غضنفر کی "صورتیں " اور اسلوبیاتی بوقلمونی

غضنفر کی "صورتیں " اور اسلوبیاتی بوقلمونی

Feb 20, 2024

مصنف

نسترن احسن فتیحی

شمارہ

شمارہ -۲۴

غضنفر کی "صورتیں " اور اسلوبیاتی بوقلمونی

نسترن احسن فتیحی

"صورتیں" غضنفر علی کے خاکوں کا چوتھا مجموعہ ہے۔ اس سے پہلے ان کے خاکوں کے تین مجموعے "سرخ رو"،"روئے خوش رنگ"اور "خوش رنگ چہرے" ادبی دنیا میں مقبول ہو چکے ہیں۔ اس لیے یہ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ غضنفر صاحب نے اردو خاکہ نگاری کے میدان میں نمایاں مقام حاصل کیا ہے۔

غضنفر صاحب نے ادب کی مختلف صنف میں طبع آزمائی کی ہے۔ مگر خاکہ نگاری میں انہوں نے اپنے منفرد اسلوب سے اپنی ایک مختلف پہچان بنائ۔ ان کی خاکہ نگاری کے طرف آنے کے اسباب پرغور کرتے ہوئے صفدر امام قادری"صورتیں" میں شامل اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔

"انہیں بھی کسی نئ زمین اور ایسے نئے سانچے کی تلاش تھی جہاں وہ اپنے ادب کی روح یا جسم اور لباس کے طور پر قصہ گوئی اور انشا پردازی کو کامیابی سے اور بے خوف و خطر آزمائیں۔ غضنفر کو معلوم تھا کہ اس کے لئے انہیں غیر افسانوی نثر کے میدان میں اترنا ہوگا۔اس میدان میں ان کے انشا پردازانہ جوہر کی پرورش ممکن ہے۔۔۔۔ اپنے تخلیقی فن کے ارتقا ءکے اس موڑ پر غضنفر نے خاکہ نگاری شروع کی۔اپنے ناولوں کے لکھنے کے بعد فکشن کے بھر پور تجربے کے ساتھ خاکہ نگاری کی طرف متوجہ ہوئے۔" (صورتیں۔صفحہ۔21-22)

بہر حال اردو ادب میں خاکہ نگاری کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ غضنفر علی کی خاکہ نگاری میں ان کی اسلوبیاتی جدت، مزاح اور سسپنس کے انوکھے امتزاج نے ان کی خاکہ نگاری کو مقبولیت بخشی ہے، جو قارئین کو ایک تازگی اور دلکش ادبی تجربہ فراہم کرتا ہے۔ یہ خاص طور پر زیر نظرمجموعے "صورتیں " میں واضح ہے جوشمس الرحمن فاروقی،خلیل الرحمن اعظمی،شارب رودولوی، عبدالصمد، اقبال حسن آزاد، مشتاق احمد نوری، اختر الایمان، پیغام آفاقی، قاضی افضال حسین ظفر کمالی ،حسین الحق اوراقبال مجیدجیسی قابل ذکر شخصیات کےساتھ ساتھ کل اٹھائیس اہم شخصیتوں کے خاکوں پر مشتمل ہے۔

اسلوبیاتی تنوع

غضنفرعلی کی خاکہ نگاری کی سب سے نمایاں خصوصیت ان کی اسلوبیاتی اختراع ہے۔ وہ اپنے خاکے ایک مخصوص مزاج کے ساتھ تیار کرتے ہیں،اوراکثر اپنے اسلوبیاتی جوہر کو حاصل کرنے کے لیے اختصار اور نفاست کا استعمال کرتے ہیں۔ ان کے خاکوں کے عنوانات خاص طور پر اپنے جامع اور پرتجسسنوعیت کے لیے قابل ذکر ہیں، جو قارئین کو اپنے دلچسپ اسلوب ،اختصار اور پر تجسس بیانیےکے ساتھ اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ ان خاکوں کے عنوانات ( اپنا ہی ہاتھ سر پہ رہا اپنے یاں سدا، اس آباد خرابے میں، اردو باغ کا باغباں، خوشبو وغیرہ) کا اسلوبیاتی اظہار نہ صرف قاری کو متوجہ کرتا ہے بلکہ اس کی دلچسپی کو بھی متاثر کرتا ہے اورخاکے میں آنے والی تفصیلات کے لیے لہجہ بھی متعین کرتا ہے۔

غضنفرعلی کی نثر میں روانی اور درستگی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔ وہ مہارت سے وضاحتی زبان کو گفتگو کے لہجے کے ساتھ جوڑتےہیں، ایسے خاکے تخلیق کرتےہیں جو ادبی ذوق کی تسکین کے ساتھ ادب کی تفہیم کے لیے بھی قابل رسائی ہوتے ہیں۔ ان کے یہاں استعارہ اور تشبیہات کا استعمال ان کردار کی تصویر کشی میں گہرائی کا اضافہ کرتا ہے، جس سے قارئین کو ان شخصی خاکوں کا تصور کرنے اور ان سے جڑنے کا موقع ملتا ہے۔

مزاح

غضنفر کی خاکہ نگاری گوناگو ں پہلؤں سے آراستہ ہے ،جس میں مذہب کے لیے تقدس، دنیا کی لذتیں ،زندگی کو بھر پور طور پر حاصل کرنے کی امنگ کے ساتھ ساتھ قوم کا درد ان کے فکر و خیال کا حصہ ہے۔ سادگی ، اختصار، سنجیدگی،شگفتگی،وقار، متانت، رنگینی،غضنفرعلی کی خاکہ نگاری کےاسلوب کی نمایاں صفات ہیں۔مزاح غضنفر علی کی خاکہ نگاری کا ایک متعین عنصر ہے۔ مزاح کی چاشنی ان کے خاکوں کی کشش کو بڑھاتی ہےاور انہیں پرلطف اور متعلقہ بناتی ہے۔ مزاح کے ذریعے وہ اپنے مضامین کے نرالےپن اور تازگی کو قايم رکھنے میں کامیاب رہتے ہیں، اکثر معاشرتی اصولوں اور انسانی رویوں پر تنقید کرنے کے لیے طنز کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ مزاحیہ انداز نہ صرف احساس لطافت پیش​​​​کرتا ہے بلکہ طنز کی دھار کو کند کرتا ہےاور سوچ کو بھی اکساتا ہے۔ ساتھ ہی قارئین کو اس کے مشاہدات کے گہرے مضمرات پر غور کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ لیکن کسی شخصیت کے تاریک پہلو کو کھول کر دکھانے کے وہ قائل نہیں ہیں۔اس سلسلے میں غضنفر صاحب خود رقم طراز ہیں۔۔

"کسی بھی اآدمی میں یوں تو سفید اور سیاہ دونوں رنگ ہوتے ہیں،مگر ہماری نگاہ کبھی اس میں پوری کی پوری سفیدی دیکھتی ہے اور کبھی ساری کی ساری سیاہی۔۔۔میری اآنکھیں بیک وقت دونوں رنگ دیکھتی ہیں۔فرق صرف یہ ہے کہ سیاہ رنگ کو خود تک محدود رکھتا ہوں۔اسے دوسروں کو نہیں دکھاتا کہ اس سے تاریکی پھیلتی ہے۔تاریکی جو راہ سے بھٹکاتی ہے۔بیمار کرتی ہے۔دل اور دماغ کا چین چھین لیتی ہے۔اور سفید رنگ کو میں دوسروں کو بھی دکھاتا ہوں کہ اس سے دوشنی ملتی ہے۔روشنی سے سفیدی کی چمک اور بڑھ جاتی ہے۔اس سے رنگینیاں بھی پھوٹ پڑتی ہیں۔حن سے دل اور دماغ رنگین اور روشن ہوتے ہیں۔(میرے خاکوں کا رنگ) "صورتبں" صفحہ۔ 11

"صورتیں" میں غضنفر علی کا مزاح لطیف بھی ہے اوربلند بانگ بھی۔ وہ جن شخصیات کے خاکے بنتے ہیں ان کی منفی خصوصیات کو اجاگر کرنے کے لیے وہ کہیں لطیف طنز تو کہیں مبالغہ آرائی کا استعمال کرتے ہیں، اس طرح یادگار اور دل چسپ کرداروں کے پورٹریٹ بناتے ہیں۔ روزمرہ کے حالات اور انسانی تعاملات میں مزاح تلاش کرنے کی ان کی صلاحیت ان کی تحریر میں دلنشینی پیدا کرتی ہے، جس سے ان کے خاکے پڑھنے میں دلچسپ معلوم ہوتے ہیں۔

تشکیک اور تجسس

غضنفر کی خاکہ نگاری کی ایک اور پہچان وہ سسپنس ہے جو وہ اپنے تمام خاکوں میں برقرار رکھتے ہیں۔ ""صورتیں" " میں وہ مہارت کے ساتھ شخصیات کی شناخت کو آخر تک روکتے ہیں، جس سے توقع اور تجسس کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ بیانیہ کی یہ تکنیک قارئین کو جس طرح تشکیک اور تجسس میں مبتلا رکھتی ہے، وہ منظر عام پر آنے والی شخصیت کی کہانی میں کھنچے چلےجاتے ہیں، اور اس طرح جس شخص کی تصویر کشی کی جا رہی ہے اس کی شناخت دریافت کرنے کے لیے قاری بے چین رہتے ہیں۔

غضنفرعلی کے یہاںسسپنس کا استعمال محض ایک ادبی آلہ نہیں ہے بلکہ ان کے خاکوں کے اثرات کو گہرا کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔ موضوع کی شناخت کے انکشاف میں تاخیر کرکے، وہ قارئین کو کردار کی خصلتوں، افعال اور ماحول پر توجہ مرکوز کرنے کی ترغیب دیتے ہیں، جس سے گہرے تعلق اور تفہیم کو فروغ ملتا ہے۔ شناخت کا حتمی انکشاف اکثر حیران کن ہوتا ہے، جس سے خاکے کی مجموعی تاثیر اور لطف میں اضافہ ہوتا ہے۔


"صورتیں" : خاکہ نگاری کا ایک شاہکار

"صورتیں" کی خاکہ نگاری غضنفر صاحب کی صلاحیتوں کا ثبوت ہے۔ یہ مجموعہ ان کی اسلوبیاتی جدت، مزاح اور سسپنس کو اس انداز میں ملانے کی صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے جو اس کی اثر آفرین میں اضافے کا سبب بنتا ہےاور تفریح کا سامان پیش ​​کرتاہے۔ اٹھائیس خاکوں میں سے ہر ایک احتیاط سے تیار کیا گیا بیانیہ ہے جو معروف شخصیات کی شخصیت کے بارے میں بصیرت پیش کرتا ہے، جبکہ وسیع تر سماجی اور ثقافتی موضوعات کی بھی عکاسی کرتا ہے۔

""صورتیں" میں نمایاں شخصیات جیسے کہ عبدالصمد، اقبال حسن آزاد، مشتاق احمد نوری، اختر الایمان، اور حسین الحق، غضنفر کی گہری مشاہداتی صلاحیتوں اور ادبی اظہار کے ذریعے زندہ ہوتے ہیں۔ ان کے خاکے نہ صرف ان افراد کی کامیابیوں اور شراکتوں کو اجاگر کرتے ہیں بلکہ ان کی ذاتی خوبیوں اور خصوصیات کا بھی جائزہ لیتے ہیں، جس سے ایک اچھی اور دلکش تصویر کشی کی گئی ہے۔

"صورتیں" میں غضنفر صاحب کی خاکہ نگاری اسلوبیاتی جدت، مزاح اور سسپنس سے نمایاں ہے، جس کی وجہ سے ان کی خاکہ نگاری کو اردو ادب میں ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔ ان کے خاکوں کا یہ مجموعہ ان خوبیوں سے متصف ہے جو قارئین کے لیےدل چسپ اور فکر انگیز کرداروں کے خاکوں کا ایک سلسلہ پیش کرتا ہے۔ غضنفر علی نے اپنے منفرد اندازِ فکر کے ذریعے خاکہ نگاری کی صنف کو زندہ کیا ہے، جس سے قارئین اور ادبی برادری دونوں پر دیرپا اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اپنےخاکوں کے جوہر کو عقل اور سسپنس کے ساتھ گرفت میں لینے کی ان کی صلاحیت اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ ان کے خاکے یادگار اور اثر انگیز رہیں اور اس صنف کے لیے ایک روشن راہ متعیّن کریں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


غضنفر کی "صورتیں " اور اسلوبیاتی بوقلمونی

نسترن احسن فتیحی

"صورتیں" غضنفر علی کے خاکوں کا چوتھا مجموعہ ہے۔ اس سے پہلے ان کے خاکوں کے تین مجموعے "سرخ رو"،"روئے خوش رنگ"اور "خوش رنگ چہرے" ادبی دنیا میں مقبول ہو چکے ہیں۔ اس لیے یہ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ غضنفر صاحب نے اردو خاکہ نگاری کے میدان میں نمایاں مقام حاصل کیا ہے۔

غضنفر صاحب نے ادب کی مختلف صنف میں طبع آزمائی کی ہے۔ مگر خاکہ نگاری میں انہوں نے اپنے منفرد اسلوب سے اپنی ایک مختلف پہچان بنائ۔ ان کی خاکہ نگاری کے طرف آنے کے اسباب پرغور کرتے ہوئے صفدر امام قادری"صورتیں" میں شامل اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔

"انہیں بھی کسی نئ زمین اور ایسے نئے سانچے کی تلاش تھی جہاں وہ اپنے ادب کی روح یا جسم اور لباس کے طور پر قصہ گوئی اور انشا پردازی کو کامیابی سے اور بے خوف و خطر آزمائیں۔ غضنفر کو معلوم تھا کہ اس کے لئے انہیں غیر افسانوی نثر کے میدان میں اترنا ہوگا۔اس میدان میں ان کے انشا پردازانہ جوہر کی پرورش ممکن ہے۔۔۔۔ اپنے تخلیقی فن کے ارتقا ءکے اس موڑ پر غضنفر نے خاکہ نگاری شروع کی۔اپنے ناولوں کے لکھنے کے بعد فکشن کے بھر پور تجربے کے ساتھ خاکہ نگاری کی طرف متوجہ ہوئے۔" (صورتیں۔صفحہ۔21-22)

بہر حال اردو ادب میں خاکہ نگاری کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ غضنفر علی کی خاکہ نگاری میں ان کی اسلوبیاتی جدت، مزاح اور سسپنس کے انوکھے امتزاج نے ان کی خاکہ نگاری کو مقبولیت بخشی ہے، جو قارئین کو ایک تازگی اور دلکش ادبی تجربہ فراہم کرتا ہے۔ یہ خاص طور پر زیر نظرمجموعے "صورتیں " میں واضح ہے جوشمس الرحمن فاروقی،خلیل الرحمن اعظمی،شارب رودولوی، عبدالصمد، اقبال حسن آزاد، مشتاق احمد نوری، اختر الایمان، پیغام آفاقی، قاضی افضال حسین ظفر کمالی ،حسین الحق اوراقبال مجیدجیسی قابل ذکر شخصیات کےساتھ ساتھ کل اٹھائیس اہم شخصیتوں کے خاکوں پر مشتمل ہے۔

اسلوبیاتی تنوع

غضنفرعلی کی خاکہ نگاری کی سب سے نمایاں خصوصیت ان کی اسلوبیاتی اختراع ہے۔ وہ اپنے خاکے ایک مخصوص مزاج کے ساتھ تیار کرتے ہیں،اوراکثر اپنے اسلوبیاتی جوہر کو حاصل کرنے کے لیے اختصار اور نفاست کا استعمال کرتے ہیں۔ ان کے خاکوں کے عنوانات خاص طور پر اپنے جامع اور پرتجسسنوعیت کے لیے قابل ذکر ہیں، جو قارئین کو اپنے دلچسپ اسلوب ،اختصار اور پر تجسس بیانیےکے ساتھ اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ ان خاکوں کے عنوانات ( اپنا ہی ہاتھ سر پہ رہا اپنے یاں سدا، اس آباد خرابے میں، اردو باغ کا باغباں، خوشبو وغیرہ) کا اسلوبیاتی اظہار نہ صرف قاری کو متوجہ کرتا ہے بلکہ اس کی دلچسپی کو بھی متاثر کرتا ہے اورخاکے میں آنے والی تفصیلات کے لیے لہجہ بھی متعین کرتا ہے۔

غضنفرعلی کی نثر میں روانی اور درستگی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔ وہ مہارت سے وضاحتی زبان کو گفتگو کے لہجے کے ساتھ جوڑتےہیں، ایسے خاکے تخلیق کرتےہیں جو ادبی ذوق کی تسکین کے ساتھ ادب کی تفہیم کے لیے بھی قابل رسائی ہوتے ہیں۔ ان کے یہاں استعارہ اور تشبیہات کا استعمال ان کردار کی تصویر کشی میں گہرائی کا اضافہ کرتا ہے، جس سے قارئین کو ان شخصی خاکوں کا تصور کرنے اور ان سے جڑنے کا موقع ملتا ہے۔

مزاح

غضنفر کی خاکہ نگاری گوناگو ں پہلؤں سے آراستہ ہے ،جس میں مذہب کے لیے تقدس، دنیا کی لذتیں ،زندگی کو بھر پور طور پر حاصل کرنے کی امنگ کے ساتھ ساتھ قوم کا درد ان کے فکر و خیال کا حصہ ہے۔ سادگی ، اختصار، سنجیدگی،شگفتگی،وقار، متانت، رنگینی،غضنفرعلی کی خاکہ نگاری کےاسلوب کی نمایاں صفات ہیں۔مزاح غضنفر علی کی خاکہ نگاری کا ایک متعین عنصر ہے۔ مزاح کی چاشنی ان کے خاکوں کی کشش کو بڑھاتی ہےاور انہیں پرلطف اور متعلقہ بناتی ہے۔ مزاح کے ذریعے وہ اپنے مضامین کے نرالےپن اور تازگی کو قايم رکھنے میں کامیاب رہتے ہیں، اکثر معاشرتی اصولوں اور انسانی رویوں پر تنقید کرنے کے لیے طنز کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ مزاحیہ انداز نہ صرف احساس لطافت پیش​​​​کرتا ہے بلکہ طنز کی دھار کو کند کرتا ہےاور سوچ کو بھی اکساتا ہے۔ ساتھ ہی قارئین کو اس کے مشاہدات کے گہرے مضمرات پر غور کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ لیکن کسی شخصیت کے تاریک پہلو کو کھول کر دکھانے کے وہ قائل نہیں ہیں۔اس سلسلے میں غضنفر صاحب خود رقم طراز ہیں۔۔

"کسی بھی اآدمی میں یوں تو سفید اور سیاہ دونوں رنگ ہوتے ہیں،مگر ہماری نگاہ کبھی اس میں پوری کی پوری سفیدی دیکھتی ہے اور کبھی ساری کی ساری سیاہی۔۔۔میری اآنکھیں بیک وقت دونوں رنگ دیکھتی ہیں۔فرق صرف یہ ہے کہ سیاہ رنگ کو خود تک محدود رکھتا ہوں۔اسے دوسروں کو نہیں دکھاتا کہ اس سے تاریکی پھیلتی ہے۔تاریکی جو راہ سے بھٹکاتی ہے۔بیمار کرتی ہے۔دل اور دماغ کا چین چھین لیتی ہے۔اور سفید رنگ کو میں دوسروں کو بھی دکھاتا ہوں کہ اس سے دوشنی ملتی ہے۔روشنی سے سفیدی کی چمک اور بڑھ جاتی ہے۔اس سے رنگینیاں بھی پھوٹ پڑتی ہیں۔حن سے دل اور دماغ رنگین اور روشن ہوتے ہیں۔(میرے خاکوں کا رنگ) "صورتبں" صفحہ۔ 11

"صورتیں" میں غضنفر علی کا مزاح لطیف بھی ہے اوربلند بانگ بھی۔ وہ جن شخصیات کے خاکے بنتے ہیں ان کی منفی خصوصیات کو اجاگر کرنے کے لیے وہ کہیں لطیف طنز تو کہیں مبالغہ آرائی کا استعمال کرتے ہیں، اس طرح یادگار اور دل چسپ کرداروں کے پورٹریٹ بناتے ہیں۔ روزمرہ کے حالات اور انسانی تعاملات میں مزاح تلاش کرنے کی ان کی صلاحیت ان کی تحریر میں دلنشینی پیدا کرتی ہے، جس سے ان کے خاکے پڑھنے میں دلچسپ معلوم ہوتے ہیں۔

تشکیک اور تجسس

غضنفر کی خاکہ نگاری کی ایک اور پہچان وہ سسپنس ہے جو وہ اپنے تمام خاکوں میں برقرار رکھتے ہیں۔ ""صورتیں" " میں وہ مہارت کے ساتھ شخصیات کی شناخت کو آخر تک روکتے ہیں، جس سے توقع اور تجسس کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ بیانیہ کی یہ تکنیک قارئین کو جس طرح تشکیک اور تجسس میں مبتلا رکھتی ہے، وہ منظر عام پر آنے والی شخصیت کی کہانی میں کھنچے چلےجاتے ہیں، اور اس طرح جس شخص کی تصویر کشی کی جا رہی ہے اس کی شناخت دریافت کرنے کے لیے قاری بے چین رہتے ہیں۔

غضنفرعلی کے یہاںسسپنس کا استعمال محض ایک ادبی آلہ نہیں ہے بلکہ ان کے خاکوں کے اثرات کو گہرا کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔ موضوع کی شناخت کے انکشاف میں تاخیر کرکے، وہ قارئین کو کردار کی خصلتوں، افعال اور ماحول پر توجہ مرکوز کرنے کی ترغیب دیتے ہیں، جس سے گہرے تعلق اور تفہیم کو فروغ ملتا ہے۔ شناخت کا حتمی انکشاف اکثر حیران کن ہوتا ہے، جس سے خاکے کی مجموعی تاثیر اور لطف میں اضافہ ہوتا ہے۔


"صورتیں" : خاکہ نگاری کا ایک شاہکار

"صورتیں" کی خاکہ نگاری غضنفر صاحب کی صلاحیتوں کا ثبوت ہے۔ یہ مجموعہ ان کی اسلوبیاتی جدت، مزاح اور سسپنس کو اس انداز میں ملانے کی صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے جو اس کی اثر آفرین میں اضافے کا سبب بنتا ہےاور تفریح کا سامان پیش ​​کرتاہے۔ اٹھائیس خاکوں میں سے ہر ایک احتیاط سے تیار کیا گیا بیانیہ ہے جو معروف شخصیات کی شخصیت کے بارے میں بصیرت پیش کرتا ہے، جبکہ وسیع تر سماجی اور ثقافتی موضوعات کی بھی عکاسی کرتا ہے۔

""صورتیں" میں نمایاں شخصیات جیسے کہ عبدالصمد، اقبال حسن آزاد، مشتاق احمد نوری، اختر الایمان، اور حسین الحق، غضنفر کی گہری مشاہداتی صلاحیتوں اور ادبی اظہار کے ذریعے زندہ ہوتے ہیں۔ ان کے خاکے نہ صرف ان افراد کی کامیابیوں اور شراکتوں کو اجاگر کرتے ہیں بلکہ ان کی ذاتی خوبیوں اور خصوصیات کا بھی جائزہ لیتے ہیں، جس سے ایک اچھی اور دلکش تصویر کشی کی گئی ہے۔

"صورتیں" میں غضنفر صاحب کی خاکہ نگاری اسلوبیاتی جدت، مزاح اور سسپنس سے نمایاں ہے، جس کی وجہ سے ان کی خاکہ نگاری کو اردو ادب میں ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔ ان کے خاکوں کا یہ مجموعہ ان خوبیوں سے متصف ہے جو قارئین کے لیےدل چسپ اور فکر انگیز کرداروں کے خاکوں کا ایک سلسلہ پیش کرتا ہے۔ غضنفر علی نے اپنے منفرد اندازِ فکر کے ذریعے خاکہ نگاری کی صنف کو زندہ کیا ہے، جس سے قارئین اور ادبی برادری دونوں پر دیرپا اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اپنےخاکوں کے جوہر کو عقل اور سسپنس کے ساتھ گرفت میں لینے کی ان کی صلاحیت اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ ان کے خاکے یادگار اور اثر انگیز رہیں اور اس صنف کے لیے ایک روشن راہ متعیّن کریں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024