سایہ
سایہ
Apr 2, 2020
سائے سے ڈرتی ایک عورت
سایا
نادیہ عنبر لودھی
------
اس نے آئینہ میں خود کو دیکھا - ماتھے پر لکیریں ،چہرے کی جلد لٹکی ہوئی ،گردن پر دائرے -یہ چہرہ ایک پچاس سالہ عورت کا تھا البتہ جسمانی خوبصورتی ابھی بھی برقرار تھی - اس کا بدن آج بھی سڈول اور خوبصورت تھا اس میں ایک اہم سبب سرو قامتی تھا -
وہ ایک خوبصورت اور دل کش عورت تھی - یہ بھی ایک تلخ حقیقت تھی کہ اس حسن نے صرف اسے نقصان ہی پہنچایا تھا - بچپن سے ہی مرد اسے دیکھ کر ہوس اور خواتین حسد کا شکار ہوجاتیں تھیں -
دیکھتے ہی دیکھتے اس کا چہرہ ایک آٹھ سالہ بچی کے معصوم چہرے میں بدل گیا جس کی بڑی بڑی آنکھیں حیرت سے بھری ہوئی تھی اور پھولے ہوئے رخسار چومنے کو بے ساختہ دل کرتا -اس بچی کے لیے یہ ہی موہ لینے والی صورت عذاب بن گئی اور آج بھی وہ سسک رہی تھی - اس کی سسکیاں اسے ہمیشہ کی طرح بے چین کرنے لگی اس کے رخسار گیلے ہوگئے اچانک ملازمہ کی آواز اسے حقیقت کی دنیا میں واپس لے آئی -
ملازمہ بولی :بیگم صاحبہ باہر مالی آیا ہے -
"اچھا "اس نے جوابا کہا -
وہ لان میں چلی گئی مالی کو ضروری ہدایات دے کر وہ اندر واپس آگئی اور اپنی پسندیدہ جگہ پر آبیٹھی - یہ گھر اس نے اپنی نگرانی میں بنوایا تھا -اس کے چپے چپے سے اسے محبت تھی لیکن اپنے بیڈ روم کا ایک گوشہ جہاں اس کا رائٹنگ ٹیبل اور ریکلائنر رکھا تھا اس کا پسندیدہ تھا - اسُ نے میز کے ساتھ کرسی کی جگہ ریکلائنر لیا تھا -اس پر نیم دراز ہوکر وہ کتابیں پڑ ھتی ، بیٹھ کر ڈائری لکھتی اور جب بہت تھک جاتی تو لیٹ کے ریلکس کرتی - اس وقت بھی وہ یہ ہی کررہی تھی کہ ملازمہ نے کھانا لگنے کی اطلاع دی - وہ اٹھی اور ڈائنگ روم کی طرف بڑھی ۔ اب اس میز پر وہ تنہا تھی پہلے اس کا شوہر اس کے ساتھ ہوتا تھا -دو سال پہلے شوہر کا انتقال ہوگیا - بچے دو تھے ایک بیٹا ایک بیٹی دونوں بیاہ دیے - بیٹی ملک سے باہر تھی - اور بیٹا دوسرے شہر میں نوکری کرتا تھا -بیٹا اپنے بچوں کے ساتھ آتا تو گھر آوازوں اور چہکاروں سے بھر جاتا -اور اس کا دل خوشی سے -
اسے کوکنگ کا شوق نہیں تھا لیکن بچوں کے لیے وہ رنگ برنگے پکوان اپنے ہاتھوں سے پکاتی -
شوہر کے گزر جانے کے بعد اس کی تنہائی مذید بڑھ گئی تھی - شوہر اس کا بہت خیال رکھتا تھا -شوہر سے اس کار شتہ بہت عجیب سا تھا اسے شوہر کی عادت تھی اسے شوہر سے انسیت تھی وہ شوہر کے بغیر نہیں رہ سکتی تھی لیکن اسے شوہر سے محبت نہیں تھی -
کھانا کھا کے وہ کمرے میں آئی اور عبادت میں مشغول ہوگئی - بہار کی رُت تھی ہر طرف خوب صورت پھول کھلے ہوۓ تھے کھڑکی سے بھینی بھینی خوشبو کمرے میں آرہی تھی وہ بیڈ پر نیم دراز ہو گئی اور اس کی آنکھ لگ گئی -دو گھنٹے بعد عجیب بے چینی سے اس کی آنکھ کُھلی - مما! مما !بچی رو رہی تھی اور ماں کو پکار رہی تھی - عائشہ !عائشہ !
وہ بدبدائی - بچی روتی ہوئی بھاگ گئی - اس کا دل بوجھل ہوگیا - وقت اسے حال سے ماضی میں کھینچ کے لے گیا -ایسے ہی بہاری دن تھے خوش بوئی راتیں -آٹھ سالہ عائشہ اٹھلاتی پھرتی - وہ شوخ و شنگ زندگی سے بھرپور بچی تھی -
اچانک ایک سایہ آتا ہے او اسے بازو میں دبوچ لیتا ہے پھر جنونی انداز میں وحشیانہ بوسے اس کے ہونٹوں اور چہرے پر ثبت کرتا ہے وہ خود کو چھڑانے کی کوشش کرتی ہے- انکل :"مجھے چھوڑ دیں مرا سانس بند ہورہا ہے "-"پلیز مجھے چھوڑ دیں "-اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگتا ہے اس کا گلا دکھنے لگتا ہے وہ آدمی اس کے بدن سے لذت وصولتا ہے جب وہ خوف کے مارے بے دم ہونے لگتی ہے تو وہ اسے چھوڑ دیتا ہے -
فون کی گھنٹی کی آواز اسے حال میں واپس لے آتی ہے - وہ فون اٹھاتی ہے فون اس کی بیٹی کا ہے بیٹی سے بات کرنے لگتی ہے -
فون بند ہوتے ہی وہی اداسی دوبارہ چھا جاتی ہے _
اس کا احساسِ تنہائی اسے ماضی کے زہر سے آلودہ کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے - عفریت اسے نگلنے کے لیے بے قرار ہے اپنی گرتی ہوئی ذہنی حالت اسے نڈھال کر دیتی ہے کسی نفسیاتی ڈاکٹر کے پاس جاؤں وہ سوچتی ہے پھر پچھلا تجربہ اسے مذید مایوس کر دیتا ہے -
پندرہ سال قبل بھی اس نے ایک نفسیاتی ڈاکٹر سے رجوع کیا تھا -اپنی زندگی سے وابستہ ڈیپریشن کو دور کرنے کے لیے -
ماضی کے محرکات اگر انسان کی زندگی پر حاوی ہوجائیں تو وہ تمام عمر اضطراب مایوسی اور اداسی کا شکار رہتا ہے -
ڈاکٹر اس کے مسئلے کی تہہ تک نہیں پہنچ پایا یا اس نے ڈاکٹر کواپنی ذات تک رسائی نہیں دی - ڈاکٹر نے اُسے انٹی ڈیپریشن گولیاں دے دیں ۔ جن کو کھانے کے بعد وہ کئی گھنٹے بے سدھ سوئی رہتی -اس کی یادداشت پر اثر پڑنے لگا وہ بھولنے لگی لیکن افسوس ناک پہلو یہ ہوا کہ وہ ماضی کا کوئی لمحہ نہ بھول سکی صرف حال سے جڑے واقعات اور لوگ مدہم ہونے لگے - کئی ماہ اس عالم میں گزارنے کے بعد اس نے مذہب میں پناہ ڈھونڈی اور ایک قرآن کلاس جائن کرلی اب دل کو تھوڑا سا سکون ملا - لیکن یہ سکون بھی وقتی ثابت ہوا چند سال بعد گھر بدلا -نئے گھر میں شفٹ ہوگئے - نئی آبادی میں ایسا کوئی سلسلہ نہ بن سکا -
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑ ھتی تنہائی اس کی ذہنی حالت مخدوش کرتی جارہی تھی -
اپنے اندر چھپے اس درد کو وہ کسی سے کہہ دیتی تو شاید یہ گھاؤ ناسور نہ بنتا - اس سے ِرستا مواد اسے لمحہ لمحہ کرب میں مبتلا نہ کرتا -بس وہ کسی پر اعتبار نہیں کر پائی - رات میں اکثر خوف سے اس کی آنکھ کھل جاتی وہی عفریت اسے دبوچ لیتا اور اس کا سانس بند ہونے لگتا -
دفعتاً دروازہ چرچرایا -ایک سایہ اندر داخل ہوا - اور بستر پر اس کے قریب آکر بیٹھ گیا -
اُس نے بازو آگے بڑھائے اور اس بچی کو بانہوں میں بھرنا چاہا بچی بھاگتی ہوئی کمرے سے نکل گئی وہ بھی بچی کی پیچھے بھاگی - رُک جاؤ - رُک جاؤ - مرے پاس آؤ -
اس کی آواز سن کے ملازمہ پہنچ گئی - "یہاں تو کوئی نہیں ہے "-ملازمہ بڑ بڑائی پھر بیگم صاحبہ کس کو بلا رہی ہے -
"چلی گئی "-وہ بولی اور ڈھیلے ڈھیلے قدموں سے کمرے میں چلی آئی آج بھی میں اسے سینے سے نہیں لگا پائی -
ملازمہ جو پیچھے آرہی تھی بولی "یہاں تو کوئی نہیں ہے بیگم صاحبہ "!
"تم جاؤ "-اس نے ملازمہ سے کہا ۔
وہ پلنگ پر ڈھے سی گئی -
ماضی کا عفریت اُسے نگلنے لگا اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے - روتے روتے اس کی آنکھ لگ گئی - صبح طبعیت میں کسلمندی تھی -وہ کافی دیر تک بستر میں پڑی رہی -اور صبح کی روشنی دروازے پر کھڑی رہی - اداسی نے درودیوار مضطرب کر دیے - کافی دیر بعد بستر سے نکلی اور منہ ہاتھ دھو کے ڈائینگ روم کا رخ کیا -
"ناشتہ لاؤ "اس نے ملازمہ سے کہا
"صبح علی صاحب کا فون آیا تھا آپ سوئی ہوئی تھی میں نے جگانا مناسب نہیں سمجھا "-ملازمہ نے بتایا -
"ٹھیک ہے "- اس نے جواب دیا اور ناشتہ کرنے لگی -
ملازمہ نے اس بغور دیکھا اور دل میں بولی "میں نے بھی بیگم صاحبہ کی ذہنی حالت کے بارے میں سب بتادیا ہے کہ کسی سے باتیں کرتی ہیں - سٹھیا گئی ہیں "-
دو تین دن خاموشی سے گزر گئے -
موسم خوش گوادر تھا وہ لان میں بیٹھی کتاب پڑ ھ رہی تھی سامنے دیکھا تو وہی بچی پھولوں سے کھیلتی نظر آئی اس کے لبوں پر مسکراہٹ رینگنے لگی وہ بچی کو ہاتھ ہلانے لگی -ملازمہ یہ منظر اندر کھڑکی سے دیکھ رہی تھی لان میں تو کوئی نہیں ہے -پھر بیگم صاحبہ کس کو ہاتھ ہلا رہی ہیں - ملازمہ نے حیرت سے سوچا -
منظر میں اچانک ایک آدمی شامل ہوجاتا ہے جس کی عمر تقریباً تیس سال ہے اور حلیہ ملازموں جیسا ہے یہ پست قد مکروہ آدمی بچی کی طرف بڑھتا ہے
-وہ کرسی سے اٹھتی ہے خوف سے اس کا چہرہ زرد ہوجاتا ہے "نہیں ..نہیں اسے چھوڑ دو "- وہ چلاتی ہے -آدمی بچی کو اٹھاتا ہے اور بھاگ جاتا ہے -
"عائشہ ....عائشہ "وہ آوازیں دیتی ہے -
بچی ہاتھ پاؤں مارتی ہے اسے مدد کے لیے بلاتی ہے لیکن آج بھی آدمی جیت جاتا ہے اور وہ ہار جاتی ہے -
"عائشہ ..عائشہ ......"وہ بڑ بڑاتی رہ جاتی ہے -
گزرتے دن اس کے اضطراب میں مذید اضافہ کرتے ہیں -
ملازمہ اس کے بیٹے کو فون پر آنے کا کہتی ہے -بیٹا مصروفیت کا رونا روتا ہے - اور ملازمہ کی بات کو سنجیدہ نہیں لیتا -
اُس رات شدید طوفان آتا ہے بجلی چلی جاتی ہے - جنریٹر بھی جواب دے دیتا ہے - وہ بستر میں لیٹی ہوئی ہے - ملازمہ کمرے سے باہر لاؤنج میں صوفے پر لیٹی ہوئی ہے - سارا گھر اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے -
اچانک اسے عائشہ دکھائی دیتی ہے "مما مما مجھے بچاؤ "وہ چلاتی ہے -عائشہ عائشہ ......
اس کی آواز اندھیرے میں ابھرتی ہے - "بیگم صاحبہ کو پھر دورہ پڑ گیا خدا خیر کرے "-ملازمہ بڑبڑائی۔
وہ ننگے پاؤں کمرے سے نکلتی ہے اور عائشہ کو ڈھونڈتی ہے اندھیرے میں وہ چیزوں سے ٹکراتی ہے -ملازمہ اسے پکڑ نے کی کوشش کرتی ہے لیکن اس پر تو کوئی آسیب سوار ہے -وہ سیڑھیوں کی طرف بڑ ھتی ہے -
"میں آرہی ہوں عائشہ "- رکو !ٹھہرو !
ٹھہرو !
وہ سیڑ ھیاں چڑ ھنے لگتی ہے
ُ"رک جائیں بیگم صاحبہ بہت اندھیرا ہے -اوپر مت جائیں "-ملازمہ اسے پکارتی ہے -لیکن وہ ارد گرد سے بے نیاز ہے - اسے کچھ سنائی نہیں دیتا - وہ دیوانہ وار سیڑ ھیاں چڑھتی ہے - اوپر اسے عائشہ دکھائی دیتی ہے - روتی ہوئی -
وہ آخری سیڑ ھی پر پہنچ کر ہاتھ بڑ ھاتی ہے اور عائشہ کو تھا منے کی کوشش کرتی ہے -اچانک عائشہ غائب ہوجاتی ہے اور وہ توازن کھو بیٹھتی ہے -وہ سیڑ ھیوں سے نیچے گرتی ہے - ملازمہ بھاگ کے اس کے قریب آتی ہے "عائشہ "اس کے منہ سے نکلتا ہے اور گردن ڈھلک جاتی ہے -
ملازمہ اسے کے بیٹے کو فون کرتی ہے -بیٹا اسپتال لے جانے کا کہتا ہے ملازمہ ایمبولینس کو فون کرتی ہے اور اسُے لے کر اسپتال پہنچ جاتی ہے -ڈاکٹر اس کا چیک اپ کرتا ہے اور اس کی موت کی تصدیق کردیتا ہے -
بیٹا پہنچ جاتا ہے - ملازمہ اسے حقیقت سے آگاہ کرتی ہے اور سارا واقعہ تفصیل سے بیان کرتی ہے -"عائشہ تو ماما کا اپنا نام تھا وہ خود کو کیوں پکاریں گی یہ جاہل ملازم بھی بس کیا کہانیاں بنا لیتے ہیں "- اس کا بیٹا دل میں خود سے کہتا ہے -
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سایا
نادیہ عنبر لودھی
------
اس نے آئینہ میں خود کو دیکھا - ماتھے پر لکیریں ،چہرے کی جلد لٹکی ہوئی ،گردن پر دائرے -یہ چہرہ ایک پچاس سالہ عورت کا تھا البتہ جسمانی خوبصورتی ابھی بھی برقرار تھی - اس کا بدن آج بھی سڈول اور خوبصورت تھا اس میں ایک اہم سبب سرو قامتی تھا -
وہ ایک خوبصورت اور دل کش عورت تھی - یہ بھی ایک تلخ حقیقت تھی کہ اس حسن نے صرف اسے نقصان ہی پہنچایا تھا - بچپن سے ہی مرد اسے دیکھ کر ہوس اور خواتین حسد کا شکار ہوجاتیں تھیں -
دیکھتے ہی دیکھتے اس کا چہرہ ایک آٹھ سالہ بچی کے معصوم چہرے میں بدل گیا جس کی بڑی بڑی آنکھیں حیرت سے بھری ہوئی تھی اور پھولے ہوئے رخسار چومنے کو بے ساختہ دل کرتا -اس بچی کے لیے یہ ہی موہ لینے والی صورت عذاب بن گئی اور آج بھی وہ سسک رہی تھی - اس کی سسکیاں اسے ہمیشہ کی طرح بے چین کرنے لگی اس کے رخسار گیلے ہوگئے اچانک ملازمہ کی آواز اسے حقیقت کی دنیا میں واپس لے آئی -
ملازمہ بولی :بیگم صاحبہ باہر مالی آیا ہے -
"اچھا "اس نے جوابا کہا -
وہ لان میں چلی گئی مالی کو ضروری ہدایات دے کر وہ اندر واپس آگئی اور اپنی پسندیدہ جگہ پر آبیٹھی - یہ گھر اس نے اپنی نگرانی میں بنوایا تھا -اس کے چپے چپے سے اسے محبت تھی لیکن اپنے بیڈ روم کا ایک گوشہ جہاں اس کا رائٹنگ ٹیبل اور ریکلائنر رکھا تھا اس کا پسندیدہ تھا - اسُ نے میز کے ساتھ کرسی کی جگہ ریکلائنر لیا تھا -اس پر نیم دراز ہوکر وہ کتابیں پڑ ھتی ، بیٹھ کر ڈائری لکھتی اور جب بہت تھک جاتی تو لیٹ کے ریلکس کرتی - اس وقت بھی وہ یہ ہی کررہی تھی کہ ملازمہ نے کھانا لگنے کی اطلاع دی - وہ اٹھی اور ڈائنگ روم کی طرف بڑھی ۔ اب اس میز پر وہ تنہا تھی پہلے اس کا شوہر اس کے ساتھ ہوتا تھا -دو سال پہلے شوہر کا انتقال ہوگیا - بچے دو تھے ایک بیٹا ایک بیٹی دونوں بیاہ دیے - بیٹی ملک سے باہر تھی - اور بیٹا دوسرے شہر میں نوکری کرتا تھا -بیٹا اپنے بچوں کے ساتھ آتا تو گھر آوازوں اور چہکاروں سے بھر جاتا -اور اس کا دل خوشی سے -
اسے کوکنگ کا شوق نہیں تھا لیکن بچوں کے لیے وہ رنگ برنگے پکوان اپنے ہاتھوں سے پکاتی -
شوہر کے گزر جانے کے بعد اس کی تنہائی مذید بڑھ گئی تھی - شوہر اس کا بہت خیال رکھتا تھا -شوہر سے اس کار شتہ بہت عجیب سا تھا اسے شوہر کی عادت تھی اسے شوہر سے انسیت تھی وہ شوہر کے بغیر نہیں رہ سکتی تھی لیکن اسے شوہر سے محبت نہیں تھی -
کھانا کھا کے وہ کمرے میں آئی اور عبادت میں مشغول ہوگئی - بہار کی رُت تھی ہر طرف خوب صورت پھول کھلے ہوۓ تھے کھڑکی سے بھینی بھینی خوشبو کمرے میں آرہی تھی وہ بیڈ پر نیم دراز ہو گئی اور اس کی آنکھ لگ گئی -دو گھنٹے بعد عجیب بے چینی سے اس کی آنکھ کُھلی - مما! مما !بچی رو رہی تھی اور ماں کو پکار رہی تھی - عائشہ !عائشہ !
وہ بدبدائی - بچی روتی ہوئی بھاگ گئی - اس کا دل بوجھل ہوگیا - وقت اسے حال سے ماضی میں کھینچ کے لے گیا -ایسے ہی بہاری دن تھے خوش بوئی راتیں -آٹھ سالہ عائشہ اٹھلاتی پھرتی - وہ شوخ و شنگ زندگی سے بھرپور بچی تھی -
اچانک ایک سایہ آتا ہے او اسے بازو میں دبوچ لیتا ہے پھر جنونی انداز میں وحشیانہ بوسے اس کے ہونٹوں اور چہرے پر ثبت کرتا ہے وہ خود کو چھڑانے کی کوشش کرتی ہے- انکل :"مجھے چھوڑ دیں مرا سانس بند ہورہا ہے "-"پلیز مجھے چھوڑ دیں "-اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگتا ہے اس کا گلا دکھنے لگتا ہے وہ آدمی اس کے بدن سے لذت وصولتا ہے جب وہ خوف کے مارے بے دم ہونے لگتی ہے تو وہ اسے چھوڑ دیتا ہے -
فون کی گھنٹی کی آواز اسے حال میں واپس لے آتی ہے - وہ فون اٹھاتی ہے فون اس کی بیٹی کا ہے بیٹی سے بات کرنے لگتی ہے -
فون بند ہوتے ہی وہی اداسی دوبارہ چھا جاتی ہے _
اس کا احساسِ تنہائی اسے ماضی کے زہر سے آلودہ کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے - عفریت اسے نگلنے کے لیے بے قرار ہے اپنی گرتی ہوئی ذہنی حالت اسے نڈھال کر دیتی ہے کسی نفسیاتی ڈاکٹر کے پاس جاؤں وہ سوچتی ہے پھر پچھلا تجربہ اسے مذید مایوس کر دیتا ہے -
پندرہ سال قبل بھی اس نے ایک نفسیاتی ڈاکٹر سے رجوع کیا تھا -اپنی زندگی سے وابستہ ڈیپریشن کو دور کرنے کے لیے -
ماضی کے محرکات اگر انسان کی زندگی پر حاوی ہوجائیں تو وہ تمام عمر اضطراب مایوسی اور اداسی کا شکار رہتا ہے -
ڈاکٹر اس کے مسئلے کی تہہ تک نہیں پہنچ پایا یا اس نے ڈاکٹر کواپنی ذات تک رسائی نہیں دی - ڈاکٹر نے اُسے انٹی ڈیپریشن گولیاں دے دیں ۔ جن کو کھانے کے بعد وہ کئی گھنٹے بے سدھ سوئی رہتی -اس کی یادداشت پر اثر پڑنے لگا وہ بھولنے لگی لیکن افسوس ناک پہلو یہ ہوا کہ وہ ماضی کا کوئی لمحہ نہ بھول سکی صرف حال سے جڑے واقعات اور لوگ مدہم ہونے لگے - کئی ماہ اس عالم میں گزارنے کے بعد اس نے مذہب میں پناہ ڈھونڈی اور ایک قرآن کلاس جائن کرلی اب دل کو تھوڑا سا سکون ملا - لیکن یہ سکون بھی وقتی ثابت ہوا چند سال بعد گھر بدلا -نئے گھر میں شفٹ ہوگئے - نئی آبادی میں ایسا کوئی سلسلہ نہ بن سکا -
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑ ھتی تنہائی اس کی ذہنی حالت مخدوش کرتی جارہی تھی -
اپنے اندر چھپے اس درد کو وہ کسی سے کہہ دیتی تو شاید یہ گھاؤ ناسور نہ بنتا - اس سے ِرستا مواد اسے لمحہ لمحہ کرب میں مبتلا نہ کرتا -بس وہ کسی پر اعتبار نہیں کر پائی - رات میں اکثر خوف سے اس کی آنکھ کھل جاتی وہی عفریت اسے دبوچ لیتا اور اس کا سانس بند ہونے لگتا -
دفعتاً دروازہ چرچرایا -ایک سایہ اندر داخل ہوا - اور بستر پر اس کے قریب آکر بیٹھ گیا -
اُس نے بازو آگے بڑھائے اور اس بچی کو بانہوں میں بھرنا چاہا بچی بھاگتی ہوئی کمرے سے نکل گئی وہ بھی بچی کی پیچھے بھاگی - رُک جاؤ - رُک جاؤ - مرے پاس آؤ -
اس کی آواز سن کے ملازمہ پہنچ گئی - "یہاں تو کوئی نہیں ہے "-ملازمہ بڑ بڑائی پھر بیگم صاحبہ کس کو بلا رہی ہے -
"چلی گئی "-وہ بولی اور ڈھیلے ڈھیلے قدموں سے کمرے میں چلی آئی آج بھی میں اسے سینے سے نہیں لگا پائی -
ملازمہ جو پیچھے آرہی تھی بولی "یہاں تو کوئی نہیں ہے بیگم صاحبہ "!
"تم جاؤ "-اس نے ملازمہ سے کہا ۔
وہ پلنگ پر ڈھے سی گئی -
ماضی کا عفریت اُسے نگلنے لگا اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے - روتے روتے اس کی آنکھ لگ گئی - صبح طبعیت میں کسلمندی تھی -وہ کافی دیر تک بستر میں پڑی رہی -اور صبح کی روشنی دروازے پر کھڑی رہی - اداسی نے درودیوار مضطرب کر دیے - کافی دیر بعد بستر سے نکلی اور منہ ہاتھ دھو کے ڈائینگ روم کا رخ کیا -
"ناشتہ لاؤ "اس نے ملازمہ سے کہا
"صبح علی صاحب کا فون آیا تھا آپ سوئی ہوئی تھی میں نے جگانا مناسب نہیں سمجھا "-ملازمہ نے بتایا -
"ٹھیک ہے "- اس نے جواب دیا اور ناشتہ کرنے لگی -
ملازمہ نے اس بغور دیکھا اور دل میں بولی "میں نے بھی بیگم صاحبہ کی ذہنی حالت کے بارے میں سب بتادیا ہے کہ کسی سے باتیں کرتی ہیں - سٹھیا گئی ہیں "-
دو تین دن خاموشی سے گزر گئے -
موسم خوش گوادر تھا وہ لان میں بیٹھی کتاب پڑ ھ رہی تھی سامنے دیکھا تو وہی بچی پھولوں سے کھیلتی نظر آئی اس کے لبوں پر مسکراہٹ رینگنے لگی وہ بچی کو ہاتھ ہلانے لگی -ملازمہ یہ منظر اندر کھڑکی سے دیکھ رہی تھی لان میں تو کوئی نہیں ہے -پھر بیگم صاحبہ کس کو ہاتھ ہلا رہی ہیں - ملازمہ نے حیرت سے سوچا -
منظر میں اچانک ایک آدمی شامل ہوجاتا ہے جس کی عمر تقریباً تیس سال ہے اور حلیہ ملازموں جیسا ہے یہ پست قد مکروہ آدمی بچی کی طرف بڑھتا ہے
-وہ کرسی سے اٹھتی ہے خوف سے اس کا چہرہ زرد ہوجاتا ہے "نہیں ..نہیں اسے چھوڑ دو "- وہ چلاتی ہے -آدمی بچی کو اٹھاتا ہے اور بھاگ جاتا ہے -
"عائشہ ....عائشہ "وہ آوازیں دیتی ہے -
بچی ہاتھ پاؤں مارتی ہے اسے مدد کے لیے بلاتی ہے لیکن آج بھی آدمی جیت جاتا ہے اور وہ ہار جاتی ہے -
"عائشہ ..عائشہ ......"وہ بڑ بڑاتی رہ جاتی ہے -
گزرتے دن اس کے اضطراب میں مذید اضافہ کرتے ہیں -
ملازمہ اس کے بیٹے کو فون پر آنے کا کہتی ہے -بیٹا مصروفیت کا رونا روتا ہے - اور ملازمہ کی بات کو سنجیدہ نہیں لیتا -
اُس رات شدید طوفان آتا ہے بجلی چلی جاتی ہے - جنریٹر بھی جواب دے دیتا ہے - وہ بستر میں لیٹی ہوئی ہے - ملازمہ کمرے سے باہر لاؤنج میں صوفے پر لیٹی ہوئی ہے - سارا گھر اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے -
اچانک اسے عائشہ دکھائی دیتی ہے "مما مما مجھے بچاؤ "وہ چلاتی ہے -عائشہ عائشہ ......
اس کی آواز اندھیرے میں ابھرتی ہے - "بیگم صاحبہ کو پھر دورہ پڑ گیا خدا خیر کرے "-ملازمہ بڑبڑائی۔
وہ ننگے پاؤں کمرے سے نکلتی ہے اور عائشہ کو ڈھونڈتی ہے اندھیرے میں وہ چیزوں سے ٹکراتی ہے -ملازمہ اسے پکڑ نے کی کوشش کرتی ہے لیکن اس پر تو کوئی آسیب سوار ہے -وہ سیڑھیوں کی طرف بڑ ھتی ہے -
"میں آرہی ہوں عائشہ "- رکو !ٹھہرو !
ٹھہرو !
وہ سیڑ ھیاں چڑ ھنے لگتی ہے
ُ"رک جائیں بیگم صاحبہ بہت اندھیرا ہے -اوپر مت جائیں "-ملازمہ اسے پکارتی ہے -لیکن وہ ارد گرد سے بے نیاز ہے - اسے کچھ سنائی نہیں دیتا - وہ دیوانہ وار سیڑ ھیاں چڑھتی ہے - اوپر اسے عائشہ دکھائی دیتی ہے - روتی ہوئی -
وہ آخری سیڑ ھی پر پہنچ کر ہاتھ بڑ ھاتی ہے اور عائشہ کو تھا منے کی کوشش کرتی ہے -اچانک عائشہ غائب ہوجاتی ہے اور وہ توازن کھو بیٹھتی ہے -وہ سیڑ ھیوں سے نیچے گرتی ہے - ملازمہ بھاگ کے اس کے قریب آتی ہے "عائشہ "اس کے منہ سے نکلتا ہے اور گردن ڈھلک جاتی ہے -
ملازمہ اسے کے بیٹے کو فون کرتی ہے -بیٹا اسپتال لے جانے کا کہتا ہے ملازمہ ایمبولینس کو فون کرتی ہے اور اسُے لے کر اسپتال پہنچ جاتی ہے -ڈاکٹر اس کا چیک اپ کرتا ہے اور اس کی موت کی تصدیق کردیتا ہے -
بیٹا پہنچ جاتا ہے - ملازمہ اسے حقیقت سے آگاہ کرتی ہے اور سارا واقعہ تفصیل سے بیان کرتی ہے -"عائشہ تو ماما کا اپنا نام تھا وہ خود کو کیوں پکاریں گی یہ جاہل ملازم بھی بس کیا کہانیاں بنا لیتے ہیں "- اس کا بیٹا دل میں خود سے کہتا ہے -
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔