سیدفخرالدین بلے کا مزاحمتی رنگ
سیدفخرالدین بلے کا مزاحمتی رنگ
Mar 12, 2018
دیدبان شمارہ ۔۷
سید فخرالدین بلے کا مزاحمتی رنگ
تحریر شاہد بخاری
نقارخانے میں جمیل الدین عالی کا ایک کالم پندرہویں ،بیس ویں اور ستائیس ویں مارچ کو 2011 میں تین قسطوں میں شائع ہوا۔جس میں سید فخرالدین بلے کی شخصیت، فن اور شاعری کا بڑی محبت اور احترام کے ساتھ احاطہ کیا گیا ہے۔ دو جملے ایسے ہیں، جنہوں نے مجھے قلم اٹھانے پرمجبور کردیاہے ۔پہلا جملہ میرزا ادیب کا ہے، انہوں نے فخرالدین بلے کے حوالے سے یہ ماناکہ ’’ہرملاقات میں انکی شخصیت کا ایک نیارخ میرے سامنے آیا اور میں اس کثیرالجہت شخصیت کو پورے اعتماد کے ساتھ علم و ادب کی آبرو قرار دے سکتا ہوں‘‘۔ دوسرا جملہ انکا نہیں بلکہ ایک ایسی شخصیت کا ہے، جنہوں نے مجید امجد کے حوالے سے بھی بڑا کام کیا ہے ۔جی ہاں ! آپ صحیح سمجھے۔ میری مراد ڈاکٹڑ خواجہ زکریا ہی سے ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’سید فخرالدین بلے کی ذات میں جتنا تنوع تھا، اسی قدر رنگا رنگی انکی نظم ونثر میں موجود تھی ۔ان کی گفتگو مطالعہ اورتجربے کا امتزاج ہوتی۔ ان سے ملنے والے ایک خوشگوار شخصیت کا نقش دل پر لئے ہوئے ان سے رخصت ہوتے‘‘۔ یہ دونوں جملے میرے لاشعور میں کہیں چپک کر رہ گئے۔ میں نے انکی شخصیت کے رنگ تو سرگودھا اور لاہور میں بہت دیکھے تھے۔ شاعری میں بلاشبہ رنگارنگی ہے۔ ان کی پہلو دار شخصیت کی طرح انکی شاعری کی بھی بہت سے جہتیں ہیں۔ بہت سے تخلیقی اور فکری زاویے ہیں۔ مجھے بھی ان سے فیض یاب ہونے کے مواقع ملے اور انکی شاعری میں مزاحمتی رنگ مجھے بڑے کینوس پر بکھرادکھائی دیا ہے ۔ گویایہاں بھی وہ اپنی شخصیت کا رنگ دکھاگئے۔ معاشی یا معاشرتی نا انصافیاں ہوں، ریاستی جوریا عالمی جبر بلے صاحب انکے خلاف قلمی محاذ پر ڈٹے رہے۔ اور نامہربانوں کی ’’مہربانیوں‘‘ نے انہیں یہ کہنے پر مجبور کردیا
آپ کے ہر کرم سے ڈرتا ہوں
آپ کا ہر ستم گوارہ ہے
دل حساس ہو۔ سرعام ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہوں۔ انصا ف کے نام پر نا انصافی اور ایمان کے نام پر بے ایمانی جڑیں پکڑے لے۔ جمہوریت کی آڑ میں خدمت کیلئے منتخب کئے جانے والے عوام کی خدمت کے بجائے ان پر حکمرانی کرنے لگیں۔ محافظین نقب لگا کر حکومتی ایوانوں میں پہنچ جائیں اور جمہوری حکومت کی بساط لپیٹ کر خود گن پوائنٹ پر اقتدار واختیار پر قبضہ کرلیں۔ قانون کا اطلاق بے بس اور کمزور لوگوں پر ہونے لگے اور نام نہاد بڑے لوگ قانون شکنی پر فخر کرتے نظر آئیں۔ میرٹ کا ڈھنڈورا پیٹا جائے لیکن عملی طور پر میرٹ کہیں دکھائی نہ دے ۔ تعمیرات کے بجائے تمام تر توانائیاں منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھنے پر اپنے نام کی تشہیر کیلئے بروئے کار لانے کا رواج زور پکڑلے۔ جھوٹ اور دھوکے کے سوا کوئی چیز بازار میں خالص دستیاب نہ ہو۔ دُکھ دینے والے اپنے اجلے چہرے عوام کے سامنے لانے کیلئے عوام کے آنسو پونچھتے نظر آئیں۔ باتیں قوم کے مفاد کی ہوں اور مقتدر قوتیں ذاتی مفادات کی اسیر ہوکر رہ جائیں ۔رہنمالٹیرے بن جائیں۔ دوستی کی آڑ میں دشمنی ہو۔محبِ وطن نظر آنے والے لوگوں کے ہوتے ہوئے دشمنوں کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ حکمران قومی مفادات کے سودے کرنے لگیں۔ محض اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے مصنوعی بحران کھڑے کردیئے جائیں اور پھر ان پر قابو پانے کیلئے خود کو ناگزیر قرار دینے لگیں۔ جہالت، غربت، افلاس، پسماندگی، بیروزگاری، بیماری اور حقوق سے محرومی کو انتخابی منشور کا حصہ ضرور بنایاجائے۔ لیکن ان سے چھٹکارا دلانے کیلئے کوئی قدم نہ اٹھایاجائے۔ سبزباغ ضرور دکھائے جائیں لیکن اقتدار میں آکر تمام وعدے فراموش کرنے کو لوگ اپنی کامیابی سمجھنے لگیں
تو سوچئے ۔۔۔۔۔۔!!
کیا کوئی حساس دل فنکار خاموش رہ سکتا ہے؟
کیا کوئی شاعر، قلم کار یا تخلیق کار دانشور اپنے ہونٹ سی کر جی سکتا ہے؟
کیا صبرکا گھونٹ پی سکتا ہے؟
نہیں ۔۔۔۔ ہرگز نہیں۔ اس لئے کہ بقول فخرالدین بلے
جب قیامت گزر گئی سر سے
بے زباں لوگ بولتے دیکھے
سیدفخرالدین بلے نے اپنی سوہنی دھرتی، وطن عزیز،معصوم اور بے بس لوگوں اور انصاف کے نام پر ناانصافی کا شکار ہونے والوں پر بہت سی قیامتیں گزرتے دیکھیں تو انکے احساس نے بے زبانی کو زبان دیدی۔
مجھے سیدفخرالدین بلے کی شاعری میں مزاحمتی رنگ بڑا غالب نظر آیا ہے ۔یہ سچ ہے کہ انہوں نے مزاحمتی رویئے اوررنگ کو سیاسی نعرہ نہیں بنایا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انہوں نے ایمائیت اور رمزیت کے ساتھ ہر ظلم وناانصافی کے خلاف فکر وقلم کے جوہردکھائے ہیں۔ انسانیت سے محبت کی جو آگ انکے اندر سلگ رہی ہے، اس سے کہیں کہیں انکی شاعری میں چنگاریاں نکلتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ بہار کے موسم میں بھی انہیں اپنا سانس گھٹتاہوا محسوس ہوتا ہے تو وہ یہ سوال اٹھانے سے گریز نہیں کرتے۔
چمن کے دیدہ وروں سے سوال ہے میرا
بہار کا ہے یہ موسم تو پھر گھٹن کیوں ہے
یہ سوال اٹھاکر انہیں معلوم ہے کہ جواب نہیں آئے گا، اس لئے اپنے ساتھ گھٹن کا شکار لوگوں کی یہ کہہ کر امید بھی بندھاتے ہیں
رُتوں کی رِیت یہی ہے ، یہی ہوا کی روش
تپش بڑھے گی تو بادل ضرور برسے گا
اور حکمرانوں کو خبردار کرنے سے بھی نہیں چوکتے
چمن میں فصلِ بہاراں سہی ، خزاں نہ سہی
مگر حضور یہ موسم ضرور بدلے گا
چمن، فصلِ بہاراں، خزاں اورموسم ایسے استعارے ہیں ،جنہیں انہوں نے خیال آرائی کے ساتھ ساتھ بڑی خوبصورتی سے برتا ہے۔ اب قاری کی سوچ پر منحصر ہے کہ وہ انہیں کس سطح پر دیکھتا ہے۔ آپ جس سطح پر بھی انہیں دیکھیں گے، نت نئے معانی اپنے جلوے دکھاتے نظر آئینگے۔
وزیراعظم لیاقت علی خان کو بھرے جلسے میں گولی مارکر ابدی نیند سلادینے کے بعد وطن عزیز میں میوزیکل چیئر کاجو کھیل کھیلاگیا، اس نے فخرالدین بلے کی شخصیت کو اندر سے ہلاکر رکھ دیا ۔ انہوں نے نثر لکھی تو انکے قلم سے روشنائی نہیں آنسو بہتے نظر آئے۔ وہ بدترین جمہوریت کو بھی بہترین آمریت سے بہتر ضرور قرار دیتے رہے ہیں لیکن جمہوری آمریت پر بھی خاموش نہیں رہے۔ بلکہ عوام کے اندھیرے دور نہ ہونے پر پکاراٹھے
جمہوریت کے دور میں جمہور کے لئے
پابندیاں ہیں، قید ہے، زنداں ہے آج بھی
اب بھی بھٹک رہے ہیں اندھیروں میں عام لوگ
شاہوں کے گھر میں جشنِ چراغاں ہے آج بھی
عوام کے اندھیرے اورشاہوں کے گھروں میں جشن چراغاں ہی ہے، جس نے عوام میں محرومی کا احساس جگایا۔ انہیں تڑپایا، رُلایا اور بلے صاحب نے بڑی جرات مندی کے ساتھ فیصلہ سنادیا
رہزن ہمارے قافلہ سالار اب بھی ہیں
حیوانیت ہماری نگہباں ہے آج بھی
جمہوری حکمرانوں کی حماقتوں پر انکا قلم اس لئے روتا رہاکیونکہ انہیں ڈرتھا کہ اس سے آمریت کی راہیں ہموار ہوجائینگی۔ محافظین قومی مفادات کے تحفظ کا راگ الاپ کر چور دروازوں سے ایوانِ حکومت میں آکر اپنے قدم جمالیں گے اور پھر وہی کچھ ہوا، جس پر بلے صاحب نے دکھ کے ساتھ کہا
ہم آج تک نہ ہو سکے جمہوریت شعار
ہوتی رہی ہے فوج مشرف بہ اقتدار
خوفِ خزاں ہے کوئی نہ اندیشہ بہار
ہے دستِ بے حساں میں گلستاں کا کاروبار
سب جانتے ہیں ، کس لئے باقی نہیں رہا
عمّال پر بھروسہ ، عدالت پہ اعتبار
چُنتی ہے جن کو قوم ، ہٹاتا ہے ان کو کون
کرتا ہے کون پشت سے جمہوریت پہ وار
ان شعروں کے آئینے میں ہمارے قومی اداروں کی جیتی جاگتی تصویریں واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہ اشعارپڑھ کر آپ کی آنکھوں کے سامنے بہت سے چہرے بھی آگئے ہونگے۔ جو ہماری پینسٹھ سالہ قومی تاریخ میں بڑے نمایاں رہے ۔یہ وہی لوگ تھے ۔ جوجمہوری نظام کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر بھاری بوٹوں کے ساتھ ایوان اقتدار تک پہنچے اور تلوار کی نوک یا بندوق کی نال کے زورپر تخت نشیں ہوگئے
جس نے کھائی تھی قسم رکھ کے دساتیر پہ ہاتھ
آج اس شخص کا ہے قبضہ شمشیر پہ ہاتھ
خوں چکیدہ ہے سحر ، شامِ غریباں کی قسم
آج بھی شمر کا ہے گردنِ شبیر پہ ہاتھ
دست بستہ یہ گزارش ہے کہ ہوشیار رہیں
پابہ زنجیر کا پڑ جائے نہ زنجیر پہ ہاتھ
پابہ زنجیر کا زنجیر پہ تو ہاتھ نہ پڑا،اس لئے کہ ہماری عدالتوں نے بھی آمرِ وقت کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے اور جو جج صاحبان جھکنے کو تیار نہ ہوئے، انہیں آمروں نے خود گھربھیج دیا اور ججز سے یہ نیا حلف بھی لیاگیا کہ وہ آمرِ وقت کا ساتھ دینگے۔ چنانچہ انہوں نے حقِ نمک ادا کردیا۔ یہ ہماری تاریخ کا المناک باب ہے اور دراصل اسی کی طرف سید فخرالدین بلے نے اشارہ کیا
سب جانتے ہیں کس لئے حاصل نہیں رہا
عمال پر بھروسہ ، عدالت کا اعتبار
عدالتوں نے محض نوکریاں بچانے کیلئے آمرانہ قوتوں کا ساتھ دیا اور جب آمریت کا اندھیرا دور ہوگیا تو ججبز بھی نئے چولے پہن کر بڑے افتخار کے ساتھ سامنے آگئے۔ لیکن سلام ہے ، ان ججز پر جنہوں نے اپنے ضمیر اور قومی مفادات کے سودے نہیں کئے ۔ پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے صاف انکار کردیا کیونکہ وہ کسی ایک شخص کے غلام بن کر رہنا نہیں چاہتے تھے اور یہ بھی ممکن نہیں تھا کہ فوجی ٹولوں سے وفاداری کا حلف اٹھاکروہ انکے احکامات سے سرتابی کرتے۔ بلے صاحب کی شاعری ایک ایسا آئینہ ہے، جس میں تمام قومی اداروں کی کمزوریاں اور ان ریاستی اداروں کے کلیدی عہدوں پر فائز شخصیات کے چہرے دیکھے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے جب ان مقتدر قوتوں کو آئینہ دکھایاتو وہ برا بھی مانے اور انکی پیشانی پر ابھرنے والی شکنیں دیکھ کر بھی بلے صاحب خاموش نظر نہیں آتے
شہر یاروں کی جبینیں دیکھو
ان کہی میں نے کہی ہو جیسے
بلے صاحب کو ایوانِ اقتدار میں پنپنے والی سازشوں کو بڑے قریب سے دیکھنے کے مواقع ملے۔ ان کی ملازمت ہی ایسی تھی کہ حکمرانوں سے دور نہیں رہ سکتے تھے۔ خواجہ ناظم الدین سے نوازشریف تک بلے صاحب نے اپنی یادداشتوں کو بھی قلم بند کیا تھا۔المیہ یہ ہے کہ ملتان میں جب انکے گھر کا صفایا ہوا تو چور یہ مسودہ بھی بریف کیس میں اپنے ساتھ لے گئے ۔قومی اخبارات میں اس مسودے کی چوری پر بڑا واویلا ہوا، ڈاکٹر کریم ملک اور عارف الاسلام صدیقی کے کئی کالم بھی میری نظر سے گزرے ہیں، جن میں ان اصحاب نے بڑی دردمندی کے ساتھ نامعلوم چوروں سے اپیل کی کہ ’’خدارا یہ قومی اثاثہ واپس لوٹا دو‘تمہارے کسی کام کا نہیں لیکن ہماری تاریخ کی وہ ان کہی داستانیں ہیں،جونسلِ نوتک منتقل نہ ہوئیں تو اتنا بڑا نقصان ہوگا کہ اسکی تلافی ممکن نہیں‘‘ چوروں نے یہ کالم پڑھ لئے ہوتے تو وہ یہ تاریخی مسودہ ضرور لوٹادیتے لیکن یہ مسودہ بلے صاحب کو واپس نہ مل سکا ۔نتیجتاً جن محلاتی سازشوں سے انہوں نے پردہ اٹھایا تھا، وہ پردہ اخفا ہی میں رہیں۔ اب تو فخرالدین بلے بھی یاد بن کر رہ گئے ہیں، لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ وہ بہت سے لوگوں کی یادوں میں زندہ ہیں۔ ادبی ، ثقافتی اور علمی محفلوں میں انکا ذکرِ خیر محبت اور احترام کے ساتھ کیا جاتا ہے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انکی کمی زیادہ محسوس ہونے لگی ہے۔ مجھے ان کا کہا سچ نظر آتا ہے
صدف کی طرح سے جو لوگ پانیوں میں رہے
مثال بن کے وہ زندہ کہانیوں میں رہے
مجھے ادبی محفلوں میں شرکت کے مواقع اس لئے بھی نسبتاً زیادہ ملتے ہیں کیونکہ ادب لطیف سے وابستگی کے ساتھ ساتھ لاہور کی ادبی ڈائری بھی مجھے ہفتہ وار لکھنا پڑتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک محفل میں بلے صاحب کی دبنگ شخصیت کا ذکر چھڑ گیا تو احمد ندیم قاسمی کی یادوں کی کھڑکیاں کھل گئیں۔انہوں نے بتایا کہ سانحہ مشرقی پاکستان سے پہلے میں جیل میں تھا۔ جہاں سید فخرالدین بلے نے مجھ سے آکرملاقات کی اور بتایا کہ وہ محکمہ معاشرتی بہبود کے ترجمان ماہانہ جریدے’’فلاح‘‘ کا اجراء عمل میں لا رہے ہیں اور اس کیلئے انہوں نے افسانہ لکھنے کی فرمائش بھی کی۔ جس پر احمد ندیم قاسمی نے انہیں اپنے لئے مشکلات پیدا نہ کرنے کا مشورہ دیا۔ بلے صاحب نے ان سے افسانہ لکھوایا اور اہتمام سے سرکاری جریدے کی زینت بھی بنایا۔وہ ’’چلوتوسارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو‘‘ کے قائل تھے۔ سرکاری منصب بھی حکمرانوں کی ناپسندیدہ شخصیات سے انہیں دور نہیں رکھ پائے۔ وہ جن لوگوں میں انسان دوستی، وطن دوستی اور محبت ومروت دیکھتے، انہیں گلے لگا لیتے اور یہ نہیں سوچتے تھے کہ انہیں اسکی کیا قیمت چکانی پڑے گی۔ مجھے یاد ہے کہ ادبی تنظیم قافلے کا ایک پڑاؤ ہوا، جس میں آسمانِ ادب کے روشن ستارے جگمگائے۔ محفل برخواست ہونے کے بعد بھی کچھ احباب ابھی لوٹے نہیں تھے کہ مزاح نگار بریگیڈیئر صدیق سالک وہاں آگئے۔ گویا پھر نئی محفل سج گئی۔ جاتے جاتے صدیق سالک نے بڑے محتاط انداز میں بلے صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بادشاہ سلامت کو آپ کے تیور اچھے نہیں لگے۔ انہوں نے پوچھا ہوا کیا؟ کچھ بتائیں تو؟ انہوں نے کہا کہ آ پکے ایک شعر کے ساتھ آپ کا آٹوگراف قومی روزنامے میں شائع ہواہے۔آپ چڑھی ہوئی آنکھوں والوں کو نوشتہ دیوار کیوں دکھانے پر مصر ہیں، اور پھر بلے صاحب کو انکا شعر بھی سنایا ۔
دماغ عرش پہ ہیں اور چڑھی ہوئی آنکھیں
ابھی نوشتہ دیوار کون دیکھے گا
یہ سن کر ذرا توقف کے ساتھ بلے صاحب نے کہاکہ آ پ انہیں نیچے لانے کی بھی کوشش کریں، جن کے دماغ عرش پہ ہیں۔ نوشتہ دیوارمٹانے سے نہیں مٹا کرتا۔ یہ سن کر صدیق سالک مسکرائے اور چلتے چلتے اتنا ضرور کہاکہ مجھے معلوم ہے کہ آپ نہیں بدل سکتے۔ وہ چلے گئے تو ایک صاحب بولے ضیاء الحق تمام قوتوں کا مالک ہوکر بھی اتنا کمزور کیوں ہے۔کسی کا ایک شعر سن کر بھی اس کے تیور بگڑ جاتے ہیں۔
سیدفخرالدین بلے نے ریاستی جبر وحور کے خلاف بھی بڑے موثر انداز میں آواز اٹھائی۔ مگر کہا غزل کے پردے میں ۔
لوگ خاموش سہی ،کہتے ہیں چہرے سب کے
اس ضیا سے کہیں بہتر تھے اندھیرے شب کے
آمروں نے جمہوری آوازوں کو دبانے اور قلم کاروں کو عقوبت خانوں میں اذیتیں دے کر خاموش کرانے کی کوشش کی تو یہ سوال بھی اٹھایا
یہ سولیاں ، یہ شکنجے ، یہ خنجر و زہراب
پئے سزا ہیں کہ ہم کو ابھارنے کے لئے
ایوب خان، یحیٰی خان، ضیاء الحق اور پرویزمشرف کے ادوار کو تاریخ کا سیاہ باب قرار دیا اورجب انتخاب سے پہلے احتساب کا نعرہ بلند ہوا اور صرف ناپسندیدہ سیاسی جماعتوں اور شخصیات کے احتساب کا عمل شروع کردیاگیا تو انہوں نے پوچھ ہی لیا
شہر کے محتسب ہمیں بھی دکھا
ایسا دامن جو داغ دار نہیں
انکی شاعری مجھے ملک کا سیاسی منظر نامہ نظر آتی ہے۔ بڑے ایوانوں کے مکینوں کا ’اترنے کا خوف‘ پہرے داروں کی نقب زنی، سہمے سہمے عوام، اگلی صف میں بیٹھے لوگوں کی من کی سیاہی، جرم ضعیفی کی سزا اور قدم قدم پر قیامتوں کا ذکر۔ کیا بات ہے؟
جو لوگ چڑھنے اُترنے سے خوف کھاتے ہیں
انہی کے قصر میں خود کار سیڑھیاں دیکھیں
پوچھا لگا کے گھر میں نقب پہرے دار نے
کیا بات ہے کہ سارے مکیں ہیں ڈرے ڈرے
اگلی صف میں جو لوگ بیٹھے ہیں
تن کے اجلے ہیں، من کے کالے ہیں
خدا ہے قادر و عادل مگر خدا کی قسم
قدم قدم پہ قیامت ہے آدمی کے لئے
اس شہر کے باشندوں پہ جو وقت پڑا ہے
تسلیم کرو ، جرمِ ضعیفی کی سزا ہے
سید فخرالدین بلے کی شاعری میں ایسے بہت سے اشعار نظر آتے ہیں ،جنکی بنیاد پر پوری قومی تاریخ مرتب کی جاسکتی ہے۔ اور یہ تاریخ ریاستی جبر، معاشرتی جور، معاشی ناانصافیوں ،فوجی ٹولوں کی ہوس اقتدار، سیاسی رسہ کشی، جمہوریت کی آڑ میں آمریت اور آمرانہ قوتوں کے جمہوری ڈراموں سے عبارت ہے، اس لئے انکی جھلکیاں آپ کو بلے صاحب کے کلام میں جابجا نظر آتی ہیں۔
اب خدا ہی حافظ ہے اپنی پاک دھرتی کا
مسندوں پہ آ بیٹھے سرحدوں کے رکھوالے
وقت کا تقاضا ہے احتجاج ، حق گوئی
جانے سب کے ہونٹوں پر پڑ گئے ہیں کیوں تالے؟
فخرالدین بلے کی اپنی سوچیں ہیں ۔وہ پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کے مداح تھے لیکن یہ بھی سمجھتے تھے کہ مسلم لیگ کو کسی اور نے نہیں موسم لیگیوں نے نقصان پہنچایا۔پاک فوج کے جن سپاہیوں نے جانوں کے نذرانے پیش کئے، ان کا دل سے احترام کرتے تھے، جن فوجی سپاہیوں نے سینے پر زخموں کے تمغے سجائے، ان کیلئے بھی بلے صاحب کا قلم گوہرفشاں نظر آیا لیکن چور دروازوں سے اقتدار میں آنے والے فوجی ٹولوں کے خلاف قلمی محاذ کھولنے میں کبھی تذبذب کا شکار نہیں ہوئے۔ایسے فوجی حکمران لوگوں کو یہ یقین دلاتے رہے کہ ہم نے اندھیرے دور کر دئیے ہیں لیکن بلے صاحب یہی سوال کرتے نظر آئے
کوئی بتاؤ خدارا یہ دن ہے یا شب ہے
نہ آفتاب ہی نکلا نہ ماہتاب اٹھا
ہے خوں چکیدہ سحر اور شام خوں آشام
الٰہی ! اب تو مرے شہر سے عذاب اٹھا
کوتاہی ہوگی اگر بلے صاحب کی مزاحمتی شاعری کا ذکر ہولیکن انکی ایک نظم ڈسپلن کا ذکر نہ کیا جائے۔ علامہ سید غلام شبیر بخاری نے اپنی یادداشتوں میں ایک واقعہ اسی حوالے سے تحریر کیاہے۔ لکھتے ہیں۔
اسلام آباد میں جوش ملیح آبادی کے گھر دوست احباب جمع تھے۔ میں اورسید فخر الدین بلے بھی وہاں پہنچے ۔ جوش صاحب بولے کئی روزسے خمار نہیں اترا۔ بلے صاحب کی نظم کے سحر سے میں باہر نہیں نکل پایا۔ جس پر فیض احمدفیض نے کہاکہ یہ چھپے رستم ہیں۔ اپنی شاعری کو باہر کی ہوا نہیں لگنے دیتے۔ان کے اندر ایک بڑاشاعر اور دانش ور چُھپا بیٹھا ہے۔ طفیل ہوشیار پوری بولے یہ چَھپنے کے بجائے چُھپنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔ اسی محفل میں احباب کی فرمائش پر بلے صاحب نے اپنی نظم ڈسپلن سنائی۔ واقعی کیا خوب نظم ہے۔ آپ بھی سنئے۔
بینک کی یونین کے عہدے دار
بینک کے مینیجر سے بدظن تھے
روزلڑتے جھگڑتے رہتے تھے
ایک دن بینک میں بہت زیادہ
ہاتھا پائی ہوئی ،فساد ہوا
بات حد سے بڑھی تو بالآخر
مینیجر اور یونین والے
ایک ٹیبل پہ آکے بیٹھ گئے
پہلے ہوتے رہے گلے شکوے
پھر مسائل پہ بات چیت ہوئی
اور،گھنٹوں کی گفتگو کے بعد
ہوگیاان میں ایک سمجھوتہ
دیکھ کر یہ عجیب تبدیلی
بینک کا ایک مستند گن مین
یونین سے جو تھا بہت بیزار
اور،سبھی افسروں سے نالاں تھا
بینک کی آبرو کے پیش نظر
ہوگیا سارے بینک پر قابض
للہ الحمد ایک مدت سے
گاہکوں کو سکون حاصل ہے
داد دیتے ہیں اب تو افسر بھی
اپنے گن مین کی فراست کی
جس کے ایثار اور حکمت سے
کوئی ہنگامہ اب نہیں ہوتا
اور،فضا پر سکوت طاری ہے
بینک کاکاروبار چلتاہے
ارتقاٗ کاسفر بھی جاری ہے
ارتقاٗ کاسفر نہ رک جائے
اس لئے بینک کانیاگن مین
یہ سمجھتاہے میری باری ہے
سرکاری ملازم ہوکر آمرانہ دور میں ایسی نظم لکھنا جرات وجوانمردی کا کام ہے۔ بلے صاحب کی اس نظم کو مزاحمتی ادب کے حوالے سے شاہکار قراردیا جائے تو بے جا نہ ہوگا ۔
سیدفخرالدین بلے کے کلام کو پڑھ کرحب الوطنی سے سر شار فنکار ہمارے سامنے آتا ہے
یہ میری دھرتی تو میری ماں ہے
اسی سے اٹھا خمیر میرا
اسی سے جاگا ضمیر میرا
اسی کا ،ہر ایک ذرہ ذرہ
بنا رہا دستگیر میرا
چھ ستمبر کی پاک بھارت نظم میں بھی وطن عزیز کیلئے تن ، من دھن قربان کردینے کا جذبہ ٹھاٹھیں مارتا ہوا نظر آتا ہے۔ مسجد اقصیٰ کی آتشزدگی کے سانحے پر انہوں نے آنسو ہی نہیں بہائے بلکہ اسلام دشمن قوتوں کو بڑی جرات مندی کے ساتھ للکارا ہے۔ فلسطین،افغانستان، عراق، چیچنیا،بوسنیا اور کشمیر سمیت جہاں جہاں انسانی حقوق کوپامال کیاگیا ،ان سب مظلوموں کی چیخیں ،آہیں اور سسکیا ں بھی ہمیں بلے صاحب کی شاعری میں سنائی دیتی ہیں۔ظلم کسی بھی سطح پر ہوا، ان کے اندر کا شاعر جاگ اٹھا اور مظلوم قوتوں کی آواز بن گیا۔ان کی سوچوں کا خمیر یقیناً اسی سوہنی دھرتی کی مٹی سے اٹھا۔ وہ خود کو وطن عزیز اور مادرِ گیتی کا مقروض سمجھتے تھے ’’مٹی کا قرض‘‘ اس کی گواہی کیلئے کافی ہے۔
اِس دھرتی کی ہر شے پر ہے اس مٹی کا قرض
میرے لئے ہے فرض سے پہلے اس مٹی کا قرض
اِک مدت سے دیکھ رہی ہیں، میری بھیگی آنکھیں
بڑھ جاتا ہے جب مینہ برسے اس مٹی کا قرض
کیوں نہ دھرتی سیوا کرکے خون پسینہ بوئیں
ممکن ہے کچھ کم ہو جائے اس مٹی کا قرض
قوم کو گروی رکھنے والو ، خوب چکایا ہے
مٹی کا کشکول بنا کے اس مٹی کا قرض
اس نظم میں فخر الدین بلے کی نبض چلتی ہوئی نظر آتی ہے اور انکے دل کی دھڑکنیں سنی جا سکتی ہیں۔ انسان دوستی، وطن سے محبت، جراتِ اظہار، اصول پسندی اور سچائی و بے باکی کی انہیں مختلف مراحل پر بڑی بھاری قیمت چکانی پڑی لیکن وہ اپنی وضع بدلنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ انہیں اندازہ تھا کہ حکومتی کارناموں کو اجاگر کرنا اور اسکی کمزوریوں پر پردہ ڈالے رکھنا ان کے سرکاری فرائض میں شامل ہے، لیکن اس کے باوجود انہیں سچائی کی قدر و قیمت کا بخوبی اندازہ تھا۔ جس کا اعتراف بھی انہوں نے کیا
میں بھی سرکار کا قوال رہا ہوں برسوں
مجھ سے پوچھے کوئی حق گوئی کی قیمت کیا ہے
آمرانہ دور میں انہیں جبری ریٹائرمنٹ دے کر رخصت کردیاگیالیکن ان کے اعصاب ٹوٹے نہ وہ ہمت ہارے۔ اس لئے کہ وہ بڑ ے مضبوط اعصاب کے مالک تھے۔ پھر انہیں ترقی دے کر محکمے میں واپس بلالیا گیا۔وہ ہر حال میں راضی بہ رضا رہے۔ کچھ چھن جانے کا ملال کیا نہ بہت کچھ مل جانے پر بہت خوشی کا اظہار کیا، البتہ کلمہ شکر ہرحال میں انکی زبان پر رہا۔یہ ان کے محکموں کے افسران کاکہناہے ۔شیخ خفیظ الرحمان کا شمار تعلقات عامہ کے ماہرین میں ہوتا ہے، وہ صوبائی محکمہ اطلاعات پنجاب کے سیکرٹری بھی رہے۔ بلے صاحب کی جبری ریٹائرمنٹ پر انہوں نے کہا تھا کہ آج یہ محکمہ ایک انتہائی باصلاحیت اور دیانتدار افسر سے محروم ہوگیا ہے اور جب بلے صاحب کو ترقی دے کر واپس
لے لیا گیاتو انہوں نے صرف اتنا کہاکہ مجھے لگتا ہے کہ فخرالدین بلے کے ساتھ اس ڈیپارٹمنٹ کا وقار بحال ہوگیا ہے۔
میں نے سرگودھا،لاہور، راولپنڈی اور ملتان میں سید فخرالدین بلے کو ہمیشہ سرگرم پایا۔ وہ نرم دمِ گفتگو، گرم دمِ جستجو کی جیتی جاگتی تصویر تھے۔ حکمرانوں سے بھی ان کے قریبی مراسم رہے۔ قریبی مراسم کی وضاحت کروں کہ میں نے ان کے گھر گورنر، وزیراعلی سمیت اعلیٰ شخصیات کو خوش گپیوں میں مصروف پایا لیکن ان تمام تعلقات کے باوجود وہ انکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے تھے۔ ایک ایسی ہی محفل میں بڑی شخصیات کے چلے جانے پر ایک شریکِ محفل نے پوچھا کہ آپ میں یہ بلا کی خوداعتمادی کہاں سے آئی تو بلے صاحب نے صرف اتنا کہاکہ میں نے کبھی ان شخصیات سے کوئی ذاتی کام نہیں لیا۔ کسی پیشکش کو قبول نہیں کیا اور پھر مسکراتے ہوئے یہ شعر انکی زبان پرآگیا
سر اٹھا کر زمیں پہ چلتا ہوں
سر چھپانے کو گھر نہیں نہ سہی
بلے صاحب کا دل، دسترخوان اورحلقہ احباب بڑا وسیع تھا۔وہ دفترمیں ہوتے یا گھر پر مجمع لگارہتا تھا،قلم کاروں کی وہ دل سے عزت کرتے تھے۔ ان پر لکھے گئے تحقیقی مضامین اور اہل علم و ادب سے جو تذکرے میں نے سنے ہیں ،وہ بتاتے ہیں کہ بابائے اردو مولوی عبدالحق، فراق گورکھپوری، فیض احمدفیض، اینی میری شمل،پروفیسر نجم الحسن کراروی،خواجہ نصیرالدین نصیرگولڑوی،قتیل شفائی،کلیم عثمانی،پروفیسرغلام جیلانی اصغر،قدرت اللہ شہاب، نقوش کے مدیرمحمد طفیل، ڈاکٹر سید عبداللہ، مخدوم طالب المولیٰ ،مخدوم سجاد حسین قریشی،حسرت موہانی،احسان دانش،تابش دہلوی،شہاب دہلوی،ظہورنظر،جاوید قریشی،باقر حسین رضوی،سیدشبیہ الحسن رضوی،شہزاد احمد، قدرت اللہ شہاب،منشا یاد،حفیظ تائب، مختارمسعود، جمیل الدین عالی، رشید قیصرانی،رئیس امروہوی، جون ایلیا،شورش کاشمیری،صہبااختر،حبیب جالب، جوش ملیح
آبادی،وقار انبالوی ، ڈاکٹر وزیر آغا، اشفاق احمد، منیرنیازی، مظفر وارثی، حفیظ تائب، ڈاکٹر عاصی کرنالی، ڈاکٹر خورشید رضوی، جابر علی سید، ڈاکٹر اسلم انصاری، اصغر ندیم سید،ڈاکٹر خواجہ زکریا،بشیر بدر،ڈاکٹر مقصود زاہدی اور مرتضی ٰ برلاس سمیت اہل علم وادب کی ایک لمبی فہرست ہے، جو انکی قدر دان رہی ۔ بہت سے مضامین میں مجھے فخرالدین بلے کے حوالے سے ان اصحاب کی آرا پڑھنے کو ملیں۔ان میں سے کچھ شخصیات کے مضامین بھی پڑھے،جن میں بلے صاحب کے کلام اور کام
کی ان شخصیات نے دل کھول کرداد دی ہے۔ داتاکی نگری ، سرگودھا، راولپنڈی سمیت کئی شہروں میں مجھے ان محافل میں شرکت کا اعزازبھی حاصل رہا۔ جن میں بلے صاحب کو ان میں سے بہت سی شخصیات کا احترام کرتے اور ان شخصیات کو بلے صاحب کا احترام کرتے پایا۔ قافلے کے پڑاؤکاآنکھوں دیکھا حال بھی میں اخبارات ورسائل میں لکھتا رہا ہوں۔مجھے اعتراف ہے کہ میں علامہ سید احمد سعید کاظمی ،انتظار حسین،افتخارعارف،اصغر ندیم سید ،ڈاکٹروزیر آغا ،جمیل الدین عالی ،قیصر نجفی، طارق محمود،علامہ نصیرالدین الاجتہادی،جلیل عالی ،مسعود اشعر،محمد علی صدیقی،مشکور حسین یاد،ڈاکٹر زاہد علی واسطی،حسین سحر،افتخار اجمل شاہین،انیس زیدی،جاذب قریشی،ظفرعلی راجا،ڈاکٹر اجمل نیازی،پروفیسر منظرایوبی،ڈاکٹر عاصی کرنالی،ڈاکٹر حمیدرضا صدیقی،عباس خاں ،ڈاکٹر عنوان چشتی، ڈاکٹر فوق کریمی علیگ،ڈاکٹراسلم انصاری ،منصورعاقل ،طفیل ہوشیار پوری،ڈاکٹر محمد امین ،انور معین زبیری، منصورجاوید،شبنم رومانی،احمد رئیس چشتی،پروفیسرمنور علی خاں اور ڈاکٹر انورسدیدسمیت دیگر اہلِ علم و ادب کی تحریریں نہ پڑھتا تو سید فخرالدین بلے کی شخصیت،فن اور خدمات کے بہت سے رخ میری نظروں سے اوجھل رہتے۔ان علمی،ادبی اور ثقافتی محفلوں میں شرکت کااعزاز مجھے حاصل نہ ہوتا،جہاں بلے صاحب کو محبت ،ادب اور تحسین و احترام بھری نظروں سے دیکھاجاتا تھا۔پاکستان اور بھارت کے آسمانِ ادب کے روشن ستاروں کی کہکشاں سے سجے قافلے کے پڑاؤ میری نظرمیں نہ ہوتے یا علامہ سید غلام شبیر بخاری کی یادداشتوں کے اقتباسات پڑھنے ،سمجھنے اور انکی زبانی سننے کے مواقع نہ ملے ہوتے تو میں بہت سی معلومات سے
محروم رہتا۔ انہوں نے بہت سی یادگار محفلوں کے حوالے سے اپنی یادداشتوں کو قلم بند کیا ہے ،جو ہماری تاریخِ ادبِ اردو کا قیمتی اثاثہ ہے۔
فخرالدین بلے اب ہم میں نہیں لیکن ان کی شاعری زندہ ہے۔ انہوں نے محبت کی جو شمعیں روشن کیں ، ان کا اجالا موجود ہے ۔ان کی فکر آج بھی معانی کی لو دیتی محسوس ہوتی ہے۔ان کی خدمات کا دوست احباب نے دل کھول کر اعتراف کیا ہے۔ پریشان خٹک نے انہیں ادب کی دیوقامت شخصیت کا نام دیا اور کہاکہ انہوں نے ادب اور فنون کی دنیا میں جو کام کئے، وہ بہت سے اداروں کی مجموعی کارکردگی پر بھاری ہیں
تلاشِ رزق ہو یا جستجوئے معرفت بلے
ہماری زندگی شعر و ادب یوں بھی ہے اور یوں بھی
ادب ان کی زندگی کا چلن اور اوڑھنا بچھونا رہا ۔انسان کے اردگرد ہی ان کی شاعری گھومتی نظر آتی ہے۔ کبھی یہ عارفانہ دکھائی دیتی ہے۔ کبھی متصوفانہ اورکبھی عاشقانہ۔ کبھی جبر کرنے والے ان کے تیشہ فکر کا نشانہ بنتے ہیں۔ کبھی مظلوم کی فریاد کو وہ الفاظ بخش دیتے ہیں۔ کبھی ملک کے رکھوالوں کی چھیناجھپٹی انکا موضوع بن جاتی ہے اورکبھی راہبروں کی راہزنی کو وہ ہدفِ سخن بنالیتے ہیں۔ مجھے تو انکی خاموشی بھی جبر کے خلاف احتجاج کرتی نظر آتی ہے ۔جس کا انہوں نے چار مصرعوں میں برملا اظہار کیا ہے
اپنے احساس کو معکوس نہ ہونے دوں گا
فکر کو شعر میں ملبوس نہ ہونے دوں گا
مجھ پہ جو کچھ بھی گزرتی ہے، مری جانِ وفا
انتقاماً تجھے محسوس نہ ہونے دوں گا
------------------------------
ZAFAR MOEEN BALLEY0333-2858339 & 0320-2858339zafarmoeensyed@gmail.com1_Teacher ,Writer, Poet Journalist and The Host of of more than 200 Literary sittings under the banner of "Qafla_Para'o" arranged and organized under the supervision and the guidance of his father, Syed Fakhruddin Balley.2_Hi articles, research papers, literary views and poetry [ghazal & nazm] are being published in local and international newspapers and magazines for the last 25 years. Also an autobiography is underway based on the companionship of legends of the literature world.3_JOURNALISM EXPERIENCE:[More Than 25_Years]• Magazine Editor of national daily newspaper Aftab, Multan & Lahore, 1986-2001• Editor of oldest literary magazine in the sub-continent, Adab-e-Latif, Lahore, 1988-1996• Editor of weekly political and literary magazine Aawaz-e-Jaras, Lahore, 1989-1996• Editor of fortnightly political and literary magazine Inkeshaf, Lahore, 1989-19924_TEACHING & TRAINING EXPERIENCE: [More Than 20 Years][Known as the Best O'_&_A'_Level/Senior Cambridge_Urdu Teacher , In Pakistan, He showed the best results of Cambridge during the last 20 years]• St. Patrick’s School 2015-PresentTeaching Urdu literature & language to A Levels students• Private Tutoring 2000-PresentExtensive teaching experience with respect to university and O/A level students in the areas ofUrdu, Islamist and Pakistan Studies.• Department of Urdu, University of Karachi, Karachi 2015, 2016 and 2017.Conducted a week-long workshop for A Levels Urdu teachers under the Urdu department head.• Assistant Professor at Greenwich University, Karachi, 2012-2016Taught Functional Urdu at the Department of Media Sciences.• Vice Principal at The Oasys School O’ & A’ Levels, Karachi, 2012–2014Oversaw 90 students and 20 faculty members in this position.• Coordinator at The Oasys School O’ & A’ Levels, Karachi, 2007–2011Oversaw 100 students and 20 faculty members in this position.• Senior Teacher at The Oasys School O’ & A’ Levels, Karachi, 2003–2014Taught Urdu to O & A Level classes.• Senior Teacher at CAMS The Avicenna School, Karachi, 2003–2004Taught Urdu to O & A Level classes.• Visiting Faculty at The Socrates School, Karachi, 2003-2004Taught Urdu to A Level classes.• Lecturer at Urdu Department of Shah Abdul Latif Bhitai University, Khairpur, 1995–1996Taught M.A. students Urdu language & literature.• Researcher at Sachal Chair Shah Abdul Latif Bhitai University, Khairpur, 1995–1996Area of research included the poetry of Sachal Sarmast.• Visiting Teacher at Emerson School O & A levels 1992-1998Taught Urdu to O & A Level classes.
دیدبان شمارہ ۔۷
سید فخرالدین بلے کا مزاحمتی رنگ
تحریر شاہد بخاری
نقارخانے میں جمیل الدین عالی کا ایک کالم پندرہویں ،بیس ویں اور ستائیس ویں مارچ کو 2011 میں تین قسطوں میں شائع ہوا۔جس میں سید فخرالدین بلے کی شخصیت، فن اور شاعری کا بڑی محبت اور احترام کے ساتھ احاطہ کیا گیا ہے۔ دو جملے ایسے ہیں، جنہوں نے مجھے قلم اٹھانے پرمجبور کردیاہے ۔پہلا جملہ میرزا ادیب کا ہے، انہوں نے فخرالدین بلے کے حوالے سے یہ ماناکہ ’’ہرملاقات میں انکی شخصیت کا ایک نیارخ میرے سامنے آیا اور میں اس کثیرالجہت شخصیت کو پورے اعتماد کے ساتھ علم و ادب کی آبرو قرار دے سکتا ہوں‘‘۔ دوسرا جملہ انکا نہیں بلکہ ایک ایسی شخصیت کا ہے، جنہوں نے مجید امجد کے حوالے سے بھی بڑا کام کیا ہے ۔جی ہاں ! آپ صحیح سمجھے۔ میری مراد ڈاکٹڑ خواجہ زکریا ہی سے ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’سید فخرالدین بلے کی ذات میں جتنا تنوع تھا، اسی قدر رنگا رنگی انکی نظم ونثر میں موجود تھی ۔ان کی گفتگو مطالعہ اورتجربے کا امتزاج ہوتی۔ ان سے ملنے والے ایک خوشگوار شخصیت کا نقش دل پر لئے ہوئے ان سے رخصت ہوتے‘‘۔ یہ دونوں جملے میرے لاشعور میں کہیں چپک کر رہ گئے۔ میں نے انکی شخصیت کے رنگ تو سرگودھا اور لاہور میں بہت دیکھے تھے۔ شاعری میں بلاشبہ رنگارنگی ہے۔ ان کی پہلو دار شخصیت کی طرح انکی شاعری کی بھی بہت سے جہتیں ہیں۔ بہت سے تخلیقی اور فکری زاویے ہیں۔ مجھے بھی ان سے فیض یاب ہونے کے مواقع ملے اور انکی شاعری میں مزاحمتی رنگ مجھے بڑے کینوس پر بکھرادکھائی دیا ہے ۔ گویایہاں بھی وہ اپنی شخصیت کا رنگ دکھاگئے۔ معاشی یا معاشرتی نا انصافیاں ہوں، ریاستی جوریا عالمی جبر بلے صاحب انکے خلاف قلمی محاذ پر ڈٹے رہے۔ اور نامہربانوں کی ’’مہربانیوں‘‘ نے انہیں یہ کہنے پر مجبور کردیا
آپ کے ہر کرم سے ڈرتا ہوں
آپ کا ہر ستم گوارہ ہے
دل حساس ہو۔ سرعام ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہوں۔ انصا ف کے نام پر نا انصافی اور ایمان کے نام پر بے ایمانی جڑیں پکڑے لے۔ جمہوریت کی آڑ میں خدمت کیلئے منتخب کئے جانے والے عوام کی خدمت کے بجائے ان پر حکمرانی کرنے لگیں۔ محافظین نقب لگا کر حکومتی ایوانوں میں پہنچ جائیں اور جمہوری حکومت کی بساط لپیٹ کر خود گن پوائنٹ پر اقتدار واختیار پر قبضہ کرلیں۔ قانون کا اطلاق بے بس اور کمزور لوگوں پر ہونے لگے اور نام نہاد بڑے لوگ قانون شکنی پر فخر کرتے نظر آئیں۔ میرٹ کا ڈھنڈورا پیٹا جائے لیکن عملی طور پر میرٹ کہیں دکھائی نہ دے ۔ تعمیرات کے بجائے تمام تر توانائیاں منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھنے پر اپنے نام کی تشہیر کیلئے بروئے کار لانے کا رواج زور پکڑلے۔ جھوٹ اور دھوکے کے سوا کوئی چیز بازار میں خالص دستیاب نہ ہو۔ دُکھ دینے والے اپنے اجلے چہرے عوام کے سامنے لانے کیلئے عوام کے آنسو پونچھتے نظر آئیں۔ باتیں قوم کے مفاد کی ہوں اور مقتدر قوتیں ذاتی مفادات کی اسیر ہوکر رہ جائیں ۔رہنمالٹیرے بن جائیں۔ دوستی کی آڑ میں دشمنی ہو۔محبِ وطن نظر آنے والے لوگوں کے ہوتے ہوئے دشمنوں کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ حکمران قومی مفادات کے سودے کرنے لگیں۔ محض اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے مصنوعی بحران کھڑے کردیئے جائیں اور پھر ان پر قابو پانے کیلئے خود کو ناگزیر قرار دینے لگیں۔ جہالت، غربت، افلاس، پسماندگی، بیروزگاری، بیماری اور حقوق سے محرومی کو انتخابی منشور کا حصہ ضرور بنایاجائے۔ لیکن ان سے چھٹکارا دلانے کیلئے کوئی قدم نہ اٹھایاجائے۔ سبزباغ ضرور دکھائے جائیں لیکن اقتدار میں آکر تمام وعدے فراموش کرنے کو لوگ اپنی کامیابی سمجھنے لگیں
تو سوچئے ۔۔۔۔۔۔!!
کیا کوئی حساس دل فنکار خاموش رہ سکتا ہے؟
کیا کوئی شاعر، قلم کار یا تخلیق کار دانشور اپنے ہونٹ سی کر جی سکتا ہے؟
کیا صبرکا گھونٹ پی سکتا ہے؟
نہیں ۔۔۔۔ ہرگز نہیں۔ اس لئے کہ بقول فخرالدین بلے
جب قیامت گزر گئی سر سے
بے زباں لوگ بولتے دیکھے
سیدفخرالدین بلے نے اپنی سوہنی دھرتی، وطن عزیز،معصوم اور بے بس لوگوں اور انصاف کے نام پر ناانصافی کا شکار ہونے والوں پر بہت سی قیامتیں گزرتے دیکھیں تو انکے احساس نے بے زبانی کو زبان دیدی۔
مجھے سیدفخرالدین بلے کی شاعری میں مزاحمتی رنگ بڑا غالب نظر آیا ہے ۔یہ سچ ہے کہ انہوں نے مزاحمتی رویئے اوررنگ کو سیاسی نعرہ نہیں بنایا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انہوں نے ایمائیت اور رمزیت کے ساتھ ہر ظلم وناانصافی کے خلاف فکر وقلم کے جوہردکھائے ہیں۔ انسانیت سے محبت کی جو آگ انکے اندر سلگ رہی ہے، اس سے کہیں کہیں انکی شاعری میں چنگاریاں نکلتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ بہار کے موسم میں بھی انہیں اپنا سانس گھٹتاہوا محسوس ہوتا ہے تو وہ یہ سوال اٹھانے سے گریز نہیں کرتے۔
چمن کے دیدہ وروں سے سوال ہے میرا
بہار کا ہے یہ موسم تو پھر گھٹن کیوں ہے
یہ سوال اٹھاکر انہیں معلوم ہے کہ جواب نہیں آئے گا، اس لئے اپنے ساتھ گھٹن کا شکار لوگوں کی یہ کہہ کر امید بھی بندھاتے ہیں
رُتوں کی رِیت یہی ہے ، یہی ہوا کی روش
تپش بڑھے گی تو بادل ضرور برسے گا
اور حکمرانوں کو خبردار کرنے سے بھی نہیں چوکتے
چمن میں فصلِ بہاراں سہی ، خزاں نہ سہی
مگر حضور یہ موسم ضرور بدلے گا
چمن، فصلِ بہاراں، خزاں اورموسم ایسے استعارے ہیں ،جنہیں انہوں نے خیال آرائی کے ساتھ ساتھ بڑی خوبصورتی سے برتا ہے۔ اب قاری کی سوچ پر منحصر ہے کہ وہ انہیں کس سطح پر دیکھتا ہے۔ آپ جس سطح پر بھی انہیں دیکھیں گے، نت نئے معانی اپنے جلوے دکھاتے نظر آئینگے۔
وزیراعظم لیاقت علی خان کو بھرے جلسے میں گولی مارکر ابدی نیند سلادینے کے بعد وطن عزیز میں میوزیکل چیئر کاجو کھیل کھیلاگیا، اس نے فخرالدین بلے کی شخصیت کو اندر سے ہلاکر رکھ دیا ۔ انہوں نے نثر لکھی تو انکے قلم سے روشنائی نہیں آنسو بہتے نظر آئے۔ وہ بدترین جمہوریت کو بھی بہترین آمریت سے بہتر ضرور قرار دیتے رہے ہیں لیکن جمہوری آمریت پر بھی خاموش نہیں رہے۔ بلکہ عوام کے اندھیرے دور نہ ہونے پر پکاراٹھے
جمہوریت کے دور میں جمہور کے لئے
پابندیاں ہیں، قید ہے، زنداں ہے آج بھی
اب بھی بھٹک رہے ہیں اندھیروں میں عام لوگ
شاہوں کے گھر میں جشنِ چراغاں ہے آج بھی
عوام کے اندھیرے اورشاہوں کے گھروں میں جشن چراغاں ہی ہے، جس نے عوام میں محرومی کا احساس جگایا۔ انہیں تڑپایا، رُلایا اور بلے صاحب نے بڑی جرات مندی کے ساتھ فیصلہ سنادیا
رہزن ہمارے قافلہ سالار اب بھی ہیں
حیوانیت ہماری نگہباں ہے آج بھی
جمہوری حکمرانوں کی حماقتوں پر انکا قلم اس لئے روتا رہاکیونکہ انہیں ڈرتھا کہ اس سے آمریت کی راہیں ہموار ہوجائینگی۔ محافظین قومی مفادات کے تحفظ کا راگ الاپ کر چور دروازوں سے ایوانِ حکومت میں آکر اپنے قدم جمالیں گے اور پھر وہی کچھ ہوا، جس پر بلے صاحب نے دکھ کے ساتھ کہا
ہم آج تک نہ ہو سکے جمہوریت شعار
ہوتی رہی ہے فوج مشرف بہ اقتدار
خوفِ خزاں ہے کوئی نہ اندیشہ بہار
ہے دستِ بے حساں میں گلستاں کا کاروبار
سب جانتے ہیں ، کس لئے باقی نہیں رہا
عمّال پر بھروسہ ، عدالت پہ اعتبار
چُنتی ہے جن کو قوم ، ہٹاتا ہے ان کو کون
کرتا ہے کون پشت سے جمہوریت پہ وار
ان شعروں کے آئینے میں ہمارے قومی اداروں کی جیتی جاگتی تصویریں واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہ اشعارپڑھ کر آپ کی آنکھوں کے سامنے بہت سے چہرے بھی آگئے ہونگے۔ جو ہماری پینسٹھ سالہ قومی تاریخ میں بڑے نمایاں رہے ۔یہ وہی لوگ تھے ۔ جوجمہوری نظام کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر بھاری بوٹوں کے ساتھ ایوان اقتدار تک پہنچے اور تلوار کی نوک یا بندوق کی نال کے زورپر تخت نشیں ہوگئے
جس نے کھائی تھی قسم رکھ کے دساتیر پہ ہاتھ
آج اس شخص کا ہے قبضہ شمشیر پہ ہاتھ
خوں چکیدہ ہے سحر ، شامِ غریباں کی قسم
آج بھی شمر کا ہے گردنِ شبیر پہ ہاتھ
دست بستہ یہ گزارش ہے کہ ہوشیار رہیں
پابہ زنجیر کا پڑ جائے نہ زنجیر پہ ہاتھ
پابہ زنجیر کا زنجیر پہ تو ہاتھ نہ پڑا،اس لئے کہ ہماری عدالتوں نے بھی آمرِ وقت کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے اور جو جج صاحبان جھکنے کو تیار نہ ہوئے، انہیں آمروں نے خود گھربھیج دیا اور ججز سے یہ نیا حلف بھی لیاگیا کہ وہ آمرِ وقت کا ساتھ دینگے۔ چنانچہ انہوں نے حقِ نمک ادا کردیا۔ یہ ہماری تاریخ کا المناک باب ہے اور دراصل اسی کی طرف سید فخرالدین بلے نے اشارہ کیا
سب جانتے ہیں کس لئے حاصل نہیں رہا
عمال پر بھروسہ ، عدالت کا اعتبار
عدالتوں نے محض نوکریاں بچانے کیلئے آمرانہ قوتوں کا ساتھ دیا اور جب آمریت کا اندھیرا دور ہوگیا تو ججبز بھی نئے چولے پہن کر بڑے افتخار کے ساتھ سامنے آگئے۔ لیکن سلام ہے ، ان ججز پر جنہوں نے اپنے ضمیر اور قومی مفادات کے سودے نہیں کئے ۔ پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے صاف انکار کردیا کیونکہ وہ کسی ایک شخص کے غلام بن کر رہنا نہیں چاہتے تھے اور یہ بھی ممکن نہیں تھا کہ فوجی ٹولوں سے وفاداری کا حلف اٹھاکروہ انکے احکامات سے سرتابی کرتے۔ بلے صاحب کی شاعری ایک ایسا آئینہ ہے، جس میں تمام قومی اداروں کی کمزوریاں اور ان ریاستی اداروں کے کلیدی عہدوں پر فائز شخصیات کے چہرے دیکھے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے جب ان مقتدر قوتوں کو آئینہ دکھایاتو وہ برا بھی مانے اور انکی پیشانی پر ابھرنے والی شکنیں دیکھ کر بھی بلے صاحب خاموش نظر نہیں آتے
شہر یاروں کی جبینیں دیکھو
ان کہی میں نے کہی ہو جیسے
بلے صاحب کو ایوانِ اقتدار میں پنپنے والی سازشوں کو بڑے قریب سے دیکھنے کے مواقع ملے۔ ان کی ملازمت ہی ایسی تھی کہ حکمرانوں سے دور نہیں رہ سکتے تھے۔ خواجہ ناظم الدین سے نوازشریف تک بلے صاحب نے اپنی یادداشتوں کو بھی قلم بند کیا تھا۔المیہ یہ ہے کہ ملتان میں جب انکے گھر کا صفایا ہوا تو چور یہ مسودہ بھی بریف کیس میں اپنے ساتھ لے گئے ۔قومی اخبارات میں اس مسودے کی چوری پر بڑا واویلا ہوا، ڈاکٹر کریم ملک اور عارف الاسلام صدیقی کے کئی کالم بھی میری نظر سے گزرے ہیں، جن میں ان اصحاب نے بڑی دردمندی کے ساتھ نامعلوم چوروں سے اپیل کی کہ ’’خدارا یہ قومی اثاثہ واپس لوٹا دو‘تمہارے کسی کام کا نہیں لیکن ہماری تاریخ کی وہ ان کہی داستانیں ہیں،جونسلِ نوتک منتقل نہ ہوئیں تو اتنا بڑا نقصان ہوگا کہ اسکی تلافی ممکن نہیں‘‘ چوروں نے یہ کالم پڑھ لئے ہوتے تو وہ یہ تاریخی مسودہ ضرور لوٹادیتے لیکن یہ مسودہ بلے صاحب کو واپس نہ مل سکا ۔نتیجتاً جن محلاتی سازشوں سے انہوں نے پردہ اٹھایا تھا، وہ پردہ اخفا ہی میں رہیں۔ اب تو فخرالدین بلے بھی یاد بن کر رہ گئے ہیں، لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ وہ بہت سے لوگوں کی یادوں میں زندہ ہیں۔ ادبی ، ثقافتی اور علمی محفلوں میں انکا ذکرِ خیر محبت اور احترام کے ساتھ کیا جاتا ہے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انکی کمی زیادہ محسوس ہونے لگی ہے۔ مجھے ان کا کہا سچ نظر آتا ہے
صدف کی طرح سے جو لوگ پانیوں میں رہے
مثال بن کے وہ زندہ کہانیوں میں رہے
مجھے ادبی محفلوں میں شرکت کے مواقع اس لئے بھی نسبتاً زیادہ ملتے ہیں کیونکہ ادب لطیف سے وابستگی کے ساتھ ساتھ لاہور کی ادبی ڈائری بھی مجھے ہفتہ وار لکھنا پڑتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک محفل میں بلے صاحب کی دبنگ شخصیت کا ذکر چھڑ گیا تو احمد ندیم قاسمی کی یادوں کی کھڑکیاں کھل گئیں۔انہوں نے بتایا کہ سانحہ مشرقی پاکستان سے پہلے میں جیل میں تھا۔ جہاں سید فخرالدین بلے نے مجھ سے آکرملاقات کی اور بتایا کہ وہ محکمہ معاشرتی بہبود کے ترجمان ماہانہ جریدے’’فلاح‘‘ کا اجراء عمل میں لا رہے ہیں اور اس کیلئے انہوں نے افسانہ لکھنے کی فرمائش بھی کی۔ جس پر احمد ندیم قاسمی نے انہیں اپنے لئے مشکلات پیدا نہ کرنے کا مشورہ دیا۔ بلے صاحب نے ان سے افسانہ لکھوایا اور اہتمام سے سرکاری جریدے کی زینت بھی بنایا۔وہ ’’چلوتوسارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو‘‘ کے قائل تھے۔ سرکاری منصب بھی حکمرانوں کی ناپسندیدہ شخصیات سے انہیں دور نہیں رکھ پائے۔ وہ جن لوگوں میں انسان دوستی، وطن دوستی اور محبت ومروت دیکھتے، انہیں گلے لگا لیتے اور یہ نہیں سوچتے تھے کہ انہیں اسکی کیا قیمت چکانی پڑے گی۔ مجھے یاد ہے کہ ادبی تنظیم قافلے کا ایک پڑاؤ ہوا، جس میں آسمانِ ادب کے روشن ستارے جگمگائے۔ محفل برخواست ہونے کے بعد بھی کچھ احباب ابھی لوٹے نہیں تھے کہ مزاح نگار بریگیڈیئر صدیق سالک وہاں آگئے۔ گویا پھر نئی محفل سج گئی۔ جاتے جاتے صدیق سالک نے بڑے محتاط انداز میں بلے صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بادشاہ سلامت کو آپ کے تیور اچھے نہیں لگے۔ انہوں نے پوچھا ہوا کیا؟ کچھ بتائیں تو؟ انہوں نے کہا کہ آ پکے ایک شعر کے ساتھ آپ کا آٹوگراف قومی روزنامے میں شائع ہواہے۔آپ چڑھی ہوئی آنکھوں والوں کو نوشتہ دیوار کیوں دکھانے پر مصر ہیں، اور پھر بلے صاحب کو انکا شعر بھی سنایا ۔
دماغ عرش پہ ہیں اور چڑھی ہوئی آنکھیں
ابھی نوشتہ دیوار کون دیکھے گا
یہ سن کر ذرا توقف کے ساتھ بلے صاحب نے کہاکہ آ پ انہیں نیچے لانے کی بھی کوشش کریں، جن کے دماغ عرش پہ ہیں۔ نوشتہ دیوارمٹانے سے نہیں مٹا کرتا۔ یہ سن کر صدیق سالک مسکرائے اور چلتے چلتے اتنا ضرور کہاکہ مجھے معلوم ہے کہ آپ نہیں بدل سکتے۔ وہ چلے گئے تو ایک صاحب بولے ضیاء الحق تمام قوتوں کا مالک ہوکر بھی اتنا کمزور کیوں ہے۔کسی کا ایک شعر سن کر بھی اس کے تیور بگڑ جاتے ہیں۔
سیدفخرالدین بلے نے ریاستی جبر وحور کے خلاف بھی بڑے موثر انداز میں آواز اٹھائی۔ مگر کہا غزل کے پردے میں ۔
لوگ خاموش سہی ،کہتے ہیں چہرے سب کے
اس ضیا سے کہیں بہتر تھے اندھیرے شب کے
آمروں نے جمہوری آوازوں کو دبانے اور قلم کاروں کو عقوبت خانوں میں اذیتیں دے کر خاموش کرانے کی کوشش کی تو یہ سوال بھی اٹھایا
یہ سولیاں ، یہ شکنجے ، یہ خنجر و زہراب
پئے سزا ہیں کہ ہم کو ابھارنے کے لئے
ایوب خان، یحیٰی خان، ضیاء الحق اور پرویزمشرف کے ادوار کو تاریخ کا سیاہ باب قرار دیا اورجب انتخاب سے پہلے احتساب کا نعرہ بلند ہوا اور صرف ناپسندیدہ سیاسی جماعتوں اور شخصیات کے احتساب کا عمل شروع کردیاگیا تو انہوں نے پوچھ ہی لیا
شہر کے محتسب ہمیں بھی دکھا
ایسا دامن جو داغ دار نہیں
انکی شاعری مجھے ملک کا سیاسی منظر نامہ نظر آتی ہے۔ بڑے ایوانوں کے مکینوں کا ’اترنے کا خوف‘ پہرے داروں کی نقب زنی، سہمے سہمے عوام، اگلی صف میں بیٹھے لوگوں کی من کی سیاہی، جرم ضعیفی کی سزا اور قدم قدم پر قیامتوں کا ذکر۔ کیا بات ہے؟
جو لوگ چڑھنے اُترنے سے خوف کھاتے ہیں
انہی کے قصر میں خود کار سیڑھیاں دیکھیں
پوچھا لگا کے گھر میں نقب پہرے دار نے
کیا بات ہے کہ سارے مکیں ہیں ڈرے ڈرے
اگلی صف میں جو لوگ بیٹھے ہیں
تن کے اجلے ہیں، من کے کالے ہیں
خدا ہے قادر و عادل مگر خدا کی قسم
قدم قدم پہ قیامت ہے آدمی کے لئے
اس شہر کے باشندوں پہ جو وقت پڑا ہے
تسلیم کرو ، جرمِ ضعیفی کی سزا ہے
سید فخرالدین بلے کی شاعری میں ایسے بہت سے اشعار نظر آتے ہیں ،جنکی بنیاد پر پوری قومی تاریخ مرتب کی جاسکتی ہے۔ اور یہ تاریخ ریاستی جبر، معاشرتی جور، معاشی ناانصافیوں ،فوجی ٹولوں کی ہوس اقتدار، سیاسی رسہ کشی، جمہوریت کی آڑ میں آمریت اور آمرانہ قوتوں کے جمہوری ڈراموں سے عبارت ہے، اس لئے انکی جھلکیاں آپ کو بلے صاحب کے کلام میں جابجا نظر آتی ہیں۔
اب خدا ہی حافظ ہے اپنی پاک دھرتی کا
مسندوں پہ آ بیٹھے سرحدوں کے رکھوالے
وقت کا تقاضا ہے احتجاج ، حق گوئی
جانے سب کے ہونٹوں پر پڑ گئے ہیں کیوں تالے؟
فخرالدین بلے کی اپنی سوچیں ہیں ۔وہ پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کے مداح تھے لیکن یہ بھی سمجھتے تھے کہ مسلم لیگ کو کسی اور نے نہیں موسم لیگیوں نے نقصان پہنچایا۔پاک فوج کے جن سپاہیوں نے جانوں کے نذرانے پیش کئے، ان کا دل سے احترام کرتے تھے، جن فوجی سپاہیوں نے سینے پر زخموں کے تمغے سجائے، ان کیلئے بھی بلے صاحب کا قلم گوہرفشاں نظر آیا لیکن چور دروازوں سے اقتدار میں آنے والے فوجی ٹولوں کے خلاف قلمی محاذ کھولنے میں کبھی تذبذب کا شکار نہیں ہوئے۔ایسے فوجی حکمران لوگوں کو یہ یقین دلاتے رہے کہ ہم نے اندھیرے دور کر دئیے ہیں لیکن بلے صاحب یہی سوال کرتے نظر آئے
کوئی بتاؤ خدارا یہ دن ہے یا شب ہے
نہ آفتاب ہی نکلا نہ ماہتاب اٹھا
ہے خوں چکیدہ سحر اور شام خوں آشام
الٰہی ! اب تو مرے شہر سے عذاب اٹھا
کوتاہی ہوگی اگر بلے صاحب کی مزاحمتی شاعری کا ذکر ہولیکن انکی ایک نظم ڈسپلن کا ذکر نہ کیا جائے۔ علامہ سید غلام شبیر بخاری نے اپنی یادداشتوں میں ایک واقعہ اسی حوالے سے تحریر کیاہے۔ لکھتے ہیں۔
اسلام آباد میں جوش ملیح آبادی کے گھر دوست احباب جمع تھے۔ میں اورسید فخر الدین بلے بھی وہاں پہنچے ۔ جوش صاحب بولے کئی روزسے خمار نہیں اترا۔ بلے صاحب کی نظم کے سحر سے میں باہر نہیں نکل پایا۔ جس پر فیض احمدفیض نے کہاکہ یہ چھپے رستم ہیں۔ اپنی شاعری کو باہر کی ہوا نہیں لگنے دیتے۔ان کے اندر ایک بڑاشاعر اور دانش ور چُھپا بیٹھا ہے۔ طفیل ہوشیار پوری بولے یہ چَھپنے کے بجائے چُھپنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔ اسی محفل میں احباب کی فرمائش پر بلے صاحب نے اپنی نظم ڈسپلن سنائی۔ واقعی کیا خوب نظم ہے۔ آپ بھی سنئے۔
بینک کی یونین کے عہدے دار
بینک کے مینیجر سے بدظن تھے
روزلڑتے جھگڑتے رہتے تھے
ایک دن بینک میں بہت زیادہ
ہاتھا پائی ہوئی ،فساد ہوا
بات حد سے بڑھی تو بالآخر
مینیجر اور یونین والے
ایک ٹیبل پہ آکے بیٹھ گئے
پہلے ہوتے رہے گلے شکوے
پھر مسائل پہ بات چیت ہوئی
اور،گھنٹوں کی گفتگو کے بعد
ہوگیاان میں ایک سمجھوتہ
دیکھ کر یہ عجیب تبدیلی
بینک کا ایک مستند گن مین
یونین سے جو تھا بہت بیزار
اور،سبھی افسروں سے نالاں تھا
بینک کی آبرو کے پیش نظر
ہوگیا سارے بینک پر قابض
للہ الحمد ایک مدت سے
گاہکوں کو سکون حاصل ہے
داد دیتے ہیں اب تو افسر بھی
اپنے گن مین کی فراست کی
جس کے ایثار اور حکمت سے
کوئی ہنگامہ اب نہیں ہوتا
اور،فضا پر سکوت طاری ہے
بینک کاکاروبار چلتاہے
ارتقاٗ کاسفر بھی جاری ہے
ارتقاٗ کاسفر نہ رک جائے
اس لئے بینک کانیاگن مین
یہ سمجھتاہے میری باری ہے
سرکاری ملازم ہوکر آمرانہ دور میں ایسی نظم لکھنا جرات وجوانمردی کا کام ہے۔ بلے صاحب کی اس نظم کو مزاحمتی ادب کے حوالے سے شاہکار قراردیا جائے تو بے جا نہ ہوگا ۔
سیدفخرالدین بلے کے کلام کو پڑھ کرحب الوطنی سے سر شار فنکار ہمارے سامنے آتا ہے
یہ میری دھرتی تو میری ماں ہے
اسی سے اٹھا خمیر میرا
اسی سے جاگا ضمیر میرا
اسی کا ،ہر ایک ذرہ ذرہ
بنا رہا دستگیر میرا
چھ ستمبر کی پاک بھارت نظم میں بھی وطن عزیز کیلئے تن ، من دھن قربان کردینے کا جذبہ ٹھاٹھیں مارتا ہوا نظر آتا ہے۔ مسجد اقصیٰ کی آتشزدگی کے سانحے پر انہوں نے آنسو ہی نہیں بہائے بلکہ اسلام دشمن قوتوں کو بڑی جرات مندی کے ساتھ للکارا ہے۔ فلسطین،افغانستان، عراق، چیچنیا،بوسنیا اور کشمیر سمیت جہاں جہاں انسانی حقوق کوپامال کیاگیا ،ان سب مظلوموں کی چیخیں ،آہیں اور سسکیا ں بھی ہمیں بلے صاحب کی شاعری میں سنائی دیتی ہیں۔ظلم کسی بھی سطح پر ہوا، ان کے اندر کا شاعر جاگ اٹھا اور مظلوم قوتوں کی آواز بن گیا۔ان کی سوچوں کا خمیر یقیناً اسی سوہنی دھرتی کی مٹی سے اٹھا۔ وہ خود کو وطن عزیز اور مادرِ گیتی کا مقروض سمجھتے تھے ’’مٹی کا قرض‘‘ اس کی گواہی کیلئے کافی ہے۔
اِس دھرتی کی ہر شے پر ہے اس مٹی کا قرض
میرے لئے ہے فرض سے پہلے اس مٹی کا قرض
اِک مدت سے دیکھ رہی ہیں، میری بھیگی آنکھیں
بڑھ جاتا ہے جب مینہ برسے اس مٹی کا قرض
کیوں نہ دھرتی سیوا کرکے خون پسینہ بوئیں
ممکن ہے کچھ کم ہو جائے اس مٹی کا قرض
قوم کو گروی رکھنے والو ، خوب چکایا ہے
مٹی کا کشکول بنا کے اس مٹی کا قرض
اس نظم میں فخر الدین بلے کی نبض چلتی ہوئی نظر آتی ہے اور انکے دل کی دھڑکنیں سنی جا سکتی ہیں۔ انسان دوستی، وطن سے محبت، جراتِ اظہار، اصول پسندی اور سچائی و بے باکی کی انہیں مختلف مراحل پر بڑی بھاری قیمت چکانی پڑی لیکن وہ اپنی وضع بدلنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ انہیں اندازہ تھا کہ حکومتی کارناموں کو اجاگر کرنا اور اسکی کمزوریوں پر پردہ ڈالے رکھنا ان کے سرکاری فرائض میں شامل ہے، لیکن اس کے باوجود انہیں سچائی کی قدر و قیمت کا بخوبی اندازہ تھا۔ جس کا اعتراف بھی انہوں نے کیا
میں بھی سرکار کا قوال رہا ہوں برسوں
مجھ سے پوچھے کوئی حق گوئی کی قیمت کیا ہے
آمرانہ دور میں انہیں جبری ریٹائرمنٹ دے کر رخصت کردیاگیالیکن ان کے اعصاب ٹوٹے نہ وہ ہمت ہارے۔ اس لئے کہ وہ بڑ ے مضبوط اعصاب کے مالک تھے۔ پھر انہیں ترقی دے کر محکمے میں واپس بلالیا گیا۔وہ ہر حال میں راضی بہ رضا رہے۔ کچھ چھن جانے کا ملال کیا نہ بہت کچھ مل جانے پر بہت خوشی کا اظہار کیا، البتہ کلمہ شکر ہرحال میں انکی زبان پر رہا۔یہ ان کے محکموں کے افسران کاکہناہے ۔شیخ خفیظ الرحمان کا شمار تعلقات عامہ کے ماہرین میں ہوتا ہے، وہ صوبائی محکمہ اطلاعات پنجاب کے سیکرٹری بھی رہے۔ بلے صاحب کی جبری ریٹائرمنٹ پر انہوں نے کہا تھا کہ آج یہ محکمہ ایک انتہائی باصلاحیت اور دیانتدار افسر سے محروم ہوگیا ہے اور جب بلے صاحب کو ترقی دے کر واپس
لے لیا گیاتو انہوں نے صرف اتنا کہاکہ مجھے لگتا ہے کہ فخرالدین بلے کے ساتھ اس ڈیپارٹمنٹ کا وقار بحال ہوگیا ہے۔
میں نے سرگودھا،لاہور، راولپنڈی اور ملتان میں سید فخرالدین بلے کو ہمیشہ سرگرم پایا۔ وہ نرم دمِ گفتگو، گرم دمِ جستجو کی جیتی جاگتی تصویر تھے۔ حکمرانوں سے بھی ان کے قریبی مراسم رہے۔ قریبی مراسم کی وضاحت کروں کہ میں نے ان کے گھر گورنر، وزیراعلی سمیت اعلیٰ شخصیات کو خوش گپیوں میں مصروف پایا لیکن ان تمام تعلقات کے باوجود وہ انکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے تھے۔ ایک ایسی ہی محفل میں بڑی شخصیات کے چلے جانے پر ایک شریکِ محفل نے پوچھا کہ آپ میں یہ بلا کی خوداعتمادی کہاں سے آئی تو بلے صاحب نے صرف اتنا کہاکہ میں نے کبھی ان شخصیات سے کوئی ذاتی کام نہیں لیا۔ کسی پیشکش کو قبول نہیں کیا اور پھر مسکراتے ہوئے یہ شعر انکی زبان پرآگیا
سر اٹھا کر زمیں پہ چلتا ہوں
سر چھپانے کو گھر نہیں نہ سہی
بلے صاحب کا دل، دسترخوان اورحلقہ احباب بڑا وسیع تھا۔وہ دفترمیں ہوتے یا گھر پر مجمع لگارہتا تھا،قلم کاروں کی وہ دل سے عزت کرتے تھے۔ ان پر لکھے گئے تحقیقی مضامین اور اہل علم و ادب سے جو تذکرے میں نے سنے ہیں ،وہ بتاتے ہیں کہ بابائے اردو مولوی عبدالحق، فراق گورکھپوری، فیض احمدفیض، اینی میری شمل،پروفیسر نجم الحسن کراروی،خواجہ نصیرالدین نصیرگولڑوی،قتیل شفائی،کلیم عثمانی،پروفیسرغلام جیلانی اصغر،قدرت اللہ شہاب، نقوش کے مدیرمحمد طفیل، ڈاکٹر سید عبداللہ، مخدوم طالب المولیٰ ،مخدوم سجاد حسین قریشی،حسرت موہانی،احسان دانش،تابش دہلوی،شہاب دہلوی،ظہورنظر،جاوید قریشی،باقر حسین رضوی،سیدشبیہ الحسن رضوی،شہزاد احمد، قدرت اللہ شہاب،منشا یاد،حفیظ تائب، مختارمسعود، جمیل الدین عالی، رشید قیصرانی،رئیس امروہوی، جون ایلیا،شورش کاشمیری،صہبااختر،حبیب جالب، جوش ملیح
آبادی،وقار انبالوی ، ڈاکٹر وزیر آغا، اشفاق احمد، منیرنیازی، مظفر وارثی، حفیظ تائب، ڈاکٹر عاصی کرنالی، ڈاکٹر خورشید رضوی، جابر علی سید، ڈاکٹر اسلم انصاری، اصغر ندیم سید،ڈاکٹر خواجہ زکریا،بشیر بدر،ڈاکٹر مقصود زاہدی اور مرتضی ٰ برلاس سمیت اہل علم وادب کی ایک لمبی فہرست ہے، جو انکی قدر دان رہی ۔ بہت سے مضامین میں مجھے فخرالدین بلے کے حوالے سے ان اصحاب کی آرا پڑھنے کو ملیں۔ان میں سے کچھ شخصیات کے مضامین بھی پڑھے،جن میں بلے صاحب کے کلام اور کام
کی ان شخصیات نے دل کھول کرداد دی ہے۔ داتاکی نگری ، سرگودھا، راولپنڈی سمیت کئی شہروں میں مجھے ان محافل میں شرکت کا اعزازبھی حاصل رہا۔ جن میں بلے صاحب کو ان میں سے بہت سی شخصیات کا احترام کرتے اور ان شخصیات کو بلے صاحب کا احترام کرتے پایا۔ قافلے کے پڑاؤکاآنکھوں دیکھا حال بھی میں اخبارات ورسائل میں لکھتا رہا ہوں۔مجھے اعتراف ہے کہ میں علامہ سید احمد سعید کاظمی ،انتظار حسین،افتخارعارف،اصغر ندیم سید ،ڈاکٹروزیر آغا ،جمیل الدین عالی ،قیصر نجفی، طارق محمود،علامہ نصیرالدین الاجتہادی،جلیل عالی ،مسعود اشعر،محمد علی صدیقی،مشکور حسین یاد،ڈاکٹر زاہد علی واسطی،حسین سحر،افتخار اجمل شاہین،انیس زیدی،جاذب قریشی،ظفرعلی راجا،ڈاکٹر اجمل نیازی،پروفیسر منظرایوبی،ڈاکٹر عاصی کرنالی،ڈاکٹر حمیدرضا صدیقی،عباس خاں ،ڈاکٹر عنوان چشتی، ڈاکٹر فوق کریمی علیگ،ڈاکٹراسلم انصاری ،منصورعاقل ،طفیل ہوشیار پوری،ڈاکٹر محمد امین ،انور معین زبیری، منصورجاوید،شبنم رومانی،احمد رئیس چشتی،پروفیسرمنور علی خاں اور ڈاکٹر انورسدیدسمیت دیگر اہلِ علم و ادب کی تحریریں نہ پڑھتا تو سید فخرالدین بلے کی شخصیت،فن اور خدمات کے بہت سے رخ میری نظروں سے اوجھل رہتے۔ان علمی،ادبی اور ثقافتی محفلوں میں شرکت کااعزاز مجھے حاصل نہ ہوتا،جہاں بلے صاحب کو محبت ،ادب اور تحسین و احترام بھری نظروں سے دیکھاجاتا تھا۔پاکستان اور بھارت کے آسمانِ ادب کے روشن ستاروں کی کہکشاں سے سجے قافلے کے پڑاؤ میری نظرمیں نہ ہوتے یا علامہ سید غلام شبیر بخاری کی یادداشتوں کے اقتباسات پڑھنے ،سمجھنے اور انکی زبانی سننے کے مواقع نہ ملے ہوتے تو میں بہت سی معلومات سے
محروم رہتا۔ انہوں نے بہت سی یادگار محفلوں کے حوالے سے اپنی یادداشتوں کو قلم بند کیا ہے ،جو ہماری تاریخِ ادبِ اردو کا قیمتی اثاثہ ہے۔
فخرالدین بلے اب ہم میں نہیں لیکن ان کی شاعری زندہ ہے۔ انہوں نے محبت کی جو شمعیں روشن کیں ، ان کا اجالا موجود ہے ۔ان کی فکر آج بھی معانی کی لو دیتی محسوس ہوتی ہے۔ان کی خدمات کا دوست احباب نے دل کھول کر اعتراف کیا ہے۔ پریشان خٹک نے انہیں ادب کی دیوقامت شخصیت کا نام دیا اور کہاکہ انہوں نے ادب اور فنون کی دنیا میں جو کام کئے، وہ بہت سے اداروں کی مجموعی کارکردگی پر بھاری ہیں
تلاشِ رزق ہو یا جستجوئے معرفت بلے
ہماری زندگی شعر و ادب یوں بھی ہے اور یوں بھی
ادب ان کی زندگی کا چلن اور اوڑھنا بچھونا رہا ۔انسان کے اردگرد ہی ان کی شاعری گھومتی نظر آتی ہے۔ کبھی یہ عارفانہ دکھائی دیتی ہے۔ کبھی متصوفانہ اورکبھی عاشقانہ۔ کبھی جبر کرنے والے ان کے تیشہ فکر کا نشانہ بنتے ہیں۔ کبھی مظلوم کی فریاد کو وہ الفاظ بخش دیتے ہیں۔ کبھی ملک کے رکھوالوں کی چھیناجھپٹی انکا موضوع بن جاتی ہے اورکبھی راہبروں کی راہزنی کو وہ ہدفِ سخن بنالیتے ہیں۔ مجھے تو انکی خاموشی بھی جبر کے خلاف احتجاج کرتی نظر آتی ہے ۔جس کا انہوں نے چار مصرعوں میں برملا اظہار کیا ہے
اپنے احساس کو معکوس نہ ہونے دوں گا
فکر کو شعر میں ملبوس نہ ہونے دوں گا
مجھ پہ جو کچھ بھی گزرتی ہے، مری جانِ وفا
انتقاماً تجھے محسوس نہ ہونے دوں گا
------------------------------
ZAFAR MOEEN BALLEY0333-2858339 & 0320-2858339zafarmoeensyed@gmail.com1_Teacher ,Writer, Poet Journalist and The Host of of more than 200 Literary sittings under the banner of "Qafla_Para'o" arranged and organized under the supervision and the guidance of his father, Syed Fakhruddin Balley.2_Hi articles, research papers, literary views and poetry [ghazal & nazm] are being published in local and international newspapers and magazines for the last 25 years. Also an autobiography is underway based on the companionship of legends of the literature world.3_JOURNALISM EXPERIENCE:[More Than 25_Years]• Magazine Editor of national daily newspaper Aftab, Multan & Lahore, 1986-2001• Editor of oldest literary magazine in the sub-continent, Adab-e-Latif, Lahore, 1988-1996• Editor of weekly political and literary magazine Aawaz-e-Jaras, Lahore, 1989-1996• Editor of fortnightly political and literary magazine Inkeshaf, Lahore, 1989-19924_TEACHING & TRAINING EXPERIENCE: [More Than 20 Years][Known as the Best O'_&_A'_Level/Senior Cambridge_Urdu Teacher , In Pakistan, He showed the best results of Cambridge during the last 20 years]• St. Patrick’s School 2015-PresentTeaching Urdu literature & language to A Levels students• Private Tutoring 2000-PresentExtensive teaching experience with respect to university and O/A level students in the areas ofUrdu, Islamist and Pakistan Studies.• Department of Urdu, University of Karachi, Karachi 2015, 2016 and 2017.Conducted a week-long workshop for A Levels Urdu teachers under the Urdu department head.• Assistant Professor at Greenwich University, Karachi, 2012-2016Taught Functional Urdu at the Department of Media Sciences.• Vice Principal at The Oasys School O’ & A’ Levels, Karachi, 2012–2014Oversaw 90 students and 20 faculty members in this position.• Coordinator at The Oasys School O’ & A’ Levels, Karachi, 2007–2011Oversaw 100 students and 20 faculty members in this position.• Senior Teacher at The Oasys School O’ & A’ Levels, Karachi, 2003–2014Taught Urdu to O & A Level classes.• Senior Teacher at CAMS The Avicenna School, Karachi, 2003–2004Taught Urdu to O & A Level classes.• Visiting Faculty at The Socrates School, Karachi, 2003-2004Taught Urdu to A Level classes.• Lecturer at Urdu Department of Shah Abdul Latif Bhitai University, Khairpur, 1995–1996Taught M.A. students Urdu language & literature.• Researcher at Sachal Chair Shah Abdul Latif Bhitai University, Khairpur, 1995–1996Area of research included the poetry of Sachal Sarmast.• Visiting Teacher at Emerson School O & A levels 1992-1998Taught Urdu to O & A Level classes.