عزت کے دام
عزت کے دام
Mar 14, 2021
عزت کے دام
بابر علی ملک
رحمت بخش ایک عام سام محنت کش اور جفا کش مزدور تھا۔ اس کی زندگی بہت ہی سادہ تھی وہ پانچ وقت نماز دا کرتا،اپنے روزگار میں برکت کے لئے دُعا مانگتا اور روزانہ فجر کی نماز ادا کرکے وہاندرون شہر چوک پر کھڑا ہوجاتا جہاں اس جیسے کئی مزدور اپنی دیہاڑی ڈھونڈنےآتےتھے۔وہاں ٹھیکیدار اور دیگر مالکان ایک دن کی دیہاڑی پر بحث و مباحثہ کرکے لےجاتے۔
رحمت کا گزارہ ٹھیک ٹھاک ہورہا تھا۔ روزانہ اس کو دن میں دیہاڑی مل جاتی اوراس پر وہ اللہ کا شکر ادا کرتا تھا۔ اکثر اس کو ٹھیکیدار گلزار لے کر جایا کرتاتھا۔ رحمت بہت محنتی تھا، وہ اس قدر مشقت سے روڑہ کوٹتا کہ بالکل چورہ بن جاتا۔اینٹیں اور بجری اس چابق دستی سے مستری تک پہنچاتا کہ ہر کوئی اس کے کام کی تعریفکرتا۔
گلزار اکثر اس سے کہتا تھا
"رحمتاں تو تے دو تن دناں دا کم اک دن وچ مکا دینداں ایں"
یہ سن کر رحمت کی چھاتی اور چوڑی ہوجاتی، اس کے اندر خود اعتمادی کی ایک نئیلہر دوڑ جاتی۔
وہ جواب دیتا
"رب سوہنے کا شکر ہے گلزار صاحب، او ہمت دے دیندا اے"
رحمت اپنے کام سے کام رکھنے کا عادی تھا۔ بس کام کے دوران وہ اکثر ہوٹل پرپتلی دال اور چند روٹیاں کھانے جاتا تھا۔
ایک دن وہ ہوٹل میں روٹی کھا رہا تھا کہ سامنے ٹی وی پر ملک میں ہونے والےالیکشن کی خبریں چل رہی تھیں۔ ایک نئی انتخابی پارٹی کا نمائندہ خطاب کررہا تھا۔
"اس ملک کو پچھلے حکمرانوں نے کہیں کا نہیں چھوڑا، ہم اس ملک کی تقدیربدلیں گے، یہاں پر نیا نظام رائج کریں گے، جس سے ملک میں ترقی اور خوشحالی آئےگی۔"
رحمت کے ساتھی مزدور نے کہا۔
" بہت آزما لیا پُرانے حکمرانوں، اب ہم اِن کو ووٹ دیں گے۔ یہ نیا نظامملک کی تقدیر بدلے گا۔" رحمت نے سوچا کیا واقعی ایسا کوئی نظام ہے کہ خوشحالیآئے اوروہ دو وقت کی روٹی کی جدوجہد سے نکل کر اپنے بچوں کو سکول بھیج سکے؟
اس نے دل میں ٹھان لی کہ وہ اِس جماعت کو ہی ووٹ دے گا جو ملک کے حالات بدلےگی۔ اس نے نماز میں اس پارٹی کے جیتنے کی دعا کی اور اپنا اور اپنے گھر والوں کاووٹ اسی پارٹی کو دیا۔
بالآخر وہ پارٹی جیت گئی، رحمت کی آنکھوں نے نئے نظام کے خواب بننا شروعکردیئے۔ اس کے دل میں آتا کہ اس کی محنت کی صحیح قیمت اسے دا کی جائے گی تاکہ وہایک اچھی آمدنی کما سکے تاکہ وہ بچوں کو سکول بھیجے۔ وہ اس کی طرح مزدوری نہ کریںبلکہ ایک خوشحال زندگی گزار سکیں۔
وہ معمول کے مطابق دووقت کی روٹی کی مشقت میں مشغول ہوگیا۔ ایک دن جب وہاندرونِ شہر میں چوک پر کھڑا اپنی دیہاڑی کا انتظار کررہا تھا کہ ایک جدید ماڈل کیخوبصورت گاڑی اُس کے پاس رُکی۔
گاڑی کے سیاہ شیشے نیچے ہوئے اور ایک آدمی جو کوٹ پینٹ میں ملبوس تھا، اُس سےپوچھنے لگا۔
"یہ رحمت بخش کون ہے"
رحمت بخش آگے بڑھا اور کہا "میں ہی ہوں جناب حکم کریں"
وہ بولا
"تم سے ایک کام ہے۔"
رحمت بخش بولا
"میں حاضر ہوں جناب"
گاڑی کا دروازہ کھلا اور اسے اندر بیٹھنے کو کہا گیا۔ وہ بیٹھ گیا۔گاڑی نہایتآرام دہ تھی، اندر ایئر کنڈیشنر نے رحمت کے اعصاب شل کر دیئے۔
اس نے کپکپی بھری آواز میں پوچھا۔
"صاحب کام کہاں کرنا ہے؟"
اس آدمی نے جواب دیا
"ابھی معلوم ہوجائے گا"
گاڑی ایک وسیع و عریض عمارت کے سامنے رک گئی۔ رحمت نے سوچا عمارت تو بن چکی ہےپھر اسے یہاں کیوں لایا گیا۔ وہ خاموشی سے اس کوٹ پتلون میں ملبوس آدمی کے پیچھےچلنے لگا۔
وہ اسے ایک خوبصورت دفتر میں لے گیا جہاں پر بہت سے آرام دہ اور پرکشش صوفےپڑے تھے۔ کمرے کے آخری کونے پر ایک بیضوی میز کے پیچھے ایک عمررسیدہ آدمی منہمیں سِگار دبائے بیٹھا تھا۔
اس نے گرج دار آواز میں پوچھا
"رحمت بخش تم ہی ہو"
رحمت نے جواب دیا
"جی"
"گلزار نے بڑی تعریف کی ہے تمہاری کہ تم بڑے محنت کش اور عزت دار مزدورہو۔"
"جی رب سوہنے کا کرم ہے مجھے کام بتایئے، روڑہ کوٹنا ، میٹیریل پہنچانا،سب۔۔۔"
"ہم نے تم سے مزدوری نہیں کروانی"
اس نے رحمت کی بات کاٹی
رحمت بخش چپ ہوگیا۔۔۔"تو پھر کیا"
"بس ہمارا ایک کام کرنا ہے۔ اگلے ہفتے ایک ٹی وی چینل والے ہماری حکومتپر ایک پروگرام کررہے ہیں، تم نے اس میں شرکت کرنی ہے اور ہماری تعریف کرنی ہے۔ یہکاغذ لو اس کو پڑھ لو، یہ بولنا ہے"۔
"صاحب مجھے پڑھنا نہیں آتا۔"
اس نے اپنے ساتھ کھڑے کوٹ پتلون والے آدمی کو پڑھنے کا اشارہ کیا۔
اس نے پڑھا
"میرا نام رحمت بخش ہے اور میں دیہاڑی دار مزدور ہوں۔ اس حکومت کے آنےسے پہلے میں فاقہ کشی کے عالم میں تھا۔ گھر میں کھانے کو پورا نہیں پڑتا تھا لیکناب میرے حالات بدل چکے ہیں۔ میں پہلے سے تین ُگنا زیادہ کماتا ہوں، گھر میں فاقے نہیں ہوتے، میرے بچے ابسکول جاتے ہیں، میری زندگی میں خوشحالی لوٹ آئی ہے۔ یہ سب کچھ اس حکومت کے نئےنظام کی وجہ سے ہے۔"
رحمت بخش خاموش ہوگیا، وہ سوچ رہا تھا کہ اس کے حالات تو ویسے کے ویسے ہی ہیں،کچھ فرق نہیں پڑا۔
اس کو خاموش دیکھتے ہوئےاُس آدمی نے کہا۔
"اِس کا تمہیں معاوضہ ادا کیا جائے گا۔ اتنا کہ اگلے دو مہینے تم آرامسے گزار سکوگے۔"
رحمت بخش پھر بھی خاموش رہا۔
کوٹ پتلون میں ملبوس آدمی بولا۔
"سر چھوڑیئے آپ اسے، اس جیسے کئی مل جائیں گے" اس نے جواب دیا۔
"نہیں تم نہیں سمجھتے، جب ایک سچا اور محنت کش آدمی جھوٹ بولتا ہے تو اسکے لہجے میں درد ہوتا ہے تڑپ ہوتی ہے، بس یہی درد اور تڑپ ہماری سچائی کی گواہیبنے گی۔"
اس نے رحمت بخش سے کہا۔
"سوچ لو تمہارے پاس پانچ دن ہیں۔"
رحمت بخش خاموشی سے نکل آیا لیکن دل میں ارادہ کیا کہ وہ یہ کبھی نہیں کہےگا، وہ اپنی عزت یوں نیلام نہیں کرسکتا، پیسے جائیں بھاڑ میں۔
وہ گھر چلا گیا اور اگلے دن دوبارہ اس چوک پر آگیا دیہاڑی کی تلاش میں۔سارادن گزر گیا لیکن کوئی مزدوری نہ ملی، چند مزدور آپس میں باتیں کر رہے تھے کہموجودہ حکومت نے مہنگائی کردی ہے۔ تعمیراتی سامان کی بدلتی قیمتوں کی وجہ سے سرمایہ داروں نے کام روک دیا ہے۔
رحمت بخش نے آج کا دن خدا کی رضّا سمجھا اور گھر واپس آگیا۔ گھر میں بس دودن کا راشن تھا، آج کا گزارہ اس راشن سے ہوا۔
کل دوبارہ گیا لیکن کوئی مزدوری نہ ملی۔
اب اگلے دن کا راشن گھر میں موجود نہ تھا۔ وہ پریشان تھا، خدا سے روزی کی دعاکی اور اگلے دن پھر مزدوری کی تلاش میں نکلا لیکن کوئی مزدوری نہ ملی۔ گھر میںفاقہ تھا، بھوک سے بُرا حال۔ اس نے اپنی بیوی کو ساری بات بتائی اس گاڑی والی۔
بیوی نے کہا
"تو آپ کا کیا جاتا ہے بول دیں نا۔ کچھ مہینے تو سکون سے گزریںگے۔"
اگلے دن پھر فاقہ تھا، اس نے آخر بھوک کے ہاتھوں مجبور ہوکر بڑے صاحب کو اپنیرضامندی دے دی۔
اس کو کچھ پیسے ایڈوانس میں ملے جس سے اس نے راشن خریدا اور فاقے سے نجاتپائی۔ باقی پیسے ٹی وی پروگرام کے بعد ملنے کا وعدہ کیا گیا۔
آخر وہ دن آیا، ٹی وی پروگرام کے آفس لے جانے کے لئے اس کے پاس گاڑی آئی۔وہ اس میں بیٹھ کر ٹی وی چینل کے آفس میں پہنچا۔ پروگرام ایک بڑے سے ہال میں ہوناتھا جو کھچا کھچ لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔
ٹی وی پروگرام کی میزبان سامنے کھڑی تھی۔ اس سے کہا گیا کہ جب تمہاری باریآئے گی تمہیں بلایا جائے گا۔
وہ پیچھے جاکر ایک کرسی پر بیٹھ گیا، ٹی وی پروگرام شروع ہوا۔ پروگرام میںحکومت کے مختلف نمائندے آئے جنہوں نے حکومت کی کارکردگی پر روشنی ڈالی۔ وہ ساریباتیں رحمت کے دماغ کے اوپر سے گزر گئیں۔
آخر رحمت کو بلایا گیا۔ اس نے اٹھنے کے لئے قدم بڑھایا مگر اس کو اپنے قدمبہت بھاری محسوس ہوئے۔ وہ چل نہیں پارہا تھا۔ اسے پھر بلایا گیا، وہ مشکل سے اُٹھااورسٹیج پر پہنچا۔
ٹی وی شو کی میزبان نے اس کا تعارف کروایا۔
"تو اب سنتے ہیں رحمت کی زبانی کہ وہ اس حکومت کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔رحمت بخش ایک مزدور ہیں اور اپنی کہانی آپ کو سنائیں گے۔"
"میں رحمت بخش"
رحمت بخش نے اپنی زبان کھولی "میرا نام رحمت بخش ہے اور میں ایک محنت کش مزدور ہوں۔۔۔۔"
اس کے آگے رحمت بخش کا دماغ دھندلا گیا، وہ چند لمحوں کے لئے خاموش ہوگیا۔سامنے جہاں ٹی وی چینل کی میزبان کھڑی تھی اس کو ایک تروازو نظر آیا۔
اس کے ایک پلڑے میں اس کی عزت اور ایمانداری تھی اور دوسرے پلڑے میں اس کے فاقہ زدہ بیوی بچے اور پھر آہستہآہستہ ترازو بیوی بچوں والی جانب جھک گیا۔
رحمت بخش کی آنکھوں میں آنسو نکلنےگے۔ اس نے روتے ہوئے باقی سارے جملے ادا کئے، جو اس کو یاد کروائے گئے تھے۔
اس نے بات ختم کی تو ٹی وی میزبان بولی
"دیکھیئے ناظرین کتنی سچائی ہے اس کے بیان میں۔ یہ ہے اس حکومت کا نچلےطبقے کو ریلیف پہنچانے کا منہ بولتا ثبوت۔"
اور یوں پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ شو ختم ہوا اور رحمت بخش کو پورامعاوضہ ادا کردیا گیا۔
لیکن رحمت بخش بہت غمگین تھا۔ اس کو ایسے معلوم ہوتا تھا کہ وہ ایک کنواریلڑکی ہے جس کی عزت بہت سستے داموں کسی رنڈی خانے میں بیچ دی گئی ہو۔
اس کے اندر کچھ ٹوٹ سا گیا، اس کو محسوس ہوا کہ اب وہ کبھی بھی محنت سے روڑےکو چورا نہ کرسکے گا۔ وہ کبھی بھی چابق دستی کے ساتھ سیمنٹ، اینٹیں اور بجری مستریتک نہیں پہنچا سکے گا۔
اسے کوئی نہیں کہے گا کہ اس نے دو تین دن کا کام ایک دن میں مکمل کرلیا ہے۔ اسکی عزت اور محنت کے جو دام لگائے گئے تھے وہ بہت ہی زیادہ کم تھے۔
=========
عزت کے دام
بابر علی ملک
رحمت بخش ایک عام سام محنت کش اور جفا کش مزدور تھا۔ اس کی زندگی بہت ہی سادہ تھی وہ پانچ وقت نماز دا کرتا،اپنے روزگار میں برکت کے لئے دُعا مانگتا اور روزانہ فجر کی نماز ادا کرکے وہاندرون شہر چوک پر کھڑا ہوجاتا جہاں اس جیسے کئی مزدور اپنی دیہاڑی ڈھونڈنےآتےتھے۔وہاں ٹھیکیدار اور دیگر مالکان ایک دن کی دیہاڑی پر بحث و مباحثہ کرکے لےجاتے۔
رحمت کا گزارہ ٹھیک ٹھاک ہورہا تھا۔ روزانہ اس کو دن میں دیہاڑی مل جاتی اوراس پر وہ اللہ کا شکر ادا کرتا تھا۔ اکثر اس کو ٹھیکیدار گلزار لے کر جایا کرتاتھا۔ رحمت بہت محنتی تھا، وہ اس قدر مشقت سے روڑہ کوٹتا کہ بالکل چورہ بن جاتا۔اینٹیں اور بجری اس چابق دستی سے مستری تک پہنچاتا کہ ہر کوئی اس کے کام کی تعریفکرتا۔
گلزار اکثر اس سے کہتا تھا
"رحمتاں تو تے دو تن دناں دا کم اک دن وچ مکا دینداں ایں"
یہ سن کر رحمت کی چھاتی اور چوڑی ہوجاتی، اس کے اندر خود اعتمادی کی ایک نئیلہر دوڑ جاتی۔
وہ جواب دیتا
"رب سوہنے کا شکر ہے گلزار صاحب، او ہمت دے دیندا اے"
رحمت اپنے کام سے کام رکھنے کا عادی تھا۔ بس کام کے دوران وہ اکثر ہوٹل پرپتلی دال اور چند روٹیاں کھانے جاتا تھا۔
ایک دن وہ ہوٹل میں روٹی کھا رہا تھا کہ سامنے ٹی وی پر ملک میں ہونے والےالیکشن کی خبریں چل رہی تھیں۔ ایک نئی انتخابی پارٹی کا نمائندہ خطاب کررہا تھا۔
"اس ملک کو پچھلے حکمرانوں نے کہیں کا نہیں چھوڑا، ہم اس ملک کی تقدیربدلیں گے، یہاں پر نیا نظام رائج کریں گے، جس سے ملک میں ترقی اور خوشحالی آئےگی۔"
رحمت کے ساتھی مزدور نے کہا۔
" بہت آزما لیا پُرانے حکمرانوں، اب ہم اِن کو ووٹ دیں گے۔ یہ نیا نظامملک کی تقدیر بدلے گا۔" رحمت نے سوچا کیا واقعی ایسا کوئی نظام ہے کہ خوشحالیآئے اوروہ دو وقت کی روٹی کی جدوجہد سے نکل کر اپنے بچوں کو سکول بھیج سکے؟
اس نے دل میں ٹھان لی کہ وہ اِس جماعت کو ہی ووٹ دے گا جو ملک کے حالات بدلےگی۔ اس نے نماز میں اس پارٹی کے جیتنے کی دعا کی اور اپنا اور اپنے گھر والوں کاووٹ اسی پارٹی کو دیا۔
بالآخر وہ پارٹی جیت گئی، رحمت کی آنکھوں نے نئے نظام کے خواب بننا شروعکردیئے۔ اس کے دل میں آتا کہ اس کی محنت کی صحیح قیمت اسے دا کی جائے گی تاکہ وہایک اچھی آمدنی کما سکے تاکہ وہ بچوں کو سکول بھیجے۔ وہ اس کی طرح مزدوری نہ کریںبلکہ ایک خوشحال زندگی گزار سکیں۔
وہ معمول کے مطابق دووقت کی روٹی کی مشقت میں مشغول ہوگیا۔ ایک دن جب وہاندرونِ شہر میں چوک پر کھڑا اپنی دیہاڑی کا انتظار کررہا تھا کہ ایک جدید ماڈل کیخوبصورت گاڑی اُس کے پاس رُکی۔
گاڑی کے سیاہ شیشے نیچے ہوئے اور ایک آدمی جو کوٹ پینٹ میں ملبوس تھا، اُس سےپوچھنے لگا۔
"یہ رحمت بخش کون ہے"
رحمت بخش آگے بڑھا اور کہا "میں ہی ہوں جناب حکم کریں"
وہ بولا
"تم سے ایک کام ہے۔"
رحمت بخش بولا
"میں حاضر ہوں جناب"
گاڑی کا دروازہ کھلا اور اسے اندر بیٹھنے کو کہا گیا۔ وہ بیٹھ گیا۔گاڑی نہایتآرام دہ تھی، اندر ایئر کنڈیشنر نے رحمت کے اعصاب شل کر دیئے۔
اس نے کپکپی بھری آواز میں پوچھا۔
"صاحب کام کہاں کرنا ہے؟"
اس آدمی نے جواب دیا
"ابھی معلوم ہوجائے گا"
گاڑی ایک وسیع و عریض عمارت کے سامنے رک گئی۔ رحمت نے سوچا عمارت تو بن چکی ہےپھر اسے یہاں کیوں لایا گیا۔ وہ خاموشی سے اس کوٹ پتلون میں ملبوس آدمی کے پیچھےچلنے لگا۔
وہ اسے ایک خوبصورت دفتر میں لے گیا جہاں پر بہت سے آرام دہ اور پرکشش صوفےپڑے تھے۔ کمرے کے آخری کونے پر ایک بیضوی میز کے پیچھے ایک عمررسیدہ آدمی منہمیں سِگار دبائے بیٹھا تھا۔
اس نے گرج دار آواز میں پوچھا
"رحمت بخش تم ہی ہو"
رحمت نے جواب دیا
"جی"
"گلزار نے بڑی تعریف کی ہے تمہاری کہ تم بڑے محنت کش اور عزت دار مزدورہو۔"
"جی رب سوہنے کا کرم ہے مجھے کام بتایئے، روڑہ کوٹنا ، میٹیریل پہنچانا،سب۔۔۔"
"ہم نے تم سے مزدوری نہیں کروانی"
اس نے رحمت کی بات کاٹی
رحمت بخش چپ ہوگیا۔۔۔"تو پھر کیا"
"بس ہمارا ایک کام کرنا ہے۔ اگلے ہفتے ایک ٹی وی چینل والے ہماری حکومتپر ایک پروگرام کررہے ہیں، تم نے اس میں شرکت کرنی ہے اور ہماری تعریف کرنی ہے۔ یہکاغذ لو اس کو پڑھ لو، یہ بولنا ہے"۔
"صاحب مجھے پڑھنا نہیں آتا۔"
اس نے اپنے ساتھ کھڑے کوٹ پتلون والے آدمی کو پڑھنے کا اشارہ کیا۔
اس نے پڑھا
"میرا نام رحمت بخش ہے اور میں دیہاڑی دار مزدور ہوں۔ اس حکومت کے آنےسے پہلے میں فاقہ کشی کے عالم میں تھا۔ گھر میں کھانے کو پورا نہیں پڑتا تھا لیکناب میرے حالات بدل چکے ہیں۔ میں پہلے سے تین ُگنا زیادہ کماتا ہوں، گھر میں فاقے نہیں ہوتے، میرے بچے ابسکول جاتے ہیں، میری زندگی میں خوشحالی لوٹ آئی ہے۔ یہ سب کچھ اس حکومت کے نئےنظام کی وجہ سے ہے۔"
رحمت بخش خاموش ہوگیا، وہ سوچ رہا تھا کہ اس کے حالات تو ویسے کے ویسے ہی ہیں،کچھ فرق نہیں پڑا۔
اس کو خاموش دیکھتے ہوئےاُس آدمی نے کہا۔
"اِس کا تمہیں معاوضہ ادا کیا جائے گا۔ اتنا کہ اگلے دو مہینے تم آرامسے گزار سکوگے۔"
رحمت بخش پھر بھی خاموش رہا۔
کوٹ پتلون میں ملبوس آدمی بولا۔
"سر چھوڑیئے آپ اسے، اس جیسے کئی مل جائیں گے" اس نے جواب دیا۔
"نہیں تم نہیں سمجھتے، جب ایک سچا اور محنت کش آدمی جھوٹ بولتا ہے تو اسکے لہجے میں درد ہوتا ہے تڑپ ہوتی ہے، بس یہی درد اور تڑپ ہماری سچائی کی گواہیبنے گی۔"
اس نے رحمت بخش سے کہا۔
"سوچ لو تمہارے پاس پانچ دن ہیں۔"
رحمت بخش خاموشی سے نکل آیا لیکن دل میں ارادہ کیا کہ وہ یہ کبھی نہیں کہےگا، وہ اپنی عزت یوں نیلام نہیں کرسکتا، پیسے جائیں بھاڑ میں۔
وہ گھر چلا گیا اور اگلے دن دوبارہ اس چوک پر آگیا دیہاڑی کی تلاش میں۔سارادن گزر گیا لیکن کوئی مزدوری نہ ملی، چند مزدور آپس میں باتیں کر رہے تھے کہموجودہ حکومت نے مہنگائی کردی ہے۔ تعمیراتی سامان کی بدلتی قیمتوں کی وجہ سے سرمایہ داروں نے کام روک دیا ہے۔
رحمت بخش نے آج کا دن خدا کی رضّا سمجھا اور گھر واپس آگیا۔ گھر میں بس دودن کا راشن تھا، آج کا گزارہ اس راشن سے ہوا۔
کل دوبارہ گیا لیکن کوئی مزدوری نہ ملی۔
اب اگلے دن کا راشن گھر میں موجود نہ تھا۔ وہ پریشان تھا، خدا سے روزی کی دعاکی اور اگلے دن پھر مزدوری کی تلاش میں نکلا لیکن کوئی مزدوری نہ ملی۔ گھر میںفاقہ تھا، بھوک سے بُرا حال۔ اس نے اپنی بیوی کو ساری بات بتائی اس گاڑی والی۔
بیوی نے کہا
"تو آپ کا کیا جاتا ہے بول دیں نا۔ کچھ مہینے تو سکون سے گزریںگے۔"
اگلے دن پھر فاقہ تھا، اس نے آخر بھوک کے ہاتھوں مجبور ہوکر بڑے صاحب کو اپنیرضامندی دے دی۔
اس کو کچھ پیسے ایڈوانس میں ملے جس سے اس نے راشن خریدا اور فاقے سے نجاتپائی۔ باقی پیسے ٹی وی پروگرام کے بعد ملنے کا وعدہ کیا گیا۔
آخر وہ دن آیا، ٹی وی پروگرام کے آفس لے جانے کے لئے اس کے پاس گاڑی آئی۔وہ اس میں بیٹھ کر ٹی وی چینل کے آفس میں پہنچا۔ پروگرام ایک بڑے سے ہال میں ہوناتھا جو کھچا کھچ لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔
ٹی وی پروگرام کی میزبان سامنے کھڑی تھی۔ اس سے کہا گیا کہ جب تمہاری باریآئے گی تمہیں بلایا جائے گا۔
وہ پیچھے جاکر ایک کرسی پر بیٹھ گیا، ٹی وی پروگرام شروع ہوا۔ پروگرام میںحکومت کے مختلف نمائندے آئے جنہوں نے حکومت کی کارکردگی پر روشنی ڈالی۔ وہ ساریباتیں رحمت کے دماغ کے اوپر سے گزر گئیں۔
آخر رحمت کو بلایا گیا۔ اس نے اٹھنے کے لئے قدم بڑھایا مگر اس کو اپنے قدمبہت بھاری محسوس ہوئے۔ وہ چل نہیں پارہا تھا۔ اسے پھر بلایا گیا، وہ مشکل سے اُٹھااورسٹیج پر پہنچا۔
ٹی وی شو کی میزبان نے اس کا تعارف کروایا۔
"تو اب سنتے ہیں رحمت کی زبانی کہ وہ اس حکومت کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔رحمت بخش ایک مزدور ہیں اور اپنی کہانی آپ کو سنائیں گے۔"
"میں رحمت بخش"
رحمت بخش نے اپنی زبان کھولی "میرا نام رحمت بخش ہے اور میں ایک محنت کش مزدور ہوں۔۔۔۔"
اس کے آگے رحمت بخش کا دماغ دھندلا گیا، وہ چند لمحوں کے لئے خاموش ہوگیا۔سامنے جہاں ٹی وی چینل کی میزبان کھڑی تھی اس کو ایک تروازو نظر آیا۔
اس کے ایک پلڑے میں اس کی عزت اور ایمانداری تھی اور دوسرے پلڑے میں اس کے فاقہ زدہ بیوی بچے اور پھر آہستہآہستہ ترازو بیوی بچوں والی جانب جھک گیا۔
رحمت بخش کی آنکھوں میں آنسو نکلنےگے۔ اس نے روتے ہوئے باقی سارے جملے ادا کئے، جو اس کو یاد کروائے گئے تھے۔
اس نے بات ختم کی تو ٹی وی میزبان بولی
"دیکھیئے ناظرین کتنی سچائی ہے اس کے بیان میں۔ یہ ہے اس حکومت کا نچلےطبقے کو ریلیف پہنچانے کا منہ بولتا ثبوت۔"
اور یوں پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ شو ختم ہوا اور رحمت بخش کو پورامعاوضہ ادا کردیا گیا۔
لیکن رحمت بخش بہت غمگین تھا۔ اس کو ایسے معلوم ہوتا تھا کہ وہ ایک کنواریلڑکی ہے جس کی عزت بہت سستے داموں کسی رنڈی خانے میں بیچ دی گئی ہو۔
اس کے اندر کچھ ٹوٹ سا گیا، اس کو محسوس ہوا کہ اب وہ کبھی بھی محنت سے روڑےکو چورا نہ کرسکے گا۔ وہ کبھی بھی چابق دستی کے ساتھ سیمنٹ، اینٹیں اور بجری مستریتک نہیں پہنچا سکے گا۔
اسے کوئی نہیں کہے گا کہ اس نے دو تین دن کا کام ایک دن میں مکمل کرلیا ہے۔ اسکی عزت اور محنت کے جو دام لگائے گئے تھے وہ بہت ہی زیادہ کم تھے۔
=========