تنویر قاضی کی غزلیں
تنویر قاضی کی غزلیں
Mar 12, 2018
قبیلے کے ستم میں ڈھل رھے ہیں
دیدبان شمارہ ۔۷
تنویر قاضی کی غزلیں
غزل ١......................
قبیلے کے ستم میں ڈھل رھے ہیں
وہ جلتے کوئلوں پر چل رھے ہیں
ھماری پیاس کی ھے آزمائش
ترے نینوں کے بھیتر جل رھے ہیںِ
کھلی ھے رات کی رانی کی خوشبو
اور اس میں سانپ بھی کچھ چل رھے ہیں
بناتے ہیں گھروندے ریت کے جو
سمند ر کی غصیلی چھل رھے ہیں
بہت ہی نرم لہجوں سے لگا ھے
کچھ انگارے سے جیسے پل رھے ہیں
بکھرتی چشم ِ حیراں کو چھُپاتے
یونہی اپنی وہ آنکھیں مَل رھے ہیں
ادُھوری نیند کی سیڑھی سے گِر کر
سنبھلتے خواب بھی بوجھل رھے ہیں
ھمیں تو چاھئے اک پورا پنگھٹ
ھمارے دل دہکتے تھل رھے ہیں
تنویرقاضی
----------------غزل ٢:
یاد کی لَو سروش پر رکھ کر
پھیلی طاقِ خموش پر رکھ کر
کشتیاں کھولنا وہ بھول گئے
خوابِ خرگوش ھوش پر رکھ کر
سنگِ مر مر کی پار کی دہلیز
نظریں خانہ بدوش پر رکھ کر
اپنے اوپر گرا لی پَرچھتی
پاوں ماضی کے دوش پر رکھ کر
اُس نے اُنگلی ڈبو کے میٹھا کیا
چائے کو میز پوش پر رکھ کر
ہے توقع معاشیات پھَلے
تکیہ بردہ فروش پر رکھ کر
ہو گئے در بدر کرایہ دار
گھر کا سامان دوش پر رکھ کر
تنویرقاضی----------------
دیدبان شمارہ ۔۷
تنویر قاضی کی غزلیں
غزل ١......................
قبیلے کے ستم میں ڈھل رھے ہیں
وہ جلتے کوئلوں پر چل رھے ہیں
ھماری پیاس کی ھے آزمائش
ترے نینوں کے بھیتر جل رھے ہیںِ
کھلی ھے رات کی رانی کی خوشبو
اور اس میں سانپ بھی کچھ چل رھے ہیں
بناتے ہیں گھروندے ریت کے جو
سمند ر کی غصیلی چھل رھے ہیں
بہت ہی نرم لہجوں سے لگا ھے
کچھ انگارے سے جیسے پل رھے ہیں
بکھرتی چشم ِ حیراں کو چھُپاتے
یونہی اپنی وہ آنکھیں مَل رھے ہیں
ادُھوری نیند کی سیڑھی سے گِر کر
سنبھلتے خواب بھی بوجھل رھے ہیں
ھمیں تو چاھئے اک پورا پنگھٹ
ھمارے دل دہکتے تھل رھے ہیں
تنویرقاضی
----------------غزل ٢:
یاد کی لَو سروش پر رکھ کر
پھیلی طاقِ خموش پر رکھ کر
کشتیاں کھولنا وہ بھول گئے
خوابِ خرگوش ھوش پر رکھ کر
سنگِ مر مر کی پار کی دہلیز
نظریں خانہ بدوش پر رکھ کر
اپنے اوپر گرا لی پَرچھتی
پاوں ماضی کے دوش پر رکھ کر
اُس نے اُنگلی ڈبو کے میٹھا کیا
چائے کو میز پوش پر رکھ کر
ہے توقع معاشیات پھَلے
تکیہ بردہ فروش پر رکھ کر
ہو گئے در بدر کرایہ دار
گھر کا سامان دوش پر رکھ کر
تنویرقاضی----------------