عاشق اور شہید لوٹ آتے ہیں
عاشق اور شہید لوٹ آتے ہیں
Mar 12, 2018
دیدبان شمارہ ۔ ۷
(سندھی کہانیوں کے ترجمے)
عاشق اور شہید لوٹ آتے ہیں
تخلیق : امر جلیل
ترجمہ: شاہد حنائی
ہم نے محرم علی کا بنا سر کا دھڑ دفنا دیا۔میوہ شاہ قبرستان سے لوٹتے ہوئے راستے میں سورج غروب ہو گیا۔گھرپہنچے تو وہاں گھپ اندھیرا تھا۔بتی جلانے کی اجازت نہیں تھی۔کسی بھی وقت حملہ ہونے کا خدشہ تھا۔موت آسمان سے دھرتی کی طرف دیکھ رہی تھی۔ہم دھرتی کے باسی،ہوائی حملوں سے بچاؤ کی خاطر تاریکی کے بند قلعے تعمیر کر کے بیٹھ رہے تھے۔جیون اندھیرے کے سپرد کر ڈالا تھا۔گھروں اور دروازوں کے باہر قبر نما خندقیں کھود رکھی تھیں۔کبھی شاد تو کبھی پشیمان تھے کہ زندہ تھے اور اندھیرے میں مزید جینے کے جتن کر رہے تھے۔
ہم محرم علی کے رشتے دار،چچا زاد،خالہ زاد اور سنگی ساتھی محرم علی کے گھر پہنچے اور تاریکی میں جذب ہو گئے۔تاریکی رہ گئی ہمارے وجود معدوم ہو گئے۔
میرا بوڑھا ماموں،جو کہ گزشتہ بیس برس سے فالج کا شکار پڑا ہے اور اُٹھنے بیٹھنے سے قاصر ہے۔اس نے پوچھا، ’’ بیٹا ! یقین ہے کہ سر کے بغیر دھڑ محرم علی کا ہی تھا۔کسی دوسرے شخص کا تو نہیں تھا؟‘‘
کچھ دیر تک ماموں کو اپنے سوال کا جواب نہ ملا۔یوں محسوس ہوتا تھا جیسے اندھیرے نے ہمارے جسموں کے ساتھ ساتھ ہماری آوازیں بھی نگل لی تھیں۔مَیں نے اپنے رشتہ داروں،چچا زادوں اورسنگی ساتھیوں کو دیکھنے کی کوشش کی ،لیکن تاریکی میں انھیں دیکھ نہ پایا۔جب کافی ساعتیں گزر گئیں اور ماموں کو اپنے سوال کا جواب نہ ملا تو اس نے دوبارہ پوچھا، ’’ ارے بیٹا! تسلی تو ہے نا کہ میوہ شاہ قبرستان میں محرم علی ہی کی لاش دفنا کر آئے ہو۔محرم علی کی بجائے کسی دوسرے آدمی کی لاش تو دفن نہیں کر آئے ہو؟‘‘
تب مَیں نے کہا، ’’ ماموں! مَیں سمجھتا ہوں ، وہ لاش محرم علی کی ہی تھی۔‘‘
ماموں نے فوراً پوچھا، ’’ تم تو اسے پہچانتے ہو نا؟‘‘
مَیں اُلجھ گیا،ہچکچاتے ہوئے بولا،’’ میراخیال ہے مَیں نے اسے شناخت کر لیا تھا۔‘‘
ماموں نے ٹھنڈی سانس لی اور کہا، ’’ سر کے بنا کسی کو شناخت کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے بیٹا۔‘‘
مَیں نے ماموں کا دل رکھنے کی خاطر ،اسے یقین دلایا،’’ مَیں نے محرم علی کو سر کے بغیر بھی پہچان لیا تھا،ماموں!‘‘
ماموں نے زیرلب کچھ کہا۔مَیں نے ا س کے الفاظ سن تو لیے لیکن ان الفاظ کا مفہوم سمجھ نہ پایا۔دراصل ماموں خود کلامی کر رہا تھا،مجھے کچھ نہیں کَہ رہا تھا۔ماموں جب مجھ سے یا کسی اور سے بات کرتا ہے تو وہ اُونچی آوازمیں واضح طور سے بات کرتا ہے۔پھر ماموں نے بلند آواز میں وضاحت کے ساتھ پوچھا،’’ بیٹا! گردن منکے سے کاٹی تھی یا ہنسلی کی ہڈی سے؟‘‘
مَیں نے بدن میں سنسنی سی محسوس کی۔واقعی ہم میں سے کسی نے بھی اس طرف دھیان نہیں دیا تھا۔انھوں نے مقتل میں محرم علی کا سرتن سے جدا کر کے لاش ہمارے حوالے کر دی تھی۔قانون کے مطابق انھوں نے محرم علی کی گردن ہمیں نہیں دی تھی۔ہم نے بھی تو محرم علی کی کٹی ہوئی گردن کا تقاضا نہیں کیا تھا۔سب کچھ خاموشی کے ساتھ جلد بازی میں ہو گیا تھا۔
دن چھوٹے تھے۔پھر ہوائی حملے کا خوف بھی تھا۔ہم محرم علی کی لاش لے کر گھر نہیں آئے تھے۔ہم مقتل سے محرم علی کی لاش اُٹھا کر سیدھے میوہ شاہ قبرستان چلے گئے تھے۔اسے کفن لپیٹ کر دفن کر دیا۔اس کی میّت کو غسل بغدادی والے حاجی ملو نے دیا تھا۔
حاجی ملو بغیر سر کی نعش دیکھ کر حیران رہ گیا تھا۔اس نے ہم سے پوچھا تھا کہ، ’’ یہ شخص کون ہے اور اس کا سر کہاں ہے؟‘‘
میرے خالہ زاد کدو نے اسے بتایا تھا،’’ حاجی!یہ محرم علی کی لاش ہے،تم تو اسے اچھی طرح جانتے ہو نا!‘‘
حاجی ملو گھبرا گیا تھا۔اس نے لوٹے سے لاش پہ پانی ڈالتے ہوئے ہاتھ روک لیا تھا۔چند گھڑیاں غور سے محرم علی کو دیکھا تھا اور پھر کلمہ پڑھ کر اپنے سینے پر پھونک مارتے ہوئے بولا تھا، ’’ محرم علی کو خوب جانتا ہوں لیکن سر کے بغیر کسی کو پہچاننا مشکل ہے۔‘‘
حاجی ملو کی باتیں سن کر مَیں بھی شک میں پڑ گیا تھا۔مَیں نے یہ غور نہیں کیا تھا کہ محرم علی کی گردن منکے سے کٹی تھی یا ہنسلی کے پاس سے۔تب تک مجھے اس بات سے کوئی سروکار نہ تھا،کوئی مطلب نہ تھا،معانی تھے تو صرف محرم علی کی کٹی ہوئی گردن میں تھے۔ورنہ سب کچھ بے معنی تھا،سب کچھ بے مطلب تھا۔
مَیں حاجی ملوکے پاس اکڑوں بیٹھ گیا تھا۔محرم علی کی بنا گردن لاش تختے پر رکھی ہوئی تھی اور حاجی ملو اسے غسل دے رہا تھا۔وہ انتہائی پیار،دُکھ اورصدمے کی کیفیت میں محرم علی کے سرد جسم پر ہاتھ پھیر رہا تھا۔وہ وقفے وقفے سے ٹھنڈی سانس لے کر آنسو پی رہا تھا۔کج بحث،سرکش اور ضدی ہونے کے باوجود محرم علی ،اسے اچھا لگتا تھا۔محرم علی کچھ عرصہ اس کا شاگرد بھی رہا تھا۔ایک بار جب سبق پڑھنے سے پہلے محرم علی مسجد سے بھاگ نکلا تھا ۔تب اس نے عام شاگردوں کی طرح محرم علی کو ڈنڈا ڈولی کراکے بید کے ڈنڈے سے پٹائی نہیں کی تھی۔اس نے محرم علی کے لیے دُعا کی تھی۔وہ دن اور آج کا دن محرم علی پھر کبھی پڑھنے نہ گیا،لیکن حاجی ملو کو ہمیشہ یاد رہا۔وہ محرم علی کو بغدادی محمڈن فٹ بال کلب کی طرف سے کھیلتا دیکھ کر خوش ہوتا تھا۔محرم علی جب بھی گول کرتا تو حاجی ملو اسے دُعائیں دیا کرتا۔اِک بار سماج کے کسی مصلح نے حاجی ملو کو محرم علی کی ہسٹری شیٹ بتاتے ہوئے کہا تھا ،’’ حاجی! یہ محرم علی کافر ہو گیا ہے۔نہ روزے رکھتا ہے نہ نماز پڑھتا ہے!‘‘
حاجی ملو نے اس سماج کے خیر خواہ سے کہا تھا ، ہم ٹھہرے انسان،اِک دوجے کے اندر جھانک کر نہیں دیکھ سکتے۔یہ کام اللہ پاک کا ہے۔‘‘
لیکن سماج کے خیر خواہ باز نہ آئے ۔گوشہ نشینی کے باوجودسماج کے خیر خواہ محرم علی کے پیچھے پڑے رہے۔بالآخر اسے مقتل تک پہنچا کر دم لیا۔اس کی گردن تن سے جدا کرا ڈالی۔
غسل دینے کے بعد حاجی ملو،محرم علی کے سرہانے کھڑا ہو گیا تھا۔اگرچہ محرم علی کی گردن کو دھڑ سے جدا ہوئے تین چار گھنٹے گزر چکے تھے،لیکن پھر بھی اس کے کٹے ہوئے نرخرے اور رگوں سے خون ٹپک رہا تھا۔حاجی ملو نے کہا،’’ مَیں سمجھتا ہوںیہ لاش محرم علی کی ہے۔سر کے بغیر بھی مَیں نے اسے پہچان لیا ہے۔‘‘
گیلے ہوجانے کی وجہ سے محرم علی کے سینے کے بال گچھا ہو گئے تھے۔محرم علی نے ایک بار اپنے سینے کا اکلوتا سفید بال دکھاتے ہوئے مجھ سے کہا تھا، ’’ پیغمبری چالیس سال کے بعد ملتی ہے۔مَیں چالیس سال کا ہو گیا ہوں۔یہ سفید بال میری پیغمبری کی نشانی ہے۔مَیں خاموشی کا پیغمبر ہوں۔‘‘
اس وقت چہار سو روشنی تھی۔اندھیرا نہیں تھا۔ فضائی حملے اور موت سے بچنے کی خاطرہم نے زندگی پر تاریکی کی چادر نہیں چڑھائی تھی۔تب ہم نے محرم علی کی بات کو اہمیت نہیں دی تھی۔ہماری ساری توجہ سورج پر مرکوز تھی،جو دھرتی سے الگ ہو رہا تھا۔پہاڑوں پر چڑھائی کرکے ،چوٹیاں سر کر کے،ہم نے سورج کے جلتے ہوئے گولے کو بانہوں میں بھر لیا تھا۔جسم نشانوں سے سج گئے تھے۔بازو داغوں اور زخموں سے روشن ہو گئے تھے۔
اور اسی روز ہماری ماؤں نے ہمارے ماتھوں پہ بوسے دے کر ہمیں طویل عمر کی دعائیں دی تھیں۔تب سورج ہماری گرفت سے نکل گیا تھا۔بازوؤں کا حصار توڑ کر چلا گیا تھا۔دھرتی سے دور ہو گیا تھا اور پھر آسمان کی بلندیوں کو چھوتا ہوا،انگارے کی مانند دکھائی دیتاہوا،آسمان کے تاریک جنگل میں گم ہو گیا تھا۔پھر ہر طرف ظلمت،افراتفری اور اندھیرے کا آسیب پھیل گیا۔انسانوں کے دلوں میں فضائی حملے کا خوف گھر کرگیا تھا۔
ہنستے،روتے،بولتے اور سوچتے بچے مر گئے۔کائنات کا دستور بدل گیا۔ماؤں نے اندھے،گونگے،بہرے اور کند ذہن بچوں کو جنم دیا۔روشنی کرو!روشنی کرو! آسمانی گنبدوں سے آوازیں آتی رہیں۔روشنی کرو! مشعلوں کو خون کے تیل سے تازہ کرو! روشنی کرو! اے ماؤں سوچوں کو جنم دو! اے ماؤں سماعتوں کو جنم دو! روشنی کرو!
روشنی ہوئی تھی،مگر کچھ دیر کے لیے ۔ لمحہ بھر کے لیے اور پھر عالم غیب سے صورہ اسرافیل کی آواز آئی۔لوگوں نے کہا ،روشنیاں گل کرو۔زندگی موت کی آنکھ میں ہے۔اندھیرا کرو!مشعلوں کی لاٹیں ریت میں دبا د و! خلیل جبران کو شیلفوں سے ہٹا کر دلوں میں محفوظ کر لو ! ہوائی حملے کا سائرن بجا ہے۔بتیاں بجھا دو! تاریکی کرو! اندھیرے میں زندہ رہنے کے جتن کرو!
ہم سب رشتے دار،دوست،احباب اور یاربیلی تاریکی میں زندہ رہنے پہ رضامند ہو گئے تھے۔ہم چچا زاد،خالہ زاد،ماموں زاد اور پھوپھی زاد اندھیرے میں زندہ رہنے کا چلن سیکھ چکے تھے۔تاریکی میں ٹھوکریں،ٹُھڈے اور دھکے کھاتے ہوئے ہاتھوں ،پیروں کے ناخن کھنچوا،تڑوا بیٹھے تھے اور زندہ بچ رہے تھے۔
لیکن محرم علی اندھیرے میں جی نہیں پایا تھا۔وہ مرگیا ،لیکن اپنی مرضی سے نہیں۔اس کی موت کا دن اور وقت آسمانوں،زمینوں اور کائنات کے خدا نے مقرر نہیں کیا تھا۔اس کی موت کی گھڑی کا تعین دھرتی کے جابر خداؤں نے کیا تھا۔انھوں نے ہمیں پیشگی اطلاع نامہ بھجوا دیا تھاکہ فلاں روزکو فلاں وقت پر محرم علی کی گردن دھڑ سے الگ کر دی جائے گی۔ تم لوگ بروقت مقتل سے محرم علی کی لاش وصول کر لینا۔
ماموں کو محرم علی سے بہت لگاؤ تھا۔مَیں نے جب ماموں کو بتایا کہ محرم علی خاموش پیغمبری کا دعویٰ کرتا ہے اور اس نے چپ سادھ لی ہے۔تب ماموں نے کہا تھا، ’’ مَیں محرم علی کے دعوے کا مفہوم سمجھ سکتا ہوں۔اسے خلیل جبران جیسی پیغمبری ودیعت ہوئی ہے۔وہ خلیل جبران کی طرح کسی میری ہیسکل سے لازوال محبت کرے گا اور اٹھتالیس برس کی عمر میں مر جائے گا۔‘‘
جب دھرتی کے خداؤں نے محرم علی کی موت کی گھڑی مقرر کر ڈالی،تو ماموں نے کہا تھاکہ دھرتی کے خداؤں کے لیے آسمان کے خدا نے اپنی الہامی کتابوں میں لکھ دیا ہے ، ’’ مَیں نے ان کے دلوں پر آہنی پردے چڑھا دیے ہیں اور مَیں نے انھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہدایت سے محروم کر دیا ہے۔‘‘
مقررہ روز مَیں نے ماموں سے کہا، ’’ماموں! آج محرم علی کی گردن جسم سے جدا کر کے لاش ہمارے حوالے کر دیں گے۔کیا تم مقتل تک چلو گے؟ ہم ایمبولنس کا بندوبست کر لیں گے۔‘‘
’’ مَیں کئی بار مقتل جا چکا ہوں اور بہت دفعہ مقتل سے واپس بھی آیا ہوں۔‘‘ماموں نے کہا، ’’ مَیں فالج کا مریض ہوں،چل نہیں سکوں گا۔تم،عزیز و اقارب،دوست احباب اور یار سنگی ساتھیوں کے ساتھ مقتل تک جاؤ اور محرم علی کی میّت وصول کر کے میوہ شاہ قبرستان میں دفنا آؤ۔‘‘
ہم محرم علی کی بنا گردن لاش میوہ شاہ قبرستان میں دفنا کر لوٹ آئے تھے اور تاریکی کے قلعوں میں محفوظ ہو کر بیٹھ رہے تھے۔نہ جانے کیوں ماموں کو محرم علی کی گردن کی فکر کھائے جا رہی تھی۔اس کے لیے اتنا کافی نہ تھا کہ ہم نے گردن کے بغیر محرم علی کی شناخت کر لی تھی۔وہ وقفے وقفے سے تصدیق کرنا چاہ رہا تھا کہ محرم علی کی گردن ہنسلی ہڈ سے کاٹی گئی تھی یا منکے سے!
ماموں نے کہا، ’’ مَیں سمجھتاہوں کہ محرم علی کی گردن ہنسلی سے کٹی ہو گی۔کیوں کہ محرم علی کی گردن اکثر سوچتے ہوئے جھکی رہتی تھی۔‘‘
مَیں نے کہا، ’’ مَیں اس کی کٹی ہوئی گردن کی طرف دیکھ نہیں سکا تھا۔‘‘
ماموں نے کہا، ’’ سوچ رکھنے والے اورسرکش کی گردن تن سے جدا ہونا برحق ہے۔سوچ رکھنے والے کی گردن ہنسلی سے اور سرکش کی گردن منکے سے کٹ جاتی ہے۔محرم علی سوچا کرتا تھا،اس کی گردن ہنسلی سے کٹی ہو گی۔‘‘
ماموں گہری سانس لے کر خاموش ہو گیا۔
کسی نے پوچھا، ’’ زندگی سے فضائی حملے کا خطرہ ٹل چکا ہے یا ابھی باقی ہے؟‘‘
جواب آیا، ’’ تاریکی بدستور رکھو،روشنی مت کرو۔زندگی کو موت سے محفوظ رکھنے کے لیے مشعلوں کے جلتے سرے ریت میں دبا ڈالو۔‘‘
اندھیرے میں ہم سوال پوچھنے والے کی شکل دیکھ سکے تھے نہ ہی جواب دینے والے کا چہرہ دیکھ پائے تھے۔
پھر کتنی ہی دیر تک تاریکی میں کوئی نہ بولا۔گونگوں،اندھوں،بہروں اور کند ذہنوں کی نئی نسل اندھیرے میں ہی کھیلتی رہی۔
مَیں نے ماموں کو پکارا۔
مَیں اس کی چارپائی کی پٹی پر بیٹھ گیا
ماموں نے پوچھا، ’’ ناز کو بتا دیا ہے کہ محرم علی مر گیا ہے؟‘‘
مَیں نے کہا، ’’ نہیں۔‘‘
اس نے پوچھا، ’’ کسی اور نے بتایا ہے؟‘‘
مَیں نے کہا، ’’ ہاں بتا تو دیا ہے لیکن اسے یقین نہیں آیا ہے۔‘‘
ماموں نے کہا، ’’ جاکر تم خودبتا کر آؤ۔بتانا کہ محرم علی سوچتا تھا،اس لیے اس کی گردن ہنسلی ہڈ سے کٹ گئی ہے۔‘‘
مَیں نے ماموں سے پوچھا، ’’ کیا ناز کے شوہر کو پتا ہے کہ ناز محرم علی سے محبت کرتی ہے؟‘‘
ماموں تھوڑا سا ہنسا، ’’ اس بارے میں مرد کی چھٹی حس کمپیوٹر سے کہیں زیادہ رفتار اور یقین کے ساتھ کام کرتی ہے۔‘‘
مَیں ماموں کی چارپائی سے اُٹھ گیا اور دیوار سے ٹیک لگا کر فرش پر بیٹھ گیا۔پھر کافی دیر تک ممنوع محبتوں کے بارے میں سوچتا رہا۔مائیکل اینجلو کی اولاد سے پیار کیا جا سکتا ہے۔ مائیکل اینجلو کی مصوری سے محبت کی جا سکتی ہے۔مائیکل اینجلو کی مجسمہ سازی کوچاہا جا سکتا ہے۔ خود مائیکل اینجلو سے محبت کی جا سکتی ہے۔لیکن مائیکل اینجلو کی بیوی سے پیار نہیں کیا جا سکتا! سوہنی دُنیا کی واحد بیاہتا عورت ہے ،جو اپنے خاوندکو سوتا چھوڑ کر میھار سے ملنے جاتی تھی۔لیکن وہ آج تک بدنام نہیں ہوئی۔اس میں سوہنی اور میھار کی محبت کا کوئی کمال نہیں ہے۔اس میں سارا کمال شاہ عبداللطیف بھٹائی اور سچّل سرمست کا ہے۔
تھوڑی دیر بعد کسی نے مجھے بتایا کہ ناز آئی تھی اورمیرا پوچھ رہی تھی۔مَیں فرش سے اُٹھ کر اندھیرے میں ٹھوکریں کھاتا ہوا،کتابوں کی الماری کے پاس جا کھڑا ہوا۔مَیں جس الماری کے پاس کھڑا تھا،مَیں نے اسے چھو کر دیکھا۔قطار میں یہ پہلی الماری تھی۔یہ الماری ہم سب کے لیے سب سے زیادہ مقدس کتب سے بھری ہوئی تھی۔وہاں کھڑے ہو کر مَیں نے ناز سے بلند آواز میں گفت گو کی۔
مَیں نے کہا، ’’ ناز کتابوں کی وہ الماری،جس میں خلیل جبران کی ’پیغمبر‘ رکھی ہوئی ہے۔مَیں اس الماری کے ساتھ کھڑا ہوں۔
ناز ٹھوکر کھاتی ہوئی،الماری کے پاس آگئی۔اس نے پوچھا،’’ محرم علی کب آئے گا؟‘‘
مجھے تعجب ہوا۔مَیں نے کہا، ’’ محرم علی کو ہم میوہ شاہ قبرستان چھوڑ آئے ہیں۔اسے بغدادی والے حاجی ملو نے غسل دیا تھا۔‘‘
ناز نے پوچھا،’’ یقین ہے کہ بنا سر کی جولاش دفنا کر آئے ہو،وہ میّت محرم علی کی ہی تھی؟‘‘
مَیں بوکھلا گیا، لیکن بولا، ’’ ناز! مَیں سمجھتا ہوں کہ وہ لاش محرم علی کی ہی تھی۔‘‘
ناز نے کہا، ’’ تو پھر محرم علی ضرور لوٹ آئے گا۔‘‘
مجھے بہت دُکھ ہوا ۔مَیں نے محبت میں بد حواسی کی باتیں کرتے ہوئے پہلے کسی کو نہیں دیکھا تھا۔ناز سراسر پاگل پن جیسی باتیں کر رہی تھی۔میوہ شاہ قبرستان سے محرم علی کی واپسی قطعی ناممکن تھی۔
ناز نے کہا، ’’ دیکھنا! محرم علی ضرور واپس آئے گا۔‘‘
مَیں نے ناز سے کہا، ’’ ماموں کَہ رہا تھا کہ محرم علی تم سے ایسی محبت کرتا تھا، جیسی خلیل جبران نے میری ہیسکل سے کی تھی۔‘‘
’’ مجھے پتا ہے اور مَیں یہ بھی جانتی ہوں کہ محرم علی لوٹ آئے گا۔‘‘
مجھے ناز کی حالت پر رنج ہوا۔وہ محبت کے صدمے میں اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھی تھی۔مجھے برٹرینڈرسل کی بات یاد آگئی۔اس نے ایک بار کہا تھا، ’’ کم یا زیادہ،ہم سب کچھ کچھ پاگل ضرور ہوتے ہیں۔
ناز چلی گئی۔
مَیں برآمدے میں جا کے فرش پر لیٹ گیا۔سامنے چارپائی پہ ماموں پہلو کے بل لیٹا ہوا تھا اور حقے سے کش لے رہا تھا۔پھر نصف شب کے قریب آسمان سے آب شار پھوٹ پڑی،گویا نیاگرا کی آب شار ہو۔اس رات اتنی بارش برسی کہ کسی نے زندگی میں پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔یوں لگتا تھا جیسے تربیلا ڈیم کا بند ٹوٹ گیا ہو۔ہریالی کا دریا تھا،جو دھرتی کی بجائے آکاش سے بَہ نکلا تھا۔گھن گرج کے ساتھ آسمانی بجلی ایسی تجلی دے رہی تھی کہ دھرتی کا داغ داغ روشن ہو گیا تھا۔ہم نے دھرتی کے سینے پر اتنے تازہ،روشن اور زندہ داغ کبھی نہیں دیکھے تھے۔ دھرتی کی بوڑھی پیشانی پر اتنے زخم پہلے کبھی دکھائی نہیں دیے تھے۔تاریخ کے سارے گھاؤ آسمان سے برستے پانی سے دُھل کر اُجلے اور چمک دار ہو گئے تھے۔
بجلی کی چمک اور بادلوں کی گڑگڑاہٹ سے بیرونی دروازہ ہلا تو ماموں نے اُونچی آواز میں پوچھا، ’’ کون ہے؟‘‘
کسی نے جواب دیا، ’’ بجلی اور بادلوں کی گھن گرج سے دروازہ ہلا ہے۔ایسی برسات میں کسی کو کتے نے کاٹا ہے کہ آئے گا!
ہاں ٹھیک کہتے ہو۔‘‘ ماموں نے کہا، ’’ "لیکن مَیں سمجھتا ہوں کہ باہر دروازے پہ کوئی آیا ہے۔ " شاید مقتل سے کوئی آیا ہے،محرم علی کی گردن لوٹانے!
ماموں کا دل رکھنے کی خاطر کسی نے اُٹھ کر بیرونی دروازہ کھولا۔باہر کوئی بھی نہیں تھا۔اس نے اُونچی آواز میں پوچھا ، ’’ کون ہے؟‘‘ کوئی جواب نہ ملا تو اس نے دروازہ بند کر دیا۔وہ واپس پلٹ آیا اور بولا،
"باہر کوئی نہیں ہے۔"
آسمان سے آب شارگرتی رہی،بجلی چمکتی رہی،بادل گرجتے رہے۔بیرونی دروازے کو یوں جنبش ہوئی کہ ہم سب چونک پڑے۔ایسا لگا جیسے کسی نے پٹ پہ ہاتھ مارا ہو۔
ماموں نے کہا، ’’ میرا خیال ہے باہر ضرور کوئی آیا ہے۔‘‘
’’ ماموں!باہر کوئی بھی نہیں ہے۔‘‘ کسی نے کہا، ’’ آنکھوں کی طرح کبھی کبھی کان بھی دھوکا کھا جاتے ہیں۔‘‘
’’ نہیں ، نہیں، باہر کوئی ضرور ہے۔‘‘ماموں نے کہا، ’’ مَیں سمجھتا ہوں کہ مقتل سے محرم علی کا قلم کیا ہوا سرلے کر آئے ہیں۔‘‘
اندھیرے میں کوئی پھر اُٹھا،بیرونی دروازے تک پہنچا۔اس نے دروازہ کھولنے کے بعد،گردن باہر نکال کر گھپ اندھیرے میں باآوازِبلند پوچھا، ’’ یار کون ہے! ہمارے رشتے داروں، ماموں زادوں، چچا زادوں،پھوپھی زادوں یا دوستوں میں سے کوئی باہر تو نہیں رہ گیا ہے"!
کوئی جواب نہ ملا۔بجلی خاموشی کو نقب لگاتی رہی۔بادل سکوت کا کلیجا چیرتے رہے۔اس نے بیرونی دروازہ بند کر دیا۔واپس آکر اپنی جگہ پر بیٹھتے ہوئے بولا، " کوئی بھی نہیں "ہے۔
پھر کافی دیر تک کسی نے بات نہ کی۔مِینہ مسلسل برستا رہااوردھرتی کی پیاس مٹاتا رہا،بجلی کڑکتی رہی۔ذہن کے غاروں کو روشن کرتی رہی۔دفعتاً بڑا کھڑاک ہوا۔یوں محسوس ہوا جیسے آسمان ڈھے پڑا ہے یا کوئی پہاڑ زمین کے سینے پر اُتر آیا ہے یا کہیں کوئی آتش فشاں پھٹ گیا ہے! اتنے میں بیرونی دروازہ واضح طور پر کھٹکا۔مَیں اُٹھ کر بیٹھ گیا،بیرونی دروازہ برآمدے سے دُور نہیں تھا،محض چند قدم کے فاصلے پر تھا۔مَیں جا کر دروازے کے پاس کھڑا ہو گیا اور کائنات کی رنجش کی آوازیں سنتا رہا۔
دروازہ دوبارہ کھٹکا۔سرگوشیوں کی آواز آئی۔
مَیں نے کنڈی کھول دی۔
بیرونی دروازہ ہم نے پہلے بھی کھولا تھا۔مگر اس گھڑی بیرونی دروازہ کھولتے ہوئے مَیں نے محسوس کیا کہ جیسے تاریخ کا غیر تحریری باب کھل گیا ہو۔
مَیں تاریکی اور بارش میں باہر نکل کر کھڑا ہو گیا۔اچانک بجلی چمکی۔مَیں نے اپنے سامنے سفید چادر میں لپٹے ہوئے کسی شخص کا سایہ دیکھا۔مَیں نے حیرت کے ساتھ پوچھا، ’’ "کون ہو؟
یک دم ہر آواز بند ہو گئی۔اس شخص کی آواز سنائی دی۔وہ بولا، " مَیں محرم علی ہوں۔‘‘
مَیں نے تاریخ کے کھلے ہوئے باب سے نگاہیں ہٹا کر رشتے داروں اور دوستوں سے کہا، "محرم علی لوٹ آیا ہے۔‘‘
------------------
دیدبان شمارہ ۔ ۷
(سندھی کہانیوں کے ترجمے)
عاشق اور شہید لوٹ آتے ہیں
تخلیق : امر جلیل
ترجمہ: شاہد حنائی
ہم نے محرم علی کا بنا سر کا دھڑ دفنا دیا۔میوہ شاہ قبرستان سے لوٹتے ہوئے راستے میں سورج غروب ہو گیا۔گھرپہنچے تو وہاں گھپ اندھیرا تھا۔بتی جلانے کی اجازت نہیں تھی۔کسی بھی وقت حملہ ہونے کا خدشہ تھا۔موت آسمان سے دھرتی کی طرف دیکھ رہی تھی۔ہم دھرتی کے باسی،ہوائی حملوں سے بچاؤ کی خاطر تاریکی کے بند قلعے تعمیر کر کے بیٹھ رہے تھے۔جیون اندھیرے کے سپرد کر ڈالا تھا۔گھروں اور دروازوں کے باہر قبر نما خندقیں کھود رکھی تھیں۔کبھی شاد تو کبھی پشیمان تھے کہ زندہ تھے اور اندھیرے میں مزید جینے کے جتن کر رہے تھے۔
ہم محرم علی کے رشتے دار،چچا زاد،خالہ زاد اور سنگی ساتھی محرم علی کے گھر پہنچے اور تاریکی میں جذب ہو گئے۔تاریکی رہ گئی ہمارے وجود معدوم ہو گئے۔
میرا بوڑھا ماموں،جو کہ گزشتہ بیس برس سے فالج کا شکار پڑا ہے اور اُٹھنے بیٹھنے سے قاصر ہے۔اس نے پوچھا، ’’ بیٹا ! یقین ہے کہ سر کے بغیر دھڑ محرم علی کا ہی تھا۔کسی دوسرے شخص کا تو نہیں تھا؟‘‘
کچھ دیر تک ماموں کو اپنے سوال کا جواب نہ ملا۔یوں محسوس ہوتا تھا جیسے اندھیرے نے ہمارے جسموں کے ساتھ ساتھ ہماری آوازیں بھی نگل لی تھیں۔مَیں نے اپنے رشتہ داروں،چچا زادوں اورسنگی ساتھیوں کو دیکھنے کی کوشش کی ،لیکن تاریکی میں انھیں دیکھ نہ پایا۔جب کافی ساعتیں گزر گئیں اور ماموں کو اپنے سوال کا جواب نہ ملا تو اس نے دوبارہ پوچھا، ’’ ارے بیٹا! تسلی تو ہے نا کہ میوہ شاہ قبرستان میں محرم علی ہی کی لاش دفنا کر آئے ہو۔محرم علی کی بجائے کسی دوسرے آدمی کی لاش تو دفن نہیں کر آئے ہو؟‘‘
تب مَیں نے کہا، ’’ ماموں! مَیں سمجھتا ہوں ، وہ لاش محرم علی کی ہی تھی۔‘‘
ماموں نے فوراً پوچھا، ’’ تم تو اسے پہچانتے ہو نا؟‘‘
مَیں اُلجھ گیا،ہچکچاتے ہوئے بولا،’’ میراخیال ہے مَیں نے اسے شناخت کر لیا تھا۔‘‘
ماموں نے ٹھنڈی سانس لی اور کہا، ’’ سر کے بنا کسی کو شناخت کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے بیٹا۔‘‘
مَیں نے ماموں کا دل رکھنے کی خاطر ،اسے یقین دلایا،’’ مَیں نے محرم علی کو سر کے بغیر بھی پہچان لیا تھا،ماموں!‘‘
ماموں نے زیرلب کچھ کہا۔مَیں نے ا س کے الفاظ سن تو لیے لیکن ان الفاظ کا مفہوم سمجھ نہ پایا۔دراصل ماموں خود کلامی کر رہا تھا،مجھے کچھ نہیں کَہ رہا تھا۔ماموں جب مجھ سے یا کسی اور سے بات کرتا ہے تو وہ اُونچی آوازمیں واضح طور سے بات کرتا ہے۔پھر ماموں نے بلند آواز میں وضاحت کے ساتھ پوچھا،’’ بیٹا! گردن منکے سے کاٹی تھی یا ہنسلی کی ہڈی سے؟‘‘
مَیں نے بدن میں سنسنی سی محسوس کی۔واقعی ہم میں سے کسی نے بھی اس طرف دھیان نہیں دیا تھا۔انھوں نے مقتل میں محرم علی کا سرتن سے جدا کر کے لاش ہمارے حوالے کر دی تھی۔قانون کے مطابق انھوں نے محرم علی کی گردن ہمیں نہیں دی تھی۔ہم نے بھی تو محرم علی کی کٹی ہوئی گردن کا تقاضا نہیں کیا تھا۔سب کچھ خاموشی کے ساتھ جلد بازی میں ہو گیا تھا۔
دن چھوٹے تھے۔پھر ہوائی حملے کا خوف بھی تھا۔ہم محرم علی کی لاش لے کر گھر نہیں آئے تھے۔ہم مقتل سے محرم علی کی لاش اُٹھا کر سیدھے میوہ شاہ قبرستان چلے گئے تھے۔اسے کفن لپیٹ کر دفن کر دیا۔اس کی میّت کو غسل بغدادی والے حاجی ملو نے دیا تھا۔
حاجی ملو بغیر سر کی نعش دیکھ کر حیران رہ گیا تھا۔اس نے ہم سے پوچھا تھا کہ، ’’ یہ شخص کون ہے اور اس کا سر کہاں ہے؟‘‘
میرے خالہ زاد کدو نے اسے بتایا تھا،’’ حاجی!یہ محرم علی کی لاش ہے،تم تو اسے اچھی طرح جانتے ہو نا!‘‘
حاجی ملو گھبرا گیا تھا۔اس نے لوٹے سے لاش پہ پانی ڈالتے ہوئے ہاتھ روک لیا تھا۔چند گھڑیاں غور سے محرم علی کو دیکھا تھا اور پھر کلمہ پڑھ کر اپنے سینے پر پھونک مارتے ہوئے بولا تھا، ’’ محرم علی کو خوب جانتا ہوں لیکن سر کے بغیر کسی کو پہچاننا مشکل ہے۔‘‘
حاجی ملو کی باتیں سن کر مَیں بھی شک میں پڑ گیا تھا۔مَیں نے یہ غور نہیں کیا تھا کہ محرم علی کی گردن منکے سے کٹی تھی یا ہنسلی کے پاس سے۔تب تک مجھے اس بات سے کوئی سروکار نہ تھا،کوئی مطلب نہ تھا،معانی تھے تو صرف محرم علی کی کٹی ہوئی گردن میں تھے۔ورنہ سب کچھ بے معنی تھا،سب کچھ بے مطلب تھا۔
مَیں حاجی ملوکے پاس اکڑوں بیٹھ گیا تھا۔محرم علی کی بنا گردن لاش تختے پر رکھی ہوئی تھی اور حاجی ملو اسے غسل دے رہا تھا۔وہ انتہائی پیار،دُکھ اورصدمے کی کیفیت میں محرم علی کے سرد جسم پر ہاتھ پھیر رہا تھا۔وہ وقفے وقفے سے ٹھنڈی سانس لے کر آنسو پی رہا تھا۔کج بحث،سرکش اور ضدی ہونے کے باوجود محرم علی ،اسے اچھا لگتا تھا۔محرم علی کچھ عرصہ اس کا شاگرد بھی رہا تھا۔ایک بار جب سبق پڑھنے سے پہلے محرم علی مسجد سے بھاگ نکلا تھا ۔تب اس نے عام شاگردوں کی طرح محرم علی کو ڈنڈا ڈولی کراکے بید کے ڈنڈے سے پٹائی نہیں کی تھی۔اس نے محرم علی کے لیے دُعا کی تھی۔وہ دن اور آج کا دن محرم علی پھر کبھی پڑھنے نہ گیا،لیکن حاجی ملو کو ہمیشہ یاد رہا۔وہ محرم علی کو بغدادی محمڈن فٹ بال کلب کی طرف سے کھیلتا دیکھ کر خوش ہوتا تھا۔محرم علی جب بھی گول کرتا تو حاجی ملو اسے دُعائیں دیا کرتا۔اِک بار سماج کے کسی مصلح نے حاجی ملو کو محرم علی کی ہسٹری شیٹ بتاتے ہوئے کہا تھا ،’’ حاجی! یہ محرم علی کافر ہو گیا ہے۔نہ روزے رکھتا ہے نہ نماز پڑھتا ہے!‘‘
حاجی ملو نے اس سماج کے خیر خواہ سے کہا تھا ، ہم ٹھہرے انسان،اِک دوجے کے اندر جھانک کر نہیں دیکھ سکتے۔یہ کام اللہ پاک کا ہے۔‘‘
لیکن سماج کے خیر خواہ باز نہ آئے ۔گوشہ نشینی کے باوجودسماج کے خیر خواہ محرم علی کے پیچھے پڑے رہے۔بالآخر اسے مقتل تک پہنچا کر دم لیا۔اس کی گردن تن سے جدا کرا ڈالی۔
غسل دینے کے بعد حاجی ملو،محرم علی کے سرہانے کھڑا ہو گیا تھا۔اگرچہ محرم علی کی گردن کو دھڑ سے جدا ہوئے تین چار گھنٹے گزر چکے تھے،لیکن پھر بھی اس کے کٹے ہوئے نرخرے اور رگوں سے خون ٹپک رہا تھا۔حاجی ملو نے کہا،’’ مَیں سمجھتا ہوںیہ لاش محرم علی کی ہے۔سر کے بغیر بھی مَیں نے اسے پہچان لیا ہے۔‘‘
گیلے ہوجانے کی وجہ سے محرم علی کے سینے کے بال گچھا ہو گئے تھے۔محرم علی نے ایک بار اپنے سینے کا اکلوتا سفید بال دکھاتے ہوئے مجھ سے کہا تھا، ’’ پیغمبری چالیس سال کے بعد ملتی ہے۔مَیں چالیس سال کا ہو گیا ہوں۔یہ سفید بال میری پیغمبری کی نشانی ہے۔مَیں خاموشی کا پیغمبر ہوں۔‘‘
اس وقت چہار سو روشنی تھی۔اندھیرا نہیں تھا۔ فضائی حملے اور موت سے بچنے کی خاطرہم نے زندگی پر تاریکی کی چادر نہیں چڑھائی تھی۔تب ہم نے محرم علی کی بات کو اہمیت نہیں دی تھی۔ہماری ساری توجہ سورج پر مرکوز تھی،جو دھرتی سے الگ ہو رہا تھا۔پہاڑوں پر چڑھائی کرکے ،چوٹیاں سر کر کے،ہم نے سورج کے جلتے ہوئے گولے کو بانہوں میں بھر لیا تھا۔جسم نشانوں سے سج گئے تھے۔بازو داغوں اور زخموں سے روشن ہو گئے تھے۔
اور اسی روز ہماری ماؤں نے ہمارے ماتھوں پہ بوسے دے کر ہمیں طویل عمر کی دعائیں دی تھیں۔تب سورج ہماری گرفت سے نکل گیا تھا۔بازوؤں کا حصار توڑ کر چلا گیا تھا۔دھرتی سے دور ہو گیا تھا اور پھر آسمان کی بلندیوں کو چھوتا ہوا،انگارے کی مانند دکھائی دیتاہوا،آسمان کے تاریک جنگل میں گم ہو گیا تھا۔پھر ہر طرف ظلمت،افراتفری اور اندھیرے کا آسیب پھیل گیا۔انسانوں کے دلوں میں فضائی حملے کا خوف گھر کرگیا تھا۔
ہنستے،روتے،بولتے اور سوچتے بچے مر گئے۔کائنات کا دستور بدل گیا۔ماؤں نے اندھے،گونگے،بہرے اور کند ذہن بچوں کو جنم دیا۔روشنی کرو!روشنی کرو! آسمانی گنبدوں سے آوازیں آتی رہیں۔روشنی کرو! مشعلوں کو خون کے تیل سے تازہ کرو! روشنی کرو! اے ماؤں سوچوں کو جنم دو! اے ماؤں سماعتوں کو جنم دو! روشنی کرو!
روشنی ہوئی تھی،مگر کچھ دیر کے لیے ۔ لمحہ بھر کے لیے اور پھر عالم غیب سے صورہ اسرافیل کی آواز آئی۔لوگوں نے کہا ،روشنیاں گل کرو۔زندگی موت کی آنکھ میں ہے۔اندھیرا کرو!مشعلوں کی لاٹیں ریت میں دبا د و! خلیل جبران کو شیلفوں سے ہٹا کر دلوں میں محفوظ کر لو ! ہوائی حملے کا سائرن بجا ہے۔بتیاں بجھا دو! تاریکی کرو! اندھیرے میں زندہ رہنے کے جتن کرو!
ہم سب رشتے دار،دوست،احباب اور یاربیلی تاریکی میں زندہ رہنے پہ رضامند ہو گئے تھے۔ہم چچا زاد،خالہ زاد،ماموں زاد اور پھوپھی زاد اندھیرے میں زندہ رہنے کا چلن سیکھ چکے تھے۔تاریکی میں ٹھوکریں،ٹُھڈے اور دھکے کھاتے ہوئے ہاتھوں ،پیروں کے ناخن کھنچوا،تڑوا بیٹھے تھے اور زندہ بچ رہے تھے۔
لیکن محرم علی اندھیرے میں جی نہیں پایا تھا۔وہ مرگیا ،لیکن اپنی مرضی سے نہیں۔اس کی موت کا دن اور وقت آسمانوں،زمینوں اور کائنات کے خدا نے مقرر نہیں کیا تھا۔اس کی موت کی گھڑی کا تعین دھرتی کے جابر خداؤں نے کیا تھا۔انھوں نے ہمیں پیشگی اطلاع نامہ بھجوا دیا تھاکہ فلاں روزکو فلاں وقت پر محرم علی کی گردن دھڑ سے الگ کر دی جائے گی۔ تم لوگ بروقت مقتل سے محرم علی کی لاش وصول کر لینا۔
ماموں کو محرم علی سے بہت لگاؤ تھا۔مَیں نے جب ماموں کو بتایا کہ محرم علی خاموش پیغمبری کا دعویٰ کرتا ہے اور اس نے چپ سادھ لی ہے۔تب ماموں نے کہا تھا، ’’ مَیں محرم علی کے دعوے کا مفہوم سمجھ سکتا ہوں۔اسے خلیل جبران جیسی پیغمبری ودیعت ہوئی ہے۔وہ خلیل جبران کی طرح کسی میری ہیسکل سے لازوال محبت کرے گا اور اٹھتالیس برس کی عمر میں مر جائے گا۔‘‘
جب دھرتی کے خداؤں نے محرم علی کی موت کی گھڑی مقرر کر ڈالی،تو ماموں نے کہا تھاکہ دھرتی کے خداؤں کے لیے آسمان کے خدا نے اپنی الہامی کتابوں میں لکھ دیا ہے ، ’’ مَیں نے ان کے دلوں پر آہنی پردے چڑھا دیے ہیں اور مَیں نے انھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہدایت سے محروم کر دیا ہے۔‘‘
مقررہ روز مَیں نے ماموں سے کہا، ’’ماموں! آج محرم علی کی گردن جسم سے جدا کر کے لاش ہمارے حوالے کر دیں گے۔کیا تم مقتل تک چلو گے؟ ہم ایمبولنس کا بندوبست کر لیں گے۔‘‘
’’ مَیں کئی بار مقتل جا چکا ہوں اور بہت دفعہ مقتل سے واپس بھی آیا ہوں۔‘‘ماموں نے کہا، ’’ مَیں فالج کا مریض ہوں،چل نہیں سکوں گا۔تم،عزیز و اقارب،دوست احباب اور یار سنگی ساتھیوں کے ساتھ مقتل تک جاؤ اور محرم علی کی میّت وصول کر کے میوہ شاہ قبرستان میں دفنا آؤ۔‘‘
ہم محرم علی کی بنا گردن لاش میوہ شاہ قبرستان میں دفنا کر لوٹ آئے تھے اور تاریکی کے قلعوں میں محفوظ ہو کر بیٹھ رہے تھے۔نہ جانے کیوں ماموں کو محرم علی کی گردن کی فکر کھائے جا رہی تھی۔اس کے لیے اتنا کافی نہ تھا کہ ہم نے گردن کے بغیر محرم علی کی شناخت کر لی تھی۔وہ وقفے وقفے سے تصدیق کرنا چاہ رہا تھا کہ محرم علی کی گردن ہنسلی ہڈ سے کاٹی گئی تھی یا منکے سے!
ماموں نے کہا، ’’ مَیں سمجھتاہوں کہ محرم علی کی گردن ہنسلی سے کٹی ہو گی۔کیوں کہ محرم علی کی گردن اکثر سوچتے ہوئے جھکی رہتی تھی۔‘‘
مَیں نے کہا، ’’ مَیں اس کی کٹی ہوئی گردن کی طرف دیکھ نہیں سکا تھا۔‘‘
ماموں نے کہا، ’’ سوچ رکھنے والے اورسرکش کی گردن تن سے جدا ہونا برحق ہے۔سوچ رکھنے والے کی گردن ہنسلی سے اور سرکش کی گردن منکے سے کٹ جاتی ہے۔محرم علی سوچا کرتا تھا،اس کی گردن ہنسلی سے کٹی ہو گی۔‘‘
ماموں گہری سانس لے کر خاموش ہو گیا۔
کسی نے پوچھا، ’’ زندگی سے فضائی حملے کا خطرہ ٹل چکا ہے یا ابھی باقی ہے؟‘‘
جواب آیا، ’’ تاریکی بدستور رکھو،روشنی مت کرو۔زندگی کو موت سے محفوظ رکھنے کے لیے مشعلوں کے جلتے سرے ریت میں دبا ڈالو۔‘‘
اندھیرے میں ہم سوال پوچھنے والے کی شکل دیکھ سکے تھے نہ ہی جواب دینے والے کا چہرہ دیکھ پائے تھے۔
پھر کتنی ہی دیر تک تاریکی میں کوئی نہ بولا۔گونگوں،اندھوں،بہروں اور کند ذہنوں کی نئی نسل اندھیرے میں ہی کھیلتی رہی۔
مَیں نے ماموں کو پکارا۔
مَیں اس کی چارپائی کی پٹی پر بیٹھ گیا
ماموں نے پوچھا، ’’ ناز کو بتا دیا ہے کہ محرم علی مر گیا ہے؟‘‘
مَیں نے کہا، ’’ نہیں۔‘‘
اس نے پوچھا، ’’ کسی اور نے بتایا ہے؟‘‘
مَیں نے کہا، ’’ ہاں بتا تو دیا ہے لیکن اسے یقین نہیں آیا ہے۔‘‘
ماموں نے کہا، ’’ جاکر تم خودبتا کر آؤ۔بتانا کہ محرم علی سوچتا تھا،اس لیے اس کی گردن ہنسلی ہڈ سے کٹ گئی ہے۔‘‘
مَیں نے ماموں سے پوچھا، ’’ کیا ناز کے شوہر کو پتا ہے کہ ناز محرم علی سے محبت کرتی ہے؟‘‘
ماموں تھوڑا سا ہنسا، ’’ اس بارے میں مرد کی چھٹی حس کمپیوٹر سے کہیں زیادہ رفتار اور یقین کے ساتھ کام کرتی ہے۔‘‘
مَیں ماموں کی چارپائی سے اُٹھ گیا اور دیوار سے ٹیک لگا کر فرش پر بیٹھ گیا۔پھر کافی دیر تک ممنوع محبتوں کے بارے میں سوچتا رہا۔مائیکل اینجلو کی اولاد سے پیار کیا جا سکتا ہے۔ مائیکل اینجلو کی مصوری سے محبت کی جا سکتی ہے۔مائیکل اینجلو کی مجسمہ سازی کوچاہا جا سکتا ہے۔ خود مائیکل اینجلو سے محبت کی جا سکتی ہے۔لیکن مائیکل اینجلو کی بیوی سے پیار نہیں کیا جا سکتا! سوہنی دُنیا کی واحد بیاہتا عورت ہے ،جو اپنے خاوندکو سوتا چھوڑ کر میھار سے ملنے جاتی تھی۔لیکن وہ آج تک بدنام نہیں ہوئی۔اس میں سوہنی اور میھار کی محبت کا کوئی کمال نہیں ہے۔اس میں سارا کمال شاہ عبداللطیف بھٹائی اور سچّل سرمست کا ہے۔
تھوڑی دیر بعد کسی نے مجھے بتایا کہ ناز آئی تھی اورمیرا پوچھ رہی تھی۔مَیں فرش سے اُٹھ کر اندھیرے میں ٹھوکریں کھاتا ہوا،کتابوں کی الماری کے پاس جا کھڑا ہوا۔مَیں جس الماری کے پاس کھڑا تھا،مَیں نے اسے چھو کر دیکھا۔قطار میں یہ پہلی الماری تھی۔یہ الماری ہم سب کے لیے سب سے زیادہ مقدس کتب سے بھری ہوئی تھی۔وہاں کھڑے ہو کر مَیں نے ناز سے بلند آواز میں گفت گو کی۔
مَیں نے کہا، ’’ ناز کتابوں کی وہ الماری،جس میں خلیل جبران کی ’پیغمبر‘ رکھی ہوئی ہے۔مَیں اس الماری کے ساتھ کھڑا ہوں۔
ناز ٹھوکر کھاتی ہوئی،الماری کے پاس آگئی۔اس نے پوچھا،’’ محرم علی کب آئے گا؟‘‘
مجھے تعجب ہوا۔مَیں نے کہا، ’’ محرم علی کو ہم میوہ شاہ قبرستان چھوڑ آئے ہیں۔اسے بغدادی والے حاجی ملو نے غسل دیا تھا۔‘‘
ناز نے پوچھا،’’ یقین ہے کہ بنا سر کی جولاش دفنا کر آئے ہو،وہ میّت محرم علی کی ہی تھی؟‘‘
مَیں بوکھلا گیا، لیکن بولا، ’’ ناز! مَیں سمجھتا ہوں کہ وہ لاش محرم علی کی ہی تھی۔‘‘
ناز نے کہا، ’’ تو پھر محرم علی ضرور لوٹ آئے گا۔‘‘
مجھے بہت دُکھ ہوا ۔مَیں نے محبت میں بد حواسی کی باتیں کرتے ہوئے پہلے کسی کو نہیں دیکھا تھا۔ناز سراسر پاگل پن جیسی باتیں کر رہی تھی۔میوہ شاہ قبرستان سے محرم علی کی واپسی قطعی ناممکن تھی۔
ناز نے کہا، ’’ دیکھنا! محرم علی ضرور واپس آئے گا۔‘‘
مَیں نے ناز سے کہا، ’’ ماموں کَہ رہا تھا کہ محرم علی تم سے ایسی محبت کرتا تھا، جیسی خلیل جبران نے میری ہیسکل سے کی تھی۔‘‘
’’ مجھے پتا ہے اور مَیں یہ بھی جانتی ہوں کہ محرم علی لوٹ آئے گا۔‘‘
مجھے ناز کی حالت پر رنج ہوا۔وہ محبت کے صدمے میں اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھی تھی۔مجھے برٹرینڈرسل کی بات یاد آگئی۔اس نے ایک بار کہا تھا، ’’ کم یا زیادہ،ہم سب کچھ کچھ پاگل ضرور ہوتے ہیں۔
ناز چلی گئی۔
مَیں برآمدے میں جا کے فرش پر لیٹ گیا۔سامنے چارپائی پہ ماموں پہلو کے بل لیٹا ہوا تھا اور حقے سے کش لے رہا تھا۔پھر نصف شب کے قریب آسمان سے آب شار پھوٹ پڑی،گویا نیاگرا کی آب شار ہو۔اس رات اتنی بارش برسی کہ کسی نے زندگی میں پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔یوں لگتا تھا جیسے تربیلا ڈیم کا بند ٹوٹ گیا ہو۔ہریالی کا دریا تھا،جو دھرتی کی بجائے آکاش سے بَہ نکلا تھا۔گھن گرج کے ساتھ آسمانی بجلی ایسی تجلی دے رہی تھی کہ دھرتی کا داغ داغ روشن ہو گیا تھا۔ہم نے دھرتی کے سینے پر اتنے تازہ،روشن اور زندہ داغ کبھی نہیں دیکھے تھے۔ دھرتی کی بوڑھی پیشانی پر اتنے زخم پہلے کبھی دکھائی نہیں دیے تھے۔تاریخ کے سارے گھاؤ آسمان سے برستے پانی سے دُھل کر اُجلے اور چمک دار ہو گئے تھے۔
بجلی کی چمک اور بادلوں کی گڑگڑاہٹ سے بیرونی دروازہ ہلا تو ماموں نے اُونچی آواز میں پوچھا، ’’ کون ہے؟‘‘
کسی نے جواب دیا، ’’ بجلی اور بادلوں کی گھن گرج سے دروازہ ہلا ہے۔ایسی برسات میں کسی کو کتے نے کاٹا ہے کہ آئے گا!
ہاں ٹھیک کہتے ہو۔‘‘ ماموں نے کہا، ’’ "لیکن مَیں سمجھتا ہوں کہ باہر دروازے پہ کوئی آیا ہے۔ " شاید مقتل سے کوئی آیا ہے،محرم علی کی گردن لوٹانے!
ماموں کا دل رکھنے کی خاطر کسی نے اُٹھ کر بیرونی دروازہ کھولا۔باہر کوئی بھی نہیں تھا۔اس نے اُونچی آواز میں پوچھا ، ’’ کون ہے؟‘‘ کوئی جواب نہ ملا تو اس نے دروازہ بند کر دیا۔وہ واپس پلٹ آیا اور بولا،
"باہر کوئی نہیں ہے۔"
آسمان سے آب شارگرتی رہی،بجلی چمکتی رہی،بادل گرجتے رہے۔بیرونی دروازے کو یوں جنبش ہوئی کہ ہم سب چونک پڑے۔ایسا لگا جیسے کسی نے پٹ پہ ہاتھ مارا ہو۔
ماموں نے کہا، ’’ میرا خیال ہے باہر ضرور کوئی آیا ہے۔‘‘
’’ ماموں!باہر کوئی بھی نہیں ہے۔‘‘ کسی نے کہا، ’’ آنکھوں کی طرح کبھی کبھی کان بھی دھوکا کھا جاتے ہیں۔‘‘
’’ نہیں ، نہیں، باہر کوئی ضرور ہے۔‘‘ماموں نے کہا، ’’ مَیں سمجھتا ہوں کہ مقتل سے محرم علی کا قلم کیا ہوا سرلے کر آئے ہیں۔‘‘
اندھیرے میں کوئی پھر اُٹھا،بیرونی دروازے تک پہنچا۔اس نے دروازہ کھولنے کے بعد،گردن باہر نکال کر گھپ اندھیرے میں باآوازِبلند پوچھا، ’’ یار کون ہے! ہمارے رشتے داروں، ماموں زادوں، چچا زادوں،پھوپھی زادوں یا دوستوں میں سے کوئی باہر تو نہیں رہ گیا ہے"!
کوئی جواب نہ ملا۔بجلی خاموشی کو نقب لگاتی رہی۔بادل سکوت کا کلیجا چیرتے رہے۔اس نے بیرونی دروازہ بند کر دیا۔واپس آکر اپنی جگہ پر بیٹھتے ہوئے بولا، " کوئی بھی نہیں "ہے۔
پھر کافی دیر تک کسی نے بات نہ کی۔مِینہ مسلسل برستا رہااوردھرتی کی پیاس مٹاتا رہا،بجلی کڑکتی رہی۔ذہن کے غاروں کو روشن کرتی رہی۔دفعتاً بڑا کھڑاک ہوا۔یوں محسوس ہوا جیسے آسمان ڈھے پڑا ہے یا کوئی پہاڑ زمین کے سینے پر اُتر آیا ہے یا کہیں کوئی آتش فشاں پھٹ گیا ہے! اتنے میں بیرونی دروازہ واضح طور پر کھٹکا۔مَیں اُٹھ کر بیٹھ گیا،بیرونی دروازہ برآمدے سے دُور نہیں تھا،محض چند قدم کے فاصلے پر تھا۔مَیں جا کر دروازے کے پاس کھڑا ہو گیا اور کائنات کی رنجش کی آوازیں سنتا رہا۔
دروازہ دوبارہ کھٹکا۔سرگوشیوں کی آواز آئی۔
مَیں نے کنڈی کھول دی۔
بیرونی دروازہ ہم نے پہلے بھی کھولا تھا۔مگر اس گھڑی بیرونی دروازہ کھولتے ہوئے مَیں نے محسوس کیا کہ جیسے تاریخ کا غیر تحریری باب کھل گیا ہو۔
مَیں تاریکی اور بارش میں باہر نکل کر کھڑا ہو گیا۔اچانک بجلی چمکی۔مَیں نے اپنے سامنے سفید چادر میں لپٹے ہوئے کسی شخص کا سایہ دیکھا۔مَیں نے حیرت کے ساتھ پوچھا، ’’ "کون ہو؟
یک دم ہر آواز بند ہو گئی۔اس شخص کی آواز سنائی دی۔وہ بولا، " مَیں محرم علی ہوں۔‘‘
مَیں نے تاریخ کے کھلے ہوئے باب سے نگاہیں ہٹا کر رشتے داروں اور دوستوں سے کہا، "محرم علی لوٹ آیا ہے۔‘‘
------------------