ثمینہ سید کی نظمیں

ثمینہ سید کی نظمیں

Mar 12, 2018

مصنف

ثمینہ سید

شمارہ

شمارہ -٧

 

دیدبان شمارہ ۔ ۷

ثمینہ سید کی نظمیں

١.

دید بان کے لیے

 اسے کہنا

خزاں کے زرد پتوں کا

 کوئی سایہ نہیں ہوتا

 بہت بےمول ہو کر جب

 زمیں پر آن گرتے ہیں

تو یخ بستہ ہوائیں بھی

ان ہی کو زخم دیتی ہیں

اسے کہنا

کہ مجھ کو بھول کر بےمول نہ کرنا

ثمینہ سید---------------

٢.

 محبت کئی موسم بدلتی ہے

کئی جادو جگاتی ہے

ہمیں جب رات کو جاناں

تمہاری یاد آتی ہے

بہت دل کو جلاتی ہے

 ہمیں پھر لکھنا پڑتا ہے

 ہمیں پھر کہنا پڑتا ہے

ہمیں تم سے محبت ہے

----------------٣.

 وہی ہے تو 

دوستوں کے درمیاں

 برسبیل_تذکرہ

ذکرکیا ترا ہوا

یاد مجھ کو آگیا

عمربھر نہ بھولی تھی

جسکو میں

وہی ہے تو

------------------

٤. 

تمہارےہجر کے موتی

تمہارے ہجر کے موتی

ابھی پلکوں پہ رکھے ہیں

عجب اک خوف سے ہر دم

  کھلی رکھتی ہوں میں آنکھیں

گرے تو ٹوٹ بکھریں گے

تمہارے.ہجر کے موتی

ابھی پلکوں پہ رکھے ہیں

یہاں گنجان رستوں پر

یہاں پرپیچ گلیوں میں

جدائی رقص کرتی ہے

جلے آوُ تو اچھا ہے

کہ اب تو تھک چکی آنکھیں

تمہارے ہجر کے موتی

ابھی پلکوں پہ رکھے ہیں

یہاں کچھ بھی نہیں بدلا

اسی پہلے طریقے سے

  تمہاری منتظر آنکھیں

لگی رہتی ہیں چوکھٹ سے

کوئی آہٹ نہیں ہوتی

کوئی سایہ نہیں دکھتا/

ذرا سی جھرجھری لے کر

میں آنکھیں کھول دیتی ہوں

عجب اک خوف سے ہر دم

کھلی رکھتی ہوں میں آنکھیں

...........................

 

دیدبان شمارہ ۔ ۷

ثمینہ سید کی نظمیں

١.

دید بان کے لیے

 اسے کہنا

خزاں کے زرد پتوں کا

 کوئی سایہ نہیں ہوتا

 بہت بےمول ہو کر جب

 زمیں پر آن گرتے ہیں

تو یخ بستہ ہوائیں بھی

ان ہی کو زخم دیتی ہیں

اسے کہنا

کہ مجھ کو بھول کر بےمول نہ کرنا

ثمینہ سید---------------

٢.

 محبت کئی موسم بدلتی ہے

کئی جادو جگاتی ہے

ہمیں جب رات کو جاناں

تمہاری یاد آتی ہے

بہت دل کو جلاتی ہے

 ہمیں پھر لکھنا پڑتا ہے

 ہمیں پھر کہنا پڑتا ہے

ہمیں تم سے محبت ہے

----------------٣.

 وہی ہے تو 

دوستوں کے درمیاں

 برسبیل_تذکرہ

ذکرکیا ترا ہوا

یاد مجھ کو آگیا

عمربھر نہ بھولی تھی

جسکو میں

وہی ہے تو

------------------

٤. 

تمہارےہجر کے موتی

تمہارے ہجر کے موتی

ابھی پلکوں پہ رکھے ہیں

عجب اک خوف سے ہر دم

  کھلی رکھتی ہوں میں آنکھیں

گرے تو ٹوٹ بکھریں گے

تمہارے.ہجر کے موتی

ابھی پلکوں پہ رکھے ہیں

یہاں گنجان رستوں پر

یہاں پرپیچ گلیوں میں

جدائی رقص کرتی ہے

جلے آوُ تو اچھا ہے

کہ اب تو تھک چکی آنکھیں

تمہارے ہجر کے موتی

ابھی پلکوں پہ رکھے ہیں

یہاں کچھ بھی نہیں بدلا

اسی پہلے طریقے سے

  تمہاری منتظر آنکھیں

لگی رہتی ہیں چوکھٹ سے

کوئی آہٹ نہیں ہوتی

کوئی سایہ نہیں دکھتا/

ذرا سی جھرجھری لے کر

میں آنکھیں کھول دیتی ہوں

عجب اک خوف سے ہر دم

کھلی رکھتی ہوں میں آنکھیں

...........................

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024