ذاکر رحمان کی نظمیں
ذاکر رحمان کی نظمیں
Feb 9, 2019
نہ یہ شام اِتنی اُداس ہے
کہ میں زندگی کو اُجاڑ دوں
نہ یہ زخم اِتنے عمیق ہیں
کہ میں اپنی شکل بگاڑ دوں
یہ تو اب کھُلا مِرے شعر میں
تِرے نین نقش جو ثَبت تھے
وہ مِرے جنون کا بھولپن
وہ مِرے دماغ کا خَبط تھے
نہ میں قیس تھا نہ پُنل کوئی
تو شکنتلا تھی نہ ہیر ہے
یہ تِرے بدن کا گلاب پَن
بھی تو اِک نظر کا فقیر ہے
نہ نشاطِ وصل و سپردَگی
نہ ملالِ ہجر و فراق ہے
نہ قبائے عقل و خِرد رہی
نہ لباسِ عشق کا چاک ہے
سو یہ وقت وقت کی بات ہے
یہی تجربوں کا نچوڑ ہے
کہ جو وقت ہے یہ طبیب ہے
یہ ہر ایک درد کا توڑ ہے
۔۔۔۔۔۔
محبت شاعروں کی میراث نہیں"
نظم کہنے کے لیے نیلی آنکھیں ضروری نہیں
آنکھیں بھی ضروری نہیں
نظم کہنے کے لیے تروتازہ ہونٹ ضروری نہیں
ہونٹ بھی ضروری نہیں
نظم کہنے کے لیے نہفتہ بدن ضروری نہیں
بدن بھی ضروری نہیں
نظم کہنے کے لیے پہلوئے یار ضروری نہیں
یار بھی ضروری نہیں
خوشبو کا ایک جھونکا بھی نظم کہہ سکتا ہے
بارش کی ایک بوند
اُسے بھگو سکتی ہے
کچنار کے کسی درخت پر بیٹھی
کوئی فاختہ
اُسے گُنگنا سکتی ہے
تمہاری یاد کسی کو بھی آ سکتی ہے
ذاکر رحمانؔ
۔۔۔۔
کچھ نظمیں ہیں
جو سینے میں رہ جاتی ہیں
گُھٹ گُھٹ کر مَر جاتی ہیں
کچھ نظمیں ہیں
جو چھالے بن کر
پاؤں پڑ جاتی ہیں
کچھ نظمیں ہیں
جو خنجر بن کر سینے میں گَڑ جاتی ہیں
کچھ نظمیں ناخن ہوتی ہیں
سِلے سِلاے زخموں کو کُھجلاتی ہیں
کچھ نظمیں ہیں
جو دشمن بن کر یک دم سامنے آ جاتی ہیں
کچھ نظمیں ہیں
جو غزلوں کو کھا جاتی ہیں
کچھ نظمیں ہاتھ سوالی ہوتی ہیں
اندر سے خالی ہوتی ہیں
کچھ نظمیں
دل کی بھٹّی میں پَک جاتی ہیں
کچھ نظمیں ہیں
جو صدیوں ذہن میں چلتے چلتے
تھَک جاتی ہیں
بس اک دو مصرعوں تک جاتی ہیں
کچھ نظمیں
جن کا بوجھ اٹھا کر
لفظوں میں خَم آ جاتا ہے
کچھ نظمیں کھِل کر کُھلتی ہیں
پر لکھنے لگو تو لکھتے لکھتے
آنکھوں میں غم آ جاتا ہے
اور پھر یہ غم
دھیرے دھیرے
شاعر کو کھا جاتا ہے
تم کیا جانو
کتنا گہرا
اور خاموش ہے
میرے اندر کا انسان
نظموں کا قبرستان
نہ یہ شام اِتنی اُداس ہے
کہ میں زندگی کو اُجاڑ دوں
نہ یہ زخم اِتنے عمیق ہیں
کہ میں اپنی شکل بگاڑ دوں
یہ تو اب کھُلا مِرے شعر میں
تِرے نین نقش جو ثَبت تھے
وہ مِرے جنون کا بھولپن
وہ مِرے دماغ کا خَبط تھے
نہ میں قیس تھا نہ پُنل کوئی
تو شکنتلا تھی نہ ہیر ہے
یہ تِرے بدن کا گلاب پَن
بھی تو اِک نظر کا فقیر ہے
نہ نشاطِ وصل و سپردَگی
نہ ملالِ ہجر و فراق ہے
نہ قبائے عقل و خِرد رہی
نہ لباسِ عشق کا چاک ہے
سو یہ وقت وقت کی بات ہے
یہی تجربوں کا نچوڑ ہے
کہ جو وقت ہے یہ طبیب ہے
یہ ہر ایک درد کا توڑ ہے
۔۔۔۔۔۔
محبت شاعروں کی میراث نہیں"
نظم کہنے کے لیے نیلی آنکھیں ضروری نہیں
آنکھیں بھی ضروری نہیں
نظم کہنے کے لیے تروتازہ ہونٹ ضروری نہیں
ہونٹ بھی ضروری نہیں
نظم کہنے کے لیے نہفتہ بدن ضروری نہیں
بدن بھی ضروری نہیں
نظم کہنے کے لیے پہلوئے یار ضروری نہیں
یار بھی ضروری نہیں
خوشبو کا ایک جھونکا بھی نظم کہہ سکتا ہے
بارش کی ایک بوند
اُسے بھگو سکتی ہے
کچنار کے کسی درخت پر بیٹھی
کوئی فاختہ
اُسے گُنگنا سکتی ہے
تمہاری یاد کسی کو بھی آ سکتی ہے
ذاکر رحمانؔ
۔۔۔۔
کچھ نظمیں ہیں
جو سینے میں رہ جاتی ہیں
گُھٹ گُھٹ کر مَر جاتی ہیں
کچھ نظمیں ہیں
جو چھالے بن کر
پاؤں پڑ جاتی ہیں
کچھ نظمیں ہیں
جو خنجر بن کر سینے میں گَڑ جاتی ہیں
کچھ نظمیں ناخن ہوتی ہیں
سِلے سِلاے زخموں کو کُھجلاتی ہیں
کچھ نظمیں ہیں
جو دشمن بن کر یک دم سامنے آ جاتی ہیں
کچھ نظمیں ہیں
جو غزلوں کو کھا جاتی ہیں
کچھ نظمیں ہاتھ سوالی ہوتی ہیں
اندر سے خالی ہوتی ہیں
کچھ نظمیں
دل کی بھٹّی میں پَک جاتی ہیں
کچھ نظمیں ہیں
جو صدیوں ذہن میں چلتے چلتے
تھَک جاتی ہیں
بس اک دو مصرعوں تک جاتی ہیں
کچھ نظمیں
جن کا بوجھ اٹھا کر
لفظوں میں خَم آ جاتا ہے
کچھ نظمیں کھِل کر کُھلتی ہیں
پر لکھنے لگو تو لکھتے لکھتے
آنکھوں میں غم آ جاتا ہے
اور پھر یہ غم
دھیرے دھیرے
شاعر کو کھا جاتا ہے
تم کیا جانو
کتنا گہرا
اور خاموش ہے
میرے اندر کا انسان
نظموں کا قبرستان