اُردونظم کا ارتقاء
اُردونظم کا ارتقاء
Mar 15, 2021
اُردونظم کا ارتقاء
تحریر : عشرت معین سیما
ناقدین ادب کے یہاں اردو شاعری میں نظم کی حیثیت اور اشکال ہمیشہ موضوعِ گفتگو رہی ہے۔ تاریخی حوالے سے اس کے ارتقاء کا جائزہ لیا جائے تو اُردو کے پہلے نظم گو شاعر امیر خسرو ہیں۔ امیر خسرو کے بعد سلطان محمد قلی قطب شاہ نے ایسا کام کیا جسے نظموں کے سوا کچھ اور کہنا مناسب نہ ہوگا۔انہوں نے نظم کے حوالے سے مختلف مثنویوں کو مختصر اور طویل انداز میں پیش کیا جو روایتی انداز میں بطور قصہ لکھی گئی تھیں۔ اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ سب سے پہلے اردو نظم نگاری کی ابتداء کے شواہد ہمیں ہندوستان کی سر زمین دکن ہی سے ملتے ہیں جہاں مذہبی اور صوفیانہ نظموں کی شکل میں اردو نظم کے ابتدائی نقوش نظر آتے ہیں نمایاں شکل میں موجود ہیں اور درحقیقت یہ ہی اردو نظم کا ابتدائی دور شمار کیا جاتا ہے۔ یہاں مختصر مثنویوں کی شکل میں مذہبی یا صوفیانہ نظمیں ملنے لگیں۔ لیکن ناقدین کی نظر میں نظیر اکبر آبادی نے آدمی نامہ لکھ کر اردو نظم کی اصل صورت پر ایک مہر ثبت کر دی ہے۔ جہاں ایک مضمون کو نہایت روانی کے ساتھ درجہ بہ درجہ زیر بند کر کے پیش کیا گیا ہے۔ الفاظ و القاب کا چناؤ نہایت چست ہے اور مضمون کے گرد نہایت پختہ انداز میں قافیہ بندی کرتا ہوا نظم کی اصل شکل کو اُبھار رہا ہے۔
اگرچہ نظیراکبر آبادی کا دور غزل کے دور کے حوالے سے ہی تاریخ ادب میں یاد کیا جاتا ہے لیکن انہوں نے اس دور میں نظم کو غزل پر ترجیح دی اور ایسی ایسی نظمیں لکھیں جو انہیں عوام کے نمائندہ شاعر کا لقب دے گئیں۔ انہوں نے پہلی دفعہ نظم میں روٹی کپڑ ا اور مکان کی بات کی اور عام شخص کے معاشی مسائل کو نظموں اور اشعار میں بیان کیا ۔ اُن کے بعد ۱۸۵۷ تک کوئی قابل ذکر نام اردو نظم کے حوالے سے وہ مقبولیت نہیں پاسکا۔ لیکن اس ہی دور میں انگریزی ادب کا اثر اردو ادب پر بہت زیادہ محسوس کیا جانے لگا اور نظم کہنے کے لیے مختلف موضوعات ابھر کر سامنے آئے۔ اُن ہی دنوں انجمن پنجاب کے زیر اثر موضوعاتی نظموں کے لکھنے کا بھی آغاز ہو۔ آزاد اور حالی جیسے لوگ نظم کو نئے مضامین و موضوعات میں سمو کر منظر ادب پر نمودار ہوئے اردو نظم کو سرسید تحریک نے مزید آگے بڑھایا اور اس نظم کے محدود دائرےکو وسعت دینے کی کوشش کی۔ لیکن اس کے باوجود اردو نظم کو متنوع موضوعات اور خاص دائرہ کار سے نکال کر اس کی ہیئت پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔
اس دور کے بعد اسمعیٰل میرٹھی، عبدالحلیم شرر اور اکبر الہ آبادی کا نام اردو نظم کے افق پہ جگمگاتا دکھائی دیتا ہے لیکن اقبال نے نظموں کی تخلیق کے حوالے سے آسمان ادب پر ایسے ایسے ستارے روشن کئے کہ آج بھی محبان اردو اس سے مستفید ہیں۔ اردو نظم میں موضوعات اور رجحانات کے جتنے رنگ اقبال نے اس زمانے میں پیش کئے وہ بعد ازاں آنے والے نظم کے شعراء کے یہاں لائق تقلید ہی نہیں لائق ستائش بھی رہے۔
اس دورکے بعد رومانیت پسند وں کے ہاں نظم ایک نئی صورت میں سامنے آئی جن میں اختر شیرانی، جوش ،حفیظ اور عظمت اللہ خان شامل ہیں لیکن ان کی تقلید یا متعارفی عمل اقبال کی نظم کو آگے نہ بڑھا سکا اور محدود اور عمومی سطح کی داخلیت تک نظم کو ان لوگوں نے محدود کر دیا ۔
لیکن جب نظم کا سفر ترقی پسند تحریک تک پہنچا تو ان لوگوں کے ہاں نظم کی ہیئت کے تجربات نئے انداز میں یا رجحانات کے ساتھ سامنے نہیں آئے۔ تقسیم ہندو پاک کے بعد اردو شعراءمیں فیض، جوش ، مجاز اور ساحر جیسے معتبر شعراء نے اردو نظم کو موضوع اور زبان کے حوالے سے سماج سے مذید قریب تر کیا اور لسانی اعتبار سے اسے دوام بخشا۔
حلقہ اربابِ ذوق میں نظموں کی پیش کش اور تنقید کا ایک ایسا دور بھی بعد میں شروع ہوا جس میں میرا جی اور ن م راشد نے اپنی شعوری کوشش کے ساتھ آزاد نظم کے تجربات اردو میں کئے اور کڑی تنقید کا نشانہ بنتے ہوئےمقبول بھی ہوئے ۔ انہوں نے اردو نظم کی تہذیبی روایات میں تبدیلی کی مغربی شاعری کے طرز کا بھی انداز اردو شاعری میں متعارف کروایا۔ فیض احمد فیض کے پاس جب اردو نظم نے موضوعاتی اعتبار سے روایتی طرز سخن میں تبدیلی کی تو بعد میں آنے والے کئی شعراء نے اردو نظم کوپابند نظم و معریٰ نظم سےآزاد اور نثری نظم تک کی راہ دکھائی ۔ یہ کہنا ہر گز بے جا نہ ہوگا کہ وقت کے ساتھ ساتھ اردو نظم کی تبدیلی اس کی ٹوٹ پھوٹ جدت سے ہم آہنگ ہوتی ہوئی ایسے دور میں شامل ہوگئی جسے آج ہم اردو نظم کا جدید دور کہتے ہیں ۔ اس دور میں جدید نظم کی ابتداءہوئی ان دنوں کے شعراءکی نظم پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ تاریخ کے حساب سے اس وقت ہم نظم کے نئے دور میں داخل ہوئے ہیں۔
آزادی کے بعد سے اب تک جو اردو نظم ہمارے سامنے موجود ہے وہ تین بڑے رجحانات سے معمور ہے۔جس میں پہلا ترقی پسندی کا رجحان ہے جس میں رومان اور انقلاب دونوں کا حوالہ موجود ہے اس دور میں جوش ملیح آبادی ، فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی ، مصطفیٰ زیدی، قتیل شفائی اور احمد فراز کے نام قابل ذکر ہیں۔ دوسرا اہم رجحان حلقہ ارباب ذوق کا داخلیت پسند رجحان جس میں معاشرے کی داخلی سطح کو دیکھا گیا۔ اگر چہ مذکور بالا شعراء بھی اس رجحان سے الگ نہیں کئے جاسکتے لیکن جبکہ تیسرا رجحان جدید شعراءکا ہے جو مشینی اور صنعتی زندگی کاپیدا کر دہ ہے۔ اردو نظم مسلسل سفر میں ہے اور ہئیت و مضامین کے حوالے سے زندگی اور سماج کے تعلق کو علاقائی سطح سے عالمی سطح پر جوڑنے میں مصروف ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے نوجوان شعراء کی دلچسپی اس شعری صنف پر سب سے زیادہ ہے اور ساتھ ہی عالمی سطح پر بھی اردو نظم ترجمہ کے حوالے سے مقبول ہے اور سہل طریقہ عمل سے دیگر زبانوں میں ڈھلنے کی سکت رکھتی ہے جو کہ اردو نظم کے تابناک مستقبل کی ضمانت ہے۔
اُردونظم کا ارتقاء
تحریر : عشرت معین سیما
ناقدین ادب کے یہاں اردو شاعری میں نظم کی حیثیت اور اشکال ہمیشہ موضوعِ گفتگو رہی ہے۔ تاریخی حوالے سے اس کے ارتقاء کا جائزہ لیا جائے تو اُردو کے پہلے نظم گو شاعر امیر خسرو ہیں۔ امیر خسرو کے بعد سلطان محمد قلی قطب شاہ نے ایسا کام کیا جسے نظموں کے سوا کچھ اور کہنا مناسب نہ ہوگا۔انہوں نے نظم کے حوالے سے مختلف مثنویوں کو مختصر اور طویل انداز میں پیش کیا جو روایتی انداز میں بطور قصہ لکھی گئی تھیں۔ اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ سب سے پہلے اردو نظم نگاری کی ابتداء کے شواہد ہمیں ہندوستان کی سر زمین دکن ہی سے ملتے ہیں جہاں مذہبی اور صوفیانہ نظموں کی شکل میں اردو نظم کے ابتدائی نقوش نظر آتے ہیں نمایاں شکل میں موجود ہیں اور درحقیقت یہ ہی اردو نظم کا ابتدائی دور شمار کیا جاتا ہے۔ یہاں مختصر مثنویوں کی شکل میں مذہبی یا صوفیانہ نظمیں ملنے لگیں۔ لیکن ناقدین کی نظر میں نظیر اکبر آبادی نے آدمی نامہ لکھ کر اردو نظم کی اصل صورت پر ایک مہر ثبت کر دی ہے۔ جہاں ایک مضمون کو نہایت روانی کے ساتھ درجہ بہ درجہ زیر بند کر کے پیش کیا گیا ہے۔ الفاظ و القاب کا چناؤ نہایت چست ہے اور مضمون کے گرد نہایت پختہ انداز میں قافیہ بندی کرتا ہوا نظم کی اصل شکل کو اُبھار رہا ہے۔
اگرچہ نظیراکبر آبادی کا دور غزل کے دور کے حوالے سے ہی تاریخ ادب میں یاد کیا جاتا ہے لیکن انہوں نے اس دور میں نظم کو غزل پر ترجیح دی اور ایسی ایسی نظمیں لکھیں جو انہیں عوام کے نمائندہ شاعر کا لقب دے گئیں۔ انہوں نے پہلی دفعہ نظم میں روٹی کپڑ ا اور مکان کی بات کی اور عام شخص کے معاشی مسائل کو نظموں اور اشعار میں بیان کیا ۔ اُن کے بعد ۱۸۵۷ تک کوئی قابل ذکر نام اردو نظم کے حوالے سے وہ مقبولیت نہیں پاسکا۔ لیکن اس ہی دور میں انگریزی ادب کا اثر اردو ادب پر بہت زیادہ محسوس کیا جانے لگا اور نظم کہنے کے لیے مختلف موضوعات ابھر کر سامنے آئے۔ اُن ہی دنوں انجمن پنجاب کے زیر اثر موضوعاتی نظموں کے لکھنے کا بھی آغاز ہو۔ آزاد اور حالی جیسے لوگ نظم کو نئے مضامین و موضوعات میں سمو کر منظر ادب پر نمودار ہوئے اردو نظم کو سرسید تحریک نے مزید آگے بڑھایا اور اس نظم کے محدود دائرےکو وسعت دینے کی کوشش کی۔ لیکن اس کے باوجود اردو نظم کو متنوع موضوعات اور خاص دائرہ کار سے نکال کر اس کی ہیئت پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔
اس دور کے بعد اسمعیٰل میرٹھی، عبدالحلیم شرر اور اکبر الہ آبادی کا نام اردو نظم کے افق پہ جگمگاتا دکھائی دیتا ہے لیکن اقبال نے نظموں کی تخلیق کے حوالے سے آسمان ادب پر ایسے ایسے ستارے روشن کئے کہ آج بھی محبان اردو اس سے مستفید ہیں۔ اردو نظم میں موضوعات اور رجحانات کے جتنے رنگ اقبال نے اس زمانے میں پیش کئے وہ بعد ازاں آنے والے نظم کے شعراء کے یہاں لائق تقلید ہی نہیں لائق ستائش بھی رہے۔
اس دورکے بعد رومانیت پسند وں کے ہاں نظم ایک نئی صورت میں سامنے آئی جن میں اختر شیرانی، جوش ،حفیظ اور عظمت اللہ خان شامل ہیں لیکن ان کی تقلید یا متعارفی عمل اقبال کی نظم کو آگے نہ بڑھا سکا اور محدود اور عمومی سطح کی داخلیت تک نظم کو ان لوگوں نے محدود کر دیا ۔
لیکن جب نظم کا سفر ترقی پسند تحریک تک پہنچا تو ان لوگوں کے ہاں نظم کی ہیئت کے تجربات نئے انداز میں یا رجحانات کے ساتھ سامنے نہیں آئے۔ تقسیم ہندو پاک کے بعد اردو شعراءمیں فیض، جوش ، مجاز اور ساحر جیسے معتبر شعراء نے اردو نظم کو موضوع اور زبان کے حوالے سے سماج سے مذید قریب تر کیا اور لسانی اعتبار سے اسے دوام بخشا۔
حلقہ اربابِ ذوق میں نظموں کی پیش کش اور تنقید کا ایک ایسا دور بھی بعد میں شروع ہوا جس میں میرا جی اور ن م راشد نے اپنی شعوری کوشش کے ساتھ آزاد نظم کے تجربات اردو میں کئے اور کڑی تنقید کا نشانہ بنتے ہوئےمقبول بھی ہوئے ۔ انہوں نے اردو نظم کی تہذیبی روایات میں تبدیلی کی مغربی شاعری کے طرز کا بھی انداز اردو شاعری میں متعارف کروایا۔ فیض احمد فیض کے پاس جب اردو نظم نے موضوعاتی اعتبار سے روایتی طرز سخن میں تبدیلی کی تو بعد میں آنے والے کئی شعراء نے اردو نظم کوپابند نظم و معریٰ نظم سےآزاد اور نثری نظم تک کی راہ دکھائی ۔ یہ کہنا ہر گز بے جا نہ ہوگا کہ وقت کے ساتھ ساتھ اردو نظم کی تبدیلی اس کی ٹوٹ پھوٹ جدت سے ہم آہنگ ہوتی ہوئی ایسے دور میں شامل ہوگئی جسے آج ہم اردو نظم کا جدید دور کہتے ہیں ۔ اس دور میں جدید نظم کی ابتداءہوئی ان دنوں کے شعراءکی نظم پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ تاریخ کے حساب سے اس وقت ہم نظم کے نئے دور میں داخل ہوئے ہیں۔
آزادی کے بعد سے اب تک جو اردو نظم ہمارے سامنے موجود ہے وہ تین بڑے رجحانات سے معمور ہے۔جس میں پہلا ترقی پسندی کا رجحان ہے جس میں رومان اور انقلاب دونوں کا حوالہ موجود ہے اس دور میں جوش ملیح آبادی ، فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی ، مصطفیٰ زیدی، قتیل شفائی اور احمد فراز کے نام قابل ذکر ہیں۔ دوسرا اہم رجحان حلقہ ارباب ذوق کا داخلیت پسند رجحان جس میں معاشرے کی داخلی سطح کو دیکھا گیا۔ اگر چہ مذکور بالا شعراء بھی اس رجحان سے الگ نہیں کئے جاسکتے لیکن جبکہ تیسرا رجحان جدید شعراءکا ہے جو مشینی اور صنعتی زندگی کاپیدا کر دہ ہے۔ اردو نظم مسلسل سفر میں ہے اور ہئیت و مضامین کے حوالے سے زندگی اور سماج کے تعلق کو علاقائی سطح سے عالمی سطح پر جوڑنے میں مصروف ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے نوجوان شعراء کی دلچسپی اس شعری صنف پر سب سے زیادہ ہے اور ساتھ ہی عالمی سطح پر بھی اردو نظم ترجمہ کے حوالے سے مقبول ہے اور سہل طریقہ عمل سے دیگر زبانوں میں ڈھلنے کی سکت رکھتی ہے جو کہ اردو نظم کے تابناک مستقبل کی ضمانت ہے۔