سورج کا ساتواں گھوڑا

سورج کا ساتواں گھوڑا

May 24, 2019

متوسط طبقے کے گرد گھومتا ایک ناول

مصنف

ترجمہ۔ عامر صدیقی

شمارہ

شمارہ - ١٠

سورج کا ساتواں گھوڑا

( نئے ڈھنگ کا مختصر ہندی ناول )

دھرم ویر بھارتی

مترجم:عامرصدیقی

***

ترتیب

پہلی دوپہر۔۔۔۔نمک کی ادائیگی

دوسری دوپہر۔۔۔۔گھوڑے کی نال

تیسری دوپہر۔۔۔۔عنوان مانک ملّا نے نہیں بتایا

چوتھی دوپہر۔۔۔۔مالوا کی یُورانی دیوسینا کی کہانی

پانچویں دوپہر۔۔۔۔کالے دستے کا چاقو

چھٹی دوپہر۔۔۔۔گزشتہ سے پیوستہ

ساتویں دوپہر۔۔۔۔سورج کا ساتواں گھوڑا

****

پہلی دوپہر

نمک کی ادائیگی

یعنی مانک نے جمنا کانمک کیسے ادا کیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انہوں نے سب سے پہلی کہانی ایک دن گرمیوں کی دوپہر میں سنائی تھی، جب ہم لوگ لو کے خوف سے کمرا چاروں طرف سے بند کر کے، سر کے نیچے بھیگا تولیہ رکھے خاموشی سے لیٹے تھے۔ پرکاش اور اونکار تاش کے پتے بانٹ رہے تھے اور میں اپنی عادت کے مطابق کوئی کتاب پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اچانک مانک نے مجھ سے کتاب چھین کر پھینک دی اور بزرگانہ انداز میں کہا،’’یہ لڑکا بالکل نکما نکلے گا۔ میرے کمرے میں بیٹھ کر دوسروں کی کہانیاں پڑھتا ہے۔ بول کتنی کہانیاں سنے گا۔‘‘سبھی اٹھ بیٹھے اورمانک ملّا سے کہانی سنانے کا اصرار کرنے لگے۔ آخر میں مانک ملّا نے ایک کہانی سنائی، جس میں انکی کہانی کے مطابق اسکا تجزیہ یہ کیا تھا کہ پیارنامی احساس کوئی پراسرار، روحانی یا سیدھا سادا انفرادی احساس نہیں ہے بلکہ حقیقتاً ایک سیدھا سادہ سماجی احساس ہے، اس لئے سماجی نظام سے جڑا ہوتا ہے اور اس کی بنیاد معاشی اور طبقاتی اونچ نیچ پر قائم ہے۔

روایت کے مطابق پہلے انہوں نے کہانی کا عنوان بتایا، ’’نمک کی ادائیگی‘‘۔ اس عنوان پر ناول نگاری کے شہنشاہ پریم چند کے ’’نمک داروغہ‘‘ کے کافی اثرات معلوم ہوتے تھے،لیکن کہانی سیدھی سادی اور اصلی تھی۔ کہانی کچھ اس طرح سے تھی ۔۔۔۔

مانک ملّا کے گھر کے ساتھ ایک پرانی کوٹھی تھی ،جس کے پیچھے چھوٹا سااحاطہ تھا۔ احاطے میں ایک گائے رہتی تھی،اور کوٹھی میں ایک لڑکی۔ لڑکی کا نام جمنا تھا، گائے کا نام معلوم نہیں۔ گائے بوڑھی تھی، رنگ لال تھا،اور سینگ نوک دار۔ لڑکی کی عمر پندرہ سال کی تھی، رنگ گندمی اور لہجہ میٹھا،ہنس مکھ اور الھڑ۔ مانک ، جن کی عمر صرف دس برس کی تھی، اسے جمنیاں کہہ کر بھاگا کرتے تھے اور وہ بڑی ہونے کی وجہ سے جب کبھی مانک کو پکڑ پاتی تھی تو انکے دونوں کان مروڑتی اور چٹکیاں کاٹ کر سارا بدن لال کر دیتی۔ مانک ملاّ فرار کی کوئی راہ نہ پا کر چیختے تھے، معافی مانگتے اوربھاگ جاتے تھے۔

لیکن جمنا کے دو کام مانک ملّا کے سپرد تھے۔ الہ آباد سے نکلنے والے جتنے سستے قسم کے رومانی کہانیوں کے رسائل ہوتے تھے، وہ جمنا انہیں سے منگواتی تھی اور شہر کے کسی بھی سنیما گھر میں اگر نئی پکچر آتی تو اسکے گانوں کی کتاب بھی مانک کو خریدکر لانی پڑتی تھی۔ اس طرح جمنا کا گھریلو ’’کتب خانہ‘‘ روز بروز بڑھتا جا رہا تھا۔

وقت گزرتے کتنی دیر لگتی ہے۔ کہانیاں پڑھتے پڑھتے اور سنیما کے گیت یاد کرتے کرتے جمنا بیس برس کی ہو گئی اورمانک پندرہ برس کے اوربھگوان کی مایا دیکھو کہ جمنا کا بیاہ ہی کہیں طے نہیں ہوا۔ ویسے بات چلی ضرور۔ قریب ہی رہنے والے مہیسردلال کے لڑکے تنّا کے بارے میں سارا محلہ کہا کرتا تھا کہ جمناکا بیاہ اسی سے ہوگا، کیونکہ تنّا اور جمنا میں بہت جمتی تھی، تنّا، جمنا کی برادری کا بھی تھا، حالانکہ کچھ نیچے درجے کا تھا اور سب سے بڑی بات یہ تھی کہ مہیسردلال سے سارا محلہ ڈرتا تھا۔ مہیسرجتناجھگڑالو، مغرور اور فحش گو تھا، تنّا اتنا ہی سیدھا، شائستہ اور نرم گو ، سارا محلہ اس کی تعریفیں کیا کرتا تھا۔

لیکن جیسا پہلے کہا جا چکا ہے کہ تنّا تھوڑے نچلے درجے کا تھا اور جمنا کا خاندان ساری برادری میں کھرے اور اونچے ہونے کیلئے مشہور تھا، اس لئے جمنا کی ماں کی رائے نہیں مانی گئی۔ چونکہ جمنا کے پِتا بینک میں بس عام سے کلرک بھر تھے اور تنخواہ سے کیا آتا جاتا تھا، تیج تہوار، موڑن دیوکاج میں ہر سال جمع شدہ رقم خرچ کرنی پڑتی تھی، اس لئے جیسا ہر درمیانے طبقے میں ہوتا ہے، بہت جلد سارا جمع شدہ روپیہ خرچ ہو گیا اور شادی کے لئے کانی کوڑی نہیں بچی۔

اور بیچاری جمنا،تنّا سے سگائی ٹوٹ جانے کے بعد خوب خوب روئی۔ پھر آنسو پونچھے، پھر فلم کے نئے گیت یاد کئے اور اس طرح سے ہوتے ہوتے ایک دن بیس کی عمر کو بھی پار کر گئی۔ اور ادھرمانک کا یہ حال کہ جیسے جیسے جمنا کی عمر بڑھتی جائے، ویسے ویسے وہ کبھی دبلی تو کبھی موٹی ہوتی جائے اور ایسی کہ مانک کو بھلی بھی لگے اور بری بھی۔ لیکن اسے ایک بری عادت پڑ گئی تھی کہ چاہے مانک ملّا اسے چڑائے یا نہ چڑائے وہ انہیں کونے کدھروں میں پاتے ہی اس طرح دبوچتی تھی کہ مانک ملّا کا دم گھٹنے لگتا تھا اور اسی لیے مانک ملّا اسکی چھایا سے بھی کتراتے تھے۔

لیکن قسمت کی مار دیکھئے کہ اسی وقت محلے میں دھرم کی لہر چل پڑی اور تمام عورتیں جنکی لڑکیاں بیاہنے سے رہ گئی تھیں، جن کے شوہر ہاتھ سے نکلے جا رہے تھے، جن کے لڑکے لڑائی میں چلے گئے تھے، جن کے دیور بک گئے تھے، جن پر قرض ہو گیا تھا۔ سب نے بھگوان کی شرن لی اور کیرتن شروع ہو گئے اور کنٹھیاں لی جانے لگیں۔ مانک کی بھابھی نے بھی ہنومان چوتراوالے برہمچاری سے کنٹھی لی اور قاعدے کے مطابق دونوں وقت بھوگ لگانے لگیں۔ اور صبح شام پہلی ٹکّی گاؤ ماتا کے نام سینکنے لگیں۔ گھر میں گائے توتھی نہیں اس لئے کوٹھی کی بوڑھی گائے کو وہ ٹکّی دونوں وقت کھلائی جاتی تھی۔ دوپہر کو تو مانک اسکول چلے جاتے تھے، دن کا وقت رہتا تھام اس لئے بھابھی خود چادر اوڑھ کر گائے کو روٹی کھلانے آتی تھیں پر رات کو مانک کو ہی جانا پڑتا تھا۔

گائے کے احاطے کے قریب جاتے ہوئے مانک ملّا کی روح کانپتی تھی۔ جمنا کا کان کھینچنا انہیں اچھا نہیں لگتا تھا (اور اچھا بھی لگتا تھا!) چنانچہ ڈر کے مارے رام کا نام لیتے ہوئے خوشی خوشی وہ گائے کے احاطے کی طرف جایا کرتے تھے۔

ایک دن ایسا ہوا کہ مانک ملّا کے یہاں مہمان آئے اور کھانے پینے میں کافی رات گزر گئی۔ مانک سو گئے تو ان کی بھابھی نے انہیں جگا کر ٹکّی دی اور کہا،’’گائے کو دے آؤ۔‘‘ مانک نے کافی بہانے بازی کی ،لیکن ان کی ایک نہ چلی۔ آخر کار آنکھیں ملتے ملتے احاطے کے پاس پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ گائے کے پاس بھوسے والی کوٹھری کے دروازے پر کوئی پرچھائیں ،بالکل کفن جیسے سفید کپڑے پہنے کھڑی ہے۔ ان کا کلیجہ منہ کو آنے لگا،تاہم انہوں نے سن رکھا تھا کہ بھوت کے آگے آدمی کو ہمت باندھے رکھنا چاہئے اور اسے پیٹھ نہیں دکھلانی چاہئے، ورنہ اسی وقت آدمی کا دم نکل جاتا ہے۔

مانک ملّا سینہ تانے اور کانپتے ہوئے پیروں کو سنبھالے ہوئے آگے بڑھتے گئے اور وہ عورت وہاں سے غائب ہو گئی۔ انہوں نے بار بار آنکھیں مل کر دیکھا، وہاں کوئی نہیں تھا۔ انہوں نے اطمینان کی سانس لی، گائے کو ٹکّی دی اور واپس چلے۔ اتنے میں انہیں لگا کہ کوئی ان کا نام لے کر پکار رہا ہے۔ مانک ملّا خوب جانتے تھے کہ بھوت محلے بھر کے لڑکوں کا نام جانتے ہیں، اس لئے انہوں نے رکنا محفوظ نہیں سمجھا۔ لیکن آواز قریب آتی گئی اور اچانک کسی نے پیچھے سے آ کر مانک ملّا کا کالر پکڑ لیا۔ مانک ملّا گلا پھاڑ کر چیخنے ہی والے تھے کہ کسی نے ان کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ وہ اس لمس کوبخوبی پہچانتے تھے، جمنا!

لیکن جمنا نے کان نہیں مروڑے اور کہا،’’چلو آؤ۔‘‘ مانک ملّا بے بس تھے۔چپ چاپ چلے گئے اور بیٹھ گئے۔ اب مانک بھی چپ اور جمنا بھی خاموش۔ مانک ،جمنا کو دیکھیں، جمنا ،مانک کو دیکھے اور گائے ان دونوں کو دیکھے۔۔۔۔ تھوڑی دیر بعد مانک نے گھبرا کر کہا،’’ہمیں جانے دو جمنا۔‘‘

جمنا نے کہا،’’ بیٹھو، باتیں کرو مانک ۔ دل بڑا گھبراتا ہے۔‘‘

مانک پھر بیٹھ گئے۔ اب بات کریں تو کیا کریں؟ ان کی کلاس میں ان دنوں جغرافیہ میں نہر سوئیز، تاریخ میں شہنشاہ جلال الدین اکبر، ہندی میں’’ سوانح عمریاں‘‘ اور انگریزی میں ’’ریڈ رائیڈنگ ہڈ‘‘ پڑھائی جا رہی تھی، پر جمنا سے اسکی باتیں کیا کریں! تھوڑی دیر بعد مانک بور کر بولے،’’ہمیں جانے دو جمنا، نیند آ رہی ہے۔‘‘

’’ابھی کون سی رات گزر گئی ہے، بیٹھو۔‘‘کان پکڑ کر جمنا بولی۔

مانک نے گھبرا کر کہا،’’نیند نہیں لگ رہا ہے، بھوک لگ رہی ہے۔‘‘

’’بھوک لگ رہی ہے! اچھا، جانا نہیں! میں ابھی آئی۔‘‘اتناکہہ جمنا فوراً پچھواڑے کے صحن میں سے ہو کر اندر چلی گئی۔ مانک کی سمجھ میں نہیں آیا کہ آج جمنا اچانک اتنی مہربان کیوں ہو رہی ہے،ابھی وہ سوچ ہی رہے تھے کہ اتنے میں جمنا لوٹ آئی اور آنچل کے نیچے سے دو چار پوئے نکالتے ہوئے بولی،’’لو کھاؤ۔ آج تو ماں بھاگوت کی کتھا سننے گئی ہیں۔‘‘اور جمنا اسی طرح مانک کو اپنی طرف کھینچ کرپوئے کھلانے لگی۔

ایک ہی پوا کھانے کے بعد مانک ملّا اٹھنے لگے تو جمنا بولی،’’اور کھاؤ۔‘‘تو مانک ملّا نے اس سے کہا کہ انہیں میٹھے پوئے اچھے نہیں لگتے، انہیں بیسن کے نمکین والے اچھے لگتے ہیں۔

’’اچھا کل تمہارے لئے بیسن کے نمکین بناکر رکھوں گی۔ کل آؤ گے؟ کہانی تو سات روز تک ہوگی۔‘‘ مانک نے اطمینان کی سانس لی۔ اٹھ کھڑے ہوئے۔ لوٹ کر آئے تودیکھا کہ بھابھی سو رہی تھیں۔ مانک ملّا خاموشی سے گاؤماتا کا دھیان کرتے ہوئے سو گئے۔

دوسرے دن مانک ملّا نے جانے کی کوشش کی، کیونکہ انہیں جانے میں ڈر بھی لگتا تھا اور وہ جانا بھی چاہتے تھے۔ اور نہ جانے کون سی چیز تھی جو اندر ہی اندر انہیں کہتی تھی،’’ مانک ! یہ بہت بری بات ہے۔ جمنا اچھی لڑکی نہیں۔‘‘اور ان کے ہی اندر کوئی دوسری چیز تھی جو کہتی تھی،’’ چلو مانک ! تمہارا کیا بگڑتا ہے۔ چلو دیکھیں تو کیا ہے؟‘‘اور ان دونوں سے بڑی چیز تھی، نمکین بیسن کا پوا، جس کیلئے مورکھ مانک ملّا اپنا لوک پرلوک دونوں خراب کرنے کیلئے تیار تھے۔

اس دن مانک ملّا گئے تو جمنا نے دھانی رنگ والی وائل کی ساڑی پہنی تھی، ارگنڈی کا مہین بلاؤز پہنا تھا، دو چوٹیاں کی تھیں، پیشانی پر چمکتی ہوئی بندیا لگائی تھی۔ مانک اکثر دیکھتے تھے کہ جب لڑکیاں اسکول جاتی تھیں تو ایسے ہی سج دھج کر جاتی تھیں، گھر میں تو میلی دھوتی پہن کر فرش پر بیٹھ کر باتیں کیا کرتی تھیں، اس لئے انہیں بڑا تعجب ہوا۔ بولے،’’جمنا، کیا ابھی اسکول سے لوٹ رہی ہو؟‘‘

’’اسکول؟ اسکول جانا تو ماں نے چار سال سے چھڑا دیا۔ گھر میں بیٹھی بیٹھی یا تو کہانیاں پڑھتی ہوں یا پھر سوتی ہوں۔‘‘ مانک ملّا کی سمجھ میں نہیں آیا کہ جب دن بھر سونا ہی ہے تو اس سج دھج کی بھلاکیا ضرورت ہے۔ مانک ملّا حیرت سے منہ کھولے دیکھتے رہے۔ اس پر جمنا بولی،’’آنکھ پھاڑپھاڑ کر کیا دیکھ رہے ہو! اصلی جرمنی کی ارگنڈی ہے۔ چچا کلکتے سے لائے تھے، بیاہ کیلئے رکھی تھی۔ یہ دیکھو چھوٹے چھوٹے پھول بھی بنے ہیں۔‘‘

مانک ملّا کو بہت تعجب ہوا ،اس ارگنڈی کو چھو کر، جو کلکتہ سے آئی تھی، اصلی جرمنی کی تھی اور جس پر چھوٹے چھوٹے پھول بنے تھے۔

مانک ملّا جب گائے کو ٹکّی کھلا چکے تو جمنا نے بیسن کے نمکین پوئے نکالے۔ اور ساتھ ہی کہا،’’پہلے بیٹھ جاؤتب کھلائیں گے۔‘‘

مانک خاموشی سے کھانے لگے۔ جمنا نے چھوٹی سی بیٹری جلا دی، مگر مانک مارے خوف کے کانپ رہے تھے۔ انہیں ہر لمحے یہی لگتا تھا کہ تنکوں میں سے ابھی سانپ نکلا، ابھی بچھو نکلا، ابھی کنکھجورا نکلا۔ روندھے گلے سے بولے،’’ہم کھائیں گے نہیں۔ ہمیں جانے دو۔‘‘

جمنا بولی،’’کیتھے کی چٹنی بھی ہے۔‘‘اب مانک ملّا مجبور ہوگئے۔ کیتھا انہیں خصوصیت سے پسند تھا۔ آخر کار سانپ بچھو کے خوف کو بھگا کر کسی طرح وہ بیٹھ گئے۔ پھر وہی منظرکہ جمنا کو مانک خاموشی سے دیکھیں اور مانک کو جمنا اور گائے ان دونوں کو۔ جمنا بولی،’’کچھ بات کرو، مانک ۔‘‘جمنا چاہتی تھی کہ مانک کچھ اس کے کپڑے کے بارے میں باتیں کرے، جب مانک نہیں سمجھے تو وہ خود بولی،’’ مانک ، یہ کپڑا اچھا ہے؟‘‘

’’ بہت اچھا ہے جمنا۔‘‘ مانک بولے۔

’’دیکھو، تنّا ہے نہ، وہی اپنا تنّا ۔ اسی کے ساتھ جب بات چیت چل رہی تھی ،تبھی چچا کلکتے سے یہ تمام کپڑے لائے تھے۔ پانچ سو روپے کے کپڑے تھے۔ پنچم بنیا سے ایک سیٹ گروی رکھ کے کپڑے لائے تھے، پھر بات ٹوٹ گئی۔ ابھی تو میں اسی کے یہاں گئی تھی۔ اکیلے دل گھبراتا ہے۔ لیکن اب تو تنّا بات بھی نہیں کرتا۔ اسی کے لیے کپڑے بھی بدلے تھے۔‘‘

’’بات کیوں ٹوٹ گئی جمنا؟‘‘

’’ارے تنّا بہت ڈرپوک ہے۔ میں نے تو ماں کو راضی کر لیا تھا پر تنّا کو مہیسر دلال نے بہت ڈانٹا۔ اس کے بعد سے تنّا ڈر گیا اور اب تو تنّا اچھے طریقے سے بولتا بھی نہیں۔‘‘ مانک نے کچھ جواب نہیں دیا تو پھر جمنا بولی،’’ اصل میں تنّا برا نہیں ہے پر مہیسر بہت کمینہ آدمی ہے اور جب سے تنّا کی ماں مر گئی اس کے بعد سے تنّا بہت دکھی رہتا ہے۔‘‘پھر اچانک جمنا نے بات بدلتے ہوئے کہا،’’لیکن پھر تنّا نے مجھے آس میں کیوں رکھا؟ مانک ، اب نہ مجھے کھانا اچھا لگتا ہے نہ پینا۔ اسکول جانا چھوٹ گیا۔ دن بھر روتے روتے گذر جاتا ہے۔ ہاں، مانک ۔‘‘اور اس کے بعد وہ چپ چاپ بیٹھ گئی۔

مانک بولے،’’وہ بہت ڈرپوک تھا۔ اس نے بڑی غلطی کی۔‘‘

تو جمنا بولی،’’دنیا میں یہی ہوتا آیا ہے۔‘‘ اور مثال دیتے ہوئے اس نے کئی کہانیاں سنائی جو اس نے پڑھی تھیں یا پکچر پر دیکھی تھیں۔

مانک اٹھے تو جمنا نے پوچھا کہ’’روز آؤ گے نہ۔‘‘ مانک نے آنا کانی کی تو جمنا بولی،’’دیکھو مانک ، تم نے نمک کھایا ہے اور نمک کھا کر جو ادا نہیں کرتا اس پر بہت گناہ پڑتا ہے، کیونکہ اوپر بھگوان دیکھتا ہے اور سب کھاتے میں درج کرتا ہے۔‘‘ مانک مجبور ہو گئے اور انہیں روز جانا پڑا اور جمنا انہیں بٹھا کر روز تنّا کی باتیں کرتی رہی۔

’’پھر کیا ہوا۔‘‘جب ہم لوگوں نے پوچھا تو مانک بولے،’’ایک دن وہ تنّا کی باتیں کرتے کرتے میرے کندھے پر سر رکھ کر خوب روئی، خوب روئی اور چپ ہوئی تو آنسو پونچھے اور اچانک مجھ سے ایسی باتیں کرنے لگی، جیسی کہانیوں میں لکھی ہوتی ہیں ۔ مجھے بڑا برا لگا اور سوچا اب کبھی ادھر نہیں جاؤں گا، پر میں نے نمک کھایا تھا اور اوپر بھگوان سب دیکھتا ہے۔ ہاں، یہ ضرور تھا کہ جمنا کے رونے پر میں چاہتا تھا کہ اسے اپنے اسکول کی باتیں بتاؤں، اپنی کتابوں کی باتیں بتا کر اس کا دل بہلاؤں۔ پر وہ آنسو پونچھ کر کہانیوں جیسی باتیں کرنے لگی۔ یہاں تک کہ ایک دن میرے منہ سے بھی ویسی ہی باتیں نکل گئیں۔‘‘

’’پھر کیا ہوا؟‘‘ہم لوگوں نے پوچھا۔

’’عجب بات ہوئی۔ اصل میں ان لوگوں کو سمجھنا بڑا مشکل ہے۔ جمنا خاموشی سے میری طرف دیکھتی رہی اور پھر رونے لگی۔ بولی،’’میں بہت خراب لڑکی ہوں۔ میرا دل گھبراتا تھا اسی لئے تم سے بات کرنے آتی ہوں، پر میں تمہارا نقصان نہیں چاہتی۔ اب میں نہیں آیا کروں گی۔‘‘ لیکن دوسرے دن جب میں گیا تو دیکھا، جمنا پھرموجود ہے۔‘‘

پھر مانک ملّا کو روز جانا پڑا۔ ایک دن، دو دن، تین دن، چار دن، پانچ دن۔۔۔ یہاں تک کہ ہم لوگوں نے بورہو کر پوچھا کہ آخر میں کیا ہوا تو مانک ملّا بولے،’’کچھ نہیں، ہوتا کیا؟ جب میں جاتا تو مجھے لگتا کوئی کہہ رہا ہے مانک ادھر مت جاؤ یہ بہت خراب راستہ ہے، پر مجھے پتہ تھا کہ میرا کچھ بس نہیں ہے۔ اور آہستہ آہستہ میں نے دیکھا کہ نہ میں وہاں جائے بغیر رہ سکتا تھا نہ جمنا آئے بغیر۔‘‘

’’ ہاں، یہ تو ٹھیک ہے لیکن اس کا انجام کیا ہوا؟‘‘

’’انجام کیا ہوا؟‘‘ مانک ملّا نے طنزیہ لہجے میں کہا،’’تب تو تم لوگ خوب نام کماؤگے۔ ارے کیا پریم کہانیوں کے دو چار انجام ہوتے ہیں۔ ایک ہی تو آخر ہوتا ہے۔ ہیروئن کی شادی ہوگئی، مانک منہ تکتے رہ گئے۔ اب اسی کو چاہے جتنے طریقوں سے کہہ لو۔‘‘

بہرحال اتنی دلچسپ کہانی کا اتنا عام سا خاتمہ ہم لوگوں کو پسند نہیں آیا۔

پھر بھی پرکاش نے پوچھا،’’لیکن اس سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ محبت نامی احساس کی بنیاد اقتصادی تعلقات پر ہے اورطبقاتی اونچ نیچ کا نظام اسے متاثر کرتا ہے۔‘‘

’’کیوں؟ یہ تو بالکل واضح ہے۔‘‘ مانک ملّا نے کہا،’’اگر ہر گھر میں گائے ہوتی تو یہ صورت حال کیسے پیدا ہوتی؟ جائیداد کی ناموزونیت ہی اس محبت کا اصل سبب ہے۔ نہ ان کے گھر گائے ہوتی، نہ میں انہیں دیکھنے جاتا، نہ نمک کھاتا، نہ نمک ادا کرنا پڑتا۔‘‘

’’لیکن پھر اس سے سماجی فائدے کیلئے کیا نتیجہ نکلا؟‘‘ہم لوگوں نے پوچھا۔

’’بغیر نتیجے کے میں کچھ نہیں کہتا دوستو! اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ ہر گھر میں ایک گائے ہونی چاہئے، جس سے دیس کا لائیواسٹاک بھی بڑھے، اولاد کی صحت بھی بنے۔ پڑوسیوں کو بھی فائدہ ملے اور بھارت میں دوبارہ دودھ، گھی، مکھن کی ندیاں بہیں۔‘‘

اگرچہ ہم لوگ اقتصادی نظریے والے اصول سے اتفاق نہیں رکھتے تھے، تاہم یہ نتیجہ ہم سبھوں کو پسند آیا اور ہم لوگوں نے وعدہ کیا کہ بڑے ہونے پر ایک ایک گائے ضرور پالیں گے۔

اس طرح مانک ملّاکی پہلی نان فکشن پریم کہانی ختم ہوئی۔

متفرقات

اس کہانی نے اصل میں ہم لوگوں کو متاثر کیا تھا۔ گرمی کے دن تھے۔ محلے کے جس حصے میں ہم لوگ رہتے ادھر چھتیں بہت تپتی تھیں، اس لئے ہم سب لوگ حکیم جی کے چبوترے پر سویا کرتے تھے۔

رات کو جب ہم لوگ لیٹے تو نیند نہیں آ رہی تھی اور رہ رہ کر جمنا کی کہانی ہم لوگوں کے ذہنوں میں گھوم جاتی تھی اور کبھی کلکتے کی ارگنڈی اور کبھی بیسن کے پوئے یاد کرکے ہم لوگ ہنس رہے تھے۔

اتنے میں شیام بھی ہاتھ میں ایک بنسکھٹ اور بغل میں دری تکیہ دبائے ہوئے آیا۔ وہ دوپہر کی محفل میں شامل نہیں تھا ،اس لئے ہم لوگوں کو ہنستے دیکھ کر اسے بیتابی ہوئی اور اس نے پوچھا کہ مانک ملّا نے کون سی کہانی ہم لوگوں کو سنائی ہے۔ جب ہم لوگوں نے جمنا کی کہانی اسے سنائی تو دیکھ کرحیرانگی ہوئی کہ بجائے ہنسنے کے وہ اداس ہو گیا۔ ہم لوگوں نے ایک ساتھ پوچھا کہ ’’کہو شیام، اس کہانی کو سن کر دکھی کیوں ہو گئے؟ کیا تم جمنا کو جانتے تھے؟‘‘تو شیام روندھی ہوئی آواز میں بولا،’’نہیں، میں جمنا کو نہیں جانتا، لیکن آج نوے فیصد لڑکیوں کی حالت زار جمنا جیسی ہے۔ وہ بیچاری کیا کریں! تنّا سے اس کی شادی ہو نہیں پائی، اس کے والدین جہیز جٹا نہیں پائے، تعلیم اور من بہلاؤ کے نام پر اسے ملیں ’’میٹھی کہانیاں‘‘،’’سچی کہانیاں‘‘،’’رس بھری کہانیاں‘‘ تو بیچاری اور کر ہی کیا سکتی تھی۔ یہ تو رونے کی بات ہے، اس میں ہنسنے کی کیا بات! دوسروں پر ہنسنا نہیں چاہئے۔ ہر گھر میں مٹی کے چولہے ہوتے ہیں ‘‘ وغیرہ وغیرہ۔

شیام کی بات سن کر ہم لوگوں کا جی بھر آیا اور آہستہ آہستہ ہم لوگ سو گئے۔

***

دوسری دوپہر

گھوڑے کی نال

یعنی کیسے گھوڑے کی نال خوش قسمتی کی علامت ثابت ہوئی؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوسرے دن کھا پی کر ہم لوگ پھر اس بیٹھک میں جمع ہوئے اور ہم لوگوں کے ساتھ شیام بھی آیا۔ جب ہم لوگوں نے مانک ملّا کو بتایا کہ شیام جمنا کی کہانی سن کر رونے لگا تھا تو شیام جھینپ کر بولا،’’میں کہاں رو رہا تھا؟‘‘

مانک ملّا ہنسے اور بولے،’’ ہماری زندگی کی ذرا سی پرت اکھاڑ کر دیکھو تو ہر طرف اتنی گندگی اور کیچڑ پوشیدہ ہے کہ حقیقت میں اس پر رونا آتا ہے۔ لیکن پیارے دوستوں، میں تو اتنا رو چکا ہوں کہ اب آنکھ میں آنسو آتے ہی نہیں، اس لئے لاچار ہو کر ہنسنا پڑتا ہے۔ ایک بات اور ہے کہ جو لوگ جذباتی ہوتے ہیں اور وہ بس روتے ہیں،اور رو دھو کر رہ جاتے ہیں، پر جو لوگ ہنسنا سیکھ لیتے ہیں ،وہ کبھی کبھی ہنستے ہنستے اس زندگی کو تبدیل بھی کر ڈالتے ہیں۔‘‘

پھر خربوزہ کاٹتے ہوئے بولے،’’ہٹاؤ جی ان باتوں کو۔ لو آج جونپوری خربوزے ہیں۔ انکی مہک تو دیکھو۔ گلاب کو مات ہے۔ کیا ہے شیام؟ کیوں منہ لٹکائے بیٹھے ہو؟ اجی منہ لٹکانے سے کیا ہوتا ہے! میں اب تمہیں بتاؤں گا کہ جمنا کی شادی کیسے ہوئی؟‘‘

ہم لوگ تو یہی سننا ہی چاہتے تھے اس لئے ایک آواز میں بول اٹھے،’’ہاں، آج جمنا کی شادی کی کہانی رہے۔‘‘

پر مانک ملّا بولے،’’نہیں، پہلے خربوزے کے چھلکے باہر پھینک آؤ۔‘‘

جب ہم لوگوں نے کمرا صاف کر دیا تو مانک ملّا نے سب کو آرام سے بیٹھ جانے کا حکم دیا، طاق پر سے گھوڑے کی پرانی نال اٹھا لائے اور اسے ہاتھ میں لیااور اوپر اٹھا کر بولے،’’یہ کیا ہے؟‘‘

’’گھوڑے کی نال۔‘‘ہم لوگوں نے ایک آواز میں جواب دیا۔

’’ٹھیک۔‘‘ مانک ملّا نے جادوگر کی طرح نال کو حیرت انگیز تیزی سے انگلی پر نچاتے ہوئے کہا،’’یہ نال جمنا کی ازدواجی زندگی کا ایک اہم یادگاری نشان ہے۔ تم لوگ پوچھو گے نہیں کہ کیسے؟ یہ سب میں پوری تفصیل میں بتاتا ہوں۔‘‘

اور مانک ملّا نے تفصیل سے جو بتایا وہ اختصار میں درجِ ذیل ہے۔۔۔

جب بہت دنوں تک جمنا کی شادی نہیں طے ہو پائی اور مایوس ہو کر اس کی ماں پوجاپاٹھ کرنے لگیں اور باپ بینک میں اوورٹائم کرنے لگے تو ایک دن اچانک ان کے گھر ،دورپرے کی ایک رشتہ دار رامو بی بی آئیں اور انہوں نے بیج چھیلتے ہوئے کہا،’’ ہرے رام رام! بٹیا کی اٹھان تو دیکھو۔ جیسن نام تیسن کرنی۔ بھادوں کی جمنا اس پھاٹی پڑت ہے۔‘‘اور پھر جھک کر ماں کے کان میں دھیمے سے بولیں،’’اے کر بیاہ ویاہ کہوں ناہِیں طے کیو؟‘‘

جب ماں نے بتایا کہ برادری والے جہیز بہت مانگ رہے ہیں،اور کہیں ذات پرجات میں دے دینے سے تو اچھا ہے کہ ماں بیٹی گلے سے رسی باندھ کر کنویں میں گر پڑیں تو رامو بی بی فوراً چمک کر بولیں،’’اے اے! کیسی بات جبان سے نکالت ہو جمنا کی اماں! کہت کچھو ناہیں لگت! اور کنویں میں گریں تمہارے دشمن، کنویں میں گرے اڑوس پڑوس والے، کنویں میں گرے تنّا اورمہیسر دلال، دوسرے کا سکھ دیکھ کے جن کے دل پھاٹت ہیں۔‘‘بہرحال ہوا یہ کہ رامو بی بی نے فوراً اپنی کرتی میں سے اپنے بھتیجے کی کنڈلی نکال کر دی اور کہا،’’بکھت پڑے پرآدمی ای آدمی کے کام آوت ہے۔ جو ہارے گاڑھے کَبو کام نہ آوے۔ اُو آدمی کے روپ میں جناور ہے۔ ابھی ای ہمارابھتیجا ہے۔ گھرکا اکیلا، نہ ساس نہ سسر، نہ نند نہ جٹھانی،کونو کِچائن ناہیں ہے گھر میں۔ نانا اوکے نام جاگیر لکھ گئے ہیں۔ گھر میں گھوڑا ہے، تانگہ ہے۔ پرانا نامی خاندان ہے۔ لڑکی رانی مہارانی اس بل سہے۔‘‘

جب شام کو جمنا کی ماں نے یہ خبر باپ کو دی تو اس نے سامنے سے تھالی کھسکا دی اور کہا،’’اس کی دو بیویاں مر چکی ہیں۔رنڈواہے لڑکا۔ مجھ سے چار پانچ برس چھوٹا ہو گا۔‘‘

’’تھالی کاہے کھسکا دی؟ نہ کھائیں میری بلا سے۔ کیوں نہیں ڈھونڈ کے لاتے؟ جب لڑکی کی عمر میرے برابر ہو رہی ہے تو لڑکے کہاں سے گیارہ سال کا مل جائے گا۔‘‘اس بات کو لے کر شوہر اور بیوی میں بہت کہا سنی ہوئی۔ آخر میں جب بیوی پان بنا کر لے گئی اور شوہر کو سمجھا کر کہا،’’لڑکارنڈوا ہے تو کیا ہوا۔ مرد اور دیوار، جتنا پانی کھاتے ہیں اتنا پختہ ہوتے ہیں۔‘‘

جب جمنا کے دروازے بارات چڑھی تو مانک ملّا نے دیکھا اور انہوں نے اس پختہ دیوار کی جو تفصیل بیان کی، اس سے ہم لوگ لوٹ پوٹ ہو گئے۔ جمنا نے اسے دیکھا تو بہت روئی، زیور چڑھا تو بہت خوش ہوئی، چلنے لگی تو یہ عالم تھا کہ آنکھوں سے آنسو نہیں تھمتے تھے اور دل میں امنگیں نہیں تھمتی تھیں۔

جب جمنا لوٹ کر میکے آئی تو تمام سکھیوں کے یہاں گئی۔ انگ انگ پر زیور لدا تھا، رواں رواں باغ باغ تھا اور شوہر کی تعریف کرتے اسکی زبان نہیں تھکتی تھی۔ ’’اے ری کمّو، وہ تو اتنے سیدھے ہیں کہ ذرا سی تین پانچ نہیں جانتے۔ اے، جیسے چھوٹے سے بچے ہوں۔ پہلی دونوں کے میکے والے ساری جائداد لوٹ کرلے گئے، نہیں تو دولت پھٹے پڑتی تھی۔ میں نے کہا کہ اب تمہارے سالے سالی آویں گے تو باہر ہی سے رخصت کروں گی، تم دیکھتے رہنا۔ تو بولے،’’تم گھر کی مالکن ہو۔ صبح شام دال روٹی دے دو بس، مجھے کیا کرنا ہے۔‘‘چوبیس گھنٹے منہ دیکھتے رہتے ہیں۔ ذرا سی کہیں گئی نہیں کہ ارے سنتی ہو، او جی سنتی ہو، اجی کہاں گئیں! میری تو ناک میں دم ہے کمّو! محلے پڑوس والے دیکھ دیکھ کر جلتے ہیں۔ میں نے کہا، جتنا جلو گے اتنا جلاؤں گی۔ میں بھی تب دروازہ کھولتی ہوں، جب دھوپ سر پر چڑھ آتی ہے اور خیال اتنا رکھتے ہیں کہ میں آئی تو ڈھائی سو روپے زبردستی ٹرنک میں رکھ دیئے۔ کہا، ہماری قسم ہے جو اسے لے نہ جاؤ۔‘‘

لیکن جمنا کو جلد ہی سسرال لوٹ جانا پڑا، کیونکہ ایک دن اس کے باپ بہت پریشانی کی حالت میں رات کو آٹھ بجے بینک سے واپس آئے اور بتایا کہ حساب میں ایک سو ستائیس روپیہ تیرہ آنے کی کمی پڑ گئی ہے، اگر کل صبح جاتے ہی انہوں نے جمع نہ کرادیا تو حراست میں لے لئے جائیں گے۔ یہ سنتے ہی گھر میں کہرام مچ گیا اور جمنا نے جھٹ ٹرنک سے نوٹ کی گڈی نکال کر چھپر میں ٹھونس دی اور جب ماں نے کہا،’’بیٹی ادھار دے دو۔‘‘تو چابی ماں کے ہاتھ میں دے کر بولی،’’دیکھ لو نہ،ٹرنک میں دو چار اکنیاں پڑی ہوں گی۔‘‘لیکن جمنا نے سوچا آج بلا ٹل گئی تو ٹل گئی، آخر بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔ اتنا تو پہلے لٹ گیا ہے، اب اگر جمنا بھی ماں باپ پر لٹا دے تو اپنے بال بچوں کے لئے کیا بچائے گی؟ ارے ماں باپ کتنے دنوں کے ہیں؟ اسے سہارا تو اس کے بچے ہی دیں گے نہ!

یہاں پر مانک ملّا کہانی سناتے سناتے رک گئے اور ہم لوگوں کی طرف دیکھ کر بولے،’’پیارے دوستو! ہمیشہ یاد رکھو کہ عورت سب سے پہلے ماں ہوتی ہے تب کچھ اور! اس کاجنم ہی اس لئے ہوتا ہے کہ وہ ماں بنے۔نسل آگے بڑھاوے۔ یہی اس کی عظمت ہے۔ تم نے دیکھا کہ جمنا کے من میں پہلے اپنے بچوں کا خیال آیا۔‘‘

مختصریہ کہ جمنااپنے ممکنہ بال بچوں کا خیال کرکے اپنی سسرال چلی گئی اور خوش وخرم رہنے لگی۔ سچ پوچھو تو یہیں جمنا کی کہانی کا خاتمہ ہوتا ہے۔

’’لیکن آپ نے تو گھوڑے کی نال دکھائی تھی۔ اس کا تو ذکر آیا ہی نہیں؟‘‘

’’اوہ! میں نے سوچا کہ دیکھوں تم لوگ کتنے دھیان سے سن رہے ہو۔‘‘اور پھر انہوں نے اس نال کا قصہ بھی بتایا۔۔۔۔

اصل میں جمنا کے رنڈوے شوہر عرف پختہ دیوار، میں اور جمنا میں اتنا ہی فرق تھا، جتنا پلستر اکھڑی ہوئی پرانی دیوار اور لپے پتے تلسی کے چبوترے میں۔ ادھر ادھر کے لوگ ادھر ادھر کی باتیں کرتے تھے پر جمنا دل و جان سے شوہر قربان تھی۔ شوہر بھی جہاں اسکے گہنے کپڑے کا دھیان رکھتے تھے ،وہیں اسے بھجنامرت، گنگا ماہاتمیہ، گٹکا رامائن وغیرہ جیسے گرنتھ رتن لا کر دیا کرتے تھے۔ اور وہ بھی اس میں ’’اُتّم کے اس بس من ماہِیں‘‘ وغیرہ پڑھ کر فائدہ اٹھایاکرتی تھی۔ ہوتے ہوتے یہ ہوا کہ دھرم کا بیج اس کے دل میں جڑ پکڑ گیا اور بھجن کیرتن، کتھاست سنگ میں اسکا من لگ گیا اور ایسا لگا کہ صبح شام، دوپہر رات وہ دیوانی گھومتی رہے۔روز اسکے یہاں سادھو سنتوں کا کھانا ہوتا رہے اور سادھو سنت بھی ایسے تپسیا والے اور روپ وان کہ دماغ سے روشنی پھوٹتی تھی۔

ویسے اس کی بکتی بہت بے غرض تھی ،مگر جب سادھو سنت اسے آشیرواد دیں کہ ’’سنتانوتی بھو‘‘ تو وہ اداس ہو جایا کرتی۔ اس کے شوہر اسے بہت سمجھایا کرتے تھے،’’اجی یہ تو بھگوان کی مایا ہے اس میں اداس کیوں ہوتی ہو؟‘‘لیکن اولاد کی فکر انہیں بھی تھی، کیونکہ اتنی بڑی جاگیر کے زمیندار کا وارث کوئی نہیں تھا۔ آخر میں ایک دن وہ اور جمنا دونوں ایک جیوتشی کی یہاں گئے، جس نے جمنا کو بتایا کہ اسے کارتک مہینے کی ہر صبح گنگا نہا کر چنڈی دیوی کو پیلے پھول اور برہمنوں کو چنا، جو اور سونے کا دان کرنا چاہئے۔

جمنا اس رسم کے لئے فوری طور پرتیارہو گئی۔ لیکن اتنی صبح کس کے ساتھ جائے! جمنا نے شوہر (زمیندار صاحب) سے کہا کہ وہ ساتھ چلا کریں ،مگر وہ ٹھہرے بوڑھے آدمی، صبح ذرا سی سرد ہوا لگتے ہی انہیں کھانسی کا دورہ آ جاتا تھا۔ آخر میں یہ طے ہوا کہ رامدھن تانگے والا شام کو جلدی چھٹی لیا کرے گا اور صبح چار بجے آ کر تانگہ جوت دیا کرے گا۔

جمنا طے شدہ قاعدوں کے مطابق روز نہانے جانے لگی۔ کارتک مہینے میں کافی سردی پڑنے لگتی ہے اور گھاٹ سے مندر تک اسے بس ایک پتلی ریشمی دھوتی پہن کر پھول چڑھانے جانا پڑتا تھا۔ وہ تھرتھر کانپتی تھی۔ ایک دن مارے سردی کے اسکے ہاتھ پیر سُن پڑ گئے۔ اور وہ وہیں ٹھنڈی ریت پر بیٹھ گئی اور یہ کہا کہ رامدھن اگر اسے اٹھا کر تانگے پر نہ بیٹھا دیتا تو وہ وہیں بیٹھی بیٹھی سردی سے جم جاتی۔

آخر میں رامدھن سے نہ دیکھا گیا۔ اس نے ایک دن کہا،’’بہو جی، آپ کاہے جان دییہ پر اُتارُو ہو۔اَ یسن تپسیا تو گورا مائی یو نیں کرن ہوئیں۔ بڑے بڑے جوتسی کا کہا کر لیو اب ایک غریب کا بھی کہا کے لیو۔‘‘جمنا کے پوچھنے پر اس نے بتایاکہ جس گھوڑے کی پیشانی پر سفید تلک ہو، اس کے اگلے بائیں پاؤں کی گھسی ہوئی نال ،چاندگرہن کے وقت اپنے ہاتھ سے نکال کر اس کی انگوٹھی بنوا کر پہن لے توسب تمنائیں پوری ہو جاتی ہیں۔

لیکن جمنا کے لیے یہ قابل قبول نہیں ہوا، کیونکہ پتہ نہیں چاندگرہن کب پڑے۔ رامدھن نے بتایا کہ چاندگرہن دو تین دن بعد ہی ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ نال ابھی نیا لگوایا ہے، وہ تین دن کے اندر کیسے گھسے گا اور نیا کچھ اثرنہیں رکھتا۔

’’تو پھر کیا ہو، رامدھن؟ تم ہی کوئی حل بتاؤ۔‘‘

’’مالکن، ایک ہی حل ہے۔‘‘

’’کیا؟‘‘

’’تانگہ روز کم از کم بارہ میل چلے۔ لیکن مالک کہیں جاتے نہیں۔ اکیلے مجھے تانگہ لے نہیں جانے دیں گے۔ آپ چلیں تو ٹھیک رہے۔‘‘

’’لیکن ہم بارہ میل کہاں جائیں گے؟‘‘

’’کیوں نہیں سرکار!آپ صبح ذرا اور جلدی دو ڈھائی بجے نکل جائیں! گنگاپار پکی سڑک ہے، بارہ میل گھما کر ٹھیک وقت پر حاضر کر دیا کروں گا۔ تین دن کی ہی تو بات ہے۔‘‘

جمنا مان گئی اور تین دن تک روز تانگہ گنگاپار چلا جایا کرتا تھا۔ رامدھن کا اندازہ ٹھیک نکلا اور تیسرے دن چاندگرہن کے وقت نال اتروا کر انگوٹھی بنوائی گئی اور انگوٹھی کی کرامت دیکھئے کہ زمیندار صاحب کے یہاں نوبت بجنے لگی اور نرس نے پورے ایک سو روپے کی بخشش لی۔

زمیندار بیچارے عمردراز ہو چکے تھے اور انہیں بہت تکلیفیں بھی تھی، وارث بھی ہو چکا تھا، اس لئے بھگوان نے ان کو اپنے دربار میں بلا دیا۔ جمنا شوہر کے فراق میں دھاڑے مار مار کر روئی، چوڑی کنگن جلا ڈالے، کھانا پینا چھوڑ دیا۔ آخر میں پڑوسیوں نے سمجھایا کہ چھوٹا بچہ ہے، اس کا منہ دیکھنا چاہئے۔ جو ہونا تھا سو ہو گیا۔ یہ تو مقدرہے۔ اس پر کس کا بس چلتا ہے۔۔ پڑوسیوں کے بہت سمجھانے پر جمنا نے آنسو پونچھے۔ گھر بار سنبھالا۔ اتنی بڑی کوٹھی تھی، اکیلے رہنا ایک بیوہ عورت کیلئے غیر مناسب تھا، اس لئے اس نے رامدھن کو ایک کوٹھری دی اور پاکیزگی سے زندگی بسر کرنے لگی۔

جمنا کی کہانی ختم ہو چکی تھی۔ لیکن ہم لوگوں کی پریشانی یہ تھی کہ مانک ملاّ کو یہ گھسی نال کہاں سے ملی، اس کی تو انگوٹھی بن چکی تھی۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ایک دن کہیں ریل کے سفر میں مانک ملّا کو رامدھن ملا۔ سلک کا کرتا، پانوں کا ڈبہ، بڑے ٹھاٹ تھے اسکے۔ مانک ملّا کو دیکھتے ہی اس نے اپنے بھاگ جاگنے کی ساری کہانی سنائی اور کہا کہ واقعی گھوڑے کی نال میں بڑی تاثیر ہوتی ہے۔ اور پھر اس نے ایک نال مانک ملّا کے پاس بھیج دی تھی، اگرچہ انہوں نے اس کی انگوٹھی نہیں بنوائی۔ بلکہ اسے حفاظت سے رکھ لیا۔

کہانی سنا کر مانک ملّا،شیام کی طرف دیکھ کر بولے،’’دیکھا شیام، بھگوان جو کچھ کرتا ہے بھلے کیلئے کرتا ہے۔ آخر جمنا کو کتنا سکھ ملا۔ آپ بیکار میں دکھی ہو رہے تھے؟ کیوں؟‘‘

شیام نے خوشی خوشی قبول کیا کہ وہ بیکار میں دکھی ہو رہا تھا۔ آخر میں مانک ملّا بولے،’’لیکن اب بتاؤ اسکا نتیجہ کیا نکلا؟‘‘

ہم لوگوں میں سے جب کوئی نہیں بتا سکا تو انہوں نے بتایا،’’ اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ دنیا کا کوئی بھی کام برا نہیں۔ کسی بھی کام کو نیچی نگاہ سے نہیں دیکھنا چاہئے پھر چاہے وہ تانگہ چلانا ہی کیوں نہ ہو۔‘‘

ہم سبھوں کو اس کہانی کا یہ انجام بہت اچھا لگا اور ہم سب نے حلف اٹھا لیا کہ کبھی کسی قسم کے ایماندارانہ کام کو نیچی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے ،پھرچاہے وہ کچھ بھی کیوں نہ ہو۔

اس طرح مانک ملّا کی دوسری نان فکشن کہانی ختم ہوئی۔

متفرقات

جمنا کی زندگی کی کہانی ختم ہو چکی تھی اور ہم لوگوں کو اس کی زندگی کا ایسا خوشگوار حل دیکھ کر بہت اطمینان ہوا۔ ایسا لگا کہ جیسے تمام تردھاتی کشتے گھس گھس کر ٹھنڈے یافائدہ مند بنائے جاتے ہیں،ایسے ہی اس بدنصیب کی زندگی، ان تما م تر تکالیف اور مصائب میں گھس گھس کر پرسکون ، روشنی بھری، مقدس، بے داغ ہو گئی۔

رات کو جب ہم لوگ حکیم جی کے چبوترے پر اپنی اپنی کھاٹ اور بسترا لے کر جمع ہوئے تو جمنا کی زندگی کی کہانی ہم سبھوں کے دل ودماغ پر چھائی ہوئی تھی اور اس کو لے کر جو بات چیت اور بحث ہوئی، اسکی ڈرامائی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے۔۔۔۔

میں: (پلنگ پر بیٹھ کر، تکیے کو اٹھا کر گود میں رکھتے ہوئے) بھئی کہانی بہت اچھی رہی۔

اونکار: (جمائی لیتے ہوئے) رہی ہوگی۔

پرکاش : (کروٹ بدل کر) لیکن تم لوگوں نے اس کا مطلب بھی سمجھا؟

شیام: (جوش سے) کیوں، اس میں کون سی مشکل زبان تھی؟

پرکاش : یہی تو مانک ملّاکی خوبی ہے۔ اگر ذرا سابھی دل لگا کر تم ان کی بات نہیں سمجھتے تو گئے، فوراً ہی تمہارے ہاتھ سے اصل مال نکل جائے گا، ہلکا پھلکا بھوسا ہاتھ آئے گا۔ اب یہ بتاؤکہ کہانی سن کر کیا احساس اٹھا تمہارے دل میں؟تم بتاؤ۔

میں: (یہ سمجھ کر کہ ایسے موقع پر تھوڑی تنقید کرنا بزرگی کی علامت ہے) بھئی، مجھے تو یہی سمجھ میں نہیں آیا کہ مانک ملّا نے جمنا جیسے کردار کی کہانی کیوں سنائی؟ شکنتلا جیسی بھولی بھالی یا رادھا جیسی پوتر کرداراٹھاتے، یا بڑے ماڈرن بنتے ہیں تو سنیتا جیسی بہادر کردار لیتے یا دیوسینا، شیکھر جیسی تمام اقسام مل سکتی تھیں۔

پرکاش : (سقراط کے سے انداز میں) لیکن یہ بتاؤ کہ زندگی میں زیادہ تر کردار جمنا جیسے ملتے ہیں یا رادھا ،سودھا، گیسو، سنیتا یا دیوسیناجیسے؟

میں: (چالاکی سے خودکو بچاتے ہوئے) پتہ نہیں! میراان سب کے بارے میں کوئی خاص تجربہ نہیں۔ یہ تو آپ ہی بتا سکتے ہیں۔

شیام: بھائی، ہمارے چاروں جانب بدقسمتی سے نوے فیصد لوگ تو جمنا اور رامدھن کی طرح کے ہوتے ہیں، لیکن اس سے کیا کہانی نویس کو آنکھیں بند کر دینی چاہئیں۔

پرکاش : یہ تو ٹھیک ہے۔ پر اگر کسی جمی ہوئی جھیل پراوپرآدھے انچ برف ہواور نیچے لا محدود پانی اور وہیں ایک گائیڈ کھڑا ہے جو اس پر سے آنے والوں کو اس کے آدھے انچ ہونے کی تو اطلاع دے دیتا ہے اور نیچے موجود پانی کی خبر نہیں دیتا تو وہ راہگیروں کو دھوکہ دیتا ہے یا نہیں؟

میں: کیوں نہیں؟

پرکاش : اور اگر وہ راہگیر برف ٹوٹنے پر پانی میں ڈوب جائیں تو اس کا وبال گائیڈ پر پڑے گا نہ!

شیام: اور کیا؟

پرکاش : بس،مانک بھی تمہاری توجہ اس لامحدود پانی کی طرف دلا رہے ہیں جہاں موت ہے، اندھیرا ہے، کیچڑاور گندگی ہے۔ یا تو دوسرا راستہ بناؤنہیں تو ڈوب جاؤ۔ لیکن آدھے انچ کی اوپرجمی برف کچھ کام نہ دے گی۔ ایک طرف نئے لوگوں کا یہ رومانی نقطہ نظر، یہ جذباتیت، دوسری طرف بوڑھوں کا یہ آدرش اور جھوٹی غیرعلمی عزت، صرف آدھا انچ برف ہے، جس نے پانی کی گہرائیوں کو چھپا رکھا ہے۔

میں اوراونکار: (بور ہوجاتے ہیں، سوچتے ہیں کب یہ لیکچر بند ہو۔)

پرکاش : (جوش سے کہتا جاتا ہے) جمنا متوسط طبقے کا ایک بھیانک مسئلہ ہے۔معاشی بنیاد کھوکھلی ہے۔ اس کی وجہ سے شادی، خاندان، محبت ، سب کی بنیادیں ہل گئی ہیں۔مایوسی چھائی ہوئی ہے۔ پر سب اس طرف سے آنکھیں موندے ہیں۔ اصل میں پوری زندگی کا سسٹم بدلنا ہو گا۔

میں: (بورہو کر جمائی لیتا ہوں۔)

پرکاش : کیوں؟ نیند آ رہی ہے تمہیں؟ میں نے کئی بار تم سے کہا کہ کچھ پڑھو لکھو۔ بس ناول پڑھتے رہتے ہو۔ سنجیدہ چیزیں پڑھو۔ سماج کا ڈھانچہ، اس کی ترقی، اس کا مفہوم، اخلاقیات، ادب کا مقام ۔۔۔

میں: (بات کاٹ کر) میں نے کچھ پڑھا نہیں۔۔بس تم ہی نے پڑھا ہے۔ (یہ دیکھ کر کہ پرکاش کی دانش مندی کا رعب لوگوں پر جم رہا ہے، میں کیوں پیچھے رہوں) میں بھی اس کی مارکسی تشریح کر سکتا ہوں ۔

پرکاش : کیا؟ کیا تشریح دے سکتے ہو؟

میں: (اکڑ کر) مارکسی!

اونکار: ارے یار، رہنے بھی دو۔

شیام: مجھے نیند آ رہی ہے۔

میں: دیکھئے، اصل میں اس کی مارکسی تشریح کچھ اس طرح سے ہو سکتی ہے کہ جمنا انسانیت کی علامت ہے، متوسط طبقہ (مانک ملّا) اور امیر طبقہ (زمیندار) اس کو انجام دینے میں ناکام رہے، آخر میں نچلا طبقہ (رامدھن) نے اس کو نئی سمت سُجھائی۔

پرکاش : کیا؟ (لمحے بھرکو ساکت ہوگیا۔ پھر ماتھا ٹھونک کر) بیچارا مارکسزم بھی ایسا بدنصیب نکلا کہ تمام دنیا میں فتح کے جھنڈے گاڑ آیا اور ہندوستان میں آ کر اسے بڑے بڑے نمونے مل گئے۔ تم ہی کیا، اسے ایسے ایسے شارحین یہاں ملے ہیں کہ وہ بھی اپنی قسمت کو روتا ہوگا۔ (زوروں سے ہنستا ہے، میں اپنی ہنسی اڑتے دیکھ کر اداس ہو جاتا ہوں۔)

حکیم جی کی بیوی: (پردے کے پیچھے سے) میں کہتی ہوں یہ چبوترہ ہے یا سبزی منڈی۔ جسے دیکھو پلنگ اٹھائے چلا آ رہا ہے۔ آدھی رات تک کِل کِل! کل سے سب کو نکالو یہاں سے۔

حکیم جی: (پردے کے پیچھے سے کانپتی ہوئی بوڑھی آواز) ارے بچے ہیں۔ ہنس بول لینے دے۔ تیرے اپنے بچے نہیں ہیں پھر دوسروں کو کیوں کھانے دوڑتی ہے ۔۔۔ (ہم سب پر سکتہ چھا جاتا ہے۔ میں بہت اداس ہو کر لیٹ جاتا ہوں۔ نیم پر سے نیند کی پریاں اترتی ہیں، پلکوں پر چھم چھم، چھم چھم رقص کرتی ہیں)۔

(پردہ گرتا ہے)

***

تیسری دوپہر

عنوان مانک ملّا نے نہیں بتایا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم لوگ صبح سو کر اٹھے تو دیکھا کہ راتوں رات اچانک ہوا بالکل رک گئی ہے اور اتنی اُمس ہے کہ صبح پانچ بجے بھی ہم لوگ پسینے میں تربتر تھے۔ ہم لوگ اٹھ کر خوب نہائے مگر اُمس اتنی شدید تھی کہ کوئی بھی حل کام نہ آیا۔ پتہ نہیں ایسی اُمس اس شہر کے باہر بھی کہیں ہوتی ہے یا نہیں۔ پر یہاں تو جس دن ایسی اُمس ہوتی ہے ،اس دن تمام کام رک جاتے ہیں۔ سرکاری دفتروں میں کلرک کام نہیں کر پاتے، سپرنٹنڈنٹ بڑے بابوؤں کو ڈانٹتے ہیں، بڑے بابو چھوٹے بابوؤں پر جھنجلاہٹ اتارتے ہیں، چھوٹے بابو چپراسیوں سے بدلہ لیتے ہیں اور چپراسی گالیاں دیتے ہوئے پانی پلانے والوں ،بہشتیوں اور مالیوں سے الجھ جاتے ہیں، دکاندار مال نہیں بیچتے بلکہ گاہکوں کو کھسکا دیتے ہیں اور رکشے والے اتنا کرایہ مانگتے ہیں کہ سواریاں پریشان ہو کر سواری نہ کریں۔ اور ان تمام سماجی اتھل پتھل کے پیچھے تاریخی منطقی استدلال کا اصول نہیں ہوتا ، ہوتا ہے تو فقط درجہ حرارت یعنی ٹمپریچر، اُمس، ایک سو بارہ ڈگری فارن ہائیٹ!

لیکن اس اُمس کے باوجود مانک ملّا کی کہانیاں سننے کا لالچ ہم لوگوں سے چھوٹ نہیں پاتا تھا، اس لئے ہم سب کے سب مقررہ وقت پر وہیں جمع ہوئے ،اور تو اورسب سے پہلے بجائے سلام دعا کے یہی کہا گیا،’’آج بہت اُمس ہے۔‘‘

’’ ہاں جی، بہت اُمس ہے؛ اُ ف او۔‘‘

صرف پرکاش جب آیا اور اس سے سب نے کہا کہ آج بہت اُمس ہے تو فلسفہ جھاڑتے ہوئے افلاطون کی طرح منہ بنا کر بولا (اپنے اس طنزبھرے تبصرے کیلئے معذرت خواہ ہوں، کیونکہ گزشتہ رات اس نے مارکسزم کے سوال پر مجھے نیچادکھایا تھا اور سچے فعال مارکسیوں کی مانند میں جھنجلااٹھا تھا اور میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ صحیح بات بھی کرے گا تو میں اس کی مخالفت کروں گا)، بہرحال پرکاش بولا،’’ بھائی جی، جواُمس ہم سب کی زندگیوں میں چھائی ہوئی ہے، اس کے سامنے تو یہ کچھ نہیں ہے۔ ہم سب نیم متوسط طبقے کے لوگوں کی زندگیوں میں ہوا کا ایک تازہ جھونکا تک نہیں۔ چاہے دم گھٹ جائے پر پتا نہیں ہلتا، دھوپ جسے روشنی دینا چاہئے، ہمیں بری طرح جھلسا رہی ہے اور سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کریں۔ کسی نہ کسی طرح نئے اور تازہ ہوا کے جھونکے چلنے چاہئیں۔ چاہے لو کے ہی جھونکے کیوں نہ ہوں۔‘‘

پرکاش کی اس حماقت بھری بات پر کوئی کچھ نہیں بولا۔ (میرے جھوٹ کیلئے معذرت ،کیونکہ مانک نے اس بات کی زور سے تائید کی تھی، پر میں نے کہہ دیا نا کہ میں اندر ہی اندر چڑ گیا ہوں!)

’’خیر۔‘‘ تو مانک ملّا بولے کہ،’’جب میں محبت پر اقتصادی اثرات کی بات کرتا ہوں تو میرا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اصل میں اقتصادی ڈھانچہ ہمارے من پر اتنے عجیب وغریب انداز سے اثر ڈالتا ہے کہ من کے سارے جذبات اس سے مطابقت نہیں کر پاتے اور ہم جیسے لوگ جو نہ اپّر کلاس کے ہیں،اور نہ لوئرکلاس کے، ان کے یہاں رسم و رواج، روایتیں،طور طریقے بھی ایسے پرانے اور زہریلے ہیں کہ مجموعی طور پر ہم سب پر ایسا اثر ڈالا ہے کہ ہم صرف ایک مشین یا ایک پرزہ بن کر ہی رہ جاتے ہیں ہمارے اندر ہمت اور اونچے خواب ختم ہو جاتے ہیں اور ایک عجب سی مردم بیزاری ہم پر چھا جاتی ہے۔‘‘

پرکاش نے جب اس کی حمایت کی تو میں نے انکی مخالفت اور کہا،’’لیکن انسان کو تو ہر حالت میں ایماندار بنے رہنا چاہئے۔ یہ نہیں کہ ٹوٹتاپھوٹتا چلا جائے۔‘‘

اس پر مانک ملّا بولے،’’یہ سچ ہے،مگر جب پورے نظام میں بے ایمانی ہو تو ایک شخص کی ایمان

سورج کا ساتواں گھوڑا

( نئے ڈھنگ کا مختصر ہندی ناول )

دھرم ویر بھارتی

مترجم:عامرصدیقی

***

ترتیب

پہلی دوپہر۔۔۔۔نمک کی ادائیگی

دوسری دوپہر۔۔۔۔گھوڑے کی نال

تیسری دوپہر۔۔۔۔عنوان مانک ملّا نے نہیں بتایا

چوتھی دوپہر۔۔۔۔مالوا کی یُورانی دیوسینا کی کہانی

پانچویں دوپہر۔۔۔۔کالے دستے کا چاقو

چھٹی دوپہر۔۔۔۔گزشتہ سے پیوستہ

ساتویں دوپہر۔۔۔۔سورج کا ساتواں گھوڑا

****

پہلی دوپہر

نمک کی ادائیگی

یعنی مانک نے جمنا کانمک کیسے ادا کیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انہوں نے سب سے پہلی کہانی ایک دن گرمیوں کی دوپہر میں سنائی تھی، جب ہم لوگ لو کے خوف سے کمرا چاروں طرف سے بند کر کے، سر کے نیچے بھیگا تولیہ رکھے خاموشی سے لیٹے تھے۔ پرکاش اور اونکار تاش کے پتے بانٹ رہے تھے اور میں اپنی عادت کے مطابق کوئی کتاب پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اچانک مانک نے مجھ سے کتاب چھین کر پھینک دی اور بزرگانہ انداز میں کہا،’’یہ لڑکا بالکل نکما نکلے گا۔ میرے کمرے میں بیٹھ کر دوسروں کی کہانیاں پڑھتا ہے۔ بول کتنی کہانیاں سنے گا۔‘‘سبھی اٹھ بیٹھے اورمانک ملّا سے کہانی سنانے کا اصرار کرنے لگے۔ آخر میں مانک ملّا نے ایک کہانی سنائی، جس میں انکی کہانی کے مطابق اسکا تجزیہ یہ کیا تھا کہ پیارنامی احساس کوئی پراسرار، روحانی یا سیدھا سادا انفرادی احساس نہیں ہے بلکہ حقیقتاً ایک سیدھا سادہ سماجی احساس ہے، اس لئے سماجی نظام سے جڑا ہوتا ہے اور اس کی بنیاد معاشی اور طبقاتی اونچ نیچ پر قائم ہے۔

روایت کے مطابق پہلے انہوں نے کہانی کا عنوان بتایا، ’’نمک کی ادائیگی‘‘۔ اس عنوان پر ناول نگاری کے شہنشاہ پریم چند کے ’’نمک داروغہ‘‘ کے کافی اثرات معلوم ہوتے تھے،لیکن کہانی سیدھی سادی اور اصلی تھی۔ کہانی کچھ اس طرح سے تھی ۔۔۔۔

مانک ملّا کے گھر کے ساتھ ایک پرانی کوٹھی تھی ،جس کے پیچھے چھوٹا سااحاطہ تھا۔ احاطے میں ایک گائے رہتی تھی،اور کوٹھی میں ایک لڑکی۔ لڑکی کا نام جمنا تھا، گائے کا نام معلوم نہیں۔ گائے بوڑھی تھی، رنگ لال تھا،اور سینگ نوک دار۔ لڑکی کی عمر پندرہ سال کی تھی، رنگ گندمی اور لہجہ میٹھا،ہنس مکھ اور الھڑ۔ مانک ، جن کی عمر صرف دس برس کی تھی، اسے جمنیاں کہہ کر بھاگا کرتے تھے اور وہ بڑی ہونے کی وجہ سے جب کبھی مانک کو پکڑ پاتی تھی تو انکے دونوں کان مروڑتی اور چٹکیاں کاٹ کر سارا بدن لال کر دیتی۔ مانک ملاّ فرار کی کوئی راہ نہ پا کر چیختے تھے، معافی مانگتے اوربھاگ جاتے تھے۔

لیکن جمنا کے دو کام مانک ملّا کے سپرد تھے۔ الہ آباد سے نکلنے والے جتنے سستے قسم کے رومانی کہانیوں کے رسائل ہوتے تھے، وہ جمنا انہیں سے منگواتی تھی اور شہر کے کسی بھی سنیما گھر میں اگر نئی پکچر آتی تو اسکے گانوں کی کتاب بھی مانک کو خریدکر لانی پڑتی تھی۔ اس طرح جمنا کا گھریلو ’’کتب خانہ‘‘ روز بروز بڑھتا جا رہا تھا۔

وقت گزرتے کتنی دیر لگتی ہے۔ کہانیاں پڑھتے پڑھتے اور سنیما کے گیت یاد کرتے کرتے جمنا بیس برس کی ہو گئی اورمانک پندرہ برس کے اوربھگوان کی مایا دیکھو کہ جمنا کا بیاہ ہی کہیں طے نہیں ہوا۔ ویسے بات چلی ضرور۔ قریب ہی رہنے والے مہیسردلال کے لڑکے تنّا کے بارے میں سارا محلہ کہا کرتا تھا کہ جمناکا بیاہ اسی سے ہوگا، کیونکہ تنّا اور جمنا میں بہت جمتی تھی، تنّا، جمنا کی برادری کا بھی تھا، حالانکہ کچھ نیچے درجے کا تھا اور سب سے بڑی بات یہ تھی کہ مہیسردلال سے سارا محلہ ڈرتا تھا۔ مہیسرجتناجھگڑالو، مغرور اور فحش گو تھا، تنّا اتنا ہی سیدھا، شائستہ اور نرم گو ، سارا محلہ اس کی تعریفیں کیا کرتا تھا۔

لیکن جیسا پہلے کہا جا چکا ہے کہ تنّا تھوڑے نچلے درجے کا تھا اور جمنا کا خاندان ساری برادری میں کھرے اور اونچے ہونے کیلئے مشہور تھا، اس لئے جمنا کی ماں کی رائے نہیں مانی گئی۔ چونکہ جمنا کے پِتا بینک میں بس عام سے کلرک بھر تھے اور تنخواہ سے کیا آتا جاتا تھا، تیج تہوار، موڑن دیوکاج میں ہر سال جمع شدہ رقم خرچ کرنی پڑتی تھی، اس لئے جیسا ہر درمیانے طبقے میں ہوتا ہے، بہت جلد سارا جمع شدہ روپیہ خرچ ہو گیا اور شادی کے لئے کانی کوڑی نہیں بچی۔

اور بیچاری جمنا،تنّا سے سگائی ٹوٹ جانے کے بعد خوب خوب روئی۔ پھر آنسو پونچھے، پھر فلم کے نئے گیت یاد کئے اور اس طرح سے ہوتے ہوتے ایک دن بیس کی عمر کو بھی پار کر گئی۔ اور ادھرمانک کا یہ حال کہ جیسے جیسے جمنا کی عمر بڑھتی جائے، ویسے ویسے وہ کبھی دبلی تو کبھی موٹی ہوتی جائے اور ایسی کہ مانک کو بھلی بھی لگے اور بری بھی۔ لیکن اسے ایک بری عادت پڑ گئی تھی کہ چاہے مانک ملّا اسے چڑائے یا نہ چڑائے وہ انہیں کونے کدھروں میں پاتے ہی اس طرح دبوچتی تھی کہ مانک ملّا کا دم گھٹنے لگتا تھا اور اسی لیے مانک ملّا اسکی چھایا سے بھی کتراتے تھے۔

لیکن قسمت کی مار دیکھئے کہ اسی وقت محلے میں دھرم کی لہر چل پڑی اور تمام عورتیں جنکی لڑکیاں بیاہنے سے رہ گئی تھیں، جن کے شوہر ہاتھ سے نکلے جا رہے تھے، جن کے لڑکے لڑائی میں چلے گئے تھے، جن کے دیور بک گئے تھے، جن پر قرض ہو گیا تھا۔ سب نے بھگوان کی شرن لی اور کیرتن شروع ہو گئے اور کنٹھیاں لی جانے لگیں۔ مانک کی بھابھی نے بھی ہنومان چوتراوالے برہمچاری سے کنٹھی لی اور قاعدے کے مطابق دونوں وقت بھوگ لگانے لگیں۔ اور صبح شام پہلی ٹکّی گاؤ ماتا کے نام سینکنے لگیں۔ گھر میں گائے توتھی نہیں اس لئے کوٹھی کی بوڑھی گائے کو وہ ٹکّی دونوں وقت کھلائی جاتی تھی۔ دوپہر کو تو مانک اسکول چلے جاتے تھے، دن کا وقت رہتا تھام اس لئے بھابھی خود چادر اوڑھ کر گائے کو روٹی کھلانے آتی تھیں پر رات کو مانک کو ہی جانا پڑتا تھا۔

گائے کے احاطے کے قریب جاتے ہوئے مانک ملّا کی روح کانپتی تھی۔ جمنا کا کان کھینچنا انہیں اچھا نہیں لگتا تھا (اور اچھا بھی لگتا تھا!) چنانچہ ڈر کے مارے رام کا نام لیتے ہوئے خوشی خوشی وہ گائے کے احاطے کی طرف جایا کرتے تھے۔

ایک دن ایسا ہوا کہ مانک ملّا کے یہاں مہمان آئے اور کھانے پینے میں کافی رات گزر گئی۔ مانک سو گئے تو ان کی بھابھی نے انہیں جگا کر ٹکّی دی اور کہا،’’گائے کو دے آؤ۔‘‘ مانک نے کافی بہانے بازی کی ،لیکن ان کی ایک نہ چلی۔ آخر کار آنکھیں ملتے ملتے احاطے کے پاس پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ گائے کے پاس بھوسے والی کوٹھری کے دروازے پر کوئی پرچھائیں ،بالکل کفن جیسے سفید کپڑے پہنے کھڑی ہے۔ ان کا کلیجہ منہ کو آنے لگا،تاہم انہوں نے سن رکھا تھا کہ بھوت کے آگے آدمی کو ہمت باندھے رکھنا چاہئے اور اسے پیٹھ نہیں دکھلانی چاہئے، ورنہ اسی وقت آدمی کا دم نکل جاتا ہے۔

مانک ملّا سینہ تانے اور کانپتے ہوئے پیروں کو سنبھالے ہوئے آگے بڑھتے گئے اور وہ عورت وہاں سے غائب ہو گئی۔ انہوں نے بار بار آنکھیں مل کر دیکھا، وہاں کوئی نہیں تھا۔ انہوں نے اطمینان کی سانس لی، گائے کو ٹکّی دی اور واپس چلے۔ اتنے میں انہیں لگا کہ کوئی ان کا نام لے کر پکار رہا ہے۔ مانک ملّا خوب جانتے تھے کہ بھوت محلے بھر کے لڑکوں کا نام جانتے ہیں، اس لئے انہوں نے رکنا محفوظ نہیں سمجھا۔ لیکن آواز قریب آتی گئی اور اچانک کسی نے پیچھے سے آ کر مانک ملّا کا کالر پکڑ لیا۔ مانک ملّا گلا پھاڑ کر چیخنے ہی والے تھے کہ کسی نے ان کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ وہ اس لمس کوبخوبی پہچانتے تھے، جمنا!

لیکن جمنا نے کان نہیں مروڑے اور کہا،’’چلو آؤ۔‘‘ مانک ملّا بے بس تھے۔چپ چاپ چلے گئے اور بیٹھ گئے۔ اب مانک بھی چپ اور جمنا بھی خاموش۔ مانک ،جمنا کو دیکھیں، جمنا ،مانک کو دیکھے اور گائے ان دونوں کو دیکھے۔۔۔۔ تھوڑی دیر بعد مانک نے گھبرا کر کہا،’’ہمیں جانے دو جمنا۔‘‘

جمنا نے کہا،’’ بیٹھو، باتیں کرو مانک ۔ دل بڑا گھبراتا ہے۔‘‘

مانک پھر بیٹھ گئے۔ اب بات کریں تو کیا کریں؟ ان کی کلاس میں ان دنوں جغرافیہ میں نہر سوئیز، تاریخ میں شہنشاہ جلال الدین اکبر، ہندی میں’’ سوانح عمریاں‘‘ اور انگریزی میں ’’ریڈ رائیڈنگ ہڈ‘‘ پڑھائی جا رہی تھی، پر جمنا سے اسکی باتیں کیا کریں! تھوڑی دیر بعد مانک بور کر بولے،’’ہمیں جانے دو جمنا، نیند آ رہی ہے۔‘‘

’’ابھی کون سی رات گزر گئی ہے، بیٹھو۔‘‘کان پکڑ کر جمنا بولی۔

مانک نے گھبرا کر کہا،’’نیند نہیں لگ رہا ہے، بھوک لگ رہی ہے۔‘‘

’’بھوک لگ رہی ہے! اچھا، جانا نہیں! میں ابھی آئی۔‘‘اتناکہہ جمنا فوراً پچھواڑے کے صحن میں سے ہو کر اندر چلی گئی۔ مانک کی سمجھ میں نہیں آیا کہ آج جمنا اچانک اتنی مہربان کیوں ہو رہی ہے،ابھی وہ سوچ ہی رہے تھے کہ اتنے میں جمنا لوٹ آئی اور آنچل کے نیچے سے دو چار پوئے نکالتے ہوئے بولی،’’لو کھاؤ۔ آج تو ماں بھاگوت کی کتھا سننے گئی ہیں۔‘‘اور جمنا اسی طرح مانک کو اپنی طرف کھینچ کرپوئے کھلانے لگی۔

ایک ہی پوا کھانے کے بعد مانک ملّا اٹھنے لگے تو جمنا بولی،’’اور کھاؤ۔‘‘تو مانک ملّا نے اس سے کہا کہ انہیں میٹھے پوئے اچھے نہیں لگتے، انہیں بیسن کے نمکین والے اچھے لگتے ہیں۔

’’اچھا کل تمہارے لئے بیسن کے نمکین بناکر رکھوں گی۔ کل آؤ گے؟ کہانی تو سات روز تک ہوگی۔‘‘ مانک نے اطمینان کی سانس لی۔ اٹھ کھڑے ہوئے۔ لوٹ کر آئے تودیکھا کہ بھابھی سو رہی تھیں۔ مانک ملّا خاموشی سے گاؤماتا کا دھیان کرتے ہوئے سو گئے۔

دوسرے دن مانک ملّا نے جانے کی کوشش کی، کیونکہ انہیں جانے میں ڈر بھی لگتا تھا اور وہ جانا بھی چاہتے تھے۔ اور نہ جانے کون سی چیز تھی جو اندر ہی اندر انہیں کہتی تھی،’’ مانک ! یہ بہت بری بات ہے۔ جمنا اچھی لڑکی نہیں۔‘‘اور ان کے ہی اندر کوئی دوسری چیز تھی جو کہتی تھی،’’ چلو مانک ! تمہارا کیا بگڑتا ہے۔ چلو دیکھیں تو کیا ہے؟‘‘اور ان دونوں سے بڑی چیز تھی، نمکین بیسن کا پوا، جس کیلئے مورکھ مانک ملّا اپنا لوک پرلوک دونوں خراب کرنے کیلئے تیار تھے۔

اس دن مانک ملّا گئے تو جمنا نے دھانی رنگ والی وائل کی ساڑی پہنی تھی، ارگنڈی کا مہین بلاؤز پہنا تھا، دو چوٹیاں کی تھیں، پیشانی پر چمکتی ہوئی بندیا لگائی تھی۔ مانک اکثر دیکھتے تھے کہ جب لڑکیاں اسکول جاتی تھیں تو ایسے ہی سج دھج کر جاتی تھیں، گھر میں تو میلی دھوتی پہن کر فرش پر بیٹھ کر باتیں کیا کرتی تھیں، اس لئے انہیں بڑا تعجب ہوا۔ بولے،’’جمنا، کیا ابھی اسکول سے لوٹ رہی ہو؟‘‘

’’اسکول؟ اسکول جانا تو ماں نے چار سال سے چھڑا دیا۔ گھر میں بیٹھی بیٹھی یا تو کہانیاں پڑھتی ہوں یا پھر سوتی ہوں۔‘‘ مانک ملّا کی سمجھ میں نہیں آیا کہ جب دن بھر سونا ہی ہے تو اس سج دھج کی بھلاکیا ضرورت ہے۔ مانک ملّا حیرت سے منہ کھولے دیکھتے رہے۔ اس پر جمنا بولی،’’آنکھ پھاڑپھاڑ کر کیا دیکھ رہے ہو! اصلی جرمنی کی ارگنڈی ہے۔ چچا کلکتے سے لائے تھے، بیاہ کیلئے رکھی تھی۔ یہ دیکھو چھوٹے چھوٹے پھول بھی بنے ہیں۔‘‘

مانک ملّا کو بہت تعجب ہوا ،اس ارگنڈی کو چھو کر، جو کلکتہ سے آئی تھی، اصلی جرمنی کی تھی اور جس پر چھوٹے چھوٹے پھول بنے تھے۔

مانک ملّا جب گائے کو ٹکّی کھلا چکے تو جمنا نے بیسن کے نمکین پوئے نکالے۔ اور ساتھ ہی کہا،’’پہلے بیٹھ جاؤتب کھلائیں گے۔‘‘

مانک خاموشی سے کھانے لگے۔ جمنا نے چھوٹی سی بیٹری جلا دی، مگر مانک مارے خوف کے کانپ رہے تھے۔ انہیں ہر لمحے یہی لگتا تھا کہ تنکوں میں سے ابھی سانپ نکلا، ابھی بچھو نکلا، ابھی کنکھجورا نکلا۔ روندھے گلے سے بولے،’’ہم کھائیں گے نہیں۔ ہمیں جانے دو۔‘‘

جمنا بولی،’’کیتھے کی چٹنی بھی ہے۔‘‘اب مانک ملّا مجبور ہوگئے۔ کیتھا انہیں خصوصیت سے پسند تھا۔ آخر کار سانپ بچھو کے خوف کو بھگا کر کسی طرح وہ بیٹھ گئے۔ پھر وہی منظرکہ جمنا کو مانک خاموشی سے دیکھیں اور مانک کو جمنا اور گائے ان دونوں کو۔ جمنا بولی،’’کچھ بات کرو، مانک ۔‘‘جمنا چاہتی تھی کہ مانک کچھ اس کے کپڑے کے بارے میں باتیں کرے، جب مانک نہیں سمجھے تو وہ خود بولی،’’ مانک ، یہ کپڑا اچھا ہے؟‘‘

’’ بہت اچھا ہے جمنا۔‘‘ مانک بولے۔

’’دیکھو، تنّا ہے نہ، وہی اپنا تنّا ۔ اسی کے ساتھ جب بات چیت چل رہی تھی ،تبھی چچا کلکتے سے یہ تمام کپڑے لائے تھے۔ پانچ سو روپے کے کپڑے تھے۔ پنچم بنیا سے ایک سیٹ گروی رکھ کے کپڑے لائے تھے، پھر بات ٹوٹ گئی۔ ابھی تو میں اسی کے یہاں گئی تھی۔ اکیلے دل گھبراتا ہے۔ لیکن اب تو تنّا بات بھی نہیں کرتا۔ اسی کے لیے کپڑے بھی بدلے تھے۔‘‘

’’بات کیوں ٹوٹ گئی جمنا؟‘‘

’’ارے تنّا بہت ڈرپوک ہے۔ میں نے تو ماں کو راضی کر لیا تھا پر تنّا کو مہیسر دلال نے بہت ڈانٹا۔ اس کے بعد سے تنّا ڈر گیا اور اب تو تنّا اچھے طریقے سے بولتا بھی نہیں۔‘‘ مانک نے کچھ جواب نہیں دیا تو پھر جمنا بولی،’’ اصل میں تنّا برا نہیں ہے پر مہیسر بہت کمینہ آدمی ہے اور جب سے تنّا کی ماں مر گئی اس کے بعد سے تنّا بہت دکھی رہتا ہے۔‘‘پھر اچانک جمنا نے بات بدلتے ہوئے کہا،’’لیکن پھر تنّا نے مجھے آس میں کیوں رکھا؟ مانک ، اب نہ مجھے کھانا اچھا لگتا ہے نہ پینا۔ اسکول جانا چھوٹ گیا۔ دن بھر روتے روتے گذر جاتا ہے۔ ہاں، مانک ۔‘‘اور اس کے بعد وہ چپ چاپ بیٹھ گئی۔

مانک بولے،’’وہ بہت ڈرپوک تھا۔ اس نے بڑی غلطی کی۔‘‘

تو جمنا بولی،’’دنیا میں یہی ہوتا آیا ہے۔‘‘ اور مثال دیتے ہوئے اس نے کئی کہانیاں سنائی جو اس نے پڑھی تھیں یا پکچر پر دیکھی تھیں۔

مانک اٹھے تو جمنا نے پوچھا کہ’’روز آؤ گے نہ۔‘‘ مانک نے آنا کانی کی تو جمنا بولی،’’دیکھو مانک ، تم نے نمک کھایا ہے اور نمک کھا کر جو ادا نہیں کرتا اس پر بہت گناہ پڑتا ہے، کیونکہ اوپر بھگوان دیکھتا ہے اور سب کھاتے میں درج کرتا ہے۔‘‘ مانک مجبور ہو گئے اور انہیں روز جانا پڑا اور جمنا انہیں بٹھا کر روز تنّا کی باتیں کرتی رہی۔

’’پھر کیا ہوا۔‘‘جب ہم لوگوں نے پوچھا تو مانک بولے،’’ایک دن وہ تنّا کی باتیں کرتے کرتے میرے کندھے پر سر رکھ کر خوب روئی، خوب روئی اور چپ ہوئی تو آنسو پونچھے اور اچانک مجھ سے ایسی باتیں کرنے لگی، جیسی کہانیوں میں لکھی ہوتی ہیں ۔ مجھے بڑا برا لگا اور سوچا اب کبھی ادھر نہیں جاؤں گا، پر میں نے نمک کھایا تھا اور اوپر بھگوان سب دیکھتا ہے۔ ہاں، یہ ضرور تھا کہ جمنا کے رونے پر میں چاہتا تھا کہ اسے اپنے اسکول کی باتیں بتاؤں، اپنی کتابوں کی باتیں بتا کر اس کا دل بہلاؤں۔ پر وہ آنسو پونچھ کر کہانیوں جیسی باتیں کرنے لگی۔ یہاں تک کہ ایک دن میرے منہ سے بھی ویسی ہی باتیں نکل گئیں۔‘‘

’’پھر کیا ہوا؟‘‘ہم لوگوں نے پوچھا۔

’’عجب بات ہوئی۔ اصل میں ان لوگوں کو سمجھنا بڑا مشکل ہے۔ جمنا خاموشی سے میری طرف دیکھتی رہی اور پھر رونے لگی۔ بولی،’’میں بہت خراب لڑکی ہوں۔ میرا دل گھبراتا تھا اسی لئے تم سے بات کرنے آتی ہوں، پر میں تمہارا نقصان نہیں چاہتی۔ اب میں نہیں آیا کروں گی۔‘‘ لیکن دوسرے دن جب میں گیا تو دیکھا، جمنا پھرموجود ہے۔‘‘

پھر مانک ملّا کو روز جانا پڑا۔ ایک دن، دو دن، تین دن، چار دن، پانچ دن۔۔۔ یہاں تک کہ ہم لوگوں نے بورہو کر پوچھا کہ آخر میں کیا ہوا تو مانک ملّا بولے،’’کچھ نہیں، ہوتا کیا؟ جب میں جاتا تو مجھے لگتا کوئی کہہ رہا ہے مانک ادھر مت جاؤ یہ بہت خراب راستہ ہے، پر مجھے پتہ تھا کہ میرا کچھ بس نہیں ہے۔ اور آہستہ آہستہ میں نے دیکھا کہ نہ میں وہاں جائے بغیر رہ سکتا تھا نہ جمنا آئے بغیر۔‘‘

’’ ہاں، یہ تو ٹھیک ہے لیکن اس کا انجام کیا ہوا؟‘‘

’’انجام کیا ہوا؟‘‘ مانک ملّا نے طنزیہ لہجے میں کہا،’’تب تو تم لوگ خوب نام کماؤگے۔ ارے کیا پریم کہانیوں کے دو چار انجام ہوتے ہیں۔ ایک ہی تو آخر ہوتا ہے۔ ہیروئن کی شادی ہوگئی، مانک منہ تکتے رہ گئے۔ اب اسی کو چاہے جتنے طریقوں سے کہہ لو۔‘‘

بہرحال اتنی دلچسپ کہانی کا اتنا عام سا خاتمہ ہم لوگوں کو پسند نہیں آیا۔

پھر بھی پرکاش نے پوچھا،’’لیکن اس سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ محبت نامی احساس کی بنیاد اقتصادی تعلقات پر ہے اورطبقاتی اونچ نیچ کا نظام اسے متاثر کرتا ہے۔‘‘

’’کیوں؟ یہ تو بالکل واضح ہے۔‘‘ مانک ملّا نے کہا،’’اگر ہر گھر میں گائے ہوتی تو یہ صورت حال کیسے پیدا ہوتی؟ جائیداد کی ناموزونیت ہی اس محبت کا اصل سبب ہے۔ نہ ان کے گھر گائے ہوتی، نہ میں انہیں دیکھنے جاتا، نہ نمک کھاتا، نہ نمک ادا کرنا پڑتا۔‘‘

’’لیکن پھر اس سے سماجی فائدے کیلئے کیا نتیجہ نکلا؟‘‘ہم لوگوں نے پوچھا۔

’’بغیر نتیجے کے میں کچھ نہیں کہتا دوستو! اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ ہر گھر میں ایک گائے ہونی چاہئے، جس سے دیس کا لائیواسٹاک بھی بڑھے، اولاد کی صحت بھی بنے۔ پڑوسیوں کو بھی فائدہ ملے اور بھارت میں دوبارہ دودھ، گھی، مکھن کی ندیاں بہیں۔‘‘

اگرچہ ہم لوگ اقتصادی نظریے والے اصول سے اتفاق نہیں رکھتے تھے، تاہم یہ نتیجہ ہم سبھوں کو پسند آیا اور ہم لوگوں نے وعدہ کیا کہ بڑے ہونے پر ایک ایک گائے ضرور پالیں گے۔

اس طرح مانک ملّاکی پہلی نان فکشن پریم کہانی ختم ہوئی۔

متفرقات

اس کہانی نے اصل میں ہم لوگوں کو متاثر کیا تھا۔ گرمی کے دن تھے۔ محلے کے جس حصے میں ہم لوگ رہتے ادھر چھتیں بہت تپتی تھیں، اس لئے ہم سب لوگ حکیم جی کے چبوترے پر سویا کرتے تھے۔

رات کو جب ہم لوگ لیٹے تو نیند نہیں آ رہی تھی اور رہ رہ کر جمنا کی کہانی ہم لوگوں کے ذہنوں میں گھوم جاتی تھی اور کبھی کلکتے کی ارگنڈی اور کبھی بیسن کے پوئے یاد کرکے ہم لوگ ہنس رہے تھے۔

اتنے میں شیام بھی ہاتھ میں ایک بنسکھٹ اور بغل میں دری تکیہ دبائے ہوئے آیا۔ وہ دوپہر کی محفل میں شامل نہیں تھا ،اس لئے ہم لوگوں کو ہنستے دیکھ کر اسے بیتابی ہوئی اور اس نے پوچھا کہ مانک ملّا نے کون سی کہانی ہم لوگوں کو سنائی ہے۔ جب ہم لوگوں نے جمنا کی کہانی اسے سنائی تو دیکھ کرحیرانگی ہوئی کہ بجائے ہنسنے کے وہ اداس ہو گیا۔ ہم لوگوں نے ایک ساتھ پوچھا کہ ’’کہو شیام، اس کہانی کو سن کر دکھی کیوں ہو گئے؟ کیا تم جمنا کو جانتے تھے؟‘‘تو شیام روندھی ہوئی آواز میں بولا،’’نہیں، میں جمنا کو نہیں جانتا، لیکن آج نوے فیصد لڑکیوں کی حالت زار جمنا جیسی ہے۔ وہ بیچاری کیا کریں! تنّا سے اس کی شادی ہو نہیں پائی، اس کے والدین جہیز جٹا نہیں پائے، تعلیم اور من بہلاؤ کے نام پر اسے ملیں ’’میٹھی کہانیاں‘‘،’’سچی کہانیاں‘‘،’’رس بھری کہانیاں‘‘ تو بیچاری اور کر ہی کیا سکتی تھی۔ یہ تو رونے کی بات ہے، اس میں ہنسنے کی کیا بات! دوسروں پر ہنسنا نہیں چاہئے۔ ہر گھر میں مٹی کے چولہے ہوتے ہیں ‘‘ وغیرہ وغیرہ۔

شیام کی بات سن کر ہم لوگوں کا جی بھر آیا اور آہستہ آہستہ ہم لوگ سو گئے۔

***

دوسری دوپہر

گھوڑے کی نال

یعنی کیسے گھوڑے کی نال خوش قسمتی کی علامت ثابت ہوئی؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوسرے دن کھا پی کر ہم لوگ پھر اس بیٹھک میں جمع ہوئے اور ہم لوگوں کے ساتھ شیام بھی آیا۔ جب ہم لوگوں نے مانک ملّا کو بتایا کہ شیام جمنا کی کہانی سن کر رونے لگا تھا تو شیام جھینپ کر بولا،’’میں کہاں رو رہا تھا؟‘‘

مانک ملّا ہنسے اور بولے،’’ ہماری زندگی کی ذرا سی پرت اکھاڑ کر دیکھو تو ہر طرف اتنی گندگی اور کیچڑ پوشیدہ ہے کہ حقیقت میں اس پر رونا آتا ہے۔ لیکن پیارے دوستوں، میں تو اتنا رو چکا ہوں کہ اب آنکھ میں آنسو آتے ہی نہیں، اس لئے لاچار ہو کر ہنسنا پڑتا ہے۔ ایک بات اور ہے کہ جو لوگ جذباتی ہوتے ہیں اور وہ بس روتے ہیں،اور رو دھو کر رہ جاتے ہیں، پر جو لوگ ہنسنا سیکھ لیتے ہیں ،وہ کبھی کبھی ہنستے ہنستے اس زندگی کو تبدیل بھی کر ڈالتے ہیں۔‘‘

پھر خربوزہ کاٹتے ہوئے بولے،’’ہٹاؤ جی ان باتوں کو۔ لو آج جونپوری خربوزے ہیں۔ انکی مہک تو دیکھو۔ گلاب کو مات ہے۔ کیا ہے شیام؟ کیوں منہ لٹکائے بیٹھے ہو؟ اجی منہ لٹکانے سے کیا ہوتا ہے! میں اب تمہیں بتاؤں گا کہ جمنا کی شادی کیسے ہوئی؟‘‘

ہم لوگ تو یہی سننا ہی چاہتے تھے اس لئے ایک آواز میں بول اٹھے،’’ہاں، آج جمنا کی شادی کی کہانی رہے۔‘‘

پر مانک ملّا بولے،’’نہیں، پہلے خربوزے کے چھلکے باہر پھینک آؤ۔‘‘

جب ہم لوگوں نے کمرا صاف کر دیا تو مانک ملّا نے سب کو آرام سے بیٹھ جانے کا حکم دیا، طاق پر سے گھوڑے کی پرانی نال اٹھا لائے اور اسے ہاتھ میں لیااور اوپر اٹھا کر بولے،’’یہ کیا ہے؟‘‘

’’گھوڑے کی نال۔‘‘ہم لوگوں نے ایک آواز میں جواب دیا۔

’’ٹھیک۔‘‘ مانک ملّا نے جادوگر کی طرح نال کو حیرت انگیز تیزی سے انگلی پر نچاتے ہوئے کہا،’’یہ نال جمنا کی ازدواجی زندگی کا ایک اہم یادگاری نشان ہے۔ تم لوگ پوچھو گے نہیں کہ کیسے؟ یہ سب میں پوری تفصیل میں بتاتا ہوں۔‘‘

اور مانک ملّا نے تفصیل سے جو بتایا وہ اختصار میں درجِ ذیل ہے۔۔۔

جب بہت دنوں تک جمنا کی شادی نہیں طے ہو پائی اور مایوس ہو کر اس کی ماں پوجاپاٹھ کرنے لگیں اور باپ بینک میں اوورٹائم کرنے لگے تو ایک دن اچانک ان کے گھر ،دورپرے کی ایک رشتہ دار رامو بی بی آئیں اور انہوں نے بیج چھیلتے ہوئے کہا،’’ ہرے رام رام! بٹیا کی اٹھان تو دیکھو۔ جیسن نام تیسن کرنی۔ بھادوں کی جمنا اس پھاٹی پڑت ہے۔‘‘اور پھر جھک کر ماں کے کان میں دھیمے سے بولیں،’’اے کر بیاہ ویاہ کہوں ناہِیں طے کیو؟‘‘

جب ماں نے بتایا کہ برادری والے جہیز بہت مانگ رہے ہیں،اور کہیں ذات پرجات میں دے دینے سے تو اچھا ہے کہ ماں بیٹی گلے سے رسی باندھ کر کنویں میں گر پڑیں تو رامو بی بی فوراً چمک کر بولیں،’’اے اے! کیسی بات جبان سے نکالت ہو جمنا کی اماں! کہت کچھو ناہیں لگت! اور کنویں میں گریں تمہارے دشمن، کنویں میں گرے اڑوس پڑوس والے، کنویں میں گرے تنّا اورمہیسر دلال، دوسرے کا سکھ دیکھ کے جن کے دل پھاٹت ہیں۔‘‘بہرحال ہوا یہ کہ رامو بی بی نے فوراً اپنی کرتی میں سے اپنے بھتیجے کی کنڈلی نکال کر دی اور کہا،’’بکھت پڑے پرآدمی ای آدمی کے کام آوت ہے۔ جو ہارے گاڑھے کَبو کام نہ آوے۔ اُو آدمی کے روپ میں جناور ہے۔ ابھی ای ہمارابھتیجا ہے۔ گھرکا اکیلا، نہ ساس نہ سسر، نہ نند نہ جٹھانی،کونو کِچائن ناہیں ہے گھر میں۔ نانا اوکے نام جاگیر لکھ گئے ہیں۔ گھر میں گھوڑا ہے، تانگہ ہے۔ پرانا نامی خاندان ہے۔ لڑکی رانی مہارانی اس بل سہے۔‘‘

جب شام کو جمنا کی ماں نے یہ خبر باپ کو دی تو اس نے سامنے سے تھالی کھسکا دی اور کہا،’’اس کی دو بیویاں مر چکی ہیں۔رنڈواہے لڑکا۔ مجھ سے چار پانچ برس چھوٹا ہو گا۔‘‘

’’تھالی کاہے کھسکا دی؟ نہ کھائیں میری بلا سے۔ کیوں نہیں ڈھونڈ کے لاتے؟ جب لڑکی کی عمر میرے برابر ہو رہی ہے تو لڑکے کہاں سے گیارہ سال کا مل جائے گا۔‘‘اس بات کو لے کر شوہر اور بیوی میں بہت کہا سنی ہوئی۔ آخر میں جب بیوی پان بنا کر لے گئی اور شوہر کو سمجھا کر کہا،’’لڑکارنڈوا ہے تو کیا ہوا۔ مرد اور دیوار، جتنا پانی کھاتے ہیں اتنا پختہ ہوتے ہیں۔‘‘

جب جمنا کے دروازے بارات چڑھی تو مانک ملّا نے دیکھا اور انہوں نے اس پختہ دیوار کی جو تفصیل بیان کی، اس سے ہم لوگ لوٹ پوٹ ہو گئے۔ جمنا نے اسے دیکھا تو بہت روئی، زیور چڑھا تو بہت خوش ہوئی، چلنے لگی تو یہ عالم تھا کہ آنکھوں سے آنسو نہیں تھمتے تھے اور دل میں امنگیں نہیں تھمتی تھیں۔

جب جمنا لوٹ کر میکے آئی تو تمام سکھیوں کے یہاں گئی۔ انگ انگ پر زیور لدا تھا، رواں رواں باغ باغ تھا اور شوہر کی تعریف کرتے اسکی زبان نہیں تھکتی تھی۔ ’’اے ری کمّو، وہ تو اتنے سیدھے ہیں کہ ذرا سی تین پانچ نہیں جانتے۔ اے، جیسے چھوٹے سے بچے ہوں۔ پہلی دونوں کے میکے والے ساری جائداد لوٹ کرلے گئے، نہیں تو دولت پھٹے پڑتی تھی۔ میں نے کہا کہ اب تمہارے سالے سالی آویں گے تو باہر ہی سے رخصت کروں گی، تم دیکھتے رہنا۔ تو بولے،’’تم گھر کی مالکن ہو۔ صبح شام دال روٹی دے دو بس، مجھے کیا کرنا ہے۔‘‘چوبیس گھنٹے منہ دیکھتے رہتے ہیں۔ ذرا سی کہیں گئی نہیں کہ ارے سنتی ہو، او جی سنتی ہو، اجی کہاں گئیں! میری تو ناک میں دم ہے کمّو! محلے پڑوس والے دیکھ دیکھ کر جلتے ہیں۔ میں نے کہا، جتنا جلو گے اتنا جلاؤں گی۔ میں بھی تب دروازہ کھولتی ہوں، جب دھوپ سر پر چڑھ آتی ہے اور خیال اتنا رکھتے ہیں کہ میں آئی تو ڈھائی سو روپے زبردستی ٹرنک میں رکھ دیئے۔ کہا، ہماری قسم ہے جو اسے لے نہ جاؤ۔‘‘

لیکن جمنا کو جلد ہی سسرال لوٹ جانا پڑا، کیونکہ ایک دن اس کے باپ بہت پریشانی کی حالت میں رات کو آٹھ بجے بینک سے واپس آئے اور بتایا کہ حساب میں ایک سو ستائیس روپیہ تیرہ آنے کی کمی پڑ گئی ہے، اگر کل صبح جاتے ہی انہوں نے جمع نہ کرادیا تو حراست میں لے لئے جائیں گے۔ یہ سنتے ہی گھر میں کہرام مچ گیا اور جمنا نے جھٹ ٹرنک سے نوٹ کی گڈی نکال کر چھپر میں ٹھونس دی اور جب ماں نے کہا،’’بیٹی ادھار دے دو۔‘‘تو چابی ماں کے ہاتھ میں دے کر بولی،’’دیکھ لو نہ،ٹرنک میں دو چار اکنیاں پڑی ہوں گی۔‘‘لیکن جمنا نے سوچا آج بلا ٹل گئی تو ٹل گئی، آخر بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔ اتنا تو پہلے لٹ گیا ہے، اب اگر جمنا بھی ماں باپ پر لٹا دے تو اپنے بال بچوں کے لئے کیا بچائے گی؟ ارے ماں باپ کتنے دنوں کے ہیں؟ اسے سہارا تو اس کے بچے ہی دیں گے نہ!

یہاں پر مانک ملّا کہانی سناتے سناتے رک گئے اور ہم لوگوں کی طرف دیکھ کر بولے،’’پیارے دوستو! ہمیشہ یاد رکھو کہ عورت سب سے پہلے ماں ہوتی ہے تب کچھ اور! اس کاجنم ہی اس لئے ہوتا ہے کہ وہ ماں بنے۔نسل آگے بڑھاوے۔ یہی اس کی عظمت ہے۔ تم نے دیکھا کہ جمنا کے من میں پہلے اپنے بچوں کا خیال آیا۔‘‘

مختصریہ کہ جمنااپنے ممکنہ بال بچوں کا خیال کرکے اپنی سسرال چلی گئی اور خوش وخرم رہنے لگی۔ سچ پوچھو تو یہیں جمنا کی کہانی کا خاتمہ ہوتا ہے۔

’’لیکن آپ نے تو گھوڑے کی نال دکھائی تھی۔ اس کا تو ذکر آیا ہی نہیں؟‘‘

’’اوہ! میں نے سوچا کہ دیکھوں تم لوگ کتنے دھیان سے سن رہے ہو۔‘‘اور پھر انہوں نے اس نال کا قصہ بھی بتایا۔۔۔۔

اصل میں جمنا کے رنڈوے شوہر عرف پختہ دیوار، میں اور جمنا میں اتنا ہی فرق تھا، جتنا پلستر اکھڑی ہوئی پرانی دیوار اور لپے پتے تلسی کے چبوترے میں۔ ادھر ادھر کے لوگ ادھر ادھر کی باتیں کرتے تھے پر جمنا دل و جان سے شوہر قربان تھی۔ شوہر بھی جہاں اسکے گہنے کپڑے کا دھیان رکھتے تھے ،وہیں اسے بھجنامرت، گنگا ماہاتمیہ، گٹکا رامائن وغیرہ جیسے گرنتھ رتن لا کر دیا کرتے تھے۔ اور وہ بھی اس میں ’’اُتّم کے اس بس من ماہِیں‘‘ وغیرہ پڑھ کر فائدہ اٹھایاکرتی تھی۔ ہوتے ہوتے یہ ہوا کہ دھرم کا بیج اس کے دل میں جڑ پکڑ گیا اور بھجن کیرتن، کتھاست سنگ میں اسکا من لگ گیا اور ایسا لگا کہ صبح شام، دوپہر رات وہ دیوانی گھومتی رہے۔روز اسکے یہاں سادھو سنتوں کا کھانا ہوتا رہے اور سادھو سنت بھی ایسے تپسیا والے اور روپ وان کہ دماغ سے روشنی پھوٹتی تھی۔

ویسے اس کی بکتی بہت بے غرض تھی ،مگر جب سادھو سنت اسے آشیرواد دیں کہ ’’سنتانوتی بھو‘‘ تو وہ اداس ہو جایا کرتی۔ اس کے شوہر اسے بہت سمجھایا کرتے تھے،’’اجی یہ تو بھگوان کی مایا ہے اس میں اداس کیوں ہوتی ہو؟‘‘لیکن اولاد کی فکر انہیں بھی تھی، کیونکہ اتنی بڑی جاگیر کے زمیندار کا وارث کوئی نہیں تھا۔ آخر میں ایک دن وہ اور جمنا دونوں ایک جیوتشی کی یہاں گئے، جس نے جمنا کو بتایا کہ اسے کارتک مہینے کی ہر صبح گنگا نہا کر چنڈی دیوی کو پیلے پھول اور برہمنوں کو چنا، جو اور سونے کا دان کرنا چاہئے۔

جمنا اس رسم کے لئے فوری طور پرتیارہو گئی۔ لیکن اتنی صبح کس کے ساتھ جائے! جمنا نے شوہر (زمیندار صاحب) سے کہا کہ وہ ساتھ چلا کریں ،مگر وہ ٹھہرے بوڑھے آدمی، صبح ذرا سی سرد ہوا لگتے ہی انہیں کھانسی کا دورہ آ جاتا تھا۔ آخر میں یہ طے ہوا کہ رامدھن تانگے والا شام کو جلدی چھٹی لیا کرے گا اور صبح چار بجے آ کر تانگہ جوت دیا کرے گا۔

جمنا طے شدہ قاعدوں کے مطابق روز نہانے جانے لگی۔ کارتک مہینے میں کافی سردی پڑنے لگتی ہے اور گھاٹ سے مندر تک اسے بس ایک پتلی ریشمی دھوتی پہن کر پھول چڑھانے جانا پڑتا تھا۔ وہ تھرتھر کانپتی تھی۔ ایک دن مارے سردی کے اسکے ہاتھ پیر سُن پڑ گئے۔ اور وہ وہیں ٹھنڈی ریت پر بیٹھ گئی اور یہ کہا کہ رامدھن اگر اسے اٹھا کر تانگے پر نہ بیٹھا دیتا تو وہ وہیں بیٹھی بیٹھی سردی سے جم جاتی۔

آخر میں رامدھن سے نہ دیکھا گیا۔ اس نے ایک دن کہا،’’بہو جی، آپ کاہے جان دییہ پر اُتارُو ہو۔اَ یسن تپسیا تو گورا مائی یو نیں کرن ہوئیں۔ بڑے بڑے جوتسی کا کہا کر لیو اب ایک غریب کا بھی کہا کے لیو۔‘‘جمنا کے پوچھنے پر اس نے بتایاکہ جس گھوڑے کی پیشانی پر سفید تلک ہو، اس کے اگلے بائیں پاؤں کی گھسی ہوئی نال ،چاندگرہن کے وقت اپنے ہاتھ سے نکال کر اس کی انگوٹھی بنوا کر پہن لے توسب تمنائیں پوری ہو جاتی ہیں۔

لیکن جمنا کے لیے یہ قابل قبول نہیں ہوا، کیونکہ پتہ نہیں چاندگرہن کب پڑے۔ رامدھن نے بتایا کہ چاندگرہن دو تین دن بعد ہی ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ نال ابھی نیا لگوایا ہے، وہ تین دن کے اندر کیسے گھسے گا اور نیا کچھ اثرنہیں رکھتا۔

’’تو پھر کیا ہو، رامدھن؟ تم ہی کوئی حل بتاؤ۔‘‘

’’مالکن، ایک ہی حل ہے۔‘‘

’’کیا؟‘‘

’’تانگہ روز کم از کم بارہ میل چلے۔ لیکن مالک کہیں جاتے نہیں۔ اکیلے مجھے تانگہ لے نہیں جانے دیں گے۔ آپ چلیں تو ٹھیک رہے۔‘‘

’’لیکن ہم بارہ میل کہاں جائیں گے؟‘‘

’’کیوں نہیں سرکار!آپ صبح ذرا اور جلدی دو ڈھائی بجے نکل جائیں! گنگاپار پکی سڑک ہے، بارہ میل گھما کر ٹھیک وقت پر حاضر کر دیا کروں گا۔ تین دن کی ہی تو بات ہے۔‘‘

جمنا مان گئی اور تین دن تک روز تانگہ گنگاپار چلا جایا کرتا تھا۔ رامدھن کا اندازہ ٹھیک نکلا اور تیسرے دن چاندگرہن کے وقت نال اتروا کر انگوٹھی بنوائی گئی اور انگوٹھی کی کرامت دیکھئے کہ زمیندار صاحب کے یہاں نوبت بجنے لگی اور نرس نے پورے ایک سو روپے کی بخشش لی۔

زمیندار بیچارے عمردراز ہو چکے تھے اور انہیں بہت تکلیفیں بھی تھی، وارث بھی ہو چکا تھا، اس لئے بھگوان نے ان کو اپنے دربار میں بلا دیا۔ جمنا شوہر کے فراق میں دھاڑے مار مار کر روئی، چوڑی کنگن جلا ڈالے، کھانا پینا چھوڑ دیا۔ آخر میں پڑوسیوں نے سمجھایا کہ چھوٹا بچہ ہے، اس کا منہ دیکھنا چاہئے۔ جو ہونا تھا سو ہو گیا۔ یہ تو مقدرہے۔ اس پر کس کا بس چلتا ہے۔۔ پڑوسیوں کے بہت سمجھانے پر جمنا نے آنسو پونچھے۔ گھر بار سنبھالا۔ اتنی بڑی کوٹھی تھی، اکیلے رہنا ایک بیوہ عورت کیلئے غیر مناسب تھا، اس لئے اس نے رامدھن کو ایک کوٹھری دی اور پاکیزگی سے زندگی بسر کرنے لگی۔

جمنا کی کہانی ختم ہو چکی تھی۔ لیکن ہم لوگوں کی پریشانی یہ تھی کہ مانک ملاّ کو یہ گھسی نال کہاں سے ملی، اس کی تو انگوٹھی بن چکی تھی۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ایک دن کہیں ریل کے سفر میں مانک ملّا کو رامدھن ملا۔ سلک کا کرتا، پانوں کا ڈبہ، بڑے ٹھاٹ تھے اسکے۔ مانک ملّا کو دیکھتے ہی اس نے اپنے بھاگ جاگنے کی ساری کہانی سنائی اور کہا کہ واقعی گھوڑے کی نال میں بڑی تاثیر ہوتی ہے۔ اور پھر اس نے ایک نال مانک ملّا کے پاس بھیج دی تھی، اگرچہ انہوں نے اس کی انگوٹھی نہیں بنوائی۔ بلکہ اسے حفاظت سے رکھ لیا۔

کہانی سنا کر مانک ملّا،شیام کی طرف دیکھ کر بولے،’’دیکھا شیام، بھگوان جو کچھ کرتا ہے بھلے کیلئے کرتا ہے۔ آخر جمنا کو کتنا سکھ ملا۔ آپ بیکار میں دکھی ہو رہے تھے؟ کیوں؟‘‘

شیام نے خوشی خوشی قبول کیا کہ وہ بیکار میں دکھی ہو رہا تھا۔ آخر میں مانک ملّا بولے،’’لیکن اب بتاؤ اسکا نتیجہ کیا نکلا؟‘‘

ہم لوگوں میں سے جب کوئی نہیں بتا سکا تو انہوں نے بتایا،’’ اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ دنیا کا کوئی بھی کام برا نہیں۔ کسی بھی کام کو نیچی نگاہ سے نہیں دیکھنا چاہئے پھر چاہے وہ تانگہ چلانا ہی کیوں نہ ہو۔‘‘

ہم سبھوں کو اس کہانی کا یہ انجام بہت اچھا لگا اور ہم سب نے حلف اٹھا لیا کہ کبھی کسی قسم کے ایماندارانہ کام کو نیچی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے ،پھرچاہے وہ کچھ بھی کیوں نہ ہو۔

اس طرح مانک ملّا کی دوسری نان فکشن کہانی ختم ہوئی۔

متفرقات

جمنا کی زندگی کی کہانی ختم ہو چکی تھی اور ہم لوگوں کو اس کی زندگی کا ایسا خوشگوار حل دیکھ کر بہت اطمینان ہوا۔ ایسا لگا کہ جیسے تمام تردھاتی کشتے گھس گھس کر ٹھنڈے یافائدہ مند بنائے جاتے ہیں،ایسے ہی اس بدنصیب کی زندگی، ان تما م تر تکالیف اور مصائب میں گھس گھس کر پرسکون ، روشنی بھری، مقدس، بے داغ ہو گئی۔

رات کو جب ہم لوگ حکیم جی کے چبوترے پر اپنی اپنی کھاٹ اور بسترا لے کر جمع ہوئے تو جمنا کی زندگی کی کہانی ہم سبھوں کے دل ودماغ پر چھائی ہوئی تھی اور اس کو لے کر جو بات چیت اور بحث ہوئی، اسکی ڈرامائی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے۔۔۔۔

میں: (پلنگ پر بیٹھ کر، تکیے کو اٹھا کر گود میں رکھتے ہوئے) بھئی کہانی بہت اچھی رہی۔

اونکار: (جمائی لیتے ہوئے) رہی ہوگی۔

پرکاش : (کروٹ بدل کر) لیکن تم لوگوں نے اس کا مطلب بھی سمجھا؟

شیام: (جوش سے) کیوں، اس میں کون سی مشکل زبان تھی؟

پرکاش : یہی تو مانک ملّاکی خوبی ہے۔ اگر ذرا سابھی دل لگا کر تم ان کی بات نہیں سمجھتے تو گئے، فوراً ہی تمہارے ہاتھ سے اصل مال نکل جائے گا، ہلکا پھلکا بھوسا ہاتھ آئے گا۔ اب یہ بتاؤکہ کہانی سن کر کیا احساس اٹھا تمہارے دل میں؟تم بتاؤ۔

میں: (یہ سمجھ کر کہ ایسے موقع پر تھوڑی تنقید کرنا بزرگی کی علامت ہے) بھئی، مجھے تو یہی سمجھ میں نہیں آیا کہ مانک ملّا نے جمنا جیسے کردار کی کہانی کیوں سنائی؟ شکنتلا جیسی بھولی بھالی یا رادھا جیسی پوتر کرداراٹھاتے، یا بڑے ماڈرن بنتے ہیں تو سنیتا جیسی بہادر کردار لیتے یا دیوسینا، شیکھر جیسی تمام اقسام مل سکتی تھیں۔

پرکاش : (سقراط کے سے انداز میں) لیکن یہ بتاؤ کہ زندگی میں زیادہ تر کردار جمنا جیسے ملتے ہیں یا رادھا ،سودھا، گیسو، سنیتا یا دیوسیناجیسے؟

میں: (چالاکی سے خودکو بچاتے ہوئے) پتہ نہیں! میراان سب کے بارے میں کوئی خاص تجربہ نہیں۔ یہ تو آپ ہی بتا سکتے ہیں۔

شیام: بھائی، ہمارے چاروں جانب بدقسمتی سے نوے فیصد لوگ تو جمنا اور رامدھن کی طرح کے ہوتے ہیں، لیکن اس سے کیا کہانی نویس کو آنکھیں بند کر دینی چاہئیں۔

پرکاش : یہ تو ٹھیک ہے۔ پر اگر کسی جمی ہوئی جھیل پراوپرآدھے انچ برف ہواور نیچے لا محدود پانی اور وہیں ایک گائیڈ کھڑا ہے جو اس پر سے آنے والوں کو اس کے آدھے انچ ہونے کی تو اطلاع دے دیتا ہے اور نیچے موجود پانی کی خبر نہیں دیتا تو وہ راہگیروں کو دھوکہ دیتا ہے یا نہیں؟

میں: کیوں نہیں؟

پرکاش : اور اگر وہ راہگیر برف ٹوٹنے پر پانی میں ڈوب جائیں تو اس کا وبال گائیڈ پر پڑے گا نہ!

شیام: اور کیا؟

پرکاش : بس،مانک بھی تمہاری توجہ اس لامحدود پانی کی طرف دلا رہے ہیں جہاں موت ہے، اندھیرا ہے، کیچڑاور گندگی ہے۔ یا تو دوسرا راستہ بناؤنہیں تو ڈوب جاؤ۔ لیکن آدھے انچ کی اوپرجمی برف کچھ کام نہ دے گی۔ ایک طرف نئے لوگوں کا یہ رومانی نقطہ نظر، یہ جذباتیت، دوسری طرف بوڑھوں کا یہ آدرش اور جھوٹی غیرعلمی عزت، صرف آدھا انچ برف ہے، جس نے پانی کی گہرائیوں کو چھپا رکھا ہے۔

میں اوراونکار: (بور ہوجاتے ہیں، سوچتے ہیں کب یہ لیکچر بند ہو۔)

پرکاش : (جوش سے کہتا جاتا ہے) جمنا متوسط طبقے کا ایک بھیانک مسئلہ ہے۔معاشی بنیاد کھوکھلی ہے۔ اس کی وجہ سے شادی، خاندان، محبت ، سب کی بنیادیں ہل گئی ہیں۔مایوسی چھائی ہوئی ہے۔ پر سب اس طرف سے آنکھیں موندے ہیں۔ اصل میں پوری زندگی کا سسٹم بدلنا ہو گا۔

میں: (بورہو کر جمائی لیتا ہوں۔)

پرکاش : کیوں؟ نیند آ رہی ہے تمہیں؟ میں نے کئی بار تم سے کہا کہ کچھ پڑھو لکھو۔ بس ناول پڑھتے رہتے ہو۔ سنجیدہ چیزیں پڑھو۔ سماج کا ڈھانچہ، اس کی ترقی، اس کا مفہوم، اخلاقیات، ادب کا مقام ۔۔۔

میں: (بات کاٹ کر) میں نے کچھ پڑھا نہیں۔۔بس تم ہی نے پڑھا ہے۔ (یہ دیکھ کر کہ پرکاش کی دانش مندی کا رعب لوگوں پر جم رہا ہے، میں کیوں پیچھے رہوں) میں بھی اس کی مارکسی تشریح کر سکتا ہوں ۔

پرکاش : کیا؟ کیا تشریح دے سکتے ہو؟

میں: (اکڑ کر) مارکسی!

اونکار: ارے یار، رہنے بھی دو۔

شیام: مجھے نیند آ رہی ہے۔

میں: دیکھئے، اصل میں اس کی مارکسی تشریح کچھ اس طرح سے ہو سکتی ہے کہ جمنا انسانیت کی علامت ہے، متوسط طبقہ (مانک ملّا) اور امیر طبقہ (زمیندار) اس کو انجام دینے میں ناکام رہے، آخر میں نچلا طبقہ (رامدھن) نے اس کو نئی سمت سُجھائی۔

پرکاش : کیا؟ (لمحے بھرکو ساکت ہوگیا۔ پھر ماتھا ٹھونک کر) بیچارا مارکسزم بھی ایسا بدنصیب نکلا کہ تمام دنیا میں فتح کے جھنڈے گاڑ آیا اور ہندوستان میں آ کر اسے بڑے بڑے نمونے مل گئے۔ تم ہی کیا، اسے ایسے ایسے شارحین یہاں ملے ہیں کہ وہ بھی اپنی قسمت کو روتا ہوگا۔ (زوروں سے ہنستا ہے، میں اپنی ہنسی اڑتے دیکھ کر اداس ہو جاتا ہوں۔)

حکیم جی کی بیوی: (پردے کے پیچھے سے) میں کہتی ہوں یہ چبوترہ ہے یا سبزی منڈی۔ جسے دیکھو پلنگ اٹھائے چلا آ رہا ہے۔ آدھی رات تک کِل کِل! کل سے سب کو نکالو یہاں سے۔

حکیم جی: (پردے کے پیچھے سے کانپتی ہوئی بوڑھی آواز) ارے بچے ہیں۔ ہنس بول لینے دے۔ تیرے اپنے بچے نہیں ہیں پھر دوسروں کو کیوں کھانے دوڑتی ہے ۔۔۔ (ہم سب پر سکتہ چھا جاتا ہے۔ میں بہت اداس ہو کر لیٹ جاتا ہوں۔ نیم پر سے نیند کی پریاں اترتی ہیں، پلکوں پر چھم چھم، چھم چھم رقص کرتی ہیں)۔

(پردہ گرتا ہے)

***

تیسری دوپہر

عنوان مانک ملّا نے نہیں بتایا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم لوگ صبح سو کر اٹھے تو دیکھا کہ راتوں رات اچانک ہوا بالکل رک گئی ہے اور اتنی اُمس ہے کہ صبح پانچ بجے بھی ہم لوگ پسینے میں تربتر تھے۔ ہم لوگ اٹھ کر خوب نہائے مگر اُمس اتنی شدید تھی کہ کوئی بھی حل کام نہ آیا۔ پتہ نہیں ایسی اُمس اس شہر کے باہر بھی کہیں ہوتی ہے یا نہیں۔ پر یہاں تو جس دن ایسی اُمس ہوتی ہے ،اس دن تمام کام رک جاتے ہیں۔ سرکاری دفتروں میں کلرک کام نہیں کر پاتے، سپرنٹنڈنٹ بڑے بابوؤں کو ڈانٹتے ہیں، بڑے بابو چھوٹے بابوؤں پر جھنجلاہٹ اتارتے ہیں، چھوٹے بابو چپراسیوں سے بدلہ لیتے ہیں اور چپراسی گالیاں دیتے ہوئے پانی پلانے والوں ،بہشتیوں اور مالیوں سے الجھ جاتے ہیں، دکاندار مال نہیں بیچتے بلکہ گاہکوں کو کھسکا دیتے ہیں اور رکشے والے اتنا کرایہ مانگتے ہیں کہ سواریاں پریشان ہو کر سواری نہ کریں۔ اور ان تمام سماجی اتھل پتھل کے پیچھے تاریخی منطقی استدلال کا اصول نہیں ہوتا ، ہوتا ہے تو فقط درجہ حرارت یعنی ٹمپریچر، اُمس، ایک سو بارہ ڈگری فارن ہائیٹ!

لیکن اس اُمس کے باوجود مانک ملّا کی کہانیاں سننے کا لالچ ہم لوگوں سے چھوٹ نہیں پاتا تھا، اس لئے ہم سب کے سب مقررہ وقت پر وہیں جمع ہوئے ،اور تو اورسب سے پہلے بجائے سلام دعا کے یہی کہا گیا،’’آج بہت اُمس ہے۔‘‘

’’ ہاں جی، بہت اُمس ہے؛ اُ ف او۔‘‘

صرف پرکاش جب آیا اور اس سے سب نے کہا کہ آج بہت اُمس ہے تو فلسفہ جھاڑتے ہوئے افلاطون کی طرح منہ بنا کر بولا (اپنے اس طنزبھرے تبصرے کیلئے معذرت خواہ ہوں، کیونکہ گزشتہ رات اس نے مارکسزم کے سوال پر مجھے نیچادکھایا تھا اور سچے فعال مارکسیوں کی مانند میں جھنجلااٹھا تھا اور میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ صحیح بات بھی کرے گا تو میں اس کی مخالفت کروں گا)، بہرحال پرکاش بولا،’’ بھائی جی، جواُمس ہم سب کی زندگیوں میں چھائی ہوئی ہے، اس کے سامنے تو یہ کچھ نہیں ہے۔ ہم سب نیم متوسط طبقے کے لوگوں کی زندگیوں میں ہوا کا ایک تازہ جھونکا تک نہیں۔ چاہے دم گھٹ جائے پر پتا نہیں ہلتا، دھوپ جسے روشنی دینا چاہئے، ہمیں بری طرح جھلسا رہی ہے اور سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کریں۔ کسی نہ کسی طرح نئے اور تازہ ہوا کے جھونکے چلنے چاہئیں۔ چاہے لو کے ہی جھونکے کیوں نہ ہوں۔‘‘

پرکاش کی اس حماقت بھری بات پر کوئی کچھ نہیں بولا۔ (میرے جھوٹ کیلئے معذرت ،کیونکہ مانک نے اس بات کی زور سے تائید کی تھی، پر میں نے کہہ دیا نا کہ میں اندر ہی اندر چڑ گیا ہوں!)

’’خیر۔‘‘ تو مانک ملّا بولے کہ،’’جب میں محبت پر اقتصادی اثرات کی بات کرتا ہوں تو میرا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اصل میں اقتصادی ڈھانچہ ہمارے من پر اتنے عجیب وغریب انداز سے اثر ڈالتا ہے کہ من کے سارے جذبات اس سے مطابقت نہیں کر پاتے اور ہم جیسے لوگ جو نہ اپّر کلاس کے ہیں،اور نہ لوئرکلاس کے، ان کے یہاں رسم و رواج، روایتیں،طور طریقے بھی ایسے پرانے اور زہریلے ہیں کہ مجموعی طور پر ہم سب پر ایسا اثر ڈالا ہے کہ ہم صرف ایک مشین یا ایک پرزہ بن کر ہی رہ جاتے ہیں ہمارے اندر ہمت اور اونچے خواب ختم ہو جاتے ہیں اور ایک عجب سی مردم بیزاری ہم پر چھا جاتی ہے۔‘‘

پرکاش نے جب اس کی حمایت کی تو میں نے انکی مخالفت اور کہا،’’لیکن انسان کو تو ہر حالت میں ایماندار بنے رہنا چاہئے۔ یہ نہیں کہ ٹوٹتاپھوٹتا چلا جائے۔‘‘

اس پر مانک ملّا بولے،’’یہ سچ ہے،مگر جب پورے نظام میں بے ایمانی ہو تو ایک شخص کی ایمان

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024