عید لاشوں کے دیس میں

عید لاشوں کے دیس میں

Mar 15, 2018

سولو ڈرامہ

دیدبان شمارہ -۷

عید لاشوں کے دیس میں

‍(سولو ڈرامہ )

جاوید دانش، کناڈا

میرا نام ڈاکٹرغسان حبیب صباوی ہے۔ میں ایک کمزور مجبور اور بے بس ڈاکٹر ہوں۔ دنیا کے سب سے برے، غلیظ اور ٹوٹے پھوٹے جیل غازہ کے الشفا ہاسپٹل کا ایمرجنسی روم ڈاکٹر۔ جی غازہ 1.8 ملین محصور لوگوں کا کھلا جیل، جس سے فرار ناممکن نہیں مگر بہت مشکل ہے۔ اس روز مرّہ کی مرتی اور زخمی آبادی میں زیادہ تر روتے سسکتے سہمے ہوئے یتیم بچے ہیں جو بنا روٹی، کپڑا اور مکان کے راستوں پر بھٹک رہے ہیں۔ دو تہائی زخمی جوان اور رفوجی ہیں۔ مرنے یا زخمی ہونے سے جو بچ گئے ہیں، وہ رات دن اپنے یا دوستوں کے رشتہ داروں کی میت کے کفن دفن میں مصروف ہیں۔ عورتوں کی حالت سب سے نازک ہے۔ ڈری ڈری روتی سسکتی عورتیں جو ہر وقت اپنے سپوتوں کی حفاظت کی دعا میں گم ہیں۔

ہاسپٹل میں ایک آبادی ذہنی مریضوں کی بھی ہے جو جنگ اور ظلم کی دہشت سے اپنا ذہنی توازن کھو چکے ہیں۔ شاید یہی لوگ سب سے بہتر ہیں کہ اب انھیں کسی قسم کا ڈر یا خدشہ نہیں ہے۔ یہ لوگ بس حیرت سے دوسرے روتے سسکتے مریضوں کو دیکھ کر ہنستے رہتے ہیں یا رات کے اندھیرے میں نیند سے چونک کر زور زور سے چیخنے لگتے ہیں۔ نہ ان کو چپ کرایا جاتا ہے، نہ ہی نیند کا انجکشن دیا جاتا ہے کہ دوائی اور انجکشن کا کوئی اسٹاک بچا نہیں۔ نہ کسی ڈاکٹر کو فرصت ہے کہ ان کو اٹینڈ کرے کیوںکہ رات دن زخمی اور لاشوں کی آمد و رفت جاری ہے۔

میں شرمندہ ہوں، ان تمام یتیم اور معصوم بچوں سے جن کے باپ کو میں نہیں بچا سکا۔۔۔ میں شرمندہ ہوں ان ہزاروں بےواﺅں سے جن کے سہاگ کو میں کوشش کے باوجود نہیں بچا سکا۔ بچاتا بھی کیسے، ان میں سے اکثر اتنے زخمی تھے کہ شاید ہاسپٹل آنے سے پہلے ہی ان کی روح پرواز کر چکی تھی۔

میں شرمندہ ہوں ان تمام مظلوم ماﺅں سے جن کے سپوتوں کو میں نہ بچا سکا، نہ ان کی شناخت کروا سکا کہ ان کے جنازے بارود میں جھلس کر کوئلہ ہوچکے تھے۔ میں شرمندہ ہوں ان تمام باپ سے جن کی بیٹیوں کی حرمت ہم نہیں بچا سکے اور جن میں سے اکثر نے ذلت سے بچنے کے لیے خودکُشی کرلی تھی۔۔۔ میں شرمندہ ہوں غازہ کے مجبور، محصور اور بے بس رفیوجی  سے  جو عالمِ برزخ میں زندہ ہیں اور اکثر نے ہمارےہاسپٹل کے کمپاﺅنڈ میں یہ سمجھ کر پناہ لی تھی کہ شاید بم یہاں نہیں برسے گا مگر پچھلی رات کی بمباری نے اس ہاسپٹل کو بھی نہیں بخشا۔اب یہ پہچان مشکل ہے کہ زخمی ہاسپٹل کے مریض ہیں یا یہاں کے پناہ گزیں۔۔۔ جو بھی ہو موت کا رقص جاری ہے، خدا خاموش اور شیطان ہنس رہا ہے –

میں شرمندہ ہوں ان تمام مظلوم بہنوں سے جن کے  بھائیوں کو( آئی ڈی ایف )کے بھیڑیے اٹھا لے گئے۔ ان کا جرم یہ تھا کہ گولیوں کا جواب وہ پتھر سے دے رہے تھے۔۔۔ میں سب سے زیادہ شرمندہ اپنی ماں سے ہوں جس کی آبروریزی میری آنکھوں کے سامنے ہوتی رہی۔ میں چیخنا تو درکنار، رو بھی نہ سکا۔۔۔ میں کوئی دس برس کا تھا۔۔ ۔ خوف اور دہشت سے میری آواز نہیں نکلی۔۔۔

وہ اذیت ناک منظر آج تک میرے ذہن میں کل کی طرح تازہ ہے۔۔۔ ١٩٦٧ء  کی جنگ،بلیک آؤٹ  اور رات کی تاریکی کو چیرتی ہوئی سائرن کی آواز، گولیوں کی بوچھار، بارش کی طرح بمباری اور اچانک حملہ، گھروں میں گھس کر اندھادندھ مشین گن کی فائرنگ اور نہتھے لوگوں پر ظلم کی انتہا۔۔۔ میرے باپ کو رسی سے باندھ کر صحن میں پھینک دیا گیا، دو بھائیوں کو گرفتار کرکے باہر لے گئے اور پھر یکے بعد دیگرے سات فوجی جوانوں نے ماں کی آبروریزی ایسے کی کہ جسم کے چیتھڑے کر ڈالے اور شاید آخری جوان کی ہوس سے پہلے اس کی جان نکل چکی تھی۔ مگر وہ پھر بھی ایک وحشی کی طرح اس کو نوچتا بھنبھوڑتا رہا۔ میں پلنگ کے نیچے سہما یہ دلسوز اور اذیت ناک منظر خاموشی سے دیکھتا رہا۔ ڈر سے آواز حلق میں اٹکی تھی، آنکھوںمیں آنسو جم گئے تھے۔ باپ نے اپنا سر زمین پر پٹخ پٹخ کر لہولہان کرڈالا۔ وہ لوگ ہنستے رہے اور اپنی ہوس پوری کرتے رہے۔ پھر باپ کے بے ہوش جسم کو گھسیٹتے ہوئے باہر پھینک دیا اور جاتے ہوئے اسے گولیوں سے چھلنی کر ڈالا۔

میں اپنے مجبور باپ سے بھی شرمندہ ہوں کہ اس کی نمازِ جنازہ میں بھی شریک نہ ہوسکا۔ یہ بھی نہیں پتا کہ اس کی آخری رسومات ادا کی گئیں یا (ماس گریو) اجتماعی قبر میں ڈال دیا گیا کہ اکثر کے ساتھ

یہی ہورہا تھا۔

دوسری صبح

لاشوں کے سڑنے اوروبا (ااپیڈیمک)کا خطرہ تھا –     میرے چچا عبداللہ زبردستی مجھے شہر سے دور لے گئے۔ پھر مجھے ایک رشتہ دار کے یہاں جارڈن بھیج دیا گیا۔ چچا عبداللہ کا پورا خاندان شہید ہوچکا تھا۔ بقول ان کے میں واحد صباوی خاندان کا زندہ فرد بچا تھا۔ آخری بار جب ملاقات ہوئی، انھوں نے مجھ سے وعدہ لیا کہ میں بندوق نہیں اٹھاﺅںگا۔ جنگ مسئلے کا حل نہیں۔۔۔ اور ایک ڈاکٹر بنوں گا کہ اپنے لوگوں کو نئی زندگی دے سکوں۔۔۔

میں چچا عبداللہ سے بھی شرمندہ ہوں کہ میں ان کی آخری خواہش کے مطابق غازہ کے زخمیوں کو نئی زندگی نہیں دے سکتا۔۔۔ اب کون بتائے کہ ان زخمی لوگوں کو دوائیں نہیں روٹی چاہیے، علاج سے بڑھ کر صاف پینے کا پانی چاہیے، سر پر ایک چھت چاہیے، لاکھوں فلسطینی خانہ بدوش زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ غازہ کا بارڈر سیل کردیا گیا ہے۔ اسرائیل  اور ایجپٹ کا بارڈر بند ہے۔ عالمِ اسلام کے شاہ اور صدور خاموش تماشائی ہیں، اسرائیلی آرمی گھر، بازار، یو این شیلٹر ،ہاسپٹل، اسکول ، کھیت کھلیان ؛ ہر جگہ بم برسا رہے ہیں۔ غازہ کے محصور موت کی آنکھ میں آنکھیں ڈالے لڑ رہے ہیں اور شہید ہورہے ہیں مگر فلسطینی سخت جان نسل ہیں۔ مرنے سے نہیں گھبراتے، اس امید پر ڈٹے ہیں کہ ایک دن مادرِ وطن کو آزاد کرائیں گے۔۔۔ مگر کیسے؟

میں شرمندہ ہوں خود سے کہ ہم نے ہتھیار کیوں نہیں اٹھایا؟ کیا میں بزدل ہوں یا اپنے والدین کی موت سے ڈر گیا تھا؟ میرے ڈاکٹر بننے سے میرے لوگوں کو کیا فائدہ ہوا۔۔۔ مجھ سے بہترتو سامنے کے قبرستان کا گورکن ہے جو اپنے لوگوں کے جنازے عزت کے ساتھ دفنا تو رہا ہے۔ مرنے والے کے گھر والوں کو سکون تو فراہم کررہا ہے۔ ۔۔ مجھ سے میرے لوگ خائف ہیں کہ میں ان کے زخمیوں کو بچا نہیں پاتا۔۔۔ مگر میں ان معصوم لوگوں کو کیا بتاﺅں کہ اکثر زخمی، کٹے پھٹے، جلے جھلسے اور مرے ہوئے آتے ہیں، ہم تو بس ان کی تسلی کے لیے ان کی لاشوں کو دیکھ بھال کر لیتے ہیں۔۔۔ دس میں سے شاید ایک خوش قسمت زندہ واپس جاتا ہے۔ ہم کتنے مجبور ہیں کیا بتائیں۔۔۔

الشفا غازہ کا سب سے بڑا ہاسپٹل ہے مگر آج اس میں صر ف۲۱ بیڈ ایمرجنسی روم میں ہیں اور ایک  مریض اور زخمی  لائے جا رہے   منٹ میں تقریبابارہ

ہر جگہ کوئی نہ کوئی لیٹا، بیٹھا اور کھانس رہا ہے۔ مریضوں کے پیشاب کی بدبو اور دوسری غلاظت سے سانس لینا دوبھر ہے۔ گرمی اور حبس سے آنکھوں کے آگے اندھیرا سا ہے ۔ ہم پچھلے بارہ روز سے چوبیس گھنٹے ڈیوٹی پر ہیں۔ بھوک، تھکن اور الجھن سے ختم ہے۔ ہم چوبیس گھنٹے کے روزے سے ہیں، پانی اور کھانے کے پیکٹ یو۔این۔ کے کارکن لارہے ہیں مگر زخمیوں کے ساتھ جو خون میں نہائے ہیں اور پانی اور کھانے پر بھی خون کے چھینٹے ہیں، اس پانی اور کھانے کو کون کھا سکتا ہے۔۔۔ ہاسپٹل ایک مقتل ، ایک ذبیح خانہ بن چکا ہے۔ ہر طرف خون اور جلے ہوئے انسانی گوشت کی بو، ٹوٹے پھوٹے انسانی جسم، کٹے پھٹے ہاتھ پیر۔۔۔ کسی کی انتڑیاں باہر کو جھول رہی ہیں تو کسی کا سر گولیوں سے چھلنی۔۔۔ مرہم پٹی کریں بھی تو کہاں۔۔۔نہ بینڈج بچا ہے نہ کوئی مرہم ۔۔۔ بستر کی چادریں خون سے سرخ۔۔۔ زمین سرخ۔۔۔آسمان سرخ۔۔۔ کربلا کا عجیب منظر ہے۔۔۔ یاربِ کعبہ! اس آزمائش سے تو بہتر تھا، میں بھی بندوق اٹھاتا اور ایک دن مارتے مارتے خود بھی ختم ہوجاتا۔۔۔

مجھے نہیں معلوم دنیا کی چیخ و پکار اور دھرنے جلوس کا کیا ہوگا۔ آج کی خبر کے مطابق ١١٠٠  لوگ مارے گئے ہیں اور کوئی ٥٢٠٠ زخمی۔۔۔ جس میں ١٨٠٠ معصوم بچے ہیں جو گھروں سے باہر کھیلنے نکلے تھے اور بندوق کا نشانہ بنے۔۔۔ مگر ہم اور آپ جانتے ہیں، لوگ ہزاروں کی تعداد میں ختم ہوئے ہیں۔۔۔ ہزاروں زخمی۔۔۔ اور ہزاروں گم شدہ ہیں۔۔۔ ان کی کوئی گنتی نہیں جنھیں فوجی اٹھا لے گئے ہیں اور ٹارچر سیل میں ان پر کیا قیامت گزر رہی ہوگی، وہ جانتے ہیں یا خدا۔۔۔مجھ سے پوچھیے ، یہ ٹارچر سیل کیا ہوتا ہے، مجھے بھی تین مہینے تک جیروسیلم کے جیل میں روندا گیا تھا۔ میرا قصور صرف اتنا تھا کہ مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے چلا گیا تھا۔ مجھے چار دن تک سونے نہیں دیا گیا۔ جب نیند آتی سر پر ٹھنڈا پانی ڈال دیا جاتا۔ جب جسم پوری طرح تھکن سے چور ہوگیا اور نیند سے نڈھال ہوگیا تو انٹیروگیشن شروع ہوئی کہ انتفادہ کب جوائن کیا،کون ہے ہمارا گروپ لیڈر، ہمارا اگلا قدم کیا ہے؟ میں یہی کہتا رہا کہ میں ایک اسٹوڈنٹ ہوں، جارڈن سے چھٹیوں پر آیا ہوں، کسی انتفادہ کا ممبر نہیں مگر میری کسی بات کا ان کو یقین نہیں آتا۔۔۔ مارنے کے ساتھ ساتھ ایک نے میری انگلیوں سے ایک ناخن گھسیٹ کر اس میں نمک لگا دیا۔ میں چیختا رہا، چلاتا رہا، درد سے بلبلاتا رہا پھر بھی جب میں نے جواب نہیں دیا تو آخر ان لوگوں نے مجھے برف کی سل پر باندھ کر چھوڑ دیا۔۔۔ گھنٹے بھر میں جسم سُن ہوگیا، کانوں میں سیٹیاں بجنے لگیں اور ہڈیاں چٹخنے لگیں، پیشاب بند ہوگیا، آواز بند ہوگئی اور بے ہوشی کے عالم میں پتا نہیں کیا کیا ہوا۔۔۔ کوئی تین مہینے کی ذلت اور ٹارچر کے بعد پتا نہیں کیسے مجھے چھوڑ دیا گیا۔۔۔ مگر مجھے اس کا بھی انکشاف ہوا کہ مولوی جہنم کی آگ اور سزا کی جو بات کرتے ہیں ،ان کو نہیں معلوم جہنم کا ایک حصہ برف کا بھی ہے جس کو میں جھیل چکا ہوں۔

گذشتہ رات میری میڈیکل زندگی کی سب سے لمبی رات تھی۔ باہر گولیاں ہوا کی طرح چل رہی تھیں، ٹینک ہر طرف گڑگڑا رہے تھے۔ فضا میں بارود کی  بوجھل بو گلے میں رندھ رہی تھی۔۔

بلیک آوٹ کی وجہ سے ہم کینڈل لائیٹt میں کام کررہے تھے۔رات دیڑھ بجے ایک مریضہ مریم کو ایمرجنسی میں لایا گیا۔ پریگننٹ اور درد سے کراہتی ہوئی، نیم بے ہوشی میں سسک رہی تھی۔۔۔ کیس سی سیکشن کا تھا اور آپریشن روم میں کوئی سہولت نہیں تھی۔۔۔ صبح اذان کی آواز سے پہلے مریم نے جڑواں بچوں کو جنم دیا۔۔۔ مگر بدقسمتی سے وہ( کون جوائینڈ) تھے۔۔۔ جسم دو مگر بیچ سے جڑے ہوئے، ان کا دل ایک۔۔۔ ہمیں یہ جاننے میں دیر نہیں لگی کہ فوراً ان کی سرجری کرکے الگ کرنا ہوگا ورنہ دونوں میں سے ایک کی موت ہوجائے گی۔۔۔مگر سرجری کہاں، ہمارے پاس تو آکسیجن بھی نہیں تھا اور جڑواںکو فوراً آکسیجن کی ضرورت تھی۔ جب ہم نے او۔ٹی۔ سے باہر آکر مریم کے شوہر کو خبر سنائی تو پتا چلا، پچھلے چار بار مریم کا مس کیرج ہو چکا ہے۔ شاید۔۔۔ ڈر یا جنگ کی( انسرٹنٹی) ےا حالات۔۔۔ مگر آج اس خبر کی سچائی سے محمود رونے لگا: ”ڈاکٹر دونوں میں سے ایک کو ضرور بچالو ورنہ مریم مر جائے گی۔۔۔ وہ پہلے ہی ڈپریشن کا شکار ہے“۔ ۔۔ میںنے صرف یہ کہا: ”اللہ پر بھروسہ رکھو، ہم پوری کوشش کررہے ہیں“۔

تمام تر کوشش اور ایمرجنسی کانٹیکٹ کے باوجود ہم جڑواںکو کسی بڑے ہاسپٹل میں ٹرانسفر نہیں کرسکے کہ باہر کی حالت بہت خراب تھی۔ مگر اس سے پہلے کوئی اور بات ہوتی۔۔۔ پتا چلا۔۔۔ دونوں جڑواں آکسیجن کی کمی کی وجہ سے ایک گھنٹے میں ہی ختم ہوچکے تھے۔۔۔ میں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ محمود کو یہ خبر کیسے بتاﺅں، سسٹر نے آکر بتایا کہ (مریم از نو مور)۔۔۔

باہر اندھادھند فائرنگ چل رہی تھی۔۔۔ فضا میں اللہ اکبر کا نعرہ گونج رہا تھا۔۔۔ ٹینک گھروں کو گرا رہے تھے، عورتوں کی دل کش چیخیں اذان میں مل کر عجیب ماحول بنا رہی تھیں۔ فریش زخمی یو۔این۔ کے ورکرس لا رہے تھے۔۔۔ پانی۔۔۔ پانی۔۔۔ کوئی کراہ رہا ہے۔۔۔ کوئی درد سے بے چین ہے۔۔۔ کوئی زور زور سے دعا مانگ رہا ہے، کٹے پھٹے جنازے لائے جارہے ہیں۔ میں سوچ رہا ہوں، آخر اتنے مظلوموں کی دعائیں کہاں بھٹک رہی ہیں۔ ان بے گناہوں پر کرم کیوں نہیں کرتا پروردگار! یہ آزمائش کیسی ہے جو نسل در نسل چلی آرہی ہے اور ختم ہی نہیں ہوتی۔۔۔ وہ صبح کب آئے گی؟ آزادی کس قیمت پر ملے گی؟۔۔۔نفرت کی یہ آندھی رکتی کیوں نہیں؟۔۔۔ تھکتی کیوں نہیں؟۔۔۔ خون کی یہ پیاس بجھتی کیوںنہیں؟۔۔۔ آخر ہم کب تک مرتے رہیں گے؟۔۔۔ ہماری قربانیاں کب کام آئیں گی؟۔۔۔ یا اللہ! تو خاموش تماشائی کیوں ہے؟۔۔۔ ابراہیم کی یہ کیسی اولادیں ہیں۔۔۔ ان کا دل تو بدل کیوں نہیں دیتا؟۔۔۔

آج صبح سے ویسٹ بینک جیروسیلم اور دیگر علاقے سے لوگوں کا اذدہام سڑکوں پر نکل پڑا ہے۔ ہر کوئی آزاد فلسطین کے نعرے لگا رہا ہے مگر یہ سب کب تک؟۔۔۔ مگر میں یہ بھی سوچنے پر مجبور ہوں کہ میں کب تک صرف خاموش تماشائی بنوںگا؟۔۔۔ میں اس لانگ مارچ میں کیوں نہیں ہوں؟۔۔۔ آج شاید میں اپنے بزرگوں کو دیے گئے وعدے وعید توڑ ڈالنا چاہتا ہوں، مجھے کچھ تو کرنا ہوگا۔۔۔

میں کنفیوزڈ ضرور ہوں مگر ایک طرح کا سکون بھی دل میں ٹھنڈک پہنچا رہا ہے۔۔۔ ایک پیپر پر ہم نے اپنا ریزگنیشن لکھا اور خاموشی سے اپنے کیبن سے باہر نکل رہا تھا کہ کسی نے اپنے آنسو پوچھتے ہوئے کہا : ”عید مبارک ڈاکٹر“۔

مجھے ایسا لگا کسی نے گالی دی ہو۔۔۔ عید اور لاشوں کے دیس میں؟

عید اگر ہے شادمانی اور مسرت کا پیام

عید اگر ہے کامرانی اور محبت کا سلام

مدتوں اس سر زمیں پر آتے شرمائے گی عید

دوستوں کس دل سے آئے گی اگر آئے گی عید

-----------------------------------------------

(مصنف نے جہاں جہاں انگریزی الفاظ استعمال کئے تھے انہیں اسی طرح اردو رسم الخط  میں لکھ دیا گیا ہے تاکہ جملوں کی ترتیب نہ بگڑے )

 متن میں موجود انگریزی الفاظ :----

Epidemic

IDF

twins

miscarriage

 uncertainty 

emergency contacts

 twins

twins

Mariyam is no more ..۔

west bank jerusalem 

Free Palastine

Resignation

 confused

دیدبان شمارہ -۷

عید لاشوں کے دیس میں

‍(سولو ڈرامہ )

جاوید دانش، کناڈا

میرا نام ڈاکٹرغسان حبیب صباوی ہے۔ میں ایک کمزور مجبور اور بے بس ڈاکٹر ہوں۔ دنیا کے سب سے برے، غلیظ اور ٹوٹے پھوٹے جیل غازہ کے الشفا ہاسپٹل کا ایمرجنسی روم ڈاکٹر۔ جی غازہ 1.8 ملین محصور لوگوں کا کھلا جیل، جس سے فرار ناممکن نہیں مگر بہت مشکل ہے۔ اس روز مرّہ کی مرتی اور زخمی آبادی میں زیادہ تر روتے سسکتے سہمے ہوئے یتیم بچے ہیں جو بنا روٹی، کپڑا اور مکان کے راستوں پر بھٹک رہے ہیں۔ دو تہائی زخمی جوان اور رفوجی ہیں۔ مرنے یا زخمی ہونے سے جو بچ گئے ہیں، وہ رات دن اپنے یا دوستوں کے رشتہ داروں کی میت کے کفن دفن میں مصروف ہیں۔ عورتوں کی حالت سب سے نازک ہے۔ ڈری ڈری روتی سسکتی عورتیں جو ہر وقت اپنے سپوتوں کی حفاظت کی دعا میں گم ہیں۔

ہاسپٹل میں ایک آبادی ذہنی مریضوں کی بھی ہے جو جنگ اور ظلم کی دہشت سے اپنا ذہنی توازن کھو چکے ہیں۔ شاید یہی لوگ سب سے بہتر ہیں کہ اب انھیں کسی قسم کا ڈر یا خدشہ نہیں ہے۔ یہ لوگ بس حیرت سے دوسرے روتے سسکتے مریضوں کو دیکھ کر ہنستے رہتے ہیں یا رات کے اندھیرے میں نیند سے چونک کر زور زور سے چیخنے لگتے ہیں۔ نہ ان کو چپ کرایا جاتا ہے، نہ ہی نیند کا انجکشن دیا جاتا ہے کہ دوائی اور انجکشن کا کوئی اسٹاک بچا نہیں۔ نہ کسی ڈاکٹر کو فرصت ہے کہ ان کو اٹینڈ کرے کیوںکہ رات دن زخمی اور لاشوں کی آمد و رفت جاری ہے۔

میں شرمندہ ہوں، ان تمام یتیم اور معصوم بچوں سے جن کے باپ کو میں نہیں بچا سکا۔۔۔ میں شرمندہ ہوں ان ہزاروں بےواﺅں سے جن کے سہاگ کو میں کوشش کے باوجود نہیں بچا سکا۔ بچاتا بھی کیسے، ان میں سے اکثر اتنے زخمی تھے کہ شاید ہاسپٹل آنے سے پہلے ہی ان کی روح پرواز کر چکی تھی۔

میں شرمندہ ہوں ان تمام مظلوم ماﺅں سے جن کے سپوتوں کو میں نہ بچا سکا، نہ ان کی شناخت کروا سکا کہ ان کے جنازے بارود میں جھلس کر کوئلہ ہوچکے تھے۔ میں شرمندہ ہوں ان تمام باپ سے جن کی بیٹیوں کی حرمت ہم نہیں بچا سکے اور جن میں سے اکثر نے ذلت سے بچنے کے لیے خودکُشی کرلی تھی۔۔۔ میں شرمندہ ہوں غازہ کے مجبور، محصور اور بے بس رفیوجی  سے  جو عالمِ برزخ میں زندہ ہیں اور اکثر نے ہمارےہاسپٹل کے کمپاﺅنڈ میں یہ سمجھ کر پناہ لی تھی کہ شاید بم یہاں نہیں برسے گا مگر پچھلی رات کی بمباری نے اس ہاسپٹل کو بھی نہیں بخشا۔اب یہ پہچان مشکل ہے کہ زخمی ہاسپٹل کے مریض ہیں یا یہاں کے پناہ گزیں۔۔۔ جو بھی ہو موت کا رقص جاری ہے، خدا خاموش اور شیطان ہنس رہا ہے –

میں شرمندہ ہوں ان تمام مظلوم بہنوں سے جن کے  بھائیوں کو( آئی ڈی ایف )کے بھیڑیے اٹھا لے گئے۔ ان کا جرم یہ تھا کہ گولیوں کا جواب وہ پتھر سے دے رہے تھے۔۔۔ میں سب سے زیادہ شرمندہ اپنی ماں سے ہوں جس کی آبروریزی میری آنکھوں کے سامنے ہوتی رہی۔ میں چیخنا تو درکنار، رو بھی نہ سکا۔۔۔ میں کوئی دس برس کا تھا۔۔ ۔ خوف اور دہشت سے میری آواز نہیں نکلی۔۔۔

وہ اذیت ناک منظر آج تک میرے ذہن میں کل کی طرح تازہ ہے۔۔۔ ١٩٦٧ء  کی جنگ،بلیک آؤٹ  اور رات کی تاریکی کو چیرتی ہوئی سائرن کی آواز، گولیوں کی بوچھار، بارش کی طرح بمباری اور اچانک حملہ، گھروں میں گھس کر اندھادندھ مشین گن کی فائرنگ اور نہتھے لوگوں پر ظلم کی انتہا۔۔۔ میرے باپ کو رسی سے باندھ کر صحن میں پھینک دیا گیا، دو بھائیوں کو گرفتار کرکے باہر لے گئے اور پھر یکے بعد دیگرے سات فوجی جوانوں نے ماں کی آبروریزی ایسے کی کہ جسم کے چیتھڑے کر ڈالے اور شاید آخری جوان کی ہوس سے پہلے اس کی جان نکل چکی تھی۔ مگر وہ پھر بھی ایک وحشی کی طرح اس کو نوچتا بھنبھوڑتا رہا۔ میں پلنگ کے نیچے سہما یہ دلسوز اور اذیت ناک منظر خاموشی سے دیکھتا رہا۔ ڈر سے آواز حلق میں اٹکی تھی، آنکھوںمیں آنسو جم گئے تھے۔ باپ نے اپنا سر زمین پر پٹخ پٹخ کر لہولہان کرڈالا۔ وہ لوگ ہنستے رہے اور اپنی ہوس پوری کرتے رہے۔ پھر باپ کے بے ہوش جسم کو گھسیٹتے ہوئے باہر پھینک دیا اور جاتے ہوئے اسے گولیوں سے چھلنی کر ڈالا۔

میں اپنے مجبور باپ سے بھی شرمندہ ہوں کہ اس کی نمازِ جنازہ میں بھی شریک نہ ہوسکا۔ یہ بھی نہیں پتا کہ اس کی آخری رسومات ادا کی گئیں یا (ماس گریو) اجتماعی قبر میں ڈال دیا گیا کہ اکثر کے ساتھ

یہی ہورہا تھا۔

دوسری صبح

لاشوں کے سڑنے اوروبا (ااپیڈیمک)کا خطرہ تھا –     میرے چچا عبداللہ زبردستی مجھے شہر سے دور لے گئے۔ پھر مجھے ایک رشتہ دار کے یہاں جارڈن بھیج دیا گیا۔ چچا عبداللہ کا پورا خاندان شہید ہوچکا تھا۔ بقول ان کے میں واحد صباوی خاندان کا زندہ فرد بچا تھا۔ آخری بار جب ملاقات ہوئی، انھوں نے مجھ سے وعدہ لیا کہ میں بندوق نہیں اٹھاﺅںگا۔ جنگ مسئلے کا حل نہیں۔۔۔ اور ایک ڈاکٹر بنوں گا کہ اپنے لوگوں کو نئی زندگی دے سکوں۔۔۔

میں چچا عبداللہ سے بھی شرمندہ ہوں کہ میں ان کی آخری خواہش کے مطابق غازہ کے زخمیوں کو نئی زندگی نہیں دے سکتا۔۔۔ اب کون بتائے کہ ان زخمی لوگوں کو دوائیں نہیں روٹی چاہیے، علاج سے بڑھ کر صاف پینے کا پانی چاہیے، سر پر ایک چھت چاہیے، لاکھوں فلسطینی خانہ بدوش زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ غازہ کا بارڈر سیل کردیا گیا ہے۔ اسرائیل  اور ایجپٹ کا بارڈر بند ہے۔ عالمِ اسلام کے شاہ اور صدور خاموش تماشائی ہیں، اسرائیلی آرمی گھر، بازار، یو این شیلٹر ،ہاسپٹل، اسکول ، کھیت کھلیان ؛ ہر جگہ بم برسا رہے ہیں۔ غازہ کے محصور موت کی آنکھ میں آنکھیں ڈالے لڑ رہے ہیں اور شہید ہورہے ہیں مگر فلسطینی سخت جان نسل ہیں۔ مرنے سے نہیں گھبراتے، اس امید پر ڈٹے ہیں کہ ایک دن مادرِ وطن کو آزاد کرائیں گے۔۔۔ مگر کیسے؟

میں شرمندہ ہوں خود سے کہ ہم نے ہتھیار کیوں نہیں اٹھایا؟ کیا میں بزدل ہوں یا اپنے والدین کی موت سے ڈر گیا تھا؟ میرے ڈاکٹر بننے سے میرے لوگوں کو کیا فائدہ ہوا۔۔۔ مجھ سے بہترتو سامنے کے قبرستان کا گورکن ہے جو اپنے لوگوں کے جنازے عزت کے ساتھ دفنا تو رہا ہے۔ مرنے والے کے گھر والوں کو سکون تو فراہم کررہا ہے۔ ۔۔ مجھ سے میرے لوگ خائف ہیں کہ میں ان کے زخمیوں کو بچا نہیں پاتا۔۔۔ مگر میں ان معصوم لوگوں کو کیا بتاﺅں کہ اکثر زخمی، کٹے پھٹے، جلے جھلسے اور مرے ہوئے آتے ہیں، ہم تو بس ان کی تسلی کے لیے ان کی لاشوں کو دیکھ بھال کر لیتے ہیں۔۔۔ دس میں سے شاید ایک خوش قسمت زندہ واپس جاتا ہے۔ ہم کتنے مجبور ہیں کیا بتائیں۔۔۔

الشفا غازہ کا سب سے بڑا ہاسپٹل ہے مگر آج اس میں صر ف۲۱ بیڈ ایمرجنسی روم میں ہیں اور ایک  مریض اور زخمی  لائے جا رہے   منٹ میں تقریبابارہ

ہر جگہ کوئی نہ کوئی لیٹا، بیٹھا اور کھانس رہا ہے۔ مریضوں کے پیشاب کی بدبو اور دوسری غلاظت سے سانس لینا دوبھر ہے۔ گرمی اور حبس سے آنکھوں کے آگے اندھیرا سا ہے ۔ ہم پچھلے بارہ روز سے چوبیس گھنٹے ڈیوٹی پر ہیں۔ بھوک، تھکن اور الجھن سے ختم ہے۔ ہم چوبیس گھنٹے کے روزے سے ہیں، پانی اور کھانے کے پیکٹ یو۔این۔ کے کارکن لارہے ہیں مگر زخمیوں کے ساتھ جو خون میں نہائے ہیں اور پانی اور کھانے پر بھی خون کے چھینٹے ہیں، اس پانی اور کھانے کو کون کھا سکتا ہے۔۔۔ ہاسپٹل ایک مقتل ، ایک ذبیح خانہ بن چکا ہے۔ ہر طرف خون اور جلے ہوئے انسانی گوشت کی بو، ٹوٹے پھوٹے انسانی جسم، کٹے پھٹے ہاتھ پیر۔۔۔ کسی کی انتڑیاں باہر کو جھول رہی ہیں تو کسی کا سر گولیوں سے چھلنی۔۔۔ مرہم پٹی کریں بھی تو کہاں۔۔۔نہ بینڈج بچا ہے نہ کوئی مرہم ۔۔۔ بستر کی چادریں خون سے سرخ۔۔۔ زمین سرخ۔۔۔آسمان سرخ۔۔۔ کربلا کا عجیب منظر ہے۔۔۔ یاربِ کعبہ! اس آزمائش سے تو بہتر تھا، میں بھی بندوق اٹھاتا اور ایک دن مارتے مارتے خود بھی ختم ہوجاتا۔۔۔

مجھے نہیں معلوم دنیا کی چیخ و پکار اور دھرنے جلوس کا کیا ہوگا۔ آج کی خبر کے مطابق ١١٠٠  لوگ مارے گئے ہیں اور کوئی ٥٢٠٠ زخمی۔۔۔ جس میں ١٨٠٠ معصوم بچے ہیں جو گھروں سے باہر کھیلنے نکلے تھے اور بندوق کا نشانہ بنے۔۔۔ مگر ہم اور آپ جانتے ہیں، لوگ ہزاروں کی تعداد میں ختم ہوئے ہیں۔۔۔ ہزاروں زخمی۔۔۔ اور ہزاروں گم شدہ ہیں۔۔۔ ان کی کوئی گنتی نہیں جنھیں فوجی اٹھا لے گئے ہیں اور ٹارچر سیل میں ان پر کیا قیامت گزر رہی ہوگی، وہ جانتے ہیں یا خدا۔۔۔مجھ سے پوچھیے ، یہ ٹارچر سیل کیا ہوتا ہے، مجھے بھی تین مہینے تک جیروسیلم کے جیل میں روندا گیا تھا۔ میرا قصور صرف اتنا تھا کہ مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے چلا گیا تھا۔ مجھے چار دن تک سونے نہیں دیا گیا۔ جب نیند آتی سر پر ٹھنڈا پانی ڈال دیا جاتا۔ جب جسم پوری طرح تھکن سے چور ہوگیا اور نیند سے نڈھال ہوگیا تو انٹیروگیشن شروع ہوئی کہ انتفادہ کب جوائن کیا،کون ہے ہمارا گروپ لیڈر، ہمارا اگلا قدم کیا ہے؟ میں یہی کہتا رہا کہ میں ایک اسٹوڈنٹ ہوں، جارڈن سے چھٹیوں پر آیا ہوں، کسی انتفادہ کا ممبر نہیں مگر میری کسی بات کا ان کو یقین نہیں آتا۔۔۔ مارنے کے ساتھ ساتھ ایک نے میری انگلیوں سے ایک ناخن گھسیٹ کر اس میں نمک لگا دیا۔ میں چیختا رہا، چلاتا رہا، درد سے بلبلاتا رہا پھر بھی جب میں نے جواب نہیں دیا تو آخر ان لوگوں نے مجھے برف کی سل پر باندھ کر چھوڑ دیا۔۔۔ گھنٹے بھر میں جسم سُن ہوگیا، کانوں میں سیٹیاں بجنے لگیں اور ہڈیاں چٹخنے لگیں، پیشاب بند ہوگیا، آواز بند ہوگئی اور بے ہوشی کے عالم میں پتا نہیں کیا کیا ہوا۔۔۔ کوئی تین مہینے کی ذلت اور ٹارچر کے بعد پتا نہیں کیسے مجھے چھوڑ دیا گیا۔۔۔ مگر مجھے اس کا بھی انکشاف ہوا کہ مولوی جہنم کی آگ اور سزا کی جو بات کرتے ہیں ،ان کو نہیں معلوم جہنم کا ایک حصہ برف کا بھی ہے جس کو میں جھیل چکا ہوں۔

گذشتہ رات میری میڈیکل زندگی کی سب سے لمبی رات تھی۔ باہر گولیاں ہوا کی طرح چل رہی تھیں، ٹینک ہر طرف گڑگڑا رہے تھے۔ فضا میں بارود کی  بوجھل بو گلے میں رندھ رہی تھی۔۔

بلیک آوٹ کی وجہ سے ہم کینڈل لائیٹt میں کام کررہے تھے۔رات دیڑھ بجے ایک مریضہ مریم کو ایمرجنسی میں لایا گیا۔ پریگننٹ اور درد سے کراہتی ہوئی، نیم بے ہوشی میں سسک رہی تھی۔۔۔ کیس سی سیکشن کا تھا اور آپریشن روم میں کوئی سہولت نہیں تھی۔۔۔ صبح اذان کی آواز سے پہلے مریم نے جڑواں بچوں کو جنم دیا۔۔۔ مگر بدقسمتی سے وہ( کون جوائینڈ) تھے۔۔۔ جسم دو مگر بیچ سے جڑے ہوئے، ان کا دل ایک۔۔۔ ہمیں یہ جاننے میں دیر نہیں لگی کہ فوراً ان کی سرجری کرکے الگ کرنا ہوگا ورنہ دونوں میں سے ایک کی موت ہوجائے گی۔۔۔مگر سرجری کہاں، ہمارے پاس تو آکسیجن بھی نہیں تھا اور جڑواںکو فوراً آکسیجن کی ضرورت تھی۔ جب ہم نے او۔ٹی۔ سے باہر آکر مریم کے شوہر کو خبر سنائی تو پتا چلا، پچھلے چار بار مریم کا مس کیرج ہو چکا ہے۔ شاید۔۔۔ ڈر یا جنگ کی( انسرٹنٹی) ےا حالات۔۔۔ مگر آج اس خبر کی سچائی سے محمود رونے لگا: ”ڈاکٹر دونوں میں سے ایک کو ضرور بچالو ورنہ مریم مر جائے گی۔۔۔ وہ پہلے ہی ڈپریشن کا شکار ہے“۔ ۔۔ میںنے صرف یہ کہا: ”اللہ پر بھروسہ رکھو، ہم پوری کوشش کررہے ہیں“۔

تمام تر کوشش اور ایمرجنسی کانٹیکٹ کے باوجود ہم جڑواںکو کسی بڑے ہاسپٹل میں ٹرانسفر نہیں کرسکے کہ باہر کی حالت بہت خراب تھی۔ مگر اس سے پہلے کوئی اور بات ہوتی۔۔۔ پتا چلا۔۔۔ دونوں جڑواں آکسیجن کی کمی کی وجہ سے ایک گھنٹے میں ہی ختم ہوچکے تھے۔۔۔ میں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ محمود کو یہ خبر کیسے بتاﺅں، سسٹر نے آکر بتایا کہ (مریم از نو مور)۔۔۔

باہر اندھادھند فائرنگ چل رہی تھی۔۔۔ فضا میں اللہ اکبر کا نعرہ گونج رہا تھا۔۔۔ ٹینک گھروں کو گرا رہے تھے، عورتوں کی دل کش چیخیں اذان میں مل کر عجیب ماحول بنا رہی تھیں۔ فریش زخمی یو۔این۔ کے ورکرس لا رہے تھے۔۔۔ پانی۔۔۔ پانی۔۔۔ کوئی کراہ رہا ہے۔۔۔ کوئی درد سے بے چین ہے۔۔۔ کوئی زور زور سے دعا مانگ رہا ہے، کٹے پھٹے جنازے لائے جارہے ہیں۔ میں سوچ رہا ہوں، آخر اتنے مظلوموں کی دعائیں کہاں بھٹک رہی ہیں۔ ان بے گناہوں پر کرم کیوں نہیں کرتا پروردگار! یہ آزمائش کیسی ہے جو نسل در نسل چلی آرہی ہے اور ختم ہی نہیں ہوتی۔۔۔ وہ صبح کب آئے گی؟ آزادی کس قیمت پر ملے گی؟۔۔۔نفرت کی یہ آندھی رکتی کیوں نہیں؟۔۔۔ تھکتی کیوں نہیں؟۔۔۔ خون کی یہ پیاس بجھتی کیوںنہیں؟۔۔۔ آخر ہم کب تک مرتے رہیں گے؟۔۔۔ ہماری قربانیاں کب کام آئیں گی؟۔۔۔ یا اللہ! تو خاموش تماشائی کیوں ہے؟۔۔۔ ابراہیم کی یہ کیسی اولادیں ہیں۔۔۔ ان کا دل تو بدل کیوں نہیں دیتا؟۔۔۔

آج صبح سے ویسٹ بینک جیروسیلم اور دیگر علاقے سے لوگوں کا اذدہام سڑکوں پر نکل پڑا ہے۔ ہر کوئی آزاد فلسطین کے نعرے لگا رہا ہے مگر یہ سب کب تک؟۔۔۔ مگر میں یہ بھی سوچنے پر مجبور ہوں کہ میں کب تک صرف خاموش تماشائی بنوںگا؟۔۔۔ میں اس لانگ مارچ میں کیوں نہیں ہوں؟۔۔۔ آج شاید میں اپنے بزرگوں کو دیے گئے وعدے وعید توڑ ڈالنا چاہتا ہوں، مجھے کچھ تو کرنا ہوگا۔۔۔

میں کنفیوزڈ ضرور ہوں مگر ایک طرح کا سکون بھی دل میں ٹھنڈک پہنچا رہا ہے۔۔۔ ایک پیپر پر ہم نے اپنا ریزگنیشن لکھا اور خاموشی سے اپنے کیبن سے باہر نکل رہا تھا کہ کسی نے اپنے آنسو پوچھتے ہوئے کہا : ”عید مبارک ڈاکٹر“۔

مجھے ایسا لگا کسی نے گالی دی ہو۔۔۔ عید اور لاشوں کے دیس میں؟

عید اگر ہے شادمانی اور مسرت کا پیام

عید اگر ہے کامرانی اور محبت کا سلام

مدتوں اس سر زمیں پر آتے شرمائے گی عید

دوستوں کس دل سے آئے گی اگر آئے گی عید

-----------------------------------------------

(مصنف نے جہاں جہاں انگریزی الفاظ استعمال کئے تھے انہیں اسی طرح اردو رسم الخط  میں لکھ دیا گیا ہے تاکہ جملوں کی ترتیب نہ بگڑے )

 متن میں موجود انگریزی الفاظ :----

Epidemic

IDF

twins

miscarriage

 uncertainty 

emergency contacts

 twins

twins

Mariyam is no more ..۔

west bank jerusalem 

Free Palastine

Resignation

 confused

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024