ایوب خاور کی کرونائی نظمیں
ایوب خاور کی کرونائی نظمیں
Oct 26, 2020
چلو اے جانِ جاں ہم اِس کرونے کو مَحبّت کی صداقت اور عداوت بھی دِکھاتے ہیں چلو بس اِک نظر کے فاصلے پر رہ کے اب ہم اِس رقیبِ جاں طلب کی جان لیتے ہیں
نظم ١. : خود کلامی
ایوب خاور
آئسولیشن میں ایک مریض اپنے ہمزاد سے
اگر ہم ایک ہیں
تو پھر
ہمیں ڈرنا نہیں
لڑنا ہے، اِک اَن دیکھے دُشمن سے
جو خیمہ زن ہے، میرے اور تمہارے جسم کے خُلیوں کے گِردا گِرد
اپنی سانس روکے
ٹکٹکی باندھے
مسلسل گھورتا جاتا ہے، ہم کو چاروں سَمتوں سے
نڈر، چالاک اور ماہر شکاری کی طرح سے
مُنجمِد کرتا چلا جاتا ہے، میری اور تمہاری ہر رگِ جاں کو
مگر نظروں کے قابو میں نہیں آتا
اگر ہم ایک ہیں
تو پھر
مرے بھائی
ہم اپنی مشترک تنہائی اوڑھے
آئسولیشن کے در و دیوار سے چپکے ہوئے، بے مہر سناٹے کی ٹک ٹک میں
جگر کو تھام کر
سانسوں کے بے ترتیب وقفوں میں
کریں گے جمع اپنی ہمتوں کو آخری دم تک
اگر ہم ایک ہیں
تو پھر
ہمیں ڈرنا نہیں ہے
صرف لڑنا بھی نہیں ہے
مارنا ہے
مارنا ہے، اس کرونے، اس گھناؤنے وائرس کو مارنا ہے
ادھر دیکھو
میرے ہمزاد، ادھر دیکھو
حواسِ خمسہ کو ترتیب دو بھائی
اگر ہم ایک ہیں تو
اس کے اَن دیکھے بدن میں گاڑ دیں گے، سارے مل جل کر
کروڑوں انگلیوں کے تیز خنجر
بالآخر اِس "وبالِ جاں" وبا کی ہر نشانی کو مٹا دیں گے
وہاں سے بھی
جہاں کی تجربہ گاہوں میں بویا اور پھر کاٹا گیا
پھر ساری دنیا کے غریبوں اور امیروں میں
مساوی طور پر بانٹا گیا اِس کو
ایُّوب خاور
اِنتِخاب
سفیدپوش
------------------------
نظم ٢- چلو اے جانِ جاں
اب ایسا کرتے ہیں
•••••••••••••••••
کرونا وہ رقیبِ جاں طلب ہے
جو بے آواز چل کر
آپ کی سانسوں کے رستے روح کی تہہ میں اُترتا ہے
سو اے میرے مَحبّت زاد!
میرے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے اور کھانے پینے کام کرنے
بات کرنے کے لئے اِک ہاتھ کی دوری کو ہم دونوں اگر
قائم رکھیں گے تو مَحبّت بھی ہمارا ساتھ دے گی
یہ دوری بھی عجب دوری ہے
جو پہلے زمانوں میں بڑی اچھی لگا کرتی تھی اُس میں بھی
مَحبت کی طرح کی اِک کشش ہوتی تھی
ہم اُس دوری پہ رہ کر بھی ہمیشہ ساتھ رہتے تھے
مگر وہ دِن ،وہ دوری اور مَحبّت کا زمانہ اور تھا
یہ اور ہے
اُن دوریوں میں ایک لذت اور مَحبّت اور صداقت تھی
مگر جسموں کی اِن سرگوشیوں میں اب
مَحبّت کی ہوس ہی رہ گئی ہے
نہ جانے ہے بھی یا......
چلو اے جانِ جاں
ہم اِس کرونے کو مَحبّت کی صداقت اور عداوت بھی دِکھاتے ہیں
چلو
بس اِک نظر کے فاصلے پر رہ کے
اب ہم
اِس رقیبِ جاں طلب کی جان لیتے ہیں
نظر کا فاصلہ میلوں کا ہو کر بھی پلک بھر ہی کا ہوتا ہے
سو اے جانِ جہاں، یہ دھیان رکھنا ہے
نہ مجھ کو چُھو کے تجھ تک ، اور نہ تجھ کو چُھو کے مجھ تک یہ کرونا آ سکے
ترسے
ہمارا خون پینے کے لیے ترسے
اس قدر ترسے
کہ میری اور تمہاری دوری کے صحرا میں جل بُھن کر یہ مر جائے
ایُّوب خاور
۵ جولائی ۲۰۲۰
شام
-------------
نظم ٣: ساری دنیا کے لئے ایک دعا
خدائے ہر جہاں
یہ زندگی اب اور کتنی سستی ہونی ہے
جسے اَن دیکھا اک دشمن
تری دنیا کے ہر کونے میں
جب چاہے، جہاں چاہے
وزیروں اور امیروں سے غریبوں تک
جسے چاہے
کہیں بھی چلتے پھرتے،اپنی اک بے لمس مٹھی میں جکڑ کر مار دیتا ہے
خدائے ہر جہاں
ہم بے خبر تھے تجھ سے بھی اور خود سے بھی
لیکن
یہ پچھلے کچھ مہینوں سے کرونا وائرس نے
ہاتھ دھونے، صاف ستھرے رہنے
تجھ کو یاد کرنے، گناہوں اور برے کاموں سے بچنے کی
جو عادت ہم نے ڈالی ہے
ہمیشہ یاد رکھیں گے
بھُلا بیٹھے تھے ہم اس دنیا داری میں
مگر اب یاد رکھیں گے "صفائی نصف ایماں ہے"
ایوب خاور
شاعر،ڈرامہ نگار، ٹیلی ویژن پروڈیوسر، ڈائریکٹر پاکستان
--------------------------
نظم ١. : خود کلامی
ایوب خاور
آئسولیشن میں ایک مریض اپنے ہمزاد سے
اگر ہم ایک ہیں
تو پھر
ہمیں ڈرنا نہیں
لڑنا ہے، اِک اَن دیکھے دُشمن سے
جو خیمہ زن ہے، میرے اور تمہارے جسم کے خُلیوں کے گِردا گِرد
اپنی سانس روکے
ٹکٹکی باندھے
مسلسل گھورتا جاتا ہے، ہم کو چاروں سَمتوں سے
نڈر، چالاک اور ماہر شکاری کی طرح سے
مُنجمِد کرتا چلا جاتا ہے، میری اور تمہاری ہر رگِ جاں کو
مگر نظروں کے قابو میں نہیں آتا
اگر ہم ایک ہیں
تو پھر
مرے بھائی
ہم اپنی مشترک تنہائی اوڑھے
آئسولیشن کے در و دیوار سے چپکے ہوئے، بے مہر سناٹے کی ٹک ٹک میں
جگر کو تھام کر
سانسوں کے بے ترتیب وقفوں میں
کریں گے جمع اپنی ہمتوں کو آخری دم تک
اگر ہم ایک ہیں
تو پھر
ہمیں ڈرنا نہیں ہے
صرف لڑنا بھی نہیں ہے
مارنا ہے
مارنا ہے، اس کرونے، اس گھناؤنے وائرس کو مارنا ہے
ادھر دیکھو
میرے ہمزاد، ادھر دیکھو
حواسِ خمسہ کو ترتیب دو بھائی
اگر ہم ایک ہیں تو
اس کے اَن دیکھے بدن میں گاڑ دیں گے، سارے مل جل کر
کروڑوں انگلیوں کے تیز خنجر
بالآخر اِس "وبالِ جاں" وبا کی ہر نشانی کو مٹا دیں گے
وہاں سے بھی
جہاں کی تجربہ گاہوں میں بویا اور پھر کاٹا گیا
پھر ساری دنیا کے غریبوں اور امیروں میں
مساوی طور پر بانٹا گیا اِس کو
ایُّوب خاور
اِنتِخاب
سفیدپوش
------------------------
نظم ٢- چلو اے جانِ جاں
اب ایسا کرتے ہیں
•••••••••••••••••
کرونا وہ رقیبِ جاں طلب ہے
جو بے آواز چل کر
آپ کی سانسوں کے رستے روح کی تہہ میں اُترتا ہے
سو اے میرے مَحبّت زاد!
میرے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے اور کھانے پینے کام کرنے
بات کرنے کے لئے اِک ہاتھ کی دوری کو ہم دونوں اگر
قائم رکھیں گے تو مَحبّت بھی ہمارا ساتھ دے گی
یہ دوری بھی عجب دوری ہے
جو پہلے زمانوں میں بڑی اچھی لگا کرتی تھی اُس میں بھی
مَحبت کی طرح کی اِک کشش ہوتی تھی
ہم اُس دوری پہ رہ کر بھی ہمیشہ ساتھ رہتے تھے
مگر وہ دِن ،وہ دوری اور مَحبّت کا زمانہ اور تھا
یہ اور ہے
اُن دوریوں میں ایک لذت اور مَحبّت اور صداقت تھی
مگر جسموں کی اِن سرگوشیوں میں اب
مَحبّت کی ہوس ہی رہ گئی ہے
نہ جانے ہے بھی یا......
چلو اے جانِ جاں
ہم اِس کرونے کو مَحبّت کی صداقت اور عداوت بھی دِکھاتے ہیں
چلو
بس اِک نظر کے فاصلے پر رہ کے
اب ہم
اِس رقیبِ جاں طلب کی جان لیتے ہیں
نظر کا فاصلہ میلوں کا ہو کر بھی پلک بھر ہی کا ہوتا ہے
سو اے جانِ جہاں، یہ دھیان رکھنا ہے
نہ مجھ کو چُھو کے تجھ تک ، اور نہ تجھ کو چُھو کے مجھ تک یہ کرونا آ سکے
ترسے
ہمارا خون پینے کے لیے ترسے
اس قدر ترسے
کہ میری اور تمہاری دوری کے صحرا میں جل بُھن کر یہ مر جائے
ایُّوب خاور
۵ جولائی ۲۰۲۰
شام
-------------
نظم ٣: ساری دنیا کے لئے ایک دعا
خدائے ہر جہاں
یہ زندگی اب اور کتنی سستی ہونی ہے
جسے اَن دیکھا اک دشمن
تری دنیا کے ہر کونے میں
جب چاہے، جہاں چاہے
وزیروں اور امیروں سے غریبوں تک
جسے چاہے
کہیں بھی چلتے پھرتے،اپنی اک بے لمس مٹھی میں جکڑ کر مار دیتا ہے
خدائے ہر جہاں
ہم بے خبر تھے تجھ سے بھی اور خود سے بھی
لیکن
یہ پچھلے کچھ مہینوں سے کرونا وائرس نے
ہاتھ دھونے، صاف ستھرے رہنے
تجھ کو یاد کرنے، گناہوں اور برے کاموں سے بچنے کی
جو عادت ہم نے ڈالی ہے
ہمیشہ یاد رکھیں گے
بھُلا بیٹھے تھے ہم اس دنیا داری میں
مگر اب یاد رکھیں گے "صفائی نصف ایماں ہے"
ایوب خاور
شاعر،ڈرامہ نگار، ٹیلی ویژن پروڈیوسر، ڈائریکٹر پاکستان
--------------------------