سید محمد اشرف کی باد بہاری
سید محمد اشرف کی باد بہاری
Aug 7, 2018
دیدبان شمارہ۔۸
سید محمد اشرف کی باد بہاری
امتیاز رومی
اکیسویں صدی کے افق پر طلوع ہونے والا آفتاب دوسری دہائی میں داخل ہوچکا ہے۔ اس دہائی کی کربناکی اور تصادم، ایاّم گزشتہ سے بیشتر ہے۔اس عہد میں انسان بیک وقت دو محاذ پر نبرد آزما ہے۔ اوّل عالمی سطح پر رونما ہونے والے واقعات اور دوم مادی منفعت کی ریس میں گم ہوتے داخلی احساسات۔ قدیم زمانے میں میدان جنگ میں بھی اصول اور ایمانداری کا پاس و لحاظ رکھا جاتا تھا تاہم اب عبادت گاہوں میں بھی تخریبی پروگرام ترتیب دیا جاتا ہے۔صنعت و حرفت کی برق رفتاری کے سامنے انسانیت بے بس ہے۔ حرص و ہوس نے عالمی سطح پر بے شمار مسائل کو جنم دیا ہے۔فیس بک اور انٹر نیٹ کے ذریعے فاصلے ضرور مٹ گئے تاہم قلوب واذہان میں دوریاں اور بڑھ گئیں۔ سائنس اور ٹکنا لوجی کا ارتقا انسانیت کو انفرادیت کی طرف تیزی سے لے جارہا ہے جہاں وہ کائنات کے آہنگ میں شامل ہونے کے بجائے اپنے اندر جہان نو آباد کیے ہوا ہے۔یہ ہے اکیسویں صدی، جو متضاد کیفیتوں سے دوچار ہے۔ ایک طرف ترقی کی معراج ہے تو دوسری طرف تنزلی کی انتہا۔تحفظ انسانیت کا ڈھنڈورا پیٹنے والے سیکڑوں آبادیاں خرابے تبدیل کر چکے ہیں اور اس کے ملبے پر سوار ہوکر امن و آشتی کا پیغام دے رہے ہیں۔ بظاہر انسان دکھنے والا لکڑ بگھا صفت اپنی عیاری پر مسکرا رہا ہے۔
اس پس منظر میں سید محمد اشرف کی افسانہ نگاری کا جائزہ لیں تو ان کے بیس /تیس برس پہلے لکھے ہوئے افسانے بھی آج کے معلوم ہوتے ہیں۔ ان افسانوں میں اکیسویں صدی اپنی مکمل صفات کے ساتھ موجود ہے۔چوں کہ صدی کی تبدیلی سے مسائل یکلخت اور یکسر تبدیل نہیں ہوجاتے یہی وجہ ہے کہ سید محمد اشرف کی کہانیوں میں بیان شدہ مسائل ومعاملات اس صدی سے مربوط اور ہم آہنگ معلوم ہوتے ہیں۔ بلکہ مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ ان میں کلاسیکی رنگ اور بھی گہرا ہوتا نظر آرہا ہے۔ ان کے دو افسانوی مجموعے ’’ڈار سے بچھڑے‘‘ (1994) اور ’’باد صبا کا انتظار‘‘ (2000) منظر عام پر آکر اردو کے افسانوی سرمائے میں بیش بہا اضافہ کر چکے ہیں۔اکیسویں صدی میں ان کا کوئی افسانوی مجموعہ شائع نہیں ہوا۔ ’رنگ‘ اور ’منشی خاں‘ کے نام سے محض دو افسانے اب تک انھوں نے لکھے ہیں البتہ اس صدی کے بیشتر مسائل و معاملات ان کے یہاں پہلے ہی سے موجود ہیں۔
سید محمد اشرف نے کبھی ’بڑے پل کی گھنٹیاں ‘بجائی،کبھی ’ڈار سے بچھڑے ‘لوگوں پر وہ ماتم کناں ہوئے اور ڈار سے ملنے کی حسرت کو ورق ورق پر بکھیر دیا۔ تو کبھی ’لکڑبگھا کو ہنسایا‘،رلایا اور پھر چپ کرایا۔ لکڑ بگھے کی ان تینوں کیفیات میں انسان کی مکاری، عیاری اور خود غرضی کو علامتی و تمثیلی طور پر استعارہ بنا کر پیش کیا۔ اس کی آڑ میں انسان کے اندر پوشیدہ لکڑ بگھاکو آشکار کیا۔کبھی’ جنرل نالج سے باہر کا سوال‘کرکے غربت و تنگ دستی کا قصہ سنایا ، تو کبھی ’اندھا اونٹ‘ کو وقت کا استعارہ بنایا۔شری رام جی کی مریادہ بابری مسجد کو تاراج کرکے ’آخری بن باس‘ پر بھیج دیا۔ ’تلاش رنگ رائیگاں‘ سے محبت کے قوس قزح ابھرے اور اردو کی صحت و توانائی کے لیے ’باد صبا کا انتظار‘ شدت سے کیا۔
بیسویں صدی کی آخری دہائی میں لکھا گیا افسانہ ’’آدمی‘‘آج اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں حقیقت بن چکا ہے۔ دہشت کے سائے میں ایک آدمی دوسرے آدمی سے کتنا خائف ہے۔ زہر آلود ماحول نے انسانی نفسیات کو ہراس کردیاہے جس کے نتیجے میں ہر کوئی جان کا دشمن نظر آتا ہے۔انسانی بھیڑ کب بھیڑیا بن جائے کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ افسانہ کی زبان میں ’’ کھڑکی بند رکھوں تو گھٹن ہوتی ہے، کھول دوں تو دل اور زیادہ گھبراتا ہے لگتا ہے جیسے سب ادھر ہی آرہے ہوں‘‘۔
’’تمھیں آج چلنا ہی ہوگا سرفراز۔ بھابھی کو فون کرکے تیار ہونے کو کہہ دو۔‘‘
’’کیا تم نے اخبار نہیں پڑھا انوار؟ پرسوں ریل گاڑی سے اتار کر۔۔۔۔۔۔‘‘وہ چپ ہوگیا۔
انوار بھی خاموش ہوگیا۔پھر بولا۔
’’اچھا تو بھابھی اور بچوں کو یہیں رہنے دو۔‘‘ (1)
مذکورہ اقتباس میں موجودہ ہندوستانی منظرنامہ Mob Law اور Mob Lynch کتنا واضح نظر آرہا ہے۔سہمی سہمی فضاسے ایسا لگتا ہے یہ افسانہ آج کل ہی لکھا گیا ہے۔
’’لکڑ بگھا ہنسا ، لکڑ بگھا رویا اور لکڑ بگھا چپ ہوگیا‘‘در اصل انسانی سماج میں گھن کی طرح سمائے ہوئے لکڑ بگھے کی داستان ہے ۔ آج ہر انسان کے اندر ایک مکار، عیار اور خود غرض لکڑ بگھا چھپا ہے۔ وفاداری کے پردے میں غداری۔جب دیکھو تو وہ سب سے بڑا مخلص اور جوں ہی نظر ہٹی خون پینے پر آمادہ۔ ان افسانوں میں لکڑبگھے کا ہنسنا، رونا اور چپ ہوجانا بطور استعارہ انسانی فطرت کی نقاب کشائی کرتاہے۔انسانوں سے نفرت اور دغاکرنے والا بھی انسانوں جیسا ہی دکھتا ہے۔آج اکیسویں صدی میں ان افسانوں میں حقیقت کا رنگ اور بھی گہرا ہوتا نظر آرہا ہے۔
سید محمد اشرف کی افسانوی کائنات میں انسان کا مکروہ چہرہ بہت واضح نظر آتا ہے۔ انھوں نے انسان کے درون میں موجود حیوانی صفات بیان کرنے کے لیے جانورں کا سہارا لیا۔ یوروپین فکشن نگاروں میں روڈیارڈ کپلنگ (Rudyard Kipling) اور جوزف کونرڈ (Joseph Conrad)نے جنگلات حیوانات کو فکشنلائزڈ (Fictionalized) کیا۔اردو میں سید رفیق حسین کا نام اس حوالے سے بہت اہم ہے جنھوں نے اردو افسانے میں حیوانی کردار کو خوب پیش کیا۔ اسی طرح سید محمد اشرف کے افسانوں میں لکڑ بگھا، نیلا، کالو اور پاگل ہاتھی وغیرہ بنیادی کردار بن کر ظہور پذیر ہوتے ہیں تاہم یہ درحقیقت جنگلی جانور نہیں بلکہ ان کو علامت بنا کر انھوں نے انسان کی ذہنی و معاشرتی حیوانیت کو بے نقاب کیا ہے۔لکڑ بگھا سریز کی کہانیاں اور ’چکر ‘اس کی بہترین مثالیں ہیں۔
سید محمد اشرف کی فکری نشو ونما میں گاؤں اور قصبے کا بہت عمل دخل ہے ؛جہاں ان کا بچپن انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں اورکھیت کھلیانوں کے میں گزرا۔ مذہبی اور خانقاہی ماحول میں ان کی پرورش ہوئی اور ان سب کو اپنے اندر جذب بھی کیا۔ پھر تخیلات کی بھٹی میں تپا کرافسانوی کینوس پر بکھیر دیا۔یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانے اپنے ماحول کے پروردہ معلوم ہوتے ہیں۔ موضوعات کی تلاش اور کرداروں کی دریافت میں انھیں دور جانے کی قطعاضرورت نہیں پڑتی۔ آس پاس سے کسی کردار کا انتخاب کرکے اس کے پس منظر میں کہانی بیان کردیتے ہیں۔ چناں چہ اس حوالے سے وہ بیان کرتے ہیں:
’’بچپن اور لڑکپن قصبے میں گزرا۔دیہات اور جنگل بھی وہاں سے دور نہیں تھے۔ پرندوں، چرندوں اور درندوں کو قریب سے دیکھا۔ فطرت کے مظاہر، بارش، دھوپ، چھاؤں، بادل، کھیت، کھلیان، درخت اور پھول، تشبیہوں، تمثیلوں یا علامتوں کی طرح نظر نہیں آتے بلکہ اپنی اصلی صورت و فطرت میں میرے ساتھ جیتے ہیں۔ انھیں تشبیہ، تمثیل اور علامت بنانے میں مجھے محنت نہیں کرنی پڑتی۔ یہی وجہ ہے کہ میری کہانیوں میں جانور بے تکلفی سے داخل ہوجاتے ہیں اور پھر وہ میری کہانی کے ساتھی بن جاتے ہیں۔‘‘(2)
’باد صبا کا انتظار‘ میں کل نو کہانیاں ہیں جن کی بافت میں انسان کی بے بسی، لاچاری، نفسیاتی تناؤ، داخلی کشمکش اور بیزاری شامل ہیں۔شہری زندگی کی روٹین لائف، انسانی نفسیات پر کتنے گہرے اثرات مرتب کرتی ہے اس کی بہترین مثال ’’ساتھی‘‘میں موجود ہے۔اس کہانی کے ہیرو انور کے پاس دنیاوی آسائش کی ساری چیزیں موجود ہونے کے باوجود اس کی ایک معمولی سی خواہش پوری نہیں ہوپاتی ۔شہر میں بنگلہ نما بڑا سا گھر ،گاڑی اور پیسہ کسی چیز کی کمی نہیں۔بس کمی ہے تو ایک ایسے ساتھی کی جس کے ساتھ کچھ تفریحی لمحات گزار سکے۔ حد تو یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں سے بھی باتیں نہیں کرپاتا۔شام کو آفس سے واپس سے آکر بچوں کے ساتھ کچھ پل بتانا چاہتاہے اور اپنی پسند کی کتابیں پڑھنا چاہتا ہے مگر اس کی بیگم اپنا روٹین شروع کردیتی ہے۔ انور شدید نفسیاتی تناؤ میں مبتلا ہوچکا ہے ۔ اس کو گہری نیند سوئے ہوئے زمانے بیت گئے۔تھوڑی سی آہٹ پر اس کی آنکھ کھل گئی۔ سگریٹ لے کر کمرے سے باہر سیڑھی پر بیٹھ گیا۔ پیچھے سے کسی انسان کا سایہ نمودار ہوا۔ پھر پاس آکر وہ ساتھ بیٹھ گیا اور دونوں اس طرح باتیں کرنے لگے جیسے کوئی برسوں پرانا دوست ہو۔حالاں کہ وہ شخص انور کے گھر میں چوری کرنے آیا تھا اور اس کے پاس ہتھیار بھی تھا مگر انور کی جذباتی گفتگو کا وہ اسیر ہوگیا۔انور آج خوف کے سایے میں بھی بہت پرسکون تھا۔اپنے ہی گھر میں آئے ہوئے ایک اجنبی چور سے دل کی باتیں شیئر کر رہا تھا۔اس مقام پر دونوں کے جذبات ومحسوسات ایک ہوجاتے ہیں۔ ان کے مابین کبھی برادرانہ محبت تو کبھی پدرانہ شفقت نظر آتی ہے۔ آج برسوں بعد انور کو دل کی باتیں سننے والا ایک ساتھی ملا اور سارا تناؤ جب نکل گیا تو اسے نیند آنے لگی اور اسی اجنبی چور کے زانو پر سر رکھ کرگہری نیند سو گیا۔
راست بیانیہ میں یہ ایک عام سی کہانی ہے جس کا وقوع نفس الامر میں شاید ممکن نہ ہو،تاہم افسانہ نگار نے انور کی صورت میں گہرا نفسیاتی تجربہ پیش کیا ہے۔ گردش ایّام کے ساتھ ساتھ اس کہانی کی معنویت میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ یہی وہ خصوصیت ہے جو کسی تخلیق کو فن پارہ بنادیتی ہے۔ ساتھی میں شہری زندگی کی بے کلی اور بے اطمینانی پر تاسف کا اظہار اوراس کے نتیجے میں جنم لینے والی نفسیاتی کیفیات کا بیان ہے۔ نیز میاں بیوی کی انڈر اسٹینڈنگ پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ در اصل انور کی بیوی نے اسے ایک پل بھی اس کی مرضی کے مطابق جینے نہیں دیا:
’’وہ پچھلے کئی برس سے اس تلاش میں تھا کہ اپنے گھر میں سکون کے ساتھ اپنی مرضی سے چند گھنٹے اپنے طور پر گزارے۔ کتنی معمولی خواہش تھی جو پوری ہی نہیں ہوتی تھی۔ آفس کی پابندی بھگت کر جب انور گھر میں داخل ہوتا تو پابندیوں کی ایک نئی ترتیب اس کا انتظار کر رہی ہوتی تھی۔ اس کی بیوی کا یہ خیال غالبا بہت واجب تھا کہ زندگی میں نظم و ضبط اور پابندیاں بہت ضروری ہوتی ہیں۔‘‘(3)
اسی طرح ’’دعا‘‘ نفسیاتی رد عمل کی کہانی ہے جس میں ایک نوکرسلیم اپنی انا کی تسکین کے لیے مالک کے ہر حکم کے خلاف اپنا خاموش احتجاج درج کرتا ہے۔ وہ اس طرح کہ جب بھی میم صاحب اسے کوئی حکم دیتی ہے وہ دبی زبان میں اس کی تکرار کرتا ہے۔مثلا میم صاحب کہتی ہے ’’کپڑے اٹھاؤ، فروٹ کاٹ کر رکھ دو اور درہم برہم‘‘ تو یہ بھی ان جملوں کو دبے لفظوں میں دہراتا ہے۔ در اصل صاحب اور میم صاحب کا حکم نامہ سلیم پر سایے کی طرح مسلط رہتا ہے جو اسے کبھی سکون کی سانس نہیں لینے دیتا۔اس کی نفسیات غلامی کی یہ زندگی قبول کرنے کے لیے بالکل بھی آمادہ نہیں مگر وہ اپنے گھریلو حالات کی وجہ سے مجبور ہے۔ سلیم کے دادا نے اسے طوفان، بارش اور بجلی سے محفوظ رہنے کے لیے بہت سے اوراد و وظائف اور دعائیں یاد کرائی تھی۔چوں کہ بہت دنوں سے آندھی طوفان اور بارش سے گھر کے سارے افراد پریشان ہوچکے تھے چناں چہ میم صاحب اسے طوفان ٹلنے کی دعائیں کرنے کو کہتی ہے ۔سلیم مصلّے پر بہت پرسکون ہوکر آیات و وظائف کا ورد کرتا ہے تاہم جب دعاکا وقت آتا ہے تو اس کی زبان خاموش ہوجاتی ہے۔اس کا دل یہ گوراہ نہیں کرتا کہ طوفان ٹل جائے ۔ دل ہی دل میں ’’درہم برہم درہم برہم‘‘ کی تکرار کرتا رہتا ہے۔ دعا کے ساتھ ہی باہر کا طوفان بھی بڑھنے لگتا ہے۔ آج سلیم بہت خوش ہے کیوں کہ اس نے خدا کی بارگاہ میں اپنا احتجاج درج کروا دیا ہے۔
اس کہانی میں آقا کے جبر کے خلاف نفسیاتی ردّ عمل کا اظہار شدت سے ہوا ہے اور اس سے گلو خلاصی کی آخری ترکیب اس کی سائیکی کی انتہا ہے۔آج کی شہری زندگی میں سلیم جیسے بے شمار کردار موجود ہیں جو مجبورا اپنی انا سے سمجھوتہ کرکے مالکانہ جبر کے خلاف نفسیاتی ردّ عمل ظاہر کرتے رہتے ہیں۔ سید محمد اشرف نے ان افسانوں میں انور اور سلیم
جوزف اسٹالن(JosephStalin) کے بقول ’ریاستوں کے حکمراں اور سرمایہ دار ،عوام کا سب کچھ لوٹ کر انھیں اپاہج کردیتے ہیں اور پھر معمولی خوراک دے کر ان کا مسیحا بن جاتے ہیں‘۔ بیانیہ کی دوہری ساخت میں تخلیق کیا گیا سید محمد اشرف کا افسانہ ’’طوفان‘‘اس کی مکمل تصویر کشی کرتا ہے۔ اس افسانے میں ایک طرف طوفان نے ایک آباد شہر کو خرابے میں تبدیل کردیا تو دوسری طرف سیاسی ، سماجی، فلاحی اور صحافی لوگوں نے اپنی دکان چمکانا شروع کردی۔دوسرے شہر کے امیر کبیر افراد نے پرانے کپڑے، جوتے اوردیگر اشیا ریلیف فنڈ میں دے کر اپنے گناہ دھل لیے۔ حکومت نے بھی بطور امداد کھانے، پینے اور پہننے اوڑھنے کی چیزیں وہاں بھیجی تاہم ان میں سے ایک بھی حق دار کے پاس نہ پہنچ سکی۔ غیر سرکاری تنظیمیں یتیم و نادار بچوں کی تھوڑی بہت دیکھ بھال کرکے ریلیف فنڈ حاصل کرنے کی تگ ودو میں مصروف ہوگئیں۔ چند بچوں کا دل بہلانے اور ماں باپ کی کمی دور کرنے کے لیے آرادھنا کو ذمے داری دی گئی ۔ آرادھنا نے بڑی محنت و مشقت سے ان بچوں کے چہرے پر مسکان واپس لائی تھی۔ ریلیف فنڈ کے لیے جب گروپ فوٹو لیا گیا تو ان بچوں کے چہرے پر مسکراہٹ جگمگا رہی تھی جو ٹائی والے شخص کو بالکل بھی پسند نہیں آیا:
’’اب ٹائی والا ان بچوں کی طرف بڑھا اور بولا۔
’’ایک تو نہا دھوکر کرکے آئے ہو اوپر سے فوٹو کھنچواتے وقت مسکراتے بھی ہو۔ کون تمھیں اناتھ سمجھے گا۔ کون تمھارے لیے پیسے بھیجے گا۔ کس کو وشواس ہوگا کہ تمھارے ماں باپ مر چکے ہیں؟‘‘
اس نے آگے بڑھ کر بچوں کے سنوارے ہوئے بالوں کو بکھیر دیا اور فوٹو گرافر نے جیسے ہی ’’ریڈی‘‘ کہا۔ ٹائی والا زور سے غرّایا۔
’’خبر دار جو کوئی بھی مسکرایا ۔ چپ چاپ بیٹھے رہو۔ مسکرانا مت‘‘۔
(4)
مدد کی آڑ میں پیدا ہونے والی نفسیات اور انسان کا ایک دوسرا روپ ’’طوفان‘‘ میں دکھایا گیا ہے۔موجودہ عالمی تناظر میں اس کہانی کو دیکھیں تو سیاسی اور سماجی رہنماؤں کی ظاہر داری اور باطن کی خرابی کی پول کھولتی ہے۔پوری دنیا کے ریسورس پر قبضہ جمانے اور سپر پاور بننے کی ہوس انسانیت کو تار تار کر رہی ہے۔کسی ملک یا شہر کو پہلے بم گرا کر تباہ کیا جاتا ہے پھر تحفظ انسانیت کے نام پر اس کے لیے ریلیف فنڈ جاری کیا جاتا ہے۔
افسانے کی شعریات میں واقعات کے منطقی انسلاکات و ارتباط اور مختلف وقوعوں کو زمانی ومکانی تسلسل سے ہم آہنگ کرکے کسی ایک فریم میں متشکل کرنا اور انھیں منطقی نتیجے تک پہنچانا ایک بنیادی ڈھانچہ ہے۔تاہم روایتی شعریات سے بغاوت کرکے بھی تخلیقی تجربات کیے گیے جس کے نتیجے میں افسانے کی ہیئت وتکنیک میں تنوع پیدا ہوا۔اس حوالے سے بھی سید محمد اشرف کی منفرد شناخت ہے ۔راست بیانیہ کے علاوہ انھوں نے علامتی،استعاراتی اور تمثیلی کہانیاں نہ صرف لکھی بلکہ اس پورے نظام کے لیے مناسب تعبیرات و استعارات کے سہارے سے فضا خلق کیا۔بطور مثال چکر،لکڑ بگھا ہنسا، لکڑ بگھا رویا، لکڑ بگھا چپ ہوگیا، آخری بن باس، اندھا اونٹ اور باد صبا کا انتظار پیش کیے جاسکتے ہیں۔
باغ بہشت سے جب حکم سفر ملا تھا تب ہی کہانی کا وجود عمل میں آچکا تھا۔تب سے اب تک بے شمار ہیئت و تکنیک ، فارم اور موضوعات تخلیق کا روں نے پیش کیے۔ وقت کی تیز گامی اور بدلتی صورتوں کو بھی موضوع بنایاگیا۔اردو فکشن میں بہت سے تخلیق کاروں نے وقت کے جبر کوبیان کیا اور اس کے لیے انھوں نے مختلف استعارات وضع کیے۔ یہاں بھی سید محمد اشرف کی انفرادیت قائم ہے۔ انھوں نے ’’اندھا اونٹ‘‘کو وقت کا استعارہ بنا کر غیر معمولی افسانہ تخلیق کیا۔
اکرم اور یوسف دونوں بے حد قریبی دوست تھے۔ یوسف پڑھنے میں بہت ذہین تھا۔آٹھویں کلاس فرسٹ ڈویزن سے پاس تھا مگر تنگ دستی نے اسے اسکول چھڑا کر احمد آباد پہنچا دیا۔ یوسف اپنے دوست اکرم کی تحریر کی خوب تعریف کرتا تھا۔ بچھڑنے کے بعد دونوں اپنے اپنے کام مشغول ہوگئے۔ اکرم ہیڈ کلرک بن گیااور جب شعبہ شماریات میں اس کا ٹرانسفر ہوا تو یہاں اس کی رائٹنگ کو بہت خراب بتایا گیا۔ اس موقع سے اس نے اپنے دوست یوسف کو بہت مس کیا۔برسوں بعد جب اکرم یوسف سے ملا تو اس نے اپنی رائٹنگ سے متعلق سوال کیامگر اس پر غبار وقت کی اتنی تہیں جم چکی تھیں کہ وہ بچپن کی ساری یادیں کھوچکا تھا۔دونوں ماضی کے تصورات اورحسین ترین لمحوں میں گم ہوگئے۔
یوسف اکرم سے کہتا ہے ’’ابن رشد سے متعلق ایک کہانی پڑھ کر اکثر مجھے لگتا ہے کہ ایک اونٹ ہے۔ وہ اندھا ہے۔ اور وہ مجھے روندتا ہوا چلا جارہا ہے۔‘‘
’’رائٹنگ والی بات پر اب بھی اسے کچھ یاد نہیں آیا ۔ وہ اسی طرح بیٹھا رہا۔ پھر تھوڑی بعد بولا ’’وہ اندھا اونٹ تمھیں بھی پامال کرگیا۔‘‘
’’کھنڈر کے پار کھیتوں میں پھر کوئی گیدڑ رویا۔ ہم دونوں نے ادھر دیکھا۔ اور دیکھا کہ کھیتوں، باغوں، قصبوں، شہروں، اور ملکوں اور انسانوں کو روندتا ہوا ایک اندھا اونٹ بھاگا چلا جارہاہے۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے قریب ہوگئے اورسر جھکائے دیر تک وہیں بیٹھے رہے۔ ‘‘(5)
’’باد صبا کا انتظار‘‘ شاہکار علامتی اور استعاراتی افسانہ ہے۔اس کی بافت میں معنیاتی اور اسلوبیاتی لحاظ سے کئی پرتیں ہیں جو آسانی سے قاری پر نہیں کھلتیں اور وہ نارسائی کی منزلوں میں پیچ وتاب کھاتا رہتا ہے۔تاہم جب قاری پر علامتی دروازہ کھلتا ہے تو وہ جمالیاتی کیفیات سے انبساط حاصل کرتا ہے۔ اس افسانے میں ایک ’مریضہ ‘کو اردو کی زبوں حالی کی علامت بناکر اس کے پس منظر میں اردو کی تاریخی اور تہذیبی ارتقا اور اس کو در پیش مسائل کو کمال ہنرمندی سے بیان کیا گیا ہے ۔ اس کے لیے افسانہ نگار نے دو مرکزی کرداروں پر اس کہانی کی نیو رکھی۔ ایک مریضہ اور دوسرا دراز قد بزرگ شخص اور ان دونوں کے مابین ایک ڈاکٹر ہے جس کے ارد گرد کہانی کا تانا بانا بنا گیا۔ڈاکٹر مریضہ کی تشخیص اور مکمل چیک اپ کے بعد اس کے تمام اعضا تندرست و توانا پاتا ہے۔ بس تنفسی نظام کی خرابی بتاتا ہے۔ یعنی اس کے ارد گرد کا دائرہ اتنا تنگ کردیا گیا ہے کہ اسے گھٹن اور سانس لینے میں دقت محسوس ہو رہی ہے۔ بزرگ شخص کی شناخت امیر خسرو کے طور پر کی گئی ہے جن کے بغیر اردو زبان کا وجود متصور نہیں۔اردو زبان کے تشکیلی مراحل میں صوفیاشہنشاہ اور عوام کی ملی جلی خدمات کو بھی فراموش نہیں کیا گیا اور انھیں اس افسانے میں شامل کر لیا گیا۔ سید محمد اشرف نے تاریخ زبان اردو کا پورا باب اس کہانی میں سمو دیا ہے۔ افسانوی کینوس پر اتنا بڑا پلاٹ تعمیر کرنا دریا کو کوزے میں سمانے کے مترادف ہے۔انھوں نے اردو زبان کی تہذیبی ولسانی ارتقا میں تعصب وتنگ نظری کوسدّ راہ قرار دیا اور تنفسی نظام کی افزائش کے لیے ’باد صبا ‘ کو ناگزیر قرار دیا۔آج اکیسویں صدی کی متعفن آب و ہوا میں’باد صبا کا انتظار‘اور شدید ہوجاتا ہے۔اردو مرثیہ خواں ہے کہ قاری نہ رہے۔ افسانہ نگار نے کتنی خوب صورتی سے مریضہ / اردو کا ہیولا تیار کیا ہے افسانے کے اقتباس میں ملاحظہ کریں:
’’وہ ایک دراز قد نہایت حسین وجمیل خاتون تھی۔ اس کے بال ترکی نژاد عورتوں کی طرح سنہرے تھے جن سے عمر کی شہادت نہیں ملتی۔ اس کی پیشانی شفاف اور ناک ستواں اور بلند تھی۔ آنکھیں نیم وا اور سرمگیں تھیں۔ ہونٹ اور رخسار بیماری کے باوجود گلابی تھے۔ ہونٹ بھی نیم وا تھے اور سفید موتی سے دانت ستاروں کی طرح سانس کے زیر و بم کے ساتھ ساتھ رہ رہ کر دمک رہے تھے۔ شفاف گردن پر نیلگوں مہین رگیں نظر آرہی تھیں اور گردن کے نیچے کا عورت حصہ اٹھا ہوا اور مخروطی تھا۔ ساعد سیمیں کولہوں کے ابھار سے لگے ہوئے رکھے تھے۔‘‘(6)
ایک اور اقتباس دیکھیں:
’’ اس آواز میں میدان جنگ میں طبل پڑنے والی پہلی ضرب کی آواز کا ارتعاش بھی ہوگا۔ دو محبت کرنے والے بدن جب پہلی بار ملتے ہیں اور ایک دوسرے کو اپنے ہونٹوں سے محسوس کرتے ہیں وہ نرم لذت بھری آواز بھی ہوگی ۔ ملا گیری رنگ کی عبا پہنے صوفی کے نعرہ مستانہ کی گونج بھی ہوگی۔ دربار میں خون بہانے کا فیصلہ کرنے اوالے بادشاہ کی آواز کی گرج بھی شامل ہوگی۔ صحراؤں میں بہار کی آمد سے متشکل ہونے والی زنجیر کی جھنک بھی ہوگی اور بنجر زمین پر پڑنے والے موسم برشگال کے پہلے قطرے کی کھنک بھی ہوگی۔ بربط، ستار اور طبلے کی۔۔۔‘‘(7)
افسانہ نگار نے ان میں کس خوبی سے اردو زبان کی دل کشی کے ساتھ ساتھ اس کی نغمگی اور تاریخی و تدریجی ارتقا کو بیان کیا ہے۔ایک ہی پیراگراف میں مرثیہ کا رزم، غزل کا عاشقانہ مزاج، صوفیا کی صدائے ھو حق اور بادشاہوں کا جاہ و جلال سب کچھ سمو دکر ایجاز کا بہترین نمونہ پیش کیا ہے۔
علامت نگاری بجائے خود ایک آرٹ ہے جو ہر تخلیق کار کے بس میں نہیں۔ کہانی کی تخلیق سے پہلے مناسب علامت کی دریافت پہلا مرحلہ ہے۔ پھر اس کو کامیابی کے ساتھ کہانی کی فضا سے گزارناغیر معمولی صلاحیت کا متقاضی ہے۔ ورنہ تخلیق کار اس کے پیچ وخم میں الجھ کر خود ہی علامت بن جائے گا۔ چناں چہ وارث علوی علامت سازی کے عمل کو غیر شعوری قرار دیتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ’بلند ترین تخیل کے بہترین تخلیقی لمحات میں کوئی ایسی علامت جنم لیتی ہے جو اس اندھیرے کو منور کرتی ہے جس میں استدلالی فکر کو راستہ نہیں سوجھتا۔ ‘(8)
سید محمد اشرف نے فسانہ محبت کو ’تلاش رنگ رائیگاں‘ بنا دیا۔ 89 صفحات پر مشتمل نہایت طویل ترین افسانہ ہے جو افسانوی حدود کو پھلانگ کر ناولٹ کی سرحدوں میں داخل ہوتا معلوم ہوتا ہے۔ اس کہانی میں محبت کے قوس قزح سے سات مختلف رنگوں کی شعائیں پھوٹتی ہیں۔ ارشداس کہانی کا مرکزی کردار مختلف رنگوں کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے۔اس کی شخصیت نہایت پیچیدہ اور انا پرست ہے۔ پہلی بار ندی کے اس پار کسی دوپٹے کا رنگ ہوا میں لہراتا ہوا دیکھتا ہے جس کی شناخت تو وہ نہیں کرپاتا تاہم اخیر تک اس رنگ کی تلاش جاری رہتی ہے۔ واقعات کی ترتیب اور انداز پیش کش نے اس کہانی میں محبت کا رنگ اور بھی گہرا کردیا ہے۔ ارمل، غزالہ آپا، عائشہ اور اخیر میں گیتا ان سب میں وہ اپنا رنگ تلاش کرتا ہے مگر ناکامی ہی اس کے ہاتھ آتی ہے۔ اس کہانی میں ناکام محبت کے جذبات کی عکاسی خوب صورت پیرائے میں کی گئی ہے۔ تلاش رنگ رائیگاں ناکامی اور محرومی سے عبارت اور رنگوں کی آڑ میں دنیا کی بے ثباتی کی علامت ہے۔
بقول سارتر ادب کی تخلیق اخلاقی اور سیاسی عمل کے مترادف ہے۔ تخلیق کاراپنے تخیلات، محسوسات اور مدرکات کو یکجا کرکے روز مرہ کے واقعات / حادثات سے کہانی کشیدکرکے حقیقت کو افسانوی رنگ دیتا ہے۔مختلف بے جوڑ وقوعوں کو تخلیق کا ر جب کینوس پر بکھیر تا ہے تو اس سے بننے والی کہانیوں کو قاری دیکھ بھی سکتاہے اور محسوس بھی کر سکتاہے۔ادب تخلیق کرنا ایک سماجی عمل ضرور ہے تاہم اس میں ادیب کی انفرادی سرگرمی اور جذباتی ترسیل کا ر فرما ہوتی ہے۔ وہ زمان و مکان کی حد بندیوں سے آزاد ہوکر ایسی فضا پیدا کرتا ہے جہاں ماضی ،حال اور استقبال ہم آہنگ ہوکر آفاقیت میں گم ہوجاتے ہیں۔ یہ تمام صفات سید محمد اشرف کے یہاں بدرجہ اتم موجود ہیں۔افسانہ ’کثرت آرائی وحدت‘ کا نام ہے جس میں منتشر خیالات کو کرداروں کے ذریعے ایک وحدت میں پروکر افسانہ نگار قاری پر ایک تاثرمرتب کرتا ہے۔
سید محمد اشرف کی کہانیوں کا سماجیاتی نقطہ نظر سے مطالعہ کیاجائے تو ان میں ہندوستانی قصبات کے متوسط گھرانے اور افراد،ان کا ماحول اور نفسیات،تہذیب اور اقتصادی حالات، کردار اور زبان مختلف صورتوں میں موجود ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانوں میں خاک ہند کی سوندھی سوندھی اودھی اودھی خوشبو آتی ہے۔ چناں چہ قاری کو یک گونہ اپنائیت کا احساس ہوتا ہے۔ انھوں نے اپنی کہانیوں کی بنت اور تراش خراش میں مجموعی تاثر اورارتکاز کا پاس و لحاظ رکھا ہے جو کسی بھی کہانی کے لیے روح افزا ہوتے ہیں۔اس حوالے سے محمد حسن رقم طراز ہیں:
’’مختصر افسانہ اپنی شدت تاثر کی وجہ سے مرکوز اور مجتمع تاثر ہوتا ہے اسی لیے اس کی حیثیت غزل کے اس شعر کی سی ہے جو مروجہ تلمیحات کے سہارے کے بغیر کہا گیا ہو۔ مختصر افسانے کی بنیاد ارتکاز پر ہے اس کا مجموعی تاثر جس قدر مرتکز ہوگا اسی قدر جامعیت کے ساتھ اپنی بات کو ذہن نشیں کراسکے گا اس لحاظ سے مختلف کرداروں کے باہمی رابطوں اور ان سے پیدا شدہ واقعات کی آمیزش سے جس مرکزی نقطہ ارتکاز تک مختصر افسانہ پہنچتا ہے وہی اس کی کامیابی کی دلیل ہے اور اسی قدر شدت سے وہ اپنے پڑھنے والوں کو متاثر کرتا ہے۔‘‘(9)
سید محمد اشرف کی پرورش چوں کہ خانقاہی اور مذہبی ماحول میں ہوئی اسی لیے ان کی بیشتر کہانیوں میں آیت الکرسی، سورہ فاتحہ اورچاروں قل کا ورد اور فاتحہ درود کرداروں کی زبان پر جاری ہے۔ ان آیات اور مذہبی علامات کے ذریعے انھوں نے متوسط طبقہ افراد کی مذہبی عقیدت کو بیان کیا ہے نیز خوف ودہشت کی اس سائیکی کوبیان کیا ہے جس میں مصیبت اور ڈرکے وقت انسان آیات اور دعائیں پڑھ کر خود کو محفوظ تصور کرتا ہے۔ سید محمد اشرف نے اپنے افسانوں میں کسی خاص مذہب کی تبلیغ کی اور نہ ہی پند و موعظت کا کام لیا،بلکہ ’میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے‘ کی سعی کی۔انسانی کردار اور نفسیات کی کجی اور خمیدگی کو آشکار کیا تاکہ وہ ان کہانیوں سے عبرت پکڑیں۔
یہاں پر سید محمد اشرف کا تخلیقی سوتا ترقی پسندی کے اس منشور سے جا ملتا ہے جس میں انفرادیت اور ترقی پسندیت کی تبلیغ واشاعت کے بجائے انسانیت اور اجتماعیت کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ انھوں نے فرد اور معاشرے کے باطن سے پردہ اٹھاکر ان کے دوہرے کردار کو واضح کرکے ظلم و جبر کے خلاف اپنا احتجاج درج کیا۔ انسان کی باطنی کمزوری کی تصویر کشی اور ظاہر داری کا بھرم توڑنے کے لیے انھوں نے حیوانوں کا سہارا لیا۔ اس کا مقصدکردار کشی کے بجائے باطن کی تعمیر ہے۔ انسان دوستی کا جذبہ ہی انھیں افسانہ لکھنے پر آمادہ کرتا ہے جو سید احتشام حسین کے مطابق کسی بھی افسانہ نگار کے لیے بنیادی فریضہ ہے چناں چہ وہ لکھتے ہیں:
’’انسانی کردار کا مصوراگر کچھ نہ ہو تو اسے انسانیت پرست اور انسان دوست تو ہونا ہی چاہیے۔ لطیف جذبات اور نازک احساسات کا یہ نقاش جسے افسانہ نگار کہاجاتا ہے۔ ظلم، جبر، ناانصافی، جہالت، بربریت، جنگ، لوٹ کھسوٹ، غلامی اور بیماری کو کیوں کر برداشت کر سکتاہے! اگر وہ بیمار نہیں ہے تو صحت مندی کو زیادہ پسند کرے گا اور اس بوڑھے کبڑے کی طرح صرف مارے حسد کے تمام انسانوں کو کبڑا دیکھنا پسند کرے گا۔ جس کا ذکر کہانیوں میں پایا جاتا ہے۔ وہ صفات جن سے انسان انسان بنتا ہے اسے عزیز ہوں گی اور وہ انھیں عام ہوتا دیکھنا چاہے گا۔‘‘(10)
غرض کہ سید محمد اشرف کے بیسویں صدی کے اخیر میں لکھے گئے افسانوں میں اکیسویں صدی بالکل توانا نظر آرہی ہے۔انھوں نے جن مسائل و میلانات کو کہانی کا رنگ و روپ عطا کیا ہے وہ آج بھی ہمارے معاشرے میں پائے جاتے ہیں ۔ چناں چہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ ان کے افسانے سدا بہار ہیں جو اردو کے افسانوی کائنات کے لیے کسی باد بہاری سے کم نہیں۔
حواشی
(1) آدمی، ڈار سے بچھڑے، ص 11
(2) سید محمد اشرف ’میرا تخلیقی تجربہ‘ ادب ساز دلی،اپریل تا جون، ص 169
(3) ساتھی، ایڈ شاٹ پبلی کیشنز ممبئی،2000، ص 11
(4) طوفان،ص47
(5) اندھا اونٹ باد صبا کا انتظار، ص 57
(6) باد صبا کا انتظار، ص 69
(7) ایضا، ص 72
(8)وارث علوی جدید افسانہ کا اسلوب، مشمولہ اردو افسانے کا سفر،مرتبہ نجمہ رحمانی ، ص 87-88
(9)اردو افسانے کی سماجیات، مشمولہ اردو افسانے کا سفر جلد دوم، نجمہ رحمانی، عرشیہ پبلی کیشنز نئی دہلی، 2015ص 593
(9) افسانہ اور حقیقت،مشمولہ اردو افسانے کا سفرجلد دوم، نجمہ رحمانی، عرشیہ پبلی کیشنز نئی دہلی،2015،ص 573
(10) افسانہ اور حقیقت،مشمولہ اردو افسانے کا سفرجلد دوم، نجمہ رحمانی، عرشیہ پبلی کیشنز نئی دہلی،2015،ص 573
دیدبان شمارہ۔۸
سید محمد اشرف کی باد بہاری
امتیاز رومی
اکیسویں صدی کے افق پر طلوع ہونے والا آفتاب دوسری دہائی میں داخل ہوچکا ہے۔ اس دہائی کی کربناکی اور تصادم، ایاّم گزشتہ سے بیشتر ہے۔اس عہد میں انسان بیک وقت دو محاذ پر نبرد آزما ہے۔ اوّل عالمی سطح پر رونما ہونے والے واقعات اور دوم مادی منفعت کی ریس میں گم ہوتے داخلی احساسات۔ قدیم زمانے میں میدان جنگ میں بھی اصول اور ایمانداری کا پاس و لحاظ رکھا جاتا تھا تاہم اب عبادت گاہوں میں بھی تخریبی پروگرام ترتیب دیا جاتا ہے۔صنعت و حرفت کی برق رفتاری کے سامنے انسانیت بے بس ہے۔ حرص و ہوس نے عالمی سطح پر بے شمار مسائل کو جنم دیا ہے۔فیس بک اور انٹر نیٹ کے ذریعے فاصلے ضرور مٹ گئے تاہم قلوب واذہان میں دوریاں اور بڑھ گئیں۔ سائنس اور ٹکنا لوجی کا ارتقا انسانیت کو انفرادیت کی طرف تیزی سے لے جارہا ہے جہاں وہ کائنات کے آہنگ میں شامل ہونے کے بجائے اپنے اندر جہان نو آباد کیے ہوا ہے۔یہ ہے اکیسویں صدی، جو متضاد کیفیتوں سے دوچار ہے۔ ایک طرف ترقی کی معراج ہے تو دوسری طرف تنزلی کی انتہا۔تحفظ انسانیت کا ڈھنڈورا پیٹنے والے سیکڑوں آبادیاں خرابے تبدیل کر چکے ہیں اور اس کے ملبے پر سوار ہوکر امن و آشتی کا پیغام دے رہے ہیں۔ بظاہر انسان دکھنے والا لکڑ بگھا صفت اپنی عیاری پر مسکرا رہا ہے۔
اس پس منظر میں سید محمد اشرف کی افسانہ نگاری کا جائزہ لیں تو ان کے بیس /تیس برس پہلے لکھے ہوئے افسانے بھی آج کے معلوم ہوتے ہیں۔ ان افسانوں میں اکیسویں صدی اپنی مکمل صفات کے ساتھ موجود ہے۔چوں کہ صدی کی تبدیلی سے مسائل یکلخت اور یکسر تبدیل نہیں ہوجاتے یہی وجہ ہے کہ سید محمد اشرف کی کہانیوں میں بیان شدہ مسائل ومعاملات اس صدی سے مربوط اور ہم آہنگ معلوم ہوتے ہیں۔ بلکہ مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ ان میں کلاسیکی رنگ اور بھی گہرا ہوتا نظر آرہا ہے۔ ان کے دو افسانوی مجموعے ’’ڈار سے بچھڑے‘‘ (1994) اور ’’باد صبا کا انتظار‘‘ (2000) منظر عام پر آکر اردو کے افسانوی سرمائے میں بیش بہا اضافہ کر چکے ہیں۔اکیسویں صدی میں ان کا کوئی افسانوی مجموعہ شائع نہیں ہوا۔ ’رنگ‘ اور ’منشی خاں‘ کے نام سے محض دو افسانے اب تک انھوں نے لکھے ہیں البتہ اس صدی کے بیشتر مسائل و معاملات ان کے یہاں پہلے ہی سے موجود ہیں۔
سید محمد اشرف نے کبھی ’بڑے پل کی گھنٹیاں ‘بجائی،کبھی ’ڈار سے بچھڑے ‘لوگوں پر وہ ماتم کناں ہوئے اور ڈار سے ملنے کی حسرت کو ورق ورق پر بکھیر دیا۔ تو کبھی ’لکڑبگھا کو ہنسایا‘،رلایا اور پھر چپ کرایا۔ لکڑ بگھے کی ان تینوں کیفیات میں انسان کی مکاری، عیاری اور خود غرضی کو علامتی و تمثیلی طور پر استعارہ بنا کر پیش کیا۔ اس کی آڑ میں انسان کے اندر پوشیدہ لکڑ بگھاکو آشکار کیا۔کبھی’ جنرل نالج سے باہر کا سوال‘کرکے غربت و تنگ دستی کا قصہ سنایا ، تو کبھی ’اندھا اونٹ‘ کو وقت کا استعارہ بنایا۔شری رام جی کی مریادہ بابری مسجد کو تاراج کرکے ’آخری بن باس‘ پر بھیج دیا۔ ’تلاش رنگ رائیگاں‘ سے محبت کے قوس قزح ابھرے اور اردو کی صحت و توانائی کے لیے ’باد صبا کا انتظار‘ شدت سے کیا۔
بیسویں صدی کی آخری دہائی میں لکھا گیا افسانہ ’’آدمی‘‘آج اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں حقیقت بن چکا ہے۔ دہشت کے سائے میں ایک آدمی دوسرے آدمی سے کتنا خائف ہے۔ زہر آلود ماحول نے انسانی نفسیات کو ہراس کردیاہے جس کے نتیجے میں ہر کوئی جان کا دشمن نظر آتا ہے۔انسانی بھیڑ کب بھیڑیا بن جائے کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ افسانہ کی زبان میں ’’ کھڑکی بند رکھوں تو گھٹن ہوتی ہے، کھول دوں تو دل اور زیادہ گھبراتا ہے لگتا ہے جیسے سب ادھر ہی آرہے ہوں‘‘۔
’’تمھیں آج چلنا ہی ہوگا سرفراز۔ بھابھی کو فون کرکے تیار ہونے کو کہہ دو۔‘‘
’’کیا تم نے اخبار نہیں پڑھا انوار؟ پرسوں ریل گاڑی سے اتار کر۔۔۔۔۔۔‘‘وہ چپ ہوگیا۔
انوار بھی خاموش ہوگیا۔پھر بولا۔
’’اچھا تو بھابھی اور بچوں کو یہیں رہنے دو۔‘‘ (1)
مذکورہ اقتباس میں موجودہ ہندوستانی منظرنامہ Mob Law اور Mob Lynch کتنا واضح نظر آرہا ہے۔سہمی سہمی فضاسے ایسا لگتا ہے یہ افسانہ آج کل ہی لکھا گیا ہے۔
’’لکڑ بگھا ہنسا ، لکڑ بگھا رویا اور لکڑ بگھا چپ ہوگیا‘‘در اصل انسانی سماج میں گھن کی طرح سمائے ہوئے لکڑ بگھے کی داستان ہے ۔ آج ہر انسان کے اندر ایک مکار، عیار اور خود غرض لکڑ بگھا چھپا ہے۔ وفاداری کے پردے میں غداری۔جب دیکھو تو وہ سب سے بڑا مخلص اور جوں ہی نظر ہٹی خون پینے پر آمادہ۔ ان افسانوں میں لکڑبگھے کا ہنسنا، رونا اور چپ ہوجانا بطور استعارہ انسانی فطرت کی نقاب کشائی کرتاہے۔انسانوں سے نفرت اور دغاکرنے والا بھی انسانوں جیسا ہی دکھتا ہے۔آج اکیسویں صدی میں ان افسانوں میں حقیقت کا رنگ اور بھی گہرا ہوتا نظر آرہا ہے۔
سید محمد اشرف کی افسانوی کائنات میں انسان کا مکروہ چہرہ بہت واضح نظر آتا ہے۔ انھوں نے انسان کے درون میں موجود حیوانی صفات بیان کرنے کے لیے جانورں کا سہارا لیا۔ یوروپین فکشن نگاروں میں روڈیارڈ کپلنگ (Rudyard Kipling) اور جوزف کونرڈ (Joseph Conrad)نے جنگلات حیوانات کو فکشنلائزڈ (Fictionalized) کیا۔اردو میں سید رفیق حسین کا نام اس حوالے سے بہت اہم ہے جنھوں نے اردو افسانے میں حیوانی کردار کو خوب پیش کیا۔ اسی طرح سید محمد اشرف کے افسانوں میں لکڑ بگھا، نیلا، کالو اور پاگل ہاتھی وغیرہ بنیادی کردار بن کر ظہور پذیر ہوتے ہیں تاہم یہ درحقیقت جنگلی جانور نہیں بلکہ ان کو علامت بنا کر انھوں نے انسان کی ذہنی و معاشرتی حیوانیت کو بے نقاب کیا ہے۔لکڑ بگھا سریز کی کہانیاں اور ’چکر ‘اس کی بہترین مثالیں ہیں۔
سید محمد اشرف کی فکری نشو ونما میں گاؤں اور قصبے کا بہت عمل دخل ہے ؛جہاں ان کا بچپن انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں اورکھیت کھلیانوں کے میں گزرا۔ مذہبی اور خانقاہی ماحول میں ان کی پرورش ہوئی اور ان سب کو اپنے اندر جذب بھی کیا۔ پھر تخیلات کی بھٹی میں تپا کرافسانوی کینوس پر بکھیر دیا۔یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانے اپنے ماحول کے پروردہ معلوم ہوتے ہیں۔ موضوعات کی تلاش اور کرداروں کی دریافت میں انھیں دور جانے کی قطعاضرورت نہیں پڑتی۔ آس پاس سے کسی کردار کا انتخاب کرکے اس کے پس منظر میں کہانی بیان کردیتے ہیں۔ چناں چہ اس حوالے سے وہ بیان کرتے ہیں:
’’بچپن اور لڑکپن قصبے میں گزرا۔دیہات اور جنگل بھی وہاں سے دور نہیں تھے۔ پرندوں، چرندوں اور درندوں کو قریب سے دیکھا۔ فطرت کے مظاہر، بارش، دھوپ، چھاؤں، بادل، کھیت، کھلیان، درخت اور پھول، تشبیہوں، تمثیلوں یا علامتوں کی طرح نظر نہیں آتے بلکہ اپنی اصلی صورت و فطرت میں میرے ساتھ جیتے ہیں۔ انھیں تشبیہ، تمثیل اور علامت بنانے میں مجھے محنت نہیں کرنی پڑتی۔ یہی وجہ ہے کہ میری کہانیوں میں جانور بے تکلفی سے داخل ہوجاتے ہیں اور پھر وہ میری کہانی کے ساتھی بن جاتے ہیں۔‘‘(2)
’باد صبا کا انتظار‘ میں کل نو کہانیاں ہیں جن کی بافت میں انسان کی بے بسی، لاچاری، نفسیاتی تناؤ، داخلی کشمکش اور بیزاری شامل ہیں۔شہری زندگی کی روٹین لائف، انسانی نفسیات پر کتنے گہرے اثرات مرتب کرتی ہے اس کی بہترین مثال ’’ساتھی‘‘میں موجود ہے۔اس کہانی کے ہیرو انور کے پاس دنیاوی آسائش کی ساری چیزیں موجود ہونے کے باوجود اس کی ایک معمولی سی خواہش پوری نہیں ہوپاتی ۔شہر میں بنگلہ نما بڑا سا گھر ،گاڑی اور پیسہ کسی چیز کی کمی نہیں۔بس کمی ہے تو ایک ایسے ساتھی کی جس کے ساتھ کچھ تفریحی لمحات گزار سکے۔ حد تو یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں سے بھی باتیں نہیں کرپاتا۔شام کو آفس سے واپس سے آکر بچوں کے ساتھ کچھ پل بتانا چاہتاہے اور اپنی پسند کی کتابیں پڑھنا چاہتا ہے مگر اس کی بیگم اپنا روٹین شروع کردیتی ہے۔ انور شدید نفسیاتی تناؤ میں مبتلا ہوچکا ہے ۔ اس کو گہری نیند سوئے ہوئے زمانے بیت گئے۔تھوڑی سی آہٹ پر اس کی آنکھ کھل گئی۔ سگریٹ لے کر کمرے سے باہر سیڑھی پر بیٹھ گیا۔ پیچھے سے کسی انسان کا سایہ نمودار ہوا۔ پھر پاس آکر وہ ساتھ بیٹھ گیا اور دونوں اس طرح باتیں کرنے لگے جیسے کوئی برسوں پرانا دوست ہو۔حالاں کہ وہ شخص انور کے گھر میں چوری کرنے آیا تھا اور اس کے پاس ہتھیار بھی تھا مگر انور کی جذباتی گفتگو کا وہ اسیر ہوگیا۔انور آج خوف کے سایے میں بھی بہت پرسکون تھا۔اپنے ہی گھر میں آئے ہوئے ایک اجنبی چور سے دل کی باتیں شیئر کر رہا تھا۔اس مقام پر دونوں کے جذبات ومحسوسات ایک ہوجاتے ہیں۔ ان کے مابین کبھی برادرانہ محبت تو کبھی پدرانہ شفقت نظر آتی ہے۔ آج برسوں بعد انور کو دل کی باتیں سننے والا ایک ساتھی ملا اور سارا تناؤ جب نکل گیا تو اسے نیند آنے لگی اور اسی اجنبی چور کے زانو پر سر رکھ کرگہری نیند سو گیا۔
راست بیانیہ میں یہ ایک عام سی کہانی ہے جس کا وقوع نفس الامر میں شاید ممکن نہ ہو،تاہم افسانہ نگار نے انور کی صورت میں گہرا نفسیاتی تجربہ پیش کیا ہے۔ گردش ایّام کے ساتھ ساتھ اس کہانی کی معنویت میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ یہی وہ خصوصیت ہے جو کسی تخلیق کو فن پارہ بنادیتی ہے۔ ساتھی میں شہری زندگی کی بے کلی اور بے اطمینانی پر تاسف کا اظہار اوراس کے نتیجے میں جنم لینے والی نفسیاتی کیفیات کا بیان ہے۔ نیز میاں بیوی کی انڈر اسٹینڈنگ پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ در اصل انور کی بیوی نے اسے ایک پل بھی اس کی مرضی کے مطابق جینے نہیں دیا:
’’وہ پچھلے کئی برس سے اس تلاش میں تھا کہ اپنے گھر میں سکون کے ساتھ اپنی مرضی سے چند گھنٹے اپنے طور پر گزارے۔ کتنی معمولی خواہش تھی جو پوری ہی نہیں ہوتی تھی۔ آفس کی پابندی بھگت کر جب انور گھر میں داخل ہوتا تو پابندیوں کی ایک نئی ترتیب اس کا انتظار کر رہی ہوتی تھی۔ اس کی بیوی کا یہ خیال غالبا بہت واجب تھا کہ زندگی میں نظم و ضبط اور پابندیاں بہت ضروری ہوتی ہیں۔‘‘(3)
اسی طرح ’’دعا‘‘ نفسیاتی رد عمل کی کہانی ہے جس میں ایک نوکرسلیم اپنی انا کی تسکین کے لیے مالک کے ہر حکم کے خلاف اپنا خاموش احتجاج درج کرتا ہے۔ وہ اس طرح کہ جب بھی میم صاحب اسے کوئی حکم دیتی ہے وہ دبی زبان میں اس کی تکرار کرتا ہے۔مثلا میم صاحب کہتی ہے ’’کپڑے اٹھاؤ، فروٹ کاٹ کر رکھ دو اور درہم برہم‘‘ تو یہ بھی ان جملوں کو دبے لفظوں میں دہراتا ہے۔ در اصل صاحب اور میم صاحب کا حکم نامہ سلیم پر سایے کی طرح مسلط رہتا ہے جو اسے کبھی سکون کی سانس نہیں لینے دیتا۔اس کی نفسیات غلامی کی یہ زندگی قبول کرنے کے لیے بالکل بھی آمادہ نہیں مگر وہ اپنے گھریلو حالات کی وجہ سے مجبور ہے۔ سلیم کے دادا نے اسے طوفان، بارش اور بجلی سے محفوظ رہنے کے لیے بہت سے اوراد و وظائف اور دعائیں یاد کرائی تھی۔چوں کہ بہت دنوں سے آندھی طوفان اور بارش سے گھر کے سارے افراد پریشان ہوچکے تھے چناں چہ میم صاحب اسے طوفان ٹلنے کی دعائیں کرنے کو کہتی ہے ۔سلیم مصلّے پر بہت پرسکون ہوکر آیات و وظائف کا ورد کرتا ہے تاہم جب دعاکا وقت آتا ہے تو اس کی زبان خاموش ہوجاتی ہے۔اس کا دل یہ گوراہ نہیں کرتا کہ طوفان ٹل جائے ۔ دل ہی دل میں ’’درہم برہم درہم برہم‘‘ کی تکرار کرتا رہتا ہے۔ دعا کے ساتھ ہی باہر کا طوفان بھی بڑھنے لگتا ہے۔ آج سلیم بہت خوش ہے کیوں کہ اس نے خدا کی بارگاہ میں اپنا احتجاج درج کروا دیا ہے۔
اس کہانی میں آقا کے جبر کے خلاف نفسیاتی ردّ عمل کا اظہار شدت سے ہوا ہے اور اس سے گلو خلاصی کی آخری ترکیب اس کی سائیکی کی انتہا ہے۔آج کی شہری زندگی میں سلیم جیسے بے شمار کردار موجود ہیں جو مجبورا اپنی انا سے سمجھوتہ کرکے مالکانہ جبر کے خلاف نفسیاتی ردّ عمل ظاہر کرتے رہتے ہیں۔ سید محمد اشرف نے ان افسانوں میں انور اور سلیم
جوزف اسٹالن(JosephStalin) کے بقول ’ریاستوں کے حکمراں اور سرمایہ دار ،عوام کا سب کچھ لوٹ کر انھیں اپاہج کردیتے ہیں اور پھر معمولی خوراک دے کر ان کا مسیحا بن جاتے ہیں‘۔ بیانیہ کی دوہری ساخت میں تخلیق کیا گیا سید محمد اشرف کا افسانہ ’’طوفان‘‘اس کی مکمل تصویر کشی کرتا ہے۔ اس افسانے میں ایک طرف طوفان نے ایک آباد شہر کو خرابے میں تبدیل کردیا تو دوسری طرف سیاسی ، سماجی، فلاحی اور صحافی لوگوں نے اپنی دکان چمکانا شروع کردی۔دوسرے شہر کے امیر کبیر افراد نے پرانے کپڑے، جوتے اوردیگر اشیا ریلیف فنڈ میں دے کر اپنے گناہ دھل لیے۔ حکومت نے بھی بطور امداد کھانے، پینے اور پہننے اوڑھنے کی چیزیں وہاں بھیجی تاہم ان میں سے ایک بھی حق دار کے پاس نہ پہنچ سکی۔ غیر سرکاری تنظیمیں یتیم و نادار بچوں کی تھوڑی بہت دیکھ بھال کرکے ریلیف فنڈ حاصل کرنے کی تگ ودو میں مصروف ہوگئیں۔ چند بچوں کا دل بہلانے اور ماں باپ کی کمی دور کرنے کے لیے آرادھنا کو ذمے داری دی گئی ۔ آرادھنا نے بڑی محنت و مشقت سے ان بچوں کے چہرے پر مسکان واپس لائی تھی۔ ریلیف فنڈ کے لیے جب گروپ فوٹو لیا گیا تو ان بچوں کے چہرے پر مسکراہٹ جگمگا رہی تھی جو ٹائی والے شخص کو بالکل بھی پسند نہیں آیا:
’’اب ٹائی والا ان بچوں کی طرف بڑھا اور بولا۔
’’ایک تو نہا دھوکر کرکے آئے ہو اوپر سے فوٹو کھنچواتے وقت مسکراتے بھی ہو۔ کون تمھیں اناتھ سمجھے گا۔ کون تمھارے لیے پیسے بھیجے گا۔ کس کو وشواس ہوگا کہ تمھارے ماں باپ مر چکے ہیں؟‘‘
اس نے آگے بڑھ کر بچوں کے سنوارے ہوئے بالوں کو بکھیر دیا اور فوٹو گرافر نے جیسے ہی ’’ریڈی‘‘ کہا۔ ٹائی والا زور سے غرّایا۔
’’خبر دار جو کوئی بھی مسکرایا ۔ چپ چاپ بیٹھے رہو۔ مسکرانا مت‘‘۔
(4)
مدد کی آڑ میں پیدا ہونے والی نفسیات اور انسان کا ایک دوسرا روپ ’’طوفان‘‘ میں دکھایا گیا ہے۔موجودہ عالمی تناظر میں اس کہانی کو دیکھیں تو سیاسی اور سماجی رہنماؤں کی ظاہر داری اور باطن کی خرابی کی پول کھولتی ہے۔پوری دنیا کے ریسورس پر قبضہ جمانے اور سپر پاور بننے کی ہوس انسانیت کو تار تار کر رہی ہے۔کسی ملک یا شہر کو پہلے بم گرا کر تباہ کیا جاتا ہے پھر تحفظ انسانیت کے نام پر اس کے لیے ریلیف فنڈ جاری کیا جاتا ہے۔
افسانے کی شعریات میں واقعات کے منطقی انسلاکات و ارتباط اور مختلف وقوعوں کو زمانی ومکانی تسلسل سے ہم آہنگ کرکے کسی ایک فریم میں متشکل کرنا اور انھیں منطقی نتیجے تک پہنچانا ایک بنیادی ڈھانچہ ہے۔تاہم روایتی شعریات سے بغاوت کرکے بھی تخلیقی تجربات کیے گیے جس کے نتیجے میں افسانے کی ہیئت وتکنیک میں تنوع پیدا ہوا۔اس حوالے سے بھی سید محمد اشرف کی منفرد شناخت ہے ۔راست بیانیہ کے علاوہ انھوں نے علامتی،استعاراتی اور تمثیلی کہانیاں نہ صرف لکھی بلکہ اس پورے نظام کے لیے مناسب تعبیرات و استعارات کے سہارے سے فضا خلق کیا۔بطور مثال چکر،لکڑ بگھا ہنسا، لکڑ بگھا رویا، لکڑ بگھا چپ ہوگیا، آخری بن باس، اندھا اونٹ اور باد صبا کا انتظار پیش کیے جاسکتے ہیں۔
باغ بہشت سے جب حکم سفر ملا تھا تب ہی کہانی کا وجود عمل میں آچکا تھا۔تب سے اب تک بے شمار ہیئت و تکنیک ، فارم اور موضوعات تخلیق کا روں نے پیش کیے۔ وقت کی تیز گامی اور بدلتی صورتوں کو بھی موضوع بنایاگیا۔اردو فکشن میں بہت سے تخلیق کاروں نے وقت کے جبر کوبیان کیا اور اس کے لیے انھوں نے مختلف استعارات وضع کیے۔ یہاں بھی سید محمد اشرف کی انفرادیت قائم ہے۔ انھوں نے ’’اندھا اونٹ‘‘کو وقت کا استعارہ بنا کر غیر معمولی افسانہ تخلیق کیا۔
اکرم اور یوسف دونوں بے حد قریبی دوست تھے۔ یوسف پڑھنے میں بہت ذہین تھا۔آٹھویں کلاس فرسٹ ڈویزن سے پاس تھا مگر تنگ دستی نے اسے اسکول چھڑا کر احمد آباد پہنچا دیا۔ یوسف اپنے دوست اکرم کی تحریر کی خوب تعریف کرتا تھا۔ بچھڑنے کے بعد دونوں اپنے اپنے کام مشغول ہوگئے۔ اکرم ہیڈ کلرک بن گیااور جب شعبہ شماریات میں اس کا ٹرانسفر ہوا تو یہاں اس کی رائٹنگ کو بہت خراب بتایا گیا۔ اس موقع سے اس نے اپنے دوست یوسف کو بہت مس کیا۔برسوں بعد جب اکرم یوسف سے ملا تو اس نے اپنی رائٹنگ سے متعلق سوال کیامگر اس پر غبار وقت کی اتنی تہیں جم چکی تھیں کہ وہ بچپن کی ساری یادیں کھوچکا تھا۔دونوں ماضی کے تصورات اورحسین ترین لمحوں میں گم ہوگئے۔
یوسف اکرم سے کہتا ہے ’’ابن رشد سے متعلق ایک کہانی پڑھ کر اکثر مجھے لگتا ہے کہ ایک اونٹ ہے۔ وہ اندھا ہے۔ اور وہ مجھے روندتا ہوا چلا جارہا ہے۔‘‘
’’رائٹنگ والی بات پر اب بھی اسے کچھ یاد نہیں آیا ۔ وہ اسی طرح بیٹھا رہا۔ پھر تھوڑی بعد بولا ’’وہ اندھا اونٹ تمھیں بھی پامال کرگیا۔‘‘
’’کھنڈر کے پار کھیتوں میں پھر کوئی گیدڑ رویا۔ ہم دونوں نے ادھر دیکھا۔ اور دیکھا کہ کھیتوں، باغوں، قصبوں، شہروں، اور ملکوں اور انسانوں کو روندتا ہوا ایک اندھا اونٹ بھاگا چلا جارہاہے۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے قریب ہوگئے اورسر جھکائے دیر تک وہیں بیٹھے رہے۔ ‘‘(5)
’’باد صبا کا انتظار‘‘ شاہکار علامتی اور استعاراتی افسانہ ہے۔اس کی بافت میں معنیاتی اور اسلوبیاتی لحاظ سے کئی پرتیں ہیں جو آسانی سے قاری پر نہیں کھلتیں اور وہ نارسائی کی منزلوں میں پیچ وتاب کھاتا رہتا ہے۔تاہم جب قاری پر علامتی دروازہ کھلتا ہے تو وہ جمالیاتی کیفیات سے انبساط حاصل کرتا ہے۔ اس افسانے میں ایک ’مریضہ ‘کو اردو کی زبوں حالی کی علامت بناکر اس کے پس منظر میں اردو کی تاریخی اور تہذیبی ارتقا اور اس کو در پیش مسائل کو کمال ہنرمندی سے بیان کیا گیا ہے ۔ اس کے لیے افسانہ نگار نے دو مرکزی کرداروں پر اس کہانی کی نیو رکھی۔ ایک مریضہ اور دوسرا دراز قد بزرگ شخص اور ان دونوں کے مابین ایک ڈاکٹر ہے جس کے ارد گرد کہانی کا تانا بانا بنا گیا۔ڈاکٹر مریضہ کی تشخیص اور مکمل چیک اپ کے بعد اس کے تمام اعضا تندرست و توانا پاتا ہے۔ بس تنفسی نظام کی خرابی بتاتا ہے۔ یعنی اس کے ارد گرد کا دائرہ اتنا تنگ کردیا گیا ہے کہ اسے گھٹن اور سانس لینے میں دقت محسوس ہو رہی ہے۔ بزرگ شخص کی شناخت امیر خسرو کے طور پر کی گئی ہے جن کے بغیر اردو زبان کا وجود متصور نہیں۔اردو زبان کے تشکیلی مراحل میں صوفیاشہنشاہ اور عوام کی ملی جلی خدمات کو بھی فراموش نہیں کیا گیا اور انھیں اس افسانے میں شامل کر لیا گیا۔ سید محمد اشرف نے تاریخ زبان اردو کا پورا باب اس کہانی میں سمو دیا ہے۔ افسانوی کینوس پر اتنا بڑا پلاٹ تعمیر کرنا دریا کو کوزے میں سمانے کے مترادف ہے۔انھوں نے اردو زبان کی تہذیبی ولسانی ارتقا میں تعصب وتنگ نظری کوسدّ راہ قرار دیا اور تنفسی نظام کی افزائش کے لیے ’باد صبا ‘ کو ناگزیر قرار دیا۔آج اکیسویں صدی کی متعفن آب و ہوا میں’باد صبا کا انتظار‘اور شدید ہوجاتا ہے۔اردو مرثیہ خواں ہے کہ قاری نہ رہے۔ افسانہ نگار نے کتنی خوب صورتی سے مریضہ / اردو کا ہیولا تیار کیا ہے افسانے کے اقتباس میں ملاحظہ کریں:
’’وہ ایک دراز قد نہایت حسین وجمیل خاتون تھی۔ اس کے بال ترکی نژاد عورتوں کی طرح سنہرے تھے جن سے عمر کی شہادت نہیں ملتی۔ اس کی پیشانی شفاف اور ناک ستواں اور بلند تھی۔ آنکھیں نیم وا اور سرمگیں تھیں۔ ہونٹ اور رخسار بیماری کے باوجود گلابی تھے۔ ہونٹ بھی نیم وا تھے اور سفید موتی سے دانت ستاروں کی طرح سانس کے زیر و بم کے ساتھ ساتھ رہ رہ کر دمک رہے تھے۔ شفاف گردن پر نیلگوں مہین رگیں نظر آرہی تھیں اور گردن کے نیچے کا عورت حصہ اٹھا ہوا اور مخروطی تھا۔ ساعد سیمیں کولہوں کے ابھار سے لگے ہوئے رکھے تھے۔‘‘(6)
ایک اور اقتباس دیکھیں:
’’ اس آواز میں میدان جنگ میں طبل پڑنے والی پہلی ضرب کی آواز کا ارتعاش بھی ہوگا۔ دو محبت کرنے والے بدن جب پہلی بار ملتے ہیں اور ایک دوسرے کو اپنے ہونٹوں سے محسوس کرتے ہیں وہ نرم لذت بھری آواز بھی ہوگی ۔ ملا گیری رنگ کی عبا پہنے صوفی کے نعرہ مستانہ کی گونج بھی ہوگی۔ دربار میں خون بہانے کا فیصلہ کرنے اوالے بادشاہ کی آواز کی گرج بھی شامل ہوگی۔ صحراؤں میں بہار کی آمد سے متشکل ہونے والی زنجیر کی جھنک بھی ہوگی اور بنجر زمین پر پڑنے والے موسم برشگال کے پہلے قطرے کی کھنک بھی ہوگی۔ بربط، ستار اور طبلے کی۔۔۔‘‘(7)
افسانہ نگار نے ان میں کس خوبی سے اردو زبان کی دل کشی کے ساتھ ساتھ اس کی نغمگی اور تاریخی و تدریجی ارتقا کو بیان کیا ہے۔ایک ہی پیراگراف میں مرثیہ کا رزم، غزل کا عاشقانہ مزاج، صوفیا کی صدائے ھو حق اور بادشاہوں کا جاہ و جلال سب کچھ سمو دکر ایجاز کا بہترین نمونہ پیش کیا ہے۔
علامت نگاری بجائے خود ایک آرٹ ہے جو ہر تخلیق کار کے بس میں نہیں۔ کہانی کی تخلیق سے پہلے مناسب علامت کی دریافت پہلا مرحلہ ہے۔ پھر اس کو کامیابی کے ساتھ کہانی کی فضا سے گزارناغیر معمولی صلاحیت کا متقاضی ہے۔ ورنہ تخلیق کار اس کے پیچ وخم میں الجھ کر خود ہی علامت بن جائے گا۔ چناں چہ وارث علوی علامت سازی کے عمل کو غیر شعوری قرار دیتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ’بلند ترین تخیل کے بہترین تخلیقی لمحات میں کوئی ایسی علامت جنم لیتی ہے جو اس اندھیرے کو منور کرتی ہے جس میں استدلالی فکر کو راستہ نہیں سوجھتا۔ ‘(8)
سید محمد اشرف نے فسانہ محبت کو ’تلاش رنگ رائیگاں‘ بنا دیا۔ 89 صفحات پر مشتمل نہایت طویل ترین افسانہ ہے جو افسانوی حدود کو پھلانگ کر ناولٹ کی سرحدوں میں داخل ہوتا معلوم ہوتا ہے۔ اس کہانی میں محبت کے قوس قزح سے سات مختلف رنگوں کی شعائیں پھوٹتی ہیں۔ ارشداس کہانی کا مرکزی کردار مختلف رنگوں کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے۔اس کی شخصیت نہایت پیچیدہ اور انا پرست ہے۔ پہلی بار ندی کے اس پار کسی دوپٹے کا رنگ ہوا میں لہراتا ہوا دیکھتا ہے جس کی شناخت تو وہ نہیں کرپاتا تاہم اخیر تک اس رنگ کی تلاش جاری رہتی ہے۔ واقعات کی ترتیب اور انداز پیش کش نے اس کہانی میں محبت کا رنگ اور بھی گہرا کردیا ہے۔ ارمل، غزالہ آپا، عائشہ اور اخیر میں گیتا ان سب میں وہ اپنا رنگ تلاش کرتا ہے مگر ناکامی ہی اس کے ہاتھ آتی ہے۔ اس کہانی میں ناکام محبت کے جذبات کی عکاسی خوب صورت پیرائے میں کی گئی ہے۔ تلاش رنگ رائیگاں ناکامی اور محرومی سے عبارت اور رنگوں کی آڑ میں دنیا کی بے ثباتی کی علامت ہے۔
بقول سارتر ادب کی تخلیق اخلاقی اور سیاسی عمل کے مترادف ہے۔ تخلیق کاراپنے تخیلات، محسوسات اور مدرکات کو یکجا کرکے روز مرہ کے واقعات / حادثات سے کہانی کشیدکرکے حقیقت کو افسانوی رنگ دیتا ہے۔مختلف بے جوڑ وقوعوں کو تخلیق کا ر جب کینوس پر بکھیر تا ہے تو اس سے بننے والی کہانیوں کو قاری دیکھ بھی سکتاہے اور محسوس بھی کر سکتاہے۔ادب تخلیق کرنا ایک سماجی عمل ضرور ہے تاہم اس میں ادیب کی انفرادی سرگرمی اور جذباتی ترسیل کا ر فرما ہوتی ہے۔ وہ زمان و مکان کی حد بندیوں سے آزاد ہوکر ایسی فضا پیدا کرتا ہے جہاں ماضی ،حال اور استقبال ہم آہنگ ہوکر آفاقیت میں گم ہوجاتے ہیں۔ یہ تمام صفات سید محمد اشرف کے یہاں بدرجہ اتم موجود ہیں۔افسانہ ’کثرت آرائی وحدت‘ کا نام ہے جس میں منتشر خیالات کو کرداروں کے ذریعے ایک وحدت میں پروکر افسانہ نگار قاری پر ایک تاثرمرتب کرتا ہے۔
سید محمد اشرف کی کہانیوں کا سماجیاتی نقطہ نظر سے مطالعہ کیاجائے تو ان میں ہندوستانی قصبات کے متوسط گھرانے اور افراد،ان کا ماحول اور نفسیات،تہذیب اور اقتصادی حالات، کردار اور زبان مختلف صورتوں میں موجود ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانوں میں خاک ہند کی سوندھی سوندھی اودھی اودھی خوشبو آتی ہے۔ چناں چہ قاری کو یک گونہ اپنائیت کا احساس ہوتا ہے۔ انھوں نے اپنی کہانیوں کی بنت اور تراش خراش میں مجموعی تاثر اورارتکاز کا پاس و لحاظ رکھا ہے جو کسی بھی کہانی کے لیے روح افزا ہوتے ہیں۔اس حوالے سے محمد حسن رقم طراز ہیں:
’’مختصر افسانہ اپنی شدت تاثر کی وجہ سے مرکوز اور مجتمع تاثر ہوتا ہے اسی لیے اس کی حیثیت غزل کے اس شعر کی سی ہے جو مروجہ تلمیحات کے سہارے کے بغیر کہا گیا ہو۔ مختصر افسانے کی بنیاد ارتکاز پر ہے اس کا مجموعی تاثر جس قدر مرتکز ہوگا اسی قدر جامعیت کے ساتھ اپنی بات کو ذہن نشیں کراسکے گا اس لحاظ سے مختلف کرداروں کے باہمی رابطوں اور ان سے پیدا شدہ واقعات کی آمیزش سے جس مرکزی نقطہ ارتکاز تک مختصر افسانہ پہنچتا ہے وہی اس کی کامیابی کی دلیل ہے اور اسی قدر شدت سے وہ اپنے پڑھنے والوں کو متاثر کرتا ہے۔‘‘(9)
سید محمد اشرف کی پرورش چوں کہ خانقاہی اور مذہبی ماحول میں ہوئی اسی لیے ان کی بیشتر کہانیوں میں آیت الکرسی، سورہ فاتحہ اورچاروں قل کا ورد اور فاتحہ درود کرداروں کی زبان پر جاری ہے۔ ان آیات اور مذہبی علامات کے ذریعے انھوں نے متوسط طبقہ افراد کی مذہبی عقیدت کو بیان کیا ہے نیز خوف ودہشت کی اس سائیکی کوبیان کیا ہے جس میں مصیبت اور ڈرکے وقت انسان آیات اور دعائیں پڑھ کر خود کو محفوظ تصور کرتا ہے۔ سید محمد اشرف نے اپنے افسانوں میں کسی خاص مذہب کی تبلیغ کی اور نہ ہی پند و موعظت کا کام لیا،بلکہ ’میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے‘ کی سعی کی۔انسانی کردار اور نفسیات کی کجی اور خمیدگی کو آشکار کیا تاکہ وہ ان کہانیوں سے عبرت پکڑیں۔
یہاں پر سید محمد اشرف کا تخلیقی سوتا ترقی پسندی کے اس منشور سے جا ملتا ہے جس میں انفرادیت اور ترقی پسندیت کی تبلیغ واشاعت کے بجائے انسانیت اور اجتماعیت کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ انھوں نے فرد اور معاشرے کے باطن سے پردہ اٹھاکر ان کے دوہرے کردار کو واضح کرکے ظلم و جبر کے خلاف اپنا احتجاج درج کیا۔ انسان کی باطنی کمزوری کی تصویر کشی اور ظاہر داری کا بھرم توڑنے کے لیے انھوں نے حیوانوں کا سہارا لیا۔ اس کا مقصدکردار کشی کے بجائے باطن کی تعمیر ہے۔ انسان دوستی کا جذبہ ہی انھیں افسانہ لکھنے پر آمادہ کرتا ہے جو سید احتشام حسین کے مطابق کسی بھی افسانہ نگار کے لیے بنیادی فریضہ ہے چناں چہ وہ لکھتے ہیں:
’’انسانی کردار کا مصوراگر کچھ نہ ہو تو اسے انسانیت پرست اور انسان دوست تو ہونا ہی چاہیے۔ لطیف جذبات اور نازک احساسات کا یہ نقاش جسے افسانہ نگار کہاجاتا ہے۔ ظلم، جبر، ناانصافی، جہالت، بربریت، جنگ، لوٹ کھسوٹ، غلامی اور بیماری کو کیوں کر برداشت کر سکتاہے! اگر وہ بیمار نہیں ہے تو صحت مندی کو زیادہ پسند کرے گا اور اس بوڑھے کبڑے کی طرح صرف مارے حسد کے تمام انسانوں کو کبڑا دیکھنا پسند کرے گا۔ جس کا ذکر کہانیوں میں پایا جاتا ہے۔ وہ صفات جن سے انسان انسان بنتا ہے اسے عزیز ہوں گی اور وہ انھیں عام ہوتا دیکھنا چاہے گا۔‘‘(10)
غرض کہ سید محمد اشرف کے بیسویں صدی کے اخیر میں لکھے گئے افسانوں میں اکیسویں صدی بالکل توانا نظر آرہی ہے۔انھوں نے جن مسائل و میلانات کو کہانی کا رنگ و روپ عطا کیا ہے وہ آج بھی ہمارے معاشرے میں پائے جاتے ہیں ۔ چناں چہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ ان کے افسانے سدا بہار ہیں جو اردو کے افسانوی کائنات کے لیے کسی باد بہاری سے کم نہیں۔
حواشی
(1) آدمی، ڈار سے بچھڑے، ص 11
(2) سید محمد اشرف ’میرا تخلیقی تجربہ‘ ادب ساز دلی،اپریل تا جون، ص 169
(3) ساتھی، ایڈ شاٹ پبلی کیشنز ممبئی،2000، ص 11
(4) طوفان،ص47
(5) اندھا اونٹ باد صبا کا انتظار، ص 57
(6) باد صبا کا انتظار، ص 69
(7) ایضا، ص 72
(8)وارث علوی جدید افسانہ کا اسلوب، مشمولہ اردو افسانے کا سفر،مرتبہ نجمہ رحمانی ، ص 87-88
(9)اردو افسانے کی سماجیات، مشمولہ اردو افسانے کا سفر جلد دوم، نجمہ رحمانی، عرشیہ پبلی کیشنز نئی دہلی، 2015ص 593
(9) افسانہ اور حقیقت،مشمولہ اردو افسانے کا سفرجلد دوم، نجمہ رحمانی، عرشیہ پبلی کیشنز نئی دہلی،2015،ص 573
(10) افسانہ اور حقیقت،مشمولہ اردو افسانے کا سفرجلد دوم، نجمہ رحمانی، عرشیہ پبلی کیشنز نئی دہلی،2015،ص 573