تبسم فاطمہ بنام نصیر احمد ناصر
تبسم فاطمہ بنام نصیر احمد ناصر
Apr 22, 2024
دیدبان شمارہ اپریل 2024
تبسم فاطمہ بنام نصیر احمد ناصر
تحریر: تبسم فاطمہ
میں کوشش کرتی ہوں۔ میں کچھ الگ لکھنا چاہتی ہوں اس لیے خود سے الجھتی ہوں۔ مغرب کو بھی پڑھتی رہتی ہوں۔ وہاں نظم کو فلسفہ نہیں بننے دیا جاتا۔ میں آپ سے متاثر ہوں۔ آپ کیفیات کو الفاظ دیتے ہیں۔ میں ابھی سیکھ رہی ہوں۔ بہت کچھ سیکھنا ہے۔
ایک مخصوص کیفیت نظم کو جنم دیتی ہے۔ ہم روانی میں بَہ جائیں تو جذباتیت سے دامن چھڑانا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس لیے کیفیت کو ٹھہر ٹھہر کر لکھنے سے الفاظ ہماری دسترس میں ہوتے ہیں۔ ایک بات اور ہے، اکثر ہم نظم کے لیے کلائمکس سوچتے ہیں۔ نظم ایسا موثر ڈھانچہ ہے جسے کسی اختتام کی ضرورت نہیں۔ نہ کچوکے لگانا نہ چونکانا۔ میں وہیں ٹھہر جاتی ہوں جہاں مجھے لگتا ہے، اب مخصوص کیفیت کا اثر زایل ہو جائے گا۔
کل شب میں نے آپ کی ایک نظم پر پوسٹ کیا تھا:
"ہم سب گفٹ پپر میں لپٹے ہوئے ہیولہ ہیں بس۔ ہماری نہ ختم ہونے والی نیند اور نیند کے آڑے ترچھے مکالموں کی ایک پناہ گاہ تجرید ہے، جس کے ہزار پایہ آپ کی نظموں میں ابلتے ہیں اور خود سے مکالمہ کرتے ہیں۔ یہ مکالمے اکثر فکری اعتبار سے پینٹنگز، گفٹ، گھوڑے، خواب، زمین، مقبرے، دریا، سمندر کو اس طرح حصار میں لیتے ہیں کہ برہنہ پرچھائیاں رقص کرنے لگتی ہیں۔ آپ ان مکالموں کو تجرید سے سانسوں تک لے آتے ہیں زندگی بنا کر۔" اہم یہی ہے۔ میں یہی مانتی ہوں۔ نظموں کو قید مت کرو۔ بہنے دو اور لگام میں بھی رکھو۔ میں تجرید کو بہت اہمیت دیتی ہوں۔ ہماری باڈی لینگویج اور حرکات و سکنات میں بھی تجرید کے اشارے ہوتے ہیں۔ بہت کچھ مبہم۔ یہ زیریں لہریں ہیں جو نظم کی بساط پر پھیل جاتی ہیں۔ کیا ہی شاندار بات کہی ہے آپ نے کہ "زیر سطر، زیرِ الفاظ، پسِ الفاظ ، پسِ نظم، نظم چل رہی ہوتی ہے۔" ہوتا یہی ہے کہ جب ہم لکھنے کی کیفیت میں ہوتے ہیں تو یہ سوچ حاوی ہی نہیں ہوتی کہ ہم کس کے لیے لکھ رہے ہیں اور کتنے لوگ سمجھیں گے۔ نظم اسی لیے کامیاب و موثر ہتھیار کی مانند لگتی ہے کہ ہم اپنے خیال کو زمان و مکان کے فلسفے سے آراستہ کر کے، ایک راستے پر پہنچنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ کتنے ہی سوالوں کی زمین سے الجھتے ہیں۔ حقیقت، فنتاسی، استعارے سب ایک کیفیت میں سما جاتے ہیں۔ یہی ابہام زیریں لہریں بن کر نظم کو مخصوص کیفیت کے سانچے میں اتارتی ہے۔
نظم کی کیفیت فکشن کی کیفیت سے مختلف ہوتی ہے۔ میں کہانی بھی لکھتی ہوں مگر نظم دل کے زیادہ قریب معلوم ہوتی ہے۔ میں نظم میں ہی زندگی محسوس کرتی ہوں۔ میں ذوقی کا حوالہ کہیں نہیں دیتی۔ میں چاہتی ہوں، میں جیسی ہوں، مجھے میرے طور پر دریافت کیا جائے۔ ہم دونوں میں ادبی نظریے کے طور پر بھی فرق ہے۔ لیکن آپ کے بارے میں گفتگو ہوتی رہتی ہے۔ وہ آپ کو بہت مانتے ہیں۔ ان کی خوبی ہے کہ وہ میرے معاملے میں انٹرفیر کبھی نہیں کرتے۔ کرنا بھی نہیں چاہیے۔ دو ادیبوں کی دنیا کو مختلف ہونا چاہیے۔
"نظم بہت کم لوگوں کو بلاتی ہے"، کیا بات کہی ہے آپ نے۔ کبھی کبھی لگتا ہے نظم کے لیے الفاظ اب بھی کوہ قاف میں پڑے ہوں۔ انھیں کیسے لاؤں، سمجھ میں نہیں آتا۔ نظم جینا چاہتی ہوں۔
"نظم آپ کو بلا رہی ہے
کوہ قاف سے
قلم کی تلوار اٹھائیں
اور کاغذی گھوڑے پر سوار ہو کر
نظم کو جناتی لفظوں کی قید سے رہا کرائیں
نظم آپ کے فراخ بازوؤں میں
سماوی نیند سونا چاہتی ہے"
نظم کو جناتی لفظوں کی قید سے رہا کرائیں
نظم آپ کے فراخ بازوؤں میں
سماوی نیند سونا چاہتی ہے ۔۔۔
بس یہی چاہتی ہوں ۔۔۔ نظم میں لفظ قرینے سے ادا ہوں۔ جنّاتی زبان نہ ہو۔ یہی سیکھ رہی ہوں۔ پاکستان میں کچھ لوگ بہت مشکل زبان لکھ رہے ہیں۔
یہاں کے پبلشر اجازت نہیں لیتے۔ پاکستانی کتابیں ہاتھوں ہاتھ لی جاتی ہیں، اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ آپ کے مجموعے میں نے ان سے لے کر پڑھے۔ آپ کی کتابیں بھی یہاں سے شایع ہوئیں۔ آپ کا تازہ مجموعہ ابھی پڑھا نہیں ہے۔ پڑھنا چاہتی ہوں۔ ایک پبلشر آپ کی کتابیں لے گئے۔ کتابیں واپس بھی نہیں کیں۔ یہ افسوسناک ہے۔ میں ان صاحب سے واقف ہوں۔ اب وہ گھر نہیں آتے۔ بہت ساری کتابیں لے کر غائب ہو گئے۔
"جب امکان کو موت آ جائے گی" کیا خوبصورت نظم ہے۔ مخصوص کیفیت مگر اس کیفیت کو آپ نے نظم میں تبدیل کر دیا۔ جب ہمارے درمیان ایک رات بھی نہیں رہے گی ۔۔۔ یہ نظم کا کلیدی نقطہ ہے۔ ایک دن حیات پردہ کر لیتی ہے۔ چائے، بسکٹ، ناشتہ، ڈنر ٹیبل ۔۔۔ چھوٹے چھوٹے مکالمے سب گم ۔۔۔ کیا ایسا سوچنا آسان ہے ۔۔۔ دن کو دیکھ سکتے ہیں ۔۔۔ اس علامت میں کتنی گہرائی ہے ۔۔۔ ماورائے حیرت۔ دھند سے شروع اور دھند میں غروب ۔۔۔ کیا ابھی ہم ہیں ۔۔۔ یہ نیند کی مسافت ہے یا خواب؟ کبھی کچھ بھی حیران نہیں کرتا کبھی ٹیبل پر رکھی چائے کی خیالی پیالی بھی حیرت میں ڈالتی ہے ۔۔۔ یہاں زندگی ہے ۔۔۔ دھوپ، آسمان، پیڑ پودے ۔۔۔ ہم کہاں طلو ع ہوں گے!
"گلوریا جینز میں شام"بہت ا علیٰ، تاریخ کے پس منظر سے حیاتِ رواں کے تلاطم سے کھیلتی نظم ۔۔۔ کتنی ہی آہٹیں دستکیں ۔۔۔ طویل خاموشی ۔۔۔ سراب سراب زندگی کے کہنہ اوراق ۔۔۔ تشبیہ ۔۔۔ استعارے ۔۔۔ بڑا کینواس ۔۔۔ نظم نے خود کو جی لیا۔
آپ کے یہاں خیال ویژن میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اس لیے آپ کی نظمیں زیادہ متاثر کرتی ہیں۔ الفاظ کے انتخاب کے لیے آپ کو محنت نہیں کرنا پڑتی، ویژن پختہ، اس لیے الفاظ خود چل کر آپ کے پاس آتے ہیں۔ یہ سب کے ساتھ نہیں، صرف کچھ بڑے اور جینوئن شاعروں کے ساتھ ہوتا ہے۔ اسی لیے آپ کی نظمیں دل کے اندر اتر جاتی ہیں۔ میں بہت غور سے پڑھتی ہوں۔ ایک ایک لفظ کو اپنے مشاہدے سے گزارتی ہوں۔ پھر آپ کی نظموں کا جو کولاژ بنتا ہے وہ حیرت میں ڈال دیتا ہے۔
میں کافی بیمار رہی۔ ذوقی سے آپ کو خبر ملی ہو گی۔ ان دنوں طبیعت کچھ راستے پر ہے۔ چترل مدگل کے ناول کی پروف ریڈنگ کر رہی ہوں۔ بہت دنوں سے بیماری کی وجہ سے، آپ سے بات بھی نہیں کر سکی۔ میں نے ای میل پر آپ کو کچھ چیزیں بھجوایی تھیں . وقت ملے تو دیکھ لیجیے گا۔ صریر کی ذمہ داری کے لیے بہت نہت مبارک باد!
آپ کی نظم پڑھنے کے بعد کچھ لکھ گئی، پتہ نہیں کیا ہے ..۔
"قربان گاہ میں نیند"
میں تب جاگی تھی جب نیند میں سانپوں کی سرسراہٹ
بوسہ بننے کی تکمیل میں تھی
ہاتھ میں گرم ہوا کے جھونکے کی فصیل تھی
نہیں، ایک شہر آباد تھا
جلتا سلگتا
کیا یہ ممکن ہے کہ جب ہاتھ کی فصیلیں زخمی ہوں
نیرو کی بانسری کی آوازسن کر
ہونٹوں پر شبِ مقدس کا بوسہ طلو ع ہو رہا ہو؟
جب نیند میں شہر کے شہر غرقاب تھے
میں سانپوں کی سرسراہٹ کے درمیان عشق کا نغمہ گا رہی تھی
اٹھتے ہوئے شعلوں کے درمیان ایک ہجوم رقصِ شرر کی کیفیت میں تھا
(اور تم جان لو
کہ بے نیازی کے صرف دھڑ ہوتے ہیں
جب تم چمکتے پانیوں سے غسل کرتے ہو
کچھ لوگ نیزے پر
اچھالے جا رہے ہوتے ہیں
جب تمھارے جسم آسودہ مگر بے حس ہوں
سیاہ چمگادڑوں کا تحفہ تمھارے شہر کو بھیجا جاتا ہے
مگر تمھاری سماعت
روح سے خالی ہوتی ہے)
جب منحوس چمگادڑوں کی ٹولی فضا میں رقص کر رہی تھی
تب میں دریا میں کودی تھی
بے چین سانسوں کو جسم دینے کے لیے
پس منظر میں بارود کی آوازیں
جب موسیقی میں ڈھل رہی تھیں
میں نیند کی سیاہی سے پانی پر
رزق اور زندگی کا کولاژ بنا رہی تھی
(جب سرد راتیں کشمیر، اور گرم دن گودھرا گجرات ہوں گے
اس وقت بھی تم
پرانی لحاف میں بوسے لکھ رہے ہو گے
جب نیند قربان گاہ پر ہو گی
تم اپنی اپنی جنتوں میں قتل ہو رہے ہو گے)
نیند کے کورے کینواس پر
میرے جسم کی سرخی پھیلی تھی
حسین بوسے لپلپاتی زبانوں پر اٹھائے
سانپوں کا ہجوم شاہراہ پر اکٹھا ہو رہا تھا
--- تبسم فاطمہ
بشکریہ ۔جناب نصیر احمد ناصر
تبسم فاطمہ کو دنیا سے رخصت ہوئے تین برس بیت گئے ۔۔۔ بطور یاد ان کی ایک تحریر:
"قربان گاہ میں نیند" (تبسم فاطمہ بنام نصیر احمد ناصر)
دیدبان شمارہ اپریل 2024
تبسم فاطمہ بنام نصیر احمد ناصر
تحریر: تبسم فاطمہ
میں کوشش کرتی ہوں۔ میں کچھ الگ لکھنا چاہتی ہوں اس لیے خود سے الجھتی ہوں۔ مغرب کو بھی پڑھتی رہتی ہوں۔ وہاں نظم کو فلسفہ نہیں بننے دیا جاتا۔ میں آپ سے متاثر ہوں۔ آپ کیفیات کو الفاظ دیتے ہیں۔ میں ابھی سیکھ رہی ہوں۔ بہت کچھ سیکھنا ہے۔
ایک مخصوص کیفیت نظم کو جنم دیتی ہے۔ ہم روانی میں بَہ جائیں تو جذباتیت سے دامن چھڑانا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس لیے کیفیت کو ٹھہر ٹھہر کر لکھنے سے الفاظ ہماری دسترس میں ہوتے ہیں۔ ایک بات اور ہے، اکثر ہم نظم کے لیے کلائمکس سوچتے ہیں۔ نظم ایسا موثر ڈھانچہ ہے جسے کسی اختتام کی ضرورت نہیں۔ نہ کچوکے لگانا نہ چونکانا۔ میں وہیں ٹھہر جاتی ہوں جہاں مجھے لگتا ہے، اب مخصوص کیفیت کا اثر زایل ہو جائے گا۔
کل شب میں نے آپ کی ایک نظم پر پوسٹ کیا تھا:
"ہم سب گفٹ پپر میں لپٹے ہوئے ہیولہ ہیں بس۔ ہماری نہ ختم ہونے والی نیند اور نیند کے آڑے ترچھے مکالموں کی ایک پناہ گاہ تجرید ہے، جس کے ہزار پایہ آپ کی نظموں میں ابلتے ہیں اور خود سے مکالمہ کرتے ہیں۔ یہ مکالمے اکثر فکری اعتبار سے پینٹنگز، گفٹ، گھوڑے، خواب، زمین، مقبرے، دریا، سمندر کو اس طرح حصار میں لیتے ہیں کہ برہنہ پرچھائیاں رقص کرنے لگتی ہیں۔ آپ ان مکالموں کو تجرید سے سانسوں تک لے آتے ہیں زندگی بنا کر۔" اہم یہی ہے۔ میں یہی مانتی ہوں۔ نظموں کو قید مت کرو۔ بہنے دو اور لگام میں بھی رکھو۔ میں تجرید کو بہت اہمیت دیتی ہوں۔ ہماری باڈی لینگویج اور حرکات و سکنات میں بھی تجرید کے اشارے ہوتے ہیں۔ بہت کچھ مبہم۔ یہ زیریں لہریں ہیں جو نظم کی بساط پر پھیل جاتی ہیں۔ کیا ہی شاندار بات کہی ہے آپ نے کہ "زیر سطر، زیرِ الفاظ، پسِ الفاظ ، پسِ نظم، نظم چل رہی ہوتی ہے۔" ہوتا یہی ہے کہ جب ہم لکھنے کی کیفیت میں ہوتے ہیں تو یہ سوچ حاوی ہی نہیں ہوتی کہ ہم کس کے لیے لکھ رہے ہیں اور کتنے لوگ سمجھیں گے۔ نظم اسی لیے کامیاب و موثر ہتھیار کی مانند لگتی ہے کہ ہم اپنے خیال کو زمان و مکان کے فلسفے سے آراستہ کر کے، ایک راستے پر پہنچنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ کتنے ہی سوالوں کی زمین سے الجھتے ہیں۔ حقیقت، فنتاسی، استعارے سب ایک کیفیت میں سما جاتے ہیں۔ یہی ابہام زیریں لہریں بن کر نظم کو مخصوص کیفیت کے سانچے میں اتارتی ہے۔
نظم کی کیفیت فکشن کی کیفیت سے مختلف ہوتی ہے۔ میں کہانی بھی لکھتی ہوں مگر نظم دل کے زیادہ قریب معلوم ہوتی ہے۔ میں نظم میں ہی زندگی محسوس کرتی ہوں۔ میں ذوقی کا حوالہ کہیں نہیں دیتی۔ میں چاہتی ہوں، میں جیسی ہوں، مجھے میرے طور پر دریافت کیا جائے۔ ہم دونوں میں ادبی نظریے کے طور پر بھی فرق ہے۔ لیکن آپ کے بارے میں گفتگو ہوتی رہتی ہے۔ وہ آپ کو بہت مانتے ہیں۔ ان کی خوبی ہے کہ وہ میرے معاملے میں انٹرفیر کبھی نہیں کرتے۔ کرنا بھی نہیں چاہیے۔ دو ادیبوں کی دنیا کو مختلف ہونا چاہیے۔
"نظم بہت کم لوگوں کو بلاتی ہے"، کیا بات کہی ہے آپ نے۔ کبھی کبھی لگتا ہے نظم کے لیے الفاظ اب بھی کوہ قاف میں پڑے ہوں۔ انھیں کیسے لاؤں، سمجھ میں نہیں آتا۔ نظم جینا چاہتی ہوں۔
"نظم آپ کو بلا رہی ہے
کوہ قاف سے
قلم کی تلوار اٹھائیں
اور کاغذی گھوڑے پر سوار ہو کر
نظم کو جناتی لفظوں کی قید سے رہا کرائیں
نظم آپ کے فراخ بازوؤں میں
سماوی نیند سونا چاہتی ہے"
نظم کو جناتی لفظوں کی قید سے رہا کرائیں
نظم آپ کے فراخ بازوؤں میں
سماوی نیند سونا چاہتی ہے ۔۔۔
بس یہی چاہتی ہوں ۔۔۔ نظم میں لفظ قرینے سے ادا ہوں۔ جنّاتی زبان نہ ہو۔ یہی سیکھ رہی ہوں۔ پاکستان میں کچھ لوگ بہت مشکل زبان لکھ رہے ہیں۔
یہاں کے پبلشر اجازت نہیں لیتے۔ پاکستانی کتابیں ہاتھوں ہاتھ لی جاتی ہیں، اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ آپ کے مجموعے میں نے ان سے لے کر پڑھے۔ آپ کی کتابیں بھی یہاں سے شایع ہوئیں۔ آپ کا تازہ مجموعہ ابھی پڑھا نہیں ہے۔ پڑھنا چاہتی ہوں۔ ایک پبلشر آپ کی کتابیں لے گئے۔ کتابیں واپس بھی نہیں کیں۔ یہ افسوسناک ہے۔ میں ان صاحب سے واقف ہوں۔ اب وہ گھر نہیں آتے۔ بہت ساری کتابیں لے کر غائب ہو گئے۔
"جب امکان کو موت آ جائے گی" کیا خوبصورت نظم ہے۔ مخصوص کیفیت مگر اس کیفیت کو آپ نے نظم میں تبدیل کر دیا۔ جب ہمارے درمیان ایک رات بھی نہیں رہے گی ۔۔۔ یہ نظم کا کلیدی نقطہ ہے۔ ایک دن حیات پردہ کر لیتی ہے۔ چائے، بسکٹ، ناشتہ، ڈنر ٹیبل ۔۔۔ چھوٹے چھوٹے مکالمے سب گم ۔۔۔ کیا ایسا سوچنا آسان ہے ۔۔۔ دن کو دیکھ سکتے ہیں ۔۔۔ اس علامت میں کتنی گہرائی ہے ۔۔۔ ماورائے حیرت۔ دھند سے شروع اور دھند میں غروب ۔۔۔ کیا ابھی ہم ہیں ۔۔۔ یہ نیند کی مسافت ہے یا خواب؟ کبھی کچھ بھی حیران نہیں کرتا کبھی ٹیبل پر رکھی چائے کی خیالی پیالی بھی حیرت میں ڈالتی ہے ۔۔۔ یہاں زندگی ہے ۔۔۔ دھوپ، آسمان، پیڑ پودے ۔۔۔ ہم کہاں طلو ع ہوں گے!
"گلوریا جینز میں شام"بہت ا علیٰ، تاریخ کے پس منظر سے حیاتِ رواں کے تلاطم سے کھیلتی نظم ۔۔۔ کتنی ہی آہٹیں دستکیں ۔۔۔ طویل خاموشی ۔۔۔ سراب سراب زندگی کے کہنہ اوراق ۔۔۔ تشبیہ ۔۔۔ استعارے ۔۔۔ بڑا کینواس ۔۔۔ نظم نے خود کو جی لیا۔
آپ کے یہاں خیال ویژن میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اس لیے آپ کی نظمیں زیادہ متاثر کرتی ہیں۔ الفاظ کے انتخاب کے لیے آپ کو محنت نہیں کرنا پڑتی، ویژن پختہ، اس لیے الفاظ خود چل کر آپ کے پاس آتے ہیں۔ یہ سب کے ساتھ نہیں، صرف کچھ بڑے اور جینوئن شاعروں کے ساتھ ہوتا ہے۔ اسی لیے آپ کی نظمیں دل کے اندر اتر جاتی ہیں۔ میں بہت غور سے پڑھتی ہوں۔ ایک ایک لفظ کو اپنے مشاہدے سے گزارتی ہوں۔ پھر آپ کی نظموں کا جو کولاژ بنتا ہے وہ حیرت میں ڈال دیتا ہے۔
میں کافی بیمار رہی۔ ذوقی سے آپ کو خبر ملی ہو گی۔ ان دنوں طبیعت کچھ راستے پر ہے۔ چترل مدگل کے ناول کی پروف ریڈنگ کر رہی ہوں۔ بہت دنوں سے بیماری کی وجہ سے، آپ سے بات بھی نہیں کر سکی۔ میں نے ای میل پر آپ کو کچھ چیزیں بھجوایی تھیں . وقت ملے تو دیکھ لیجیے گا۔ صریر کی ذمہ داری کے لیے بہت نہت مبارک باد!
آپ کی نظم پڑھنے کے بعد کچھ لکھ گئی، پتہ نہیں کیا ہے ..۔
"قربان گاہ میں نیند"
میں تب جاگی تھی جب نیند میں سانپوں کی سرسراہٹ
بوسہ بننے کی تکمیل میں تھی
ہاتھ میں گرم ہوا کے جھونکے کی فصیل تھی
نہیں، ایک شہر آباد تھا
جلتا سلگتا
کیا یہ ممکن ہے کہ جب ہاتھ کی فصیلیں زخمی ہوں
نیرو کی بانسری کی آوازسن کر
ہونٹوں پر شبِ مقدس کا بوسہ طلو ع ہو رہا ہو؟
جب نیند میں شہر کے شہر غرقاب تھے
میں سانپوں کی سرسراہٹ کے درمیان عشق کا نغمہ گا رہی تھی
اٹھتے ہوئے شعلوں کے درمیان ایک ہجوم رقصِ شرر کی کیفیت میں تھا
(اور تم جان لو
کہ بے نیازی کے صرف دھڑ ہوتے ہیں
جب تم چمکتے پانیوں سے غسل کرتے ہو
کچھ لوگ نیزے پر
اچھالے جا رہے ہوتے ہیں
جب تمھارے جسم آسودہ مگر بے حس ہوں
سیاہ چمگادڑوں کا تحفہ تمھارے شہر کو بھیجا جاتا ہے
مگر تمھاری سماعت
روح سے خالی ہوتی ہے)
جب منحوس چمگادڑوں کی ٹولی فضا میں رقص کر رہی تھی
تب میں دریا میں کودی تھی
بے چین سانسوں کو جسم دینے کے لیے
پس منظر میں بارود کی آوازیں
جب موسیقی میں ڈھل رہی تھیں
میں نیند کی سیاہی سے پانی پر
رزق اور زندگی کا کولاژ بنا رہی تھی
(جب سرد راتیں کشمیر، اور گرم دن گودھرا گجرات ہوں گے
اس وقت بھی تم
پرانی لحاف میں بوسے لکھ رہے ہو گے
جب نیند قربان گاہ پر ہو گی
تم اپنی اپنی جنتوں میں قتل ہو رہے ہو گے)
نیند کے کورے کینواس پر
میرے جسم کی سرخی پھیلی تھی
حسین بوسے لپلپاتی زبانوں پر اٹھائے
سانپوں کا ہجوم شاہراہ پر اکٹھا ہو رہا تھا
--- تبسم فاطمہ
بشکریہ ۔جناب نصیر احمد ناصر
تبسم فاطمہ کو دنیا سے رخصت ہوئے تین برس بیت گئے ۔۔۔ بطور یاد ان کی ایک تحریر:
"قربان گاہ میں نیند" (تبسم فاطمہ بنام نصیر احمد ناصر)