عشق کے چالیس اصول قسط 5
عشق کے چالیس اصول قسط 5
May 1, 2020
عشق کے چالیس اصول
قسط 5
82 to 85
شاگرد
بغداد ستمبر 29 1243
جب سے میں یہاں آیا تھا ایک ہی بات میرے کانوں کا روگ بنی ہوئی تھی کہ درویش بننا کوئی سہل کام نہیں لیکن شاید سب مجھے یہ بتانا بھول گئے تھے کہ اس کیلئے مجھے ’’جہنم ‘‘ سے گزرناپڑے گا۔جب سے میں اس درسگا کا حصہ بنا تھا اس وقت سے میرے ساتھ جانوروں کا سلوک روا رکھا گیا تھا،میں صبح سے شام تک کسی گدھے کی طرح کام کررہاہوں۔بعض اوقات میں پورا دن اتنی مشقت کرتا ہوںکہ جب رات کو سونے کے لئے لیٹتا تو مجھ سے درد کے مارے سویا بھی نہیںجاتا، میرا پورا بدن درد کے مارے بدحال ہوتاہے ، ساتھ میں پاؤں کی درد جان لے لیتی ہے ۔اسی درد کے باعث میری نیند کہیں ہوا کے جھونکے کی مانند اڑ جاتی ۔
یوں میری کئی راتیں بے خوابی کے عالم میں گزر جاتی ہیں۔۔ اور کسی کو خبر تک نہ ہوتی ۔ اگر کسی کو میری اس حالت کا گمان گزرتابھی ہوگا تو وہ مجھ سے کبھی میرا حال پوچھنے نہیںآئے گا۔۔ کوئی بھی تو نہیں تھا جو میری ہمدردی کو آئے ۔دوسری طرف میں تھاجو اپنی طرف سے پوری دلجوئی اور محنت کے ساتھ کام میں جتا رہتا۔۔ مگر جتنی تگ ودو کرتا اتنا ہی جینا تنگ ہو جا تا ،جتنا میں لگن سے کام کرتا اتنے ہی حالات مشکل ہو جاتے ۔
یہاں پر تو لوگ میرے نام تک سے بھی واقف نہیں ہیں ۔۔وہ مجھے’’ نیاشاگرد‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ پیچھے سے یقیناوہ مجھے’’ لال بالوں والا یا احمق‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہونگے ۔یہاں کا سب سے کٹھن کام یہاں کے باورچی کے ساتھ کام کرنا ہے ۔۔ اس آدمی کے سینے میں دل کی جگہ پتھر ہے ۔ اسے اس درسگاہ کے بجائے منگولوں کی فوج کا حصہ ہونا چاہیے تھا جہاں پر اسے ایک خصوصی عہدے سے نوازا جاتا جس کا نام ’’ خون کا پیاسا جنگجو‘‘ ہوتا ۔میں نے کبھی اس انسان کو مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا ۔۔ مسکرانا تو شاید بہت آگے کی بات ہے اس کو تو میں نے کسی سے سیدھے منہ بات بھی نہیں کرتے دیکھا۔ مجھے یہ جاننے کا بہت تجسس تھا کہ کیا سب کو میری ہی طرح درویش بننے کیلئے باورچی خانے میں اس طرح دن رات صرف کرنے پڑے ہیں۔ اسی لئے میں نے ایک بزرگ درویش سے دریافت کیا توانہوں نے ایک معنی خیز مسکراہٹ سے جواب دیا کہ نہیں ۔۔ ’’سب کو نہیں صرف چند کو ‘‘ اس کی بات سے مجھے اپنا مقام کسی حد تک واضح ہو گیا تھا۔ کہیں ایسا تو نہیں اس درسگاہ کے سربراہ مجھے دوسروں کے مقابلے کچھ زیادہ حد سے زیادہ بگڑا ہوا سمجھتے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ انہوں میری نفسانی خواہشات دوسروں کے مقابلے میں زیادہ لگتی ہیں ۔ شاید اسی لئے میں دوسروں کے مقابلے میں زیادہ کٹھن مراحل سے گزر رہاہوں ۔۔شاید اسی لئے میرے صبح شام اجیرن ہوئے تھے ۔
میںمنہ اندھیرے ہی کاموں میں جت جاتا ہوں ، مجھے یقین ہے اس وقت درسگاہ کے درویشوں کے فرشتے بھی نہ جاگے ہوں گے ۔صبح سویرے میراپہلا کام قریبی ندی سے پانی لانا ہوتا ہے، بعد ازاں مجھے کم از کم پچاس لوگوں کا کھانا بنا نا ہوتا تھا ۔ جس میں سب سے پہلے میں روٹیاں بناتا ہوں اور بعد میں ناشتے کیلئے سوپ بنا نا بھی میر ی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ہاں ایک بات ۔۔ جن برتنوں میں کھانا پکاتا ہوں ان کا حجم بھی قابل غور ہے۔یہ دیگیں حجم میں نہانے والی طشتریوں کے برابر تھیں۔ان دیگوں کو کون اللہ کا بندہ دھوتا ہوگا؟ جی ۔ کو ئی اور نہیں بلکہ میں ہی دھوتا ہوں۔
صبح سے شام تک ایک لمحہ بھی فارغ نہیں رہتا ہوں ، میرے ذمے کاموں کی ایک طویل فہرست ہے، جن میں مختلف جگہوںکی صفائی و ستھرائی ،سیڑھیوںاور صحن کی صفائی ،لکڑیاں کاٹنا شامل تھا۔ اس کے علاوہ میںگھٹنوںکے بل بیٹھ کر پرانے لکڑی کے دستر خوان صاف کرتا ہوں۔ نہ صرف یہ بلکہ میں مربے اور چٹنی بھی بناتاہوں ، ساتھ میں گاجرکا اچار اورجوس بنا نا بھی میری ہی ذمے داری ہے۔اگر ان کو بنانے میں ذرا سی کوتاہی سرزد ہو جاتی یا پھرمصالحوں کے باعث ان کے ذائقوںمیں ذرا سی اونچ نیچ ہوجاتی ہے تو وہ تما م رکابیاںتوڑ دیا کرتا دیتا ہے اور مجھے ساری محنت دوبارہ سے کرنی پڑتی ہے۔
سب سے بڑھ کر ان سب کاموں کے دوران مجھے عربی میں دعائوں کا باواز بلند ورد بھی کرنا ہوتا تھا ۔ باورچی مجھے دعائیں پڑھنے کے دوران کبھی بھی آواز ہلکی نہ کرنے دیتا کیونکہ اس کی پوری کوشش ہوتی کہ میں ذرا سی غلطی کرنے پر بھی پکڑا جاؤں اور میری خوب ڈانٹ ڈپٹ ہو۔’’کام ، کام ، کام اور ساتھ میں دعائیں پڑھنا ‘‘ اب میری زندگی اسی چیز کے گرد گھومتی ہے ۔
وہ ظالم باورچی مجھے ہمہ وقت ایک ہی بات سناتا ہے کہ جتنی تم مشقت کرو گے اتنی ہی جلدی تم ایک سنجیدہ انسان بنوگے میرے بچے، کیونکہ اس سے تمہاری روح دہکتی ہے ، کیونکہ ہر چیز کو گلانے کیلئے گرمی کی شدت کی ضرورت ہوتی ہے ۔میں ایک دن اس مشقت سے تنگ آکر بول پڑا کہ ’’آخر میری اس آزمائش کی زندگی کب تک ہے؟‘‘
’’ایک ہزار ایک دن‘‘اس نے کر خت لہجے میں جواب دیا۔اگر’’ شہرزاد ‘‘اپنے خاوند کو بدلنے ایک ہزا ر ایک رات کہانی سنا سکتی ہے ، ہر روز ایک نئی کہانی بنا سکتی ہے ،تو پھرتم کیوں نہیں کرسکتے ہو؟
یہ تو محض ایک احمقانہ سی بات ہے ، بھلا میرا اس شہر زادسے کیا مقابلہ؟ وہ توملکہ تھی جس کے پاس دنیا کی ہر آسائش تھی ، مخملی تکیوں اور بستر پر نیم درازہوکر رنگ برنگی داستانیں سنانا آخر کون شی مشکل بات ہے؟یوں تو وہ ایک ہزار ایک کے بجائے دوہزار دنوں تک بھی داستان سنائے تو کوئی بڑی اور انوکھی بات نہیں ہے ۔میں یہ بات شرط لگا کر کہہ سکتا ہوں کہ اگر وہ میرے ذمے تمام کاموں کو ایک ہفتے بھی کرتی ، بلکہ یوں کہیں کہ میرے ذمے تمام کاموں کا آدھا بھی ایک ہفتے میں کرتی توجان سے جاتی ۔کوئی میرے مشقت کے دنوں کو شمار کرے یا نہ ، تاہم مجھے ضرور یاد ہے کہ میری محنت کو ابھی 624 دن مزید باقی ہیں۔میرے شروعات کے دن تو ایک کڑے امتحان سے عبارت تھے ۔
ان دنوں مجھے ایک تنگ وتاریخ کوٹھڑی میں رکھا گیا جہاں پر میں آرام دہ تو دور کی بات سیدھا بھی کھڑا نہیں ہوسکتا تھا۔۔ نہ تو لیٹ سکتا تھا ۔۔بلکہ میں ادھر ہمہ وقت گھٹنوں کے بل بیٹھارہتا تھا،نہ کھا سکتا تھا نہ پی سکتا تھا۔وہاں پر آرام سکون کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی تھی ۔ان دنوں کی داستان نہایت بھیانک تھی ۔ مجھ سے ان دنوں یہ امید رکھی جاتی تھی کہ میں ذرا سی بھی ایسی حرکت نہ کروں جس میں میرے نفس کو سکون ملے ۔یہاںتک کہ مجھے نیند میں رنگ برنگے خواب دیکھنے سے بھی منع کیا گیا تھا ۔ یہ بھلا کہاں کا انصاف تھا۔
جب میرا وہ ابتدائی و آزمائشی دور اختتام پزیر ہوا تو مجھے اس ظالم باورچی کے پاس محنت و مشقت کیلئے بھیج دیا گیا۔ یا یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مجھے اس کے آگے ظلم و ستم کے لئے ڈال دیا گیا۔وہ وقت گیا اور آج کادن، میں متواتر اذیت کا شکار ہوتا آرہا ہوں۔۔ میری زندگی سے سکون نام کی شے خارج ہوچکی ہے ۔ میںصرف اور صرف اس کے اصولوں کی پیروری کرتا ۔۔اس کے قائم کردہ اصولوں سے باہر نکلنے کا تو میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ تاہم جس شام شمس تبریزی ہماری خانقاہ تشریف لائے اس دن میں نے پہلی مرتبہ ان اصولوں کو توڑنے کی جسارت کی تھی ۔جب اس نے مجھے پکڑا اس دن اس نے مجھے اپنی پوری قوت سے مارا۔ اس نے دو تین چھڑیاں مجھے مار مار کر توڑڈالی تھیں۔اس کے بعد اس نے وہ کیا جس کی توقع میں کم از کم اس دن نہیں کررہاتھا۔۔ اس نے میرے جوتے میرے کمرے کی دہلیز پر رکھ دیے ،اس نے انہیں سیدھے رخ رکھا تھا۔ یہ اس درسگاہ سے نکالے جانے کا نہایت مہذب اشارہ تھا۔اس درسگاہ میں جب بھی کسی کو الوداع کہنا ہوتا تو اسے کبھی براہ راست نہیں کہا جاتا تھا بلکہ اس کے جوتے کمرے کی دہلیز پر سیدھے رکھ دیے جاتے تھے، جوتے پہنے اور نکلو اور مڑ کر دیکھنے کی غلطی نہ کرنا۔ میری اچھی خاصی درگت بنانے کے بعد وہ باورچی بولا’’ اس دنیا میں کسی بھی انسان کو اس کی مرضی کے بنا تبدیل نہیں کیا جاسکتا ‘‘ ہم تمہیں تمہاری مرضی کے بنادرویش بنانے سے قاصر ہیں۔جیسا کہ ایک گدھے کو پانی کے کنویں کے پاس تو لے جایا جاسکتا ہے تاہم اسے پانی پینے پر کسی صورت مجبور نہیں کیا جا سکتا ۔پانی پینے کی جستجو تو گدھے کے اندر جنم لینی چاہیے ورنہ کوئی بھی کچھ نہیں کرسکتا ہے۔ یوں اس نے مجھے ایک ’’گدھے ‘‘ سے تشبیہ دے کر مجھے میری ہی نظروں میں گرا دیااور میں ہکا بکا اسے دیکھتا رہ گیا۔ تاہم وہ جگہ میں نے نہیں چھوڑی ۔کسی ایک چیز نے میرے پیروں میں بیڑیاں ڈال دی تھیں ۔۔ وہ شے تھی ’’شمس تبریزی کی ذات کے متعلق جستجو‘‘ وہ کون تھا کیا تھا میں یہ جاننے کیلئے بے حد بے تاب تھا، یہی وجہ تھی کہ میں اس جگہ رہا۔
میں نے اس جیسے انسان کو اپنی زندگی میں کبھی بھی نہیں دیکھا تھا ۔ وہ کسی سے نہیں ڈرتا تھا۔۔نہ ہی اسے کس کے بنائے گئے اصولوں کی پیروی کرنے کی ضرورت تھی ۔یہاں تک کہ باورچی جیسا بد خو آدمی بھی اس کی عزت کرتا تھا۔اس میں ایک سحر تھا۔۔ وہ بے نیاز تھا ۔۔ اس کے کردار میں ایک عجیب سی شے تھی جو ہر ایک کا دل موہ لینے کی صلاحیت رکھتی تھی ۔وہ ہمارے بزرگ سربراہ کی طرح کوئی عاجز انسان نہیں تھا۔۔میرے لئے شمس تبریزی نامی انسان ایک مثالی شخصیت تھی۔ اسے دیکھنے کے بعد میں نے ٹھان لی تھی کہ میں کوئی عام سا درویش نہیں بنوں گا۔۔ میں بالکل شمس کی مانند بنوں گا۔۔ ایک سورچ ۔۔ چمکتا دہکتا صورت جو کسی سے نہیں ڈرتا۔۔جو بے خوف ہے ۔۔۔ جو لاپرواہ ہے جو کچھ چھن جانے سے نہیں ڈرتا ۔۔ جو تقدیر کے پھر جانے سے نہیں ڈرتا۔۔ میری خواہش تھی کہ ایک دن بالکل ویسا درویش بنوں ۔۔ مجھے کامل یقین تھا کہ میں اگر کچھ ہی دنوں اس کی معیت میں رہوں تو میں کچھ ہی دنوں میں باغی درویش بن جاؤں گا۔۔
خزاں کے دنوں میں مجھے معلوم پڑا کہ شمس وہ درس گاہ چھوڑ کر جارہے ہیں ،اس دن تو میرے پیرے تلے زمین ہی نکل گئی ۔اس دن میں نے ٹھان لی کہ چاہے کچھ بھی ہو میں شمس کے ہمراہ جاؤں گا۔میں نے اس بات متعلق سوچنے کی بہت کوشش کی ۔۔ میرے دل و دماغ اس وقت ایک ہی ڈگر پر چل رہے تھے۔۔ مجھے ان دونوں کے یک طرفہ فیصلے سے یہی بات سمجھ آئی کے مجھے شمس کے ساتھ جانا چاہیے ۔میں نے اس لئے بابا زمان سے بات کرنے کیلئے اپنے اندر ہمت بیدا کی۔
جب میں یہ بات کرنے کیلئے بابا زمان کے پاس گیا تو جیسے اسے میرا آنا ناگوار گزرا تھا۔ انہوں نے نہایت بیزاری سے مجھے دیکھ کر کہا کہ کیابات ہے بیٹا؟مجھے اس لمحے یہ محسوس ہو رہاتھا کہ گویا وہ تھکاوٹ کا شکار ہو گیا۔ میںنے ہمت کرکے آخر وہ کہہ ڈالا جو میں کہنا چاہتا تھا۔ ’’میں نے سنا ہے کہ شمس تبریزی یہ جگہ چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں ،میں بھی چاہتا ہوں کہ ان کے ساتھ کے سفر کا شریک بنوں ۔یوں تو انہیں بھی اس سفر میں کسی ساتھ کی ضرورت ہوگی ‘‘
یہ سن کر بابا زمان نے مجھے فوراً جواب دیا۔۔ کیا چاہتے ہو لڑکے۔۔تم اس جگہ سے دور جانا چاہتے ہو۔۔تم باورچی سے دور جانا چاہتے ہو؟تم جانتے ہو ابھی تمہای تربیت کا دور باقی ہے ۔ درویش بننے کے لئے کئی آزمائیشیں تمھاری منتظر ہیں۔تمہارے دوریش بننے میں ابھی بہت سا وقت باقی ہے۔
اس بات کے جواب میں جو میں کہنے جارہا تھا بلاشبہ وہ بہت سخت الفاظ تھے ، مگر میں نے وہ بھی کہہ ڈالے ۔شمس جیسے انسان کے ساتھ جانا بھی تو کسی امتحان سے کم نہیں ۔
یہ سن کر انہوں نے اپنی گردن جھکا لی، جیسے کسی گہری سوچ میں مبتلا ہوگئے ہو ںاور خاموشی اختیار کیے رکھی ۔کتنی دیر تک وہ خاموش رہے مجھے یہی فکر کھاتی رہی کہ کہیں وہ مجھے اس جسارت کے لئے کہیں سزا نہ دے دیں ۔ کہیں وہ مجھے اس باورچی کے ہاتھوں مار نہ پروائیں ۔ یہ سوچتے ہوئے میری آنکھوں میں اندھرا سا چھانے لگا۔کچھ دیر بعد انہوں نے سر اٹھایا اور اپنے سر کو دائیں بائیں مایوسی کے عالم میں حرکت دی۔
میری توقعات کے برعکس وہ نہایت محبت سے میرے ساتھ گویا ہوئے ، تاہم ان کے الفاظ میں میرے لئے چھپی نا امیدی واضح تھی۔۔ میرے بیٹے تم اس درسگاہ کے لئے پیدا نہیں ہوئے ۔ تمہاری عادات اور اس جگہ کا کوئی میل ملاپ نہیں ہے ۔یہ یکسر ایک مختلف جگہ ہے ،یہ تو وہ جگہ ہے جہاںہر سات شاگردوں میں سے ایک تپتا ہے اور کندن بن کر نکلتا ہے ۔میری مانو تو بیٹا تم درویش بننے کے لائق نہیں ہو ۔۔تم اپنی قسمت کسی اور جگہ آزماؤ۔میری دعا ہے اور مجھے امید بھی کہ تم کہیں اور کامیابی حاصل کرو۔ہاں جہاں تک شمس کی ہمرا ہی میں اس کے ساتھ سفر پر جانے کا تعلق ہے تم اس کے خود ہی بات کرلو ۔۔
یہ کہنے کے بعد انہوں نے مزید کوئی بات نہیںکی۔ اپنی طرف وہ موضو ع ختم کرچکے تھے ۔ تاہم ایک بات واضح تھی کہ ان کی ہر ادامیں نرمی اور پیار چھپا ہوا تھا۔
اس لمحے یوں تو میں نے اپنے آپ کو اداس اور کمتر محسوس کیا ۔تاہم پھر بھی پتا نہیں کیوں نہیں اس وقت اپنے آپ کو آزاد محسوس کررہاتھا،اب مجھے لگی تمام بیڑیاں ٹوٹ چکی تھیں۔
عشق کے چالیس اصول
قسط 5
82 to 85
شاگرد
بغداد ستمبر 29 1243
جب سے میں یہاں آیا تھا ایک ہی بات میرے کانوں کا روگ بنی ہوئی تھی کہ درویش بننا کوئی سہل کام نہیں لیکن شاید سب مجھے یہ بتانا بھول گئے تھے کہ اس کیلئے مجھے ’’جہنم ‘‘ سے گزرناپڑے گا۔جب سے میں اس درسگا کا حصہ بنا تھا اس وقت سے میرے ساتھ جانوروں کا سلوک روا رکھا گیا تھا،میں صبح سے شام تک کسی گدھے کی طرح کام کررہاہوں۔بعض اوقات میں پورا دن اتنی مشقت کرتا ہوںکہ جب رات کو سونے کے لئے لیٹتا تو مجھ سے درد کے مارے سویا بھی نہیںجاتا، میرا پورا بدن درد کے مارے بدحال ہوتاہے ، ساتھ میں پاؤں کی درد جان لے لیتی ہے ۔اسی درد کے باعث میری نیند کہیں ہوا کے جھونکے کی مانند اڑ جاتی ۔
یوں میری کئی راتیں بے خوابی کے عالم میں گزر جاتی ہیں۔۔ اور کسی کو خبر تک نہ ہوتی ۔ اگر کسی کو میری اس حالت کا گمان گزرتابھی ہوگا تو وہ مجھ سے کبھی میرا حال پوچھنے نہیںآئے گا۔۔ کوئی بھی تو نہیں تھا جو میری ہمدردی کو آئے ۔دوسری طرف میں تھاجو اپنی طرف سے پوری دلجوئی اور محنت کے ساتھ کام میں جتا رہتا۔۔ مگر جتنی تگ ودو کرتا اتنا ہی جینا تنگ ہو جا تا ،جتنا میں لگن سے کام کرتا اتنے ہی حالات مشکل ہو جاتے ۔
یہاں پر تو لوگ میرے نام تک سے بھی واقف نہیں ہیں ۔۔وہ مجھے’’ نیاشاگرد‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ پیچھے سے یقیناوہ مجھے’’ لال بالوں والا یا احمق‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہونگے ۔یہاں کا سب سے کٹھن کام یہاں کے باورچی کے ساتھ کام کرنا ہے ۔۔ اس آدمی کے سینے میں دل کی جگہ پتھر ہے ۔ اسے اس درسگاہ کے بجائے منگولوں کی فوج کا حصہ ہونا چاہیے تھا جہاں پر اسے ایک خصوصی عہدے سے نوازا جاتا جس کا نام ’’ خون کا پیاسا جنگجو‘‘ ہوتا ۔میں نے کبھی اس انسان کو مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا ۔۔ مسکرانا تو شاید بہت آگے کی بات ہے اس کو تو میں نے کسی سے سیدھے منہ بات بھی نہیں کرتے دیکھا۔ مجھے یہ جاننے کا بہت تجسس تھا کہ کیا سب کو میری ہی طرح درویش بننے کیلئے باورچی خانے میں اس طرح دن رات صرف کرنے پڑے ہیں۔ اسی لئے میں نے ایک بزرگ درویش سے دریافت کیا توانہوں نے ایک معنی خیز مسکراہٹ سے جواب دیا کہ نہیں ۔۔ ’’سب کو نہیں صرف چند کو ‘‘ اس کی بات سے مجھے اپنا مقام کسی حد تک واضح ہو گیا تھا۔ کہیں ایسا تو نہیں اس درسگاہ کے سربراہ مجھے دوسروں کے مقابلے کچھ زیادہ حد سے زیادہ بگڑا ہوا سمجھتے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ انہوں میری نفسانی خواہشات دوسروں کے مقابلے میں زیادہ لگتی ہیں ۔ شاید اسی لئے میں دوسروں کے مقابلے میں زیادہ کٹھن مراحل سے گزر رہاہوں ۔۔شاید اسی لئے میرے صبح شام اجیرن ہوئے تھے ۔
میںمنہ اندھیرے ہی کاموں میں جت جاتا ہوں ، مجھے یقین ہے اس وقت درسگاہ کے درویشوں کے فرشتے بھی نہ جاگے ہوں گے ۔صبح سویرے میراپہلا کام قریبی ندی سے پانی لانا ہوتا ہے، بعد ازاں مجھے کم از کم پچاس لوگوں کا کھانا بنا نا ہوتا تھا ۔ جس میں سب سے پہلے میں روٹیاں بناتا ہوں اور بعد میں ناشتے کیلئے سوپ بنا نا بھی میر ی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ہاں ایک بات ۔۔ جن برتنوں میں کھانا پکاتا ہوں ان کا حجم بھی قابل غور ہے۔یہ دیگیں حجم میں نہانے والی طشتریوں کے برابر تھیں۔ان دیگوں کو کون اللہ کا بندہ دھوتا ہوگا؟ جی ۔ کو ئی اور نہیں بلکہ میں ہی دھوتا ہوں۔
صبح سے شام تک ایک لمحہ بھی فارغ نہیں رہتا ہوں ، میرے ذمے کاموں کی ایک طویل فہرست ہے، جن میں مختلف جگہوںکی صفائی و ستھرائی ،سیڑھیوںاور صحن کی صفائی ،لکڑیاں کاٹنا شامل تھا۔ اس کے علاوہ میںگھٹنوںکے بل بیٹھ کر پرانے لکڑی کے دستر خوان صاف کرتا ہوں۔ نہ صرف یہ بلکہ میں مربے اور چٹنی بھی بناتاہوں ، ساتھ میں گاجرکا اچار اورجوس بنا نا بھی میری ہی ذمے داری ہے۔اگر ان کو بنانے میں ذرا سی کوتاہی سرزد ہو جاتی یا پھرمصالحوں کے باعث ان کے ذائقوںمیں ذرا سی اونچ نیچ ہوجاتی ہے تو وہ تما م رکابیاںتوڑ دیا کرتا دیتا ہے اور مجھے ساری محنت دوبارہ سے کرنی پڑتی ہے۔
سب سے بڑھ کر ان سب کاموں کے دوران مجھے عربی میں دعائوں کا باواز بلند ورد بھی کرنا ہوتا تھا ۔ باورچی مجھے دعائیں پڑھنے کے دوران کبھی بھی آواز ہلکی نہ کرنے دیتا کیونکہ اس کی پوری کوشش ہوتی کہ میں ذرا سی غلطی کرنے پر بھی پکڑا جاؤں اور میری خوب ڈانٹ ڈپٹ ہو۔’’کام ، کام ، کام اور ساتھ میں دعائیں پڑھنا ‘‘ اب میری زندگی اسی چیز کے گرد گھومتی ہے ۔
وہ ظالم باورچی مجھے ہمہ وقت ایک ہی بات سناتا ہے کہ جتنی تم مشقت کرو گے اتنی ہی جلدی تم ایک سنجیدہ انسان بنوگے میرے بچے، کیونکہ اس سے تمہاری روح دہکتی ہے ، کیونکہ ہر چیز کو گلانے کیلئے گرمی کی شدت کی ضرورت ہوتی ہے ۔میں ایک دن اس مشقت سے تنگ آکر بول پڑا کہ ’’آخر میری اس آزمائش کی زندگی کب تک ہے؟‘‘
’’ایک ہزار ایک دن‘‘اس نے کر خت لہجے میں جواب دیا۔اگر’’ شہرزاد ‘‘اپنے خاوند کو بدلنے ایک ہزا ر ایک رات کہانی سنا سکتی ہے ، ہر روز ایک نئی کہانی بنا سکتی ہے ،تو پھرتم کیوں نہیں کرسکتے ہو؟
یہ تو محض ایک احمقانہ سی بات ہے ، بھلا میرا اس شہر زادسے کیا مقابلہ؟ وہ توملکہ تھی جس کے پاس دنیا کی ہر آسائش تھی ، مخملی تکیوں اور بستر پر نیم درازہوکر رنگ برنگی داستانیں سنانا آخر کون شی مشکل بات ہے؟یوں تو وہ ایک ہزار ایک کے بجائے دوہزار دنوں تک بھی داستان سنائے تو کوئی بڑی اور انوکھی بات نہیں ہے ۔میں یہ بات شرط لگا کر کہہ سکتا ہوں کہ اگر وہ میرے ذمے تمام کاموں کو ایک ہفتے بھی کرتی ، بلکہ یوں کہیں کہ میرے ذمے تمام کاموں کا آدھا بھی ایک ہفتے میں کرتی توجان سے جاتی ۔کوئی میرے مشقت کے دنوں کو شمار کرے یا نہ ، تاہم مجھے ضرور یاد ہے کہ میری محنت کو ابھی 624 دن مزید باقی ہیں۔میرے شروعات کے دن تو ایک کڑے امتحان سے عبارت تھے ۔
ان دنوں مجھے ایک تنگ وتاریخ کوٹھڑی میں رکھا گیا جہاں پر میں آرام دہ تو دور کی بات سیدھا بھی کھڑا نہیں ہوسکتا تھا۔۔ نہ تو لیٹ سکتا تھا ۔۔بلکہ میں ادھر ہمہ وقت گھٹنوں کے بل بیٹھارہتا تھا،نہ کھا سکتا تھا نہ پی سکتا تھا۔وہاں پر آرام سکون کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی تھی ۔ان دنوں کی داستان نہایت بھیانک تھی ۔ مجھ سے ان دنوں یہ امید رکھی جاتی تھی کہ میں ذرا سی بھی ایسی حرکت نہ کروں جس میں میرے نفس کو سکون ملے ۔یہاںتک کہ مجھے نیند میں رنگ برنگے خواب دیکھنے سے بھی منع کیا گیا تھا ۔ یہ بھلا کہاں کا انصاف تھا۔
جب میرا وہ ابتدائی و آزمائشی دور اختتام پزیر ہوا تو مجھے اس ظالم باورچی کے پاس محنت و مشقت کیلئے بھیج دیا گیا۔ یا یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مجھے اس کے آگے ظلم و ستم کے لئے ڈال دیا گیا۔وہ وقت گیا اور آج کادن، میں متواتر اذیت کا شکار ہوتا آرہا ہوں۔۔ میری زندگی سے سکون نام کی شے خارج ہوچکی ہے ۔ میںصرف اور صرف اس کے اصولوں کی پیروری کرتا ۔۔اس کے قائم کردہ اصولوں سے باہر نکلنے کا تو میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ تاہم جس شام شمس تبریزی ہماری خانقاہ تشریف لائے اس دن میں نے پہلی مرتبہ ان اصولوں کو توڑنے کی جسارت کی تھی ۔جب اس نے مجھے پکڑا اس دن اس نے مجھے اپنی پوری قوت سے مارا۔ اس نے دو تین چھڑیاں مجھے مار مار کر توڑڈالی تھیں۔اس کے بعد اس نے وہ کیا جس کی توقع میں کم از کم اس دن نہیں کررہاتھا۔۔ اس نے میرے جوتے میرے کمرے کی دہلیز پر رکھ دیے ،اس نے انہیں سیدھے رخ رکھا تھا۔ یہ اس درسگاہ سے نکالے جانے کا نہایت مہذب اشارہ تھا۔اس درسگاہ میں جب بھی کسی کو الوداع کہنا ہوتا تو اسے کبھی براہ راست نہیں کہا جاتا تھا بلکہ اس کے جوتے کمرے کی دہلیز پر سیدھے رکھ دیے جاتے تھے، جوتے پہنے اور نکلو اور مڑ کر دیکھنے کی غلطی نہ کرنا۔ میری اچھی خاصی درگت بنانے کے بعد وہ باورچی بولا’’ اس دنیا میں کسی بھی انسان کو اس کی مرضی کے بنا تبدیل نہیں کیا جاسکتا ‘‘ ہم تمہیں تمہاری مرضی کے بنادرویش بنانے سے قاصر ہیں۔جیسا کہ ایک گدھے کو پانی کے کنویں کے پاس تو لے جایا جاسکتا ہے تاہم اسے پانی پینے پر کسی صورت مجبور نہیں کیا جا سکتا ۔پانی پینے کی جستجو تو گدھے کے اندر جنم لینی چاہیے ورنہ کوئی بھی کچھ نہیں کرسکتا ہے۔ یوں اس نے مجھے ایک ’’گدھے ‘‘ سے تشبیہ دے کر مجھے میری ہی نظروں میں گرا دیااور میں ہکا بکا اسے دیکھتا رہ گیا۔ تاہم وہ جگہ میں نے نہیں چھوڑی ۔کسی ایک چیز نے میرے پیروں میں بیڑیاں ڈال دی تھیں ۔۔ وہ شے تھی ’’شمس تبریزی کی ذات کے متعلق جستجو‘‘ وہ کون تھا کیا تھا میں یہ جاننے کیلئے بے حد بے تاب تھا، یہی وجہ تھی کہ میں اس جگہ رہا۔
میں نے اس جیسے انسان کو اپنی زندگی میں کبھی بھی نہیں دیکھا تھا ۔ وہ کسی سے نہیں ڈرتا تھا۔۔نہ ہی اسے کس کے بنائے گئے اصولوں کی پیروی کرنے کی ضرورت تھی ۔یہاں تک کہ باورچی جیسا بد خو آدمی بھی اس کی عزت کرتا تھا۔اس میں ایک سحر تھا۔۔ وہ بے نیاز تھا ۔۔ اس کے کردار میں ایک عجیب سی شے تھی جو ہر ایک کا دل موہ لینے کی صلاحیت رکھتی تھی ۔وہ ہمارے بزرگ سربراہ کی طرح کوئی عاجز انسان نہیں تھا۔۔میرے لئے شمس تبریزی نامی انسان ایک مثالی شخصیت تھی۔ اسے دیکھنے کے بعد میں نے ٹھان لی تھی کہ میں کوئی عام سا درویش نہیں بنوں گا۔۔ میں بالکل شمس کی مانند بنوں گا۔۔ ایک سورچ ۔۔ چمکتا دہکتا صورت جو کسی سے نہیں ڈرتا۔۔جو بے خوف ہے ۔۔۔ جو لاپرواہ ہے جو کچھ چھن جانے سے نہیں ڈرتا ۔۔ جو تقدیر کے پھر جانے سے نہیں ڈرتا۔۔ میری خواہش تھی کہ ایک دن بالکل ویسا درویش بنوں ۔۔ مجھے کامل یقین تھا کہ میں اگر کچھ ہی دنوں اس کی معیت میں رہوں تو میں کچھ ہی دنوں میں باغی درویش بن جاؤں گا۔۔
خزاں کے دنوں میں مجھے معلوم پڑا کہ شمس وہ درس گاہ چھوڑ کر جارہے ہیں ،اس دن تو میرے پیرے تلے زمین ہی نکل گئی ۔اس دن میں نے ٹھان لی کہ چاہے کچھ بھی ہو میں شمس کے ہمراہ جاؤں گا۔میں نے اس بات متعلق سوچنے کی بہت کوشش کی ۔۔ میرے دل و دماغ اس وقت ایک ہی ڈگر پر چل رہے تھے۔۔ مجھے ان دونوں کے یک طرفہ فیصلے سے یہی بات سمجھ آئی کے مجھے شمس کے ساتھ جانا چاہیے ۔میں نے اس لئے بابا زمان سے بات کرنے کیلئے اپنے اندر ہمت بیدا کی۔
جب میں یہ بات کرنے کیلئے بابا زمان کے پاس گیا تو جیسے اسے میرا آنا ناگوار گزرا تھا۔ انہوں نے نہایت بیزاری سے مجھے دیکھ کر کہا کہ کیابات ہے بیٹا؟مجھے اس لمحے یہ محسوس ہو رہاتھا کہ گویا وہ تھکاوٹ کا شکار ہو گیا۔ میںنے ہمت کرکے آخر وہ کہہ ڈالا جو میں کہنا چاہتا تھا۔ ’’میں نے سنا ہے کہ شمس تبریزی یہ جگہ چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں ،میں بھی چاہتا ہوں کہ ان کے ساتھ کے سفر کا شریک بنوں ۔یوں تو انہیں بھی اس سفر میں کسی ساتھ کی ضرورت ہوگی ‘‘
یہ سن کر بابا زمان نے مجھے فوراً جواب دیا۔۔ کیا چاہتے ہو لڑکے۔۔تم اس جگہ سے دور جانا چاہتے ہو۔۔تم باورچی سے دور جانا چاہتے ہو؟تم جانتے ہو ابھی تمہای تربیت کا دور باقی ہے ۔ درویش بننے کے لئے کئی آزمائیشیں تمھاری منتظر ہیں۔تمہارے دوریش بننے میں ابھی بہت سا وقت باقی ہے۔
اس بات کے جواب میں جو میں کہنے جارہا تھا بلاشبہ وہ بہت سخت الفاظ تھے ، مگر میں نے وہ بھی کہہ ڈالے ۔شمس جیسے انسان کے ساتھ جانا بھی تو کسی امتحان سے کم نہیں ۔
یہ سن کر انہوں نے اپنی گردن جھکا لی، جیسے کسی گہری سوچ میں مبتلا ہوگئے ہو ںاور خاموشی اختیار کیے رکھی ۔کتنی دیر تک وہ خاموش رہے مجھے یہی فکر کھاتی رہی کہ کہیں وہ مجھے اس جسارت کے لئے کہیں سزا نہ دے دیں ۔ کہیں وہ مجھے اس باورچی کے ہاتھوں مار نہ پروائیں ۔ یہ سوچتے ہوئے میری آنکھوں میں اندھرا سا چھانے لگا۔کچھ دیر بعد انہوں نے سر اٹھایا اور اپنے سر کو دائیں بائیں مایوسی کے عالم میں حرکت دی۔
میری توقعات کے برعکس وہ نہایت محبت سے میرے ساتھ گویا ہوئے ، تاہم ان کے الفاظ میں میرے لئے چھپی نا امیدی واضح تھی۔۔ میرے بیٹے تم اس درسگاہ کے لئے پیدا نہیں ہوئے ۔ تمہاری عادات اور اس جگہ کا کوئی میل ملاپ نہیں ہے ۔یہ یکسر ایک مختلف جگہ ہے ،یہ تو وہ جگہ ہے جہاںہر سات شاگردوں میں سے ایک تپتا ہے اور کندن بن کر نکلتا ہے ۔میری مانو تو بیٹا تم درویش بننے کے لائق نہیں ہو ۔۔تم اپنی قسمت کسی اور جگہ آزماؤ۔میری دعا ہے اور مجھے امید بھی کہ تم کہیں اور کامیابی حاصل کرو۔ہاں جہاں تک شمس کی ہمرا ہی میں اس کے ساتھ سفر پر جانے کا تعلق ہے تم اس کے خود ہی بات کرلو ۔۔
یہ کہنے کے بعد انہوں نے مزید کوئی بات نہیںکی۔ اپنی طرف وہ موضو ع ختم کرچکے تھے ۔ تاہم ایک بات واضح تھی کہ ان کی ہر ادامیں نرمی اور پیار چھپا ہوا تھا۔
اس لمحے یوں تو میں نے اپنے آپ کو اداس اور کمتر محسوس کیا ۔تاہم پھر بھی پتا نہیں کیوں نہیں اس وقت اپنے آپ کو آزاد محسوس کررہاتھا،اب مجھے لگی تمام بیڑیاں ٹوٹ چکی تھیں۔