تبصرہ:بیانیات اور بیانوی ساخت
تبصرہ:بیانیات اور بیانوی ساخت
Feb 14, 2025


تبصرہ:بیانیات اور بیانوی ساخت
نقاد کا ادب میں کیا کردار ہے؟ نقاد کی کیا ذمہ داریاں ہیں؟ کیا نقاد عصری فکشن میں پنہاں وہ اشارے آشکار کر رہا ہے جو سماج میں کسی ترقی تنزلی یا سماجی کروٹ کی وقت سے پہلے اگاہی دے رہا ہو؟ کوئی بھی فکشن ابتدائی طور پر اپنے زمان و مکان کے پس منظر میں پرکھا جاتا ہے اس کے لیے نقاد بیانیہ narrative کا جائزہ لیتا ہے ۔ وہ متن کو کسی بھی تنقیدی تھیوری کی چھلنی سے گزار کر، بیانیہ کی ریت کو چھان کر کنکر ہیرے الگ کر سکتا ہے ۔لیکن ایک اہم سوال اپنی جگہ برقرار ہے کہ آیا اردو نقاد نے کبھی سماج میں پھیلی بے چینی ، عدم اطمنان ،ماضی پرستی ، پیش بینی ، سماجی یا داخلی انحطاط یا ارتقاء خانگی یا ماحولیاتی عناصر میں ردوبدل کو عصری فکشن کے تناظر میں پرکھ کر اہل دانش کے لیے پیش کیا ہے کہ جناب ٹھہریے ! دیکھیے تو سہی ہمارا عصری فکشن یہ اشارے signal دے رہا ہے ۔ فرد اور سماج کو داخلی یا خارجی سطح پر ان عوامل کا سامنا ہے جو مستقبل میں فلاں فلاں صورت حال میں ڈھل سکتا ہے ۔یا پھر یہ کہ ہمارا عصری فکشن ابھی تک ماضی کے مزاروں میں پرواز کرتا اور وہیں گھونسلے بناتا کبوتر ہے ۔ جو فلاں فلاں انحطاط کی نشان دہی کر رہا ہے ؟ پچھلے چند برسوں میں کئی تنقیدی کتب زیر مطالعہ رہیں۔ان سب میں قدر مشترک تو تنقیدی نظریات کی تفصیل و نظریاتی مباحث شامل ہیں۔ اردو میں بیشتر نظرہاتی مباحث درآمد شدہ ہیں۔ اس پر اعتراض بھی کیا جاتا ہے مگر عموماً انہیں درآمد شدہ تنقیدی نظریات پر اردو متون و بیانیہ کو پرکھا جاتا ہے۔ بیشتر تنقیدی کتب میں تھیوری کی تفصیل اور جزئیات اس تفصیل سے شامل دیکھیں کہ گویا ہمارے نقاد کے لیے عصری فکشن اور اسکا تجزیہ اہم ہی نہیں رہا۔ بیانیات و بیانوی ساخت علی رفاد فتیحی کی کتاب ہے جس کے پہلے باب میں نظریاتی مباحث کے بعد انیس ابواب عصری فکشن کے فکری مباحث کے گرد گھومتے ہیں۔ان ابواب میں بیشتر ناول ہیں وہ ناول جو اس عشرے میں لکھے گئے ان کے مطالعے تجزیے اور تنقیدی تھیوری کی چھلنی سے گزار کر ہر باب کے اختتام میں کچھ نتائج اخذ کیے گئے ہیں ۔ یہ نتائج کیا ہیں اس پر مضمون کے آخر میں بات کروں گی۔ پہلے ان ناولوں کا تزکرہ اور بطور ایک قاری ان سے وابستہ توقعات کی بات کروں گی۔ مرزا اطہر بیگ کا ناول صفر سے ایک تک کا مابعد جدید بیانیہ ، فاروقی کا ناول کئی چاند تھے آسمان، خالد جاوید کا ایک خنجر پانی میں انیس اشفاق کا خواب ، ذوقی کا مرگ انبوہ بڑے ناول ہیں اپنے عہد کی عکاسی کرتے وقت ان میں ماضی کی گہری جڑیں اور مستقبل کے سرسراتے سانپوں جیسے مسائل شامل ہیں۔ درج بالا ناولوں کا تجزیہ عرق ریزی سے کیا گیا ہے۔ ہر ممکن تھیوری کا اطلاق کر کے بیانیہ کی پرکھ کی گئی ۔ جن تجزیات نے قاری کے لیے کچھ کھولا ہے ان میں محسن حسن خان کا اللہ میاں کارخانہ، ذکیہ مشہدی کا بلہیا کہیہ جاناں میں کون اور نسترن احسن فتیحی کا نوحہ گر شامل ہیں۔تاہم نسترن فتیحی کے فکشن میں مزاحمت کو سمجھنے کے لیے کسی افسانے کو بھی ساتھ شامل کرنے کی ضرورت تھی جہاں وہ ہٹلر بین کرتی آوازیں میں کچھ مزید مزاحمتی اشارے بھی دیتی نظر آتی ہیں۔اختر رضا سلیمی کے ناول جندر اور اقبال حسن خان کے افسانے پورٹریٹ کی مباحث بھی قابل زکر ہے ۔ شموئل کے سنگھار دان پر طویل مباحث پڑھے تھے مگر علی رفاد فتیحی نے اس افسانے کا کلاسٹروفوبک اور علامتی طوق کے طور پر جو جائزہ لیا وہ متاثر کن ہے۔ اب پھر سے وہیں سے بات جوڑتی ہوں کہ آخر ان تنقیدی نظریات کے اطلاق کے بعد نقاد نے جو عمل تقطیر کیا اس سے سماج کے لیے کیا جوہر برآمد ہوا۔ یقیناً مصنف نے اس عمل تقطیر سے ہر ناول یا افسانے کا جوہر تو برآمد کیا ہے مگر اسے بیان کرتے وقت حد درجہ پروفیشنل زبان، رویہ یا کہہ لیجیے کہ محتاط رویہ برتا ہے۔ وہ ان تحریروں سے اخذ نتائج سے کسی کو انتباہ نہیں دے رہے جیسے "صفر سے ایک تک کی فریکچرڈ کہانی اور ضابطے کی کمزور لکیریں،""کئی چاند تھے سر آسماں میں فاروقی نے ہندوستانی معاشرے کی پیچیدگیوں اورمختلف مذہبی اور سماجی گروہوں کے درمیان تناؤ کو اجاگر کیا یے " " اب جبکہ دنیا کووڈ کے اثر سے باہر آ چکی ہے اس دور کے تمام خوفناک تجربات وقت کی دھول میں پڑنے لگے ہیں، ایک خنجر پانی میں پڑھنا اس خوف کو دوبارہ جینے کے مترادف ہے، ایک خاصا الجھا دینے والا اور پریشان کن تجربہ ہے " "خواب سراب میں انیس اشفاق کا اختراعی بیانیہ قارئین کو متن کے ساتھ فعال طور پر مشغول کرتا ہے ۔"نکسل تحریک کے تئیں لوگوں کے حقیقی جذبات کو ظاہر کرنے کے لیے نسترن کیروس کا استعمال کرتی ہیں۔" ایسے کئی تجزیات سے محسوس ہوا کہ مصنف نے جس گہرائی سے ان ادبی متون کا جائزہ لیا وہ کچھ کہہ گئے اور کچھ کہنے سے گریز بھی کر گئے۔ البتہ ذکیہ مشہدی کے ناول بلہیا کہیہ جاناں میں کون ، اختر رضا سلیمی کے جندر ذوقی کے مرگ انبوہ کے نتائج سیر حاصل لگے ۔
کتاب مکمل کی تو دماغ نے ھل من مزید کی صدا دی۔ ایک عرصے سے تمنا تھی کہ کوئی اردو نقاد عصری فکشن کا مطالعہ کرے اور اردو سے منسلک دونوں ممالک پاک و ہند کے معاشروں میں سیاسی اقتصادی و سماجی ڈھانچے میں ہو رہے انحطاط کا سبب تلاش کر کے تھنک ٹینکس کے لیے پیش کرے کہ کچھ ہوش کرو۔ یا پھر یہ ہوا ہے کہ ابھی تک ہمارا شاعر یا ادیب بابا بلھے شاہ کی کی مانند کھل کر، واضح الفاظ میں اور للکار کر سرطان زدہ معاملات کی نشان دہی نہیں کر پا رہا۔ اس کے الفاظ محتاط ہیں اور مزاحمت کی لو دھیمی ہے۔ لیکن امید ہے کوئی تو لکھے گا اور نقاد آگاہ کرے گا۔ مزید عصری فکشن کے جائزے اور کتب کی منتظر ہوں۔
سبین علی
نوٹ: جناب علی رفاد فتیحی نے اپنی کتاب بیانات و بیانوی ساخت کے پر لکھے گئے راقم الحروف کے مضمون کے جواب میں یہ جوابی مضمون بھیجا۔ اردو اور انگریزی کی متعدد کتب کے مصنف ، پروفیسر اور نقاد کی جانب سے اس آبجیکٹیو مضمون کو جس خوش دلی اور اعلی ظرفی سے پڑھا سراہا اور پھر جواب بھی لکھا گیا اس نے تخلیق کار اور نقاد کے بیچ ایک نئی طرز کے مباحثے کا آغاز کیا ہے۔ آپ بھی پڑھیے ۔ سبین علی
"میں تہہ دل سے اس خوب صورت اور معروضی objective تبصرے کے لیے آپ کا شکر گزار ہوں ۔ آپ نے میری کتاب کو نہ صرف بغور پڑھا بلکہ اس کے منفی اور مثبت پہلو کو واضح کیا ہے۔میرے تاثرات:سبین علی کا تبصرہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ انہوں نے بیانیہ (Narrative) اور بیانوی ساخت (Narrative Structure) کے بنیادی نکات کو گہرائی سے سمجھا ہے اور اپنی تنقیدی بصیرت سے ان کا جائزہ لیا ہے۔ ان کا تجزیہ کئی اہم نکات کو اجاگر کرتا ہے، جو نہ صرف عصری فکشن کی معنویت کو نمایاں کرتے ہیں بلکہ تنقیدی مطالعے میں بیانیہ کی اہمیت کو بھی واضح کرتے ہیں۔بیانیہ کسی بھی فکشن کا وہ عنصر ہے جو کہانی کے خدوخال، اس کے ارتقا، اور اس میں پنہاں پیغامات کو مرتب کرتا ہے۔ بیانوی ساخت اس بیانیے کو کس انداز میں ترتیب دیتی ہے، یہ قاری پر کیسے اثر انداز ہوتی ہے، اور کون سی تکنیکیں اس کے مفہوم کو گہرائی عطا کرتی ہیں، ان سب کی تفہیم کے بغیر کسی فکشن کو مکمل طور پر نہیں سمجھا جا سکتا۔سبین علی نے علی رفاد فتیحی کی کتاب بیانیات و بیانوی ساخت کو بنیاد بنا کر ان سوالات کو اٹھایا ہے کہ کیا اردو نقاد عصری فکشن میں پنہاں ان اشاروں کو آشکار کر رہا ہے جو سماج میں ہونے والی تبدیلیوں کی پیش گوئی کر سکتے ہیں؟ اور کیا فکشن صرف ماضی میں الجھا رہ گیا ہے یا یہ مستقبل کے خدشات اور امکانات کو بھی پیش کرتا ہے؟ یہ سوالات تنقید میں بیانیہ کے کردار اور اس کی معنویت کو اجاگر کرنے کے لیے نہایت اہم ہیں۔سبین علی نے اپنے تبصرے میں عصری اردو فکشن کے چند نمایاں ناولوں اور افسانوں پر گفتگو کی ہے اور ان کے بیانیے کو پرکھنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان ناولوں میں ماضی کی گہری جڑیں اور مستقبل کے سرسراتے مسائل موجود ہیں، جن کو علی رفاد فتیحی نے باریک بینی سے پرکھا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ وہ یہ نکتہ بھی اٹھاتی ہیں کہ بعض اوقات فتیحی محتاط زبان اور رویہ اختیار کرتے ہیں، جس کی وجہ سے سماجی یا سیاسی انتباہات واضح نہیں ہو پاتے۔یہی وہ مقام ہے جہاں بیانیہ کا حقیقی کردار سامنے آتا ہے۔ فکشن محض ایک کہانی نہیں ہوتا بلکہ یہ انسانی نفسیات، سماجی ارتقا، سیاسی ہلچل اور تہذیبی بدلاؤ کا آئینہ بھی ہوتا ہے۔ سبین علی نے بجا طور پر اس بات کی نشان دہی کی ہے کہ اگر نقاد بیانیے میں پوشیدہ ان عناصر کو زیادہ وضاحت سے پیش کرے، تو شاید یہ تحریریں سماجی شعور بیدار کرنے میں زیادہ مؤثر ہو سکیں۔ان کے تبصرے سے جو ایک اور اہم پہلو سامنے آتا ہے، وہ تنقید اور بیانیہ کے باہمی تعلق کا ہے۔ اگر نقاد کسی متن کا جائزہ لیتے ہوئے تنقیدی تھیوری کی چھلنی سے گزارتا ہے تو یہ دیکھنا ضروری ہو جاتا ہے کہ آیا وہ متن کے جوہر کو واضح کر پایا ہے یا نہیں۔ سبین علی کی یہ شکایت کہ بیشتر نقاد زیادہ تر نظریاتی مباحث میں الجھے رہتے ہیں اور عصری فکشن پر براہ راست توجہ نہیں دیتے، ایک نہایت اہم نکتہ ہے۔ یہ دراصل اردو تنقید کے ایک عمومی رجحان کی طرف اشارہ ہے، جہاں بعض نقاد تھیوری کو اتنا مرکز بنا لیتے ہیں کہ متن کی اصل معنویت پس منظر میں چلی جاتی ہے۔سبین علی نے اس امر پر زور دیا ہے کہ نقاد کی ذمہ داری صرف نظریات کو دہرانا نہیں، بلکہ عصری فکشن میں چھپے ان اشاروں کو سامنے لانا ہے جو مستقبل کی پیش گوئی کرتے ہیں۔ اگر بیانیہ کسی عہد کی حقیقتوں کو آشکار کر سکتا ہے، تو نقاد کا فرض ہے کہ وہ ان حقیقتوں کو کھل کر بیان کرے، تاکہ فکشن محض ادبی تخلیق نہ رہے بلکہ ایک سماجی و فکری رہنمائی کا ذریعہ بھی بن سکے۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے کتاب کے اختتام پر ایک خواہش کا اظہار کیا ہے کہ اردو نقاد عصری فکشن کا باریک بینی سے مطالعہ کریں اور اس سے وہ نتائج اخذ کرے جو ہمارے سماجی، سیاسی، اور اقتصادی بحرانوں کی جڑیں تلاش کرنے میں مدد دے سکیں۔سبین علی کا تبصرہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ انہوں نے بیانیہ کے بنیادی نکات کو نہ صرف سمجھا ہے بلکہ ان کی معنویت کو بھی اجاگر کیا ہے۔ انہوں نے نہ صرف علی رفاد فتیحی کی کتاب کے تجزیاتی کام کی اہمیت کو تسلیم کیا، بلکہ اردو تنقید کی بعض کمزوریوں کی نشاندہی بھی کی ہے۔یہ تبصرہ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا اردو فکشن اور اس پر کی جانے والی تنقید آج بھی ماضی پرستی کا شکار ہے؟ یا کیا یہ کسی ایسی سمت میں جا رہی ہے جہاں مستقبل کے امکانات اور خطرات واضح کیے جا سکیں؟بیانیہ اور بیانوی ساخت کی تفہیم کے بغیر فکشن کی گہرائی کو مکمل طور پر نہیں سمجھا جا سکتا۔ سبین علی کا تبصرہ اس امر کی واضح مثال ہے کہ کس طرح ایک قاری بیانیہ کو ایک وسیع تناظر میں دیکھ کر اس کی سماجی معنویت کو اجاگر کر سکتا ہے۔"علی رفاد فتیحی"
تبصرہ:بیانیات اور بیانوی ساخت
نقاد کا ادب میں کیا کردار ہے؟ نقاد کی کیا ذمہ داریاں ہیں؟ کیا نقاد عصری فکشن میں پنہاں وہ اشارے آشکار کر رہا ہے جو سماج میں کسی ترقی تنزلی یا سماجی کروٹ کی وقت سے پہلے اگاہی دے رہا ہو؟ کوئی بھی فکشن ابتدائی طور پر اپنے زمان و مکان کے پس منظر میں پرکھا جاتا ہے اس کے لیے نقاد بیانیہ narrative کا جائزہ لیتا ہے ۔ وہ متن کو کسی بھی تنقیدی تھیوری کی چھلنی سے گزار کر، بیانیہ کی ریت کو چھان کر کنکر ہیرے الگ کر سکتا ہے ۔لیکن ایک اہم سوال اپنی جگہ برقرار ہے کہ آیا اردو نقاد نے کبھی سماج میں پھیلی بے چینی ، عدم اطمنان ،ماضی پرستی ، پیش بینی ، سماجی یا داخلی انحطاط یا ارتقاء خانگی یا ماحولیاتی عناصر میں ردوبدل کو عصری فکشن کے تناظر میں پرکھ کر اہل دانش کے لیے پیش کیا ہے کہ جناب ٹھہریے ! دیکھیے تو سہی ہمارا عصری فکشن یہ اشارے signal دے رہا ہے ۔ فرد اور سماج کو داخلی یا خارجی سطح پر ان عوامل کا سامنا ہے جو مستقبل میں فلاں فلاں صورت حال میں ڈھل سکتا ہے ۔یا پھر یہ کہ ہمارا عصری فکشن ابھی تک ماضی کے مزاروں میں پرواز کرتا اور وہیں گھونسلے بناتا کبوتر ہے ۔ جو فلاں فلاں انحطاط کی نشان دہی کر رہا ہے ؟ پچھلے چند برسوں میں کئی تنقیدی کتب زیر مطالعہ رہیں۔ان سب میں قدر مشترک تو تنقیدی نظریات کی تفصیل و نظریاتی مباحث شامل ہیں۔ اردو میں بیشتر نظرہاتی مباحث درآمد شدہ ہیں۔ اس پر اعتراض بھی کیا جاتا ہے مگر عموماً انہیں درآمد شدہ تنقیدی نظریات پر اردو متون و بیانیہ کو پرکھا جاتا ہے۔ بیشتر تنقیدی کتب میں تھیوری کی تفصیل اور جزئیات اس تفصیل سے شامل دیکھیں کہ گویا ہمارے نقاد کے لیے عصری فکشن اور اسکا تجزیہ اہم ہی نہیں رہا۔ بیانیات و بیانوی ساخت علی رفاد فتیحی کی کتاب ہے جس کے پہلے باب میں نظریاتی مباحث کے بعد انیس ابواب عصری فکشن کے فکری مباحث کے گرد گھومتے ہیں۔ان ابواب میں بیشتر ناول ہیں وہ ناول جو اس عشرے میں لکھے گئے ان کے مطالعے تجزیے اور تنقیدی تھیوری کی چھلنی سے گزار کر ہر باب کے اختتام میں کچھ نتائج اخذ کیے گئے ہیں ۔ یہ نتائج کیا ہیں اس پر مضمون کے آخر میں بات کروں گی۔ پہلے ان ناولوں کا تزکرہ اور بطور ایک قاری ان سے وابستہ توقعات کی بات کروں گی۔ مرزا اطہر بیگ کا ناول صفر سے ایک تک کا مابعد جدید بیانیہ ، فاروقی کا ناول کئی چاند تھے آسمان، خالد جاوید کا ایک خنجر پانی میں انیس اشفاق کا خواب ، ذوقی کا مرگ انبوہ بڑے ناول ہیں اپنے عہد کی عکاسی کرتے وقت ان میں ماضی کی گہری جڑیں اور مستقبل کے سرسراتے سانپوں جیسے مسائل شامل ہیں۔ درج بالا ناولوں کا تجزیہ عرق ریزی سے کیا گیا ہے۔ ہر ممکن تھیوری کا اطلاق کر کے بیانیہ کی پرکھ کی گئی ۔ جن تجزیات نے قاری کے لیے کچھ کھولا ہے ان میں محسن حسن خان کا اللہ میاں کارخانہ، ذکیہ مشہدی کا بلہیا کہیہ جاناں میں کون اور نسترن احسن فتیحی کا نوحہ گر شامل ہیں۔تاہم نسترن فتیحی کے فکشن میں مزاحمت کو سمجھنے کے لیے کسی افسانے کو بھی ساتھ شامل کرنے کی ضرورت تھی جہاں وہ ہٹلر بین کرتی آوازیں میں کچھ مزید مزاحمتی اشارے بھی دیتی نظر آتی ہیں۔اختر رضا سلیمی کے ناول جندر اور اقبال حسن خان کے افسانے پورٹریٹ کی مباحث بھی قابل زکر ہے ۔ شموئل کے سنگھار دان پر طویل مباحث پڑھے تھے مگر علی رفاد فتیحی نے اس افسانے کا کلاسٹروفوبک اور علامتی طوق کے طور پر جو جائزہ لیا وہ متاثر کن ہے۔ اب پھر سے وہیں سے بات جوڑتی ہوں کہ آخر ان تنقیدی نظریات کے اطلاق کے بعد نقاد نے جو عمل تقطیر کیا اس سے سماج کے لیے کیا جوہر برآمد ہوا۔ یقیناً مصنف نے اس عمل تقطیر سے ہر ناول یا افسانے کا جوہر تو برآمد کیا ہے مگر اسے بیان کرتے وقت حد درجہ پروفیشنل زبان، رویہ یا کہہ لیجیے کہ محتاط رویہ برتا ہے۔ وہ ان تحریروں سے اخذ نتائج سے کسی کو انتباہ نہیں دے رہے جیسے "صفر سے ایک تک کی فریکچرڈ کہانی اور ضابطے کی کمزور لکیریں،""کئی چاند تھے سر آسماں میں فاروقی نے ہندوستانی معاشرے کی پیچیدگیوں اورمختلف مذہبی اور سماجی گروہوں کے درمیان تناؤ کو اجاگر کیا یے " " اب جبکہ دنیا کووڈ کے اثر سے باہر آ چکی ہے اس دور کے تمام خوفناک تجربات وقت کی دھول میں پڑنے لگے ہیں، ایک خنجر پانی میں پڑھنا اس خوف کو دوبارہ جینے کے مترادف ہے، ایک خاصا الجھا دینے والا اور پریشان کن تجربہ ہے " "خواب سراب میں انیس اشفاق کا اختراعی بیانیہ قارئین کو متن کے ساتھ فعال طور پر مشغول کرتا ہے ۔"نکسل تحریک کے تئیں لوگوں کے حقیقی جذبات کو ظاہر کرنے کے لیے نسترن کیروس کا استعمال کرتی ہیں۔" ایسے کئی تجزیات سے محسوس ہوا کہ مصنف نے جس گہرائی سے ان ادبی متون کا جائزہ لیا وہ کچھ کہہ گئے اور کچھ کہنے سے گریز بھی کر گئے۔ البتہ ذکیہ مشہدی کے ناول بلہیا کہیہ جاناں میں کون ، اختر رضا سلیمی کے جندر ذوقی کے مرگ انبوہ کے نتائج سیر حاصل لگے ۔
کتاب مکمل کی تو دماغ نے ھل من مزید کی صدا دی۔ ایک عرصے سے تمنا تھی کہ کوئی اردو نقاد عصری فکشن کا مطالعہ کرے اور اردو سے منسلک دونوں ممالک پاک و ہند کے معاشروں میں سیاسی اقتصادی و سماجی ڈھانچے میں ہو رہے انحطاط کا سبب تلاش کر کے تھنک ٹینکس کے لیے پیش کرے کہ کچھ ہوش کرو۔ یا پھر یہ ہوا ہے کہ ابھی تک ہمارا شاعر یا ادیب بابا بلھے شاہ کی کی مانند کھل کر، واضح الفاظ میں اور للکار کر سرطان زدہ معاملات کی نشان دہی نہیں کر پا رہا۔ اس کے الفاظ محتاط ہیں اور مزاحمت کی لو دھیمی ہے۔ لیکن امید ہے کوئی تو لکھے گا اور نقاد آگاہ کرے گا۔ مزید عصری فکشن کے جائزے اور کتب کی منتظر ہوں۔
سبین علی
نوٹ: جناب علی رفاد فتیحی نے اپنی کتاب بیانات و بیانوی ساخت کے پر لکھے گئے راقم الحروف کے مضمون کے جواب میں یہ جوابی مضمون بھیجا۔ اردو اور انگریزی کی متعدد کتب کے مصنف ، پروفیسر اور نقاد کی جانب سے اس آبجیکٹیو مضمون کو جس خوش دلی اور اعلی ظرفی سے پڑھا سراہا اور پھر جواب بھی لکھا گیا اس نے تخلیق کار اور نقاد کے بیچ ایک نئی طرز کے مباحثے کا آغاز کیا ہے۔ آپ بھی پڑھیے ۔ سبین علی
"میں تہہ دل سے اس خوب صورت اور معروضی objective تبصرے کے لیے آپ کا شکر گزار ہوں ۔ آپ نے میری کتاب کو نہ صرف بغور پڑھا بلکہ اس کے منفی اور مثبت پہلو کو واضح کیا ہے۔میرے تاثرات:سبین علی کا تبصرہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ انہوں نے بیانیہ (Narrative) اور بیانوی ساخت (Narrative Structure) کے بنیادی نکات کو گہرائی سے سمجھا ہے اور اپنی تنقیدی بصیرت سے ان کا جائزہ لیا ہے۔ ان کا تجزیہ کئی اہم نکات کو اجاگر کرتا ہے، جو نہ صرف عصری فکشن کی معنویت کو نمایاں کرتے ہیں بلکہ تنقیدی مطالعے میں بیانیہ کی اہمیت کو بھی واضح کرتے ہیں۔بیانیہ کسی بھی فکشن کا وہ عنصر ہے جو کہانی کے خدوخال، اس کے ارتقا، اور اس میں پنہاں پیغامات کو مرتب کرتا ہے۔ بیانوی ساخت اس بیانیے کو کس انداز میں ترتیب دیتی ہے، یہ قاری پر کیسے اثر انداز ہوتی ہے، اور کون سی تکنیکیں اس کے مفہوم کو گہرائی عطا کرتی ہیں، ان سب کی تفہیم کے بغیر کسی فکشن کو مکمل طور پر نہیں سمجھا جا سکتا۔سبین علی نے علی رفاد فتیحی کی کتاب بیانیات و بیانوی ساخت کو بنیاد بنا کر ان سوالات کو اٹھایا ہے کہ کیا اردو نقاد عصری فکشن میں پنہاں ان اشاروں کو آشکار کر رہا ہے جو سماج میں ہونے والی تبدیلیوں کی پیش گوئی کر سکتے ہیں؟ اور کیا فکشن صرف ماضی میں الجھا رہ گیا ہے یا یہ مستقبل کے خدشات اور امکانات کو بھی پیش کرتا ہے؟ یہ سوالات تنقید میں بیانیہ کے کردار اور اس کی معنویت کو اجاگر کرنے کے لیے نہایت اہم ہیں۔سبین علی نے اپنے تبصرے میں عصری اردو فکشن کے چند نمایاں ناولوں اور افسانوں پر گفتگو کی ہے اور ان کے بیانیے کو پرکھنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان ناولوں میں ماضی کی گہری جڑیں اور مستقبل کے سرسراتے مسائل موجود ہیں، جن کو علی رفاد فتیحی نے باریک بینی سے پرکھا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ وہ یہ نکتہ بھی اٹھاتی ہیں کہ بعض اوقات فتیحی محتاط زبان اور رویہ اختیار کرتے ہیں، جس کی وجہ سے سماجی یا سیاسی انتباہات واضح نہیں ہو پاتے۔یہی وہ مقام ہے جہاں بیانیہ کا حقیقی کردار سامنے آتا ہے۔ فکشن محض ایک کہانی نہیں ہوتا بلکہ یہ انسانی نفسیات، سماجی ارتقا، سیاسی ہلچل اور تہذیبی بدلاؤ کا آئینہ بھی ہوتا ہے۔ سبین علی نے بجا طور پر اس بات کی نشان دہی کی ہے کہ اگر نقاد بیانیے میں پوشیدہ ان عناصر کو زیادہ وضاحت سے پیش کرے، تو شاید یہ تحریریں سماجی شعور بیدار کرنے میں زیادہ مؤثر ہو سکیں۔ان کے تبصرے سے جو ایک اور اہم پہلو سامنے آتا ہے، وہ تنقید اور بیانیہ کے باہمی تعلق کا ہے۔ اگر نقاد کسی متن کا جائزہ لیتے ہوئے تنقیدی تھیوری کی چھلنی سے گزارتا ہے تو یہ دیکھنا ضروری ہو جاتا ہے کہ آیا وہ متن کے جوہر کو واضح کر پایا ہے یا نہیں۔ سبین علی کی یہ شکایت کہ بیشتر نقاد زیادہ تر نظریاتی مباحث میں الجھے رہتے ہیں اور عصری فکشن پر براہ راست توجہ نہیں دیتے، ایک نہایت اہم نکتہ ہے۔ یہ دراصل اردو تنقید کے ایک عمومی رجحان کی طرف اشارہ ہے، جہاں بعض نقاد تھیوری کو اتنا مرکز بنا لیتے ہیں کہ متن کی اصل معنویت پس منظر میں چلی جاتی ہے۔سبین علی نے اس امر پر زور دیا ہے کہ نقاد کی ذمہ داری صرف نظریات کو دہرانا نہیں، بلکہ عصری فکشن میں چھپے ان اشاروں کو سامنے لانا ہے جو مستقبل کی پیش گوئی کرتے ہیں۔ اگر بیانیہ کسی عہد کی حقیقتوں کو آشکار کر سکتا ہے، تو نقاد کا فرض ہے کہ وہ ان حقیقتوں کو کھل کر بیان کرے، تاکہ فکشن محض ادبی تخلیق نہ رہے بلکہ ایک سماجی و فکری رہنمائی کا ذریعہ بھی بن سکے۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے کتاب کے اختتام پر ایک خواہش کا اظہار کیا ہے کہ اردو نقاد عصری فکشن کا باریک بینی سے مطالعہ کریں اور اس سے وہ نتائج اخذ کرے جو ہمارے سماجی، سیاسی، اور اقتصادی بحرانوں کی جڑیں تلاش کرنے میں مدد دے سکیں۔سبین علی کا تبصرہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ انہوں نے بیانیہ کے بنیادی نکات کو نہ صرف سمجھا ہے بلکہ ان کی معنویت کو بھی اجاگر کیا ہے۔ انہوں نے نہ صرف علی رفاد فتیحی کی کتاب کے تجزیاتی کام کی اہمیت کو تسلیم کیا، بلکہ اردو تنقید کی بعض کمزوریوں کی نشاندہی بھی کی ہے۔یہ تبصرہ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا اردو فکشن اور اس پر کی جانے والی تنقید آج بھی ماضی پرستی کا شکار ہے؟ یا کیا یہ کسی ایسی سمت میں جا رہی ہے جہاں مستقبل کے امکانات اور خطرات واضح کیے جا سکیں؟بیانیہ اور بیانوی ساخت کی تفہیم کے بغیر فکشن کی گہرائی کو مکمل طور پر نہیں سمجھا جا سکتا۔ سبین علی کا تبصرہ اس امر کی واضح مثال ہے کہ کس طرح ایک قاری بیانیہ کو ایک وسیع تناظر میں دیکھ کر اس کی سماجی معنویت کو اجاگر کر سکتا ہے۔"علی رفاد فتیحی"