عمّار یاسر

Oct 31, 2020

یرا نام عمّاریاسر ہے. زندگی گزارنے کے لیئے جو پیشہ حادثاتی طور پر میں نے چنا وہ وکالت ہے. چونکہ میں بچپن ہی سے لکھنے لکھانے کا شوقین رہا ہوں, سو وکالت کا پیشہ میرے لیئے یوں موزوں ہو گیا کہ یہاں بھی کیسوں کی ڈرافٹنگ کے لیئے لکھنا لکھانا ہی ہوتا ہے. ایک سائل کو سن کر اُس کی بپتا کو تحریر کرنا اور پھر بسا اوقات تحریری دلائل تیار کرنا کوئی آسان کام نہیں. تاہم عدالتی ماحول سے زہن مطابقت نہیں رکھتا اور نہ ہی مجھے ابھی تک فیس وصول کرنے کا گُر آیا ہے.

میرے خاندان کے بیشتر لوگ لکھنے سے متعلق رہے ہیں. میرے نانا مولانا فضللِ قدیر ظفر ندوی ایک ادیب بھی تھے اور بے شمار مذہبی مضامین کے مصنف بھی. قرآن پاک کی تفسیر پر لاتعداد مضامین تحریر کیئے. میرے ماموں ظفیر ندوی "ویت نام جل رہا ہے" جیسی شہرہ آفاق کتاب کے مصنف تھے. مشہور فلم "زرقا" کا بنیادی سکرپٹ ان کا ہی تحریر کردہ تھا. یہ کہانی چرائی گئی اور مرحوم ریاض شاہد کے ساتھ ماموں کی مقدمہ بازی چلتی رہی, جو بلا آخر ایک باہمی معاہدے سے انجام کو پہنچی.

چونکہ ہمارے گھر میں تمام اخبارات آیا کرتے تھے, تو اخبارات کو پڑھنے کا رجحان اتنا شدید تھا گویا اگر اخبار صبح نہ پڑھا گیا تو دن شروع نہ ہوگا. ہم کزن بچوں کے صفحات کو کہانیاں بھیجا کرتے تھے. جس کی کہانی شائع ہوتی وہ اِتراتا پھرتا اور دوسروں کو بھرم دکھاتا. میری پہلی نظم ایک مرغی پر تھی, جو میں نے پالی ہوئی تھی اور جس کی موت کا مجھے شدید صدمہ تھا. یہ پہلی جدائی تھی... پہلے وصال کا دکھ.. پہلا درد....

وقت گذرتا رہا اور میں لکھتا رہا, کبھی سیاسی و سماجی مضامین, کبھی کہانیاں اور افسانے, تو کبھی نظمیں اور غزلیں. اب حال یہ ہے کہ کوئی دن نہیں گذرتا جو بنا کچھ کہے یا لکھے گذرے.

میں 2003 میں لاھور سے پیشہ ورانہ معاملات کے لیئے کراچی شفٹ ہو گیا. ان دنوں بھی کراچی شورش کا شکار تھا. چونکہ میرا تعلق ترقی پسند سیاست سے رہا ہے, اور سوچ کے اعتبار سے اب بھی ترقی پسند ہوں, تو زندگی بِتانے کے لیئے مجھے اپنے خیالات کو حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تقاضوں کے کوزوں میں بند کرنا پڑا. یوں ایک عرصہ لکھتا لکھاتا تو رہا مگر کہیں خود کو پبلیزائز نہیں کیا. اِس امر نے ایک احساسِ محرومی پیدا کیا, یوں لگا گویا سب سے کٹ گیا ہوں. لاھور کی فضائوں اور دوستوں سے کٹا ہی تھا, مگر ادب سے بظاہر دوری نے ایک ٹیس سی پیدا کر دی.

آخر اس درد کو کہیں سے تو سکون ملنا تھا...اور پھر میں نے فیس بک پر اپنا ادبی پیج "من موجی" کے نام سے شروع کیا.

یوں محرومی کا احساس جانا رہا. اسی دوران کچھ دوستوں نے حلقہء اربابِ ذوق کے اجلاس میں شرکت کی دعوت تھی, تو گویا زندگی میں رونق آگئی. ہفتہ وار اجلاسوں میں بے شمار ادب نوازوں سے ملاقات رہی اور واقفیت بھی ہوئی. جناب زیب ازکار صاحب سے وہیں سے تعلق بنا. حلقہ کے اجلاس خود رو نشو نما کے لیئے رہنماء بن گئے. سب سے بڑھ کر مشہور و معروف نقاد, شاعر و ادیب جناب اکرم کنجاہی صاحب کی صحبت سے فیضیاب ہونے کا موقعہ ملا. مشہور شاعر مرحوم شکیل وحید, جن کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے, سے بھی تعلق بنا.

میں سمجھتا ہوں ایک ادیب و شاعر کی روح کے لیئے لفظ پانی؛ اور کتاب خوراک ہے. میرا ماننا ہے یہ دنیا تب تک خوبصورت رہے گی جب تک لفظ کی حرمت قائم رہے گی.

عمّاریاسر

20 اکتوبر, 2020

------