دیتی رہی

تم سے پہلے بھی اس جسم کو کسی نے چُھوا تھا

اس کہ بعد میرے تخیل نے ایسی نظمیں جنی

جن کو گنگناتے ہوئے افروڈائٹ خُدا کی طرف لوٹ گئی

تم سے پہلے بھی یہاں کسی نے چند خوابوں کی اک عمارت تعمیر کی تھی

جسے غلط فہمی کا سیلاب اپنے ساتھ ایسے بہا لے گیا

جیسے ہوا مجبور چڑیا کہ گھونسلے پر رحم تک نہیں کرتی

ہم نکلے تیری بے رحم یاد کا اینٹی ڈاٹ ڈھونڈنے مگر

کسے خبر تھی کہ ہم تمہاری یادوں کہ بے رحم سمندر کی نظر ہو جائیں گے

ہماری تلاش کو بھیجی گئی مچھلیوں نے ہماری داستانیں سُنی اور سمندر کی تہہ میں

زندہ قبروں میں خودکشیاں کر لی

تم میں ایسا بھی کچھ تو نہ تھا مگر تم نے

ہمارے دل کہ تہہ خانے میں موجود ان زخموں پہ بھی اپنے بوسوں بھری پٹیاں باندھی

جنہیں میں کبھی خُدا کہ علاؤہ کسی کو دیکھا تک نہ سکا

مگر کسے خبر تھی کہ توں بھی ہمیں وہ زخم دے جاۓ گا

جن سے خُدا تک منہ موڑ لے

میں تمہارے دیے دُکھ اُس بُڑھیا کو سناتا رہا

جس کی اکلوتی اولاد بھی جوانی کی دہلیز پر موت کی نظر ہو گئی

میں اُس چڑیا کو اپنا دُکھ سناتا اور روتا رہا

جس کہ بچوں کی پہلی اُڑان پر

خُدا نے بے رحم اولے برسا دیے

میں ان بوڑھوں کو اپنا دُکھ سناتا رہا

جن کی آنکھوں پر انتظار کی مکڑی نے جالے بُن دیے

وہ سہاگنیں جو سرخ کفن بدن پر سجاۓ ہاتھوں میں سندور کی ڈبیا لیے

راستوں کو تکتے تکتے اپنی بینائی کھو بیٹھی

میں ان کہ دل میں جمے غُبار کو دیکھتا اور سوچتا رہا

کیا تمہارے انتظار کا غم ان سب سے بڑا ہے؟

پہاڑوں پر موجود برف پگھل چُکی تھی

میں گھر کہ برآمدے میں بیٹھے بیٹھے

تمہاری تلاش میں لکھی گئی نظمیں گنگنا رہا تھا

اور سوچ رہا تھا کہ تم

کسی نہ کسی طرف سے واپس آ کر مجھے حیران کر دو گی

گھڑیال پر رات کہ بارہ بج چُکے تھے

اور میرا تخیل مزید نظمیں جننے سے معزرت کر چُکا تھا۔

منظر لطیف

_________________________


نظم/محبت آرٹ ہے

زندگی اُمیدوں کی بام پہ رقص کر رہی تھی

تمہارے جانے کی خبریں اُن سہاگنوں سے ملی

جو ماتھے پہ سندور سجاۓ

اپنے سپنوں کے آئینوں پر عُبار جمتے دیکھتی رہی

اور سوچتی رہی زندگی فلم ہے

اڑھائی گھنٹے کی فلم کئی برس تک چلتی رہی

اُمیدوں کی موم بتی جلتی رہی

مگر دل میں وسوسوں کی کائی جمی رہی

آسماں سے بے رحمی کی سرخ بارش برستی رہی

اور ہمارے کچے خواب پانی میں بھیگتے

اپنا وجود کھوتے رہے

خُدا کی نا انصافیوں پہ روتے رہے

مگر خُدا یونانی دیوی ایفروڈائٹ کی محبت میں گُم

یہ بھول گیا کہ زمیں پہ جانور نہیں انساں بستے ہیں

تیری خوشبو سے مِلی جُلی ہوا

ہمیں اپنے ساتھ اُن انجان ساحلوں پہ لے گئی

جہاں کاغذ کی کشتیوں پر ہمیں وہ سفر کرنا تھا

جس کی منزل پہ توں ہمارا منتظر تک نہ تھا

چودہ زمانے لگے تجھے بُھولنے میں اور اگلی ہی رات

توں خواب میں پھر ہمارے دل کہ بعد دالان میں دیکھا گیا

مگر کسے خبر تھی

کہ ہمارے خوابوں سے توں ایسے ہجرت کر جاۓ گا

جیسے کونجیں شام کہ وقت شہر چھوڑتی ہیں

ہمارے ہاتھوں میں سندور کی ڈبیا

کئی ارمانوں کہ ساتھ جمی کی جمی رہ گئی

تیرے وعدوں بھرے خطوط میں جلانے جاتا

تو سینے میں اک آگ اُٹھتی

وہی خطوط جن پہ ملنے کی وعدے تھے

میں تمہارے انتظار میں

برآمدے میں بیٹھا بارش کی بوندوں سے تیرا پتہ پوچھتا رہا

رات ستاروں کو نگلتی رہی

چاند آسمان سے بغاوت کا سوچتا رہا

مگر میں آخری ملاقات کی داستانوں میں گم

یہ سوچتا رہا کہ محبت آرٹ ہے

تمہارے ساتھ زندگی گزارنے کا ارمان

دیوار پر ٹانکا رہ گیا

تمہاری آوازیں دیواروں سے ٹکراتی

میرے کانوں کو بتاتی رہی

کہ آرٹسٹ کی محبت کبھی مر نہیں سکتی

توں وہ پہیلی تھی جس نے ساتھ براعظموں کو

عشق و محبت کی افسانوی جنگ میں الجھائے رکھا

اور میں پاگلوں کی طرح چیخ چیخ کر

سولہ بلین کانوں کو بتاتا رہا کہ وہ

لوٹ آے گا دیکھنا وہ لوٹ آئے گا

مگر توں ہمیں غلط ثابت کرنے میں صحیح نکلا

ہم شطرنج کے پیادوں کی طرح

تیری حفاظت کرتے جان گنوا بیٹھے اور سوچتے رہے

محبت آرٹ ہے۔

منظر لطیف

________________________


نظم/ شکووں بھرا پارسل

میرے من پسند شخص

دسمبر کی سرد راتوں میں

دشت و ویرانی سے بے خبر تو نے

جو دلاسے مجھے دیے تھے وہ آج بھی

میری آنکھوں میں برسات بن کر محفوظ ہیں

تو نے جو اُمیدوں کے چراغ آج سے پانچ برس قبل

دل کے کسی کونے میں جلاۓ تھے

آج اُنکی لو مدھم پڑ رہی ہے

تیری میری محبت کے گواہ پرندے

تیری غیر موجودگی سے خفا ہو کر پانج برس سے لاپتہ ہیں

مگر تیری طرف دار ہوا روز

مجھے کچھ اُمیدیں تھما جاتی ہے

اور میں نظریں جمائے

کوسکو اور برن کے پہاڑوں کو دیکھتا رہتا ہوں

کہ شاید کسی طرف سے تیری آمد ہو

اپنے تخیل میں ارمان سجاۓ میں

فلوریڈا کے ساحلوں پر تمہارے ساتھ ملاقات میں گم

دنیا سے بے خبر تھا مگر جب تخیل کی

رنگین دنیا سے باہر قدم رکھا

تو تمہاری غیر موجودگی میرے ذہنی تناؤ کا باعث بنی

میری چیخیں دنیا کے ساتھ براعظموں میں سنائی دی

لبنان کے پہاڑی سلسلوں کی آغوش میں

جو عہد تم نے مجھے سے کیے تھے

وہ زنگ آلود ہو چُکے ہیں

رات کی تاریکی میں ویران شاہراہوں پر

تمہاری وہ مسکراہٹ آج بھی مجھے یاد ہے

جو دنیا کی حسین ترین عورتوں کی

بے چینی کا سبب تھی

ناروے کی شاہراہوں پر سوکھے پتے ہٹا کر

جو ہمارا نام تم نے وہاں لکھا تھا

اسکے مدھم سے نقوش آج بھی وہاں موجود ہیں

مگر ہم نہیں

تو ہمیں چھوڑنے پہ آیا تو

سالوں سے قائم

محبت کے بھرم اور تقدس کو پامال کر کے

ایسے گیا جیسے ہم تیری کہانی

میں فقط ایک کردار تھے

کاش تم سمجھ پاتے ایک شہر بسانے میں

کتنی جوانیاں لگتی اور تم نے

اس جوانی کو تباہ کرتے ایک لمحہ نہ سوچا

ہمارے دلوں میں موجود خلاؤں

کو پُر کرتے کرتے

تم ہماری زندگیوں کو بنجر کر کہ چلے گے

اور ہم نے چہروں پر مصنوعی مسکراہٹیں سجاۓ

سکوں کی تلاش میں

شہر کے شہر چھان مارے مگر

زندگی کوئی کتاب نہیں جسے جہاں سے دل کیا کھول لیا

زندگی کوئی رقاصہ نہیں جو

تمہاری مرضی کہ مطابق تمہیں منورنجن دے

میں تمہارا ساحر سالوں تک تم سے

امرتا سی محبت کا طلبگار رہا

مگر تم بھی آخر وہی نکلے

یہ کہتے ہی میں نے فون رکھ دیا

اور شکووں بھرا پارسل اس کی دہلیز پر ڈلیور کر کہ

اگلی کئی صدیوں کہ لیے لاپتہ ہو گیا

ابھی تک میری تلاش جاری ہے۔

منظر لطیف

________________________

نظم/ انتظار

سُنو اب لوٹ آو نہ

دیکھو

لوٹ آنے کی امیدوں نے مجھے

اتنا تڑپایا

کہ مجھے خود سے ہمدردی کے

آخری ذرات کا بھی خاتما کرنا پڑا

تم نہیں جانتی انتظار کس چڑیا کا نام ہے

جو پروں کہ باوجود اُڑ نہیں سکتی

تمہارے انتظار میں کتنی ہی آنکھیں نیند سے بوجھل

گھر کو آتے راستوں کو تکتی رہیں

کتنے جوانوں نے تمہارے انتظار میں

بالوں میں سفیدی سجا لی

زندانوں میں موجود قیدیوں نے

کئی سال اپنے کان دیواروں سے لگاۓ رکھے

تاکہ وہ تمہارے قدموں کی آہٹ سُن سکیں

اس انتظار میں کتنے لوگوں نے اپنی بینائی کھو دی

اور کتنے قیدی قوت سماعت سے محروم ہو گے

مگر تیرا کہیں پتا نہ چل سکا

اس انتظار کی چکّی میں پستے لکھاریوں نے

اپنے قلم توڑ دیے اور اپنی

تحریروں کو آگ میں پھینک کر

تیرے انتظار میں بیٹھے رہے

کتنے مصلّے تیری آمد کی دعاؤں میں رات بھر

آنسوں سے بھیگتے رہے

تالابوں پہ بیٹھے ہنس

تیرے انتظار میں بوڑھے ہو گئے

کتنی کونجھیں تیرے انتظار میں

پہاڑوں کی چوٹیوں پر بیٹھی بیٹھی مر گئیں

قبروں کے کتبوں پہ لکھے نام اس بات کی گواہی ہیں

کہ تیرے انتظار نے کتنی زندگیاں نگل ڈالیں

سردیوں کی طوفانی بارشیں

ویران جنگلوں میں جلتی آگ

سگریٹوں سے نکلتا دھواں

آئینوں میں قید مسکراہٹیں

سب تیرے انتظار میں رہے مگر تیرا کہیں پتا نہ چل سکا

جنگوں میں لڑتے سپاہی تیرا نام لے لے کر حملہ کرتے رہے

کتنی سرحدیں تیری آمد کہ انتظار میں

قبرستانوں کی شکل اختیار کر گئیں

کتنی حویلیاں تیرے قدموں کی آہٹ

اپنے سینوں پہ محسوس کرنے کی طلب میں

کھنڈرات میں بدل گئیں

کتنے دریا اس انتظار میں بوڑھے ہوۓ

کہ تو آ کر انکا پانی میٹھا کر دے

اتنے ارمان لیے

سمندر، دریا، قیدی، سپاہی، ہنس،

کونجھیں، مولوی اور پادریوں نے خودکشیاں کر لیں

مگر تو اپنی ہٹ دھرمی پہ

قائم رہی

اور خلا باز آج تک تیرا پتا معلوم نہ کر سکے۔

منظر لطیف

________________________



نظم/ غلط فہمیوں کا گلیشیر

زمیں کی کوک سے جنم لیتے پہاڑوں کی چوٹیوں پر

پگھلتی برف مجھے یہ محسوس کروا رہی تھی کہ

ہمارے درمیاں موجود غلط فہمیوں کا گلیشیر بھی

بہت جلدی پگھل جائے گا

تمہاری آمد کی طلب لیے ہم نے جوانی پر برآمدے میں بیٹھے بیٹھے

بوڑھے ہونے کو ترجیح دی

ہم تیری تلاش میں نکلے تو

محبت کے دیوتاؤں کی قبرؤں کو روند کر

ایسے آگے بڑھے جیسے توں ہمارے ٹھیک سامنے ہاتھ کھولے

ہمارے دل میں لگی آگ کو

اپنے برفیلے سینے سے لگا کر

پَل بھر میں ٹھنڈا کرنے کو ہمارا منتظر ہے

نہ جانے کون تمہاری خوشبو ہمارے جسموں کی زینت بنا گیا

ہم تجھے بُھولنے کا سوچتے تو اک خوف لپٹ جاتا

اور ہر طرف تمہاری آوازیں سنائی دیتی

میں کمرے کی دیواروں کو نوچتا

اماوس رات میں اُٹھ کر تنہائی کہ خوف سے

اِس جہاں کہ اُس پار تمہیں پکارتا بھی رہا

مگر میرے خوابوں پہ انتظار کا غُبار جم گیا

شاید تم اس بات پہ ایمان لے آے تھے کہ

تعلقات تو کاغذ کی کشتی کی طرح وقتی ہوتے ہیں

تمہاری یادوں کے آسمان میں

میں پرواز کرتا رہا مگر

مجھے میری منزل کی جانب فقط اداسیوں کی دُھند دیکھائی دیتی رہی

تم سے پہلے بھی اس جسم کو کسی نے چُھوا تھا

اس کہ بعد میرے تخیل نے ایسی نظمیں جنی

جن کو گنگناتے ہوئے افروڈائٹ خُدا کی طرف لوٹ گئی

تم سے پہلے بھی یہاں کسی نے چند خوابوں کی اک عمارت تعمیر کی تھی

جسے غلط فہمی کا سیلاب اپنے ساتھ ایسے بہا لے گیا

جیسے ہوا مجبور چڑیا کہ گھونسلے پر رحم تک نہیں کرتی

ہم نکلے تیری بے رحم یاد کا اینٹی ڈاٹ ڈھونڈنے مگر

کسے خبر تھی کہ ہم تمہاری یادوں کہ بے رحم سمندر کی نظر ہو جائیں گے

ہماری تلاش کو بھیجی گئی مچھلیوں نے ہماری داستانیں سُنی اور سمندر کی تہہ میں

زندہ قبروں میں خودکشیاں کر لی

تم میں ایسا بھی کچھ تو نہ تھا مگر تم نے

ہمارے دل کہ تہہ خانے میں موجود ان زخموں پہ بھی اپنے بوسوں بھری پٹیاں باندھی

جنہیں میں کبھی خُدا کہ علاؤہ کسی کو دیکھا تک نہ سکا

مگر کسے خبر تھی کہ توں بھی ہمیں وہ زخم دے جاۓ گا

جن سے خُدا تک منہ موڑ لے

میں تمہارے دیے دُکھ اُس بُڑھیا کو سناتا رہا

جس کی اکلوتی اولاد بھی جوانی کی دہلیز پر موت کی نظر ہو گئی

میں اُس چڑیا کو اپنا دُکھ سناتا اور روتا رہا

جس کہ بچوں کی پہلی اُڑان پر

خُدا نے بے رحم اولے برسا دیے

میں ان بوڑھوں کو اپنا دُکھ سناتا رہا

جن کی آنکھوں پر انتظار کی مکڑی نے جالے بُن دیے

وہ سہاگنیں جو سرخ کفن بدن پر سجاۓ ہاتھوں میں سندور کی ڈبیا لیے

راستوں کو تکتے تکتے اپنی بینائی کھو بیٹھی

میں ان کہ دل میں جمے غُبار کو دیکھتا اور سوچتا رہا

کیا تمہارے انتظار کا غم ان سب سے بڑا ہے؟

پہاڑوں پر موجود برف پگھل چُکی تھی

میں گھر کہ برآمدے میں بیٹھے بیٹھے

تمہاری تلاش میں لکھی گئی نظمیں گنگنا رہا تھا

اور سوچ رہا تھا کہ تم

کسی نہ کسی طرف سے واپس آ کر مجھے حیران کر دو گی

گھڑیال پر رات کہ بارہ بج چُکے تھے

اور میرا تخیل مزید نظمیں جننے سے معزرت کر چُکا تھا۔

منظر لطیف

_________________________


نظم/محبت آرٹ ہے

زندگی اُمیدوں کی بام پہ رقص کر رہی تھی

تمہارے جانے کی خبریں اُن سہاگنوں سے ملی

جو ماتھے پہ سندور سجاۓ

اپنے سپنوں کے آئینوں پر عُبار جمتے دیکھتی رہی

اور سوچتی رہی زندگی فلم ہے

اڑھائی گھنٹے کی فلم کئی برس تک چلتی رہی

اُمیدوں کی موم بتی جلتی رہی

مگر دل میں وسوسوں کی کائی جمی رہی

آسماں سے بے رحمی کی سرخ بارش برستی رہی

اور ہمارے کچے خواب پانی میں بھیگتے

اپنا وجود کھوتے رہے

خُدا کی نا انصافیوں پہ روتے رہے

مگر خُدا یونانی دیوی ایفروڈائٹ کی محبت میں گُم

یہ بھول گیا کہ زمیں پہ جانور نہیں انساں بستے ہیں

تیری خوشبو سے مِلی جُلی ہوا

ہمیں اپنے ساتھ اُن انجان ساحلوں پہ لے گئی

جہاں کاغذ کی کشتیوں پر ہمیں وہ سفر کرنا تھا

جس کی منزل پہ توں ہمارا منتظر تک نہ تھا

چودہ زمانے لگے تجھے بُھولنے میں اور اگلی ہی رات

توں خواب میں پھر ہمارے دل کہ بعد دالان میں دیکھا گیا

مگر کسے خبر تھی

کہ ہمارے خوابوں سے توں ایسے ہجرت کر جاۓ گا

جیسے کونجیں شام کہ وقت شہر چھوڑتی ہیں

ہمارے ہاتھوں میں سندور کی ڈبیا

کئی ارمانوں کہ ساتھ جمی کی جمی رہ گئی

تیرے وعدوں بھرے خطوط میں جلانے جاتا

تو سینے میں اک آگ اُٹھتی

وہی خطوط جن پہ ملنے کی وعدے تھے

میں تمہارے انتظار میں

برآمدے میں بیٹھا بارش کی بوندوں سے تیرا پتہ پوچھتا رہا

رات ستاروں کو نگلتی رہی

چاند آسمان سے بغاوت کا سوچتا رہا

مگر میں آخری ملاقات کی داستانوں میں گم

یہ سوچتا رہا کہ محبت آرٹ ہے

تمہارے ساتھ زندگی گزارنے کا ارمان

دیوار پر ٹانکا رہ گیا

تمہاری آوازیں دیواروں سے ٹکراتی

میرے کانوں کو بتاتی رہی

کہ آرٹسٹ کی محبت کبھی مر نہیں سکتی

توں وہ پہیلی تھی جس نے ساتھ براعظموں کو

عشق و محبت کی افسانوی جنگ میں الجھائے رکھا

اور میں پاگلوں کی طرح چیخ چیخ کر

سولہ بلین کانوں کو بتاتا رہا کہ وہ

لوٹ آے گا دیکھنا وہ لوٹ آئے گا

مگر توں ہمیں غلط ثابت کرنے میں صحیح نکلا

ہم شطرنج کے پیادوں کی طرح

تیری حفاظت کرتے جان گنوا بیٹھے اور سوچتے رہے

محبت آرٹ ہے۔

منظر لطیف

________________________


نظم/ شکووں بھرا پارسل

میرے من پسند شخص

دسمبر کی سرد راتوں میں

دشت و ویرانی سے بے خبر تو نے

جو دلاسے مجھے دیے تھے وہ آج بھی

میری آنکھوں میں برسات بن کر محفوظ ہیں

تو نے جو اُمیدوں کے چراغ آج سے پانچ برس قبل

دل کے کسی کونے میں جلاۓ تھے

آج اُنکی لو مدھم پڑ رہی ہے

تیری میری محبت کے گواہ پرندے

تیری غیر موجودگی سے خفا ہو کر پانج برس سے لاپتہ ہیں

مگر تیری طرف دار ہوا روز

مجھے کچھ اُمیدیں تھما جاتی ہے

اور میں نظریں جمائے

کوسکو اور برن کے پہاڑوں کو دیکھتا رہتا ہوں

کہ شاید کسی طرف سے تیری آمد ہو

اپنے تخیل میں ارمان سجاۓ میں

فلوریڈا کے ساحلوں پر تمہارے ساتھ ملاقات میں گم

دنیا سے بے خبر تھا مگر جب تخیل کی

رنگین دنیا سے باہر قدم رکھا

تو تمہاری غیر موجودگی میرے ذہنی تناؤ کا باعث بنی

میری چیخیں دنیا کے ساتھ براعظموں میں سنائی دی

لبنان کے پہاڑی سلسلوں کی آغوش میں

جو عہد تم نے مجھے سے کیے تھے

وہ زنگ آلود ہو چُکے ہیں

رات کی تاریکی میں ویران شاہراہوں پر

تمہاری وہ مسکراہٹ آج بھی مجھے یاد ہے

جو دنیا کی حسین ترین عورتوں کی

بے چینی کا سبب تھی

ناروے کی شاہراہوں پر سوکھے پتے ہٹا کر

جو ہمارا نام تم نے وہاں لکھا تھا

اسکے مدھم سے نقوش آج بھی وہاں موجود ہیں

مگر ہم نہیں

تو ہمیں چھوڑنے پہ آیا تو

سالوں سے قائم

محبت کے بھرم اور تقدس کو پامال کر کے

ایسے گیا جیسے ہم تیری کہانی

میں فقط ایک کردار تھے

کاش تم سمجھ پاتے ایک شہر بسانے میں

کتنی جوانیاں لگتی اور تم نے

اس جوانی کو تباہ کرتے ایک لمحہ نہ سوچا

ہمارے دلوں میں موجود خلاؤں

کو پُر کرتے کرتے

تم ہماری زندگیوں کو بنجر کر کہ چلے گے

اور ہم نے چہروں پر مصنوعی مسکراہٹیں سجاۓ

سکوں کی تلاش میں

شہر کے شہر چھان مارے مگر

زندگی کوئی کتاب نہیں جسے جہاں سے دل کیا کھول لیا

زندگی کوئی رقاصہ نہیں جو

تمہاری مرضی کہ مطابق تمہیں منورنجن دے

میں تمہارا ساحر سالوں تک تم سے

امرتا سی محبت کا طلبگار رہا

مگر تم بھی آخر وہی نکلے

یہ کہتے ہی میں نے فون رکھ دیا

اور شکووں بھرا پارسل اس کی دہلیز پر ڈلیور کر کہ

اگلی کئی صدیوں کہ لیے لاپتہ ہو گیا

ابھی تک میری تلاش جاری ہے۔

منظر لطیف

________________________

نظم/ انتظار

سُنو اب لوٹ آو نہ

دیکھو

لوٹ آنے کی امیدوں نے مجھے

اتنا تڑپایا

کہ مجھے خود سے ہمدردی کے

آخری ذرات کا بھی خاتما کرنا پڑا

تم نہیں جانتی انتظار کس چڑیا کا نام ہے

جو پروں کہ باوجود اُڑ نہیں سکتی

تمہارے انتظار میں کتنی ہی آنکھیں نیند سے بوجھل

گھر کو آتے راستوں کو تکتی رہیں

کتنے جوانوں نے تمہارے انتظار میں

بالوں میں سفیدی سجا لی

زندانوں میں موجود قیدیوں نے

کئی سال اپنے کان دیواروں سے لگاۓ رکھے

تاکہ وہ تمہارے قدموں کی آہٹ سُن سکیں

اس انتظار میں کتنے لوگوں نے اپنی بینائی کھو دی

اور کتنے قیدی قوت سماعت سے محروم ہو گے

مگر تیرا کہیں پتا نہ چل سکا

اس انتظار کی چکّی میں پستے لکھاریوں نے

اپنے قلم توڑ دیے اور اپنی

تحریروں کو آگ میں پھینک کر

تیرے انتظار میں بیٹھے رہے

کتنے مصلّے تیری آمد کی دعاؤں میں رات بھر

آنسوں سے بھیگتے رہے

تالابوں پہ بیٹھے ہنس

تیرے انتظار میں بوڑھے ہو گئے

کتنی کونجھیں تیرے انتظار میں

پہاڑوں کی چوٹیوں پر بیٹھی بیٹھی مر گئیں

قبروں کے کتبوں پہ لکھے نام اس بات کی گواہی ہیں

کہ تیرے انتظار نے کتنی زندگیاں نگل ڈالیں

سردیوں کی طوفانی بارشیں

ویران جنگلوں میں جلتی آگ

سگریٹوں سے نکلتا دھواں

آئینوں میں قید مسکراہٹیں

سب تیرے انتظار میں رہے مگر تیرا کہیں پتا نہ چل سکا

جنگوں میں لڑتے سپاہی تیرا نام لے لے کر حملہ کرتے رہے

کتنی سرحدیں تیری آمد کہ انتظار میں

قبرستانوں کی شکل اختیار کر گئیں

کتنی حویلیاں تیرے قدموں کی آہٹ

اپنے سینوں پہ محسوس کرنے کی طلب میں

کھنڈرات میں بدل گئیں

کتنے دریا اس انتظار میں بوڑھے ہوۓ

کہ تو آ کر انکا پانی میٹھا کر دے

اتنے ارمان لیے

سمندر، دریا، قیدی، سپاہی، ہنس،

کونجھیں، مولوی اور پادریوں نے خودکشیاں کر لیں

مگر تو اپنی ہٹ دھرمی پہ

قائم رہی

اور خلا باز آج تک تیرا پتا معلوم نہ کر سکے۔

منظر لطیف

________________________

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024