یوسف بن محمد کی نظمیں
یوسف بن محمد کی نظمیں
Jun 12, 2024
مصنف
یوسف بن محمد
نام: یوسف بن محمد(گدا دہلوی) تاریخ پیدائش: 15 فروری 1991۔ جائے پیدائش: دبئی متحدہ عرب امارات۔ رہائش:دہلی انڈیا ۔ یوسف بن محمد نئی دہلی میں مقیم شاعر ہیں۔ان کی کچھ تخلیقات معروف ادبی جرائد میں شائع ہوئی ہیں جیسے'غزل صفحہ'،'ایسٹ لِٹ'،'کلاسیکی شاعروں کی سوسائٹی'،'ٹرانسم' وغیرہ۔ انگریزی شاعری کےعلاوہ اردوشاعری سے بھی شغف رکھتے ہیں۔ ان کی اردو-ہندی نظمیں معروف پلیٹ فارمز پر شائع ہوئی ہیں جیسے 'ریختہ'، 'پوشم پا'، 'دلیل'، 'سوارگوبھ' وغیرہ۔ شاعری کا پہلا مجموعہ بعنوان 'Screeching of The Quill' زیرِترتیب ہے۔ فون نمبر:+919818717462 yousuf.physics@gmail.com
شمارہ
شمارہ۔٢٦
شبانگہِ سرما
(رمل مربع سالم:فاعِلاتن فاعِلاتن)
یہ سکوتِ شب یہ سرما
چاروں طرف یوں پھیلا
ہے کے ڈھانکتا چلا ہے
ہے جو کچھ بھی ڈھانکنے کو
تو جو کچھ نہیں ڈھنکا ہے
سو سمٹ رہا ہے اس میں
ہاں شکستہ شور ہے یہ
یہ سکوت اک دوہر ہے
دو گراں رضائیوں کی
کہیں ان کے درمیاں ہی
سب ہوش اور جنوں سب
بس دب کے رہ گۓ ہیں
اور وقت جو رواں تھا
کہیں ان میں سو گیا ہے
کوئي کفن کي مانند
گھبرا رہا ہے اس سے
کچھ اس سفید رو کو
تو پري سمجھ رہے ہیں
جو دلوں کی بے قراري
کو نگلتی جا رہی ہے
یہ غذا ہو اس کی گویا
جو کفن سمجھ رہے ہیں
اس ماہ رو پری کو
یہ طلسمي گڑیا ان کو
اب اور بھي ڈرائے
یہ سکوت سنسناہٹ
میں ٹوٹ ٹوٹ جاۓ
اور اندھیرے کو جگاۓ
یوسف بن محمد
شہادت
(بحرِ ہندی/ متقارب اثرم مقبوض محذوف:
فعلن فعلن فعلن فعلن)
اس اک رب کے بندے تم ہو
جس کی نظر سے کچھ نا گم ہو
دیکھو اس کا حق نا کم ہو
تم یوں ہی مت مر کٹ جانا
اپنے موقف پر ڈٹ جانا
جلتا صحرا سینے پتّھر
واحد رب تھا جس کے لب پر
اس حبشی کو دل میں رکھ کر
تم یوں ہی مت مر کٹ جانا
اپنے موقف پر ڈٹ جانا
کوئی ٹھاکر کوئی ریگر
کوئی جاہل بھیڑ کو لے کر
چھاتی اوپر چڑھ آئے گر
تم یوں ہی مت مر کٹ جانا
اپنے موقف پر ڈٹ جانا
ہاتھ کو جوڑے سسکی بھرتے
رحمت کی دوہائی کرتے
ظالم کے پیروں میں پڑتے
تم یوں ہی مت مر کٹ جانا
اپنے موقف پر ڈٹ جانا
رب کے بندوں غم نا کھاؤ
مرنے سے مت گھبرا جاؤ
حق کو باطل سے ٹکراؤ
تم یوں ہی مت مر کٹ جانا
اپنے موقف پر ڈٹ جانا
یوسف بن محمد
کام کہاں
جو دل میں تیرے لالی ہے سب دھول دھوئیں سے کالی ہے
سب خانے خنچے خالی ہیں کیا ایک کتاب بھی ڈالی ہے
کچھ جوتی رگڑو ہاتھ ملو کچھ سوچو کہ ہے نام کہاں
یاں پر جب تم آۓ ہو تو دنیا میں آرام کہاں
کتنا کچھ ہے کرنے کو اور تم کہتے ہو کام کہاں
کھرپی سے سب گھانس اکھاڑی سبّل سے پھر سمتل کر دی
ان میں دو اک پھول لگا کر کلیاں دو اک روشن کر دی
کلہاڑے سے باغ کو چھانٹو پھر سوچو ہے دام کہاں
یاں پر جب تم آۓ ہو تو دنیا میں آرام کہاں
کتنا کچھ ہے کرنے کو اور تم کہتے ہو کام کہاں
دھرتی کھودو پھاوڑا لے کر بیچ میں نقشہ ایک بنا لو
پھر کرنی تسلا ہاتھ اٹھا کر تگڑی سی اک نیو بھی ڈالو
صبح سے دیوار چنو گے تب سوچو گے شام کہاں
یاں پر جب تم آۓ ہو تو دنیا میں آرام کہاں
کتنا کچھ ہے کرنے کو اور تم کہتے ہو کام کہاں
پہلے موم کے پنکھ بناۓ پھر کاغذ کے دو اور لگاۓ
پھر لوہا کانسا جوڑ کے تو نے دو عالم بھی پار لگائے
سورج کو پھر تیری رسائی کا بھی اب تک نام کہاں
یاں پر جب تم آۓ ہو تو دنیا میں آرام کہاں
کتنا کچھ ہے کرنے کو اور تم کہتے ہو کام کہاں
جو دن بھر تو نے کام کیا اور ہاتھ میں میل کی باتی ہے
تو سوچ ذرا کل کام ہے کیا اب رات بھی جاتی جاتی ہے
کچھ کام بنے تو بر پاۓ کل صبح ہونے کا نام کہاں
یاں پر جب تم آۓ ہو تو دنیا میں آرام کہاں
کتنا کچھ ہے کرنے کو اور تم کہتے ہو کام کہاں
یوسف بن محمد
اندھیارے کمرے
دو نیناں وہ روٹھ گئے
جن سے کبھی اک وعدہ تھا
اک اپنا سا تاج محل
خوابوں کی اک پگڈنڈی
کیا کچھ ہم نے دیکھا تھا
چنچل سے ان نینوں میں
اب تو ایک جھلک کو بھی
ہم برسوں ترسا کرتے ہیں
اور برسوں بات نہیں ہوتی
چنچل ان دو نینوں سے
بس ٹک ٹک تکتے رہتے ہیں
اک اندھیارے سے کمرے کو
اس اندھیارے سے کمرے میں
کچھ یادیں ہیں تصویریں ہیں
کچھ گذرے پل کی باتیں ہیں
دکھتا لیکن کچھ بھی نہیں
بس عکس لپکتے رہتے ہیں
ان اندھیاری دیواروں پر
یوسف بن محمد
شبانگہِ سرما
(رمل مربع سالم:فاعِلاتن فاعِلاتن)
یہ سکوتِ شب یہ سرما
چاروں طرف یوں پھیلا
ہے کے ڈھانکتا چلا ہے
ہے جو کچھ بھی ڈھانکنے کو
تو جو کچھ نہیں ڈھنکا ہے
سو سمٹ رہا ہے اس میں
ہاں شکستہ شور ہے یہ
یہ سکوت اک دوہر ہے
دو گراں رضائیوں کی
کہیں ان کے درمیاں ہی
سب ہوش اور جنوں سب
بس دب کے رہ گۓ ہیں
اور وقت جو رواں تھا
کہیں ان میں سو گیا ہے
کوئي کفن کي مانند
گھبرا رہا ہے اس سے
کچھ اس سفید رو کو
تو پري سمجھ رہے ہیں
جو دلوں کی بے قراري
کو نگلتی جا رہی ہے
یہ غذا ہو اس کی گویا
جو کفن سمجھ رہے ہیں
اس ماہ رو پری کو
یہ طلسمي گڑیا ان کو
اب اور بھي ڈرائے
یہ سکوت سنسناہٹ
میں ٹوٹ ٹوٹ جاۓ
اور اندھیرے کو جگاۓ
یوسف بن محمد
شہادت
(بحرِ ہندی/ متقارب اثرم مقبوض محذوف:
فعلن فعلن فعلن فعلن)
اس اک رب کے بندے تم ہو
جس کی نظر سے کچھ نا گم ہو
دیکھو اس کا حق نا کم ہو
تم یوں ہی مت مر کٹ جانا
اپنے موقف پر ڈٹ جانا
جلتا صحرا سینے پتّھر
واحد رب تھا جس کے لب پر
اس حبشی کو دل میں رکھ کر
تم یوں ہی مت مر کٹ جانا
اپنے موقف پر ڈٹ جانا
کوئی ٹھاکر کوئی ریگر
کوئی جاہل بھیڑ کو لے کر
چھاتی اوپر چڑھ آئے گر
تم یوں ہی مت مر کٹ جانا
اپنے موقف پر ڈٹ جانا
ہاتھ کو جوڑے سسکی بھرتے
رحمت کی دوہائی کرتے
ظالم کے پیروں میں پڑتے
تم یوں ہی مت مر کٹ جانا
اپنے موقف پر ڈٹ جانا
رب کے بندوں غم نا کھاؤ
مرنے سے مت گھبرا جاؤ
حق کو باطل سے ٹکراؤ
تم یوں ہی مت مر کٹ جانا
اپنے موقف پر ڈٹ جانا
یوسف بن محمد
کام کہاں
جو دل میں تیرے لالی ہے سب دھول دھوئیں سے کالی ہے
سب خانے خنچے خالی ہیں کیا ایک کتاب بھی ڈالی ہے
کچھ جوتی رگڑو ہاتھ ملو کچھ سوچو کہ ہے نام کہاں
یاں پر جب تم آۓ ہو تو دنیا میں آرام کہاں
کتنا کچھ ہے کرنے کو اور تم کہتے ہو کام کہاں
کھرپی سے سب گھانس اکھاڑی سبّل سے پھر سمتل کر دی
ان میں دو اک پھول لگا کر کلیاں دو اک روشن کر دی
کلہاڑے سے باغ کو چھانٹو پھر سوچو ہے دام کہاں
یاں پر جب تم آۓ ہو تو دنیا میں آرام کہاں
کتنا کچھ ہے کرنے کو اور تم کہتے ہو کام کہاں
دھرتی کھودو پھاوڑا لے کر بیچ میں نقشہ ایک بنا لو
پھر کرنی تسلا ہاتھ اٹھا کر تگڑی سی اک نیو بھی ڈالو
صبح سے دیوار چنو گے تب سوچو گے شام کہاں
یاں پر جب تم آۓ ہو تو دنیا میں آرام کہاں
کتنا کچھ ہے کرنے کو اور تم کہتے ہو کام کہاں
پہلے موم کے پنکھ بناۓ پھر کاغذ کے دو اور لگاۓ
پھر لوہا کانسا جوڑ کے تو نے دو عالم بھی پار لگائے
سورج کو پھر تیری رسائی کا بھی اب تک نام کہاں
یاں پر جب تم آۓ ہو تو دنیا میں آرام کہاں
کتنا کچھ ہے کرنے کو اور تم کہتے ہو کام کہاں
جو دن بھر تو نے کام کیا اور ہاتھ میں میل کی باتی ہے
تو سوچ ذرا کل کام ہے کیا اب رات بھی جاتی جاتی ہے
کچھ کام بنے تو بر پاۓ کل صبح ہونے کا نام کہاں
یاں پر جب تم آۓ ہو تو دنیا میں آرام کہاں
کتنا کچھ ہے کرنے کو اور تم کہتے ہو کام کہاں
یوسف بن محمد
اندھیارے کمرے
دو نیناں وہ روٹھ گئے
جن سے کبھی اک وعدہ تھا
اک اپنا سا تاج محل
خوابوں کی اک پگڈنڈی
کیا کچھ ہم نے دیکھا تھا
چنچل سے ان نینوں میں
اب تو ایک جھلک کو بھی
ہم برسوں ترسا کرتے ہیں
اور برسوں بات نہیں ہوتی
چنچل ان دو نینوں سے
بس ٹک ٹک تکتے رہتے ہیں
اک اندھیارے سے کمرے کو
اس اندھیارے سے کمرے میں
کچھ یادیں ہیں تصویریں ہیں
کچھ گذرے پل کی باتیں ہیں
دکھتا لیکن کچھ بھی نہیں
بس عکس لپکتے رہتے ہیں
ان اندھیاری دیواروں پر