یوسف عزیز زاہد کی غزلیں
یوسف عزیز زاہد کی غزلیں
Oct 15, 2024
غزل
پھولوں نے کیا بچائی ہے خاروں کی آبرو
"خطرے میں پڑ گئی ہے بہاروں کی آبرو"
اب آندھیوں میں کانپ رہی ہے انائے برگ
موجوں میں ڈولتی ہے کناروں کی آبرو
بوندیں ہوا کی آنکھ سے برسی ہیں اسطرح
کجلا گئی دہکتے شراروں کی آبرو
جب عارضوں پہ کھیلی مچل کر دلوں کی آگ
ہنستی ملی شفق میں چناروں کی آبرو
تیرے نثار،آئی تو ہے،شام۔انتظار
اب تیرے ہاتھ ہجر کے ماروں کی آبرو
کاغذ کی کشتیوں کو بہا کر بنام۔دل
لفظوں کو سونپ دی ہے اشاروں کی آبرو
زاہد وصال۔یار کی لذت نہ پوچھئیے
برسے یہ بوند بوند خماروں کی آبرو
یوسف عزیز زاہد
غزل
خرد کے شہر میں رہ کر اسے سفاک ہونا تھا
جنوں کی رفعتوں کو پھر مری پوشاک ہونا تھا
ورائے خواب اک تعبیر کو نمناک ہونا تھا
مگر اک معجزہ بھی تو پس۔افلاک ہونا تھا
گھروندے ٹوٹ کر بکھرے تو موجیں چیخ اٹھی تھیں
سمندر کو کناروں کا ابھی ادراک ہونا تھا
اسے دستار سونپی ہے جسے سر کی تمنا تھی
وہ پیشہ ور مجاور ہے اسے چالاک ہونا تھا
مگر ان کی قبائوں پر ستارے جھلملاتے ہیں
جنہیں کوزہ گری کے عشق میں ہی خاک ہونا تھا
ہمارے ہاتھ جو آیا غنیمت تھا کہ ہم نے تو
خلائوں کے سفر میں بھی خس و خاشاک ہونا تھا
کھلی آنکھوں سے دیکھا تھا بس اک منظر سرابوں کا
پھر اس کے بعد وحشت میں گریباں چاک ہونا تھا
خموشی جان لیوا ہے حکایت درد کی چھیڑو
یہ شہر۔عشق ہے زاہد، یہاں بیباک ہونا تھا
یوسف عزیز زاہد
غزل
پھولوں نے کیا بچائی ہے خاروں کی آبرو
"خطرے میں پڑ گئی ہے بہاروں کی آبرو"
اب آندھیوں میں کانپ رہی ہے انائے برگ
موجوں میں ڈولتی ہے کناروں کی آبرو
بوندیں ہوا کی آنکھ سے برسی ہیں اسطرح
کجلا گئی دہکتے شراروں کی آبرو
جب عارضوں پہ کھیلی مچل کر دلوں کی آگ
ہنستی ملی شفق میں چناروں کی آبرو
تیرے نثار،آئی تو ہے،شام۔انتظار
اب تیرے ہاتھ ہجر کے ماروں کی آبرو
کاغذ کی کشتیوں کو بہا کر بنام۔دل
لفظوں کو سونپ دی ہے اشاروں کی آبرو
زاہد وصال۔یار کی لذت نہ پوچھئیے
برسے یہ بوند بوند خماروں کی آبرو
یوسف عزیز زاہد
غزل
خرد کے شہر میں رہ کر اسے سفاک ہونا تھا
جنوں کی رفعتوں کو پھر مری پوشاک ہونا تھا
ورائے خواب اک تعبیر کو نمناک ہونا تھا
مگر اک معجزہ بھی تو پس۔افلاک ہونا تھا
گھروندے ٹوٹ کر بکھرے تو موجیں چیخ اٹھی تھیں
سمندر کو کناروں کا ابھی ادراک ہونا تھا
اسے دستار سونپی ہے جسے سر کی تمنا تھی
وہ پیشہ ور مجاور ہے اسے چالاک ہونا تھا
مگر ان کی قبائوں پر ستارے جھلملاتے ہیں
جنہیں کوزہ گری کے عشق میں ہی خاک ہونا تھا
ہمارے ہاتھ جو آیا غنیمت تھا کہ ہم نے تو
خلائوں کے سفر میں بھی خس و خاشاک ہونا تھا
کھلی آنکھوں سے دیکھا تھا بس اک منظر سرابوں کا
پھر اس کے بعد وحشت میں گریباں چاک ہونا تھا
خموشی جان لیوا ہے حکایت درد کی چھیڑو
یہ شہر۔عشق ہے زاہد، یہاں بیباک ہونا تھا