ایلچی کی بیوی
ایلچی کی بیوی
Mar 16, 2024
افسانہ نگار:کرن ماہاجن
دیدبان شمارہ ۔ ۲۰ اور ۲۱
افسانہ:ایلچی کی بیوی
افسانہ نگار:کرن ماہاجن ، انڈیا
ترجمہ نگار -ہاجرہ ریحان
ملک میں جہاں کہیں کا بھی جے نے سرکاری پریس کے ایلچی کے ساتھ سفر کیا، لوگ ایلچی کی طرف جھک کر ایک ہی بات کہتے ،
" مگر تم کو اسے سارا پس منظر سمجھا دینا چاہئے ، بہرحال یہ یہاں سے تعلق نہیں رکھتا ناں ۔"
ایک دن ، پرانگیختہ جے نے ایلچی سے کہا ،
" کیا تم بتائو گے کہ لوگ میرے ساتھ ایسا سلوک کیوں کر رہے ہیں ؟ کیا اُن کو میرے چلنے کے انداز میں کچھ محسوس ہوا ہے ؟ میرے پیرہن میں ؟ میرا لب و لہجہ تو بالکل نہیں بدلا ویسا ہی ہے جیسا میں یہاں سے گیا تھا"۔
ایلچی مسکرایا ، " مگر یہ لوگ جانتے ہیں کہ آپ بیرون ِ ملک رہتے ہیں ۔"
جے ، بین الاقوامی اخبارات کا شہرت یافتہ کالم نگار ،. صحافی سرکاری دعوت پر ملک کی مجموعی پیش رفت پر رپوٹ لکھنے آیا ہوا تھا۔
" مگر کیا اس کا مطلب ہے ، " جے بولا ، " کیا اس کا مطلب ہے کہ میرا اس ملک سے تعلق ہی ختم ہو گیا ہے ، اب میں اس کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ؟ بہرحال میں یہیں کا ہوں ۔ میں یہاں پروان چڑھا ہوں۔ حقیقت میں اسی لئے تو سرکار نے مجھے یہاں واپس بلا کر یہ کام سونپا ہے۔"
ایلچی نے کہا ، " یہ اچھا نقطہ ہے " ، حالانکہ صاف ظاہر تھا کہ وہ اس پر یقین نہیں کر سکا تھا۔
جے نے بھی معاملے کو جانے نہیں دیا ۔ " ہمارے لاکھوں لوگ بیرون ِ ملک رہتے ہیں۔ کیا تم اُن سب کو بھی اسی طرح محسوس کرانا چاہتے ہو؟ "
" مگر کچھ ایسی چیزیں ہوتی ہیں جناب جو صرف مقامی ہی ۔ ۔ ۔ " ایلچی بات ادھوری چھوڑ کر خاموش ہو گیا ۔
" مگر میں بھی تو یہی کہہ رہا ہوں۔ یہ ایسی کیا جادوئی چیز ہے جو میں نہیں سمجھ سکتا؟ اچھا چلو ٹھیک ہے مجھے نہیں معلوم کہ یہاں حالیہ مشہور کریکٹر کون ہے یا اس ڈسٹرکٹ کا کرتا دھرتا کون سی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتا ہے۔ مگر یہ سب جاننا اتنا ضروری ہی کیوں ہے؟ سب کے بالکل صحیح نام جاننے کا خبط - یہ تو کوئی دانائی نہیں۔ جبکہ جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں ، اس جگہ کی بنیادی - بدعنوانی اور کوتاہیاں - بدلی نہیں ہیں۔ "
" ایسا لگتا ہے جناب کہ آپ اپنی پیش کی جانے والی رہورٹ کا متن سوچ چکے ہیں ۔ " ایلچی محو ہو کر بولا۔
" یہ لوگوں کی درجہ بندی کرنے کی عادت ، اندر کا ، باہر کا ، اوپر کا ، نچے کا۔ اور جہاں تک تمھارا خیال ہے ، میں باہر کا ہوں۔ ایسے کیسے میں - ایک غیر ملکی اس جگہ سے صفر تعلق کے ساتھ - اس عظیم ملک کے بارے میں کچھ بھی سمجھ سکتا ہے؟ آخر مجھے رپورٹ بنانے کے لئے بلایا ہی کیوں گیا ہے ؟"
" نہیں جناب ، یہ اسی لئے تو کہ آپ سمجھ جائیں ۔" ایلچی نے کہا۔
جے کو ایلچی کا طنز سمجھ آنے لگا تھا۔ " تمھارے خیال میں یہ، سب کچھ جو میں کہہ رہا ہوں ، یہی سب میرے غیر ملکی ہونے کا ثبوت ہے " , جے نے کہا ، " جیسے مجھے اسی بات پر تائو دلایا جا رہا ہو - "
" ایسا کچھ زرا سا بھی نہیں ، جناب ۔" ایلچی نے کہا مگر جے کو یقین تھا کہ اُس نے ایلچی کی آنکھوں میں چمک دیکھی تھی۔
" ٹھیک ہے ، اپنے سفر کو جاری رکھو ۔" جے بولا۔
مگر جب وہ شہر میں ارد گرد گھوم رہے تھے ، جے کا غصہ بڑھتا گیا۔ اُسے یاد آیا کہ اس ملک سے وہ آخر گیا ہی کیوں تھا، اس غریب اور گرم ملک کے لوگ بہت خودہسند تھے جبکہ ان کی خودپسندی کی کوئی وجہ بھی ان کے پاس نہیں۔ سب کے سب حقیر اور بالادست تھے۔
میں کمبخت رپورٹ تو لکھ ہی دوں گا، اُس نے سوچا۔ اور وہ کمبخت رپورٹ بالکل منفی ہو گی۔
رات کے درمیانے پہر میں ، جبکہ ایچی سو رہا تھا اُس کے پاس کال آئی.
" میں جان گیا ہوں ! " دوسری طرف سے چیختی آواز آئی، " مجھے پتہ ہے ! وہ یہ سب ہر غیر ملکی صحافی سے نہیں کہتے، صرف مجھ جیسوں سے جو یہاں سے گئے ہیں ۔ "
اپنی تمام تر برداشت کو بروئے کار لا کر ، سوتے ہوئے ایلچی نے کہا ، " شاید وہ محسوس کرتے ہوں کہ آپ ہمارے حقیر ملک سے بہت آگے بڑھ گئے ہیں، جناب۔"
" نہیں ، نہیں ، بالکل بھی نہیں ! وہ سب غصہ ہیں۔ غصہ کہ میں اس جگہ سے نکل سکا ہوں ۔ وہ مجھے واپس کھینچ لینا چاہتے ہیں !"
" یہ دورہ آپ کے اندر کے دیرینہ جذبات کو ابھار رہا ہے، جناب ،" ایلچی نے کہا۔
" تم سب کے سب خونخوار ہو ! "
پھر فون پٹخ دیا گیا۔
" یہ کون تھا ؟ " ایلچی کی بیوی نے پوچھا۔
" کوئی غیر ملکی صحافی ۔"
" اوہ ،" وہ بولی
" مگر وہ یہاں ہی پلا بڑھا ہے ۔"
ایلچی نے بتایا۔
" اف،" وہ بولی۔
" اور وہ غصہ میں ہے کہ لوگ اُسے مقامی نہیں سمجھ رہے۔"
" یہ شاید واحد بندہ ہے جس کے لئے میں نے سُنا کہ وہ یہاں کا مقامی سمجھا جانا چاہتا ہے۔" وہ پھر گویا ہوئی۔
دونوں ہنسے۔
" شب بخیر ،" ایلچی نے کہا۔
" شب بخیر ۔" بیوی بولی۔
پھر ، اچانک ایلچی اُٹھ کر بیٹھ گیا۔
" کیا واقعی تم ہمارے ملک کے بارے میں یہی سمجھتی ہو ؟ "
* * * * * * *
(origniginal text)
The Attaché’s Wife
Karan Mahajan
Everywhere J traveled in the country with the government press attaché, people would turn to the attaché and say, ‘But you should explain the background to him, after all he’s not from here.’
One day, exasperated, J said to the attaché, ‘Will you tell me why people keep acting this way with me? Do they sense something about how I walk? My clothes? My accent hasn’t changed at all since I left.’
The attaché smiled. ‘But they know you live abroad.’
J, an internationally syndicated columnist, had been invited by the government to write a report about the country’s progress.
‘But does that mean,’ J said, ‘does that mean I’ve lost my connection to the country, that I’m not capable of understanding it? After all, I’m from here. I grew up here. In fact, that’s why the government invited me back for this work.’
The attaché said, ‘That’s a good point,’ though he clearly didn’t believe that.
J couldn’t let it go. ‘Millions of our people live abroad. Is this how you want them to feel?’
‘But there are certain things, sir, only a local –’ The attaché held his tongue.
‘But that’s what I’m saying. What is this magical thing I don’t understand? OK, fine: I’m not aware of the name of the latest cricketer or whatever sidey politician is in charge of this district. But why is that even important? This obsession with proper nouns – that’s not wisdom. As far as I can tell, the basics of the place – the corruption, the pettiness – have not changed.’
‘It seems like you have decided on the content of your report, sir,’ the attaché mused.
‘This habit of putting people in categories. Inside, outside; upstairs, downstairs. And as far as you’re concerned, I’m outside. How could I – some foreigner with zero connection to this place – possibly understand anything about this great country? Why even invite me to make a report?’
‘No, sir, it’s so you can understand,’ the attaché said.
J was beginning to comprehend the attaché’s humor. ‘You think this, all this that I’m saying, it’s proof of being a foreigner,’ J said, ‘getting bent out of shape like this –’
‘Not in the slightest, sir,’ the attaché said, but J could swear he saw his eyes twinkling.
‘OK, let’s continue on our tour,’ J said.
But as they drove around the city, J got angrier. He remembered now why he’d left in the first place: the people of this poor hot country were smug when they had nothing to be smug about. They were petty and possessive.
I’ll write the damn report, he thought. And it’ll be damn negative.
In the middle of the night, when the attaché was asleep, he received a call.
‘I knew it!’ the voice on the other end was shouting. ‘I knew it! They don’t say this to foreign journalists, only to people like me who left!’
After getting his bearings, the attaché said sleepily, ‘Perhaps they feel you’ve outgrown our little country, sir.’
‘No, no, no, not at all! They’re angry. Angry that I got away from this place. They want to pull me down!’
‘The visit is arousing feelings for you, sir,’ the attaché said.
‘All you bloody people are!’
Then the phone was slammed down.
‘Who was that?’ the attaché’s wife asked.
‘Some foreign journalist.’
‘Oh,’ she said.
‘But he grew up here,’ the attaché said.
‘Ooof,’ she said.
‘And he’s angry people don’t treat him like he’s from here.’
‘He might be the first person I’ve heard of who wants to be from here,’ she said.
They both snickered.
‘Goodnight,’ he said.
‘Goodnight,’ she said.
Then, suddenly, the attaché got up. ‘Is that really what you think of our country?’
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیدبان شمارہ ۔ ۲۰ اور ۲۱
افسانہ:ایلچی کی بیوی
افسانہ نگار:کرن ماہاجن ، انڈیا
ترجمہ نگار -ہاجرہ ریحان
ملک میں جہاں کہیں کا بھی جے نے سرکاری پریس کے ایلچی کے ساتھ سفر کیا، لوگ ایلچی کی طرف جھک کر ایک ہی بات کہتے ،
" مگر تم کو اسے سارا پس منظر سمجھا دینا چاہئے ، بہرحال یہ یہاں سے تعلق نہیں رکھتا ناں ۔"
ایک دن ، پرانگیختہ جے نے ایلچی سے کہا ،
" کیا تم بتائو گے کہ لوگ میرے ساتھ ایسا سلوک کیوں کر رہے ہیں ؟ کیا اُن کو میرے چلنے کے انداز میں کچھ محسوس ہوا ہے ؟ میرے پیرہن میں ؟ میرا لب و لہجہ تو بالکل نہیں بدلا ویسا ہی ہے جیسا میں یہاں سے گیا تھا"۔
ایلچی مسکرایا ، " مگر یہ لوگ جانتے ہیں کہ آپ بیرون ِ ملک رہتے ہیں ۔"
جے ، بین الاقوامی اخبارات کا شہرت یافتہ کالم نگار ،. صحافی سرکاری دعوت پر ملک کی مجموعی پیش رفت پر رپوٹ لکھنے آیا ہوا تھا۔
" مگر کیا اس کا مطلب ہے ، " جے بولا ، " کیا اس کا مطلب ہے کہ میرا اس ملک سے تعلق ہی ختم ہو گیا ہے ، اب میں اس کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ؟ بہرحال میں یہیں کا ہوں ۔ میں یہاں پروان چڑھا ہوں۔ حقیقت میں اسی لئے تو سرکار نے مجھے یہاں واپس بلا کر یہ کام سونپا ہے۔"
ایلچی نے کہا ، " یہ اچھا نقطہ ہے " ، حالانکہ صاف ظاہر تھا کہ وہ اس پر یقین نہیں کر سکا تھا۔
جے نے بھی معاملے کو جانے نہیں دیا ۔ " ہمارے لاکھوں لوگ بیرون ِ ملک رہتے ہیں۔ کیا تم اُن سب کو بھی اسی طرح محسوس کرانا چاہتے ہو؟ "
" مگر کچھ ایسی چیزیں ہوتی ہیں جناب جو صرف مقامی ہی ۔ ۔ ۔ " ایلچی بات ادھوری چھوڑ کر خاموش ہو گیا ۔
" مگر میں بھی تو یہی کہہ رہا ہوں۔ یہ ایسی کیا جادوئی چیز ہے جو میں نہیں سمجھ سکتا؟ اچھا چلو ٹھیک ہے مجھے نہیں معلوم کہ یہاں حالیہ مشہور کریکٹر کون ہے یا اس ڈسٹرکٹ کا کرتا دھرتا کون سی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتا ہے۔ مگر یہ سب جاننا اتنا ضروری ہی کیوں ہے؟ سب کے بالکل صحیح نام جاننے کا خبط - یہ تو کوئی دانائی نہیں۔ جبکہ جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں ، اس جگہ کی بنیادی - بدعنوانی اور کوتاہیاں - بدلی نہیں ہیں۔ "
" ایسا لگتا ہے جناب کہ آپ اپنی پیش کی جانے والی رہورٹ کا متن سوچ چکے ہیں ۔ " ایلچی محو ہو کر بولا۔
" یہ لوگوں کی درجہ بندی کرنے کی عادت ، اندر کا ، باہر کا ، اوپر کا ، نچے کا۔ اور جہاں تک تمھارا خیال ہے ، میں باہر کا ہوں۔ ایسے کیسے میں - ایک غیر ملکی اس جگہ سے صفر تعلق کے ساتھ - اس عظیم ملک کے بارے میں کچھ بھی سمجھ سکتا ہے؟ آخر مجھے رپورٹ بنانے کے لئے بلایا ہی کیوں گیا ہے ؟"
" نہیں جناب ، یہ اسی لئے تو کہ آپ سمجھ جائیں ۔" ایلچی نے کہا۔
جے کو ایلچی کا طنز سمجھ آنے لگا تھا۔ " تمھارے خیال میں یہ، سب کچھ جو میں کہہ رہا ہوں ، یہی سب میرے غیر ملکی ہونے کا ثبوت ہے " , جے نے کہا ، " جیسے مجھے اسی بات پر تائو دلایا جا رہا ہو - "
" ایسا کچھ زرا سا بھی نہیں ، جناب ۔" ایلچی نے کہا مگر جے کو یقین تھا کہ اُس نے ایلچی کی آنکھوں میں چمک دیکھی تھی۔
" ٹھیک ہے ، اپنے سفر کو جاری رکھو ۔" جے بولا۔
مگر جب وہ شہر میں ارد گرد گھوم رہے تھے ، جے کا غصہ بڑھتا گیا۔ اُسے یاد آیا کہ اس ملک سے وہ آخر گیا ہی کیوں تھا، اس غریب اور گرم ملک کے لوگ بہت خودہسند تھے جبکہ ان کی خودپسندی کی کوئی وجہ بھی ان کے پاس نہیں۔ سب کے سب حقیر اور بالادست تھے۔
میں کمبخت رپورٹ تو لکھ ہی دوں گا، اُس نے سوچا۔ اور وہ کمبخت رپورٹ بالکل منفی ہو گی۔
رات کے درمیانے پہر میں ، جبکہ ایچی سو رہا تھا اُس کے پاس کال آئی.
" میں جان گیا ہوں ! " دوسری طرف سے چیختی آواز آئی، " مجھے پتہ ہے ! وہ یہ سب ہر غیر ملکی صحافی سے نہیں کہتے، صرف مجھ جیسوں سے جو یہاں سے گئے ہیں ۔ "
اپنی تمام تر برداشت کو بروئے کار لا کر ، سوتے ہوئے ایلچی نے کہا ، " شاید وہ محسوس کرتے ہوں کہ آپ ہمارے حقیر ملک سے بہت آگے بڑھ گئے ہیں، جناب۔"
" نہیں ، نہیں ، بالکل بھی نہیں ! وہ سب غصہ ہیں۔ غصہ کہ میں اس جگہ سے نکل سکا ہوں ۔ وہ مجھے واپس کھینچ لینا چاہتے ہیں !"
" یہ دورہ آپ کے اندر کے دیرینہ جذبات کو ابھار رہا ہے، جناب ،" ایلچی نے کہا۔
" تم سب کے سب خونخوار ہو ! "
پھر فون پٹخ دیا گیا۔
" یہ کون تھا ؟ " ایلچی کی بیوی نے پوچھا۔
" کوئی غیر ملکی صحافی ۔"
" اوہ ،" وہ بولی
" مگر وہ یہاں ہی پلا بڑھا ہے ۔"
ایلچی نے بتایا۔
" اف،" وہ بولی۔
" اور وہ غصہ میں ہے کہ لوگ اُسے مقامی نہیں سمجھ رہے۔"
" یہ شاید واحد بندہ ہے جس کے لئے میں نے سُنا کہ وہ یہاں کا مقامی سمجھا جانا چاہتا ہے۔" وہ پھر گویا ہوئی۔
دونوں ہنسے۔
" شب بخیر ،" ایلچی نے کہا۔
" شب بخیر ۔" بیوی بولی۔
پھر ، اچانک ایلچی اُٹھ کر بیٹھ گیا۔
" کیا واقعی تم ہمارے ملک کے بارے میں یہی سمجھتی ہو ؟ "
* * * * * * *
(origniginal text)
The Attaché’s Wife
Karan Mahajan
Everywhere J traveled in the country with the government press attaché, people would turn to the attaché and say, ‘But you should explain the background to him, after all he’s not from here.’
One day, exasperated, J said to the attaché, ‘Will you tell me why people keep acting this way with me? Do they sense something about how I walk? My clothes? My accent hasn’t changed at all since I left.’
The attaché smiled. ‘But they know you live abroad.’
J, an internationally syndicated columnist, had been invited by the government to write a report about the country’s progress.
‘But does that mean,’ J said, ‘does that mean I’ve lost my connection to the country, that I’m not capable of understanding it? After all, I’m from here. I grew up here. In fact, that’s why the government invited me back for this work.’
The attaché said, ‘That’s a good point,’ though he clearly didn’t believe that.
J couldn’t let it go. ‘Millions of our people live abroad. Is this how you want them to feel?’
‘But there are certain things, sir, only a local –’ The attaché held his tongue.
‘But that’s what I’m saying. What is this magical thing I don’t understand? OK, fine: I’m not aware of the name of the latest cricketer or whatever sidey politician is in charge of this district. But why is that even important? This obsession with proper nouns – that’s not wisdom. As far as I can tell, the basics of the place – the corruption, the pettiness – have not changed.’
‘It seems like you have decided on the content of your report, sir,’ the attaché mused.
‘This habit of putting people in categories. Inside, outside; upstairs, downstairs. And as far as you’re concerned, I’m outside. How could I – some foreigner with zero connection to this place – possibly understand anything about this great country? Why even invite me to make a report?’
‘No, sir, it’s so you can understand,’ the attaché said.
J was beginning to comprehend the attaché’s humor. ‘You think this, all this that I’m saying, it’s proof of being a foreigner,’ J said, ‘getting bent out of shape like this –’
‘Not in the slightest, sir,’ the attaché said, but J could swear he saw his eyes twinkling.
‘OK, let’s continue on our tour,’ J said.
But as they drove around the city, J got angrier. He remembered now why he’d left in the first place: the people of this poor hot country were smug when they had nothing to be smug about. They were petty and possessive.
I’ll write the damn report, he thought. And it’ll be damn negative.
In the middle of the night, when the attaché was asleep, he received a call.
‘I knew it!’ the voice on the other end was shouting. ‘I knew it! They don’t say this to foreign journalists, only to people like me who left!’
After getting his bearings, the attaché said sleepily, ‘Perhaps they feel you’ve outgrown our little country, sir.’
‘No, no, no, not at all! They’re angry. Angry that I got away from this place. They want to pull me down!’
‘The visit is arousing feelings for you, sir,’ the attaché said.
‘All you bloody people are!’
Then the phone was slammed down.
‘Who was that?’ the attaché’s wife asked.
‘Some foreign journalist.’
‘Oh,’ she said.
‘But he grew up here,’ the attaché said.
‘Ooof,’ she said.
‘And he’s angry people don’t treat him like he’s from here.’
‘He might be the first person I’ve heard of who wants to be from here,’ she said.
They both snickered.
‘Goodnight,’ he said.
‘Goodnight,’ she said.
Then, suddenly, the attaché got up. ‘Is that really what you think of our country?’
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔