عامر عبداللہ کی دو نظمیں
عامر عبداللہ کی دو نظمیں
Sep 11, 2023
دیدبان شمارہ ۔ ۱۹
عامر عبداللہ کی دو نظمیں
"ہم اٹھائے جائیں گے"
کھینچے لیے جاتا ہے خسارہ ہمیں
پھر سےاس گلی کی جانب
کیوں پکارا جاتا ہے ہمیں بار بار
جب راندہ درگاہ قرار دیے جا چکے
ا ب سینے میں ایک اور دکھ کی گنجائش نہیں بنائی جا سکتی
ہم جو اس طرف ہیں
ہاں اسی طرف
جہاں محبت اور ہمارے درمیان مسافت
کوسوں سے قرنوں تک پھیل چکی
لوٹنے کا ارادہ بھی کیسے باندھیں
جھیل کنارے بیٹھی لڑکی کے دکھ کا قضیہ
راج ہنس کی عدالت میں پیش کیا جا چکا ہے
اور ایک مرد کا دکھ
ایک آنکھ والا عفریت ہے
جو اس کا سینہ چاٹتے چاٹتے تھکتا نہیں
ایک آنسو ہے جو بدن کی اوک میں پڑا ہے
ان ہونٹوں کے انتظار میں
جن پر پیاس کی مہر لگ چکی
راج ہنس کا فیصلہ
پرندے کے پروں پر تحریر کیا جائے گا
جھیل کنارے بیٹھی لڑکی کا عکس پانی میں بہا دیا جائے گا
اور مرد کا سینہ چٹخ جائے گے
آنسو بدن کی اوک میں پڑے پڑے خشک ہو جائے گا
کون پکارتا ہے ہمیں خسارے کی جانب
ہاں اسی طرف جہاں
ایک لامحدود کرب
اور بے حساب خاموشی
اور گریہ کا بے انت سیلاب
جسموں کو کاٹتا ، چھانٹتا
تحلیل کرتا چلا جاتا ہے
ہم دوبارہ اٹھائے جائیں گے
ہم اٹھائے جائیں گے
صرف ان جسموں کے ساتھ
جنہیں ہمارے غم نے جنم دیا
اورہماری نومولود روحوں کی ولدیت کے خانے میں
صرف ایک نام لکھا جائے گا
'دکھ '
عامرعبدالله
2)
"کیا میں نہیں ہوں "
پڑا رہ جاتا ہے بستر پر
لحاف میں لپٹا ہوا بدن
رات کھینچ لے جاتی ہے مجھے
ان قبروں کے سرہانے
جن پر دیے نہیں جلائے جا سکے
پھولوں کی افسردگی کے موسم میں
اگر بتیاں خاموشی سےسلگتی رہتی ہیں
پاس اگے کیکر کی آنکھوں میں
اداسی اور رت جگا آمیز ہو رہے ہیں
مجھے اس کیکر کے پتوں سے
اپنے ان پرکھوں کی خوشبو آتی ہے
جن کی ہڈیوں سے کشیدہ نمک پر اس نے نمو پائی
میرے دادا کی پائنتی کی جانب میرے باپ کی قبر ہے
جس کی پائنتی کی جانب کھڑا میں فاتحہ خواں ہوں
جب میرا بیٹا میری جگہ کھڑا ہوگا تو میرے دادا کی قبر
اور جب اس کا بیٹا تو میرے باپ کی قبر
اور جب اس کا بیٹا تو یقینا میری قبر
فراموش کی جا چکی ہو گی
وقت ہماری یادداشت کمزور کر دیتا ہے
ہم فراموش کردہ تاریخ کےوہ کردار ہیں
جن کےکتبوں پر لکھے نام اور تاریخیں
از خود مٹ جاتی ہیں
میں لوٹ آیا ہوں
مگر اپنے بستر پر سویا ہوا شخص
کیا میں نہیں ہوں۔۔۔؟
مجھے میری ماں نے
!ایک اجنبی نام سے کیوں پکارا ہے
دیدبان شمارہ ۔ ۱۹
عامر عبداللہ کی دو نظمیں
"ہم اٹھائے جائیں گے"
کھینچے لیے جاتا ہے خسارہ ہمیں
پھر سےاس گلی کی جانب
کیوں پکارا جاتا ہے ہمیں بار بار
جب راندہ درگاہ قرار دیے جا چکے
ا ب سینے میں ایک اور دکھ کی گنجائش نہیں بنائی جا سکتی
ہم جو اس طرف ہیں
ہاں اسی طرف
جہاں محبت اور ہمارے درمیان مسافت
کوسوں سے قرنوں تک پھیل چکی
لوٹنے کا ارادہ بھی کیسے باندھیں
جھیل کنارے بیٹھی لڑکی کے دکھ کا قضیہ
راج ہنس کی عدالت میں پیش کیا جا چکا ہے
اور ایک مرد کا دکھ
ایک آنکھ والا عفریت ہے
جو اس کا سینہ چاٹتے چاٹتے تھکتا نہیں
ایک آنسو ہے جو بدن کی اوک میں پڑا ہے
ان ہونٹوں کے انتظار میں
جن پر پیاس کی مہر لگ چکی
راج ہنس کا فیصلہ
پرندے کے پروں پر تحریر کیا جائے گا
جھیل کنارے بیٹھی لڑکی کا عکس پانی میں بہا دیا جائے گا
اور مرد کا سینہ چٹخ جائے گے
آنسو بدن کی اوک میں پڑے پڑے خشک ہو جائے گا
کون پکارتا ہے ہمیں خسارے کی جانب
ہاں اسی طرف جہاں
ایک لامحدود کرب
اور بے حساب خاموشی
اور گریہ کا بے انت سیلاب
جسموں کو کاٹتا ، چھانٹتا
تحلیل کرتا چلا جاتا ہے
ہم دوبارہ اٹھائے جائیں گے
ہم اٹھائے جائیں گے
صرف ان جسموں کے ساتھ
جنہیں ہمارے غم نے جنم دیا
اورہماری نومولود روحوں کی ولدیت کے خانے میں
صرف ایک نام لکھا جائے گا
'دکھ '
عامرعبدالله
2)
"کیا میں نہیں ہوں "
پڑا رہ جاتا ہے بستر پر
لحاف میں لپٹا ہوا بدن
رات کھینچ لے جاتی ہے مجھے
ان قبروں کے سرہانے
جن پر دیے نہیں جلائے جا سکے
پھولوں کی افسردگی کے موسم میں
اگر بتیاں خاموشی سےسلگتی رہتی ہیں
پاس اگے کیکر کی آنکھوں میں
اداسی اور رت جگا آمیز ہو رہے ہیں
مجھے اس کیکر کے پتوں سے
اپنے ان پرکھوں کی خوشبو آتی ہے
جن کی ہڈیوں سے کشیدہ نمک پر اس نے نمو پائی
میرے دادا کی پائنتی کی جانب میرے باپ کی قبر ہے
جس کی پائنتی کی جانب کھڑا میں فاتحہ خواں ہوں
جب میرا بیٹا میری جگہ کھڑا ہوگا تو میرے دادا کی قبر
اور جب اس کا بیٹا تو میرے باپ کی قبر
اور جب اس کا بیٹا تو یقینا میری قبر
فراموش کی جا چکی ہو گی
وقت ہماری یادداشت کمزور کر دیتا ہے
ہم فراموش کردہ تاریخ کےوہ کردار ہیں
جن کےکتبوں پر لکھے نام اور تاریخیں
از خود مٹ جاتی ہیں
میں لوٹ آیا ہوں
مگر اپنے بستر پر سویا ہوا شخص
کیا میں نہیں ہوں۔۔۔؟
مجھے میری ماں نے
!ایک اجنبی نام سے کیوں پکارا ہے