افسانہ : چھلی ریت والا
افسانہ : چھلی ریت والا
Oct 14, 2024
افسانہ :"چھلی ریت والا......"
مصنف:ارشد مرشد
دماغی امراض کے معروف معالج ڈاکٹر نوشیرواں کے کلینک میں آج معمول سے زیادہ رش تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے کمرے کے باہر کا ہال مریضوں اور ان کے ساتھ آنے والے عزیز و اقارب سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ شدید موسمی حبس اور گُھٹن کی وجہ سے پوری رفتار سے چلتے ہوئے چھت کے پنکھے بھی انسانی اجسام سے ہُمکتی عفونت کا اثر زائل کرنے میں بے بس دکھائی دیتے تھے۔ ہال کے باہر برآمدے میں بھی لوگوں کا ہجوم دیکھ کر یوں لگتا تھا جیسے شہر کا شہر ہی دماغی عارضوں میں مبتلا ہو۔
شازیہ بیگ دو مرتبہ پہلے بھی اپنے شوہر کے ساتھ ڈاکٹر نوشیرواں کے کلینک آ چکی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کی تجویز کردہ ادویات باقاعدگی سے استعمال کرنے پر بھی اس کا نفسیاتی مسئلہ بدستور الجھاو کا شکار تھا۔ گھنٹہ بھر انتظار کے بعد جب دونوں کلینک میں داخل ہوئے تو ڈاکٹر صاحب نے خوش مزاجی سے انہیں بیٹھنے کو کہا اور کچھ دیر مریضہ کی بیماری کے کاغذات الٹ پلٹ کر دیکھنے کے بعد مرض کی موجودہ صورتِ حال کے بارے میں استفسار کیا۔ اس سے پہلے کے شازیہ کچھ کہتی اس کے شوہر شاہد بشیر درمیان میں بول پڑے:"ڈاکٹر صاحب! آپ کی ادوایات نے کوئی خاص اثر نہیں دکھایا۔۔۔۔ گزشتہ دنوں گلی سے گزرنے والے ریڑھی بان نے جب چھلی ریت والا ۔۔۔۔کی آواز لگائی تو شازیہ پر ایک بار پھر سے وہی ہیجانی کیفیت طاری ہو گئی۔ اوپر نیچے کے دانت آپس میں اس سختی سے بھینچے گئے کہ پانی کا قطرہ بھی حلق میں اتارنا محال ہو گیا۔ ہاتھ پاوُں ٹیڑھے اور سارا جسم رعشے کے مریض کی طرح کانپنے لگا۔"
نہایت اطمینان اور تسلی سے ساری بات سن کر ڈاکٹر صاحب کچھ دیر کسی گہری سوچ میں ڈوبے رہے اور پھر پُر تشویش لہجے میں شاہد بشیر سے مخاطب ہوئے:"بات یہ ہے کہ میں اپنے علم اور تجربے کی روشنی میں حتُی الوُسع کوشش کر چکا ہوں۔ دماغی نمکیات ( Brain salts) کے مختلف کمبی نیشنز آزمانے کے باوجود اگر مرض میں آفاقہ نہیں ہو پایا تو میرا مشورہ مانیں اور انہیں کسی اچھے ماہرِ نفسیات (سائیکالوجسٹ)کو دکھائیں۔"
ڈاکٹر صاحب! اگر آپ دماغی امراض کے ماہر ہوتے ہوئے مرض کی تشخیص نہیں کر پائے تو سائیکالوجسٹ کے پاس کونسی ایسی جادو کی چھڑی یا کوئی ایسی گیدڑ سنگھی ہو گی کہ جس سے وہ اس پیچیدہ مرض سے چھٹکارا دلا دے گا؟
ڈاکٹر صاحب نے سوال کی تُرشی اور لہجے کی درشتگی کو نظر انداز کرتے ہوئے نرم لہجے میں جواب دیا:
"شاہد صاحب! کسی بھی ذہنی بیماری کی یا تو اندرونی اور طبعی وجوہات ہوتی ہیں جنہیں ہم ڈاکٹری اصطلاح میں (endogenous) کہتے ہیں۔ کچھ منفی ذہنی کیفیات ایسی ہوتی ہیں جن کے محرکات ارد گرد کے ماحول سے وابستہ یا مریض کے ساتھ پیش آنے والے کسی حادثے سے جڑے ہوتے ہیں۔ ایسے عارضوں کو (exogenous)کہاجاتا ہے, یہ کام کلینکل سائیکالوجسٹ کے کرنے کا ہوتا ہے۔ وہ ایسے مریض کے ساتھ کونسلنگ کے ذریعے اس کے دماغی خلل کا باعث بننے والی وجوہات تلاش کرتا ہے اور ان وجوہات کو جاننے کے بعد سائیکو تھراپی کے ذریعے مریض کے نفیساتی مسئلے کا علاج کرتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں کم آگاہی اور شعور کی کمی کی وجہ سے ابھی تک اس اہم شعبے کی اہمیت اور افادیت کا احساس اجاگر نہیں ہو پایا۔"
ڈاکٹر فاطمہ بتول نے ایک مقامی یونیورسٹی سے ایپلائڈ سائیکالوجی میں ایم فِل کے امتحان میں گولڈ میڈل حاصل کیا تو انہیں فُل سکالرشپ پر ہالینڈ کی ایک معروف یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے لیے داخلہ مل گیا۔ ڈاکٹریٹ میں شاندار کارکردگی کی بنا پر انہیں اُس یونیورسٹی کے علاوہ ہالینڈ کے دیگر نامی گرامی اداروں کی جانب سے پُرکشش تنخواہ اور مراعات کے ساتھ ملازمت کی پیش کش کی گئی لیکن ڈاکٹر فاطمہ نے اپنے ملک واپس آ کر اپنی قابلیت اور صلاحیتوں کو پورے خلوصِ نیت اور صدقِ دل کے ساتھ اپنے لوگوں کی خدمت کے لیے وقف کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کی محنت اور نیک نیتی کی بدولت ابتدائی چند مہینوں میں ہی فاطمہ کلینک اپنے شہر کے علاوہ نزدیکی قصبوں اور دیہاتوں میں بھی نفسیاتی امراض کے موئثر اور اہم ادارے کے طور پر شہرت اور قبولِ عام کی سند حاصل کر گیا۔ ۔ ڈاکٹر فاطمہ نے خود سے یہ عہد باندھ لیا تھا کہ دولت کی ہوس کے زہریلےناگ سے خود کو بچا کے رکھنا ہے،لہٰذا انہوں نے پریکٹس کے آغاز ہی سے اس بات کا پختہ ارادہ کر لیا کہ دس گھنٹے کے اوقاتِ کار کے دوران کسی صورت پچیس سے زیادہ مریض نہیں دیکھیں گی۔
اُس روزجاڑے کی ہلکی بارش صبح سے جاری تھی۔ہڈیوں کے گودے تک کو منجمند کرنے والی قندھاری ہوائیں تواتر سے چل رہی تھیں۔ سورج اپنے محبوب کی راہ دیکھتی کسی دوشیزہ کی طرح بادلوں کی چلمن سے باہر جھانکتا اور تھوڑی دیر کے بعد رخ روشن کو دوبارہ سرمئی بادلوں کی اوٹ میں چھپا لیتا۔ ڈاکٹر فاطمہ اپنے کلینک میں سوئی گیس کے ہیٹر کے پاس بیٹھیں وقت گزاری کے لیے کسی ادبی میگزین کی ورق گرادنی میں مصروف تھیں؛معاملہ کچھ یوں تھا کہ دو مریض طے شدہ اپاونٹمنٹ کے باوجود شاید بارش اور سردی کی شدت کی وجہ سے پہنچ نہیں پائے تھے۔ ڈاکٹر صاحبہ موقع غنیمت جانتے ہوئے آج وقت سے پہلے گھر جانے کا سوچ رہیں تھیں، اچانک ان کا نرسنگ اسسٹنٹ اجازت لے کر کمرے میں داخل ہوا اور بتایا کہ کوئی صاحب بغیر اپوائنٹمنٹ کے تشریف لائے ہیں اور آپ سے ملنے کے خواست گار ہیں۔ ڈاکٹر فاطمہ نے ایک نظر وال کلاک کی طرف دیکھا اور سر کے اشارے سے نرسنگ اسٹنٹ سے مریض کو اندر بھیجنے کو کہا۔
تھوڑی دیر میں ایک درمیانے قد کا کِھلتی ہوئی چمکدار رنگت کا پچاس پچپن سالہ فربہی مائل شخص کمرے میں داخل ہوا۔ ڈاکٹر صاحبہ نے خندہ پیشانی سے اسے خوش آمدید کہہ کر بیٹھنے کو کہا اور ساتھ ہی نرسنگ بوائے کے اندراج کردہ کوائف پر سرسری نگاہ ڈالتے ہوئے مریض سے مخاطب ہوئیں: "جی عارف نقشی صاحب! فرمائیے کیسے آنا ہوا۔؟"
نقشی صاحب کی حرکات و سکنات سے ان کا تذبذب اور ذہنی خلفشار صاف عیاں تھا۔ کبھی گہرے سانس لیتے ہوئے ہاتھوں کی انگلیاں مروڑنے لگتے تو کبھی خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے،دائیں ہاتھ کی انگشتِ شہادت سے ڈائی کیے ہوئے گھنے لائٹ براون بالوں سے ڈھکے سر کو کھجانے لگتے۔ ان کی ذہنی حالت کو بھانپتے ہوئے،ڈاکٹر صاحبہ نے پانی سے بھرا گلاس سامنے رکھا اور ان کا دھیان بٹانے کے لیے سردی کی موجودہ لہر پر بات کرنی شروع کر دی۔ نقشی صاحب نے شاملِ گفتگو ہوتے ہوئے اپنی رائے کا اظہار کیا کہ جی بالکل جیسی سردی اس بار پڑ رہی ہے وہ پہلے کبھی زندگی میں نہیں دیکھی۔ ڈاکٹر فاطمہ چہرے پر خوشگوار مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے بولیں:"ویسے۔۔۔ نقشی صاحب! شاید یہ ہم لوگوں کے مزاج کا حصہ بن چکا ہے کہ ہر سال گرمیوں کا موسم ہو یا جاڑے کی رُت؛ عموماً یہی الفاظ سننے کو ملتے ہیں کہ اس مرتبہ بے انتہا گرمی اور بے حساب سردی پڑ رہی ہے۔"
نقشی کےلاحقے کی وجہ تسمیہ جاننے کے استفسار پر نقشی صاحب نے بتایا کہ وہ شعر گوئی سے شغف رکھتے ہیں اور نقشی تخلص کرتے ہیں ۔
ڈاکٹر فاطمہ نے اُن کے ذہنی کھچاو میں کمی محسوس کرتے ہوئے اصل موضوع پر لانے کے لیے نہایت شائستگی اور نرم مزاجی سے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا:"نقشی صاحب! مریض اور ڈاکٹر کا بڑا گہرا اور بے تکلفانہ رشتہ ہوتا ہے،مریض کی بتائی ہوئی ہر بات طبیب کے لیے ایک مقدس امانت کا درجہ رکھتی ہے۔ اس لیے آپ جس مقصد کے لیے تشریف لائے ہیں وہ بلا جھجک کھل کر بیان کیجیے۔"نقشی صاحب نے چور نظروں سے دروازے کی جانب دیکھا، پانی کے دو گھونٹ لیے ؛چند ثانیے گومگو کی کیفیت میں گزارنے کے بعد اپنی رام کہانی بیان کی۔ ان کی داستانِ غم کی تلخیص یہ تھی کہ انہیں اچھی شکل و صورت اور شرمیلے پن کی وجہ سے کم عمری میں ہی سکول اور محلے کے اوباش لڑکوں نے بدفعلی کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ گھر والوں کے سخت گیر رویے کی وجہ سے وہ ان کے سامنے اپنے اوپر گزرنے والے المیے اور اپنے کرب کا اظہار کرنے سے قاصر رہے۔ وقت گززنے کے ساتھ انہیں اس برے فعل کی عادت پڑ گئی جو تا حال جاری تھی۔ وہ اس علتِ مشائخ سے جان چھڑانا چاہتے تھے لیکن یہ غیر فطری جنسی طلب ان کے رگ و پے میں سرائیت کر چکی تھی۔ اپنی بِپتا سنا چکنے کے بعد انہوں نے دونوں ہاتھوں سے چہرہ چھپا لیا اور ہچکیوں کے ساتھ رونا شروع کر دیا۔ ڈاکٹر فاطمہ اپنی کرسی سی اٹھیں۔۔۔۔ نقشی صاحب کی پشت کی جانب پہنچ کر ان کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے بولیں:" نقشی صاحب! زندگی در حقیقت تلخ و شیریں تجربات کا ایک مرکب ہے۔ آپ جس صورت حال سے دوچار ہیں اس میں آپ بالکل قصور وار نہیں ہیں۔ یہاں آنا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ خود کو اس قباحت سے نجات دلانا چاہتے ہیں۔ جناب! توبہ کا در ہر وقت کھلا رہتا ہے،اگر صدقِ دل کے ساتھ اس عارضے سے جان چھڑانے کا تہیہ کر لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو پائیں۔ آپ اگلے ہفتے دوبارہ تشریف لائیں گے تو میں کچھ ذہنی مشقیں بتاوں گی؛ لیکن اس دوران آپ کو اپنی قوتِ ارادی کو بروئے کار لاتے ہوئے خود کو اس قبیح فعل سے دور رکھنے کا وعدہ کرنا ہو گا۔ "ڈاکٹر صاحبہ کے تشفی آمیز کلمات سن کر جیسے مرزا صاحب کے کاندھوں سے منوں بوجھ اتر گیا ہو۔ پہلی بار انہوں نے براہِ راست ڈاکٹر فاطمہ کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سوال کیا:"بیٹا! اگر مجھے اس بارے میں کچھ آگہی دے سکو کہ مقعد اور اس کے پیچھے جو کھجلی سی لِواطیت پر راغب کرتی ہے؛ اس کی وجہ کیا بنتی ہے اور کیا اس کا بھی کوئی علاج موجود ہے؟"
ڈاکٹر فاطمہ کچھ دیر عالم استغراق میں غوطہ زن رہنے کے بعد بولیں" محترم!۔۔۔۔۔ ماہرین جنسیات ابھی کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ پائے کہ آیا ہم جنس پرستی کا تعلق ایسے لوگوں کے دماغ کی خلیاتی ساخت کے ساتھ ہوتا ہے یا معروضی سماجی عوامل اس علت کا باعث بنتے ہیں۔
آپ کا معاملہ واضح طور پر ثانی الزکر محرک کے ساتھ وابستہ ہے۔"نقشی صاحب نے جھجکتے ہوئے اپنا سوال دہرایا کہ کیا وہ خارش والی بات کا کوئی علمی جواز موجود ہے؟
"اگر آپ جاننے پر بضد ہیں تو یہ حقیقت بھی آپ کے گوش گزار کیے دیتی ہوں؛ مردوں میں پائی جانی والی لِواطت پرستی کے بارے میں جنسی ماہرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مقعد میں دخول کے بعد جب عضو خاص مفعول کے پراسٹیٹ گلینڈ کے ساتھ رگڑ کھاتا ہے تو اُس سے مفعول شخص کو جنسی لذت Sexual bliss)کا احساس ہوتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ وہ شخص اس لذت کا اتنا عادی ہو جاتا ہے کہ یہ علت اس کی طبعی ضرورت بن کر ایک باقاعدہ نفسیاتی بیماری کی شکل اختیار کر لیتی ہے جو بڑھاپے میں بھی اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔"
شازیہ کا شوہر اور سسرال والے اب تک یہ گھتی سلجھانے سے قاصر تھے کہ آخر چھلی ریت والا۔۔۔۔ کی صدا سنتے ہی شازیہ کی حالت غیر کیوں ہونے لگتی ہے۔ اب تو سبھی ریڑھی بانوں کو گھر کے سامنے سے گزرتے ہوئے آواز لگانے سے منع کر دیا گیا تھا۔ مگر اس کے باوجود کبھی کسی بھولے بھٹکے، بُھٹّوں کے ٹھیلے والے کا ادھر سے گزر ہو جاتا تو اس کی آواز سن کر شازیہ ہذیانی کیفیت میں مبتلا ہو جاتی۔
ڈاکٹر نوشیرواں کی تجویز پر ڈاکٹر فاطمہ سے رابطہ کیا جا چکا تھا۔ لیکن ان کے پاس مریضوں کی طویل فہرست کے باعث چھ روز سے پہلے کا وقت نہیں مل سکاتھا۔
گزشتہ رات شاہد اور شازیہ نے گھر سے باہر اپنا پسندیدہ چائنیز ڈنر کیا۔ خوشی خوشی دونوں گھر کو لوٹے اور دیگر اہلِ خانہ سے معمول کی ہلکی پھلکی گپ شپ کے بعد اپنی خواب گاہ میں آ گئے۔ اگلے روز ویک اینڈ کی وجہ سے شاہد نے انگریزی فلم لگا لی۔ ہم جنس پرستی کے موضوع پر بنائی گئی فلم کو شازیہ نے اصرار کر کے فوراً بند کروا دیا۔ اور سر درد کا کہہ کر کمرے کی لائٹ بھی آف کروا دی۔ مگر تمام تر شعوری کوشش اور ذہنی مدافعت کے باوجود اس کے ذہن کی ایل سی ڈی پر پانچ برس پرانی ڈراونی فلم ری وائنڈ ہو کر دوبارہ چلنے لگی۔
وہ سوشیالوجی جی میں ایم ایس کا امتحان دے چکی تھی۔ والدین کی خواہش تھی کہ کوئی مناسب رشتہ مل جائے تو اس کے ہاتھ پیلے کر دیں۔ اُن دنوں والدہ کے اصرار پر اس نے کچن کی ذمہ داری سنبھال رکھی تھی۔وہ یوٹیوب پر دی گئی تراکیب سامنے رکھ کر نت نئے دیسی اور ولائتی کھانے بنا کر گھر والوں سے خوب داد اور انعام وصول کرتی۔ جو فارغ وقت میسر آتا وہ اے آر وائے کے ڈرامے اور فلمیں دیکھنے میں گزر جاتا۔ اسے ریت والی چھلی بہت پسند تھی۔ ہر دو تین روز کے بعد بیس پچیس سالہ، گُھٹے بدن کا ایک خوش شکل پشتون ریڑھی بان جب بھی گلی سے"چھلی ریت والا۔۔۔۔" کی صدا لگاتے ہوئے گزرتا تو وہ چوبارے سے آواز دے کر اسے روک لیتی۔ گزشتہ آٹھ دس روز میں دو بار ایسا ہوا کہ چھلی والے کی پکار سننے کے بعد اس نے چُبارے سے جھانکا تو ریڑھی کو دو تین گھر چھوڑ کر گلی کے کونے میں کھڑا پایا لیکن لڑکا ریڑھی کے آس پاس کہیں دکھائی نہ دیا۔
گھر کے نچلے حصے میں باہر سے داخل ہوں تو ڈیوڑھی کے بائیں جانب مہمانوں کا کمرہ اور دائیں جانب اوپری منزل کو جانے والی سیڑھیاں تھیں۔ ڈیوڑھی کے آگے صحن اور سامنے کی جانب برآمدے کے ساتھ دو کمرے تھے۔ جن کی عقبی کھڑکیاں گھر کی پچھلی راہداری میں کھلتی تھیں۔ ایک کمرہ گھر کے فالتو سامان کے لیے مختص تھا اور دوسرے کمرے کوصاحبِ خانہ کبھی کبھار تخلیے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ نچلی منزل کے پچھلے صحن میں بھی سیڑھیاں موجود تھیں۔ ان سیڑھیوں کے آگےنچلی منزل پر لکڑی کا خستہ حال ایک پاٹ کا دروازہ نصب تھا جس پر اکثر اوقات چٹخنی چڑھی رہتی ۔
موسمِ گرما اُن دونوں اپنا جوبن دکھانا شروع ہو چکا تھا۔ والدہ کے کہنے پر شازیہ جب نیچے سٹور روم سے پیڈسٹل فین لینے آئی تو سیڑھی والے دروازے کو کھولنے کے لیے ہلکا سا جھٹکا دیتے ہی،چٹخنی کے خود بخود نیچے گرنے سے دروازہ کھل گیا۔ سٹور تک پہنچنے کے لیے جب وہ بیڈ روم کے پاس سے گزری تو اسے کمرے سے ہیجان انگیز آوازیں اور سسکاریاں سنائی دیں۔ کمرے کی کھڑکی کا پردہ پوری طرح بند نہیں تھا۔ اس نے کھڑکی کے شیشے کے ساتھ ماتھا ٹکاتے ہوئے پردے کے دونوں پاٹوں کے بیچ میں سے کمرے میں جھانکا تو اندر کا شرمناک منظر دیکھ کر اس کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ وہ کچھ دیر دم بخود کھڑی پسینے میں شرابور چھلی فروش لڑکے کو تیزی سے گلی کی جانب لپکتے اور نقشی صاحب کو عجلت میں ستر پوشی کرتے دیکھتی رہی اور پھر اچانک کُند چُھری سے ذبح ہوتے کسی جانور جیسی دلخراش چیخ کے ساتھ دھڑام سے فرش پر گر گئی۔
افسانہ :"چھلی ریت والا......"
مصنف:ارشد مرشد
دماغی امراض کے معروف معالج ڈاکٹر نوشیرواں کے کلینک میں آج معمول سے زیادہ رش تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے کمرے کے باہر کا ہال مریضوں اور ان کے ساتھ آنے والے عزیز و اقارب سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ شدید موسمی حبس اور گُھٹن کی وجہ سے پوری رفتار سے چلتے ہوئے چھت کے پنکھے بھی انسانی اجسام سے ہُمکتی عفونت کا اثر زائل کرنے میں بے بس دکھائی دیتے تھے۔ ہال کے باہر برآمدے میں بھی لوگوں کا ہجوم دیکھ کر یوں لگتا تھا جیسے شہر کا شہر ہی دماغی عارضوں میں مبتلا ہو۔
شازیہ بیگ دو مرتبہ پہلے بھی اپنے شوہر کے ساتھ ڈاکٹر نوشیرواں کے کلینک آ چکی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کی تجویز کردہ ادویات باقاعدگی سے استعمال کرنے پر بھی اس کا نفسیاتی مسئلہ بدستور الجھاو کا شکار تھا۔ گھنٹہ بھر انتظار کے بعد جب دونوں کلینک میں داخل ہوئے تو ڈاکٹر صاحب نے خوش مزاجی سے انہیں بیٹھنے کو کہا اور کچھ دیر مریضہ کی بیماری کے کاغذات الٹ پلٹ کر دیکھنے کے بعد مرض کی موجودہ صورتِ حال کے بارے میں استفسار کیا۔ اس سے پہلے کے شازیہ کچھ کہتی اس کے شوہر شاہد بشیر درمیان میں بول پڑے:"ڈاکٹر صاحب! آپ کی ادوایات نے کوئی خاص اثر نہیں دکھایا۔۔۔۔ گزشتہ دنوں گلی سے گزرنے والے ریڑھی بان نے جب چھلی ریت والا ۔۔۔۔کی آواز لگائی تو شازیہ پر ایک بار پھر سے وہی ہیجانی کیفیت طاری ہو گئی۔ اوپر نیچے کے دانت آپس میں اس سختی سے بھینچے گئے کہ پانی کا قطرہ بھی حلق میں اتارنا محال ہو گیا۔ ہاتھ پاوُں ٹیڑھے اور سارا جسم رعشے کے مریض کی طرح کانپنے لگا۔"
نہایت اطمینان اور تسلی سے ساری بات سن کر ڈاکٹر صاحب کچھ دیر کسی گہری سوچ میں ڈوبے رہے اور پھر پُر تشویش لہجے میں شاہد بشیر سے مخاطب ہوئے:"بات یہ ہے کہ میں اپنے علم اور تجربے کی روشنی میں حتُی الوُسع کوشش کر چکا ہوں۔ دماغی نمکیات ( Brain salts) کے مختلف کمبی نیشنز آزمانے کے باوجود اگر مرض میں آفاقہ نہیں ہو پایا تو میرا مشورہ مانیں اور انہیں کسی اچھے ماہرِ نفسیات (سائیکالوجسٹ)کو دکھائیں۔"
ڈاکٹر صاحب! اگر آپ دماغی امراض کے ماہر ہوتے ہوئے مرض کی تشخیص نہیں کر پائے تو سائیکالوجسٹ کے پاس کونسی ایسی جادو کی چھڑی یا کوئی ایسی گیدڑ سنگھی ہو گی کہ جس سے وہ اس پیچیدہ مرض سے چھٹکارا دلا دے گا؟
ڈاکٹر صاحب نے سوال کی تُرشی اور لہجے کی درشتگی کو نظر انداز کرتے ہوئے نرم لہجے میں جواب دیا:
"شاہد صاحب! کسی بھی ذہنی بیماری کی یا تو اندرونی اور طبعی وجوہات ہوتی ہیں جنہیں ہم ڈاکٹری اصطلاح میں (endogenous) کہتے ہیں۔ کچھ منفی ذہنی کیفیات ایسی ہوتی ہیں جن کے محرکات ارد گرد کے ماحول سے وابستہ یا مریض کے ساتھ پیش آنے والے کسی حادثے سے جڑے ہوتے ہیں۔ ایسے عارضوں کو (exogenous)کہاجاتا ہے, یہ کام کلینکل سائیکالوجسٹ کے کرنے کا ہوتا ہے۔ وہ ایسے مریض کے ساتھ کونسلنگ کے ذریعے اس کے دماغی خلل کا باعث بننے والی وجوہات تلاش کرتا ہے اور ان وجوہات کو جاننے کے بعد سائیکو تھراپی کے ذریعے مریض کے نفیساتی مسئلے کا علاج کرتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں کم آگاہی اور شعور کی کمی کی وجہ سے ابھی تک اس اہم شعبے کی اہمیت اور افادیت کا احساس اجاگر نہیں ہو پایا۔"
ڈاکٹر فاطمہ بتول نے ایک مقامی یونیورسٹی سے ایپلائڈ سائیکالوجی میں ایم فِل کے امتحان میں گولڈ میڈل حاصل کیا تو انہیں فُل سکالرشپ پر ہالینڈ کی ایک معروف یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے لیے داخلہ مل گیا۔ ڈاکٹریٹ میں شاندار کارکردگی کی بنا پر انہیں اُس یونیورسٹی کے علاوہ ہالینڈ کے دیگر نامی گرامی اداروں کی جانب سے پُرکشش تنخواہ اور مراعات کے ساتھ ملازمت کی پیش کش کی گئی لیکن ڈاکٹر فاطمہ نے اپنے ملک واپس آ کر اپنی قابلیت اور صلاحیتوں کو پورے خلوصِ نیت اور صدقِ دل کے ساتھ اپنے لوگوں کی خدمت کے لیے وقف کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کی محنت اور نیک نیتی کی بدولت ابتدائی چند مہینوں میں ہی فاطمہ کلینک اپنے شہر کے علاوہ نزدیکی قصبوں اور دیہاتوں میں بھی نفسیاتی امراض کے موئثر اور اہم ادارے کے طور پر شہرت اور قبولِ عام کی سند حاصل کر گیا۔ ۔ ڈاکٹر فاطمہ نے خود سے یہ عہد باندھ لیا تھا کہ دولت کی ہوس کے زہریلےناگ سے خود کو بچا کے رکھنا ہے،لہٰذا انہوں نے پریکٹس کے آغاز ہی سے اس بات کا پختہ ارادہ کر لیا کہ دس گھنٹے کے اوقاتِ کار کے دوران کسی صورت پچیس سے زیادہ مریض نہیں دیکھیں گی۔
اُس روزجاڑے کی ہلکی بارش صبح سے جاری تھی۔ہڈیوں کے گودے تک کو منجمند کرنے والی قندھاری ہوائیں تواتر سے چل رہی تھیں۔ سورج اپنے محبوب کی راہ دیکھتی کسی دوشیزہ کی طرح بادلوں کی چلمن سے باہر جھانکتا اور تھوڑی دیر کے بعد رخ روشن کو دوبارہ سرمئی بادلوں کی اوٹ میں چھپا لیتا۔ ڈاکٹر فاطمہ اپنے کلینک میں سوئی گیس کے ہیٹر کے پاس بیٹھیں وقت گزاری کے لیے کسی ادبی میگزین کی ورق گرادنی میں مصروف تھیں؛معاملہ کچھ یوں تھا کہ دو مریض طے شدہ اپاونٹمنٹ کے باوجود شاید بارش اور سردی کی شدت کی وجہ سے پہنچ نہیں پائے تھے۔ ڈاکٹر صاحبہ موقع غنیمت جانتے ہوئے آج وقت سے پہلے گھر جانے کا سوچ رہیں تھیں، اچانک ان کا نرسنگ اسسٹنٹ اجازت لے کر کمرے میں داخل ہوا اور بتایا کہ کوئی صاحب بغیر اپوائنٹمنٹ کے تشریف لائے ہیں اور آپ سے ملنے کے خواست گار ہیں۔ ڈاکٹر فاطمہ نے ایک نظر وال کلاک کی طرف دیکھا اور سر کے اشارے سے نرسنگ اسٹنٹ سے مریض کو اندر بھیجنے کو کہا۔
تھوڑی دیر میں ایک درمیانے قد کا کِھلتی ہوئی چمکدار رنگت کا پچاس پچپن سالہ فربہی مائل شخص کمرے میں داخل ہوا۔ ڈاکٹر صاحبہ نے خندہ پیشانی سے اسے خوش آمدید کہہ کر بیٹھنے کو کہا اور ساتھ ہی نرسنگ بوائے کے اندراج کردہ کوائف پر سرسری نگاہ ڈالتے ہوئے مریض سے مخاطب ہوئیں: "جی عارف نقشی صاحب! فرمائیے کیسے آنا ہوا۔؟"
نقشی صاحب کی حرکات و سکنات سے ان کا تذبذب اور ذہنی خلفشار صاف عیاں تھا۔ کبھی گہرے سانس لیتے ہوئے ہاتھوں کی انگلیاں مروڑنے لگتے تو کبھی خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے،دائیں ہاتھ کی انگشتِ شہادت سے ڈائی کیے ہوئے گھنے لائٹ براون بالوں سے ڈھکے سر کو کھجانے لگتے۔ ان کی ذہنی حالت کو بھانپتے ہوئے،ڈاکٹر صاحبہ نے پانی سے بھرا گلاس سامنے رکھا اور ان کا دھیان بٹانے کے لیے سردی کی موجودہ لہر پر بات کرنی شروع کر دی۔ نقشی صاحب نے شاملِ گفتگو ہوتے ہوئے اپنی رائے کا اظہار کیا کہ جی بالکل جیسی سردی اس بار پڑ رہی ہے وہ پہلے کبھی زندگی میں نہیں دیکھی۔ ڈاکٹر فاطمہ چہرے پر خوشگوار مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے بولیں:"ویسے۔۔۔ نقشی صاحب! شاید یہ ہم لوگوں کے مزاج کا حصہ بن چکا ہے کہ ہر سال گرمیوں کا موسم ہو یا جاڑے کی رُت؛ عموماً یہی الفاظ سننے کو ملتے ہیں کہ اس مرتبہ بے انتہا گرمی اور بے حساب سردی پڑ رہی ہے۔"
نقشی کےلاحقے کی وجہ تسمیہ جاننے کے استفسار پر نقشی صاحب نے بتایا کہ وہ شعر گوئی سے شغف رکھتے ہیں اور نقشی تخلص کرتے ہیں ۔
ڈاکٹر فاطمہ نے اُن کے ذہنی کھچاو میں کمی محسوس کرتے ہوئے اصل موضوع پر لانے کے لیے نہایت شائستگی اور نرم مزاجی سے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا:"نقشی صاحب! مریض اور ڈاکٹر کا بڑا گہرا اور بے تکلفانہ رشتہ ہوتا ہے،مریض کی بتائی ہوئی ہر بات طبیب کے لیے ایک مقدس امانت کا درجہ رکھتی ہے۔ اس لیے آپ جس مقصد کے لیے تشریف لائے ہیں وہ بلا جھجک کھل کر بیان کیجیے۔"نقشی صاحب نے چور نظروں سے دروازے کی جانب دیکھا، پانی کے دو گھونٹ لیے ؛چند ثانیے گومگو کی کیفیت میں گزارنے کے بعد اپنی رام کہانی بیان کی۔ ان کی داستانِ غم کی تلخیص یہ تھی کہ انہیں اچھی شکل و صورت اور شرمیلے پن کی وجہ سے کم عمری میں ہی سکول اور محلے کے اوباش لڑکوں نے بدفعلی کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ گھر والوں کے سخت گیر رویے کی وجہ سے وہ ان کے سامنے اپنے اوپر گزرنے والے المیے اور اپنے کرب کا اظہار کرنے سے قاصر رہے۔ وقت گززنے کے ساتھ انہیں اس برے فعل کی عادت پڑ گئی جو تا حال جاری تھی۔ وہ اس علتِ مشائخ سے جان چھڑانا چاہتے تھے لیکن یہ غیر فطری جنسی طلب ان کے رگ و پے میں سرائیت کر چکی تھی۔ اپنی بِپتا سنا چکنے کے بعد انہوں نے دونوں ہاتھوں سے چہرہ چھپا لیا اور ہچکیوں کے ساتھ رونا شروع کر دیا۔ ڈاکٹر فاطمہ اپنی کرسی سی اٹھیں۔۔۔۔ نقشی صاحب کی پشت کی جانب پہنچ کر ان کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے بولیں:" نقشی صاحب! زندگی در حقیقت تلخ و شیریں تجربات کا ایک مرکب ہے۔ آپ جس صورت حال سے دوچار ہیں اس میں آپ بالکل قصور وار نہیں ہیں۔ یہاں آنا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ خود کو اس قباحت سے نجات دلانا چاہتے ہیں۔ جناب! توبہ کا در ہر وقت کھلا رہتا ہے،اگر صدقِ دل کے ساتھ اس عارضے سے جان چھڑانے کا تہیہ کر لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو پائیں۔ آپ اگلے ہفتے دوبارہ تشریف لائیں گے تو میں کچھ ذہنی مشقیں بتاوں گی؛ لیکن اس دوران آپ کو اپنی قوتِ ارادی کو بروئے کار لاتے ہوئے خود کو اس قبیح فعل سے دور رکھنے کا وعدہ کرنا ہو گا۔ "ڈاکٹر صاحبہ کے تشفی آمیز کلمات سن کر جیسے مرزا صاحب کے کاندھوں سے منوں بوجھ اتر گیا ہو۔ پہلی بار انہوں نے براہِ راست ڈاکٹر فاطمہ کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سوال کیا:"بیٹا! اگر مجھے اس بارے میں کچھ آگہی دے سکو کہ مقعد اور اس کے پیچھے جو کھجلی سی لِواطیت پر راغب کرتی ہے؛ اس کی وجہ کیا بنتی ہے اور کیا اس کا بھی کوئی علاج موجود ہے؟"
ڈاکٹر فاطمہ کچھ دیر عالم استغراق میں غوطہ زن رہنے کے بعد بولیں" محترم!۔۔۔۔۔ ماہرین جنسیات ابھی کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ پائے کہ آیا ہم جنس پرستی کا تعلق ایسے لوگوں کے دماغ کی خلیاتی ساخت کے ساتھ ہوتا ہے یا معروضی سماجی عوامل اس علت کا باعث بنتے ہیں۔
آپ کا معاملہ واضح طور پر ثانی الزکر محرک کے ساتھ وابستہ ہے۔"نقشی صاحب نے جھجکتے ہوئے اپنا سوال دہرایا کہ کیا وہ خارش والی بات کا کوئی علمی جواز موجود ہے؟
"اگر آپ جاننے پر بضد ہیں تو یہ حقیقت بھی آپ کے گوش گزار کیے دیتی ہوں؛ مردوں میں پائی جانی والی لِواطت پرستی کے بارے میں جنسی ماہرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مقعد میں دخول کے بعد جب عضو خاص مفعول کے پراسٹیٹ گلینڈ کے ساتھ رگڑ کھاتا ہے تو اُس سے مفعول شخص کو جنسی لذت Sexual bliss)کا احساس ہوتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ وہ شخص اس لذت کا اتنا عادی ہو جاتا ہے کہ یہ علت اس کی طبعی ضرورت بن کر ایک باقاعدہ نفسیاتی بیماری کی شکل اختیار کر لیتی ہے جو بڑھاپے میں بھی اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔"
شازیہ کا شوہر اور سسرال والے اب تک یہ گھتی سلجھانے سے قاصر تھے کہ آخر چھلی ریت والا۔۔۔۔ کی صدا سنتے ہی شازیہ کی حالت غیر کیوں ہونے لگتی ہے۔ اب تو سبھی ریڑھی بانوں کو گھر کے سامنے سے گزرتے ہوئے آواز لگانے سے منع کر دیا گیا تھا۔ مگر اس کے باوجود کبھی کسی بھولے بھٹکے، بُھٹّوں کے ٹھیلے والے کا ادھر سے گزر ہو جاتا تو اس کی آواز سن کر شازیہ ہذیانی کیفیت میں مبتلا ہو جاتی۔
ڈاکٹر نوشیرواں کی تجویز پر ڈاکٹر فاطمہ سے رابطہ کیا جا چکا تھا۔ لیکن ان کے پاس مریضوں کی طویل فہرست کے باعث چھ روز سے پہلے کا وقت نہیں مل سکاتھا۔
گزشتہ رات شاہد اور شازیہ نے گھر سے باہر اپنا پسندیدہ چائنیز ڈنر کیا۔ خوشی خوشی دونوں گھر کو لوٹے اور دیگر اہلِ خانہ سے معمول کی ہلکی پھلکی گپ شپ کے بعد اپنی خواب گاہ میں آ گئے۔ اگلے روز ویک اینڈ کی وجہ سے شاہد نے انگریزی فلم لگا لی۔ ہم جنس پرستی کے موضوع پر بنائی گئی فلم کو شازیہ نے اصرار کر کے فوراً بند کروا دیا۔ اور سر درد کا کہہ کر کمرے کی لائٹ بھی آف کروا دی۔ مگر تمام تر شعوری کوشش اور ذہنی مدافعت کے باوجود اس کے ذہن کی ایل سی ڈی پر پانچ برس پرانی ڈراونی فلم ری وائنڈ ہو کر دوبارہ چلنے لگی۔
وہ سوشیالوجی جی میں ایم ایس کا امتحان دے چکی تھی۔ والدین کی خواہش تھی کہ کوئی مناسب رشتہ مل جائے تو اس کے ہاتھ پیلے کر دیں۔ اُن دنوں والدہ کے اصرار پر اس نے کچن کی ذمہ داری سنبھال رکھی تھی۔وہ یوٹیوب پر دی گئی تراکیب سامنے رکھ کر نت نئے دیسی اور ولائتی کھانے بنا کر گھر والوں سے خوب داد اور انعام وصول کرتی۔ جو فارغ وقت میسر آتا وہ اے آر وائے کے ڈرامے اور فلمیں دیکھنے میں گزر جاتا۔ اسے ریت والی چھلی بہت پسند تھی۔ ہر دو تین روز کے بعد بیس پچیس سالہ، گُھٹے بدن کا ایک خوش شکل پشتون ریڑھی بان جب بھی گلی سے"چھلی ریت والا۔۔۔۔" کی صدا لگاتے ہوئے گزرتا تو وہ چوبارے سے آواز دے کر اسے روک لیتی۔ گزشتہ آٹھ دس روز میں دو بار ایسا ہوا کہ چھلی والے کی پکار سننے کے بعد اس نے چُبارے سے جھانکا تو ریڑھی کو دو تین گھر چھوڑ کر گلی کے کونے میں کھڑا پایا لیکن لڑکا ریڑھی کے آس پاس کہیں دکھائی نہ دیا۔
گھر کے نچلے حصے میں باہر سے داخل ہوں تو ڈیوڑھی کے بائیں جانب مہمانوں کا کمرہ اور دائیں جانب اوپری منزل کو جانے والی سیڑھیاں تھیں۔ ڈیوڑھی کے آگے صحن اور سامنے کی جانب برآمدے کے ساتھ دو کمرے تھے۔ جن کی عقبی کھڑکیاں گھر کی پچھلی راہداری میں کھلتی تھیں۔ ایک کمرہ گھر کے فالتو سامان کے لیے مختص تھا اور دوسرے کمرے کوصاحبِ خانہ کبھی کبھار تخلیے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ نچلی منزل کے پچھلے صحن میں بھی سیڑھیاں موجود تھیں۔ ان سیڑھیوں کے آگےنچلی منزل پر لکڑی کا خستہ حال ایک پاٹ کا دروازہ نصب تھا جس پر اکثر اوقات چٹخنی چڑھی رہتی ۔
موسمِ گرما اُن دونوں اپنا جوبن دکھانا شروع ہو چکا تھا۔ والدہ کے کہنے پر شازیہ جب نیچے سٹور روم سے پیڈسٹل فین لینے آئی تو سیڑھی والے دروازے کو کھولنے کے لیے ہلکا سا جھٹکا دیتے ہی،چٹخنی کے خود بخود نیچے گرنے سے دروازہ کھل گیا۔ سٹور تک پہنچنے کے لیے جب وہ بیڈ روم کے پاس سے گزری تو اسے کمرے سے ہیجان انگیز آوازیں اور سسکاریاں سنائی دیں۔ کمرے کی کھڑکی کا پردہ پوری طرح بند نہیں تھا۔ اس نے کھڑکی کے شیشے کے ساتھ ماتھا ٹکاتے ہوئے پردے کے دونوں پاٹوں کے بیچ میں سے کمرے میں جھانکا تو اندر کا شرمناک منظر دیکھ کر اس کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ وہ کچھ دیر دم بخود کھڑی پسینے میں شرابور چھلی فروش لڑکے کو تیزی سے گلی کی جانب لپکتے اور نقشی صاحب کو عجلت میں ستر پوشی کرتے دیکھتی رہی اور پھر اچانک کُند چُھری سے ذبح ہوتے کسی جانور جیسی دلخراش چیخ کے ساتھ دھڑام سے فرش پر گر گئی۔