قربان گاہ میں نیند

قربان گاہ میں نیند

Jan 17, 2019

گودھرا سے کشمیر تک کا نوحہ کہتی نظم


 دیدبان شمارہ ۔ ۹

قربان گاہ میں نیند

--- تبسم فاطمہ

میں تب جاگی تھے جب نیند میں سانپوں کی سرسراہٹ

بوسہ بننے کی تکمیل میں تھی

ہاتھ میں گرم ہوا کے جھونکے کی فصیل تھی

نہیں ، ایک شہر آباد تھا /جلتا سلگتا

کیا یہ ممکن ہے کہ جب ہاتھ کی فصیلیں زخمی ہوں

اور روم کے آخری شہنشاہ نیرو کی بانسری کی آوازسن کر

ہونٹوں پر شب مقدس کا بوسہ طلو ع ہو رہا ہو ؟

جب نیند میں شہر کے شہر غرقاب تھے

میں سانپوں کی سرسراہٹ کے درمیان عشق کا نغمہ گا رہی تھی

اٹھتے ہوئے شعلوں کے درمیان ایک ہجوم رقص شرر کی کیفیت میں تھا

( اور تم جان لو / کہ بے نیازی کے صرف دھڑ ہوتے ہیں  

جب تم چمکتے پانیوں سے غسل کرتے ہو / کچھ لوگ نیزے پر

اچھالے جا رہے ہوتے ہیں / جب تمھارے جسم آسودہ مگر بے حس ہوں

سیاہ چمگادڑوں کا تحفہ تمھارے شہر کو بھیجا جاتا ہے /مگر تمھاری سماعت

روح سے خالی ہوتی ہے ..)

جب منحوس چمگادڑوں کی ٹولی فضا میں رقص کر رہی تھی

تب میں دریا میں کودی تھی

بے چین سانسوں کو جسم دینے کے لئے

پس منظر میں بارود کی آوازیں

جب موسیقی میں ڈھل رہی تھیں

میں نیند کی سیاہی سے پانی پر

رزق اور زندگی کا کولاز بنا رہی تھی

( جب سرد راتیں کشمیر ، اور گرم دن گودھرا گجرات ہوں گے / اس وقت بھی تم

پرانی لحاف میں بوسے لکھ رہے ہوگے / جب نیند قربان گاہ پر ہوگی /

تم اپنی اپنی جنتوں میں قتل ہو رہے ہوگے )

نیند کے کورے کینواس پر

میرے جسم کی سرخی پھیلی تھی

حسین بوسے لپلپاتی زبانوں پر اٹھاے

سانپوں کا ہجوم شاہراہ پر اکٹھا ہو رہا تھا


 دیدبان شمارہ ۔ ۹

قربان گاہ میں نیند

--- تبسم فاطمہ

میں تب جاگی تھے جب نیند میں سانپوں کی سرسراہٹ

بوسہ بننے کی تکمیل میں تھی

ہاتھ میں گرم ہوا کے جھونکے کی فصیل تھی

نہیں ، ایک شہر آباد تھا /جلتا سلگتا

کیا یہ ممکن ہے کہ جب ہاتھ کی فصیلیں زخمی ہوں

اور روم کے آخری شہنشاہ نیرو کی بانسری کی آوازسن کر

ہونٹوں پر شب مقدس کا بوسہ طلو ع ہو رہا ہو ؟

جب نیند میں شہر کے شہر غرقاب تھے

میں سانپوں کی سرسراہٹ کے درمیان عشق کا نغمہ گا رہی تھی

اٹھتے ہوئے شعلوں کے درمیان ایک ہجوم رقص شرر کی کیفیت میں تھا

( اور تم جان لو / کہ بے نیازی کے صرف دھڑ ہوتے ہیں  

جب تم چمکتے پانیوں سے غسل کرتے ہو / کچھ لوگ نیزے پر

اچھالے جا رہے ہوتے ہیں / جب تمھارے جسم آسودہ مگر بے حس ہوں

سیاہ چمگادڑوں کا تحفہ تمھارے شہر کو بھیجا جاتا ہے /مگر تمھاری سماعت

روح سے خالی ہوتی ہے ..)

جب منحوس چمگادڑوں کی ٹولی فضا میں رقص کر رہی تھی

تب میں دریا میں کودی تھی

بے چین سانسوں کو جسم دینے کے لئے

پس منظر میں بارود کی آوازیں

جب موسیقی میں ڈھل رہی تھیں

میں نیند کی سیاہی سے پانی پر

رزق اور زندگی کا کولاز بنا رہی تھی

( جب سرد راتیں کشمیر ، اور گرم دن گودھرا گجرات ہوں گے / اس وقت بھی تم

پرانی لحاف میں بوسے لکھ رہے ہوگے / جب نیند قربان گاہ پر ہوگی /

تم اپنی اپنی جنتوں میں قتل ہو رہے ہوگے )

نیند کے کورے کینواس پر

میرے جسم کی سرخی پھیلی تھی

حسین بوسے لپلپاتی زبانوں پر اٹھاے

سانپوں کا ہجوم شاہراہ پر اکٹھا ہو رہا تھا

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024