ایسے تھے ہمارے یوسف کمالؔ صاحب!

ایسے تھے ہمارے یوسف کمالؔ صاحب!

May 24, 2019

ایک فراموش مزاح نگار کا قصہ

ایسے تھے ہمارے یوسف کمالؔ صاحب!

جاوید انصاری،جلگاؤں

(مہاراشٹر)

شہرہئ آفاق مزاحیہ اداکار چارلی چپلن نے اپنی سوانح میں ایک جگہ لکھا ہے کہ”جب آپ غمزدہ ہوتے ہیں تو دنیا آپ پر ہنستی ہے،پھر جب آپ ہنستے ہیں تو دنیا آپ کے ساتھ ہنستی ہے لیکن اگرآپ دوسروں کو ہنساتے ہیں تو دنیا آپ کو سیلوٹ کرتی ہے۔“

ایک دور تھا جب اردو مشاعروں کی فہرست مرحوم یوسف کمال ؔ کے بغیر ادھوری سمجھی جاتی تھی۔کمال مرحوم علاقہئ خاندیش کے وہ واحد شاعر تھے جنھوں نے خاندیشی لب و لہجہ کو اپنا اسلوب بنایا اور پورے ہندوستان میں یکساں طور پر مقبول ہوئے۔ایک تو طنز و مزاح کے شاعر دوسرے ان کی زبان اور لہجے میں بلا کی روانی تھی۔دراصل شاعر دو طرح کے ہوتے ہیں۔ایک وہ جو شعر کی تلاش میں نکلتے ہیں اور دوسرے وہ جن پر شاعری کی دیوی ازخود مہربان ہوجاتی ہے۔مرحوم یوسف کمال ؔ دوسرے قبیل سے تعلق رکھتے ہیں۔

میں نے کتنے مشاعرے لوٹے

اور کتنے تو ہاتھ سے چھوٹے

پٹ کر آیا نہیں کبھی بھی میں

پڑھنے تیار ہوں ابھی بھی میں

کس سے ملتا نہیں جدا ہوں میں

شاعرِ آل انڈیا ہوں میں

اچھے اچھے سلام کرتے ہیں

سب مرا احترام کرتے ہیں

مرحوم یوسف کمالؔ کے احترام کی سب سے بڑی وجہ ان کا بے ساختہ پن،ان کے لہجے کی برجستگی اور سب سے جدا اسلوب تھا۔یوں تو وہ طنز و مزاح کے شاعر تھے لیکن غزل کے عمدہ اشعار کہنے پر بھی انھیں قدرت تھی۔مشاعرے کے اسٹیج پر ان کی شخصیت کوئی بہت متاثر کن تو نہیں تھی۔پہلی نظر میں ناظرین انھیں دوسرے یا تیسرے درجے کا شاعر سمجھتے لیکن جب کمال ؔ مرحوم مائک کے روبرو ہوتے تو مشاعروں کو وہ بلندی عطا کرتے جہاں مشاعرے کا بڑے سے بڑا شاعر بھی ان کے بعد اپنا کلام پیش کرنے سے گریز کرنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتا تھا۔

مرحوم یوسف کمال ؔ کا آبائی وطن کھیروڑ نامی ایک دیہات تھا۔یہ قریہ ضلع جلگاؤں کی تحصیل راویر میں آتا ہے۔یوسف کمالؔ بچپن سے ہی ذہین تھے۔ان کے والد کریم شاہ کھیروڑ کی مسجد میں امامت کے ساتھ ساتھ دینی مدرسہ بھی چلاتے تھے۔کمالؔ صاحب کی ابتدائی تعلیم اسی مدرسے میں ہوئی۔ان کے والد کی خواہش تھی کہ یوسف کمالؔ بھی انہیں کی راہ چلیں اور کسی بڑے مدرسے سے فارغ ہوکر عالم و فاضل بنیں۔مگر یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔اوائل عمری میں ہی یوسف کمال ؔ گھریلو معاشی تنگی کے باعث روزگار کے سلسلے میں مالیگاؤں آبسے۔مالیگاؤں میں پاورلوم چلانے کی مشقت کے ساتھ مشق سخن کا سلسلہ بھی جاری رہا۔یہیں ان کی ملاقات کہنہ مشق شاعر رزاق عادلؔ سے ہوئی۔عادلؔ کے فکری رجحان اور شعر گوئی کے سلیقے سے یوسف کمال ؔ بہت متاثر ہوئے۔رزاق عادلؔ کا ایک مشہور شعر ہے ؎

پھر یوں ہوا کسی نے بٹھایا نہ پاس میں

پیوند لگ چکے تھے ہمارے لباس میں

رزاق عادل ؔ کے مشورے نے ہی یوسف کمالؔ کو سنجیدہ شاعر سے طنزو مزاح کا شاعر بنا دیا۔

غالباً یہ سن ستّر کی دہائی تھی،مالیگاؤں کی صنعت ِ پارچہ بافی پر غضب کی مندی چھائی ہوئی تھی۔بیشتر پاورلوم مزدوروں پر فاقہ کشی کی نوبت آن پڑی تھی۔مالیگاؤں چھوڑ کر جانے والے مزدوروں کی اکثریت کا رخ ممبئی اور بھیونڈی تھا جبکہ کچھ لوگ سورت کوچ کرگئے۔مرحوم یوسف کمالؔ نے بھی ہجرت کا فیصلہ کیا اور سورت کی راہ لی لیکن اس کے بعد انھوں نے کوئی دوسری ہجرت نہیں کی اور پھر ہمیشہ کیلئے سورت ہی کے ہو کر رہ گئے۔سورت میں یوسف کمال ؔ پاورلوم سے منسلک ہوگئے۔لوم سے دل اچٹ گیا تو سبزی ترکاری کا کاروبار شروع کردیا اور ایک ریڑھے پر سبزیاں فروخت کرنے لگے۔ساتھ ہی ساتھ سورت اور اطراف کی نشستوں اور مشاعروں میں شرکت فرمانے لگے۔یہاں ان کی شاعری کا ڈنکا بجا اور خوب بجا۔یہیں سے ان کے دماغ میں یہ بات سما گئی کہ انھیں پورے ہندوستان میں اپنے طنز و مزاح کے جوہر دکھانے ہیں۔

یوں لگایا ہم نے کس اب کے برس

ہوگئے وہ ڈھلّے ڈھس اب کے برس

چار چھ غزلیں اُپس اب کے برس

شاعروں کی صف میں ٹھس اب کے برس

کمالؔ صاحب کہیں بن بلائے مشاعروں میں ٹھسنے کی کوشش کرتے تو کہیں کچھ منتظمین انھیں مشاعروں میں بصد شوق ٹھونسنا چاہتے تو دل مسوس کر رہ جاتے کیونکہ یوسف کمالؔ سے رابطہ کرنا بھی کارِ دارد تھا۔ان کی طبیعت میں صحرا نوردی تو کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔آج یہاں ہیں تو کل وہاں۔منتظمین کو بعد میں پتہ چلتا کہ وہ تو فلاں شہر کے مشاعرے میں شریک تھے اور اب وہاں سے کہیں اور کسی اور مشاعرے میں شرکت کی غرض سے چلے گئے ہیں۔زندگی بھر کمال ؔ صاحب کو اپنی مارکیٹنگ جم نہیں سکی۔مشاہرے سے بے نیاز رہتے۔منتظمین مشاعرہ جو کچھ بھی دیتے خاموشی سے قبول کرلیتے۔

سورت میں گھر کی ذمہ داریاں اب ان کی شریک حیات عینور بی نے اس امید پر نبھانی شروع کی کہ کمال ؔ صاحب کو مشاعروں سے خوب آمدنی ہوگی اور ان کے دن پھر جائیں گے۔کمالؔ صاحب کا خاندان پانچ بیٹیوں اور تین بیٹوں پر مشتمل تھا۔ بیٹوں کے سروں پر سہرہ تو جیسے تیسے باندھا گیا لیکن بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کرنے کے لیے انھیں کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے وہ ان کا دل ہی جانتا ہے۔ویسے یہ بھی ان کی زندگی کا ایک المیہ ہی ہے کہ ایک بیٹا مظفر شاہ عین عالم ِشباب میں داغِ مفارقت دے گیا۔دوسرا بیٹا زبیر شاہ سورت میں ہی کسی بزاز کے یہاں ملازم ہے۔جب کہ الطاف شاہ جلگاؤں میں ایک مشاق آٹو مینک کے طور پر کام کررہا ہے۔

مشاعروں میں شرکت کے چکر میں ان کا گھرانہ مستقل پریشانیوں میں مبتلا رہا لیکن ان کی شان بے نیازی میں کوئی فرق نہ آتا۔بقول جان ایلیا ؔ ؎

میں بھی عجیب ہوں اتنا عجیب کہ بس

خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں

یوسف کمال ؔ سے جب بھی ملاقات ہوئی وہ زندگی سے بھرپور انسان نظر آئے۔مسلسل سفر میں رہتے لیکن سفر کی تھکن کا شائبہ تک نہ ہوتا۔خلوص و محبت کے پیکر تھے۔کمالؔ صاحب سے میری سب سے پہلی ملاقات سن ۷۹۹۱ء میں میرے ایک دیرینہ دوست شبیر شیخ نے کروائی۔بعد میں صابر شاہ کے گجرات آٹو میں اکثر ان سے ملاقاتیں رہیں۔صابر شاہ انھیں شاعروں کے ناکارہ پن کے لطیفے سناتے تو وہ صابر شاہ پر برہم ہوجاتے اور کہتے کہ کیا تم مجھے آلتو فالتو شاعر سمجھتے ہو۔اچھے اچھے منت سماجت کرتے ہیں تب بھی میں ان کے مشاعروں میں نہیں جاتا۔کسی بڑے مشاعرے میں شرکت کرو تو سمجھ میں آجائے گا کہ یوسف کمال ؔ کیا چیز ہے۔

واقعی یوسف کمال ؔ مزاح کے مقبول ترین شاعر تھے۔جس مشاعرے میں شرکت کرتے ان سے ان کی شاہکار نظم ”موت کا فرشتہ اور شاعر“ سننے کی فرمائش ضرور کی جاتی تھی۔مشاعرے میں ان کا اندازِ پیشکش بھی کمال کا ہوتا۔پورا مجمع لوٹ پوٹ ہوجاتا۔یہاں پوری نظم تو پیش کرنا ممکن نہیں لیکن دیکھئے یوسف کمال ؔ کس خوبصورتی سے نظم کا آغاز کرتے ہیں۔جب موت کا فرشتہ شاعر کی روح قبض کرنے کیلئے حاضر ہوتا ہے تو شاعر یوں سوال کرتا ہے ؎

کوئی آہٹ نہ دستکیں در پر گھر کا دروازہ بند تم اندر

نیم شب اور اتنا سناٹا میں اس طرح کبھی نہیں جاگا

کون ہو تم،کہاں سے آئے ہو جلد بولو جہاں سے آئے ہو

شکل سے لگ رہے ہو مولانا وعظ فرما کے جی نہ کھولانا

اپنے پیشے میں بے نظیر ہو تم معاف کرنا اگر فقیر ہو تم

اسی طرح ”ایک جاہل پیر کی نقاب کشائی“اور”میں جس بستی میں رہتا ہوں“اردو کی مزاحیہ شاعری کی کامیاب ترین چند نظموں میں سے ایک کہی جا سکتی ہیں۔ان نظموں کی بھی مشاعروں میں خوب فرمائشیں ہوتیں۔یوسف کمالؔ کی شاعری بالخصوص ان کی نظمیں اور قطعات مزاحیہ شاعری کا نیا انوکھا منظر نامہ مرتب کرتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔ان کے قطعات میں جہاں مزاح کے ساتھ ساتھ طنز کے نشتر ہیں وہیں معاشرے کے زخموں پر مرہم رکھنے کا بھی کام کرتے ہیں مثلاً ؎

مجھ کو ہی کیا ہو سارے زمانے کو اچنبھا

ہو ختم یہ خونریز فسادوں کا تتنبا

بس ایک ہی ٹک میں اٹھے نفرت کا جنازہ

تیار کرو ایسا محبت کا گڑمبا

چاندی ہوگی نہ تیرے ہاتھ میں سونا ہوگا

ریشمی گادی،گلیچے نہ بچھونا ہوگا

موت لے جائے گی جب تجھ کو سوئے ملک عدم

ساتھ میں ایک بھی چمچہ نہ بگونہ ہوگا

موت کی رسی سے کس دیں گے تجھے

چند مٹھی خاک بس دیں گے تجھے

یہ ترے احباب رشتے دارسارے ایک دن

قبر کے اندر کھپس دیں گے تجھے

شنید ہے کہ مرحوم یوسف کمالؔ نے اپنا آخری مشاعرہ بھساول شہر میں پڑھا تھا۔مشاعرے کے دوسرے روز وہ سورت روانہ ہونا چاہتے تھے لیکن ریلوے اسٹیشن پر پہنچتے ہی ان پر فالج کا شدید حملہ ہوا۔یوسف کمالؔ وہیں گر پڑے۔انھیں کچھ لوگ میونسپل اسپتال میں داخل کرنے کی غرض سے آٹو میں ڈال ہی رہے تھے کہ اچانک چند وقفے کیلئے انھیں ہوش آیا اور اپنی شناخت بتائی۔ان کے فرزند الطاف شاہ اور بہو شکیلہ فوراً بھساول پہنچے۔انھیں جلگاؤں شفٹ کیا گیا۔اس عالم میں بمشکل ایک رات اور ان کی سانسیں چلتی رہیں کہ ۶۱/ اپریل ۶۰۰۲ء کو صبح کوئی آٹھ بجے طنز و مزاح کا یہ با کمال شاعر سب کو اپنے پیچھے روتا بلکتا چھوڑ کر سوئے ملک عدم روانہ ہوگیا۔تدفین جلگاؤں کے قبرستان میں عمل میں آئی لیکن ان کے رشتے داروں کے مطابق یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ وہ جو ان کا کلام سننے کے دیوانے ہوا کرتے تھے اور وہ منتظمین مشاعرہ جو انھیں اپنے مشاعرے میں بلانا اور انھیں شریک کرنا اپنے لئے طرہئ افتخار تصور کرتے تھے،ان کے جنازے میں کوئی بھی شریک نہ ہوسکا۔

کسی شاعرنے سچ کہا ہے کہ ؎

رئیس ِ شہر کو جھک جھک کے لوگ ملتے ہیں

غریبِ شہر کو لیکن سلام کون کرے

٭٭٭

ایسے تھے ہمارے یوسف کمالؔ صاحب!

جاوید انصاری،جلگاؤں

(مہاراشٹر)

شہرہئ آفاق مزاحیہ اداکار چارلی چپلن نے اپنی سوانح میں ایک جگہ لکھا ہے کہ”جب آپ غمزدہ ہوتے ہیں تو دنیا آپ پر ہنستی ہے،پھر جب آپ ہنستے ہیں تو دنیا آپ کے ساتھ ہنستی ہے لیکن اگرآپ دوسروں کو ہنساتے ہیں تو دنیا آپ کو سیلوٹ کرتی ہے۔“

ایک دور تھا جب اردو مشاعروں کی فہرست مرحوم یوسف کمال ؔ کے بغیر ادھوری سمجھی جاتی تھی۔کمال مرحوم علاقہئ خاندیش کے وہ واحد شاعر تھے جنھوں نے خاندیشی لب و لہجہ کو اپنا اسلوب بنایا اور پورے ہندوستان میں یکساں طور پر مقبول ہوئے۔ایک تو طنز و مزاح کے شاعر دوسرے ان کی زبان اور لہجے میں بلا کی روانی تھی۔دراصل شاعر دو طرح کے ہوتے ہیں۔ایک وہ جو شعر کی تلاش میں نکلتے ہیں اور دوسرے وہ جن پر شاعری کی دیوی ازخود مہربان ہوجاتی ہے۔مرحوم یوسف کمال ؔ دوسرے قبیل سے تعلق رکھتے ہیں۔

میں نے کتنے مشاعرے لوٹے

اور کتنے تو ہاتھ سے چھوٹے

پٹ کر آیا نہیں کبھی بھی میں

پڑھنے تیار ہوں ابھی بھی میں

کس سے ملتا نہیں جدا ہوں میں

شاعرِ آل انڈیا ہوں میں

اچھے اچھے سلام کرتے ہیں

سب مرا احترام کرتے ہیں

مرحوم یوسف کمالؔ کے احترام کی سب سے بڑی وجہ ان کا بے ساختہ پن،ان کے لہجے کی برجستگی اور سب سے جدا اسلوب تھا۔یوں تو وہ طنز و مزاح کے شاعر تھے لیکن غزل کے عمدہ اشعار کہنے پر بھی انھیں قدرت تھی۔مشاعرے کے اسٹیج پر ان کی شخصیت کوئی بہت متاثر کن تو نہیں تھی۔پہلی نظر میں ناظرین انھیں دوسرے یا تیسرے درجے کا شاعر سمجھتے لیکن جب کمال ؔ مرحوم مائک کے روبرو ہوتے تو مشاعروں کو وہ بلندی عطا کرتے جہاں مشاعرے کا بڑے سے بڑا شاعر بھی ان کے بعد اپنا کلام پیش کرنے سے گریز کرنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتا تھا۔

مرحوم یوسف کمال ؔ کا آبائی وطن کھیروڑ نامی ایک دیہات تھا۔یہ قریہ ضلع جلگاؤں کی تحصیل راویر میں آتا ہے۔یوسف کمالؔ بچپن سے ہی ذہین تھے۔ان کے والد کریم شاہ کھیروڑ کی مسجد میں امامت کے ساتھ ساتھ دینی مدرسہ بھی چلاتے تھے۔کمالؔ صاحب کی ابتدائی تعلیم اسی مدرسے میں ہوئی۔ان کے والد کی خواہش تھی کہ یوسف کمالؔ بھی انہیں کی راہ چلیں اور کسی بڑے مدرسے سے فارغ ہوکر عالم و فاضل بنیں۔مگر یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔اوائل عمری میں ہی یوسف کمال ؔ گھریلو معاشی تنگی کے باعث روزگار کے سلسلے میں مالیگاؤں آبسے۔مالیگاؤں میں پاورلوم چلانے کی مشقت کے ساتھ مشق سخن کا سلسلہ بھی جاری رہا۔یہیں ان کی ملاقات کہنہ مشق شاعر رزاق عادلؔ سے ہوئی۔عادلؔ کے فکری رجحان اور شعر گوئی کے سلیقے سے یوسف کمال ؔ بہت متاثر ہوئے۔رزاق عادلؔ کا ایک مشہور شعر ہے ؎

پھر یوں ہوا کسی نے بٹھایا نہ پاس میں

پیوند لگ چکے تھے ہمارے لباس میں

رزاق عادل ؔ کے مشورے نے ہی یوسف کمالؔ کو سنجیدہ شاعر سے طنزو مزاح کا شاعر بنا دیا۔

غالباً یہ سن ستّر کی دہائی تھی،مالیگاؤں کی صنعت ِ پارچہ بافی پر غضب کی مندی چھائی ہوئی تھی۔بیشتر پاورلوم مزدوروں پر فاقہ کشی کی نوبت آن پڑی تھی۔مالیگاؤں چھوڑ کر جانے والے مزدوروں کی اکثریت کا رخ ممبئی اور بھیونڈی تھا جبکہ کچھ لوگ سورت کوچ کرگئے۔مرحوم یوسف کمالؔ نے بھی ہجرت کا فیصلہ کیا اور سورت کی راہ لی لیکن اس کے بعد انھوں نے کوئی دوسری ہجرت نہیں کی اور پھر ہمیشہ کیلئے سورت ہی کے ہو کر رہ گئے۔سورت میں یوسف کمال ؔ پاورلوم سے منسلک ہوگئے۔لوم سے دل اچٹ گیا تو سبزی ترکاری کا کاروبار شروع کردیا اور ایک ریڑھے پر سبزیاں فروخت کرنے لگے۔ساتھ ہی ساتھ سورت اور اطراف کی نشستوں اور مشاعروں میں شرکت فرمانے لگے۔یہاں ان کی شاعری کا ڈنکا بجا اور خوب بجا۔یہیں سے ان کے دماغ میں یہ بات سما گئی کہ انھیں پورے ہندوستان میں اپنے طنز و مزاح کے جوہر دکھانے ہیں۔

یوں لگایا ہم نے کس اب کے برس

ہوگئے وہ ڈھلّے ڈھس اب کے برس

چار چھ غزلیں اُپس اب کے برس

شاعروں کی صف میں ٹھس اب کے برس

کمالؔ صاحب کہیں بن بلائے مشاعروں میں ٹھسنے کی کوشش کرتے تو کہیں کچھ منتظمین انھیں مشاعروں میں بصد شوق ٹھونسنا چاہتے تو دل مسوس کر رہ جاتے کیونکہ یوسف کمالؔ سے رابطہ کرنا بھی کارِ دارد تھا۔ان کی طبیعت میں صحرا نوردی تو کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔آج یہاں ہیں تو کل وہاں۔منتظمین کو بعد میں پتہ چلتا کہ وہ تو فلاں شہر کے مشاعرے میں شریک تھے اور اب وہاں سے کہیں اور کسی اور مشاعرے میں شرکت کی غرض سے چلے گئے ہیں۔زندگی بھر کمال ؔ صاحب کو اپنی مارکیٹنگ جم نہیں سکی۔مشاہرے سے بے نیاز رہتے۔منتظمین مشاعرہ جو کچھ بھی دیتے خاموشی سے قبول کرلیتے۔

سورت میں گھر کی ذمہ داریاں اب ان کی شریک حیات عینور بی نے اس امید پر نبھانی شروع کی کہ کمال ؔ صاحب کو مشاعروں سے خوب آمدنی ہوگی اور ان کے دن پھر جائیں گے۔کمالؔ صاحب کا خاندان پانچ بیٹیوں اور تین بیٹوں پر مشتمل تھا۔ بیٹوں کے سروں پر سہرہ تو جیسے تیسے باندھا گیا لیکن بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کرنے کے لیے انھیں کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے وہ ان کا دل ہی جانتا ہے۔ویسے یہ بھی ان کی زندگی کا ایک المیہ ہی ہے کہ ایک بیٹا مظفر شاہ عین عالم ِشباب میں داغِ مفارقت دے گیا۔دوسرا بیٹا زبیر شاہ سورت میں ہی کسی بزاز کے یہاں ملازم ہے۔جب کہ الطاف شاہ جلگاؤں میں ایک مشاق آٹو مینک کے طور پر کام کررہا ہے۔

مشاعروں میں شرکت کے چکر میں ان کا گھرانہ مستقل پریشانیوں میں مبتلا رہا لیکن ان کی شان بے نیازی میں کوئی فرق نہ آتا۔بقول جان ایلیا ؔ ؎

میں بھی عجیب ہوں اتنا عجیب کہ بس

خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں

یوسف کمال ؔ سے جب بھی ملاقات ہوئی وہ زندگی سے بھرپور انسان نظر آئے۔مسلسل سفر میں رہتے لیکن سفر کی تھکن کا شائبہ تک نہ ہوتا۔خلوص و محبت کے پیکر تھے۔کمالؔ صاحب سے میری سب سے پہلی ملاقات سن ۷۹۹۱ء میں میرے ایک دیرینہ دوست شبیر شیخ نے کروائی۔بعد میں صابر شاہ کے گجرات آٹو میں اکثر ان سے ملاقاتیں رہیں۔صابر شاہ انھیں شاعروں کے ناکارہ پن کے لطیفے سناتے تو وہ صابر شاہ پر برہم ہوجاتے اور کہتے کہ کیا تم مجھے آلتو فالتو شاعر سمجھتے ہو۔اچھے اچھے منت سماجت کرتے ہیں تب بھی میں ان کے مشاعروں میں نہیں جاتا۔کسی بڑے مشاعرے میں شرکت کرو تو سمجھ میں آجائے گا کہ یوسف کمال ؔ کیا چیز ہے۔

واقعی یوسف کمال ؔ مزاح کے مقبول ترین شاعر تھے۔جس مشاعرے میں شرکت کرتے ان سے ان کی شاہکار نظم ”موت کا فرشتہ اور شاعر“ سننے کی فرمائش ضرور کی جاتی تھی۔مشاعرے میں ان کا اندازِ پیشکش بھی کمال کا ہوتا۔پورا مجمع لوٹ پوٹ ہوجاتا۔یہاں پوری نظم تو پیش کرنا ممکن نہیں لیکن دیکھئے یوسف کمال ؔ کس خوبصورتی سے نظم کا آغاز کرتے ہیں۔جب موت کا فرشتہ شاعر کی روح قبض کرنے کیلئے حاضر ہوتا ہے تو شاعر یوں سوال کرتا ہے ؎

کوئی آہٹ نہ دستکیں در پر گھر کا دروازہ بند تم اندر

نیم شب اور اتنا سناٹا میں اس طرح کبھی نہیں جاگا

کون ہو تم،کہاں سے آئے ہو جلد بولو جہاں سے آئے ہو

شکل سے لگ رہے ہو مولانا وعظ فرما کے جی نہ کھولانا

اپنے پیشے میں بے نظیر ہو تم معاف کرنا اگر فقیر ہو تم

اسی طرح ”ایک جاہل پیر کی نقاب کشائی“اور”میں جس بستی میں رہتا ہوں“اردو کی مزاحیہ شاعری کی کامیاب ترین چند نظموں میں سے ایک کہی جا سکتی ہیں۔ان نظموں کی بھی مشاعروں میں خوب فرمائشیں ہوتیں۔یوسف کمالؔ کی شاعری بالخصوص ان کی نظمیں اور قطعات مزاحیہ شاعری کا نیا انوکھا منظر نامہ مرتب کرتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔ان کے قطعات میں جہاں مزاح کے ساتھ ساتھ طنز کے نشتر ہیں وہیں معاشرے کے زخموں پر مرہم رکھنے کا بھی کام کرتے ہیں مثلاً ؎

مجھ کو ہی کیا ہو سارے زمانے کو اچنبھا

ہو ختم یہ خونریز فسادوں کا تتنبا

بس ایک ہی ٹک میں اٹھے نفرت کا جنازہ

تیار کرو ایسا محبت کا گڑمبا

چاندی ہوگی نہ تیرے ہاتھ میں سونا ہوگا

ریشمی گادی،گلیچے نہ بچھونا ہوگا

موت لے جائے گی جب تجھ کو سوئے ملک عدم

ساتھ میں ایک بھی چمچہ نہ بگونہ ہوگا

موت کی رسی سے کس دیں گے تجھے

چند مٹھی خاک بس دیں گے تجھے

یہ ترے احباب رشتے دارسارے ایک دن

قبر کے اندر کھپس دیں گے تجھے

شنید ہے کہ مرحوم یوسف کمالؔ نے اپنا آخری مشاعرہ بھساول شہر میں پڑھا تھا۔مشاعرے کے دوسرے روز وہ سورت روانہ ہونا چاہتے تھے لیکن ریلوے اسٹیشن پر پہنچتے ہی ان پر فالج کا شدید حملہ ہوا۔یوسف کمالؔ وہیں گر پڑے۔انھیں کچھ لوگ میونسپل اسپتال میں داخل کرنے کی غرض سے آٹو میں ڈال ہی رہے تھے کہ اچانک چند وقفے کیلئے انھیں ہوش آیا اور اپنی شناخت بتائی۔ان کے فرزند الطاف شاہ اور بہو شکیلہ فوراً بھساول پہنچے۔انھیں جلگاؤں شفٹ کیا گیا۔اس عالم میں بمشکل ایک رات اور ان کی سانسیں چلتی رہیں کہ ۶۱/ اپریل ۶۰۰۲ء کو صبح کوئی آٹھ بجے طنز و مزاح کا یہ با کمال شاعر سب کو اپنے پیچھے روتا بلکتا چھوڑ کر سوئے ملک عدم روانہ ہوگیا۔تدفین جلگاؤں کے قبرستان میں عمل میں آئی لیکن ان کے رشتے داروں کے مطابق یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ وہ جو ان کا کلام سننے کے دیوانے ہوا کرتے تھے اور وہ منتظمین مشاعرہ جو انھیں اپنے مشاعرے میں بلانا اور انھیں شریک کرنا اپنے لئے طرہئ افتخار تصور کرتے تھے،ان کے جنازے میں کوئی بھی شریک نہ ہوسکا۔

کسی شاعرنے سچ کہا ہے کہ ؎

رئیس ِ شہر کو جھک جھک کے لوگ ملتے ہیں

غریبِ شہر کو لیکن سلام کون کرے

٭٭٭

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024