ایک چپ سو دکھ
ایک چپ سو دکھ
Aug 9, 2018
ایک چپ سو دکھ
دیدبان شمارہ۔۸
اِک چُپ ، سو دُکھ
آدم شیر
ایک وقت آتا ہے جب کچھ بھی ٹھیک ٹھیک یاد نہیں رہتا اگرچہ کچھ نہ کچھ ہمیشہ یاد رہتا ہے اور وہ وقت مجھے ہمیشہ یاد رہا جب اُس نے مجھ سے کلام کیا تھا۔
یہ ایک تپتے دن کی تپش بھری شام تھی اور میں اس قہوہ خانے میں تھا جہاں لفظ ساز اکٹھے ہوتے ہیں اور خواب دیکھتے ہیں، خواب جو پیٹ کے تنور میں راکھ ہوتے ہیں، خواب جو عذاب ہوتے ہیں، خواب جو نجات ہوتے ہیں، خواب جو خیال ہوتے ہیں، خیال جو خواب ہوتے ہیں ، خواب اور خیال اور خواب ۔۔۔ کچھ پروانے خواب اور خیال کا وبال جھیلتے ہوئے بھی خواب دیکھتے رہتے ہیں، اُن کی تعظیم لازم ہے اور اُن پر پھٹکار بھی لازم ہے جو خواب خواب الاپ کر اوروں کے خواب سراب کر دیتے ہیں۔ خواب فروشوں کی موجودگی سے پیدا ہوئی نحوست دور کرنے کے لیے میں باہر کو بڑھا کہ سگریٹ کے دو چار کش لے سکوں، جیسے ہی دروازہ کھولا تو کیا دیکھا کہ دہلیز پر ایک بچہ پڑا ہے۔
پہلی نظر میں گندگی بھری گٹھڑی معلوم دی مگر وہ ایک بچہ تھا جس کا چہرہ گردِ زمانہ نے کچھ یوں سیاہ کر دیا تھاکہ سیاہی کی تہہ علیحدہ جمی نظر آتی تھی اور مجھے یقین ہے کہ اُس کا چہرہ اچھے سے صابن سے دھویا جاتا اور اس پر لوشن لگایا جاتا تو چمک چمک جاتا اور اُس کے بدن کے اوپری حصے پر جو کپڑا تھا وہ یقینا کبھی قمیص تھی اور شلوار کے نام پر بھی اُس نے کچھ لیرے باندھ رکھے تھے۔ میں دہلیز سے پرے کھڑا اُسے چند لمحے دیکھتا رہا، سگریٹ سلگایا اور دیکھتا رہا۔
قہوہ خانے کے اندر روشنی تھی اور باہر اندھیرا تھا اور مَیں اُس اندھیرے میں سوچ رہا تھا کہ کیا کروں؟ اُسے ہلایا، نہیں ہلا، پھر ہلایا، نہیں ہلا، تیسری بار ذرا زور سے ہلایا تو اُس کے منہ سے آواز نکلی مگر اُس نے جو کہا تھا وہ میں سن نہیں سکا تھا ۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ سات آٹھ سال کا بچہ یہاں کر کیا رہا ہے؟ دہلیز سے دو فٹ کے فاصلے پر ایک اور تھڑی ہے، بھلا اس پر سو جائے آرام سے، یوں دروازہ بار بار کھلنے سے نیند خراب ہوتی ہوگی۔ یہی سوچ کر میں نے اُسے اٹھا کر تھڑی پر لٹا دیا اور اُس کا کاغذ چننے والا تھیلا بھی اس کے پاس رکھ دیا اور خود دس فٹ کے فاصلے پر کھڑے ہو کر، منہ دوسری جانب کر کے ، ایک اور سگریٹ سلگا لیا جس کا ذائقہ کچھ موسم اور کچھ مزاج کی گرمی سے بدل چکا تھا۔
مجھے ٹھیک ٹھیک یاد نہیں کہ اُس وقت میرے ذہن میں کیا تھا اور مجھے کیا محسوس ہو رہا تھا۔ یہ ضرور یاد ہے کہ جب مَیں نے دوسرا سگریٹ آدھا پی کر بے زاری سے سڑک پر پھینکا اور واپس مڑا تو دیکھا کہ وہ دوبارہ دہلیز پر پڑا ہے۔ اُسے اُٹھا کر بٹھایا اور پوچھا کہ طبیعت ٹھیک ہے؟ ہاں۔۔۔ ٹھیک بتائی گئی اگرچہ ٹھیک نہیں تھی ۔ مَیں نے کچھ سوچ کر جیب سے پیسے نکالے اور سو روپے کا نوٹ اُس کی جیب میں ڈال دیا اور نوٹ ڈالنے سے پہلے میں نے اُس کی جیب ٹٹولی بھی تھی کہ کہیں پھٹی تو نہیں۔ اب میرے خیال میں اُسے کچھ کھانے پینے چلے جانا چاہئے تھا اور کہا بھی مگر وہ دوبارہ لیٹ گیا تو میں نے پوچھا کہ اب گھر کیوں نہیں جاتے؟
’’اماں آئے گی تے جاواں گا۔‘‘
’’اچھا۔۔۔ تو ایک طرف ہو کر سو جائو،وہاں اُس تھڑی پر ۔۔۔ دروازہ بار بار کھلنے سے نیند خراب ہوگی۔‘‘
’’ایتھے ٹھیک اے۔ دروازے تھلوں ٹھنڈی ہوا آندی اے۔‘‘
اور سناٹا چھا گیا ، گہرا سناٹا ۔۔۔ مجھے ٹھیک ٹھیک یاد نہیں کہ کتنی دیر مَیں سناٹے سے سُن رہا اور مجھے یہ بھی یاد نہیں کہ میں نے مڑ کر اسے دیکھا تھا یا نہیں۔ یہ ضرور یاد ہے کہ اُن دنوں بچے غائب ہونے کی خبریں بہت گرم تھیں۔
یوں مَیں نے تلخی کی ایک تہہ کھرچ کر اُس کے سامنے رکھ دی جس نے مجھ سے کلام کیا تھا اور خاموش ہو گیا، بڑی دیر خاموش رہا ، اتنی دیرخاموش رہا کہ میری خاموشی اُسے کھلنے لگی جس کا چہرہ مجھے ٹھیک ٹھیک یاد نہیں اور یہ بھی یاد نہیں کہ چہرہ دیکھا بھی تھا یا نہیں۔ اُس سمے اندھیرا بھی خوب تھا اور اُس کے گرد روشنی بھی بہت خوب تھی۔ اندھیرے اور اُجالے میں مَیں نے کیا دیکھا تھا ، مجھے ٹھیک ٹھیک یاد نہیں جو یاد ہے تو اُس کی آواز ۔۔۔ جسے بیان کرنا میرے لیے ممکن نہیں، اُسی آواز نے مجھے اکسایا کہ میں کچھ اور بات کروں مگر مَیں اس کے بعد اور کیا بات کرتا بھلا؟ سو میں خاموش رہا۔ وہ بھی تو خاموش رہتا ہے مگر اس وقت وہ بولا کہ میں بولوں، کچھ تو بولوں ،تو میں بولا۔
یہ ایک سرد دوپہر تھی ، اتنی سرد کہ بیان نہیں کی جا سکتی مگر بندۂ مزدور کو سردی کیا اور گرمی کیا، اُسے تو پیٹ کا تنور بھرنا ہی پڑتا ہے۔ تھوڑا سا چلنے پھرنے سے ناک بہا دینے والی یخ بستہ دوپہر میں مجھے موٹرسائیکل پر کام پر جانا پڑ رہا تھا اور جب مَیں ایک وزیر کی قیام گاہ کو جانے والی تنگ سڑک کو مڑا اور تھوڑا سا آگے بڑھا تو کیا دیکھا ؟ نہ دیکھتا تو اچھا تھا مگر میں نے دیکھا کہ ایک چھوٹا سا بچہ، جس کا ناف سے نچلا حصہ سارے کا سارا ننگا اور ناف سے اوپر شرٹ جو شرٹ کم چیتھڑا زیادہ تھی، کچرے کے چھوٹے سے ڈھیر کے ساتھ بیٹھا ہے اور کچھ کھا رہا ہے اور مَیں اُسے دیکھتے دیکھتے آگے بڑھ گیا مگر کچھ ہی دور جا کر موٹرسائیکل رُک گئی ۔ گھڑی دیکھی۔ دیر ہو رہی تھی۔
مجھے معافی مانگنے کی ضرورت نہیں اگرچہ تھوڑی سی شرمندگی ہے کہ میں اُس وقت الجھن میں پڑ گیا تھا کہ آگے جائوں یا پیچھے۔ وہ اتنی سخت سردی میں ننگا پڑنگا کیوں ہے؟ چند لمحوں کی کشمکش کے بعد میں مڑا اور اُس کے پاس جا کر موٹرسائیکل روک دی اور ذرا تحکمانہ انداز میں کہا۔
’’اوئے اٹھ ۔ ایتھے کیہ کر رہیا اے۔ گھر جا۔‘‘
مگر وہ بچہ جس کی عمر لگ بھگ دس سال تھی اور قد بھی عمر کے حساب سے ٹھیک تھا مگر دبلا پتلا اتنا کہ کسی قحط زدہ علاقے کا بھک مارا نظر آتا تھا اور زیادہ بھیانک بات یہ ہے کہ اُس کے دماغ کے کافی سارے پیچ ڈھیلے تھے۔ سوچا کہ یہ پیچ ڈھیلے کیوں ہیں؟ عامل کچھ کہے گا، مولوی کچھ کہے گا، ڈاکٹر کچھ اور کہے گا اور تم کچھ نہیں کہو گے مگر میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ وہ بچہ جس کا رنگ گورا تھا مگر نظر پیلا پیلا آتا تھا، میرے تحکمانہ لہجے کے جواب میں مسکرایا اور اُس نے کچرے سے کچھ اٹھایا اور میری طرف کھانے کو بڑھا دیا۔۔۔
’’بولتے جائو۔‘‘
اب بولنے کو کیا رہ گیا ہے؟ تم نے اس بچے کو وہاں ٹھٹھرتی دوپہر میں دیکھا اور چُپ رہے اور مجھے کہتے ہو کہ بولتا جائوں۔ یہ کیا مذاق ہے؟ تمہیں معلوم ہے کہ جب اُس نے کچرے سے کچھ اٹھایا اور میری طرف کھانے کو بڑھایا تو میرا جی چاہا کہ یہ دنیا بحرِہند میں غرق ہو جائے اور صرف وہ بچہ بچا رہے مگر مَیں۔۔۔ مَیںبے حد تُھڑ دِلا ہوں ۔ مَیں نے پھر کچھ پیسے دے کر بھاگ جانا چاہا اُس بہائو سے جو اُس نے ہاتھ بڑھا کر میری طرف بہایا تھا مگر نہیں بھاگ سکا کہ اسی اثنائ میں ایک تیرہ چودہ سالہ لڑکا رُکا اور بچے سے یوں مخاطب ہوا جوں جانتا ہو۔ مَیں نے لڑکے سے یہ پوچھا کہ یہ بچہ کہاں رہتا ہے تو اُس نے پچاس ساٹھ فٹ دور گلی کی طرف اشارہ کیا۔ بار بار اصرار پر لڑکے نے بچے کو میرے پیچھے موٹرسائیکل پر بٹھایا اور خود آگے آگے چل پڑا۔
’’آگے کیا ہوا؟‘‘
تُم کہتے ہو کہ تم جانتے ہو تو مان لو کہ اب میں اور کچھ نہیں بتائوں گا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ تم خاموش رہے۔ اور تم یہ بھی جانتے ہو کہ میں اُس بچے کو کچھ پیسے دے کر، دروازے پر چھوڑ کر ، بھاگ گیا تھا۔ ہاں میں بھاگ گیا تھا اور بھاگتے بھاگتے اُس بچے کے گھر سے پانچ منٹ کی پیدل مسافت پر وزیر کے بڑے سے محل کے بڑے سے دروازے پر تھوک گیا تھا اور مَیں جب تک اس راستے سے گزرتا رہا، اُس کے دروازے پر تھوکتا رہا۔
’’تو اس لیے تمہارے اندر نفرت کا کاڑھا اُبلتا رہتا ہے؟‘‘
’’میری نفرت ہی میری محبت ہے۔‘‘
’’وہ کیسے؟ ‘‘
’’تم جانتے ہو تو یہ سوال کیوں؟ ‘‘
’’سمجھانے کے لیے ۔ نفرت کی سمت درست کرنے کے لیے ۔ تو بتائو۔‘‘
’’کیا بتائوں؟ کیا دکھائوں ؟ ‘‘
’’جو جی چاہے بتائو، جو جی چاہے دکھائو۔‘‘
’’اچھا، پھر میں تمہیں اپنی یاد کے پردے پر نقش کچھ ایسا دکھاتا ہوں کہ ۔۔۔‘‘
اور مَیں نے اُسے ایک سات سالہ بچی دکھائی جس کی خالی آنکھوں میں وہ داستان بھری ہوئی تھی جو سننا چاہو تو سنی نہ جائے، نہ سننا چاہو تو اَن سنی نہ ہو، اُس کی انگلیاں ٹوٹی، کلائیاں کٹی، جبڑے تڑخے، ہونٹ پھٹے، ناک کی ہڈی پچکی، سینہ زخم زخم، ٹانگیں مڑی تڑی اور وہ گندے نالے میں بہہ رہی تھی، ساری دنیا بہہ رہی تھی۔ مَیں نے اُسے ایک اور لاش بھی دکھائی جو دن بھر روڑی پر پڑی رہی اور میں نے اُسے بچی کا باپ بھی دکھایا جو اپنے پرنے میں اپنی گڑیا سمیٹے ہسپتال جا رہا تھا کہ شاید زندہ ہو مگر وہ نہیں تھی۔ مَیں نے اُسے مَعْبَدمیں پنکھے سے جھولتا بچہ بھی دکھایا جس کے ماں باپ نے اپنے دوسرے بچوں کو بچانے کے لیے لوطیے کو معاف کر دیا تھا۔ مَیں نے اُسے درس گاہ میں قربانی کے بکروں کی طرح قربان کیے گئے بچے بھی دکھائے جن کے جنازوں پر کھڑے ہو کر کچھ لوگ اپنے قد بڑھانے میں مصروف تھے اور مَیں نے اُسے اور بھی بے شمار لاشیں دکھائیں، چھوٹی چھوٹی لاشیں، چھوٹے چھوٹے تابوت ۔۔۔ اور مَیں نے اُسے وہ آدمی بھی دکھائے جن کا انسانوں کی نسل سے کوئی تعلق نہیں اگرچہ وُہ انسانوں جیسے نظر آتے ہیں اور مَیں نے اُس سے پوچھا کہ یہ پاگل پن کس کی دین ہے؟
’’میری تو نہیں۔‘‘
’’تو کیا؟ تم یہ سب ختم تو کر سکتے ہو۔ ‘‘
وہ منہ سے کچھ نہ بولا تو مَیں نے اُسے اُکسانے کے لیے ایک دو سالہ بچہ دکھایا جو اپنے والد کے ساتھ بھرے بازار میں کھڑی گاڑی میں بیٹھا ہوا تھا اور من پسند کھلونا ملنے کے خیال سے اُس کا چہرہ چمک رہا تھا مگر ایک طرف سے وہ انسان آئے جن کا انسانوں سے کوئی تعلق نہیں۔ مَیں نے اُسے گولیاں چلانے والوں کے منہ سے نکلتے نعرے سنوائے اور مَیں نے اُسے تین گولیاں کھانے والے دو سالہ بچے کے بازو پر بندھا امام ضامن بھی دکھایا۔ مَیں نے اسے دس سالہ بچی سرِ بازار سر تا پا برہنہ دکھائی جس نے مالک زادے کا فرمان نہیں مانا تھا اور میں نے اُسے ایک آٹھ سالہ بچہ بھی بل کھاتی پگڈنڈیوں پر گھسٹتا ہوا دکھایا جسے گدھے کے پیچھے باندھا گیا تھا جس نے مکئی کا ایک بھٹا توڑنے کا گناہِ کبیرہ کیا تھا اور عبرت ناک سزائے موت پائی۔
مَیں نے اُسے اُس بچے کی لاش بھی دکھائی جو ماں کے پیٹ میں تھا اور اُس کی ماں کو نہ ناچنے پر گولی مار دی گئی تھی جو بچے کے دل کو جا لگی تھی۔ وُہ بھاگ سڑی مرتے مرتے بھی باجا بجانے والے جیون ساتھی کی بچت کر گئی کہ اُسے دو قبروں کے پیسے نہیں دینے پڑے۔ مَیں نے اُسے یہ بھی دکھایا کہ گائیکہ کی لاش تھانے پڑی ہے مگر پرچہ نہیں کٹا۔ لاش ایس پی کے دروازے پر پڑی ہے مگر پرچہ نہیں کٹا۔ لاش پریس کلب پہنچی تو پرچہ کٹا۔ یہ بھی ایک مسئلہ ہے کہ کوئی مسئلہ تب تک مسئلہ نہیں سمجھا جاتا جب تک میڈیا اسے مسئلہ بنا نہ دے اور جب میڈیا نے مسئلہ بنایا تو گولی چلانے والا پکڑا گیا اور مَیں نے اُس کی شکل پر صاف صاف لکھا دکھایا کہ وہ پہلے بھی انسانوں پر گولی چلا چکا ہے اور مَیں نے اُسے یہ بھی دکھایا کہ گولی چلوانے والا سؤرآرام سے قاضی کی منشی گیری کرتا رہا اور مَیں نے یہ پیشگوئی بھی کر دی کہ سلاخوں کے پیچھے نظر آنے والا مکروہ چہرہ کسی بھی وقت سلاخوں کے سامنے فتح کا نشان بنائے مسکراتا دکھائی دے گا۔ اُس نے میری پیشین گوئی پوری ہونے نہ ہونے کے متعلق کچھ نہ کہا تو مَیں نے زہر خند مسکراہٹ پیش کرتے ہوئے وہ لوگ دکھائے جو کہہ رہے تھے کہ صبر کرو ۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ مجھے یقین تھا کہ یہ دیکھ کر وہ ضرور بولے گا جیسے مجھے یقین تھا کہ وہ نعرے سن کر بولے گا مگر وہ خاموش رہا، ایک لفظ تک نہ بولا، بس میری طرف انگلی اٹھائی ، افسوس میں اُس کا اشارہ ٹھیک ٹھیک سمجھ نہ پایا اور یوں مَیں اور بھی جھنجھلا گیا۔
ایک وقت آتا ہے جب کچھ بھی ٹھیک ٹھیک یاد نہیں رہتا اگرچہ کچھ نہ کچھ ہمیشہ یاد رہتا ہے سو مجھے ٹھیک ٹھیک یاد نہیں کہ مَیں اُسے اور کیا کیا کہتا رہا مگر یہ ٹھیک ٹھیک یاد ہے کہ وُہ خاموش رہا اور پھر میں نے بھی چُپ تان لی اور یہ چُپ اتنی گہری اور لمبی ہوئی کہ ہر سُو چُپ ہی چُپ رہ گئی۔ اسی چُپ میں مَیں گُم ہو گیا اور وہ بھی اوروہ سارے بچے بھی جو دیکھے اور دکھائے مگر قہوہ خانے کی دہلیز پر ٹھنڈی ہوا کے سراب میں ایک اور گٹھڑی بنا بچہ خواب دیکھ رہا تھا۔
âیہ افسانہ صائمہ شاہ کی نذر ہے جن سے مکالمہ اس افسانے کا محرک بنا۔اکتیس مئی دو ہزار اٹھارہ عیسویá
انتیس جولائی دو ہزارہ اٹھارہ کو حلقہ اربابِ ذوق لاہور کے اجلاس میں زیرصدارت ڈاکٹر سعادت سعید تنقید کے لیے پیش کیا گیا۔
دیدبان شمارہ۔۸
اِک چُپ ، سو دُکھ
آدم شیر
ایک وقت آتا ہے جب کچھ بھی ٹھیک ٹھیک یاد نہیں رہتا اگرچہ کچھ نہ کچھ ہمیشہ یاد رہتا ہے اور وہ وقت مجھے ہمیشہ یاد رہا جب اُس نے مجھ سے کلام کیا تھا۔
یہ ایک تپتے دن کی تپش بھری شام تھی اور میں اس قہوہ خانے میں تھا جہاں لفظ ساز اکٹھے ہوتے ہیں اور خواب دیکھتے ہیں، خواب جو پیٹ کے تنور میں راکھ ہوتے ہیں، خواب جو عذاب ہوتے ہیں، خواب جو نجات ہوتے ہیں، خواب جو خیال ہوتے ہیں، خیال جو خواب ہوتے ہیں ، خواب اور خیال اور خواب ۔۔۔ کچھ پروانے خواب اور خیال کا وبال جھیلتے ہوئے بھی خواب دیکھتے رہتے ہیں، اُن کی تعظیم لازم ہے اور اُن پر پھٹکار بھی لازم ہے جو خواب خواب الاپ کر اوروں کے خواب سراب کر دیتے ہیں۔ خواب فروشوں کی موجودگی سے پیدا ہوئی نحوست دور کرنے کے لیے میں باہر کو بڑھا کہ سگریٹ کے دو چار کش لے سکوں، جیسے ہی دروازہ کھولا تو کیا دیکھا کہ دہلیز پر ایک بچہ پڑا ہے۔
پہلی نظر میں گندگی بھری گٹھڑی معلوم دی مگر وہ ایک بچہ تھا جس کا چہرہ گردِ زمانہ نے کچھ یوں سیاہ کر دیا تھاکہ سیاہی کی تہہ علیحدہ جمی نظر آتی تھی اور مجھے یقین ہے کہ اُس کا چہرہ اچھے سے صابن سے دھویا جاتا اور اس پر لوشن لگایا جاتا تو چمک چمک جاتا اور اُس کے بدن کے اوپری حصے پر جو کپڑا تھا وہ یقینا کبھی قمیص تھی اور شلوار کے نام پر بھی اُس نے کچھ لیرے باندھ رکھے تھے۔ میں دہلیز سے پرے کھڑا اُسے چند لمحے دیکھتا رہا، سگریٹ سلگایا اور دیکھتا رہا۔
قہوہ خانے کے اندر روشنی تھی اور باہر اندھیرا تھا اور مَیں اُس اندھیرے میں سوچ رہا تھا کہ کیا کروں؟ اُسے ہلایا، نہیں ہلا، پھر ہلایا، نہیں ہلا، تیسری بار ذرا زور سے ہلایا تو اُس کے منہ سے آواز نکلی مگر اُس نے جو کہا تھا وہ میں سن نہیں سکا تھا ۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ سات آٹھ سال کا بچہ یہاں کر کیا رہا ہے؟ دہلیز سے دو فٹ کے فاصلے پر ایک اور تھڑی ہے، بھلا اس پر سو جائے آرام سے، یوں دروازہ بار بار کھلنے سے نیند خراب ہوتی ہوگی۔ یہی سوچ کر میں نے اُسے اٹھا کر تھڑی پر لٹا دیا اور اُس کا کاغذ چننے والا تھیلا بھی اس کے پاس رکھ دیا اور خود دس فٹ کے فاصلے پر کھڑے ہو کر، منہ دوسری جانب کر کے ، ایک اور سگریٹ سلگا لیا جس کا ذائقہ کچھ موسم اور کچھ مزاج کی گرمی سے بدل چکا تھا۔
مجھے ٹھیک ٹھیک یاد نہیں کہ اُس وقت میرے ذہن میں کیا تھا اور مجھے کیا محسوس ہو رہا تھا۔ یہ ضرور یاد ہے کہ جب مَیں نے دوسرا سگریٹ آدھا پی کر بے زاری سے سڑک پر پھینکا اور واپس مڑا تو دیکھا کہ وہ دوبارہ دہلیز پر پڑا ہے۔ اُسے اُٹھا کر بٹھایا اور پوچھا کہ طبیعت ٹھیک ہے؟ ہاں۔۔۔ ٹھیک بتائی گئی اگرچہ ٹھیک نہیں تھی ۔ مَیں نے کچھ سوچ کر جیب سے پیسے نکالے اور سو روپے کا نوٹ اُس کی جیب میں ڈال دیا اور نوٹ ڈالنے سے پہلے میں نے اُس کی جیب ٹٹولی بھی تھی کہ کہیں پھٹی تو نہیں۔ اب میرے خیال میں اُسے کچھ کھانے پینے چلے جانا چاہئے تھا اور کہا بھی مگر وہ دوبارہ لیٹ گیا تو میں نے پوچھا کہ اب گھر کیوں نہیں جاتے؟
’’اماں آئے گی تے جاواں گا۔‘‘
’’اچھا۔۔۔ تو ایک طرف ہو کر سو جائو،وہاں اُس تھڑی پر ۔۔۔ دروازہ بار بار کھلنے سے نیند خراب ہوگی۔‘‘
’’ایتھے ٹھیک اے۔ دروازے تھلوں ٹھنڈی ہوا آندی اے۔‘‘
اور سناٹا چھا گیا ، گہرا سناٹا ۔۔۔ مجھے ٹھیک ٹھیک یاد نہیں کہ کتنی دیر مَیں سناٹے سے سُن رہا اور مجھے یہ بھی یاد نہیں کہ میں نے مڑ کر اسے دیکھا تھا یا نہیں۔ یہ ضرور یاد ہے کہ اُن دنوں بچے غائب ہونے کی خبریں بہت گرم تھیں۔
یوں مَیں نے تلخی کی ایک تہہ کھرچ کر اُس کے سامنے رکھ دی جس نے مجھ سے کلام کیا تھا اور خاموش ہو گیا، بڑی دیر خاموش رہا ، اتنی دیرخاموش رہا کہ میری خاموشی اُسے کھلنے لگی جس کا چہرہ مجھے ٹھیک ٹھیک یاد نہیں اور یہ بھی یاد نہیں کہ چہرہ دیکھا بھی تھا یا نہیں۔ اُس سمے اندھیرا بھی خوب تھا اور اُس کے گرد روشنی بھی بہت خوب تھی۔ اندھیرے اور اُجالے میں مَیں نے کیا دیکھا تھا ، مجھے ٹھیک ٹھیک یاد نہیں جو یاد ہے تو اُس کی آواز ۔۔۔ جسے بیان کرنا میرے لیے ممکن نہیں، اُسی آواز نے مجھے اکسایا کہ میں کچھ اور بات کروں مگر مَیں اس کے بعد اور کیا بات کرتا بھلا؟ سو میں خاموش رہا۔ وہ بھی تو خاموش رہتا ہے مگر اس وقت وہ بولا کہ میں بولوں، کچھ تو بولوں ،تو میں بولا۔
یہ ایک سرد دوپہر تھی ، اتنی سرد کہ بیان نہیں کی جا سکتی مگر بندۂ مزدور کو سردی کیا اور گرمی کیا، اُسے تو پیٹ کا تنور بھرنا ہی پڑتا ہے۔ تھوڑا سا چلنے پھرنے سے ناک بہا دینے والی یخ بستہ دوپہر میں مجھے موٹرسائیکل پر کام پر جانا پڑ رہا تھا اور جب مَیں ایک وزیر کی قیام گاہ کو جانے والی تنگ سڑک کو مڑا اور تھوڑا سا آگے بڑھا تو کیا دیکھا ؟ نہ دیکھتا تو اچھا تھا مگر میں نے دیکھا کہ ایک چھوٹا سا بچہ، جس کا ناف سے نچلا حصہ سارے کا سارا ننگا اور ناف سے اوپر شرٹ جو شرٹ کم چیتھڑا زیادہ تھی، کچرے کے چھوٹے سے ڈھیر کے ساتھ بیٹھا ہے اور کچھ کھا رہا ہے اور مَیں اُسے دیکھتے دیکھتے آگے بڑھ گیا مگر کچھ ہی دور جا کر موٹرسائیکل رُک گئی ۔ گھڑی دیکھی۔ دیر ہو رہی تھی۔
مجھے معافی مانگنے کی ضرورت نہیں اگرچہ تھوڑی سی شرمندگی ہے کہ میں اُس وقت الجھن میں پڑ گیا تھا کہ آگے جائوں یا پیچھے۔ وہ اتنی سخت سردی میں ننگا پڑنگا کیوں ہے؟ چند لمحوں کی کشمکش کے بعد میں مڑا اور اُس کے پاس جا کر موٹرسائیکل روک دی اور ذرا تحکمانہ انداز میں کہا۔
’’اوئے اٹھ ۔ ایتھے کیہ کر رہیا اے۔ گھر جا۔‘‘
مگر وہ بچہ جس کی عمر لگ بھگ دس سال تھی اور قد بھی عمر کے حساب سے ٹھیک تھا مگر دبلا پتلا اتنا کہ کسی قحط زدہ علاقے کا بھک مارا نظر آتا تھا اور زیادہ بھیانک بات یہ ہے کہ اُس کے دماغ کے کافی سارے پیچ ڈھیلے تھے۔ سوچا کہ یہ پیچ ڈھیلے کیوں ہیں؟ عامل کچھ کہے گا، مولوی کچھ کہے گا، ڈاکٹر کچھ اور کہے گا اور تم کچھ نہیں کہو گے مگر میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ وہ بچہ جس کا رنگ گورا تھا مگر نظر پیلا پیلا آتا تھا، میرے تحکمانہ لہجے کے جواب میں مسکرایا اور اُس نے کچرے سے کچھ اٹھایا اور میری طرف کھانے کو بڑھا دیا۔۔۔
’’بولتے جائو۔‘‘
اب بولنے کو کیا رہ گیا ہے؟ تم نے اس بچے کو وہاں ٹھٹھرتی دوپہر میں دیکھا اور چُپ رہے اور مجھے کہتے ہو کہ بولتا جائوں۔ یہ کیا مذاق ہے؟ تمہیں معلوم ہے کہ جب اُس نے کچرے سے کچھ اٹھایا اور میری طرف کھانے کو بڑھایا تو میرا جی چاہا کہ یہ دنیا بحرِہند میں غرق ہو جائے اور صرف وہ بچہ بچا رہے مگر مَیں۔۔۔ مَیںبے حد تُھڑ دِلا ہوں ۔ مَیں نے پھر کچھ پیسے دے کر بھاگ جانا چاہا اُس بہائو سے جو اُس نے ہاتھ بڑھا کر میری طرف بہایا تھا مگر نہیں بھاگ سکا کہ اسی اثنائ میں ایک تیرہ چودہ سالہ لڑکا رُکا اور بچے سے یوں مخاطب ہوا جوں جانتا ہو۔ مَیں نے لڑکے سے یہ پوچھا کہ یہ بچہ کہاں رہتا ہے تو اُس نے پچاس ساٹھ فٹ دور گلی کی طرف اشارہ کیا۔ بار بار اصرار پر لڑکے نے بچے کو میرے پیچھے موٹرسائیکل پر بٹھایا اور خود آگے آگے چل پڑا۔
’’آگے کیا ہوا؟‘‘
تُم کہتے ہو کہ تم جانتے ہو تو مان لو کہ اب میں اور کچھ نہیں بتائوں گا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ تم خاموش رہے۔ اور تم یہ بھی جانتے ہو کہ میں اُس بچے کو کچھ پیسے دے کر، دروازے پر چھوڑ کر ، بھاگ گیا تھا۔ ہاں میں بھاگ گیا تھا اور بھاگتے بھاگتے اُس بچے کے گھر سے پانچ منٹ کی پیدل مسافت پر وزیر کے بڑے سے محل کے بڑے سے دروازے پر تھوک گیا تھا اور مَیں جب تک اس راستے سے گزرتا رہا، اُس کے دروازے پر تھوکتا رہا۔
’’تو اس لیے تمہارے اندر نفرت کا کاڑھا اُبلتا رہتا ہے؟‘‘
’’میری نفرت ہی میری محبت ہے۔‘‘
’’وہ کیسے؟ ‘‘
’’تم جانتے ہو تو یہ سوال کیوں؟ ‘‘
’’سمجھانے کے لیے ۔ نفرت کی سمت درست کرنے کے لیے ۔ تو بتائو۔‘‘
’’کیا بتائوں؟ کیا دکھائوں ؟ ‘‘
’’جو جی چاہے بتائو، جو جی چاہے دکھائو۔‘‘
’’اچھا، پھر میں تمہیں اپنی یاد کے پردے پر نقش کچھ ایسا دکھاتا ہوں کہ ۔۔۔‘‘
اور مَیں نے اُسے ایک سات سالہ بچی دکھائی جس کی خالی آنکھوں میں وہ داستان بھری ہوئی تھی جو سننا چاہو تو سنی نہ جائے، نہ سننا چاہو تو اَن سنی نہ ہو، اُس کی انگلیاں ٹوٹی، کلائیاں کٹی، جبڑے تڑخے، ہونٹ پھٹے، ناک کی ہڈی پچکی، سینہ زخم زخم، ٹانگیں مڑی تڑی اور وہ گندے نالے میں بہہ رہی تھی، ساری دنیا بہہ رہی تھی۔ مَیں نے اُسے ایک اور لاش بھی دکھائی جو دن بھر روڑی پر پڑی رہی اور میں نے اُسے بچی کا باپ بھی دکھایا جو اپنے پرنے میں اپنی گڑیا سمیٹے ہسپتال جا رہا تھا کہ شاید زندہ ہو مگر وہ نہیں تھی۔ مَیں نے اُسے مَعْبَدمیں پنکھے سے جھولتا بچہ بھی دکھایا جس کے ماں باپ نے اپنے دوسرے بچوں کو بچانے کے لیے لوطیے کو معاف کر دیا تھا۔ مَیں نے اُسے درس گاہ میں قربانی کے بکروں کی طرح قربان کیے گئے بچے بھی دکھائے جن کے جنازوں پر کھڑے ہو کر کچھ لوگ اپنے قد بڑھانے میں مصروف تھے اور مَیں نے اُسے اور بھی بے شمار لاشیں دکھائیں، چھوٹی چھوٹی لاشیں، چھوٹے چھوٹے تابوت ۔۔۔ اور مَیں نے اُسے وہ آدمی بھی دکھائے جن کا انسانوں کی نسل سے کوئی تعلق نہیں اگرچہ وُہ انسانوں جیسے نظر آتے ہیں اور مَیں نے اُس سے پوچھا کہ یہ پاگل پن کس کی دین ہے؟
’’میری تو نہیں۔‘‘
’’تو کیا؟ تم یہ سب ختم تو کر سکتے ہو۔ ‘‘
وہ منہ سے کچھ نہ بولا تو مَیں نے اُسے اُکسانے کے لیے ایک دو سالہ بچہ دکھایا جو اپنے والد کے ساتھ بھرے بازار میں کھڑی گاڑی میں بیٹھا ہوا تھا اور من پسند کھلونا ملنے کے خیال سے اُس کا چہرہ چمک رہا تھا مگر ایک طرف سے وہ انسان آئے جن کا انسانوں سے کوئی تعلق نہیں۔ مَیں نے اُسے گولیاں چلانے والوں کے منہ سے نکلتے نعرے سنوائے اور مَیں نے اُسے تین گولیاں کھانے والے دو سالہ بچے کے بازو پر بندھا امام ضامن بھی دکھایا۔ مَیں نے اسے دس سالہ بچی سرِ بازار سر تا پا برہنہ دکھائی جس نے مالک زادے کا فرمان نہیں مانا تھا اور میں نے اُسے ایک آٹھ سالہ بچہ بھی بل کھاتی پگڈنڈیوں پر گھسٹتا ہوا دکھایا جسے گدھے کے پیچھے باندھا گیا تھا جس نے مکئی کا ایک بھٹا توڑنے کا گناہِ کبیرہ کیا تھا اور عبرت ناک سزائے موت پائی۔
مَیں نے اُسے اُس بچے کی لاش بھی دکھائی جو ماں کے پیٹ میں تھا اور اُس کی ماں کو نہ ناچنے پر گولی مار دی گئی تھی جو بچے کے دل کو جا لگی تھی۔ وُہ بھاگ سڑی مرتے مرتے بھی باجا بجانے والے جیون ساتھی کی بچت کر گئی کہ اُسے دو قبروں کے پیسے نہیں دینے پڑے۔ مَیں نے اُسے یہ بھی دکھایا کہ گائیکہ کی لاش تھانے پڑی ہے مگر پرچہ نہیں کٹا۔ لاش ایس پی کے دروازے پر پڑی ہے مگر پرچہ نہیں کٹا۔ لاش پریس کلب پہنچی تو پرچہ کٹا۔ یہ بھی ایک مسئلہ ہے کہ کوئی مسئلہ تب تک مسئلہ نہیں سمجھا جاتا جب تک میڈیا اسے مسئلہ بنا نہ دے اور جب میڈیا نے مسئلہ بنایا تو گولی چلانے والا پکڑا گیا اور مَیں نے اُس کی شکل پر صاف صاف لکھا دکھایا کہ وہ پہلے بھی انسانوں پر گولی چلا چکا ہے اور مَیں نے اُسے یہ بھی دکھایا کہ گولی چلوانے والا سؤرآرام سے قاضی کی منشی گیری کرتا رہا اور مَیں نے یہ پیشگوئی بھی کر دی کہ سلاخوں کے پیچھے نظر آنے والا مکروہ چہرہ کسی بھی وقت سلاخوں کے سامنے فتح کا نشان بنائے مسکراتا دکھائی دے گا۔ اُس نے میری پیشین گوئی پوری ہونے نہ ہونے کے متعلق کچھ نہ کہا تو مَیں نے زہر خند مسکراہٹ پیش کرتے ہوئے وہ لوگ دکھائے جو کہہ رہے تھے کہ صبر کرو ۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ مجھے یقین تھا کہ یہ دیکھ کر وہ ضرور بولے گا جیسے مجھے یقین تھا کہ وہ نعرے سن کر بولے گا مگر وہ خاموش رہا، ایک لفظ تک نہ بولا، بس میری طرف انگلی اٹھائی ، افسوس میں اُس کا اشارہ ٹھیک ٹھیک سمجھ نہ پایا اور یوں مَیں اور بھی جھنجھلا گیا۔
ایک وقت آتا ہے جب کچھ بھی ٹھیک ٹھیک یاد نہیں رہتا اگرچہ کچھ نہ کچھ ہمیشہ یاد رہتا ہے سو مجھے ٹھیک ٹھیک یاد نہیں کہ مَیں اُسے اور کیا کیا کہتا رہا مگر یہ ٹھیک ٹھیک یاد ہے کہ وُہ خاموش رہا اور پھر میں نے بھی چُپ تان لی اور یہ چُپ اتنی گہری اور لمبی ہوئی کہ ہر سُو چُپ ہی چُپ رہ گئی۔ اسی چُپ میں مَیں گُم ہو گیا اور وہ بھی اوروہ سارے بچے بھی جو دیکھے اور دکھائے مگر قہوہ خانے کی دہلیز پر ٹھنڈی ہوا کے سراب میں ایک اور گٹھڑی بنا بچہ خواب دیکھ رہا تھا۔
âیہ افسانہ صائمہ شاہ کی نذر ہے جن سے مکالمہ اس افسانے کا محرک بنا۔اکتیس مئی دو ہزار اٹھارہ عیسویá
انتیس جولائی دو ہزارہ اٹھارہ کو حلقہ اربابِ ذوق لاہور کے اجلاس میں زیرصدارت ڈاکٹر سعادت سعید تنقید کے لیے پیش کیا گیا۔