To whom it may concern

To whom it may concern

Apr 14, 2020

تمہاری ذات کے ڈرائینگ روم میں سر جھکائے ، جوتیاں اتارے بغیر کبھی داخل نہیں ہوا جا سکتا

نظم: To whom it may concern


شاعر: ابرار احمد


ہم تو کمزور انسان ہیں

خطا کے پتلے

چھوٹی چھوٹی لغزشوں پر ہر وقت شرمندہ

اور ان گناہوں پر پشیمان

جو ہم سے کبھی سرزد بھی نہیں ہوئے

ہماری تذلیل کرنے کا خیال کیوں تمہیں

پریشان کیئے رکھتا ہے  

آدمی ہوتاہی کیا ہے

ایک بے حقیقت ، بے مایہ

خواب کے دورانیئے کے سوا

تم کیوں اس قدر جاگتی آنکھوں سے

اپنے مقام کی تلاش میں رہتے ہو

اور اونچی کرسی کی طلب میں

اپنے قد سے بڑی میز کے گرد

بیٹھنے کو مرے جاتے ہو

تمہیں ہر وقت

اپنے عروج میں تاخیر کا غم کھائے جاتا ہے

اور اس تاخیر کے لیئے

تم ، ہمارے تنکوں جیسے وجود کو

ذمہ دار گردانتےہو

یہ جانتے ہوئے بھی

کہ تمہاری راہ کے پتھر اور ہیں

تمہارے اندر ایک  ایسی آگ بھری ہے

جس کا خمیر حسد اور کینے سے اٹھایا گیا ہے

اور جسے تم سرد نہیں ہونے دیتے

یہ تخلیق کی آگ نہیں ہے

ورنہ یہ بے ضرر دوستوں کے کپڑے جلانے کی بجائے

ہمارے عہد کو روشنی عطا کرتی

تم ایک ایسا قلم ہو

جو عمروں کی محنت سے بنائی گئی

خوبصورت پینٹنگ کو

ایک منٹ میں سیاہ دھبے میں تبدیل کرسکتا ہے

تمہاری ذات کے ڈرائینگ روم میں

سر جھکائے ، جوتیاں اتارے بغیر

کبھی داخل نہیں ہوا جا سکتا

ایسا نہ ہو

ایک دن تمہارے غلام

اپنی زنجیروں سے اکتا جائیں

تم نے اپنی آنکھوں کو

اپنی حفاظت پر مامور کر رکھا ہے

اور وہ نادیدہ دشمنوں کو دیکھتے دیکھتے

تھکتی جارہی ہیں

تم ایسے کوتوال ہو

جس کی پرشکوہ آمدپر

کوئی ٹس سے مس نہیں ہوتا

ایسے بادشاہ ہو

جس کی سلطنت کی سرحد

گھر کی چار دیواری ہے

چھت پر چڑھے بغیر

تمہیں سب چھوٹے دکھائی دیتے ہیں

اور تمہاری ایک جھلک کے منتظر

تم ایسے پیر ہو

جس کے ماننے والے

تمہارے اپنے مجبور بچے ہیں

خوف کھا ؤ اس دن سے

جب تمہارے موجودہ مرید بھی  بڑے ہو جائیں گے

تم چاردانگ عالم میں

اپنے نام کا ڈنکا بجتے سننا چاہتے ہو

اس لیئے ڈھول بجانے والوں کو ڈھونڈتے رہتے ہو

تمہارے مراسم بہتر رہے ہیں

محض، اچھل کود سے

عظیم کھلاڑی نہیں بنا جا سکتا

اور بے ریا دل کے بغیر

بڑے فنکار کا تصور بھی محال ہے

تم نے بھی ، ہم سب کی طرح

کڑی دھوپ میں

صعوبتوں سے بھرا طویل سفر طے کیا ہے

ہماری زندگیاں

ایک جیسی دھول سے اٹی ہوئی ہیں

پھر تمہاری یہ مصنوعی چمک جاتی کیوں نہیں ؟

میرے دوست

جن درختوں کی چھاؤں میں کبھی آرام کیا ہو

ان کا پھل کھایا ہو

انہیں کاٹنا اچھا نہیں ہوتا

ابھی کچھ لوگ

تمہارے لیئے اپنے دروازے کھلے رکھتے ہیں

تمہاری راہ میں آنکھیں بچھاتے ہیں

تمہیں اس دن سے ڈرنا چاہیئے

جب دستک دینے پر

تم سے پوچھا جائے گا

کہ تم کون ہو ؟

نظم: To whom it may concern


شاعر: ابرار احمد


ہم تو کمزور انسان ہیں

خطا کے پتلے

چھوٹی چھوٹی لغزشوں پر ہر وقت شرمندہ

اور ان گناہوں پر پشیمان

جو ہم سے کبھی سرزد بھی نہیں ہوئے

ہماری تذلیل کرنے کا خیال کیوں تمہیں

پریشان کیئے رکھتا ہے  

آدمی ہوتاہی کیا ہے

ایک بے حقیقت ، بے مایہ

خواب کے دورانیئے کے سوا

تم کیوں اس قدر جاگتی آنکھوں سے

اپنے مقام کی تلاش میں رہتے ہو

اور اونچی کرسی کی طلب میں

اپنے قد سے بڑی میز کے گرد

بیٹھنے کو مرے جاتے ہو

تمہیں ہر وقت

اپنے عروج میں تاخیر کا غم کھائے جاتا ہے

اور اس تاخیر کے لیئے

تم ، ہمارے تنکوں جیسے وجود کو

ذمہ دار گردانتےہو

یہ جانتے ہوئے بھی

کہ تمہاری راہ کے پتھر اور ہیں

تمہارے اندر ایک  ایسی آگ بھری ہے

جس کا خمیر حسد اور کینے سے اٹھایا گیا ہے

اور جسے تم سرد نہیں ہونے دیتے

یہ تخلیق کی آگ نہیں ہے

ورنہ یہ بے ضرر دوستوں کے کپڑے جلانے کی بجائے

ہمارے عہد کو روشنی عطا کرتی

تم ایک ایسا قلم ہو

جو عمروں کی محنت سے بنائی گئی

خوبصورت پینٹنگ کو

ایک منٹ میں سیاہ دھبے میں تبدیل کرسکتا ہے

تمہاری ذات کے ڈرائینگ روم میں

سر جھکائے ، جوتیاں اتارے بغیر

کبھی داخل نہیں ہوا جا سکتا

ایسا نہ ہو

ایک دن تمہارے غلام

اپنی زنجیروں سے اکتا جائیں

تم نے اپنی آنکھوں کو

اپنی حفاظت پر مامور کر رکھا ہے

اور وہ نادیدہ دشمنوں کو دیکھتے دیکھتے

تھکتی جارہی ہیں

تم ایسے کوتوال ہو

جس کی پرشکوہ آمدپر

کوئی ٹس سے مس نہیں ہوتا

ایسے بادشاہ ہو

جس کی سلطنت کی سرحد

گھر کی چار دیواری ہے

چھت پر چڑھے بغیر

تمہیں سب چھوٹے دکھائی دیتے ہیں

اور تمہاری ایک جھلک کے منتظر

تم ایسے پیر ہو

جس کے ماننے والے

تمہارے اپنے مجبور بچے ہیں

خوف کھا ؤ اس دن سے

جب تمہارے موجودہ مرید بھی  بڑے ہو جائیں گے

تم چاردانگ عالم میں

اپنے نام کا ڈنکا بجتے سننا چاہتے ہو

اس لیئے ڈھول بجانے والوں کو ڈھونڈتے رہتے ہو

تمہارے مراسم بہتر رہے ہیں

محض، اچھل کود سے

عظیم کھلاڑی نہیں بنا جا سکتا

اور بے ریا دل کے بغیر

بڑے فنکار کا تصور بھی محال ہے

تم نے بھی ، ہم سب کی طرح

کڑی دھوپ میں

صعوبتوں سے بھرا طویل سفر طے کیا ہے

ہماری زندگیاں

ایک جیسی دھول سے اٹی ہوئی ہیں

پھر تمہاری یہ مصنوعی چمک جاتی کیوں نہیں ؟

میرے دوست

جن درختوں کی چھاؤں میں کبھی آرام کیا ہو

ان کا پھل کھایا ہو

انہیں کاٹنا اچھا نہیں ہوتا

ابھی کچھ لوگ

تمہارے لیئے اپنے دروازے کھلے رکھتے ہیں

تمہاری راہ میں آنکھیں بچھاتے ہیں

تمہیں اس دن سے ڈرنا چاہیئے

جب دستک دینے پر

تم سے پوچھا جائے گا

کہ تم کون ہو ؟

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024