سری پائے

سری پائے

Mar 16, 2018

مزاحمت کا ایک رنگ

مصنف

سیمیں خان درانی

شمارہ

شمارہ -٧

‍دیدبان شمارہ۔ ۷

سری پائے

سیمیں خان درانی 

اب کی بار دیدبان گرلز نے مزاحمتی ادب کا موضوع متعین کیا تو میں مجبوراً لکھنے کو اپنا بوسیدہ سیل پکڑ کر بیٹھ گئی ۔ جی کیونکہ ُمجھے اپنا موبائل اپنے بیٹے کی اجازت کے بغیر نہیں ملتا۔ اس کے ٹائمنگز ہیں۔ مجھ ناچیز پہ اللہ پاک کا خاص کرم تب ہوا جب اسکا ایکس باکس خراب ہوا اور میں جھوم اٹھی۔ جی جی۔ کتنے فخر کی بات ہے۔ جنیریشن زی۔اللہ جانے یہ کیا بلا ہے جو مجھے ایک بہت ماڈرن سکول کی پرنسپل نے بتائی اور میرے جیسی کم علم ماں وہاں سے بھاگی اور ایک سرکاری سکول جاکر دم لیا۔ جس کی دیوار پہ جناح اور اقبال صاحب نظر آئے جن کی نفی میں آج کا لبرل سٹھیاپے کا شکار ساٹھ سے پہلے ہی ہوگیا ہے۔ مگر افسوس اسکو انگریز اب بھی کالا ہی سمجھتے ہیں۔ لاکھ انگریزی پڑھ لیں۔ دائیں بائںں بازو بنائیں۔ مگر قسمے۔ ہیں تو دیسی نطفہ۔ ابھی تک ہمارے ہاں وہ ترقی نہیں آئی کے اپنی پسند کے کروموسوم سے جنا جائے۔۔

 ہمارے ہاں تو اگر کوئی بونا بھی پیدا ہوجائے تو بیچارہ معروف ہوٹل کا دربان بنتا ہے اور اسکو انسان نہیں بچوں کے دل بہلانے والے زندہ کھلونے کی مانند استعمال کیا جاتا ہے۔ شاید بونے بغیر دل و احساسات کے پیدا ہوتے ہیں۔ تعلیم بھی حاصل کرنا مشکل۔ معاشرے میں مقام تو دور کی بات۔ کہ یہ بونا معاشرہ اس آئینے میں اپنی مسخ شدہ شکل دیکھنے سے ہی گھن کھاتا ہے۔ اسی لئے اسکو دھتکار دیا جاتا ہے۔ ہم نارمل جو ہوئے۔ بلکہ اتنے نارمل کہ ہم جنس پرستوں کو بھی مغرب کی تقلید میں تسلیم کرکے مقام دینے کا سوچ رہے۔ مگر جی۔ ہیجڑوں کو دھتکارتے ہیں۔ کیونکہ سائنس کی ترقی کا فائدہ حاصل کئے بغیر وہ چونکہ قدرتی کمی کے مارے ہیں۔ تو کیوں نا ان مردوں کو عورت کا روپ دے کر یہ ثابت کیا جائے کہ جو کوکھ سے ادھورا جنا جائے گا۔ اسکا شمار عورت کی جنس میں ہوگا۔ کیوں نہیں جی۔ آخر کومرد کبھی ادھورا نہیں ہوتا اور ایک نا مرد بھی شادی کرکے ایک عورت کو ساری عمر نفسیاتی و جسمانی اذیت دیکر اپنی قبر کے کتبے پہ شیر خان لکھوا جاتا ہے جب کہ عورت بانجھ پن کا طعنہ سہتی مر جاتی ہے۔ 

ارے جی یاد آیا۔ اب تو "شی میلز" بھی آگئے۔ سوچنے پہ مجبور ہوئے  کہ مرد کو، صرف ایک قطر ہی درکار ہے۔ عورت ہیجڑا - ہو گئی نا سری والی بات۔ دھت تیرے کی یاد آیا بیٹے کوایک فوجی سکول داخل کروایا مگر اسکے دادا  سے یہ چھپانا پڑا کہ انکا اعلی نسلی پوتا سپائی کے بچے کے ساتھ ہے۔ کہ ہمارا  روشن خیال معاشرہ اب موم بتیاں جلانا سیکھ چکا ہے بغیر۔ ذات پات۔ اور اونچ نیچ کی خاص تفریق کے بس معمولی سی بات ہے۔ ان مومبتیوں کی آنچ مرنے کے بعد قبروں کو شاید باہر سے روشن کرتی ہے مگر دماغ ابھی بھی اندھیرے کا شکار۔ 

ہوا یوں کہ میرے ساتھ کام کرنے والی گھر کے پاس ایک کمرے میں کھلی مونٹیسوری میں اپنے  بچے داخل کروانے کو گئی  تو پرنسپل صاحبہ جو کہ گھر کا خرچہ پورا کرنے کو ایک کمرے میں سکول سجائے بیٹھی تھیں۔ اس پہ برس پڑیں۔"تمہاری جراءت کیسے ہوئی ۔ ہم ماسیوں کے  بچوں کو داخلہ نہیں دیتے" 

بیچارے بچے سوچنے پہ مجبور ہوگئے کہ ہم ایک ماسی کی اولاد ہیں۔ جو کہ حلال کمائی کی خاطر اپنی ہڈیاں اور عزت تڑخاتی پھرتی ہے۔ اور بیٹوں کے چاہ میں اپنی تمام تر توانائی صرف کرکے بڑھاپے سے پہلے ہی بہت سی پیچیدہ بیماریوں کا شکار ہو کر بہو کے طعنے سنتی سہتی مر جاتی ہے۔ ویسے تو وہ اندرونی مردہ ایک زندہ لاش ہوتی ہے۔ مگر پھر اصلی ہی نسلیں اسکی سانسوں کا شمار کرنے لگ پڑتی ہےاس کی بہو ان سب میں زیادہ حساب کتاب   کی ماہر ہے۔ درست،بالکل درست۔ عورت ہی عورت کی دشمن ہے۔ بالکل درست۔ عورتوں کا عالمی دن تھا۔ مجھے ایک عزیز، دوست گھسیٹ کر لے گئیں ۔مگر وجود زن کے رنگ دیکھنے کو بہت سے رنگوں کے عاشق بھی تھے۔ بہت اچھا لگا۔ مگر توبہ، ایک تو اتنی سختی تھی کہ۔مکرر کہ کر دوسری بار شعر سننے پہ پابندی۔ عورت عورت کیلئے تالیاں بجانے سے گریزاں۔ مہمان خصوصی سب سے نالاں۔ اپنے گھمنڈ میں اپنی ہی دھن میں مستاں۔ اور یقین کیجئے کہ بالکل بھاگم بھاگ مشاعرہ سمیٹا۔ کچھ کو تو باری دینے سے انکار کر دیا گیا۔ اور میں اپنی ہی سری پیٹ کر رہ گئی ۔ ابے یار عورت۔ تو رہے گی ہی نیچ ذات۔ کیوں مسکراکر سر تسلیم خم کرتی ہے۔ کچھ تو بولنا سیکھ۔ نکل اس برانڈ کے چکر سے۔ خود برانڈڈ بن۔ جس دن تو فخر سے اپنے نام کے ساتھ اس شخص کا نام جوڑنا چھوڑ،  اپنے باپ کی بیٹی بنے گی نا۔ تجھے وہ  شناخت ملے گی جو کوکھ سے باہر آتے ہی تیرے نام نے لی تھی۔ اس وقت تیرا اپنا نام تھا۔ کتنی ننھی سی تھی تو۔ پھر بھی اپنے نام سے پہچانی جاتی اور اسکو سنتے ہی کلکاریاں بھرتی۔ یاد ہے۔

‍دیدبان شمارہ۔ ۷

سری پائے

سیمیں خان درانی 

اب کی بار دیدبان گرلز نے مزاحمتی ادب کا موضوع متعین کیا تو میں مجبوراً لکھنے کو اپنا بوسیدہ سیل پکڑ کر بیٹھ گئی ۔ جی کیونکہ ُمجھے اپنا موبائل اپنے بیٹے کی اجازت کے بغیر نہیں ملتا۔ اس کے ٹائمنگز ہیں۔ مجھ ناچیز پہ اللہ پاک کا خاص کرم تب ہوا جب اسکا ایکس باکس خراب ہوا اور میں جھوم اٹھی۔ جی جی۔ کتنے فخر کی بات ہے۔ جنیریشن زی۔اللہ جانے یہ کیا بلا ہے جو مجھے ایک بہت ماڈرن سکول کی پرنسپل نے بتائی اور میرے جیسی کم علم ماں وہاں سے بھاگی اور ایک سرکاری سکول جاکر دم لیا۔ جس کی دیوار پہ جناح اور اقبال صاحب نظر آئے جن کی نفی میں آج کا لبرل سٹھیاپے کا شکار ساٹھ سے پہلے ہی ہوگیا ہے۔ مگر افسوس اسکو انگریز اب بھی کالا ہی سمجھتے ہیں۔ لاکھ انگریزی پڑھ لیں۔ دائیں بائںں بازو بنائیں۔ مگر قسمے۔ ہیں تو دیسی نطفہ۔ ابھی تک ہمارے ہاں وہ ترقی نہیں آئی کے اپنی پسند کے کروموسوم سے جنا جائے۔۔

 ہمارے ہاں تو اگر کوئی بونا بھی پیدا ہوجائے تو بیچارہ معروف ہوٹل کا دربان بنتا ہے اور اسکو انسان نہیں بچوں کے دل بہلانے والے زندہ کھلونے کی مانند استعمال کیا جاتا ہے۔ شاید بونے بغیر دل و احساسات کے پیدا ہوتے ہیں۔ تعلیم بھی حاصل کرنا مشکل۔ معاشرے میں مقام تو دور کی بات۔ کہ یہ بونا معاشرہ اس آئینے میں اپنی مسخ شدہ شکل دیکھنے سے ہی گھن کھاتا ہے۔ اسی لئے اسکو دھتکار دیا جاتا ہے۔ ہم نارمل جو ہوئے۔ بلکہ اتنے نارمل کہ ہم جنس پرستوں کو بھی مغرب کی تقلید میں تسلیم کرکے مقام دینے کا سوچ رہے۔ مگر جی۔ ہیجڑوں کو دھتکارتے ہیں۔ کیونکہ سائنس کی ترقی کا فائدہ حاصل کئے بغیر وہ چونکہ قدرتی کمی کے مارے ہیں۔ تو کیوں نا ان مردوں کو عورت کا روپ دے کر یہ ثابت کیا جائے کہ جو کوکھ سے ادھورا جنا جائے گا۔ اسکا شمار عورت کی جنس میں ہوگا۔ کیوں نہیں جی۔ آخر کومرد کبھی ادھورا نہیں ہوتا اور ایک نا مرد بھی شادی کرکے ایک عورت کو ساری عمر نفسیاتی و جسمانی اذیت دیکر اپنی قبر کے کتبے پہ شیر خان لکھوا جاتا ہے جب کہ عورت بانجھ پن کا طعنہ سہتی مر جاتی ہے۔ 

ارے جی یاد آیا۔ اب تو "شی میلز" بھی آگئے۔ سوچنے پہ مجبور ہوئے  کہ مرد کو، صرف ایک قطر ہی درکار ہے۔ عورت ہیجڑا - ہو گئی نا سری والی بات۔ دھت تیرے کی یاد آیا بیٹے کوایک فوجی سکول داخل کروایا مگر اسکے دادا  سے یہ چھپانا پڑا کہ انکا اعلی نسلی پوتا سپائی کے بچے کے ساتھ ہے۔ کہ ہمارا  روشن خیال معاشرہ اب موم بتیاں جلانا سیکھ چکا ہے بغیر۔ ذات پات۔ اور اونچ نیچ کی خاص تفریق کے بس معمولی سی بات ہے۔ ان مومبتیوں کی آنچ مرنے کے بعد قبروں کو شاید باہر سے روشن کرتی ہے مگر دماغ ابھی بھی اندھیرے کا شکار۔ 

ہوا یوں کہ میرے ساتھ کام کرنے والی گھر کے پاس ایک کمرے میں کھلی مونٹیسوری میں اپنے  بچے داخل کروانے کو گئی  تو پرنسپل صاحبہ جو کہ گھر کا خرچہ پورا کرنے کو ایک کمرے میں سکول سجائے بیٹھی تھیں۔ اس پہ برس پڑیں۔"تمہاری جراءت کیسے ہوئی ۔ ہم ماسیوں کے  بچوں کو داخلہ نہیں دیتے" 

بیچارے بچے سوچنے پہ مجبور ہوگئے کہ ہم ایک ماسی کی اولاد ہیں۔ جو کہ حلال کمائی کی خاطر اپنی ہڈیاں اور عزت تڑخاتی پھرتی ہے۔ اور بیٹوں کے چاہ میں اپنی تمام تر توانائی صرف کرکے بڑھاپے سے پہلے ہی بہت سی پیچیدہ بیماریوں کا شکار ہو کر بہو کے طعنے سنتی سہتی مر جاتی ہے۔ ویسے تو وہ اندرونی مردہ ایک زندہ لاش ہوتی ہے۔ مگر پھر اصلی ہی نسلیں اسکی سانسوں کا شمار کرنے لگ پڑتی ہےاس کی بہو ان سب میں زیادہ حساب کتاب   کی ماہر ہے۔ درست،بالکل درست۔ عورت ہی عورت کی دشمن ہے۔ بالکل درست۔ عورتوں کا عالمی دن تھا۔ مجھے ایک عزیز، دوست گھسیٹ کر لے گئیں ۔مگر وجود زن کے رنگ دیکھنے کو بہت سے رنگوں کے عاشق بھی تھے۔ بہت اچھا لگا۔ مگر توبہ، ایک تو اتنی سختی تھی کہ۔مکرر کہ کر دوسری بار شعر سننے پہ پابندی۔ عورت عورت کیلئے تالیاں بجانے سے گریزاں۔ مہمان خصوصی سب سے نالاں۔ اپنے گھمنڈ میں اپنی ہی دھن میں مستاں۔ اور یقین کیجئے کہ بالکل بھاگم بھاگ مشاعرہ سمیٹا۔ کچھ کو تو باری دینے سے انکار کر دیا گیا۔ اور میں اپنی ہی سری پیٹ کر رہ گئی ۔ ابے یار عورت۔ تو رہے گی ہی نیچ ذات۔ کیوں مسکراکر سر تسلیم خم کرتی ہے۔ کچھ تو بولنا سیکھ۔ نکل اس برانڈ کے چکر سے۔ خود برانڈڈ بن۔ جس دن تو فخر سے اپنے نام کے ساتھ اس شخص کا نام جوڑنا چھوڑ،  اپنے باپ کی بیٹی بنے گی نا۔ تجھے وہ  شناخت ملے گی جو کوکھ سے باہر آتے ہی تیرے نام نے لی تھی۔ اس وقت تیرا اپنا نام تھا۔ کتنی ننھی سی تھی تو۔ پھر بھی اپنے نام سے پہچانی جاتی اور اسکو سنتے ہی کلکاریاں بھرتی۔ یاد ہے۔

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024