میکانیت سے زندگی تک

میکانیت سے زندگی تک

Dec 23, 2025

مصوّر-اسرار فاروقی

دیدبان شمارہ -31
دسمبر / 2025


میکانیت سے زندگی تک

تماشاٸی سے تخلیق کار کا سفر

آدم عباس

میری تحریر اس بات کے خلاف مزاحمت ہے کہ فکر کو محض میکانکی استدلال، سائنسی توضیح، یا اے آئی کی منطقی ترتیبوں تک محدود کر دیا جائے۔

میرے نزدیک فکر اور شعور محض ڈیٹا پروسیسنگ نہیں بلکہ ایک جاندار، وجودی، اور جمالیاتی تجزیہ و تجربہ ہے جہاں جمالیات صرف حسن کا احساس نہیں، بلکہ شعور کی تخلیقی روانی ہے۔

یہ روانی جب زندگی کے لمس سے جڑتی ہے تو انسانی حرکت کو زندگی دوست بناتی ہے۔ یوں جمالیات صرف حسن کا احساس نہیں رہتی بلکہ زندگی کے تحفظ اور اس کے تسلسل کا وسیلہ بن جاتی ہے۔

میرا سوال یہ نہیں کہ نظام کیسے چلے گا بلکہ کہیں زندگی کو بھی محسوس کیا جارہا ہے یا سیاسی استدلال کی جیت ہی سب کچھ ہے، پھر چاہے میکانیت کی بنیاد پر ہی کیوں نہ ہو۔

میری تحریر اخلاقیات اور مقصدیت کا احتجاج انسانی بقاء کے تحفظ اور نشونما کے لیے شعور کی بالیدگی اور پیچیدگی کے لیے ہے جس کا جوہر تخلیقی ہے۔ یعنی بیماری کا علاج درست تشخص اور درست دوا ہے جس کا جوہر تخلیقی ہے۔ شعور کی بالیدگی تخلیقی جوہر کا نتیجہ بھی ہے اور حالت بھی، جیسے شعلہ اپنی روشنی کا نتیجہ بھی ہے اور اس کا حال بھی۔

یعنی یہی جوہر پیچیدہ مسائل کو سمجھنے کا باعث بنتا ہے بلکہ ان کے ممکنہ حل بھی آشکار کرتا ہے، پھر سماجی ضروریات کی بنیاد پر جن کا تعلق تحفظِ ذات اور توسیعِ ذات سے ہوتا ہے، عقلِ تجربی کی شعوری روشنی میں سماج کی اجتماعی حرکت کا باعث بنتا ہے۔ جس کے نتیجے میں امکانات میں سے ایک امکان اجتماعی سماجی چلن کے نتیجے میں حقیقت کا روپ دھار لیتا ہے۔

میرے نزدیک فیکٹری کا پہیہ مکانیت نہیں بلکہ اجتماعی خوشحالی کا استعارہ ہے، اور یہی اس کی جمالیات بھی۔

اگر مقصدیت ”سماجی تنظیم کیسے ہو سکتی ہے یا برقرار رہے گی“ اور شعور کا جوہر اور تخلیق کا محرک ہی غائب ہے تو کسی بھی خاص تنظیم کی معدومیت اٹل ہے۔

سماجی تنظیم کا ماخذ اگر زندگی ہے تو پیداوار محافظ ہے ورنہ خطرہ۔ یعنی سیاست صرف وہ نہیں جو طاقت کو منظم کرے بلکہ زندگی کے احساس کو بھی برقرار رکھے۔

لسانی، ساختی، اور اعداد و شمار میں اظہار کے لیے اے آئی کی مدد لینا الگ بات ہے، لیکن فکر، معنویت، فہم اور تجزیے میں اے آئی کے اظہاریہ کو دلیل بنا کر پیش کرنا تخلیق، فلسفہ، نظریات، سائنس اور ان سے جوڑی آرٹ کی موت ہے۔

میرا استدلال اس حوالے سے یہ ہے کہ مادہ چاہے وہ کوانٹم سطح پر اپنی غیر مرئی حرکیات میں رواں ہو یا کائناتی سطح پر اپنی کہکشانی وسعتوں میں پھیلا ہو، اپنے اظہار میں شعور کی لازمیت رکھتا ہے۔

شعور کی پیچیدگی کا تعلق تخلیق سے ہوتا ہے، جو اس کے وجود کا ارتقاء بھی کرتی ہے اور تحفظ بھی، ورنہ شعور اپنی معدومیت کے خطرات سے گہر جاتا ہے۔

افکار اگر صرف مصنوعی ذہانت، یعنی اے آئی، کے عکس کا اظہار ہوں تو وہ میکانیت کے دائروں میں قید ہو جاتے ہیں۔ وہاں انسانی تخلیقی احساس، ضرورت، اور جذبے کہیں پس منظر میں چلے جاتے ہیں اور بالآخر معدومیت سے دوچار ہونے لگتے ہیں۔

تخلیقی ارتقاء یوں اے آئی کا ہو جاتا ہے، کسی خاص انسانی فکر کا نہیں جہاں انسان کا کردار تماشائی کا ہو جاتا ہے، نہ کہ تخلیق کار کا۔

یعنی کوئی بھی فرد کسی بھی فلسفے یا نظریے کو عقل اور منطق کی کسوٹی پر اسی وقت پرکھ سکتا ہے جب وہ خود سے استدلال کرے۔ اس طرح وہ افکار کی معروضی حقیقتوں اور افادیتوں کو سمجھنے کے قابل بنتا ہے اور حکمتِ عملی کو حقیقی بنیادوں پر استوار کرنے کی صلاحیت حاصل کرتا ہے۔

یہی استدلال اس کی عقل، منطق، اور حکمتِ عملی کو ناقابلِ عمل کناروں سے قابلِ عمل حقیقتوں تک لے آتا ہے۔

یوں مابعدالطبیعات کا دائرہ طبعیات سے الگ دکھائی دیتا ہے، جو تخلیقی شعور اور اس سے جوڑے نظریات کو ارتقاء کے سفر میں قائم رکھتی ہے۔

آدم عباس


دیدبان شمارہ -31
دسمبر / 2025


میکانیت سے زندگی تک

تماشاٸی سے تخلیق کار کا سفر

آدم عباس

میری تحریر اس بات کے خلاف مزاحمت ہے کہ فکر کو محض میکانکی استدلال، سائنسی توضیح، یا اے آئی کی منطقی ترتیبوں تک محدود کر دیا جائے۔

میرے نزدیک فکر اور شعور محض ڈیٹا پروسیسنگ نہیں بلکہ ایک جاندار، وجودی، اور جمالیاتی تجزیہ و تجربہ ہے جہاں جمالیات صرف حسن کا احساس نہیں، بلکہ شعور کی تخلیقی روانی ہے۔

یہ روانی جب زندگی کے لمس سے جڑتی ہے تو انسانی حرکت کو زندگی دوست بناتی ہے۔ یوں جمالیات صرف حسن کا احساس نہیں رہتی بلکہ زندگی کے تحفظ اور اس کے تسلسل کا وسیلہ بن جاتی ہے۔

میرا سوال یہ نہیں کہ نظام کیسے چلے گا بلکہ کہیں زندگی کو بھی محسوس کیا جارہا ہے یا سیاسی استدلال کی جیت ہی سب کچھ ہے، پھر چاہے میکانیت کی بنیاد پر ہی کیوں نہ ہو۔

میری تحریر اخلاقیات اور مقصدیت کا احتجاج انسانی بقاء کے تحفظ اور نشونما کے لیے شعور کی بالیدگی اور پیچیدگی کے لیے ہے جس کا جوہر تخلیقی ہے۔ یعنی بیماری کا علاج درست تشخص اور درست دوا ہے جس کا جوہر تخلیقی ہے۔ شعور کی بالیدگی تخلیقی جوہر کا نتیجہ بھی ہے اور حالت بھی، جیسے شعلہ اپنی روشنی کا نتیجہ بھی ہے اور اس کا حال بھی۔

یعنی یہی جوہر پیچیدہ مسائل کو سمجھنے کا باعث بنتا ہے بلکہ ان کے ممکنہ حل بھی آشکار کرتا ہے، پھر سماجی ضروریات کی بنیاد پر جن کا تعلق تحفظِ ذات اور توسیعِ ذات سے ہوتا ہے، عقلِ تجربی کی شعوری روشنی میں سماج کی اجتماعی حرکت کا باعث بنتا ہے۔ جس کے نتیجے میں امکانات میں سے ایک امکان اجتماعی سماجی چلن کے نتیجے میں حقیقت کا روپ دھار لیتا ہے۔

میرے نزدیک فیکٹری کا پہیہ مکانیت نہیں بلکہ اجتماعی خوشحالی کا استعارہ ہے، اور یہی اس کی جمالیات بھی۔

اگر مقصدیت ”سماجی تنظیم کیسے ہو سکتی ہے یا برقرار رہے گی“ اور شعور کا جوہر اور تخلیق کا محرک ہی غائب ہے تو کسی بھی خاص تنظیم کی معدومیت اٹل ہے۔

سماجی تنظیم کا ماخذ اگر زندگی ہے تو پیداوار محافظ ہے ورنہ خطرہ۔ یعنی سیاست صرف وہ نہیں جو طاقت کو منظم کرے بلکہ زندگی کے احساس کو بھی برقرار رکھے۔

لسانی، ساختی، اور اعداد و شمار میں اظہار کے لیے اے آئی کی مدد لینا الگ بات ہے، لیکن فکر، معنویت، فہم اور تجزیے میں اے آئی کے اظہاریہ کو دلیل بنا کر پیش کرنا تخلیق، فلسفہ، نظریات، سائنس اور ان سے جوڑی آرٹ کی موت ہے۔

میرا استدلال اس حوالے سے یہ ہے کہ مادہ چاہے وہ کوانٹم سطح پر اپنی غیر مرئی حرکیات میں رواں ہو یا کائناتی سطح پر اپنی کہکشانی وسعتوں میں پھیلا ہو، اپنے اظہار میں شعور کی لازمیت رکھتا ہے۔

شعور کی پیچیدگی کا تعلق تخلیق سے ہوتا ہے، جو اس کے وجود کا ارتقاء بھی کرتی ہے اور تحفظ بھی، ورنہ شعور اپنی معدومیت کے خطرات سے گہر جاتا ہے۔

افکار اگر صرف مصنوعی ذہانت، یعنی اے آئی، کے عکس کا اظہار ہوں تو وہ میکانیت کے دائروں میں قید ہو جاتے ہیں۔ وہاں انسانی تخلیقی احساس، ضرورت، اور جذبے کہیں پس منظر میں چلے جاتے ہیں اور بالآخر معدومیت سے دوچار ہونے لگتے ہیں۔

تخلیقی ارتقاء یوں اے آئی کا ہو جاتا ہے، کسی خاص انسانی فکر کا نہیں جہاں انسان کا کردار تماشائی کا ہو جاتا ہے، نہ کہ تخلیق کار کا۔

یعنی کوئی بھی فرد کسی بھی فلسفے یا نظریے کو عقل اور منطق کی کسوٹی پر اسی وقت پرکھ سکتا ہے جب وہ خود سے استدلال کرے۔ اس طرح وہ افکار کی معروضی حقیقتوں اور افادیتوں کو سمجھنے کے قابل بنتا ہے اور حکمتِ عملی کو حقیقی بنیادوں پر استوار کرنے کی صلاحیت حاصل کرتا ہے۔

یہی استدلال اس کی عقل، منطق، اور حکمتِ عملی کو ناقابلِ عمل کناروں سے قابلِ عمل حقیقتوں تک لے آتا ہے۔

یوں مابعدالطبیعات کا دائرہ طبعیات سے الگ دکھائی دیتا ہے، جو تخلیقی شعور اور اس سے جوڑے نظریات کو ارتقاء کے سفر میں قائم رکھتی ہے۔

آدم عباس


خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024