تذکرہ سادات گلاؤ ٹھی"۔تاریخ کے گم شدہ اوراق پر ایک طا ئرانہ نظر

تذکرہ سادات گلاؤ ٹھی"۔تاریخ کے گم شدہ اوراق پر ایک طا ئرانہ نظر

Mar 13, 2018

برصغیر پا ک وہند کے.....

مصنف

سہیل احمد صدیقی

شمارہ

شمارہ -٧

‍ دیدبان شمارہ۔۷


تذکرہ سادات گلاؤٹھی"۔تاریخ کے گم شدہ اوراق پر ایک طا ئرانہ نظر "

 تحریر: سہیل احمد صدیقی

 برصغیر پا ک وہند کے مَردُ م

خیز خطے میں ایسی بہت سی بستیا ں ہیں جن کے ماضی میں مختلف علوم و فنون کے بے شمار

لعل وگہُر مدفون ہیں اور اُن کی بازیافت، عصر حاضرمیں بغر ض اصلاحِ احوال بہت

ضروری ہے۔یہاں یہ بھی ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ بہت سے لوگ ماضی کو فقط بے کار مبحث

یا ’قصہ پارینہ ‘ سمجھ کر نظرانداز کرنے کے قائل ہیں جو دینی و دُنیوی کسی بھی

لحاظ سے درست نہیں۔ماضی

سے جِلاء پاکر مستقبل کی راہ

روشن کی جاسکتی ہے۔زیر نظر کتاب ہندوستان کے ایک مشہور شہر گلاؤ ٹھی کی سادات

برادری کے منتشر اذکار کا ایک مختصر احاطہ ہے جسے تحقیقِ مزید سے وسیع کیا جاسکتا

ہے۔ادارہ اخوان السادات گلاؤٹھی کے زیراہتمام شایع ہونے والی مؤقرکتاب،’’تذکرہ

سادات گلاؤ ٹھی۔تاریخ کے گم شدہ اوراق‘‘کے مرتبین سید رضی الدین ہاشمی، سید نسیم

الدین ہاشمی اور ندیم ماہرؔ ہیں۔

کتاب’’تذکرہ سادات گلاؤ

ٹھی۔تاریخ کے گم شدہ اوراق ‘‘ میں قصبہ گلاؤٹھی، موضع سینٹہ، اُلدَن اور بلند شہر

عرف برن کے متعلق معلوماتی نگارشات ، حسب نسب کی اہمیت اور برادری کے شجرے، ادار ے

کے قیام و اغراض کے حوالے سے مضامین،نامور علمائے برادری بشمول مولوی فاضل سیدمحمد

بدرعالم میرٹھی ثم مہاجر مدنی ، سید فخرالدین احمد،سید محمد اصلح الحسینی ، سید

حمید الدین ، حاجی تہورعلی،قاری سید محمدمیاں ، ڈاکٹر فرحت برنی و حافظ سید نسیم

الدین پر تعارفی و تأثراتی مضامین نسلِ نو کے لیے ہر لحاظ سے اہم ہیں ،مگرمواد کے

مختصر ہونے کے سبب تشنگی بھی محسوس ہوتی ہے۔اس برادری کے مشاہیر میں سخنورانِ ہند

کا ایک سلسلہ ہے جس پر بہت کم کام ہواہے۔سید ابوالحسن ناطقؔ گلاؤٹھوی ، سید محمد

حسین یقینؔ ؔ گلاؤٹھوی، سید عبدالوحید فداؔ ؔ گلاؤٹھوی، شمس الحق خیالؔ 

ؔ گلاؤٹھوی،ؔ ؔ سیدعبدالرحیم قابلؔ ؔ گلاؤٹھوی،سید مشتاق علی مضطرؔ

گلاؤٹھوی ،سید مظفر احمدضیاءؔ ، انوارالحق کمالیؔ ،سید امیر حسن امیرؔ ؔ ؔ

گلاؤٹھوی، حافظ سید شمس الدین شمسؔ ، سید ریاض الدین ریاضؔ اور سید ندیم اخترعرف

ندیم ماہرؔ جیسے قدیم وجدید شعراء کے اسماء ایک عالَم کے لیے ممتاز و معروف ہیں،

مگر اِن سب کے متعلق پہلی بار مختصر مواد یک جا ہوکر منصہ شہود پر آیا ہے، جب کہ

اسی کتاب میں ظفرنیازی جیسے نامورنقاد، ادیب و صحافی اور شعروادب کے ساتھ ساتھ

صحافت اور افسرشاہی میں نام کمانے والی شخصیت سید منصورعاقل کا تذکرہ بھی شامل

ہے۔لگے ہاتھوں بعض شعراء کے کلام بلاغت نظام سے خوشہ چینی بھی کرتا چلوں:

خودکو ہلاک اس لیے ہجر نصیب نے

کیا باقی رہے کسی کے سر، روز کی ہائے ہائے کیوں

میرے نصیب میں نہیں جلوہ کسی

کا دیکھنا شام فراق جائے کیوں، صبح وصال آئے کیوں

۔شمسؔ ؔ ؔ ؔ گلاؤٹھوی۔(معاصر غالبؔ )

خیالِ اہلِ وطن آگیا جب اے

ناطقؔ وطن ہی کہنے کے لائق گلاؤٹھی نہ رہی

۔۔ ناطقؔ گلاؤٹھوی۔۔(تلمیذِ یزدانیؔ میرٹھی و داغ ؔ دہلوی)

جب کسی سے کلام ہوتا ہے ذکر

تیر ا تمام ہوتا ہے

۔یقینؔ ؔ گلاؤٹھوی۔

ہوا ہے کون سرگرمِ تبسم کہ

پھولوں کو پسینہ آرہاہے

۔فداؔ ؔ گلاؤٹھوی۔(تلمیذِ داغ ؔ دہلوی)

مذہبِ عشق میں کیا فرض ہے میری

تقلید کوئی اِ س بُت کو خدا کے لیے کافر نہ کہے

۔خیالؔ ؔ گلاؤٹھوی۔

قابلؔ ہے میری قوم کی تاریخ

مختصر ساغر ملا تو ہاتھ سے تلوار گرگئی

۔قابلؔ ؔ ؔ گلاؤٹھوی۔

پاؤں اپنے ہیں نہ دل اپنا، نہ

منزل اپنی دل چلا، چلنے لگے، پاؤں تھکے ، بیٹھ گئے

میں خود تو تمازت میں کھڑا

رہتا ہوں لیکن ہم سائے کے لوگوں پہ مِری چھاؤں پڑے ہے

۔امیرؔ ؔ ؔ ؔ گلاؤٹھوی۔

فقط اس آسرے پر رات کاٹی شمع

نے روکر کہ شاید صبح تک زندہ میرا پروانہ ہوجائے

ذرّے جو وہاں پہنچے تِری راہ

گزر سے موسوم ہوئے چرخ پہ انجم سے ، قمر سے

۔سید ریاض الدین ریاضؔ ۔

ندیم ماہر ؔ (مقیم دوحہ ،

قطر)نے اپنا نمونہ کلام شاملِ کتاب کرنا پسند نہیں کیا ، مگراس کتاب کی اشاعت سے

بہت عرصہ قبل، انھوں نے اپنا پہلا مجموعہ کلام ’دستکوں کے نشان‘خاکسار کی نذر کیا

تھا، سوبندہ اس میں سے کچھ اشعار پیش کررہا ہے:

چاند کے چھپنے کا منظر کیا

کہوں چاندنی پانی میں ضم ہونے لگی

جن کا سادہ مزاج ہوتا ہے اُن

کے قدموں میں تاج ہوتا ہے

ہے میرا سایہ درپئے آزار اِن

دنوں کرنے لگا ہے مجھ سے ہی تکرار اِن دنوں

گلاؤٹھی کی سادات برادری میں

شامل مختلف شعبہ ہائے زندگی کے جن مشاہیر کا ذکر زیرِ نظر کتا ب میں ہے ،ان کے فقط

اسماء ہی لکھنے پر اکتفا کروں گا: سائنس داں ڈاکٹر سید ظفر زیدی (سابق شیخ الجامعہ

، جامعہ کراچی)، جغرافیہ داں ڈاکٹرسید نفیس احمد(رکن باؤنڈری کمیشن برائے تقسیم

ہند۔۱۹۴۷ء)، وکلاء سیدناصر الدین، عثمان غنی راشد اور وسیم ہاشمی،

گلوکار احمدرُشدی، صحافی سید سلیم شہزاد، شہدائے جنگ آزادی ۱۸۵۷ء سید سرفرازعلی، رحمت اللہ و عنایت اللہ نیز

شہید ۱۹۷۰ء

اسکواڈرن لیڈر سید خالد حسن واسطی۔ مختلف شعبوں سے متعلق بعض شخصیات کا ذکر بوجوہ

رہ گیا ہے جس کا آیندہ اشاعت میں ازالہ ممکن ہے۔یہاں ایک اضافہ خاکسار کی طرف سے:

ممتاز صحافی سید سلیم شہزادکے

کوائف میںیہ دونکات شامل ہونے سے رہ گئے ہیں:

۱۔مرحوم نے عملی صحافت کا آغاز انگریزی روزنامہ

ڈیلی نیوز سے کیا اور اس ضمن میں سہیل احمدصدیقی کی سرپرستی انھیں حاصل رہی۔

۲۔اس سے قبل انھوں نے ، اسلام آباد جاکر،خالد اطہر

کی قایم کی ہوئی، ایک نام نہاد نیوز ایجنسی میں تربیت کی غرض سے شمولیت اختیارکی،

مگر یہ معاملہ باقاعدہ تربیت تک نہیں پہنچا۔

کتاب ’’تذکرہ سادات گلاؤ

ٹھی۔تاریخ کے گم شدہ اوراق ‘‘ کے مندرجات میں کئی موضوعات تفصیلی تبصرے کے لائق

ہیں، مگر راقم تنگی وقت کے سبب گریز کررہا ہے۔البتہ ایک مضمون میں ایک بزرگ نے

سہواً حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ‘ کے فرزندکے متعلق ایک غلط روایت نقل کی ہے جس

کی تصحیح اسلامی فریضہ سمجھتے ہوئے کی جارہی ہے:

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ‘

کے فرزند ،حضرت عبداللہ( رضی اللہ عنہ‘ )کے متعلق یہ روایت بہت مشہور ہے کہ اُن کی

وفات اپنی والدہ ماجدہ حضرت رقیہ (رضی اللہ عنہا) کی رحلت کے کچھ دن بعد، کسی مرغ

کے ، آنکھ میں چونچ مارنے کے سبب ہوئی تھی....مگر یہ روایت تحقیق سے غلط ثابت

ہوچکی ہے ۔ حضرت عبداللہ( رضی اللہ عنہ‘ )کا انتقال ایک عمر گزارکر ، شادی اور

بچوں کے باپ بننے کے بعد ہوا او ر اُن کی آل، عثمانی سید کہلائی۔(حوالے کے لیے

ملاحظہ فرمائیں: تحقیق سید وسادات، خلافت معاویہ و یزید ، تحقیق مزید خلافت معاویہ

و یزید از حکیم محموداحمد عباسی)۔یہاں ایک دل چسپ بات یہ ہے کہ نامور مؤرخ

المسعودی نے اپنی مشہور کتاب ’مروج الذہب‘ (جلد دوم صفحہ ۳۳۱) میں لکھا ہے کہ سیدہ رقیہ (رضی اللہ عنہا)سے

سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ‘ کے دو فرزند عبداللہ نامی ہوئے : عبداللہ الاکبر

اور عبداللہ الاصغر۔(صحابہ کرام اور اہل بیتِ نبوت کے تعلقات اور رشتے داریاں از

حکیم محمود احمد ظفر۔مطبوعہ تخلیقات، لاہور۔۲۰۱۴ء)

کتاب صوری و معنوی حسن سے مزین

ہے اور اس کا سرسری مطالعہ قاری کو یہ کہنے پر مجبورکرتا ہے کہ اس کی باردِگر

اشاعت سستے کاغذپرکی جائے اوراس کے ساتھ ساتھ(تمام ذرائع ابلاغ سے ) تشہیر بھی عام

ہو تو یہ عمل کئی اعتبار سے مفید ہوگا۔ 


***************

 س ا ص/۶اگست ۲۰۱۷ء۵۷:۱۱ ش

‍ دیدبان شمارہ۔۷


تذکرہ سادات گلاؤٹھی"۔تاریخ کے گم شدہ اوراق پر ایک طا ئرانہ نظر "

 تحریر: سہیل احمد صدیقی

 برصغیر پا ک وہند کے مَردُ م

خیز خطے میں ایسی بہت سی بستیا ں ہیں جن کے ماضی میں مختلف علوم و فنون کے بے شمار

لعل وگہُر مدفون ہیں اور اُن کی بازیافت، عصر حاضرمیں بغر ض اصلاحِ احوال بہت

ضروری ہے۔یہاں یہ بھی ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ بہت سے لوگ ماضی کو فقط بے کار مبحث

یا ’قصہ پارینہ ‘ سمجھ کر نظرانداز کرنے کے قائل ہیں جو دینی و دُنیوی کسی بھی

لحاظ سے درست نہیں۔ماضی

سے جِلاء پاکر مستقبل کی راہ

روشن کی جاسکتی ہے۔زیر نظر کتاب ہندوستان کے ایک مشہور شہر گلاؤ ٹھی کی سادات

برادری کے منتشر اذکار کا ایک مختصر احاطہ ہے جسے تحقیقِ مزید سے وسیع کیا جاسکتا

ہے۔ادارہ اخوان السادات گلاؤٹھی کے زیراہتمام شایع ہونے والی مؤقرکتاب،’’تذکرہ

سادات گلاؤ ٹھی۔تاریخ کے گم شدہ اوراق‘‘کے مرتبین سید رضی الدین ہاشمی، سید نسیم

الدین ہاشمی اور ندیم ماہرؔ ہیں۔

کتاب’’تذکرہ سادات گلاؤ

ٹھی۔تاریخ کے گم شدہ اوراق ‘‘ میں قصبہ گلاؤٹھی، موضع سینٹہ، اُلدَن اور بلند شہر

عرف برن کے متعلق معلوماتی نگارشات ، حسب نسب کی اہمیت اور برادری کے شجرے، ادار ے

کے قیام و اغراض کے حوالے سے مضامین،نامور علمائے برادری بشمول مولوی فاضل سیدمحمد

بدرعالم میرٹھی ثم مہاجر مدنی ، سید فخرالدین احمد،سید محمد اصلح الحسینی ، سید

حمید الدین ، حاجی تہورعلی،قاری سید محمدمیاں ، ڈاکٹر فرحت برنی و حافظ سید نسیم

الدین پر تعارفی و تأثراتی مضامین نسلِ نو کے لیے ہر لحاظ سے اہم ہیں ،مگرمواد کے

مختصر ہونے کے سبب تشنگی بھی محسوس ہوتی ہے۔اس برادری کے مشاہیر میں سخنورانِ ہند

کا ایک سلسلہ ہے جس پر بہت کم کام ہواہے۔سید ابوالحسن ناطقؔ گلاؤٹھوی ، سید محمد

حسین یقینؔ ؔ گلاؤٹھوی، سید عبدالوحید فداؔ ؔ گلاؤٹھوی، شمس الحق خیالؔ 

ؔ گلاؤٹھوی،ؔ ؔ سیدعبدالرحیم قابلؔ ؔ گلاؤٹھوی،سید مشتاق علی مضطرؔ

گلاؤٹھوی ،سید مظفر احمدضیاءؔ ، انوارالحق کمالیؔ ،سید امیر حسن امیرؔ ؔ ؔ

گلاؤٹھوی، حافظ سید شمس الدین شمسؔ ، سید ریاض الدین ریاضؔ اور سید ندیم اخترعرف

ندیم ماہرؔ جیسے قدیم وجدید شعراء کے اسماء ایک عالَم کے لیے ممتاز و معروف ہیں،

مگر اِن سب کے متعلق پہلی بار مختصر مواد یک جا ہوکر منصہ شہود پر آیا ہے، جب کہ

اسی کتاب میں ظفرنیازی جیسے نامورنقاد، ادیب و صحافی اور شعروادب کے ساتھ ساتھ

صحافت اور افسرشاہی میں نام کمانے والی شخصیت سید منصورعاقل کا تذکرہ بھی شامل

ہے۔لگے ہاتھوں بعض شعراء کے کلام بلاغت نظام سے خوشہ چینی بھی کرتا چلوں:

خودکو ہلاک اس لیے ہجر نصیب نے

کیا باقی رہے کسی کے سر، روز کی ہائے ہائے کیوں

میرے نصیب میں نہیں جلوہ کسی

کا دیکھنا شام فراق جائے کیوں، صبح وصال آئے کیوں

۔شمسؔ ؔ ؔ ؔ گلاؤٹھوی۔(معاصر غالبؔ )

خیالِ اہلِ وطن آگیا جب اے

ناطقؔ وطن ہی کہنے کے لائق گلاؤٹھی نہ رہی

۔۔ ناطقؔ گلاؤٹھوی۔۔(تلمیذِ یزدانیؔ میرٹھی و داغ ؔ دہلوی)

جب کسی سے کلام ہوتا ہے ذکر

تیر ا تمام ہوتا ہے

۔یقینؔ ؔ گلاؤٹھوی۔

ہوا ہے کون سرگرمِ تبسم کہ

پھولوں کو پسینہ آرہاہے

۔فداؔ ؔ گلاؤٹھوی۔(تلمیذِ داغ ؔ دہلوی)

مذہبِ عشق میں کیا فرض ہے میری

تقلید کوئی اِ س بُت کو خدا کے لیے کافر نہ کہے

۔خیالؔ ؔ گلاؤٹھوی۔

قابلؔ ہے میری قوم کی تاریخ

مختصر ساغر ملا تو ہاتھ سے تلوار گرگئی

۔قابلؔ ؔ ؔ گلاؤٹھوی۔

پاؤں اپنے ہیں نہ دل اپنا، نہ

منزل اپنی دل چلا، چلنے لگے، پاؤں تھکے ، بیٹھ گئے

میں خود تو تمازت میں کھڑا

رہتا ہوں لیکن ہم سائے کے لوگوں پہ مِری چھاؤں پڑے ہے

۔امیرؔ ؔ ؔ ؔ گلاؤٹھوی۔

فقط اس آسرے پر رات کاٹی شمع

نے روکر کہ شاید صبح تک زندہ میرا پروانہ ہوجائے

ذرّے جو وہاں پہنچے تِری راہ

گزر سے موسوم ہوئے چرخ پہ انجم سے ، قمر سے

۔سید ریاض الدین ریاضؔ ۔

ندیم ماہر ؔ (مقیم دوحہ ،

قطر)نے اپنا نمونہ کلام شاملِ کتاب کرنا پسند نہیں کیا ، مگراس کتاب کی اشاعت سے

بہت عرصہ قبل، انھوں نے اپنا پہلا مجموعہ کلام ’دستکوں کے نشان‘خاکسار کی نذر کیا

تھا، سوبندہ اس میں سے کچھ اشعار پیش کررہا ہے:

چاند کے چھپنے کا منظر کیا

کہوں چاندنی پانی میں ضم ہونے لگی

جن کا سادہ مزاج ہوتا ہے اُن

کے قدموں میں تاج ہوتا ہے

ہے میرا سایہ درپئے آزار اِن

دنوں کرنے لگا ہے مجھ سے ہی تکرار اِن دنوں

گلاؤٹھی کی سادات برادری میں

شامل مختلف شعبہ ہائے زندگی کے جن مشاہیر کا ذکر زیرِ نظر کتا ب میں ہے ،ان کے فقط

اسماء ہی لکھنے پر اکتفا کروں گا: سائنس داں ڈاکٹر سید ظفر زیدی (سابق شیخ الجامعہ

، جامعہ کراچی)، جغرافیہ داں ڈاکٹرسید نفیس احمد(رکن باؤنڈری کمیشن برائے تقسیم

ہند۔۱۹۴۷ء)، وکلاء سیدناصر الدین، عثمان غنی راشد اور وسیم ہاشمی،

گلوکار احمدرُشدی، صحافی سید سلیم شہزاد، شہدائے جنگ آزادی ۱۸۵۷ء سید سرفرازعلی، رحمت اللہ و عنایت اللہ نیز

شہید ۱۹۷۰ء

اسکواڈرن لیڈر سید خالد حسن واسطی۔ مختلف شعبوں سے متعلق بعض شخصیات کا ذکر بوجوہ

رہ گیا ہے جس کا آیندہ اشاعت میں ازالہ ممکن ہے۔یہاں ایک اضافہ خاکسار کی طرف سے:

ممتاز صحافی سید سلیم شہزادکے

کوائف میںیہ دونکات شامل ہونے سے رہ گئے ہیں:

۱۔مرحوم نے عملی صحافت کا آغاز انگریزی روزنامہ

ڈیلی نیوز سے کیا اور اس ضمن میں سہیل احمدصدیقی کی سرپرستی انھیں حاصل رہی۔

۲۔اس سے قبل انھوں نے ، اسلام آباد جاکر،خالد اطہر

کی قایم کی ہوئی، ایک نام نہاد نیوز ایجنسی میں تربیت کی غرض سے شمولیت اختیارکی،

مگر یہ معاملہ باقاعدہ تربیت تک نہیں پہنچا۔

کتاب ’’تذکرہ سادات گلاؤ

ٹھی۔تاریخ کے گم شدہ اوراق ‘‘ کے مندرجات میں کئی موضوعات تفصیلی تبصرے کے لائق

ہیں، مگر راقم تنگی وقت کے سبب گریز کررہا ہے۔البتہ ایک مضمون میں ایک بزرگ نے

سہواً حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ‘ کے فرزندکے متعلق ایک غلط روایت نقل کی ہے جس

کی تصحیح اسلامی فریضہ سمجھتے ہوئے کی جارہی ہے:

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ‘

کے فرزند ،حضرت عبداللہ( رضی اللہ عنہ‘ )کے متعلق یہ روایت بہت مشہور ہے کہ اُن کی

وفات اپنی والدہ ماجدہ حضرت رقیہ (رضی اللہ عنہا) کی رحلت کے کچھ دن بعد، کسی مرغ

کے ، آنکھ میں چونچ مارنے کے سبب ہوئی تھی....مگر یہ روایت تحقیق سے غلط ثابت

ہوچکی ہے ۔ حضرت عبداللہ( رضی اللہ عنہ‘ )کا انتقال ایک عمر گزارکر ، شادی اور

بچوں کے باپ بننے کے بعد ہوا او ر اُن کی آل، عثمانی سید کہلائی۔(حوالے کے لیے

ملاحظہ فرمائیں: تحقیق سید وسادات، خلافت معاویہ و یزید ، تحقیق مزید خلافت معاویہ

و یزید از حکیم محموداحمد عباسی)۔یہاں ایک دل چسپ بات یہ ہے کہ نامور مؤرخ

المسعودی نے اپنی مشہور کتاب ’مروج الذہب‘ (جلد دوم صفحہ ۳۳۱) میں لکھا ہے کہ سیدہ رقیہ (رضی اللہ عنہا)سے

سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ‘ کے دو فرزند عبداللہ نامی ہوئے : عبداللہ الاکبر

اور عبداللہ الاصغر۔(صحابہ کرام اور اہل بیتِ نبوت کے تعلقات اور رشتے داریاں از

حکیم محمود احمد ظفر۔مطبوعہ تخلیقات، لاہور۔۲۰۱۴ء)

کتاب صوری و معنوی حسن سے مزین

ہے اور اس کا سرسری مطالعہ قاری کو یہ کہنے پر مجبورکرتا ہے کہ اس کی باردِگر

اشاعت سستے کاغذپرکی جائے اوراس کے ساتھ ساتھ(تمام ذرائع ابلاغ سے ) تشہیر بھی عام

ہو تو یہ عمل کئی اعتبار سے مفید ہوگا۔ 


***************

 س ا ص/۶اگست ۲۰۱۷ء۵۷:۱۱ ش

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024