افسانہ: گردول

افسانہ: گردول

Jan 10, 2023


افسانہ: گردول

مصنف: آغا گل


سمندر اس کا دوست اس کا سنگت تھا۔وہ رفتہ رفتہ ایک بڑا مالم بن گیا۔وہ سمندری طوفانوں۔بدلتے موسموں بادلوں کی مختلف قسموں کا مزاج شناس تھا۔ باد و باراں کی گردشوں موسمی مچھلیوں کے سواحل پر آنے کے اوقات ، سمندر کے اندر کی چٹانوں پہاڑوں کا واقف حال تھا۔موسم کب تیور بدلے گا۔کس ستارے کی گردش کا زمانہ ہے۔ کون سے ستارے کس جانب آسمان پہ طلوع ہوں گے اور ان کے کیا اثرات سمندر پر ہوں گے وہ بخوبی جانتا تھا، گہرے سمندر کھلے سمندر میں کب جانا مناسب ہوگا وہ یہ بھید بھی جانتا تھا۔سمندر کی کس سمت میں کتنی گہرائی میں کس قسم کی مچھلیاں ہوتی ہیں وہ اس کی بھی جانکاری رکھتا تھا۔سمندر کے ساتھ ساتھ کھلی چمکدار صاف ریت پہ کھیل کود کر وہ جوان ہوا تھا۔ سمندر کی ریت بھی ایسی کہ وہ کپڑے جھاڑتا تو ریت غائب ہو جایا کرتی۔ جب پرانے تجربہ کار مالم بڑے بڑے خطرناک گردول ( سائیکلون ) کی آپس میں باتیں کرتے تو وہ بظاہر لا تعلق رہتے ہوئے بھید بھاؤ لیتا۔ ان ھی ماھی گیروں کی باتیں اس کے ذہن نشیں ہوتی رہیں۔ بادلوں کے برتاؤ ستاروں کے کردار ابتدائی دنوں میں تو اسے مبہم سے لگا کرتے ۔ مگر رفتہ رفتہ وہ راز اس کے دل پہ کھلنے لگے ہواؤں کے چلنے کے انداز ۔ بادلوں کا آنا جانا سمٹ یا برس کر بدلی کا ٹوٹ جانا۔ جب شام میں مالم الاؤ کے پاس سمندر پار سے آنے والی بوتلیں کھولتے ایک جانب مچھلی تیار ہوتی جس کی اشتہا انگیز خوشبو سمندری ہواؤں کو بھی گرد و پیش سونگھتے پھرنے پہ مجبور کر دیتیں۔ پی پلا کر وہ مالم اپنے پرکھوں کے قصے ، تجربات دہراتے۔ سمندری راز ان کے دلوں میں دفن تھے ۔پینے سے شمپین کی بوتل کی طرح " ہک " کرکے وہ راز دل سے ابلنے لگتے اور راتوں میں بہتے ہی چلے جاتے مید ( مچھیرے ) سمندری رازوں کے امین سمندر کے بیٹے ہی ہوا کرتے ہیں۔ سمندری لہریں بھی بندن ( جہاں لہریں ٹوٹ کر ختم ہوتی ہیں ) تک آ آکر باتیں سنتیں۔مید اپنی کشتیاں بندن سے لگا دیتے راتوں میں یہاں محفلیں بپا ہوتیں۔ دور دور تک الاؤ جلتے مچھلیاں تیار کی جاتیں۔ بحری جہاز تو سمندری حد کے بندن سے آگے نہ بڑھ پاتے مگر سونامی یا سائیکلون میں بندن توڑ کر سمندر آگے بڑھ بڑھ کر شوریدہ سری کرتا۔ فاتح ماہی گیر شکار اتار کر کشتیاں کھینچ کھینچ کر قندو (ساحلی پٹی) پہ لے آیا کرتے اور ایسی محفلوں  میں کود پڑتے۔کئی کئی دنوں کی تھکن پل بھر میں ہی دور ہو جایا کرتی۔ دوستوں کی گپ بازی لطیفے قہقہے اجنبی سمندروں غیر ملکوں کے قصے۔بزرگوں نے شیر دل کو بچپن سے ہی ذہن نشین کرا رکھا تھا کہ بڑا ہو کر وہ ایک مالم بنے گا۔وہ سمندر کا نبض شناس ہو گا۔ بھید بھاؤ جانتا ہوگا۔ چاروں موسموں،ہواؤں کا علم رکھتا ہوگا۔ گردول کے مزاج سمجھتا ہوگا۔کب بارش ہونے کا امکان ہوگا۔کب گرد و غبار اور بھنور پیدا ہوں گے ۔ بھنور خطرناک گرداب میں کب تبدیل ہوں گے۔ کو نسا ستارہ کب طلوع اور غائب ہوگا۔ اس کے سمندر پر کیا اثرات ہوں گے۔پور، تیر بند ، سماک، سہیل، واکا، ناکا کون سے ستارے ہیں۔ان کے مزاج کیا ہیں سمندر پر کیا اثرات ہیں ان پراسرار علوم پر عبور رکھنے والے کو ہی مید مالم کہا کرتے۔کسی گرو کی طرح اس کا احترام بھی کیا کرتے۔کسی مالم سے یہ علوم سیکھنے کے لئے نہ تو  گرو دھکشناء کی نہ ہی وہ درونا چاریہ( ارجن کا گرو) کی طرح ایکویہ کا انگوٹھا گرو دھکشناء شرط میں طلب کرتے وہ تو چاہتے کہ ان کی بات پر کان دھرا جائے عزت کی جائے۔ سمندر اور ستاروں کی طرح احترام کا یوں بھی علم سے گہرا رشتہ اٹوٹ سمبندھ ہے۔ ایسے شاگردوں کو واجہ گژدانی میں گہرے سمندروں میں لے جایا کرتا۔گژدانی وه بڑی سی کشتی جو صرف مچھلیوں کے شکار کے لیے استعمال ہوا کرتی ہے۔ ایک ڈیڑھ ماہ سمندر میں گزار سکتی ہے۔ بعض اوقات تو واجہ وطن کے آس پاس کی بندرگاہوں میں اپنی مچھلیاں نیلامی کے ذریعہ فروخت کر کے دوبارہ گہرے سمندروں میں گژدانی کو لیے پھرتا۔ اس کے آس پاس سے جدید لانچیں بھی گزرتیں۔ جو محض مچھلیاں پکڑ کے پلٹ جایا کرتیں۔ جنہیں تجربہ کار ملاح تحقیر سے سون کہا کرتے سون بھی بھلا کوئی شکار ہے کہ مچھلی پکڑی اور واپسی اختیار کی کاتا اور لے دوڑی۔

اسے ہی ایک شکار میں جب وہ دور سمندر پہ نظریں جمائے کھڑا تھا۔اس کے نوجوان شاگرد جال درست کر رہے تھے ایک سپریگ افق سے نمودار ہوئی۔ مالم بخوبی جانتے ہیں کہ سپر یگ ایک مسافر بردار کشتی ہوا کرتی ہے ، اس میں سوداگری کا سامان بھی ہوا کرتا ہے جسے بلوچستان کے ساحل سے کالی کوٹ (کالی کٹ)ممبئی۔دوسری جانب مسقط، دبئی، بحرین، کویت، عدن، زنجبار یا پھر سومالیہ لے جاتے ہیں۔

سپریک کا ناخدا دراصل واجہ کا شاگرد کریم تھا، وہ واجہ کو دیکھ کر بہت ہی خوش ہوا۔ سپریگ کو قریب ہی ہچکولے کھاتے گہرے سمندر میں روک لیا۔

ایک ڈونگی سمندر میں اتار کر واجہ کی گژدانی کے پاس پہنچے اور التجا کی کہ وہ سپریگ کو رونق بخشے۔رسے کی سیڑھی سے واجہ اتر کر ڈونگی میں بیٹھا اور رسے کی سیڑھی سے اوپر عرشے پر پہنچا۔

کپتان اور عملہ نہایت ہی پرتپاک طریقے سے پیش ہوئے۔جھینگے تیار تھے فورا ہی سجا دیے گئے۔واجہ کا استقبال کسی راجہ مہاراجہ کی طرح ہورہا تھا۔ہاتھوں ہاتھ لے رہے تھے۔ایک لڑکی جو نہایت ہی محویت سے یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔دیگر مسافروں سے نکل کر واجہ سے ملی۔اسے وہ عجیب پر اسرار سا Pirate جیسا لگا۔سبھی جس کی تعریف کیے جاتے۔واجہ اس پیکر حسین کو دیکھ کر ششدر رہ گیا۔جیسے کلمت کے ساحل پہ اچانک سورج لہروں پہ تھم جائے۔اس حسن بلا خیز کو نظر بھر دیکھنا بھی ممکن نہ تھا۔جیسے پسنی کے سمندر سے نکلی کوئی جل پری،اورماڑہ کے سمندر سے طلوع ہوتا بدر۔وہ بھی واجہ کے ساتھ سامنے بینچ پہ بیٹھ گئی۔سارا فرنیچر ہی فرش سے جڑا ہوا تھا۔درمیان کی میز بھی فرش میں  پیوست تھی۔

” واجہ میں ایک ناول لکھنا چاہتی ہوں۔جیسے کہ Herman Melville نے The Whale  لکھا پھر اس کا نام Moby Dick  رکھ دیا۔یا ہیمنگوے نے Old man and the sea لکھا۔واجہ تم نے یہ ناول پڑھے ہیں؟ “

واجہ بے تکلفی سے مسکرایا۔

” میں نے صرف سمندر ہی کو پڑھا ہے،صرف اپنا نام ہی لکھ سکتا ہوں“

حسینہ کو بہت تاسف ہوا۔

” افسوس تم نے سمندروں پہ لکھے گئے عظیم ناول نہیں پڑھے۔میں ویسا ہی ناول لکھنا چاہتی ہوں۔عالمی ادب میں اپنا نام پیدا کرنا چاہتی ہوں۔لوگ مجھے کہتے ہیں کہ تم تو سمندروں کے لیے Monomaniacal ہو،شاید سچ ہی ہو۔شائد جوزف کونارڈ کی روح میرے اندر آگئی ہے۔اسے بھی سمندروں سے عشق تھا۔وہ۔ پہلے سیلر رہا پھر کیپٹن بن گیا اس نے سمندروں پہ لکھا “

فضاء ساکت تھی،سمندر ہچکولے دے رہا تھا اور جھینگے مزیدار تھے۔واجہ بہت مسرور تھا کیسی جل پری سمندر سے نکل آئی۔کس قدر حسین!

” میرا نام تو بڑا لمبا چوڑا ہے،بس تم مجھے سیمی کہا کرو “

سیمی نے منا سا ہاتھ واجہ کے آہنی ہاتھ میں دے دیا۔

” آج سے ہم دوست ہیں۔تمہارا نام؟ “

واجہ اس بدلتی ہوئی صورتحال سے کچھ نروس سا ہوگیا تھا۔اس نے سمندر اور مچھلیاں دیکھی تھیں،روپ بدلتے بادل کو جانا تھا۔کبھی کوئی عورت اس کی زندگی میں اس قدر قریب نہ تھی کہ اس کی بے قابو زلفیں واجہ کے چہرے پہ لہریں مارنے لگیں۔واجہ نے نہائیت  ہی نرمی سے ہاتھ ملایا کہ کہیں ہاتھ ٹوٹ ہی نہ جائے۔

” میرا نام شیر دل ہے،میں بھی سیلر تھا۔لاسکری بھی رہا۔بحری جہازوں پر بھی کام کیا۔لیاری کی گلیوں میں بھی فٹ پاتھ پہ سویا۔پھر خدانے اپنی کشتی دے دی۔مجھے ویسے ہی لوگ بڑا مالم مانتے ہیں۔یہ کپتان کریم بھی میرا ہی شاگرد رہا ہے۔ورنہ میں تو عام سا مید ( مچھیرا ) ہوں “

کپتان کریم نے خلوص دل سے دانتوں کی نمائش کی وہ سیمی سے مخاطب ہوا۔

” کسی چھوٹی یا بڑی کشتی میں سمندر کا سفر کرنے سے تمہیں سمندر سمجھ نہیں آئے گا،ایک چادر لاؤ،ایک ڈبہ مٹھائی اور واجہ کو استاد پکڑو۔اس کی شاگردی کرو۔ اس کے ساتھ رہو۔سوالوں کی بارش کردو پھر سیکھ کر سمندر کو جان کر ہی ناول لکھنا“

سیمی کو بات سمجھ آگئی۔اس نے فیصلہ کرنے میں دیر نہ کی۔

” واجہ تم مجھے اپنے ساتھ رکھو گے “

واجہ پہ سونامی چڑھ دوڑی،اسکی سانسیں بے ترتیب ہونے لگیں۔

”نہیں،نہیںمیں اتنی بڑی ذمہ داری نہیں لے سکتا “

سیمی نے واجہ کے چہرے پہ Rogve Waves کا حملہ دیکھ لیا تھا۔جس سے وہ بہت محظوظ ہوئی۔

” واجہ! تم کتنے متعصب ہو Gender Distinction کرتے ہو مردوں کو تو سکھاتے ہو۔عورت سے انکار! ایسا کیوں ہے؟ “

واجہ کو بھی ندامت سی محسوس ہوئی۔

” سمندر کی سات قسم کی لہروں کو تو میں جانتا ہوں۔مگر کسی عورت کو سمجھنا مشکل ہے۔نازک سی ہوتی ہے۔سفری صعوبتیں کیسے برداشت کرے گی۔یہ شکاری کشتی ہے یہاں زندگی بہت سخت ہے “

سیمی کہاں ٹلنے والی تھی۔

” تم ہاں تو کہہ دو،میں کبھی بھی شکایت نہیں کروں گی “

کریم نے قہقہہ لگایا۔

”مان جاؤ واجہ۔اسکے ناول میں تمہارا بھی نام آئے گا۔شائد اس پر فلم بھی بن جائے“

واجہ تو ان پڑھ تھا۔ناول کے نام پہ اس نے دلچسپی نہ لی۔وہ حسین لڑکی تو Collapsing Waves کی طرح اسے لپیٹ رہی تھی۔Surging Waves کی طرح اسکے دل کو ہچکولے کھلا رہی تھی۔

واجہ اچانک Capillary Waves میں پھنس کے رہ گیا تھا۔کیوں کریم سے آمنا سامنا ہوا کسی اور سمت سے نکل جاتا۔اسے ہاں کہتے ہی بن پڑی۔تیزی سے سیمی کا سامان گژدانی میں منتقل ہوا۔سیمی کے دونوں محافظ اور ایک آیا بھی چلی آئی۔کریم نے عرشے سے خدا حافظ کہتے ہوئے مواصلاتی نظام پر آگاہ کیا کہ وہ واپسی پہ سیمی اور اس کے ملازمین کو لے کر پھر کراچی جائے گا۔کیونکہ اکرم کے بھروسے پہ ہی سیٹھ انور نے سیمی کو سمندری سفر پہ روانہ کیا تھا۔ضروری تھا کہ واپسی پر اس کی بیٹی اسکے عالی شان بنگلے میں پہنچا کر کچھ انعام بھی وصول کرتا۔کرایہ تو وہ پہلے ہی لے چکا تھا۔سیٹھ کافی دیالو تھا۔سیمی کا علم کتابی تھا۔وہ Navigation اور Seamanship کے علاوہ Sailingmaster یا Quartermaster کے بارے میں سطحی سا علم رکھتی تھی۔Cabin boy یا Boatswain اور پھر Sailer یا بادبان کھولنے والے کلاسیکی Rigger کے بارے میں ہی جانتی تھی۔اسے ہچکولے کھاتے ڈولتے ابھرتے ڈگمگاتی گژدانی کھلے سمندر میں سفر کا پہلا تجربہ ہوا۔مگر اسے واجہ پہ پورا بھروسہ تھا۔جس کے باعث وہ کھلے سمندر کو بھی کلفٹن کا Continantal Shelf والا ساحل سمجھ کر مطمئن سی سمندر کے بدلتے ہوئے چہرے دیکھا کرتی۔سمندر کا چہرہ سیاہ تھا پگھلا ہوا تھا۔یوں رنگ بدلتا چہرے بدلتا۔مزاج بدلتا کہ سیمی حیران سی رہ جاتی۔اگرچہ اتنی مکانیت تو نہ تھی۔مگر سیمی کو ایک کیبن دے دیا گیا،جس میں سیمی کا مختصر سا سفری سامان سجادیا گیا۔آیا بھی اسی کیبن کے فرش پہ آرام کرتی اور چوبی برتھ سیمی کے لیے تھی۔جب سمندر بپھرتا تو سیمی کو خطرہ رہتا کہ وہ بے توازن ہوکر آیا پر ہی جاگرے گی۔سمندر کبھی نیلا ہوتا کبھی براؤن،کبھی خاکستری کبھی کالا سیاہ۔اس کا ہر چہرہ پراسرار تھا۔واجہ اس لانچوں والے شکار سون کو ناپسند کرتا تھا کہ نصیر خان اول کی طرح کیچ پر حملہ آور ہو اور مارتا کاٹتا نکل جائے۔سمندر سے مچھلیوں کو سمیٹا اور پلٹ پڑا۔اسے گوادر،پسنی،اورماڑہ،گڈانی یا پھر کراچی کے ساحل پہ نیلام کرکے دوبارہ سمندر کا رخ کیا۔کسی بھی مالم کے لیے یوں گڑ بڑی شکار مناسب نہ تھا۔مالم تو کھلے سمندر میں جاتے تسلی سے شکار کرتے۔کشتی بھر کے پلٹتے پھر دوست احباب کے ساتھ رہتے۔کھاتے پیتے گھومتے پھرتے۔ان کی دلجوئی اور مالی امداد کرتے۔اسی لیے مید واجہ کے ساتھ ہی شکار پہ جانا پسند کرتے۔وہ ان کی پسندیدہ شخصیت ان کا رول ماڈل تھا۔کشتیوں کے اپنے اپنے نام ہوا کرتے۔القاسمی،المحودی،الیاسین،الماہد،الکراچی،البیروت،پسنجر اور کارگو سبھی کے نام ہوا کرتے ہیں۔واجہ کی گژدانی کا نام البیلوس تھا۔زمانہ قدیم میں بلوچ کا تلفظ بیلوس ( طاقت ور ) ہوا کرتا جو قدیم زبانوں ژند پا ژند کے علاوہ قدیم مصر میں بھی پایا جاتا تھا۔کیونکہ ان سمندروں کا وہ ہی بیٹا تھا۔وہی سندھ کی ململ مصر پہنچاتا جس سے ممی کو حنوط کرکے لپیٹا جاتا۔یوں تو سیٹلائٹ آسمانوں سے سمندر کو دیکھتے ہیں اور بحری جہازوں کو ایک نظام کے تحت تغیر و تبدل سے آگاہ کرتے رہتے ہیں۔مگر سٹیلائٹ سمندر کے مزاج کو کم کم سمجھتے ہیں۔جیسے ڈاکٹر بخار چڑھنے پر مریض کا علاج کرتے ہیں۔جب بخار پیدا کرنے والی لہریں بدن میں اٹھ رہی ہوں اس وقت توجہ نہیں دیتے۔یاجب پتھر بننے کا مزاج ہو وہ نہیں دیکھتے گردے میں پتھری بن ہی جائے تو پھر وہ

اسے نکالنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ جب کہ مالم تو ہزاروں برس سے  سمندروں کے اندر ہیں۔ سمندروں کے بچے ہیں۔ واجہ بھی ایک ایسا ہی مالم تھا۔ ناشتے کے بعد سیمی عرشے پہ آگئی۔ واجہ نے سر کے اشارے سے سلام کیا اور بدستور جال سمیٹھنے والے عملے کے ساتھ کام میں منہمک رہا۔پھر اچانک اسے خیال آیا کہ سیمی تو اس کی مہمان ہے۔یوں تو سیمی گڑیا سی تھی۔ لڑکیوں کی Miniature painting روسی Matryoshka Doll مگر اسے تعجب ہوا کہ واجہ نے اسے نظر بھر نہ دیکھا۔ اکثر مرد اسے دیکھ کر ٹھٹھک جایا کرتے۔اوکلو ہاما میں  تعلیم کے دوران بھی اکثر امریکی اسکی زلفوں اور سیاہ آنکھوں میں راہ بھول جائے ۔ مگر واجہ کا دل Meteor Deep سا اتھاہ گہرائیوں والا عمیق جس میں ماونٹ ایورسٹ رکھ دو تو وہ بھی ڈوب جائے۔ یا شائد واجہ کا دل سمندر کی طرح Divine language بولتا۔

   Silence is The Divine Language of God

واجہ نے سیمی کو فوری توجہ دی احتراماً کام چھوڑ دیا اسے اپنی محویت پہ ندامت تھی۔

” کیسی ہیں بانک۔ یہ ہماری غریبانہ سی کشتی ہے آپ کو وہ فرسٹ کلاس کیبن کی سہولت تو نہیں دے سکتے۔شرمندہ بھی ہوں“

سیمی اس کی انکساری پہ بہت مسرور ہوئی۔ پھل دار درخت ہمیشہ جھکے رہتے ہیں۔

” بہت اچھی کشتی ہے،کھانا بھی اچھا ملتا ہے، ایسے prawn تو میں نے زندگی میں نہیں کھائے ، اور مچھلیاں بھی کمال کی ہیں۔ بعض تو ایسی نرم کہ انہیں پکائے بغیر بھی کھایا جاسکتا ہے“

واجہ نے سمندر کی جانب توجہ دلائی۔

”وہ دیکھو بادل کی ایک ٹکڑی ہمیں پتہ ہو تا ہے کہ یہ کیا رنگ دکھائے گا ، کیا برتاؤ کرے گا “

سیمی نے بادلوں کی چاروں قسمیں گوگل میں ہی پڑھ رکھی تھیں۔جبکہ واجہ ان کا مزاج شناس تھا۔بادل اس کے سنگت تھے۔

” بات یہ ہے کہ مئی سے جولائی کے آخر تک گہرے سمندروں میں سفر کرنا موت کو دعوت دینے کے برابر ہے۔ہمارے عام مید یہ تین ماہ بہت ہی تنگی ترشی میں گزارتے ہیں،یکم اگست سے دوبارہ سمندروں میں کشتیاں اتارتے ہیں۔وہ زمانہ تنگی ترشی کا ہوتا ہے “

” واجہ تم مجھے سیمی کہا کرو۔دنیا بھر میں یہی رواج ہے۔نام بھلا کیوں رکھے جاتے ہیں “

واجہ کچھ ہچکچایا۔

” بانک کی بجائے تمہیں سیمی کہا کروں۔ تمہارا نام سیمی کیوں ہے،اسکا کیا مطلب ہے“

سیمی کھلکھلا کے ہنس دی۔ وہ اور بھی حسین ہوگئی۔

ہونٹ وا ہوئے،بصرہ کے موتی جیسے دانت چمکے پھر ان پہ گلابی لب دوبارہ آگئے۔واجہ کا دل چاہا وہ ایک بار پھر کھل جا سم سم کہے۔اور کہے تم ہنستی رہو بار بار۔جیسے سمندر پہ بار بار چاند نکل آتا ہے۔مگر اس نے خود کو سنبھالا۔سمندروں کی سنگت نے واجہ  کو صاحب برداشت پراسرار گہرا اور پرکشش بنا رکھا تھا وہ حسن کا طوفانی حملہ مردانہ وار برداشت کرگیا اور ڈھیر نہ ہوا۔

” سیمی کا مطلب ہے چاندی کی بنی ہوئی “

واجہ کچھ ہچکچایا۔کچھ کہنا چاہتا تھا مگر خاموش ہولیا۔

” بولو واجہ! میں امریکہ کی تعلیم یافتہ ہوں جہاں تعریف سے لڑکیاں خوش ہوتی ہیں “

واجہ نے ہمت کی ” تم مجھے چاند رات لگتی ہو “

سیمی پھر ہنس دی۔

میں تو تمہیں مالم سمجھتی رہی۔تم تو ایک بہت بڑے شاعر ہو “

اسی رات وہ واجہ کی شاعرانہ تشبیہ بخوبی سمجھ گئی۔چاند یوں چھایا کہ سمندر حسین ہوگیا۔سمندر بلند ہوکر ہلکورے لے لے کر چاند کا چہرہ چوم لینا چاہتا تھا۔ہم آغوش ہونا چاہتا تھا۔یا سمندر خود ہی چاند کو گلے لگانے کے لیے اپنی جانب کھینچ رہا تھا ۔ سمندر High tide میں آچکا تھا۔لہریں بلند ہوئی جاتی تھیں۔ وہ آگے بڑھتے جار ہے تھے۔ اس بہت بڑے چاند کے نیچے وسیع پانیوں میں سمندری روح تھرک رہی تھی۔ سمندر زندہ تھا۔ سانسیں لے رہا تھا۔ عملہ بہت خوش تھا کہ واجہ کی ازلی و ابدی تنہائی دور ہوگئی ہے۔

سیمی  کے سامان میں کافی تھی ، جو آیا بنا لائی۔ سیمی اور واجہ ڈیک پر رسوں اور جالوں سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ آیا نے کافی کے ٹمبلرز تھما دیے۔ دونوں محافظ اس نے کیبن کے دروازے سے اگلے روز ہی ہٹا دیے تھے کہ عملہ کیا سمجھے گا کہ سیمی ان پہ بھروسہ نہیں کرتی۔مگروہ بدستور سیمی کے آس پاس رہتے ہر روز اسلحہ صاف کرتے نمی زیادہ تھی۔ ” واجہ تم کہتے ہو کہ مالم صدیوں سے موسم جانتے ہیں حالانکہ انگریز سے پہلے کلینڈر کیچ کے ساحلوں پر نہیں آیا تھا “

واجہ چاند رات اور سیمی کے حسن سے سلگ رہا تھا۔

” مالم اپنے نسل در نسل تجربات کو اپنی حکمت عملی اور ضرورت کے تحت استعمال کرتے چلے آئے ہیں۔ وہ نیم کے درخت کا پھول دیکھتے تو سمجھ لیتے کہ گرمی کا آغاز ہو رہا ہے۔ پھر املی اور کیکر کا پھول دیکھتے تو جان جاتے کہ گرمی ختم ہو چکا ہے۔اب گہرے سمندروں میں طوفان نہیں اٹھیں گے۔ سمندر پر سکون ہو چکا ہے۔ بڑی بڑی لہروں کا دور بھی جا چکا ہے۔ کچھ مالم ستاروں کا علم بھی جانتے ہیں انہیں نجومی کہا جاتا ہے۔ ستاروں کی حاکمیت،اثرات،موکلات سے واقف ہوا کرتے ہیں۔بس یوں سمجھو کہ نجومی ایک تعلیم یافتہ مالم ہوا کرتا ہے۔ چاند تمہیں دیکھنے بہت نیچے اترآیا ہے،کہیں سمندر میں گرکر ڈوب ہی نہ جائے “

واجہ کے اندر کا شاعر بول پڑا۔

سیمی کچھ لکھنے کی بجائے محویت سے باتیں سن رہی تھی۔ دن میں جب مچھیرے روز مرہ کے کاموں میں مصروف رہتے وہ لیپ ٹاپ میں سب کچھ محفوظ کر لیا کرتی۔ سیمی کو سمندر سے بے حد محبت بھی تھی اور کچھ کچھ خوف بھی آیا کرتا۔ خصوصاً رات کے وقت ہر چیز متلاطم ہر چیز بے رحم ایک دوسرے کو کھانے والی زندہ نگل جانے والی۔مگر وہ سوچتی کہ زمین پر بھی تو یہی کچھ ہے۔سمندر میں مندر نہیں کلیساء نہیں،یہاں مذہبی جنگیں Sacred War کہاں ہوتی ہیں۔جو بھی مخلوق ہے اپنے طور جیے جارہی ہے۔ایسا ہے کہ ہرکوئی دوسرے کی موت پر زندہ ہے،سبھی ایک دوسری کی خوراک ہیں۔خشکی پر تو سخت Dystopia ہے۔مندر،گردوارہ،مسجد، اگیاری،جہاں آھور مذدہ  کی آگ جلتی رہتی ہے۔

ناشتے کے بعد وہ بھی واجہ کو ساتھ ہی بٹھائے رہی۔

” کچھ اور بتاؤ “

واجہ کو اب وہ من موہنی سی اچھی لگنے لگی تھی۔

” تین موسموں کو مالم نوے نوے دن کے قرار دیتے ہیں۔ہمارے لیے تین موسم ہوا کرتے ہیں۔بہار،گرمی اور خزاں یہ دراصل سمندر کے موسم ہیں۔مید ان موسموں کو ہزاروں برس سے جانتے ہیں۔جڑی بوٹیوں،درختوں،پودوں،ستاروں کے حساب سے “

سیمی ٹائپ کرتی چلی گئی۔گندم بونے کے لیے ان شک بوٹی کے اگنے کا انتظار کیا جاتا ہے۔جب مے سک بوٹی نمودار ہوتو اس کا مطلب ہوتا ہے سرماء کا آغاز ہوتا ہے۔مچھیرے یکم جون سے بائیس جون تک بحرہ ہند سے دور رہتے ہیں۔ایک طوفان باران پیل ( بارہ ہاتھی ) اٹھتا ہے یہ سری لنکا،بھارت،اور خلیج بنگال کی جانب بڑھتا ہے۔مگر کبھی کبھار عمان یا بلوچستان کا رخ بھی کرتا ہے“

سیمی خوفزدہ ہوگئی۔

” کبھی طوفان آیا تو تم مجھے بچا لو گے؟ “

واجہ نے قہقہہ لگایا۔

” ہاں اپنی برساتی کی جیب میں رکھ لوں گا تم اتنی چھوٹی سی تو ہو۔مجھے خوف رہتا ہے کہ کہیں سمندری ہوائیں تمہیں اڑاکر نہ لے جائیں افریقہ کے ساحلوں کی طرف۔وزن دار جوگر پہنا کرو “

سیمی نے خفگی سے دیکھا۔

” تو کیا میں بحری جہاز کے Tower یا Mast جتنی لمبی ہو جاؤں؟“

آیا دور بیٹھی یہ نوک جھونک دیکھ رہی تھی۔سیمی کی والدہ کا انتقال ہوا تو اس نے سیمی کو سنبھالا تھا۔وہ اس گھرانے میں ایک فرد کی حیثیت سے رہتی تھی۔سیمی اس کی لاڈلی اور کائنات کا مرکز تھی۔

” برج جوزا کے طلوع اور غروب کے چند دنوں میں بحرہ ہند سے بڑی بڑی خطرناک لہریں اٹھتی ہیں جیسے اس وقت تمہاری آنکھوں سے اٹھ رہی ہیں “

واجہ اب کھلم کھلا عشق کا اظہار کررہا تھا۔

سیمی نے قہر بھری نظروں سے دیکھا۔

” واجہ! اگر میں یہی کافی کا ٹمبلر تمہارے سر پہ ماروں تو کیسی لہریں اٹھیں گی؟ “

واجہ نے سر آگے کر دیا۔

” تجربہ کرلو “

آیا نے سیمی کو آواز دی۔

” مالم تو کپتان بھی ہوا کرتا ہے۔اس کی عزت کرو “

پھر آیا جھینگے بنانے چلی گئی۔

” آگے لکھو “

واجہ نے مسکرا کے کہا۔

” مولم نامی ہوائیں پرسکون ہوتی ہیں۔مولم دھیرے دھیرے چلتی ہیں۔جیسے تم چھوٹے قدم اٹھاتی پرسکون سی ڈیک پر چلتی ہو۔بادبانی کشتیاں مولم کے سہارے ہی چلتی آئی ہیں۔مولم میں کشتیاں دور دراز کے سمندروں کا رخ کرتی ہیں۔شاید مولم تمہیں میری۔۔۔۔۔۔“

واجہ خاموش رہا وہ کہنا چاہتا تھا کہ میری زندگی میں لے آئی ہے مگر اس نے فقرہ دوبارہ سنبھالا۔

” میری کشتی میں لے آئی ہیں۔ویسے محبت کی لہر کو بھی مولم ہی کہتے ہیں “

آیا دوبارہ جھینگوں کے ساتھ ہی کافی کے بھی ٹمبلرے دوبارہ لے آئی۔وہ کافی ذرا کم ہی بھرا کرتی کہ چھلک کر پینے والے پہ ہی نہ گر پڑے۔

” کوش مدھر اور دلکش ہوائیں مشرق سے مغرب کی جانب سیدھا چلتی ہیں۔وقت مقرر نہیں۔گرما اور سرما میں چلتی ہیں “

” کافی کیسی ہے “

سیمی نے توجہ دلائی۔

واجہ اپنی سوچوں سے پلٹ آیا۔

” اچھی ہے مگر کم ہوتی ہے “

سیمی کو حیرت ہوئی۔

” زیادہ پیو گے تو نیند اڑ جائے گی “

واجہ کے اندر سے جفا کش موت سے کھیلنے والا موت کو جبیب میں ڈال کر چلنے والا بول پڑا۔

” میں تمہارے کیبن کی حفاظت میں جاگتا رہتا ہوں۔ تمہیں دوبارہ مالم کریم کی کشتی میں پہنچا کر سمندروں میں نکل جاؤں گا۔زندگی دوبارہ اکیلی رہ جائے گی مجھے عزیزوں نے پالا تھا۔میرا کوئی بھی نہیں ہے“

ماحول اچانک ہی بوجھل ہو گیا۔سیمی نے لیپ ٹاپ بند کر دیا۔

” نکلو اس جذباتی باراں پیل سے میں تمہیں ساتھ لے کر جاؤں گی کراچی “

واجہ کی اداسی ختم نہ ہو سکی۔

” نہیں! میں اپنی کشتی کا بادشاہ ہوں یہ سمندر میری سلطنت ہے، کراچی میں ایک غریب مچھیرا

بن کر زندہ نہیں رہ سکتا۔ان کروڑوں انسانوں کے جنگل میں گم ہو جاؤں گا “

سیمی تڑپ اٹھی۔

” مجھے نہیں پرواہ ، یہ امیر غریب کیا ہوتا ہے “ واجہ اب قابو سے نکل چکا تھا۔

” یہ دنیا کا سب سے بڑا مذہب سب سے بڑی قوم ہے۔ اسی دو قوم نظریے پر یہ ملک بنا تھا۔یہاں صرف دو ہی قومیں رہیں “

سیمی نے واجہ کا ہاتھ تھام لیا۔

” کیا تم مجھ پہ بھروسہ نہیں کرتے “

واجہ نے اسکی آنکھوں میں دیکھا۔ان میں سچائی تھی۔

”ہاں میں تم پر بھروسہ کرتا ہوں “

” واجہ تم نے ہی بتایا تھا کہ کوش جب طوفانی انداز کرے تو واکاہی بن جاتی ہے۔ تمہارے دل کو واکاہی نے پکڑ لیا ہے، کیسے مالم ہو؟ نکلو واکاہی سے یہ لو کافی پیو “

کافی تھماتے اس نے واجہ کے دونوں ہاتھ تھام لیئے۔واجہ اسکی یاداشت پر بہت خوش ہوا۔

” شاباش! کیا یاداشت ہے، اب تو تم مالم بن سکتی ہو “

مسکراہٹ دوبارہ واجہ کی آنکھوں میں لنگر انداز ہولی۔

سیمی نے لیپ ٹاپ دوبارہ کھولا۔

” آگے بولو “

واجہ دوبارہ بولنے لگا۔

” چیلم یہ جنوب مشرق کی سمت سے بلو چستان کے ساحلوں کو عبور کرتی چلی جاتی ہیں۔ملبار،ممبئ، کالی کٹ کی طرف سے آتی ہیں۔اسے بادلوں کا سنگت کہتے ہیں۔بادل ساتھ لیے آتی ہے،مگر یہی بادل سائیکلون پیدا کرتی ہے،ماہی گیرے اسے شاگ پروشیں چیلم ( کشتیوں کو توڑ پھوڑ کر غرق کرنے والی ) بھی کہتے ہیں۔جیسے تم میری زندگی میں چلی آئی ہو۔تم بھی میری شاگ پروشین چیلم ہو “

سیمی نے سوال کیا۔

” تم اتنی اداس باتیں کیوں سوچتے ہو “

واجہ بول اٹھا۔

” سیمی دراصل ساحل مکران پر کیچ پر قبضہ ہوچکا ہے۔گوادر میں سرمایہ دار کے بے رحم سپاہی قتل کرتے پھر رہے ہیں۔میرے باپ کو بھی مار ڈالا تھا وہ عدالت سے کیس جیت چکا تھا کہ زمین اسی کی ہے۔مگر سپاہیوں نے میرے والد سمیت ان کے کزن مارڈالے کہ ڈاکو تھے۔غیر ملکی ایجنٹ “

سیمی نے یہ باتیں سن رکھی تھیں کہ Economic Hitman انہیں نشانہ بنا رہا ہے۔سیندک کا سونا کھا چکا ہے اب ریکوڈیک کا سونا خالی کررہا ہے۔غیر قانونی ٹرالرز ساحل مکران کی مچھلیاں پکڑ پکڑ کر اربوں روپے کما رہے ہیں،صومالیہ کے بعد بلوچستان ہے جہاں Fish Pirates کی حکومت ہے،کیونکہ محافظ ہی مال پکڑ کر مچھلی چوروں کے ساتھی بنے ہوئے ہیں۔

واجہ اس کی ہمدردی سے حوصلہ پاکر دکھ بیان کرنے لگا۔

” مید اپنا جال شکار کے مطابق بناتے ہیں۔ڈیڑھ مربع انچ،دو مربع انچ،چار مربع انچ۔جبکہ غیر قانونی غیر ملکی ٹرالرز گجانیٹ اور وائرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔جس میں مچھلی کے انڈے تک پھنس کر ضایع ہوتے ہیں۔لانچیں کھلم کھلا یہ لوٹ مار اور مچھلیوں کی نسل کشی کررہی ہے۔سب سے چھوٹی مچھلی لوئر جسے بلوچی میں لوجر کہتے ہیں بہت چھوٹی ہوتی ہے۔ان کا جال الگ ہوتا ہے۔مشکا مچھلی کے جال یا سر مئی مچھلی کے جال بڑے خانوں والے ہوتے ہیں۔پمفریٹ کا جال الگ ہوتا ہے۔مگر یہ ڈاکو جو بند جال استعمال کرتے ہیں ان سے مچھلیوں کے انڈے بھی ضایع ہوجاتے ہیں “

سیمی پریشان سی سنتی رہی،سمندر دائیں بائیں لہریں مار رہا تھا۔اسے واجہ نے ہی بتایا تھا کہ گوادر میں کشتیاں بنانے کا وہ قدیم کاروبار ختم ہوچکا ہے۔اجنبی لوگ بندوقوں کی چھاؤں میں قبضہ جمائے جاتے ہیں۔مید اپنے ہی وطن اپنے ہی سمندر میں ملیچھ بن کر رہ گئے ہیں۔سیمی نے اسے ناول کا حصہ بنانے کا وعدہ بھی کیا۔

سیمی مچھیروں کی زندگی غور سے دیکھا کرتی۔ہربات کا مشاہدہ کرتی۔سوالات بھی کرتی۔جوابات کچھ تو ذہن میں محفوظ کرلیتی کچھ تلفظ وہ نوٹ بک میں لکھ لیا کرتی۔اسے بلندو ( دھیمی ہوا ) زرگوات ( تیز ہوا ) کا فرق بھی معلوم ہوگیا تھا۔زرگوات کے سہارے ہی ٹونا فش اور جھینگا ساحلوں کی جانب چلے آئے۔زرچلی جو طوفان پیدا نہیں کرسکتی۔ماہی گیروں کی دوست ہے۔بادلوں کی دشمن شما جو طوفانی کیفیت پیدا کرتی ہے۔دل میں محبت ابھارنے والی براھیگ جسے باد بہاری بھی کہتے۔بادلوں کو جوڑ کر دبیز کرنے والی گاھر جو گھنگھور بادلوں کی سیاہ چادر تان دیتی ہے۔بادلوں سے ہی طوفانی کیفیت بنتی ہے۔اور گاہ ھر وہی آندھی ہے،سرکش۔

سیمی کو یہ سمندروں کی زندگی بہت ہی اچھی لگی۔سمندر کا خوف بھی دل سے دور ہونے لگا تھا۔سمندر تو ماہی گیروں کا  ماھی باپ ہے کبھی بھوکا نہیں رہنے دیتا۔نہ ہی یہاں فٹ پاتھ ہیں،جن پہ بھوکے پڑے سوتے اور بلکتے ہوں۔کشتی کی دنیا اب اس پہ واضح ہورہی تھی۔گوادر پہ کب کا قبضہ ہوچکا تھا۔سپاہی اپنی بہار دکھارہے تھے۔ کوہ باتیل بھی مید سے چھین لیا گیا تھا۔ واجہ نے بھی بتلایا تھا کہ وہاں ایک قیمتی ہاؤسنگ اسکیم بن رہی ہے۔جس میں دنیا کے امیر ترین لوگ ہیلی کاپٹر میں تفریح کے لیے آیا کریں گے۔کوہ باتیل کے یہ عالی شان گھر خرید کر وہ ٹھاٹھ سے بہت اوپر رہیں گے۔ ان تک رسائی بھی نہ ہوگی۔

کشتی کا عملہ اب بے تکلف ہوا جاتا تھا،ثناء درد سے تڑپ رہا تھا تو سیمی نے اپنے فرسٹ ایڈ بکس سے دوائی کھلائی اس کے علاوہ مجید کے پاؤں میں چوٹ لگی وہ رسوں پہ اوندھے منہ گرا تو سیمی دوڑ کر آئی۔ وہ اتنی ننھی منی سی تھی تتلی کی جسامت کی کہ مجید کو اٹھا نہ سکی اپنی مترنم آواز میں مدد کے لیے پکارنے لگی، اس کی مدھر آواز ھیروپ ( جھاڑو لگاتی ہوا ) نے دبوچ لی،جس کے باعث وہ دوڑتی ہوئے نوجوانوں کے پاس مدد کے لیے پہنچی۔

” کیا ہوا گودی ( بہن ) “

اور پھر سبھی دوڑ پڑے تھے۔

مجید کو اٹھا کر نچلے کیبن میں تو سیمی کے گارڈز ہی لے گئے، مرہم پٹی ہوئی، دواء کھائی تو سنبھل گیا۔اگلے روز وہ لنگڑاتا ہوا سیمی کے پاس آیا۔واھر( Wahir) ( سمندر کی خاموشی ) کی سمندر پر گرفت تھی۔

” منتوار گودی تم نے کل میرا علاج کیا “

سیمی بجائے مسکرانے کے اسے غصے سے دیکھنے لگی۔

” جاؤ آرام سے لیٹ جاؤ زخم کھل جائے گا۔اور وہ گولی کھائی تم نے “

مجید نے بچوں کی طرح سر جھکا لیا۔

” یاد نہیں رہا “

سیمی نے ادھر ادھر دیکھا اور عرشے پہ پڑی ایک لکڑی اٹھالی۔

” ابھی لگاتی ہو سرپر تاکہ ایک پٹی سر پر بھی  لگانی پڑے “

مجید قہقہے لگاتا زیریں کیبن میں دوڑا،کشتی قہقہوں سے جل تھل ہوگئی۔

واجہ دروبین لگائے دورکا سمندر دیکھ رہا تھا۔وہ کسی  Gangway Watchman کی طرح کام کرتا۔اس نے Fly bridge سے یہ منظر دیکھ لیا تھا۔

واجہ صرف مسکرایا کرتا،کبھی کسی نے اسے ہنستے قہقہے لگاتے نہیں سنا تھا۔اس نے سیمی کا شکریہ ادا کیا۔

” تم نے میری کشتی میں قہقہے بکھیرے۔۔۔۔۔۔“

سیمی نے خفگی سے دیکھا۔

” تمہاری کشتی۔۔۔۔۔ “

واجہ گڑبڑا گیا۔

” نہیں ہماری کشتی۔خوشی اور قہقہے! بہت اچھا لگا۔تمہیں علم نہیں یہ جفاکش سمندروں سے مچھلیاں پکڑ کر اپنے خاندانوں کو پالتے ہیں۔ان کے گھر دیکھو تو تم توبہ توبہ کرو۔یہ جانفشانی اور یہ غربت! میرا بس چلتا تو غربت کو جال میں ڈال کر انجانے سمندروں کے کپار میں ڈال آتا “

سیمی حسب معمول حیران ہوئی۔

” یہ کپار کیا ہے “

واجہ غم بھول کر اس کی لا علمی پہ مسکرایا۔

” یہ لفظ کفار سے بنا ہے جسے ہم کپار کہتے ہیں گرمی کی وہ تپش جو کفار کا مقدر ہے،جب اچانک ہی سمندری ہوائیں تھم جائیں مکمل سکوت گرمی سے دل گھبرانے لگے اس کیفیت کو کپار کہتے ہیں “

سیمی نے حسب معمول یہ لفظ بھی ڈائری میں نوٹ کرلیا۔واجہ اسے ستایا کرتا۔

” تم اس ڈائری کی بجائے مجھے ہاتھوں میں رکھا کرو “

سیمی کہاں چپ رہتی۔

” ڈائری کو تو بیگ میں بند بھی کر لیتی ہوں تمہارے لیے چھوٹا ہوگا “

سہ پہر میں وہ جال سمیٹ کر کام بند کردیتے،مگر سبھی کے اپنے اپنے کام ہوا کرتے وہ ان میں منہمک ہوجایا کرتے۔آخر وہ اداس دن آیا جب کریم پلٹ آیا۔مواصلاتی نظام سے وہ باہم جڑے رہتے تھے۔سیمی جب کریم کی بوٹ میں منتقل ہوگئی تو سبھی اداس ہوگئے۔مگر زبان سے کچھ نہ بولے۔ناول کے لیے سیمی نے بہت کچھ نوٹ کیا تھا۔اس کا اپنا مشاہدہ بھی تھا۔نہ چاہتے ہوئے بھی واجہ سمندر میں تیرتی کشتی کو دیکھتا رہا۔جو سیمی کو لیے جارہی تھی۔رفتہ رفتہ افق کے دھندلکے میں کشتی مدغم ہوگئی۔

عملہ یوں تو واجہ کا درد جانتا تھا۔وہ یہ بھی جانتا تھا کہ واجہ سیمی کو دل دے بیٹھا تھا۔مگر انہوں نے ظاہر ہونے نہ دیا۔بلکہ اسے گپ بازی میں مصروف کرنے کی کوشش کی۔یہ بھی قسمت کا کھیل ہے کہ کریم نے پیغام دیا کہ بوٹ کا انجن فیل ہوچکا ہے،اسے Emergency Towing Vessel کی سخت ضرورت ہے۔ETV تو سرکار کے پاس ہی ہوا کرتی ہے۔رات کے اندھیرے میں کریم کی کشتی ساکت کھڑی ہواؤں اور لہروں کے دوش پہ ڈول رہی تھی۔سیمی کے لیے نیا تجربہ تھا۔واجہ سے بچھڑ کر وہ خود کو سمندر میں بہت ہی غیر محفوظ سمجھنے لگی تھی۔انجن بند ہونے اور سیاہ لہروں کے تھپیڑے کھانے سے ماحول خوفناک ہوگیا تھا۔وہ مارے خوف کے کیبن میں جا چھپی اور کانوں کو ہتھیلیوں سے بند کرلیا۔لیکن اس وقت کریم بھی دہشت زدہ ہوگیا جب مواصلاتی رابطہ پہ وارننگ ملنا شروع ہوئی کہ تمام کشتیاں ساحلوں کی جانب فوری طور پہ مڑ جائیں،کیونکہ سیاہ گوات ( کالی آندھی ) سمندر میں بلند ہوچکی ہے اور پھیلتی ہی جارہی ہے۔کریم کے ہاتھوں کے طوطے اڑگئے۔وہ طوفانی سمندر کی سرکش لہروں کے رحم و کرم پہ تھے۔کشتی کا کنٹرول دے کر وہ دوڑتا ہوا سیمی کے کیبن میں پہنچا۔

” میں تمہیں پریشان تو نہیں کرنا چاہتا فورا لائف جیکٹ پہن لو۔ہم خطرے میں ہیں “

دونوں محافظ حیران تھے کہ سیمی کو کیسے بچائیں۔سیمی نے منہ پہ ہاتھ رکھ کر چیخ روکی۔

وہ واضح طور پر کانپ رہی تھی۔

” کیا ہوگیا ہے “

اکرم نے وضاحت کی۔

” جب موسم پرسکون ہو بادل بھی نہ ہوں تو کبھی کبھار اچانک ہی سیاہ گوات ( کالی آندھی ) چلتی ہے۔اس کی رفتار ہوائی جہاز کی طرح تیز ہوتی ہے۔اس کے جھکڑ بڑے بڑے  بحری جہازوں کو ماچسوں کی طرح توڑ موڑ کر سمندروں میں غرق کردیتے ہیں۔ہم مقابلہ کرتو رہے ہیں۔آسمان پر سماک ستارہ ظاہر ہوتا ہے تو سیاہ گوات نمودار ہوتی ہے۔مگر اب۔۔۔۔۔“

اکرم خاموش ہوکر لائف جیکٹ پہنانے میں سیمی کی مدد کرنے لگا۔

” گھبرانا مت لہروں سے۔روشنی ہوتے ہی مدد بھی پہنچ جائے گی۔کوئی شارک یا آدم خور مچھلی اس سمندر میں نہیں ہے“

سیمی کے ہونٹ سفید پڑگئے۔

” کیا کشتی ڈوب جائے گی “

اکرم پرسکون رہنے کی کوشش کررہا تھا۔

” کہہ نہیں سکتا شاید ڈوب ہی جائے میرے جیتے جی تمہیں کوئی نقصان نہیں ہو گا۔میں جان پر کھیل جاؤں گا “

سیمی کے جسم میں دہشت کی سرد لہریں دوڑ رہی تھیں۔

” تم خود کیوں نہیں لائف جیکٹ پہن رہے “

اسے کریم پر ترس آنے لگا تھا۔

کریم نے کچھ نہ چھپایا۔

” ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں بچتے،جیکٹس کم ہیں۔تم چاروں نکل جانا ہماری خیر ہے! سمندر ہی ہمارا گھر ہے۔زندہ ہوں یا مردہ “

سیمی کو باپ یاد آیا۔ٹائی ٹینک کی غرقابی یاد آئی اف خدایا یہ تاریک گہرا سمندر ہمیں نگل جائے گا۔

” تم اتنے بڑے مالم ہو کچھ تو کرسکتے ہو“

سیمی کے حواس بجا نہ تھے۔

کریم نے شکست مان لی تھی۔

” بند انجن کے ساتھ کچھ نہیں کرسکتا۔ہاں اگر کوئی ETV یا Tug boat ہمیں ٹو ( Tow) کرکے لے نکلے تو بچ جائیں گے “

”مجھے مواصلاتی کیبن میں لے چلو “

سیمی چیخ اٹھی۔

اس ڈانواڈل سمندر میں کشتی تنکے کی طرح ادھر ادھر بہے جارہی تھی۔سیمی کو تھام کر کریم مواصلاتی کیبن لے گیا۔

دوسری جانب واجہ تھا۔

” فکر نہ کرو اطلاع مل چکی ہے میں تمہاری جانب بڑھ رہا ہوں۔حوصلہ کرو میں آرہا ہوں “

آواز پر اعتماد تھی۔

کریم نے مائک چھین لیا۔

” پاگل مت بنو واجہ ہمارا مقدر لکھا جاچکا ہے۔تم میرے محسن ہو آگے مت آنا ورنہ تم بھی سبھی مارے جاؤ گے،پیچھے ہٹو “

دوسری جانب واجہ تھا۔

” میرے سارے سنگت یہ دلیری کی موت قبول کرنے پر تیار ہیں۔ہم تمہیں بچائیں گے۔یا ساتھ ہی مرجائیں گے۔ہم تمہیں چھوڑ کر واپس جانے سے مرجانا بہتر سمجھتے ہیں“

سیمی نے مداخلت کی۔

” واجہ یہ مرنا مرنا مت کہو مجھے ڈر لگتا ہے “

واجہ بدستور انہیں بچانے پر مائل تھا۔

کریم چیخ اٹھا۔اور اس نے فریاد کی۔

” سنو سیمی یہ سیاہ گوات اب گردول کو راستہ دے رہی ہے۔گردول طوفانی ہواؤں کے جھکڑ ہیں جو پانچ سو کلومیٹر کی بھی زیادہ رفتار سے چلتے ہیں۔کشتیوں کو تنکوں کی طرح اچھال پھینکتے ہیں۔روک دو واجہ کو ورنہ وہ سارے بھی مارے جائیں گے “

سیمی تھر تھر کانپ رہی تھی۔

” واجہ واپس چلے جاؤ،میری قسم ہے! تم نے کہا تھا تم مجھ سے محبت کرتے ہو میرے لیے واپس چلے جاؤ“

وہ رو رہی تھی۔

” میری محبت کی قسم ہے میری جان کی قسم ہے واپس چلے جاؤ “

واجہ ان مضبوط چٹانوں سا تھا جن سے شوریدہ لہریں ٹکراتیں مگر خود ہی پاش پاش ہوکر منہ کی کھاتیں۔چیختی چلاتی پیچھے ہٹتیں۔موت دانت نکو سے سیاہ لہروں میں بلند ہورہی تھی۔

واجہ نے قہقہہ لگایا۔

” یہ سارا نظام جڑا ہوا ہے تمہاری آواز سمندر کے سارے کپتانوں نے بھی سن لی ہے۔محبت ہے تبھی تو جان کا نذرانہ دینے آرہا ہوں اب میں صرف ایک ناٹیکل مائیل دور ہوں “

سیمی کی جان میں جان آئی۔اس کے دونوں محافظ دائیں بائیں مستند کھڑے تھے۔آیا موت کو یقینی سمجھ چکی تھی وہ سورہ یاسین کی تلاوت یوں تو باآواز بلند کررہی تھی۔مگر گردول ( سائیکلون ) کے بے پناہ شور میں صرف اس کے ہونٹ کپکپاتے دکھائی دے رہے تھے۔

” مجھ سے دور نہ جانا “

سیمی نے مضبوطی سے کریم کا ہاتھ دونوں ہاتھوں سے تھام لیا۔کریم نے فولادی ہاتھ سے سیمی کا ہاتھ نرمی سے تھام لیا۔

کالی لہریں اب اتنی بلند ہو چکی تھیں کہ Stern سے ٹکراکر عرشے پہ یلغار کرتیں دائیں بائیں سیاہ پانی کی پہاڑیاں بلند ہورہی تھیں۔کشتی ہچکولے کھا رہی تھی۔دائیں بائیں جھول رہی تھی۔ان کالی سیاہ خوفناک آبی پہاڑیوں سے سمندر کا سینہ چیرتا واجہ ظاہر ہوا۔دونوں کشتیوں کے عملے نے خوشی سے  فلک شگاف نعرے بلند کیے باہم یک جا ہونے سے ان کی طاقت کئی  گناہ بڑھ چکی تھی۔وہ عملہ ٹارزن کی طرح رسوں سے جھولتا لہراتا رسوں کے سہارے بلند ہوتی لہروں کے چانٹے کھاتا Vessel Fixture کے آہنی ہک میں زنجیر پھنسانے میں کامیاب ہو گیا۔ واجہ نے Towering Gear لگایا Hook-Chain Truck  پر ان کی زندگی کا دار و مدار تھا۔ واجہ نے رخ بحرہ بلوچ کی جانب موڑ دیا وہ ڈگریوں سے گوادر کا رخ متعین کرتا چلا گیا۔ گژدانی کا کپتان واجہ تھا، سمندروں کا بیٹا جسے طوفانوں نے پالا تھا۔ وہ سمندروں کا لاڈلا تھا۔ ان کا یار تھا۔ ان کا سنگت تھا کشتی کو دائیں بائیں تیس پینتیس ڈگری سے زیادہ جھکنے نہ دیتا۔عقب میں کریم بھی اپنی مہارت اور دلیری کا ثبوت دیتا چلا آ رہا تھا۔گردول  واجہ کی دلیری دیکھ کر دم توڑ رہا تھا۔ کافی دور تک ان کا پیچھا کرتا رہا پھر ختم ہو گیا۔ سیاہ رات میں وہ سمندر کے اوپر سفر کرتے رہے۔ گوادر کی روشنیاں ٹمٹماتی سی دکھائی دینے لگیں۔

طلوع آفتاب کے قبل سمندر کے اوپر ٹیلے سے بنتے دکھائی دیئے۔ پھر وہ رفتہ رفتہ ہموار سمندر کا منظر پیش کرتے رہیں، پھر اچانک ہی پورا سمندر گلابی ہوگیا، پھر یہ گلابی سطح ٹوٹ ٹوٹ کر ٹکڑوں میں بٹنے لگی۔پھر گلابی رنگ غائب ہوکر  سمندر کا ہلکا خاکستری رنگ نکل آیا۔

ساحل پر ایک ہجوم ان کا منتظر تھا۔واجہ کو کندھوں پہ اٹھا لیا گیا۔ناشتے پہ واجہ نے سیمی سے پوچھا۔

” کیا تم ایک روز میرے ساتھ اور رہ لوگی؟ “

سیمی خاموشی سے اسے دیکھتی چلی گئی۔واجہ کے چہرے پہ تازیانہ لگا یہ سکوت بہت ہی ستمگر تھا۔پھر سیمی نے قہقہہ لگایا۔

” وہ ڈائری تو میں نے سمندر میں پھینک دی تھی۔میں زندگی بھر تمہارے ساتھ رہوں گی “


افسانہ: گردول

مصنف: آغا گل


سمندر اس کا دوست اس کا سنگت تھا۔وہ رفتہ رفتہ ایک بڑا مالم بن گیا۔وہ سمندری طوفانوں۔بدلتے موسموں بادلوں کی مختلف قسموں کا مزاج شناس تھا۔ باد و باراں کی گردشوں موسمی مچھلیوں کے سواحل پر آنے کے اوقات ، سمندر کے اندر کی چٹانوں پہاڑوں کا واقف حال تھا۔موسم کب تیور بدلے گا۔کس ستارے کی گردش کا زمانہ ہے۔ کون سے ستارے کس جانب آسمان پہ طلوع ہوں گے اور ان کے کیا اثرات سمندر پر ہوں گے وہ بخوبی جانتا تھا، گہرے سمندر کھلے سمندر میں کب جانا مناسب ہوگا وہ یہ بھید بھی جانتا تھا۔سمندر کی کس سمت میں کتنی گہرائی میں کس قسم کی مچھلیاں ہوتی ہیں وہ اس کی بھی جانکاری رکھتا تھا۔سمندر کے ساتھ ساتھ کھلی چمکدار صاف ریت پہ کھیل کود کر وہ جوان ہوا تھا۔ سمندر کی ریت بھی ایسی کہ وہ کپڑے جھاڑتا تو ریت غائب ہو جایا کرتی۔ جب پرانے تجربہ کار مالم بڑے بڑے خطرناک گردول ( سائیکلون ) کی آپس میں باتیں کرتے تو وہ بظاہر لا تعلق رہتے ہوئے بھید بھاؤ لیتا۔ ان ھی ماھی گیروں کی باتیں اس کے ذہن نشیں ہوتی رہیں۔ بادلوں کے برتاؤ ستاروں کے کردار ابتدائی دنوں میں تو اسے مبہم سے لگا کرتے ۔ مگر رفتہ رفتہ وہ راز اس کے دل پہ کھلنے لگے ہواؤں کے چلنے کے انداز ۔ بادلوں کا آنا جانا سمٹ یا برس کر بدلی کا ٹوٹ جانا۔ جب شام میں مالم الاؤ کے پاس سمندر پار سے آنے والی بوتلیں کھولتے ایک جانب مچھلی تیار ہوتی جس کی اشتہا انگیز خوشبو سمندری ہواؤں کو بھی گرد و پیش سونگھتے پھرنے پہ مجبور کر دیتیں۔ پی پلا کر وہ مالم اپنے پرکھوں کے قصے ، تجربات دہراتے۔ سمندری راز ان کے دلوں میں دفن تھے ۔پینے سے شمپین کی بوتل کی طرح " ہک " کرکے وہ راز دل سے ابلنے لگتے اور راتوں میں بہتے ہی چلے جاتے مید ( مچھیرے ) سمندری رازوں کے امین سمندر کے بیٹے ہی ہوا کرتے ہیں۔ سمندری لہریں بھی بندن ( جہاں لہریں ٹوٹ کر ختم ہوتی ہیں ) تک آ آکر باتیں سنتیں۔مید اپنی کشتیاں بندن سے لگا دیتے راتوں میں یہاں محفلیں بپا ہوتیں۔ دور دور تک الاؤ جلتے مچھلیاں تیار کی جاتیں۔ بحری جہاز تو سمندری حد کے بندن سے آگے نہ بڑھ پاتے مگر سونامی یا سائیکلون میں بندن توڑ کر سمندر آگے بڑھ بڑھ کر شوریدہ سری کرتا۔ فاتح ماہی گیر شکار اتار کر کشتیاں کھینچ کھینچ کر قندو (ساحلی پٹی) پہ لے آیا کرتے اور ایسی محفلوں  میں کود پڑتے۔کئی کئی دنوں کی تھکن پل بھر میں ہی دور ہو جایا کرتی۔ دوستوں کی گپ بازی لطیفے قہقہے اجنبی سمندروں غیر ملکوں کے قصے۔بزرگوں نے شیر دل کو بچپن سے ہی ذہن نشین کرا رکھا تھا کہ بڑا ہو کر وہ ایک مالم بنے گا۔وہ سمندر کا نبض شناس ہو گا۔ بھید بھاؤ جانتا ہوگا۔ چاروں موسموں،ہواؤں کا علم رکھتا ہوگا۔ گردول کے مزاج سمجھتا ہوگا۔کب بارش ہونے کا امکان ہوگا۔کب گرد و غبار اور بھنور پیدا ہوں گے ۔ بھنور خطرناک گرداب میں کب تبدیل ہوں گے۔ کو نسا ستارہ کب طلوع اور غائب ہوگا۔ اس کے سمندر پر کیا اثرات ہوں گے۔پور، تیر بند ، سماک، سہیل، واکا، ناکا کون سے ستارے ہیں۔ان کے مزاج کیا ہیں سمندر پر کیا اثرات ہیں ان پراسرار علوم پر عبور رکھنے والے کو ہی مید مالم کہا کرتے۔کسی گرو کی طرح اس کا احترام بھی کیا کرتے۔کسی مالم سے یہ علوم سیکھنے کے لئے نہ تو  گرو دھکشناء کی نہ ہی وہ درونا چاریہ( ارجن کا گرو) کی طرح ایکویہ کا انگوٹھا گرو دھکشناء شرط میں طلب کرتے وہ تو چاہتے کہ ان کی بات پر کان دھرا جائے عزت کی جائے۔ سمندر اور ستاروں کی طرح احترام کا یوں بھی علم سے گہرا رشتہ اٹوٹ سمبندھ ہے۔ ایسے شاگردوں کو واجہ گژدانی میں گہرے سمندروں میں لے جایا کرتا۔گژدانی وه بڑی سی کشتی جو صرف مچھلیوں کے شکار کے لیے استعمال ہوا کرتی ہے۔ ایک ڈیڑھ ماہ سمندر میں گزار سکتی ہے۔ بعض اوقات تو واجہ وطن کے آس پاس کی بندرگاہوں میں اپنی مچھلیاں نیلامی کے ذریعہ فروخت کر کے دوبارہ گہرے سمندروں میں گژدانی کو لیے پھرتا۔ اس کے آس پاس سے جدید لانچیں بھی گزرتیں۔ جو محض مچھلیاں پکڑ کے پلٹ جایا کرتیں۔ جنہیں تجربہ کار ملاح تحقیر سے سون کہا کرتے سون بھی بھلا کوئی شکار ہے کہ مچھلی پکڑی اور واپسی اختیار کی کاتا اور لے دوڑی۔

اسے ہی ایک شکار میں جب وہ دور سمندر پہ نظریں جمائے کھڑا تھا۔اس کے نوجوان شاگرد جال درست کر رہے تھے ایک سپریگ افق سے نمودار ہوئی۔ مالم بخوبی جانتے ہیں کہ سپر یگ ایک مسافر بردار کشتی ہوا کرتی ہے ، اس میں سوداگری کا سامان بھی ہوا کرتا ہے جسے بلوچستان کے ساحل سے کالی کوٹ (کالی کٹ)ممبئی۔دوسری جانب مسقط، دبئی، بحرین، کویت، عدن، زنجبار یا پھر سومالیہ لے جاتے ہیں۔

سپریک کا ناخدا دراصل واجہ کا شاگرد کریم تھا، وہ واجہ کو دیکھ کر بہت ہی خوش ہوا۔ سپریگ کو قریب ہی ہچکولے کھاتے گہرے سمندر میں روک لیا۔

ایک ڈونگی سمندر میں اتار کر واجہ کی گژدانی کے پاس پہنچے اور التجا کی کہ وہ سپریگ کو رونق بخشے۔رسے کی سیڑھی سے واجہ اتر کر ڈونگی میں بیٹھا اور رسے کی سیڑھی سے اوپر عرشے پر پہنچا۔

کپتان اور عملہ نہایت ہی پرتپاک طریقے سے پیش ہوئے۔جھینگے تیار تھے فورا ہی سجا دیے گئے۔واجہ کا استقبال کسی راجہ مہاراجہ کی طرح ہورہا تھا۔ہاتھوں ہاتھ لے رہے تھے۔ایک لڑکی جو نہایت ہی محویت سے یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔دیگر مسافروں سے نکل کر واجہ سے ملی۔اسے وہ عجیب پر اسرار سا Pirate جیسا لگا۔سبھی جس کی تعریف کیے جاتے۔واجہ اس پیکر حسین کو دیکھ کر ششدر رہ گیا۔جیسے کلمت کے ساحل پہ اچانک سورج لہروں پہ تھم جائے۔اس حسن بلا خیز کو نظر بھر دیکھنا بھی ممکن نہ تھا۔جیسے پسنی کے سمندر سے نکلی کوئی جل پری،اورماڑہ کے سمندر سے طلوع ہوتا بدر۔وہ بھی واجہ کے ساتھ سامنے بینچ پہ بیٹھ گئی۔سارا فرنیچر ہی فرش سے جڑا ہوا تھا۔درمیان کی میز بھی فرش میں  پیوست تھی۔

” واجہ میں ایک ناول لکھنا چاہتی ہوں۔جیسے کہ Herman Melville نے The Whale  لکھا پھر اس کا نام Moby Dick  رکھ دیا۔یا ہیمنگوے نے Old man and the sea لکھا۔واجہ تم نے یہ ناول پڑھے ہیں؟ “

واجہ بے تکلفی سے مسکرایا۔

” میں نے صرف سمندر ہی کو پڑھا ہے،صرف اپنا نام ہی لکھ سکتا ہوں“

حسینہ کو بہت تاسف ہوا۔

” افسوس تم نے سمندروں پہ لکھے گئے عظیم ناول نہیں پڑھے۔میں ویسا ہی ناول لکھنا چاہتی ہوں۔عالمی ادب میں اپنا نام پیدا کرنا چاہتی ہوں۔لوگ مجھے کہتے ہیں کہ تم تو سمندروں کے لیے Monomaniacal ہو،شاید سچ ہی ہو۔شائد جوزف کونارڈ کی روح میرے اندر آگئی ہے۔اسے بھی سمندروں سے عشق تھا۔وہ۔ پہلے سیلر رہا پھر کیپٹن بن گیا اس نے سمندروں پہ لکھا “

فضاء ساکت تھی،سمندر ہچکولے دے رہا تھا اور جھینگے مزیدار تھے۔واجہ بہت مسرور تھا کیسی جل پری سمندر سے نکل آئی۔کس قدر حسین!

” میرا نام تو بڑا لمبا چوڑا ہے،بس تم مجھے سیمی کہا کرو “

سیمی نے منا سا ہاتھ واجہ کے آہنی ہاتھ میں دے دیا۔

” آج سے ہم دوست ہیں۔تمہارا نام؟ “

واجہ اس بدلتی ہوئی صورتحال سے کچھ نروس سا ہوگیا تھا۔اس نے سمندر اور مچھلیاں دیکھی تھیں،روپ بدلتے بادل کو جانا تھا۔کبھی کوئی عورت اس کی زندگی میں اس قدر قریب نہ تھی کہ اس کی بے قابو زلفیں واجہ کے چہرے پہ لہریں مارنے لگیں۔واجہ نے نہائیت  ہی نرمی سے ہاتھ ملایا کہ کہیں ہاتھ ٹوٹ ہی نہ جائے۔

” میرا نام شیر دل ہے،میں بھی سیلر تھا۔لاسکری بھی رہا۔بحری جہازوں پر بھی کام کیا۔لیاری کی گلیوں میں بھی فٹ پاتھ پہ سویا۔پھر خدانے اپنی کشتی دے دی۔مجھے ویسے ہی لوگ بڑا مالم مانتے ہیں۔یہ کپتان کریم بھی میرا ہی شاگرد رہا ہے۔ورنہ میں تو عام سا مید ( مچھیرا ) ہوں “

کپتان کریم نے خلوص دل سے دانتوں کی نمائش کی وہ سیمی سے مخاطب ہوا۔

” کسی چھوٹی یا بڑی کشتی میں سمندر کا سفر کرنے سے تمہیں سمندر سمجھ نہیں آئے گا،ایک چادر لاؤ،ایک ڈبہ مٹھائی اور واجہ کو استاد پکڑو۔اس کی شاگردی کرو۔ اس کے ساتھ رہو۔سوالوں کی بارش کردو پھر سیکھ کر سمندر کو جان کر ہی ناول لکھنا“

سیمی کو بات سمجھ آگئی۔اس نے فیصلہ کرنے میں دیر نہ کی۔

” واجہ تم مجھے اپنے ساتھ رکھو گے “

واجہ پہ سونامی چڑھ دوڑی،اسکی سانسیں بے ترتیب ہونے لگیں۔

”نہیں،نہیںمیں اتنی بڑی ذمہ داری نہیں لے سکتا “

سیمی نے واجہ کے چہرے پہ Rogve Waves کا حملہ دیکھ لیا تھا۔جس سے وہ بہت محظوظ ہوئی۔

” واجہ! تم کتنے متعصب ہو Gender Distinction کرتے ہو مردوں کو تو سکھاتے ہو۔عورت سے انکار! ایسا کیوں ہے؟ “

واجہ کو بھی ندامت سی محسوس ہوئی۔

” سمندر کی سات قسم کی لہروں کو تو میں جانتا ہوں۔مگر کسی عورت کو سمجھنا مشکل ہے۔نازک سی ہوتی ہے۔سفری صعوبتیں کیسے برداشت کرے گی۔یہ شکاری کشتی ہے یہاں زندگی بہت سخت ہے “

سیمی کہاں ٹلنے والی تھی۔

” تم ہاں تو کہہ دو،میں کبھی بھی شکایت نہیں کروں گی “

کریم نے قہقہہ لگایا۔

”مان جاؤ واجہ۔اسکے ناول میں تمہارا بھی نام آئے گا۔شائد اس پر فلم بھی بن جائے“

واجہ تو ان پڑھ تھا۔ناول کے نام پہ اس نے دلچسپی نہ لی۔وہ حسین لڑکی تو Collapsing Waves کی طرح اسے لپیٹ رہی تھی۔Surging Waves کی طرح اسکے دل کو ہچکولے کھلا رہی تھی۔

واجہ اچانک Capillary Waves میں پھنس کے رہ گیا تھا۔کیوں کریم سے آمنا سامنا ہوا کسی اور سمت سے نکل جاتا۔اسے ہاں کہتے ہی بن پڑی۔تیزی سے سیمی کا سامان گژدانی میں منتقل ہوا۔سیمی کے دونوں محافظ اور ایک آیا بھی چلی آئی۔کریم نے عرشے سے خدا حافظ کہتے ہوئے مواصلاتی نظام پر آگاہ کیا کہ وہ واپسی پہ سیمی اور اس کے ملازمین کو لے کر پھر کراچی جائے گا۔کیونکہ اکرم کے بھروسے پہ ہی سیٹھ انور نے سیمی کو سمندری سفر پہ روانہ کیا تھا۔ضروری تھا کہ واپسی پر اس کی بیٹی اسکے عالی شان بنگلے میں پہنچا کر کچھ انعام بھی وصول کرتا۔کرایہ تو وہ پہلے ہی لے چکا تھا۔سیٹھ کافی دیالو تھا۔سیمی کا علم کتابی تھا۔وہ Navigation اور Seamanship کے علاوہ Sailingmaster یا Quartermaster کے بارے میں سطحی سا علم رکھتی تھی۔Cabin boy یا Boatswain اور پھر Sailer یا بادبان کھولنے والے کلاسیکی Rigger کے بارے میں ہی جانتی تھی۔اسے ہچکولے کھاتے ڈولتے ابھرتے ڈگمگاتی گژدانی کھلے سمندر میں سفر کا پہلا تجربہ ہوا۔مگر اسے واجہ پہ پورا بھروسہ تھا۔جس کے باعث وہ کھلے سمندر کو بھی کلفٹن کا Continantal Shelf والا ساحل سمجھ کر مطمئن سی سمندر کے بدلتے ہوئے چہرے دیکھا کرتی۔سمندر کا چہرہ سیاہ تھا پگھلا ہوا تھا۔یوں رنگ بدلتا چہرے بدلتا۔مزاج بدلتا کہ سیمی حیران سی رہ جاتی۔اگرچہ اتنی مکانیت تو نہ تھی۔مگر سیمی کو ایک کیبن دے دیا گیا،جس میں سیمی کا مختصر سا سفری سامان سجادیا گیا۔آیا بھی اسی کیبن کے فرش پہ آرام کرتی اور چوبی برتھ سیمی کے لیے تھی۔جب سمندر بپھرتا تو سیمی کو خطرہ رہتا کہ وہ بے توازن ہوکر آیا پر ہی جاگرے گی۔سمندر کبھی نیلا ہوتا کبھی براؤن،کبھی خاکستری کبھی کالا سیاہ۔اس کا ہر چہرہ پراسرار تھا۔واجہ اس لانچوں والے شکار سون کو ناپسند کرتا تھا کہ نصیر خان اول کی طرح کیچ پر حملہ آور ہو اور مارتا کاٹتا نکل جائے۔سمندر سے مچھلیوں کو سمیٹا اور پلٹ پڑا۔اسے گوادر،پسنی،اورماڑہ،گڈانی یا پھر کراچی کے ساحل پہ نیلام کرکے دوبارہ سمندر کا رخ کیا۔کسی بھی مالم کے لیے یوں گڑ بڑی شکار مناسب نہ تھا۔مالم تو کھلے سمندر میں جاتے تسلی سے شکار کرتے۔کشتی بھر کے پلٹتے پھر دوست احباب کے ساتھ رہتے۔کھاتے پیتے گھومتے پھرتے۔ان کی دلجوئی اور مالی امداد کرتے۔اسی لیے مید واجہ کے ساتھ ہی شکار پہ جانا پسند کرتے۔وہ ان کی پسندیدہ شخصیت ان کا رول ماڈل تھا۔کشتیوں کے اپنے اپنے نام ہوا کرتے۔القاسمی،المحودی،الیاسین،الماہد،الکراچی،البیروت،پسنجر اور کارگو سبھی کے نام ہوا کرتے ہیں۔واجہ کی گژدانی کا نام البیلوس تھا۔زمانہ قدیم میں بلوچ کا تلفظ بیلوس ( طاقت ور ) ہوا کرتا جو قدیم زبانوں ژند پا ژند کے علاوہ قدیم مصر میں بھی پایا جاتا تھا۔کیونکہ ان سمندروں کا وہ ہی بیٹا تھا۔وہی سندھ کی ململ مصر پہنچاتا جس سے ممی کو حنوط کرکے لپیٹا جاتا۔یوں تو سیٹلائٹ آسمانوں سے سمندر کو دیکھتے ہیں اور بحری جہازوں کو ایک نظام کے تحت تغیر و تبدل سے آگاہ کرتے رہتے ہیں۔مگر سٹیلائٹ سمندر کے مزاج کو کم کم سمجھتے ہیں۔جیسے ڈاکٹر بخار چڑھنے پر مریض کا علاج کرتے ہیں۔جب بخار پیدا کرنے والی لہریں بدن میں اٹھ رہی ہوں اس وقت توجہ نہیں دیتے۔یاجب پتھر بننے کا مزاج ہو وہ نہیں دیکھتے گردے میں پتھری بن ہی جائے تو پھر وہ

اسے نکالنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ جب کہ مالم تو ہزاروں برس سے  سمندروں کے اندر ہیں۔ سمندروں کے بچے ہیں۔ واجہ بھی ایک ایسا ہی مالم تھا۔ ناشتے کے بعد سیمی عرشے پہ آگئی۔ واجہ نے سر کے اشارے سے سلام کیا اور بدستور جال سمیٹھنے والے عملے کے ساتھ کام میں منہمک رہا۔پھر اچانک اسے خیال آیا کہ سیمی تو اس کی مہمان ہے۔یوں تو سیمی گڑیا سی تھی۔ لڑکیوں کی Miniature painting روسی Matryoshka Doll مگر اسے تعجب ہوا کہ واجہ نے اسے نظر بھر نہ دیکھا۔ اکثر مرد اسے دیکھ کر ٹھٹھک جایا کرتے۔اوکلو ہاما میں  تعلیم کے دوران بھی اکثر امریکی اسکی زلفوں اور سیاہ آنکھوں میں راہ بھول جائے ۔ مگر واجہ کا دل Meteor Deep سا اتھاہ گہرائیوں والا عمیق جس میں ماونٹ ایورسٹ رکھ دو تو وہ بھی ڈوب جائے۔ یا شائد واجہ کا دل سمندر کی طرح Divine language بولتا۔

   Silence is The Divine Language of God

واجہ نے سیمی کو فوری توجہ دی احتراماً کام چھوڑ دیا اسے اپنی محویت پہ ندامت تھی۔

” کیسی ہیں بانک۔ یہ ہماری غریبانہ سی کشتی ہے آپ کو وہ فرسٹ کلاس کیبن کی سہولت تو نہیں دے سکتے۔شرمندہ بھی ہوں“

سیمی اس کی انکساری پہ بہت مسرور ہوئی۔ پھل دار درخت ہمیشہ جھکے رہتے ہیں۔

” بہت اچھی کشتی ہے،کھانا بھی اچھا ملتا ہے، ایسے prawn تو میں نے زندگی میں نہیں کھائے ، اور مچھلیاں بھی کمال کی ہیں۔ بعض تو ایسی نرم کہ انہیں پکائے بغیر بھی کھایا جاسکتا ہے“

واجہ نے سمندر کی جانب توجہ دلائی۔

”وہ دیکھو بادل کی ایک ٹکڑی ہمیں پتہ ہو تا ہے کہ یہ کیا رنگ دکھائے گا ، کیا برتاؤ کرے گا “

سیمی نے بادلوں کی چاروں قسمیں گوگل میں ہی پڑھ رکھی تھیں۔جبکہ واجہ ان کا مزاج شناس تھا۔بادل اس کے سنگت تھے۔

” بات یہ ہے کہ مئی سے جولائی کے آخر تک گہرے سمندروں میں سفر کرنا موت کو دعوت دینے کے برابر ہے۔ہمارے عام مید یہ تین ماہ بہت ہی تنگی ترشی میں گزارتے ہیں،یکم اگست سے دوبارہ سمندروں میں کشتیاں اتارتے ہیں۔وہ زمانہ تنگی ترشی کا ہوتا ہے “

” واجہ تم مجھے سیمی کہا کرو۔دنیا بھر میں یہی رواج ہے۔نام بھلا کیوں رکھے جاتے ہیں “

واجہ کچھ ہچکچایا۔

” بانک کی بجائے تمہیں سیمی کہا کروں۔ تمہارا نام سیمی کیوں ہے،اسکا کیا مطلب ہے“

سیمی کھلکھلا کے ہنس دی۔ وہ اور بھی حسین ہوگئی۔

ہونٹ وا ہوئے،بصرہ کے موتی جیسے دانت چمکے پھر ان پہ گلابی لب دوبارہ آگئے۔واجہ کا دل چاہا وہ ایک بار پھر کھل جا سم سم کہے۔اور کہے تم ہنستی رہو بار بار۔جیسے سمندر پہ بار بار چاند نکل آتا ہے۔مگر اس نے خود کو سنبھالا۔سمندروں کی سنگت نے واجہ  کو صاحب برداشت پراسرار گہرا اور پرکشش بنا رکھا تھا وہ حسن کا طوفانی حملہ مردانہ وار برداشت کرگیا اور ڈھیر نہ ہوا۔

” سیمی کا مطلب ہے چاندی کی بنی ہوئی “

واجہ کچھ ہچکچایا۔کچھ کہنا چاہتا تھا مگر خاموش ہولیا۔

” بولو واجہ! میں امریکہ کی تعلیم یافتہ ہوں جہاں تعریف سے لڑکیاں خوش ہوتی ہیں “

واجہ نے ہمت کی ” تم مجھے چاند رات لگتی ہو “

سیمی پھر ہنس دی۔

میں تو تمہیں مالم سمجھتی رہی۔تم تو ایک بہت بڑے شاعر ہو “

اسی رات وہ واجہ کی شاعرانہ تشبیہ بخوبی سمجھ گئی۔چاند یوں چھایا کہ سمندر حسین ہوگیا۔سمندر بلند ہوکر ہلکورے لے لے کر چاند کا چہرہ چوم لینا چاہتا تھا۔ہم آغوش ہونا چاہتا تھا۔یا سمندر خود ہی چاند کو گلے لگانے کے لیے اپنی جانب کھینچ رہا تھا ۔ سمندر High tide میں آچکا تھا۔لہریں بلند ہوئی جاتی تھیں۔ وہ آگے بڑھتے جار ہے تھے۔ اس بہت بڑے چاند کے نیچے وسیع پانیوں میں سمندری روح تھرک رہی تھی۔ سمندر زندہ تھا۔ سانسیں لے رہا تھا۔ عملہ بہت خوش تھا کہ واجہ کی ازلی و ابدی تنہائی دور ہوگئی ہے۔

سیمی  کے سامان میں کافی تھی ، جو آیا بنا لائی۔ سیمی اور واجہ ڈیک پر رسوں اور جالوں سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ آیا نے کافی کے ٹمبلرز تھما دیے۔ دونوں محافظ اس نے کیبن کے دروازے سے اگلے روز ہی ہٹا دیے تھے کہ عملہ کیا سمجھے گا کہ سیمی ان پہ بھروسہ نہیں کرتی۔مگروہ بدستور سیمی کے آس پاس رہتے ہر روز اسلحہ صاف کرتے نمی زیادہ تھی۔ ” واجہ تم کہتے ہو کہ مالم صدیوں سے موسم جانتے ہیں حالانکہ انگریز سے پہلے کلینڈر کیچ کے ساحلوں پر نہیں آیا تھا “

واجہ چاند رات اور سیمی کے حسن سے سلگ رہا تھا۔

” مالم اپنے نسل در نسل تجربات کو اپنی حکمت عملی اور ضرورت کے تحت استعمال کرتے چلے آئے ہیں۔ وہ نیم کے درخت کا پھول دیکھتے تو سمجھ لیتے کہ گرمی کا آغاز ہو رہا ہے۔ پھر املی اور کیکر کا پھول دیکھتے تو جان جاتے کہ گرمی ختم ہو چکا ہے۔اب گہرے سمندروں میں طوفان نہیں اٹھیں گے۔ سمندر پر سکون ہو چکا ہے۔ بڑی بڑی لہروں کا دور بھی جا چکا ہے۔ کچھ مالم ستاروں کا علم بھی جانتے ہیں انہیں نجومی کہا جاتا ہے۔ ستاروں کی حاکمیت،اثرات،موکلات سے واقف ہوا کرتے ہیں۔بس یوں سمجھو کہ نجومی ایک تعلیم یافتہ مالم ہوا کرتا ہے۔ چاند تمہیں دیکھنے بہت نیچے اترآیا ہے،کہیں سمندر میں گرکر ڈوب ہی نہ جائے “

واجہ کے اندر کا شاعر بول پڑا۔

سیمی کچھ لکھنے کی بجائے محویت سے باتیں سن رہی تھی۔ دن میں جب مچھیرے روز مرہ کے کاموں میں مصروف رہتے وہ لیپ ٹاپ میں سب کچھ محفوظ کر لیا کرتی۔ سیمی کو سمندر سے بے حد محبت بھی تھی اور کچھ کچھ خوف بھی آیا کرتا۔ خصوصاً رات کے وقت ہر چیز متلاطم ہر چیز بے رحم ایک دوسرے کو کھانے والی زندہ نگل جانے والی۔مگر وہ سوچتی کہ زمین پر بھی تو یہی کچھ ہے۔سمندر میں مندر نہیں کلیساء نہیں،یہاں مذہبی جنگیں Sacred War کہاں ہوتی ہیں۔جو بھی مخلوق ہے اپنے طور جیے جارہی ہے۔ایسا ہے کہ ہرکوئی دوسرے کی موت پر زندہ ہے،سبھی ایک دوسری کی خوراک ہیں۔خشکی پر تو سخت Dystopia ہے۔مندر،گردوارہ،مسجد، اگیاری،جہاں آھور مذدہ  کی آگ جلتی رہتی ہے۔

ناشتے کے بعد وہ بھی واجہ کو ساتھ ہی بٹھائے رہی۔

” کچھ اور بتاؤ “

واجہ کو اب وہ من موہنی سی اچھی لگنے لگی تھی۔

” تین موسموں کو مالم نوے نوے دن کے قرار دیتے ہیں۔ہمارے لیے تین موسم ہوا کرتے ہیں۔بہار،گرمی اور خزاں یہ دراصل سمندر کے موسم ہیں۔مید ان موسموں کو ہزاروں برس سے جانتے ہیں۔جڑی بوٹیوں،درختوں،پودوں،ستاروں کے حساب سے “

سیمی ٹائپ کرتی چلی گئی۔گندم بونے کے لیے ان شک بوٹی کے اگنے کا انتظار کیا جاتا ہے۔جب مے سک بوٹی نمودار ہوتو اس کا مطلب ہوتا ہے سرماء کا آغاز ہوتا ہے۔مچھیرے یکم جون سے بائیس جون تک بحرہ ہند سے دور رہتے ہیں۔ایک طوفان باران پیل ( بارہ ہاتھی ) اٹھتا ہے یہ سری لنکا،بھارت،اور خلیج بنگال کی جانب بڑھتا ہے۔مگر کبھی کبھار عمان یا بلوچستان کا رخ بھی کرتا ہے“

سیمی خوفزدہ ہوگئی۔

” کبھی طوفان آیا تو تم مجھے بچا لو گے؟ “

واجہ نے قہقہہ لگایا۔

” ہاں اپنی برساتی کی جیب میں رکھ لوں گا تم اتنی چھوٹی سی تو ہو۔مجھے خوف رہتا ہے کہ کہیں سمندری ہوائیں تمہیں اڑاکر نہ لے جائیں افریقہ کے ساحلوں کی طرف۔وزن دار جوگر پہنا کرو “

سیمی نے خفگی سے دیکھا۔

” تو کیا میں بحری جہاز کے Tower یا Mast جتنی لمبی ہو جاؤں؟“

آیا دور بیٹھی یہ نوک جھونک دیکھ رہی تھی۔سیمی کی والدہ کا انتقال ہوا تو اس نے سیمی کو سنبھالا تھا۔وہ اس گھرانے میں ایک فرد کی حیثیت سے رہتی تھی۔سیمی اس کی لاڈلی اور کائنات کا مرکز تھی۔

” برج جوزا کے طلوع اور غروب کے چند دنوں میں بحرہ ہند سے بڑی بڑی خطرناک لہریں اٹھتی ہیں جیسے اس وقت تمہاری آنکھوں سے اٹھ رہی ہیں “

واجہ اب کھلم کھلا عشق کا اظہار کررہا تھا۔

سیمی نے قہر بھری نظروں سے دیکھا۔

” واجہ! اگر میں یہی کافی کا ٹمبلر تمہارے سر پہ ماروں تو کیسی لہریں اٹھیں گی؟ “

واجہ نے سر آگے کر دیا۔

” تجربہ کرلو “

آیا نے سیمی کو آواز دی۔

” مالم تو کپتان بھی ہوا کرتا ہے۔اس کی عزت کرو “

پھر آیا جھینگے بنانے چلی گئی۔

” آگے لکھو “

واجہ نے مسکرا کے کہا۔

” مولم نامی ہوائیں پرسکون ہوتی ہیں۔مولم دھیرے دھیرے چلتی ہیں۔جیسے تم چھوٹے قدم اٹھاتی پرسکون سی ڈیک پر چلتی ہو۔بادبانی کشتیاں مولم کے سہارے ہی چلتی آئی ہیں۔مولم میں کشتیاں دور دراز کے سمندروں کا رخ کرتی ہیں۔شاید مولم تمہیں میری۔۔۔۔۔۔“

واجہ خاموش رہا وہ کہنا چاہتا تھا کہ میری زندگی میں لے آئی ہے مگر اس نے فقرہ دوبارہ سنبھالا۔

” میری کشتی میں لے آئی ہیں۔ویسے محبت کی لہر کو بھی مولم ہی کہتے ہیں “

آیا دوبارہ جھینگوں کے ساتھ ہی کافی کے بھی ٹمبلرے دوبارہ لے آئی۔وہ کافی ذرا کم ہی بھرا کرتی کہ چھلک کر پینے والے پہ ہی نہ گر پڑے۔

” کوش مدھر اور دلکش ہوائیں مشرق سے مغرب کی جانب سیدھا چلتی ہیں۔وقت مقرر نہیں۔گرما اور سرما میں چلتی ہیں “

” کافی کیسی ہے “

سیمی نے توجہ دلائی۔

واجہ اپنی سوچوں سے پلٹ آیا۔

” اچھی ہے مگر کم ہوتی ہے “

سیمی کو حیرت ہوئی۔

” زیادہ پیو گے تو نیند اڑ جائے گی “

واجہ کے اندر سے جفا کش موت سے کھیلنے والا موت کو جبیب میں ڈال کر چلنے والا بول پڑا۔

” میں تمہارے کیبن کی حفاظت میں جاگتا رہتا ہوں۔ تمہیں دوبارہ مالم کریم کی کشتی میں پہنچا کر سمندروں میں نکل جاؤں گا۔زندگی دوبارہ اکیلی رہ جائے گی مجھے عزیزوں نے پالا تھا۔میرا کوئی بھی نہیں ہے“

ماحول اچانک ہی بوجھل ہو گیا۔سیمی نے لیپ ٹاپ بند کر دیا۔

” نکلو اس جذباتی باراں پیل سے میں تمہیں ساتھ لے کر جاؤں گی کراچی “

واجہ کی اداسی ختم نہ ہو سکی۔

” نہیں! میں اپنی کشتی کا بادشاہ ہوں یہ سمندر میری سلطنت ہے، کراچی میں ایک غریب مچھیرا

بن کر زندہ نہیں رہ سکتا۔ان کروڑوں انسانوں کے جنگل میں گم ہو جاؤں گا “

سیمی تڑپ اٹھی۔

” مجھے نہیں پرواہ ، یہ امیر غریب کیا ہوتا ہے “ واجہ اب قابو سے نکل چکا تھا۔

” یہ دنیا کا سب سے بڑا مذہب سب سے بڑی قوم ہے۔ اسی دو قوم نظریے پر یہ ملک بنا تھا۔یہاں صرف دو ہی قومیں رہیں “

سیمی نے واجہ کا ہاتھ تھام لیا۔

” کیا تم مجھ پہ بھروسہ نہیں کرتے “

واجہ نے اسکی آنکھوں میں دیکھا۔ان میں سچائی تھی۔

”ہاں میں تم پر بھروسہ کرتا ہوں “

” واجہ تم نے ہی بتایا تھا کہ کوش جب طوفانی انداز کرے تو واکاہی بن جاتی ہے۔ تمہارے دل کو واکاہی نے پکڑ لیا ہے، کیسے مالم ہو؟ نکلو واکاہی سے یہ لو کافی پیو “

کافی تھماتے اس نے واجہ کے دونوں ہاتھ تھام لیئے۔واجہ اسکی یاداشت پر بہت خوش ہوا۔

” شاباش! کیا یاداشت ہے، اب تو تم مالم بن سکتی ہو “

مسکراہٹ دوبارہ واجہ کی آنکھوں میں لنگر انداز ہولی۔

سیمی نے لیپ ٹاپ دوبارہ کھولا۔

” آگے بولو “

واجہ دوبارہ بولنے لگا۔

” چیلم یہ جنوب مشرق کی سمت سے بلو چستان کے ساحلوں کو عبور کرتی چلی جاتی ہیں۔ملبار،ممبئ، کالی کٹ کی طرف سے آتی ہیں۔اسے بادلوں کا سنگت کہتے ہیں۔بادل ساتھ لیے آتی ہے،مگر یہی بادل سائیکلون پیدا کرتی ہے،ماہی گیرے اسے شاگ پروشیں چیلم ( کشتیوں کو توڑ پھوڑ کر غرق کرنے والی ) بھی کہتے ہیں۔جیسے تم میری زندگی میں چلی آئی ہو۔تم بھی میری شاگ پروشین چیلم ہو “

سیمی نے سوال کیا۔

” تم اتنی اداس باتیں کیوں سوچتے ہو “

واجہ بول اٹھا۔

” سیمی دراصل ساحل مکران پر کیچ پر قبضہ ہوچکا ہے۔گوادر میں سرمایہ دار کے بے رحم سپاہی قتل کرتے پھر رہے ہیں۔میرے باپ کو بھی مار ڈالا تھا وہ عدالت سے کیس جیت چکا تھا کہ زمین اسی کی ہے۔مگر سپاہیوں نے میرے والد سمیت ان کے کزن مارڈالے کہ ڈاکو تھے۔غیر ملکی ایجنٹ “

سیمی نے یہ باتیں سن رکھی تھیں کہ Economic Hitman انہیں نشانہ بنا رہا ہے۔سیندک کا سونا کھا چکا ہے اب ریکوڈیک کا سونا خالی کررہا ہے۔غیر قانونی ٹرالرز ساحل مکران کی مچھلیاں پکڑ پکڑ کر اربوں روپے کما رہے ہیں،صومالیہ کے بعد بلوچستان ہے جہاں Fish Pirates کی حکومت ہے،کیونکہ محافظ ہی مال پکڑ کر مچھلی چوروں کے ساتھی بنے ہوئے ہیں۔

واجہ اس کی ہمدردی سے حوصلہ پاکر دکھ بیان کرنے لگا۔

” مید اپنا جال شکار کے مطابق بناتے ہیں۔ڈیڑھ مربع انچ،دو مربع انچ،چار مربع انچ۔جبکہ غیر قانونی غیر ملکی ٹرالرز گجانیٹ اور وائرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔جس میں مچھلی کے انڈے تک پھنس کر ضایع ہوتے ہیں۔لانچیں کھلم کھلا یہ لوٹ مار اور مچھلیوں کی نسل کشی کررہی ہے۔سب سے چھوٹی مچھلی لوئر جسے بلوچی میں لوجر کہتے ہیں بہت چھوٹی ہوتی ہے۔ان کا جال الگ ہوتا ہے۔مشکا مچھلی کے جال یا سر مئی مچھلی کے جال بڑے خانوں والے ہوتے ہیں۔پمفریٹ کا جال الگ ہوتا ہے۔مگر یہ ڈاکو جو بند جال استعمال کرتے ہیں ان سے مچھلیوں کے انڈے بھی ضایع ہوجاتے ہیں “

سیمی پریشان سی سنتی رہی،سمندر دائیں بائیں لہریں مار رہا تھا۔اسے واجہ نے ہی بتایا تھا کہ گوادر میں کشتیاں بنانے کا وہ قدیم کاروبار ختم ہوچکا ہے۔اجنبی لوگ بندوقوں کی چھاؤں میں قبضہ جمائے جاتے ہیں۔مید اپنے ہی وطن اپنے ہی سمندر میں ملیچھ بن کر رہ گئے ہیں۔سیمی نے اسے ناول کا حصہ بنانے کا وعدہ بھی کیا۔

سیمی مچھیروں کی زندگی غور سے دیکھا کرتی۔ہربات کا مشاہدہ کرتی۔سوالات بھی کرتی۔جوابات کچھ تو ذہن میں محفوظ کرلیتی کچھ تلفظ وہ نوٹ بک میں لکھ لیا کرتی۔اسے بلندو ( دھیمی ہوا ) زرگوات ( تیز ہوا ) کا فرق بھی معلوم ہوگیا تھا۔زرگوات کے سہارے ہی ٹونا فش اور جھینگا ساحلوں کی جانب چلے آئے۔زرچلی جو طوفان پیدا نہیں کرسکتی۔ماہی گیروں کی دوست ہے۔بادلوں کی دشمن شما جو طوفانی کیفیت پیدا کرتی ہے۔دل میں محبت ابھارنے والی براھیگ جسے باد بہاری بھی کہتے۔بادلوں کو جوڑ کر دبیز کرنے والی گاھر جو گھنگھور بادلوں کی سیاہ چادر تان دیتی ہے۔بادلوں سے ہی طوفانی کیفیت بنتی ہے۔اور گاہ ھر وہی آندھی ہے،سرکش۔

سیمی کو یہ سمندروں کی زندگی بہت ہی اچھی لگی۔سمندر کا خوف بھی دل سے دور ہونے لگا تھا۔سمندر تو ماہی گیروں کا  ماھی باپ ہے کبھی بھوکا نہیں رہنے دیتا۔نہ ہی یہاں فٹ پاتھ ہیں،جن پہ بھوکے پڑے سوتے اور بلکتے ہوں۔کشتی کی دنیا اب اس پہ واضح ہورہی تھی۔گوادر پہ کب کا قبضہ ہوچکا تھا۔سپاہی اپنی بہار دکھارہے تھے۔ کوہ باتیل بھی مید سے چھین لیا گیا تھا۔ واجہ نے بھی بتلایا تھا کہ وہاں ایک قیمتی ہاؤسنگ اسکیم بن رہی ہے۔جس میں دنیا کے امیر ترین لوگ ہیلی کاپٹر میں تفریح کے لیے آیا کریں گے۔کوہ باتیل کے یہ عالی شان گھر خرید کر وہ ٹھاٹھ سے بہت اوپر رہیں گے۔ ان تک رسائی بھی نہ ہوگی۔

کشتی کا عملہ اب بے تکلف ہوا جاتا تھا،ثناء درد سے تڑپ رہا تھا تو سیمی نے اپنے فرسٹ ایڈ بکس سے دوائی کھلائی اس کے علاوہ مجید کے پاؤں میں چوٹ لگی وہ رسوں پہ اوندھے منہ گرا تو سیمی دوڑ کر آئی۔ وہ اتنی ننھی منی سی تھی تتلی کی جسامت کی کہ مجید کو اٹھا نہ سکی اپنی مترنم آواز میں مدد کے لیے پکارنے لگی، اس کی مدھر آواز ھیروپ ( جھاڑو لگاتی ہوا ) نے دبوچ لی،جس کے باعث وہ دوڑتی ہوئے نوجوانوں کے پاس مدد کے لیے پہنچی۔

” کیا ہوا گودی ( بہن ) “

اور پھر سبھی دوڑ پڑے تھے۔

مجید کو اٹھا کر نچلے کیبن میں تو سیمی کے گارڈز ہی لے گئے، مرہم پٹی ہوئی، دواء کھائی تو سنبھل گیا۔اگلے روز وہ لنگڑاتا ہوا سیمی کے پاس آیا۔واھر( Wahir) ( سمندر کی خاموشی ) کی سمندر پر گرفت تھی۔

” منتوار گودی تم نے کل میرا علاج کیا “

سیمی بجائے مسکرانے کے اسے غصے سے دیکھنے لگی۔

” جاؤ آرام سے لیٹ جاؤ زخم کھل جائے گا۔اور وہ گولی کھائی تم نے “

مجید نے بچوں کی طرح سر جھکا لیا۔

” یاد نہیں رہا “

سیمی نے ادھر ادھر دیکھا اور عرشے پہ پڑی ایک لکڑی اٹھالی۔

” ابھی لگاتی ہو سرپر تاکہ ایک پٹی سر پر بھی  لگانی پڑے “

مجید قہقہے لگاتا زیریں کیبن میں دوڑا،کشتی قہقہوں سے جل تھل ہوگئی۔

واجہ دروبین لگائے دورکا سمندر دیکھ رہا تھا۔وہ کسی  Gangway Watchman کی طرح کام کرتا۔اس نے Fly bridge سے یہ منظر دیکھ لیا تھا۔

واجہ صرف مسکرایا کرتا،کبھی کسی نے اسے ہنستے قہقہے لگاتے نہیں سنا تھا۔اس نے سیمی کا شکریہ ادا کیا۔

” تم نے میری کشتی میں قہقہے بکھیرے۔۔۔۔۔۔“

سیمی نے خفگی سے دیکھا۔

” تمہاری کشتی۔۔۔۔۔ “

واجہ گڑبڑا گیا۔

” نہیں ہماری کشتی۔خوشی اور قہقہے! بہت اچھا لگا۔تمہیں علم نہیں یہ جفاکش سمندروں سے مچھلیاں پکڑ کر اپنے خاندانوں کو پالتے ہیں۔ان کے گھر دیکھو تو تم توبہ توبہ کرو۔یہ جانفشانی اور یہ غربت! میرا بس چلتا تو غربت کو جال میں ڈال کر انجانے سمندروں کے کپار میں ڈال آتا “

سیمی حسب معمول حیران ہوئی۔

” یہ کپار کیا ہے “

واجہ غم بھول کر اس کی لا علمی پہ مسکرایا۔

” یہ لفظ کفار سے بنا ہے جسے ہم کپار کہتے ہیں گرمی کی وہ تپش جو کفار کا مقدر ہے،جب اچانک ہی سمندری ہوائیں تھم جائیں مکمل سکوت گرمی سے دل گھبرانے لگے اس کیفیت کو کپار کہتے ہیں “

سیمی نے حسب معمول یہ لفظ بھی ڈائری میں نوٹ کرلیا۔واجہ اسے ستایا کرتا۔

” تم اس ڈائری کی بجائے مجھے ہاتھوں میں رکھا کرو “

سیمی کہاں چپ رہتی۔

” ڈائری کو تو بیگ میں بند بھی کر لیتی ہوں تمہارے لیے چھوٹا ہوگا “

سہ پہر میں وہ جال سمیٹ کر کام بند کردیتے،مگر سبھی کے اپنے اپنے کام ہوا کرتے وہ ان میں منہمک ہوجایا کرتے۔آخر وہ اداس دن آیا جب کریم پلٹ آیا۔مواصلاتی نظام سے وہ باہم جڑے رہتے تھے۔سیمی جب کریم کی بوٹ میں منتقل ہوگئی تو سبھی اداس ہوگئے۔مگر زبان سے کچھ نہ بولے۔ناول کے لیے سیمی نے بہت کچھ نوٹ کیا تھا۔اس کا اپنا مشاہدہ بھی تھا۔نہ چاہتے ہوئے بھی واجہ سمندر میں تیرتی کشتی کو دیکھتا رہا۔جو سیمی کو لیے جارہی تھی۔رفتہ رفتہ افق کے دھندلکے میں کشتی مدغم ہوگئی۔

عملہ یوں تو واجہ کا درد جانتا تھا۔وہ یہ بھی جانتا تھا کہ واجہ سیمی کو دل دے بیٹھا تھا۔مگر انہوں نے ظاہر ہونے نہ دیا۔بلکہ اسے گپ بازی میں مصروف کرنے کی کوشش کی۔یہ بھی قسمت کا کھیل ہے کہ کریم نے پیغام دیا کہ بوٹ کا انجن فیل ہوچکا ہے،اسے Emergency Towing Vessel کی سخت ضرورت ہے۔ETV تو سرکار کے پاس ہی ہوا کرتی ہے۔رات کے اندھیرے میں کریم کی کشتی ساکت کھڑی ہواؤں اور لہروں کے دوش پہ ڈول رہی تھی۔سیمی کے لیے نیا تجربہ تھا۔واجہ سے بچھڑ کر وہ خود کو سمندر میں بہت ہی غیر محفوظ سمجھنے لگی تھی۔انجن بند ہونے اور سیاہ لہروں کے تھپیڑے کھانے سے ماحول خوفناک ہوگیا تھا۔وہ مارے خوف کے کیبن میں جا چھپی اور کانوں کو ہتھیلیوں سے بند کرلیا۔لیکن اس وقت کریم بھی دہشت زدہ ہوگیا جب مواصلاتی رابطہ پہ وارننگ ملنا شروع ہوئی کہ تمام کشتیاں ساحلوں کی جانب فوری طور پہ مڑ جائیں،کیونکہ سیاہ گوات ( کالی آندھی ) سمندر میں بلند ہوچکی ہے اور پھیلتی ہی جارہی ہے۔کریم کے ہاتھوں کے طوطے اڑگئے۔وہ طوفانی سمندر کی سرکش لہروں کے رحم و کرم پہ تھے۔کشتی کا کنٹرول دے کر وہ دوڑتا ہوا سیمی کے کیبن میں پہنچا۔

” میں تمہیں پریشان تو نہیں کرنا چاہتا فورا لائف جیکٹ پہن لو۔ہم خطرے میں ہیں “

دونوں محافظ حیران تھے کہ سیمی کو کیسے بچائیں۔سیمی نے منہ پہ ہاتھ رکھ کر چیخ روکی۔

وہ واضح طور پر کانپ رہی تھی۔

” کیا ہوگیا ہے “

اکرم نے وضاحت کی۔

” جب موسم پرسکون ہو بادل بھی نہ ہوں تو کبھی کبھار اچانک ہی سیاہ گوات ( کالی آندھی ) چلتی ہے۔اس کی رفتار ہوائی جہاز کی طرح تیز ہوتی ہے۔اس کے جھکڑ بڑے بڑے  بحری جہازوں کو ماچسوں کی طرح توڑ موڑ کر سمندروں میں غرق کردیتے ہیں۔ہم مقابلہ کرتو رہے ہیں۔آسمان پر سماک ستارہ ظاہر ہوتا ہے تو سیاہ گوات نمودار ہوتی ہے۔مگر اب۔۔۔۔۔“

اکرم خاموش ہوکر لائف جیکٹ پہنانے میں سیمی کی مدد کرنے لگا۔

” گھبرانا مت لہروں سے۔روشنی ہوتے ہی مدد بھی پہنچ جائے گی۔کوئی شارک یا آدم خور مچھلی اس سمندر میں نہیں ہے“

سیمی کے ہونٹ سفید پڑگئے۔

” کیا کشتی ڈوب جائے گی “

اکرم پرسکون رہنے کی کوشش کررہا تھا۔

” کہہ نہیں سکتا شاید ڈوب ہی جائے میرے جیتے جی تمہیں کوئی نقصان نہیں ہو گا۔میں جان پر کھیل جاؤں گا “

سیمی کے جسم میں دہشت کی سرد لہریں دوڑ رہی تھیں۔

” تم خود کیوں نہیں لائف جیکٹ پہن رہے “

اسے کریم پر ترس آنے لگا تھا۔

کریم نے کچھ نہ چھپایا۔

” ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں بچتے،جیکٹس کم ہیں۔تم چاروں نکل جانا ہماری خیر ہے! سمندر ہی ہمارا گھر ہے۔زندہ ہوں یا مردہ “

سیمی کو باپ یاد آیا۔ٹائی ٹینک کی غرقابی یاد آئی اف خدایا یہ تاریک گہرا سمندر ہمیں نگل جائے گا۔

” تم اتنے بڑے مالم ہو کچھ تو کرسکتے ہو“

سیمی کے حواس بجا نہ تھے۔

کریم نے شکست مان لی تھی۔

” بند انجن کے ساتھ کچھ نہیں کرسکتا۔ہاں اگر کوئی ETV یا Tug boat ہمیں ٹو ( Tow) کرکے لے نکلے تو بچ جائیں گے “

”مجھے مواصلاتی کیبن میں لے چلو “

سیمی چیخ اٹھی۔

اس ڈانواڈل سمندر میں کشتی تنکے کی طرح ادھر ادھر بہے جارہی تھی۔سیمی کو تھام کر کریم مواصلاتی کیبن لے گیا۔

دوسری جانب واجہ تھا۔

” فکر نہ کرو اطلاع مل چکی ہے میں تمہاری جانب بڑھ رہا ہوں۔حوصلہ کرو میں آرہا ہوں “

آواز پر اعتماد تھی۔

کریم نے مائک چھین لیا۔

” پاگل مت بنو واجہ ہمارا مقدر لکھا جاچکا ہے۔تم میرے محسن ہو آگے مت آنا ورنہ تم بھی سبھی مارے جاؤ گے،پیچھے ہٹو “

دوسری جانب واجہ تھا۔

” میرے سارے سنگت یہ دلیری کی موت قبول کرنے پر تیار ہیں۔ہم تمہیں بچائیں گے۔یا ساتھ ہی مرجائیں گے۔ہم تمہیں چھوڑ کر واپس جانے سے مرجانا بہتر سمجھتے ہیں“

سیمی نے مداخلت کی۔

” واجہ یہ مرنا مرنا مت کہو مجھے ڈر لگتا ہے “

واجہ بدستور انہیں بچانے پر مائل تھا۔

کریم چیخ اٹھا۔اور اس نے فریاد کی۔

” سنو سیمی یہ سیاہ گوات اب گردول کو راستہ دے رہی ہے۔گردول طوفانی ہواؤں کے جھکڑ ہیں جو پانچ سو کلومیٹر کی بھی زیادہ رفتار سے چلتے ہیں۔کشتیوں کو تنکوں کی طرح اچھال پھینکتے ہیں۔روک دو واجہ کو ورنہ وہ سارے بھی مارے جائیں گے “

سیمی تھر تھر کانپ رہی تھی۔

” واجہ واپس چلے جاؤ،میری قسم ہے! تم نے کہا تھا تم مجھ سے محبت کرتے ہو میرے لیے واپس چلے جاؤ“

وہ رو رہی تھی۔

” میری محبت کی قسم ہے میری جان کی قسم ہے واپس چلے جاؤ “

واجہ ان مضبوط چٹانوں سا تھا جن سے شوریدہ لہریں ٹکراتیں مگر خود ہی پاش پاش ہوکر منہ کی کھاتیں۔چیختی چلاتی پیچھے ہٹتیں۔موت دانت نکو سے سیاہ لہروں میں بلند ہورہی تھی۔

واجہ نے قہقہہ لگایا۔

” یہ سارا نظام جڑا ہوا ہے تمہاری آواز سمندر کے سارے کپتانوں نے بھی سن لی ہے۔محبت ہے تبھی تو جان کا نذرانہ دینے آرہا ہوں اب میں صرف ایک ناٹیکل مائیل دور ہوں “

سیمی کی جان میں جان آئی۔اس کے دونوں محافظ دائیں بائیں مستند کھڑے تھے۔آیا موت کو یقینی سمجھ چکی تھی وہ سورہ یاسین کی تلاوت یوں تو باآواز بلند کررہی تھی۔مگر گردول ( سائیکلون ) کے بے پناہ شور میں صرف اس کے ہونٹ کپکپاتے دکھائی دے رہے تھے۔

” مجھ سے دور نہ جانا “

سیمی نے مضبوطی سے کریم کا ہاتھ دونوں ہاتھوں سے تھام لیا۔کریم نے فولادی ہاتھ سے سیمی کا ہاتھ نرمی سے تھام لیا۔

کالی لہریں اب اتنی بلند ہو چکی تھیں کہ Stern سے ٹکراکر عرشے پہ یلغار کرتیں دائیں بائیں سیاہ پانی کی پہاڑیاں بلند ہورہی تھیں۔کشتی ہچکولے کھا رہی تھی۔دائیں بائیں جھول رہی تھی۔ان کالی سیاہ خوفناک آبی پہاڑیوں سے سمندر کا سینہ چیرتا واجہ ظاہر ہوا۔دونوں کشتیوں کے عملے نے خوشی سے  فلک شگاف نعرے بلند کیے باہم یک جا ہونے سے ان کی طاقت کئی  گناہ بڑھ چکی تھی۔وہ عملہ ٹارزن کی طرح رسوں سے جھولتا لہراتا رسوں کے سہارے بلند ہوتی لہروں کے چانٹے کھاتا Vessel Fixture کے آہنی ہک میں زنجیر پھنسانے میں کامیاب ہو گیا۔ واجہ نے Towering Gear لگایا Hook-Chain Truck  پر ان کی زندگی کا دار و مدار تھا۔ واجہ نے رخ بحرہ بلوچ کی جانب موڑ دیا وہ ڈگریوں سے گوادر کا رخ متعین کرتا چلا گیا۔ گژدانی کا کپتان واجہ تھا، سمندروں کا بیٹا جسے طوفانوں نے پالا تھا۔ وہ سمندروں کا لاڈلا تھا۔ ان کا یار تھا۔ ان کا سنگت تھا کشتی کو دائیں بائیں تیس پینتیس ڈگری سے زیادہ جھکنے نہ دیتا۔عقب میں کریم بھی اپنی مہارت اور دلیری کا ثبوت دیتا چلا آ رہا تھا۔گردول  واجہ کی دلیری دیکھ کر دم توڑ رہا تھا۔ کافی دور تک ان کا پیچھا کرتا رہا پھر ختم ہو گیا۔ سیاہ رات میں وہ سمندر کے اوپر سفر کرتے رہے۔ گوادر کی روشنیاں ٹمٹماتی سی دکھائی دینے لگیں۔

طلوع آفتاب کے قبل سمندر کے اوپر ٹیلے سے بنتے دکھائی دیئے۔ پھر وہ رفتہ رفتہ ہموار سمندر کا منظر پیش کرتے رہیں، پھر اچانک ہی پورا سمندر گلابی ہوگیا، پھر یہ گلابی سطح ٹوٹ ٹوٹ کر ٹکڑوں میں بٹنے لگی۔پھر گلابی رنگ غائب ہوکر  سمندر کا ہلکا خاکستری رنگ نکل آیا۔

ساحل پر ایک ہجوم ان کا منتظر تھا۔واجہ کو کندھوں پہ اٹھا لیا گیا۔ناشتے پہ واجہ نے سیمی سے پوچھا۔

” کیا تم ایک روز میرے ساتھ اور رہ لوگی؟ “

سیمی خاموشی سے اسے دیکھتی چلی گئی۔واجہ کے چہرے پہ تازیانہ لگا یہ سکوت بہت ہی ستمگر تھا۔پھر سیمی نے قہقہہ لگایا۔

” وہ ڈائری تو میں نے سمندر میں پھینک دی تھی۔میں زندگی بھر تمہارے ساتھ رہوں گی “

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024