تبسم فاطمہ کی نثری نظمیں
تبسم فاطمہ کی نثری نظمیں
Mar 16, 2018
مزاحمتی نظمیں
دیدبان شمارہ۔
حاشیے پر
تبسم فاطمہ
باہر گونجتی آوازوں میں
دہشت گردی کے نام پر ایک مکمل نسل
نفرت کے کٹہرے میں کھڑی ہے /
ٹی وی چینلز پر صرف ایک عارف نہیں ہوتا /
ایک پوری قوم ہوتی ہے /
سہمی ہوئی / 24 گھنٹے /ایک ہی نشانے پر مرتی ہوئی /
انکاو¿نٹر میں کتنی گولیاں چلتی ہیں، نہیں معلوم /
کتنی گولیاں کھا کر مرتا ہے ایک دہشت گرد
یہ بھی نہیں جانتی /
لےکن سیاست اور چینلز سے نکلتی
ہزاروں لاکھوں گولیوں کے باوجود /
ان گنت سوراخ ہوئے جسم میں بھی /
چلتی رہتی ہیں ہماری سانسیں
زندہ ہونے کے ڈھونگ کچھ ہمارے ہوتے ہیں
ایک مکمل نسل کو ختم کرنے کا معجزہ
ان کا ہوتا ہے /
3
مردوں کا جشن
میں ڈر گئی ہوں /
یہاں ہر لفظ میرے خلاف ہیں
مجھے ہی لٹکایا جا رہا ہے سولی پر /
یہاں کوئی ایک شخص مجرم نہیں ہے
یہاں سزا کے لئے ایک پوری قوم کو،
بارود بھرے ٹینکر اور توپ کے سامنے کھڑا کر دیا جاتا ہے /
یہاں لفظ بکتے ہیں
ایک مکمل نسل کو سزا دلانے کے لئے
کروڑوں کی بولی لگتی ہے /
یہاں ذلیل کرنے والوں کو
تخت پر بٹھانے کی تیاری ہوتی ہے /
ایک مردہ ہوتی قوم کو شمسان میں
جانے کا حکم دیا گیا ہے
گھبرائیے نہیں /
ابھی چمکے گا کیمرے کا فلیش/
اینکر اترےں گے میدان میں /
چاروں طرف بچھا دیئے گئے ہیں بارود
ٹھہریے /
ابھی جشن منانا باقی ہے
4
میں اپنا چہرہ بھول آئی ہوں
بدقسمتی سے
جسے آپ دیکھ رہے ہیں، وہ میں نہیں ہوں /
جسے آپ سن رہے ہیں، وہ چہرہ بھی میرا نہیں ہے /
یہاں چاروں طرف بچھی سیاست کی فصیل پر
نہ میرے پاوں میرے پاوں ہیں /
نہ میرے ہاتھ میرے ہاتھ /
نہ میرے پاس کوئی دل ہے، نہ سوچنے کے لئے دماغ /
ہمیں بت بنا کر ماضی کی سرنگ میں، پھینکنے کی تیاری میں ہے سیاست /
لاشوں کی تجارت کے لئے /
اس سے اچھا وقت /
تاریخ دانوں کی نظر میں دوسرا کوئی نہیں ہے /
کفر آشنا دل
کفر آشنا دل کے ساتھ
میں جنت کی طرف جانے والے راستوں سے لوٹ آئی تھی
اب میں واپس ہورہی تھی۔
سنگ وخشت سے تعمیر ہونے والے بت
چوراہوں پر ایستادہ تھے
میںنے انہیں گھر میں بھی دیکھا تھا۔
شوہر اور بچوں کی شکلوں میں
حیران ہوئی تھی
مردوں کے چہروں میں اتنی یکسانیت کیوں ہوتی ہے
عورتوں کے چہرے تو جداجدا ہوتے ہیں
***
یہاں جنت کی طرف جانے والے راستوں کے لیے
سنگ وخشت سے تعمیر شدہ بت بھی ڈراتے ہیں
میں گھر میں بھی ان بتوں کی آہٹ سنتی ہوئی بڑی ہوئی تھی/
میں نے جسم کے سجدے کو انکار کیا
فرعونیت کے مجازی ہاتھوں کو جھٹکا دیا
اور سہم گئی تھی/
بڑے ہوتے بچوں کے چہرے بھی تبدیل ہورہے تھے
***
اذاں کی آوازیں پہاڑیوں کے عقب میں اتر گئی تھی
شریعت کی وزنی کتابوں کے درمیان
گھٹن بھرے قید خانے میں،
مردانے بوٹ ہماری پشت پر چبھ رہے تھے/
مجازی خداﺅں نے ہاتھوں میں چابک تھام رکھے تھے
***
اس پار سمندر سے آتی ہوئی ہوائیں تیز تھیں
لہولہان گھوڑے تیز تھپیڑوں میں گر رہے تھے
میں مجازی ناخداﺅں کی بت پرستی سے انکار کی مجرم تھی
اور فرعونیت سے بغاوت کی گنہگار
***
اس پار سے آتی سمندر کی تیز ہوائیں مجھے بلا رہی تھیں۔
میں نے جنت کی طرف کھلنے والی کھڑکی بند کرلی/
چراغ بجھادیئے۔
چوراہوں پر ایستادہ بتوں کے قہقہے خاموش تھے
***
میں آتش پرست نہیں تھی مگر میں نے اپنے لیے آگ چنی
میں دعاﺅں میں جلی اور انجانے خوابوں سے معاہدہ کیا/
مٹھیوں میں دوزخ کی دہکتی ہوئی آگ تھی
میں بتوں کے شناسا، ہجوم سے باہر نکلی
اور آگ کی بارش میں سما گئی
***
دیدبان شمارہ۔
حاشیے پر
تبسم فاطمہ
باہر گونجتی آوازوں میں
دہشت گردی کے نام پر ایک مکمل نسل
نفرت کے کٹہرے میں کھڑی ہے /
ٹی وی چینلز پر صرف ایک عارف نہیں ہوتا /
ایک پوری قوم ہوتی ہے /
سہمی ہوئی / 24 گھنٹے /ایک ہی نشانے پر مرتی ہوئی /
انکاو¿نٹر میں کتنی گولیاں چلتی ہیں، نہیں معلوم /
کتنی گولیاں کھا کر مرتا ہے ایک دہشت گرد
یہ بھی نہیں جانتی /
لےکن سیاست اور چینلز سے نکلتی
ہزاروں لاکھوں گولیوں کے باوجود /
ان گنت سوراخ ہوئے جسم میں بھی /
چلتی رہتی ہیں ہماری سانسیں
زندہ ہونے کے ڈھونگ کچھ ہمارے ہوتے ہیں
ایک مکمل نسل کو ختم کرنے کا معجزہ
ان کا ہوتا ہے /
3
مردوں کا جشن
میں ڈر گئی ہوں /
یہاں ہر لفظ میرے خلاف ہیں
مجھے ہی لٹکایا جا رہا ہے سولی پر /
یہاں کوئی ایک شخص مجرم نہیں ہے
یہاں سزا کے لئے ایک پوری قوم کو،
بارود بھرے ٹینکر اور توپ کے سامنے کھڑا کر دیا جاتا ہے /
یہاں لفظ بکتے ہیں
ایک مکمل نسل کو سزا دلانے کے لئے
کروڑوں کی بولی لگتی ہے /
یہاں ذلیل کرنے والوں کو
تخت پر بٹھانے کی تیاری ہوتی ہے /
ایک مردہ ہوتی قوم کو شمسان میں
جانے کا حکم دیا گیا ہے
گھبرائیے نہیں /
ابھی چمکے گا کیمرے کا فلیش/
اینکر اترےں گے میدان میں /
چاروں طرف بچھا دیئے گئے ہیں بارود
ٹھہریے /
ابھی جشن منانا باقی ہے
4
میں اپنا چہرہ بھول آئی ہوں
بدقسمتی سے
جسے آپ دیکھ رہے ہیں، وہ میں نہیں ہوں /
جسے آپ سن رہے ہیں، وہ چہرہ بھی میرا نہیں ہے /
یہاں چاروں طرف بچھی سیاست کی فصیل پر
نہ میرے پاوں میرے پاوں ہیں /
نہ میرے ہاتھ میرے ہاتھ /
نہ میرے پاس کوئی دل ہے، نہ سوچنے کے لئے دماغ /
ہمیں بت بنا کر ماضی کی سرنگ میں، پھینکنے کی تیاری میں ہے سیاست /
لاشوں کی تجارت کے لئے /
اس سے اچھا وقت /
تاریخ دانوں کی نظر میں دوسرا کوئی نہیں ہے /
کفر آشنا دل
کفر آشنا دل کے ساتھ
میں جنت کی طرف جانے والے راستوں سے لوٹ آئی تھی
اب میں واپس ہورہی تھی۔
سنگ وخشت سے تعمیر ہونے والے بت
چوراہوں پر ایستادہ تھے
میںنے انہیں گھر میں بھی دیکھا تھا۔
شوہر اور بچوں کی شکلوں میں
حیران ہوئی تھی
مردوں کے چہروں میں اتنی یکسانیت کیوں ہوتی ہے
عورتوں کے چہرے تو جداجدا ہوتے ہیں
***
یہاں جنت کی طرف جانے والے راستوں کے لیے
سنگ وخشت سے تعمیر شدہ بت بھی ڈراتے ہیں
میں گھر میں بھی ان بتوں کی آہٹ سنتی ہوئی بڑی ہوئی تھی/
میں نے جسم کے سجدے کو انکار کیا
فرعونیت کے مجازی ہاتھوں کو جھٹکا دیا
اور سہم گئی تھی/
بڑے ہوتے بچوں کے چہرے بھی تبدیل ہورہے تھے
***
اذاں کی آوازیں پہاڑیوں کے عقب میں اتر گئی تھی
شریعت کی وزنی کتابوں کے درمیان
گھٹن بھرے قید خانے میں،
مردانے بوٹ ہماری پشت پر چبھ رہے تھے/
مجازی خداﺅں نے ہاتھوں میں چابک تھام رکھے تھے
***
اس پار سمندر سے آتی ہوئی ہوائیں تیز تھیں
لہولہان گھوڑے تیز تھپیڑوں میں گر رہے تھے
میں مجازی ناخداﺅں کی بت پرستی سے انکار کی مجرم تھی
اور فرعونیت سے بغاوت کی گنہگار
***
اس پار سے آتی سمندر کی تیز ہوائیں مجھے بلا رہی تھیں۔
میں نے جنت کی طرف کھلنے والی کھڑکی بند کرلی/
چراغ بجھادیئے۔
چوراہوں پر ایستادہ بتوں کے قہقہے خاموش تھے
***
میں آتش پرست نہیں تھی مگر میں نے اپنے لیے آگ چنی
میں دعاﺅں میں جلی اور انجانے خوابوں سے معاہدہ کیا/
مٹھیوں میں دوزخ کی دہکتی ہوئی آگ تھی
میں بتوں کے شناسا، ہجوم سے باہر نکلی
اور آگ کی بارش میں سما گئی
***