زمان ملک کی تین نظمیں
زمان ملک کی تین نظمیں
Oct 31, 2020
کہ لمحوں کے چمکتے چاند سکے
: بے نہایت ..... زمان ملک
.
دنوں، سالوں کا کیسہ بھر رہا ہوں
کہ خالی کر رہا ہوں شیشۂ دل
.
کہ لمحوں کے چمکتے چاند سکے
پھسلتے جا رہے ہیں انگلیوں سے
ذخیرہ عمر کا ہوتا ہے خالی
کہ چھلنی میں جمع کرتا ہوں پانی
.
یہ کیا زر ریزے چنتا جا رہا ہوں
دھلی ریگِ رواں آبِ فنا سے
ابد کی سوچ میں ڈوبے ازل کے
خیالوں میں ہماری زیست کیا ہے
.
کسی پردے پہ پردہ ڈالتا ہوں
دنوں، سالوں کا کیسہ بھرتے بھرتے
.
یہ کیسا خالی پن پہنائیوں سے
خلائے خواب بھرتا جا رہا ہے ۔
.
: زمیں ہنس دی ..... زمان ملک
.
زمیں ہنس دی پھولوں میں
غصے میں سورج تپا
آم کا بور پھوٹا
کھجوروں نے انگڑائی لی
اور رس سے بھری
ایک خوبانی سے
شاخ پر رہنا مشکل ہوا
سیب نے اپنے خوابوں کو
اک بار پھر تہہ کیا
دشتِ غربت نے دھول اور اونچی اڑائی
کوئی دیکھتا ہے
میں سوچا کیا
اور دیکھا کیا -
.
سمندر کی لہریں .. زمان ملک
تم نے مجھ سے
آسمان کے ستارے
اور سمندر کی لہریں گننے کی عمر سے پیار کیا
سچائی اور سچائی کے ساتھ
مجھے ملنے سے پہلے
تمہیں میرا انتظار تھا
ایک عمر گزر جانے پر
اور حیرت ناک واقعات دیکھ کر
مجھے تمہارے انتظار کی کھینچ پر
یقین آنے لگا ہے
کسی چیز پر بھی
یقین کی گنجائش
کم ہوتی جا رہی ہے
زندگی نئی منزلوں کو چھوتی
آگے چلتی جاتی ہے
رکاوٹ ایک نام رہ گیا ہے
آدمی کو دیکھ کر
آدمی رک جایا کرتے تھے
ان کی باقی زندگی
اس رکاوٹ کے کیل کے گرد گھومتے
گزر جاتی تھی
شاید اب بھی ایسا ہوتا ہو
لیکن وقت اس رواج سے
آزاد ہو چکا ہے
ایک مختصر زندگی میں
ہم نے ایک لمبا سفر کر لیا ہے
دیکھتے دیکھتے
حقیقتیں خواب ہو گئی ہیں
ایسے خواب جو کبھی دوبارہ
حقیقت نہیں بنیں گے
جیسے آسمان کے ستارے
اور سمندر کی لہریں گننے کی
تمہاری عمر
دوبارہ کبھی نہیں آئے گی
..........................
: بے نہایت ..... زمان ملک
.
دنوں، سالوں کا کیسہ بھر رہا ہوں
کہ خالی کر رہا ہوں شیشۂ دل
.
کہ لمحوں کے چمکتے چاند سکے
پھسلتے جا رہے ہیں انگلیوں سے
ذخیرہ عمر کا ہوتا ہے خالی
کہ چھلنی میں جمع کرتا ہوں پانی
.
یہ کیا زر ریزے چنتا جا رہا ہوں
دھلی ریگِ رواں آبِ فنا سے
ابد کی سوچ میں ڈوبے ازل کے
خیالوں میں ہماری زیست کیا ہے
.
کسی پردے پہ پردہ ڈالتا ہوں
دنوں، سالوں کا کیسہ بھرتے بھرتے
.
یہ کیسا خالی پن پہنائیوں سے
خلائے خواب بھرتا جا رہا ہے ۔
.
: زمیں ہنس دی ..... زمان ملک
.
زمیں ہنس دی پھولوں میں
غصے میں سورج تپا
آم کا بور پھوٹا
کھجوروں نے انگڑائی لی
اور رس سے بھری
ایک خوبانی سے
شاخ پر رہنا مشکل ہوا
سیب نے اپنے خوابوں کو
اک بار پھر تہہ کیا
دشتِ غربت نے دھول اور اونچی اڑائی
کوئی دیکھتا ہے
میں سوچا کیا
اور دیکھا کیا -
.
سمندر کی لہریں .. زمان ملک
تم نے مجھ سے
آسمان کے ستارے
اور سمندر کی لہریں گننے کی عمر سے پیار کیا
سچائی اور سچائی کے ساتھ
مجھے ملنے سے پہلے
تمہیں میرا انتظار تھا
ایک عمر گزر جانے پر
اور حیرت ناک واقعات دیکھ کر
مجھے تمہارے انتظار کی کھینچ پر
یقین آنے لگا ہے
کسی چیز پر بھی
یقین کی گنجائش
کم ہوتی جا رہی ہے
زندگی نئی منزلوں کو چھوتی
آگے چلتی جاتی ہے
رکاوٹ ایک نام رہ گیا ہے
آدمی کو دیکھ کر
آدمی رک جایا کرتے تھے
ان کی باقی زندگی
اس رکاوٹ کے کیل کے گرد گھومتے
گزر جاتی تھی
شاید اب بھی ایسا ہوتا ہو
لیکن وقت اس رواج سے
آزاد ہو چکا ہے
ایک مختصر زندگی میں
ہم نے ایک لمبا سفر کر لیا ہے
دیکھتے دیکھتے
حقیقتیں خواب ہو گئی ہیں
ایسے خواب جو کبھی دوبارہ
حقیقت نہیں بنیں گے
جیسے آسمان کے ستارے
اور سمندر کی لہریں گننے کی
تمہاری عمر
دوبارہ کبھی نہیں آئے گی
..........................